تیرے خلاف نالہ مرا کار گر کہاں(غزل)

تیرے خلاف نالہ مرا کار گر کہاں(غزل)

شعیب سراج


تیرے خلاف نالہ مرا کار گر کہاں
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

اک ایک لمحہ ساتھ بتاتا تھا جو مرے
ہوتی ہے اس کی جانے مسا و سحر کہاں

منزل کو اپنی پاکے ٹھہر تم گئے مگر
ہوتا ہے ختم دیکھو یہ میرا سفر کہاں

ثابت ہوئی یہ بات ترے دور جانے سے
تو مجھ کو چاہتا تھا مگر اس قدر کہاں

حالات دیکھ کر اب اترتی ہیں پگڑیاں
کٹ جاتے تھے جو پگ کو بچانے میں سر کہاں

ہونٹوں کو ان کے کیسے کہے گا تو پنکھڑی
تشبیہ کا سراج ہے تجھ میں ہنر کہاں

شعیب سراج کی پچھلی غزل:

 

یہ مت کہو کہ بدن میں تکان باقی ہے
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے