مہاجر

مہاجر


احسان قاسمی

نوری نگر، خزانچی ہاٹ ، پورنیہ ، بہار ( انڈیا )
—-
میرا داہنا ہاتھ لرز رہا ہے.. پہلے بالکل غیر محسوس طور پر ۔۔۔۔ لیکن اب تو اس کی کپکپاہٹ جیسے میرے سارے وجود کو یخ بستہ کرتی جا رہی ہے – کیا مجھ پر فالج کا اثر ہو رہا ہے یا میرے بوڑھے ناتواں جسم کی ساری حرارت رفتہ رفتہ نامعلوم خلاؤں میں منعکس ہوتی جا رہی ہے ؟ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! محسن کا خط پاکر شاید میں بہت نروس ہو گیا ہوں. لیکن کیوں ؟ میرا چھوٹا بھائی برسوں بعد وطن واپس آ رہا ہے. مجھے تو خوش ہونا چاہئے ، لیکن اس کے برعکس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
محسن کا خط میرے رعشہ زدہ ہاتھ میں دبا کچھ یوں گویا ھے ــــ ” بھیّا ! سرکاری غلامی کا بیڑہ جسے ڈھوتے ڈھوتے میں بوڑھا ہو گیا ، آج ٹوٹ گیا – آج ارض وطن کو پلکوں سے چومنے کی شدید خواہش اور آپ کی محبّت پاش نگاہوں کے عکس خیال نے میرے اندر ایسی شورش برپا کردی ہے کہ اب ایک ایک لمحہ بوجھل لگنے لگا ہے – ایک عمر گزار لینے کے بعد اب یہ محسوس کر رہا ہوں کہ میرا ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ واقعی غلط تھا – یہ ملک ہمیں کبھی نہیں اپناۓ گا – کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی نہیں ۔۔۔۔۔ "
ہاں ! ۔۔۔۔ میں نے برسوں اپنے ہر خط میں یہی تو لکھا ہے کہ اس کا وطن چھوڑنے کا فیصلہ ایک جذباتی و ہیجانی فیصلہ تھا – اس ملک میں اسے دو وقت کی روٹیاں تو مل سکتی ہیں مگر عزّت نفس نہیں – وہ ایک مہاجر کی حیثیت سے وہاں گیا ھے اور تا حیات مہاجر ہی رہےگا اور آئندہ بھی نسل در نسل اس کی شناخت ایک مہاجر کی حیثیت ھی سے کی جاۓ گی مگر اس وقت اس پر ایک جنون ، ایک دیوانگی سوار تھی ۔۔۔۔ اس کی نگاہوں کے سامنے بستی کے مسلم افراد کو چن چن کر ہندو بلوائیوں نے مارا اورجلایا تھا – چیختی چلاتی عورتوں کی عصمت دری اور ڈرے سہمے روتے بلکتےمعصوم بچّوں کو نیزوں کی انی سے چھلنی کر دیا گیا تھا کیوں کہ پنجاب سےموصولہ خبروں کے مطابق وہاں یہی سب کچھ مسلمانوں نے بھی کیا تھا اور یہ انتقامی کارروائی تھی – خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ہمارا خاندان بچ گیا تھا اور بعد میں ہمارے باپ نے اس شہر میں مستقل قیام کے لئے ایک قطعہء اراضی خرید لیا تھا – میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بہت سمجھایا تھا کہ یہ وقتی طوفان ہے جو گزر جاۓ گا اور ہر چیز معمول پر آ جائےگی – حیات انسانی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں تو مد و جزر آ تے ہی رہتے ہیں مگر وہ نہ مانا اور باپ کے انتقال کے بعد سارے کپڑے لتّے اور ڈگریاں سمیٹ کر بہتر زندگی ، بہتر سماج کی تلاش اور خود کو لسانی اور مذہبی اعتبار سے محفوظ کر لینے کے خوابوں کے ساتھ وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر پردیش کی راہ لی – تھوڑی تگ و دو کے بعد اسے وہاں سرکاری ملازمت بھی حاصل ہو گئ – وہ خوش تھا مگر رفتہ رفتہ اس کے خطوط کا لہجہ بدلنے لگا – اب لفظوں میں خزاں کے رنگ بھی ابھرنے لگے – ہم مذہب اور ہم زباں ہو تے ہوۓ بھی وہ اس سماج میں اچھوت کی طرح تھا – مجموعی نفرت کے اظہار کے لئے اسے ایک مخصوص نام بھی دے دیا گیا تھا – بہت مجبوری سے اس نے اپنا تبادلہ ملک کے مشرقی خطّے میں کروا لیا تھا تا کہ تبدیلئ مقام و حالات سے شاید زخم ہوتی زندگی کچھ بہتر ھو مگر ابھی اس نے نئے ماحول کو ٹھیک طرح اپنی سانسوں میں سمویا بھی نہ تھا کہ سیاسی اتھل پتھل مچ گئ اور ایک دفعہ اس کی نگاہوں کے سامنے پھر وہی خونی مناظر تھے – زبان ، کلچر اور صوبائی تفریق کی بنا پر اس کے ہم مذہب بھائی ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے ، عورتوں کی عصمت کو پامال کیا جا رہا تھا اور معصوم بچّوں کو سنگینوں کی نوک پر نچایا جا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بمشکل اپنی جان بچاکر چور راستوں سے بھاگا –
ـــــ ” امیّ آپ ابو کو سمجھاتی کیوں نہیں ؟ یہ بہت ضروری ہے ۔۔۔۔ ” ریاض کی کرخت اور کھردری آواز میری سماعت پر خراش ڈالتی سی اندر اترتی محسوس ہوتی ہے – نہ جانے کیوں ان دنوں مجھے ریاض کے چہرے کے تنے عضلات ،بھنچے جبڑوں ، شعلہ بار نگاہوں سے خوف سا محسوس ہونے لگا ہے – اس کے چلنے پھرنے میں بھی ایک عجیب اضطرابی کیفیت اور چوکنّا پن ہے جیسے وہ کسی نادیدہ دشمن کے متوقع وار سے خود کو محفوظ رکھنے کی سعئ مسلسل میں مبتلا ہو – اس کی آواز میں بھی وہی تناؤ ، بےچینی اور شورش ہے – کل وہ اونچی اور کرخت آواز میں مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔۔ ‘ آپ جانتے ہیں راحت اور مسرّت نے کتنے مہینوں سے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا ؟ وہ کس قدر افسردہ اور ڈری سہمی رہتی ہیں ؟ روزانہ کہیں نہ کہیں سے نئے فسادات کی خبر آجاتی ہے – محلّے کے نوجوان زہریلے نعرے لگاتے پھرتے ہیں – نعروں کی آواز سن کر ان پر تشنجی کیفیت طاری ہو جاتی ہے – ابّوجان ! آپ خود سوچئے محلّے میں بیشتر آپ کے اسٹوڈنٹس ہیں اسی لئے کم و بیش ہم ابتک محفوظ ھیں لیکن کیا آپ کے بعد بھی ہمیں اسی عزّت اورتوقیر کے لائق سمجھا جاۓگا ؟۔۔۔ پھر راحت اور مسرّت کا کیا ھوگا ؟ امیّ جان اور گڈو کا کیا ہوگا ؟ یادو جی۔۔۔۔ "
ہاں ! یہی باتیں اس دن یادو جی بھی کہہ رہے تھے۔۔۔ تم اپنی یہ ضد چھوڑ دو – اس ملک کی آب و ہوا اب اتنی زہریلی ہو گئ ہے کہ تمہارے اونچے آدرشوں کے پھول یہاں کھل ہی نہیں سکتے – میں جانتا ھوں کہ یہ گھر تمہارے ارمانوں اور تمنّاؤں کی اینٹ سے بنا ھے اور اس کی ہر اینٹ تمہاری کاوشوں کے پسینے اور خون جگر کے گارے سے مزّین ہے – اس کی محرابوں میں انگنت یادوں کی شمعیں روشن ہیں ۔۔۔ مگر میرے بھائ ! ان معصوم جانوں کا تو کچھ خیال کرو "ــــ
آج ریاض کسی مسلم محلے میں ایک مکان دیکھ آیا ھے – میں اچھی طرح جانتا ھوں وہ محلہ اور مکان کیسا ھوگا – ایک انتہائ غلیظ اور گنجان آباد محلہ اور گندی بجبجاتی نالیوں کے کنارے بنا تنگ و تاریک گلیاروں اور پر تعفّن کوٹھریوں والا ایک کابک نما مکان جس کے باہری برآمدے میں بچھی چوکی پر میں کسی عضو معطل کی مانند پڑا دن رات کھانستا کھنکھارتا بدرو سے آتی مکھیوں کو بھگاتا رہوں گا- شاید گھر کے اندر جانے میں بھی قباحت محسوس ہو ۔۔۔۔۔ اور ایک ٹمٹماتی شام جب پڑوسیوں سے پتہ پوچھتا پوچھتا یکایک محسن میرے روبرو آ کھڑا ہوگا تو میں اس سے کیا کہوں گا ؟ کیا میں اس سے یہ کہہ سکوں گا کہ محسن میرے بھائ ! تم نے تو صرف ایک بٹوارہ دیکھا تھا لیکن آج اس ملک کے ہر شہر ، قصبہ اور گاؤں میں لاکھوں کڑوڑوں پناہ گزیں کیمپ آباد ہیں جہاں ہم ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائ ، اونچی ذات ، نیچی ذات ، پچھڑی ذات ۔۔۔ قبائلی ، آسامی ،پنجابی ،کشمیری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے سب اپنی مرضی ، اپنے آدرشوں اور اپنے خوابوں کے بر عکس مہاجر بن کر رہنے پر مجبور ہیں – مہاجر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف مہاجر !
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: یہ افسانہ پہلی بار ماہنامہ ‘ شاعر ‘ ممبئ 1992 ء میں شائع ہوا تھا.

احسان قاسمی کا پچھلا افسانہ:

ایک خط، ہزار داستان
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے