ہماری آواز کی فخریہ پیشکش” ای میگزین” پر ایک تجزیاتی نظر

ہماری آواز کی فخریہ پیشکش” ای میگزین” پر ایک تجزیاتی نظر




وزیر احمد مصباحی (بانکا)
رابطہ نمبر: 6394421415
سچ پوچھیں تو تحریر و قلم کے میدان میں جب بھی کسی خوش عقیدہ کا کوئی نیا نام راقم الحروف کی نظر سے گزرتا ہے تو اچانک دل میں فرحت و انبساط کی ایک عجیب و غریب سی لہر دوڑ پڑتی ہے۔ یک لخت دل سے دعا نکلتی ہے کہ مولی! تو اس لکھاری کو صاحب سیال قلم بنا دے، تا کہ دین و سنیت کا کام اعلیٰ پیمانے پر انجام پا سکے۔
جی ہاں! آج کے مطالعاتی میز پر کچھ اسی نوعیت کا ایک خوبصورت علمی گلدستہ حاضر ہے۔ زود نویس مولانا شعیب رضا فیضی گورکھپوری کی ادارت میں ہر دو ماہ پر نکلنے والی "ہماری آواز” کی اول ترین فخریہ پیشکش ” ای میگزین ” پر ہم گفتگو کریں گے۔ زیر تبصرہ”میگزین” کو اگر انتہائی قلیل مدت میں مکمل کامیابی کے ساتھ نشو نما پانے والا، خوب خوب داد و تحسین وصول کرنے والا اور ٢٥، سے زائد ممالک میں پڑھا جانے والا منفرد المثال تحریری مجموعہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ ابھی چند ماہ قبل ہی کی تو بات ہے کہ جب ” ہماری آواز” نامی ایک ویب سائٹ نے آنکھ کھولی تھی۔ مگر یہ کون جانتا تھا کہ اخلاص و وفا کے سانچے میں اس کی آبیاری اس قدر اعلیٰ نہج پر کی جائے گی کہ جلد ہی ایک خوشگوار نتیجہ کے طور پر اس کا پہلا شمارہ باصرہ نواز ہو جائے گا؟ میری نظر میں کئی ایک کامیاب ویب سائٹ ہیں،جو ملک و بیرون ملک دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں اور اس کو اس منزل تک رسائی پانے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے۔ مگر ” ہماری آواز” نامی ویب سائٹ (http://Hamariaawazurdu.com) کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے گونا گوں افادیاتی پہلؤوں کی بدولت آج کثیر لوگوں کے لئے مرکز توجہ بنی ہوئی ہے۔ چند ڈیٹاز کی مدد سے یہاں ہر صبح و شام انگنت افراد Visit کرتے ہیں اور اپنے آپ کو حالات حاضرہ کے مطابق Update کرنے کے ساتھ ساتھ مفید و گراں قدر معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قدر اعلیٰ کامیابیوں کے پیچھے انتہائی متحرک و فعال شخصیت شعیب رضا فیضی و محمد قمر انجم قادری فیضی اور ان کی پوری ٹیم کی انتھک کوششوں کا ثمرہ شامل ہے۔ کم وقتوں میں ملک و بیرون ممالک کے کثیر اہل علم و دانش سے رابطہ کرکے ان کی رضا مندی سے ایک عمدہ پلیٹ فارم بنا لینا یقیناً بڑی مغز ماری اور جگر کاوی کا کام‌ ہے۔ جب کہ موجودہ وقت میں کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو ایسے کاموں کو اس لیے بھی ذرا سا ہاتھ نہیں لگاتے کہ وہ محنت و مشقت کا طلب گار ہوتا ہے۔ یہ ہماری آواز ٹیم کی مشترکہ جد و جہد ہی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ ویبسائٹ اپنے اہداف و مقاصد کے سانچے میں مسلسل ترقیوں کے منازل کی طرف رواں دواں ہے۔
زیرنظر "ای میگزین”ہماری آواز کی طرف سے (مئی ٢٠٢٠ بمطابق/ رمضان المبارک ١٤٤١ھ) شائع ہونے والا پہلا علمی گلدستہ ہے۔یہ گلدستہ ٥٠/ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں تقریباً ٣٠/ ایسے مضمون نگاروں کی تحریریں شامل اشاعت کی گئی ہیں جو ویب سائٹ پر بکثرت پڑھی گئیں ہیں۔اس کی آرائش و زیبائش میں بھی بڑی عمدگی کا خیال رکھا گیا ہے۔چیف ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر کی ذمہ داری جہاں مذکورہ دونوں صاحبان نبھا رہے ہیں وہیں مولانا صاحب علی یار علوی چترویدی و مولانا ازہر القادری مشیر اعلیٰ کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ جب کہ مینیجنگ ایڈیٹر کی ذمہ داری محمد نثار نظامی مصباحی،محمد آصف نواز اور محمد نسیم صدیقی ادا کر رہے ہیں۔میگزن کے اوّل صفحہ پر مختلف تصویری جھلکیوں کے ساتھ چند اہم مضامین کی سرخیاں بھی مرقوم ہیں، جسے دیکھ کر قارئین کے دل و دماغ میں اول مرحلہ ہی سے مطالعے کا شوق تیز تر ہو جاتا ہے۔ میگزین کے دوسرے صفحہ پر ہی بنام ” اس شمارے میں کیا اور کہاں؟” فہرست بھی شامل کر دی گئی ہے تا کہ قارئین بغیر کسی الجھن کے اپنے پسندیدہ مضمون سے استفادہ کر سکیں۔ ابتداءً مدیر موصوف نے عنوان” خیالوں کو پروان چڑھائیں” کے تحت انتہائی اختصار و جامعیت کے ساتھ بطور اداریہ کچھ بنیادی باتیں تحریر کی ہیں۔جس میں ویب پورٹل بنانے کی وجہ،اسے تشکیل دینے میں پیش آنے والی دقتیں، مضمون نگاروں سے دوران رابطہ در پیش پریشانیوں کا تذکرہ اور ساتھ ہی "ای میگزین” کے حوالے سے مختلف آراء کے اتحاد کے خوشنما منظر کی بہترین تصویر کشی بھی شامل ہے کہ وہ سب کیسے ہم خیالی و ہم مزاجی کی ایک خوبصورت لڑی میں ضم ہو گیے۔آپ لکھتے ہیں:
” کہا جاتا ہے کہ منزل کی تلاش میں تنہا ہی نکلنا ہوتا ہے اور جب قدم منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں تو لوگ آتے جاتے ہیں اور کارواں بن جاتا ہے۔ تھوڑی بہت کامیابی ملنے کے بعد اپنے ہم مزاج ساتھیوں کو اس کی طرف متوجہ کیا تو وہ حضرات بھی جڑ گئے اور ایک مکمل ٹیم بن گئی۔ایک دن خیال آیا کہ کیوں نہ پورٹل پر شائع ہونے والے جملہ مضامین میں سے ان مضامین کو یکجا کیا جائے جنھیں قارئین نے زیادہ پسند کیا ہو اور پڑھا ہو پھر انھیں ترتیب دے کر ہر دو ماہ پر ایک میگزین کی شکل دے دی جائے، اس خیال کا اظہار ہماری آواز ٹیم سے کیا تو سبھی حضرات نے لبیک کہا”۔(ص:٢)
ص ٤ تا ٦ پر ” مدارس اسلامیہ پر منڈلاتے خطرات کے بادل”کے تحت عبدالرشید مصباحی نے ایک بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔ ملک بھر میں کورونا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کو لے کر مدارس اسلامیہ پر مستقبل قریب میں نازل ہونے والے مالی بحران سے پردہ اٹھایا ہے۔ کیوں، کیسے اور کہاں کی روشنی میں عمدہ تجویز بھی پیش کیا ہے۔ یہ مضمون یقیناً لائق مطالعہ ہے۔ صاف ستھری اور عام فہم زبان میں بڑی قیمتی اور مفید باتیں تحریر کی گئی ہیں۔ مدارس اہل سنت کو زیادہ تر نقصانات سے دوچار ہونے کے امکانات دکھائے گئے ہیں، ساتھ ہی موصوف نے یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ اس وقت جہاں ہر گاؤں و ہر گلی میں عوامی چندوں سے چلنے والے ہمارے پاس دارالعلوم ہیں تو وہیں ہمارے سرمایہ دار حضرات، اکثر خانقاہوں کے سجادگان اور مال و دولت سے لیس افراد ان چھوٹے چھوٹے مدارس کی طرف توجہ نہیں کر رہے ہیں۔
وطن عزیز میں ماضی قریب ہی میں ہوئے "پال گھر لنچگ” کے حوالے سے ص: ١٧/ پر نعیم الدین فیضی برکاتی کا ایک بہترین مضمون ہے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا سے لڑنے میں مصروف ہے بھارت میں بس ایک افواہ کے چلتے کسی بے قابو بھیڑ کا دو سادھوؤں سمیت تین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا یقیناً انتہائی شرمناک عمل ہے۔ صاحب مضمون نے اس حادثے اور اسی طرح ملک بھر میں رونما ہوئے دیگر حادثوں کی واحد وجہ حکومت کی طرف سے مجرموں کو ملنے والی "کھلی چھوٹ” قرار دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
"اگر سننے کی طاقت بچی ہو تو غور سے سنیں اور ہوش کے ناخن لیں! آج بھی بھارت کا ہر انصاف پسند باشندہ یہی کہہ رہا ہے کہ اگر ماضی میں ہوئیں لنچنگ کے معاملے میں مرکزی و ریاستی حکومت نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ہوتا اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر انھیں عبرت ناک سزائیں دلوائی ہوتیں تو آج پال گھر کا سانحہ ہرگز نہیں ہوتا”۔
ہاں! موجودہ وقت میں یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ بھارت میں ہر دن جیسے ہی گودی میڈیا کہیں مذہبی منافرت کی کوئی آگ بھڑکاتی ہے تو انصاف پسند افراد کی زبان سے فوراً یہ باتیں نکلنے لگتی ہے کہ: "نہیں ہمارا بھی کوئی میڈیا ہاؤس ہونا چاہیے تا کہ ہم عدل و انصاف کے پیامبر بن کر جھوٹ اور سچ کے درمیان خط امتیاز کھینچ سکیں”۔ جی یہ تو بڑی اچھی بات ہے،پر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب معاملہ ٹھنڈا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ انصاف کی گہار لگانے والے بھی بڑی چالاکی سے خاموشی کی چادر تان لیتے ہیں،چہ جائے کہ وہ اس سے متعلق کوئی مناسب لائحہ عمل تیار کریں۔ اس حوالے سے بھی قمر انجم قادری فیضی کا ایک مضمون شامل ہے۔ ” گودی میڈیا اور صحافت کے عصری تقاضے” کے تحت آپ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ اپنی باتیں رکھی ہے۔ اجزائے صحافت کے حوالے سے آپ رقم طراز ہیں:
"اگر صحافت کے اجزاء پر غور و فکر کرتے ہیں تو ڈیجیٹل صحافت کے چار اجزائے ترکیبی ہوتی ہیں۔انفارمیشن یعنی مواد، پیکیجنگ یعنی پیش کش، ٹیکنالوجی اور ریوینیو یعنی آمدنی۔ مگر آج کل جو خبریں ہم تک پہنچتی ہیں وہ در اصل سرکاری ایجنسیوں کے PR Products ہوتے ہیں، اصل خبریں وہ ہوتی ہیں جو عوام سے چھپائی جاتی ہیں۔ ایک صحافی کا بنیادی کام یہ ہے کہ اصل خبروں کو باہر نکال کر عوام تک پہنچائے، اس کام میں رائٹ ٹو انفارمیشن سب سے مؤثر ہتھیار ہے”۔
اس کے علاوہ اور بھی مختلف اہل علم و دانش کی قیمتی تحریریں شامل ہیں، مگر یہاں بخوف طوالت ان سب پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔ (منم معذور دارید)
ص: ٣١/ پر "بزم سخن وراں” کے تحت کئی ایک شعرا کی کاوشیں بھی مرقوم ہیں اور اس کے بعد پھر سے تحریری سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ میگزین کے آخر میں "نقارہ خدا” کے تحت مختلف قلمکاروں کی طرف سے لیے گئے تاثراتی کلمات بھی شامل ہیں۔یقینا میگزین کی ترتیب و تہذیب میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔رسالہ اول تا آخر Typing mistake جیسی بیماریوں سے منزہ ہے، اسے کئی ایک دفعہ پروف ریڈنگ کی بھٹیوں میں پکا کر تیار کیا گیا ہے۔مگر پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں،جو راقم الحروف کی نظر میں زیادہ مناسب نہیں ہیں۔مثلاً:
کالم "بزم سخن وراں” کو اگر رسالہ کے آخر میں جگہ ملتی تو زیادہ مناسب ہوتا، تا کہ تحریری سلسلہ برقرار رہ پاتا، اسی طرح مضمون نگاروں کے نام کے ساتھ ان کا رابطہ نمبر یا ای میل ایڈریس ملحق کرتے تو بہتر ہوتا کہ ضرورت پڑنے پر قاری اپنے خلجان کا دفع خود براہ راست مضمون نگار سے حاصل کر لیتا، یوں ہی ہر مضمون کے سر نامے پر اس کی سرخی نمایاں تو ہے، پر بہت ہی کم جگہ میں سمو دی گئی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ داران میگزین کے پاس ہر مضمون میں جگہ کی قلت ہے۔ ایک چیز یہ بھی قابل غور ہے کہ مختلف موضوعات پر جس طرح مضامین شامل اشاعت ہیں، اگر انھیں مناسب Category میں رکھ کر سیاسی و مذہبی جیسے خانوں وغیرہ میں Divide کر دیتے تو بہت اچھا ہوتا۔
ہاں! ان ساری چیزوں کے باوجود میرا ماننا یہ ہے کہ جب کوئی چیز پہلی مرتبہ منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے تو لا محالہ اس میں کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور در آتی ہیں۔ زیر نظر میگزین میں بھی متذکرہ بالا سقم، اپنی جگہ بنانے میں شاید اسی لیے کامیاب ہے کہ "ہماری آواز ٹیم” ابھی اس راہ کے کہنہ مشق راہی نہیں بن پائی ہے۔ انشاءاللہ،ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ شمارے میں یہ ساری چیزیں ہمیں دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔۔۔۔مگر پھر بھی مکمل اعتماد و ایقان کے ساتھ یہ قول کیا جا سکتا ہے کہ رسالہ من حیث المجموع فلاح و ظفر سے ہم کنار ہے اور اپنے قارئین کو اپنی نیک بختی پر دعوت رشک بھی دے رہا ہے۔
ہم ای میگزین اور ہماری آواز ٹیم کو تہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ ان لوگوں ہی کی انتھک کوششوں کی بنیاد پر آج سوشل میڈیائی پلیٹ فارم کے وسیع و عریض میدان میں موجود خلا کو کچھ حد تک ہی سہی، پُر محسوس کیا جا رہا ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں اور آپ کو سخت محنت و مشقت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم غیروں سے آنکھیں ملانے کے قابل ہو سکیں۔فضل الہی سے ہمیں امید قوی ہے کہ اگر آپ لوگوں کی یہ تیزگامی مسلسل اسی ڈھب سے چلتی رہی تو پھر ہمارے لیے ایک نہ ایک دن کوئی ایسی سحر ضرور نمودار ہوگی کی کہ جس کے سائے میں ہم تحریر و قلم کے میدان میں قابل استناد پلیٹ فارم بن کر ابھریں گے۔(انشاءاللہ الرحمن)

{مضمون نگار، جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبہ تحقیق کے طالب علم ہیں}

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے