خطاب بہ اولیائے طلبہ

خطاب بہ اولیائے طلبہ

خان حسنین عاقب

مکرمی!
اللہ آپ کے شعور کو یوں ہی سالم رکھے، آمین۔
آپ کی تکریم مجھ پر واجب ہے اس لیے میں بے حد احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہورہا ہوں۔ تعلیم اور تعلم کے عمل میں عموماً آپ کا کِر دار پسِ پردہ ہی رہتا ہے۔ لیکن میں ہی نہیں بلکہ تمام ملت جانتی ہے کہ آپ کا وجود اگر نہ ہوتا تو تعلیم کون حاصل کرتا اور جو تعلیم حاصل کرنا چاہتا اسے تعلیم کون دلواتا؟ اس لیے بھی میرے تخاطب میں ادب کا اور لحاظ کا پہلو نمایاں ہے۔
میں یہ سوچ کر جذبۂ احسان مندی سے حد درجہ مغلوب ہوں کہ آپ اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے کا فیصلہ کر تے ہیں۔اسے اسکول اور علم کی دنیا سے متعارف کر وانے کا نظم کرتے ہیں۔ اُسے جہالت کی تاریک راہوں میں بھٹکتے رہنے کے اندیشوں سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔ ایسا کر کے آپ معاشرہ کو تعلیم یافتہ افراد فراہم کرتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لائق و فائق اور قابل شہری دیتے ہیں، جو ملک کی خوش حالی و ترقی اور وطن کی سر فرازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور آپ یہ سب اس قیمت پر کرتے ہیں کہ خود محنت و مشقت کر تے ہیں، تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ لیکن اپنی اولاد کو پڑھانے میں سُستی نہیں برتتے۔ اس ضمن میں، میں آپ کے سامنے اپنے والد کی مثال دیتا ہوں۔ گو کہ میرا خاندان ادبی، علمی اور سیاسی پس منظر کا حامل ہے لیکن میرے والد صاحب کی رسمی تعلیم محض درجہ چہارم تک تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی اس محرومی کا ازالہ اردو، ہندی اور عربی کے ذاتی مطالعہ اور ان زبانوں پر عبور حاصل کر کے کِیا۔ جب میری اپنی تعلیم کی بات آئی توحالات کے نا گفتہ بہ ہونے کی پرواہ نہ کر تے ہوئے انھوں نے مجھے نہ صرف بنیادی تعلیم دلوائی بلکہ اس حد تک اہتمام کیا اور خود اپنی نگرانی میں میری ایسی سخت اور منضبط تربیت کی کہ مجھے آج بھی کرکٹ کے علاوہ کوئی کھیل نہیں آتا اور کر کٹ بھی میں نے لڑکپن یا نو عمری میں سیکھی۔ مجھے تعلیم یافتہ بنانے کے ان کے مشن اور committment کا یہ عالم تھا کہ چار یا پانچ برس کی عمر میں جب میں ’الف، بے‘ لکھنا سیکھ رہا تھا، اُس وقت اگر میں الف سیدھا نہ بنا پاتا یا سین یا ص کے شوشے گول اور خوبصورت نہ بنتے تو پتھر کی سیاہ تختی، سلیٹ، میرے سر پر ٹوٹتی اور اس کی لکڑی کا فریم میرے گلے کا ہار بن جاتا۔ ان کا یہ طریقۂ تعلیم ہوسکتا ہے آج غلط ٹھہرایا جائے، لیکن حسنین عاقبؔ آج جو کچھ بھی ہے، شائد اس کی بنیاد میں ایک بڑی اور اہم وجہ یہ بھی ہے۔ میں ایسا کہہ کر اس طریقہ کی تبلیغ نہیں کر رہا ہوں لیکن اس کی اہمیت سے انکار بھی تو نہیں کیا جاسکتا، بہ شرط یہ کہ یہ طریقہ والدین اختیار کریں نہ کہ اساتذہ!
قصہ کوتاہ!
آپ کی دور اندیشی کی وجہ سے ملت کی تعلیمی زبوں حالی کا تدارک ہوتا ہے۔ لیکن کچھ والدین مجھے اپنے اطراف ایسے بھی دکھائی دیتے ہیں جنھیں اولاد کی تعلیم سے زیادہ دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی اکثریت یا تو نیم تعلیم یافتہ یا پھر غیر تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ ابتدا میں تو وہ اپنی اولاد کو اسکول میں داخل کروادیتے ہیں لیکن معاشی ضروریات سے متاثر ہوکر کہتے ہیں ”پڑھ لکھ کر کیا یہ کلکٹر بن جائے گا؟ اگر یہ پڑھے گا تو گھر کون سنبھالے گا؟“
یوں ملت کے ذہین بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد والدین کے اس غیر منطقی رویہ کی وجہ سے کوری رہ جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر والدین اپنے بچے کو اپنی دکان سونپنا چاہتے ہیں یا اس قسم کا کو ئی منصونہ اپنے بچے کے مستقبل کے بارے میں رکھتے ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک غیر تعلیم یافتہ دکان دار سے تعلیم یافتہ دکان دار زیادہ ترقی کر ے گا۔ اگر اسے تاجر بننا ہے تو ایک غیر تعلیم یافتہ تاجر سے ایک تعلیم یافتہ تاجر زیادہ آگے بڑھے گا۔ لیکن فکر و نظر کا انداز بدلنا ضروری ہے۔ ایسے والدین یہ کیوں سوچتے ہیں کہ تعلیم حاصل نہ کرکے یا تعلیم ادھوری چھوڑ کر ان کی اولاد کیا اکبرِ اعظم بن جائے گی؟ جس نے غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ہندستان پر نصف صدی تک حکومت کی۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ تاریخ کے عظیم کرداروں کی تعلیم کی کمی ان کی تربیت پوری کر دیتی ہے۔
خیر! یہ سب جانے دیجئے۔ مجھے شکوہ ان والدین اور سر پرستوں سے ہے جو میری یہ تحریر پڑھ سکتے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے میں کوئی کمی یا کسر نہیں چھوڑتے۔ یعنی آپ! میرے محترم، آپ!
آپ کی ہونہار اولاد اسکول میں پڑھ رہی ہے، تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ درست اور بالکل سہی! لیکن آپ نے یہ کیا کِیا کہ اپنی اولاد، اپنی جان سے زیادہ عزیز متاع کو اسکول کے حوالے کر دیا؟ یعنی اب آپ اِس جانب سے با لکلیہ فارغ ہوگئے! اب اسکول جانے اور آپ کی اولادجانے! آپ کو اس سے کوئی علاقہ نہیں رہا، آپ کی اولاد اسکول میں کیا تیر مار رہی ہے، آپ کو پتا نہیں ہو تا۔ آپ کا بچہ یا بچی اسکول میں کیا گُل کھلا تے ہیں، آپ کو علم نہیں ہوتا! اور اگر کچھ زیادہ ہی بُرا بھلا ہوجائے تو آپ اسکول اور معلم کو ذمہ دار ٹھہرانے سے ذرا نہیں چوکتے! ہم نے وہ دوَر بھی دیکھا ہے جب سرکاری اسکولوں کا معیارِ تعلیم سلامت تھا۔ خود میرے کئی ہم جماعتوں کے گھر سے ان کا کوئی نہ کوئی بزرگ رشتہ دار روزانہ اسکول کی چھٹی تک اسکول کے احاطے میں موجود رہتا تھا تاکہ ان کا بچہ یا بچی اسکول میں بنے رہیں۔ ان کا دِل لگا رہے اور وہ اسکول کا عادی ہوجائے۔ لیکن یہ معاملہ صرف ابتدائی دِنوں تک رہتا ہے۔ جیسے ہی بچہ شعور سنبھالتا ہے، سر پرست اس کی تعلیم کے عمل سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے کافور ہوا میں ملتے ہی غائب ہوجاتا ہے۔ اپنی اِس بے خَبَری کو نہ جانے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
تمثیلاً ہم ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم اپنے ایک قرابت دار کے گھر گئے۔ دورانِ گفتگو ہم نے پوچھا، ”آپ کے صاحب زادے کِس جماعت میں زیرِتعلیم ہیں؟“
انھوں نے کہا، ”چھٹی جماعت میں۔“ پھر تھوڑے تذبذب سے بو لے، ’نہیں، شائد وہ ساتویں میں ہے۔ ایک منٹ،‘ ۔۔۔۔۔۔ کہہ کر انھوں نے باورچی خانے میں آواز لگائی۔ ’کیوں وو، سُن ری کیا؟ اپنا ساجد کتنی میں ہے؟‘ ان کی بیگم ان سے زیادہ ذہین تھیں۔ اندر سے بولیں۔ ’ اجی، دو سال پہلے وہ پانچویں میں تھا جب اپنا جاوید پیدا ہوا تھا۔ اب جاوید دو سال کا ہورا۔ اس حساب سے ساجد اب ساتویں میں گیا نا؟ تم بھی کتنے بھلکڑ ہو گئے جی!‘ یہ آخری جملہ انھوں نے بہت پیار سے ادا کِیا جسے سُن کر ہمارے قرابت دار نہ جانے کیوں شر ما گئے۔
اب آپ بتا ئیے، اس صورتِ حال کو کیا کہیں گے؟ بِلا اِرادہ ہمیں غالب یاد آرہے ہیں جو کہہ گئے ہیں کہ ؎
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اپنے نونہال یا اپنی لاڈلی کو محض اسکول کے بھروسے چھوڑ دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ایسا کر کے آپ اُس کا وقت اور زندگی، دونوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ آپ کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ بچہ اسکول میں کیا پڑھ رہا ہے۔ آیا کچھ پڑھ بھی رہا ہے یا صرف اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول محض up-down ہی کر رہا ہے؟ ایک دفعہ ہم نے بہ حیثیتِ جماعت مدرس، ایک سر پرست کو ملاقات کے لیے بلوایا۔ پہلے تو ہم ان کے بچے کے بیگ میں دعوت نامہ لکھ لکھ کر بھیجتے رہے۔ لیکن انھیں نہ آنا تھا، نہ آ ئے۔ پھر اپنے چپراسی کے ذریعے انھیں بلاوا بھیجتے رہے۔ اب یہ کوئی عدالتی بُلاوا summon تو تھا نہیں کہ وہ فوراً آجاتے۔ بہر کیف! ہماری دو مہینوں کی انتھک کوششوں اور دعوتوں کے بعد وہ اسکول تشریف لائے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد بولے۔ ’ماسٹر صاحب! ذرا جلدی بات کر لیجئے، مجھے جانا ہے۔‘ ہم نے کہا ’صا حب، آپ کا بچہ ہفتے میں بہ مشکل ایک یا دو روز اسکول آتا ہے۔ ذرا خیال رکھئے، اگر وہ اس طرح اسکول سے غائب رہے گا تو اس میں نقصان اُسی کا ہے۔ اُسے روز اسکول بھیجا کیجئے۔“ یہ سُنتے ہی موصوف ایک دم غصے میں آگئے۔ بولے، ’اجی حضرت! شائد آپ خود اسکول کم کم ہی آتے ہیں۔ میرا بچہ تو روز میرے ساتھ ہی اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ کم ازکم اس معصوم پر ایسا الزام تو نہ لگائیے۔“ بات بڑھ گئی۔ نتیجتاً بچے کے دیگر ہم جماعتوں سے اس امر سے متعلق تفتیش و تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ ان کا یہ ’معصوم‘، ان کا ہونہار، ان کے بڑھاپے کی لاٹھی، ایک ایسی لاٹھی تھی جو سانپ تو نہیں مارتی تھی البتہ لکیر ضرور پیٹتی تھی۔ وہ یوں کہ بچہ روز پاکٹ منی لے کر گھر سے نکلتا ضرور تھا۔ لیکن اسکول آنے کے بجائے سنیما ہال میں دو شوز دیکھتا، گول گپے کھاتا اور اسکول کا وقت ختم ہوتے ہی مسٹر ’معصوم‘ بن کر سیدھے گھر پہنچتا اور دروازے میں قدم رکھتے ہی تمام گھر والوں کو فوجی ’سیلوٹ‘ کے انداز میں ایک زور دار ’اسلام علیکم‘ ٹھونکتا۔ سب خوش کہ واہ! اسکول میں بیٹے کی کیا اچھی تعلیم ہو رہی ہے۔ اور تربیت اس سے بھی بڑھ کر! انھیں کیا پتا تھا کہ یہ ’معصوم‘ بچہ اسکول جاتا ہی نہیں ہے تو تعلیم کیا خاک ہوگی؟
میرے محترم! یہ ذمہ داری تو آپ کی ہے کہ اپنے لختِ جگر کی اسکولی کار کردگی کا follow up کر تے رہیں۔ اسکول والوں کی اپنی حدیں مقرر ہیں۔ اسکول والوں کے لیے محض ایک طالبِ علم، آپ کا اپنا خون ہے، آپ کی اولاد ہے۔ اس لیے جو محبت اور اپنائیت اور اس کی فلاح و بہبود کا خیال آپ کریں گے، وہ معلم یا اسکول سے متوقع ہوہی نہیں سکتا۔ اور یہ فطری بات بھی ہے۔ اس لیے اس کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونا آپ کی نہ صرف ذمہ داری ہے بلکہ فرضِ عین بھی ہے۔ اسلام نے بھی کہہ دیا ہے ’علم حاصل کر نا ہر مرد و زن پر فرض ہے۔‘ اس فرض کو اپنی اولاد کے لیے ”قرض“ مت بنائیے۔ پڑھنے لکھنے، کچھ سیکھنے اور کچھ بننے میں اس کی مدد کیجیے۔ اپنی اولاد کی تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھیے۔ ان کا بیگ چیک کیجیے۔ کتاب، کاپی، قلم وغیرہ کی کمی نہ ہونے دیجیے۔ آپ کے ایک سگریٹ یا پان کی قیمت میں ایک قلم مل جاتا ہے۔اُسے صفائی کی عادت ڈالیے۔ اُسے اسکول کے اوقات کا پابند بنائیے۔ یہی بات جب ہم نے ایک سرپرست سے کہی تو انھوں نے کیا خوب جواب دِیا، ملاحظہ کیجئے۔ کہا۔
”ماسٹر صاحب! ہم سے تو نماز کی پابندی بھی نہیں ہوتی، پھر آپ کے اسکول کی پابندی کیا خاک ہوگی؟ جانے دیجیے نا! بچہ اگر ایک آدھ پیریڈ miss بھی کر لے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ cover کر لے گا۔ آپ ہیں نا!“ گویا ہم الہ دین کے جِن ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں بچوں کے اس غیر مرئی اور uncoverable نقصان کو cover کر لیں گے۔
میرے کر م فرما! میرا مشورہ بہت سیدھا سادا ہے۔ آپ اپنی اولاد کی تعلیمی کار کردگی سے لا علم نہ رہیں۔ اس کے اسکول اور اس کے اساتذہ کے رابطے میں رہیں۔ اس کے اسکول، آتے جاتے رہیں تاکہ آپ کی اولاد کے دِل میں یہ احساس جا گزیں رہے کہ ’والد صاحب یا سر پرست آتے رہتے ہیں، اگر میں نے اچھی کار کردگی انجام نہ دی تو انھیں معلوم ہوجائے گا۔‘ یہی احساس آپ کی اولاد کو مثبت فکر پر راغب کرے گا۔ اس کے اساتذہ سے پوچھتے رہیے کہ وہ کِس مضمون میں کتنا ہوشیار اور کِس مضمون میں کتنا کمزور ہے۔ اساتذہ پر محض الزام نہ رکھیں کہ وہی ہماری اولاد کی نا اہلی کے ذمہ دار ہیں۔
ایک مرتبہ نویں جماعت کے ایک طالبِ علم کے سرپرست غیض و غضب کے عالم میں ہمارے اسکول تشریف لائے۔ آتے ہی چلاکر بولے۔ ”سارے ماسٹر حرام کی کھاتے ہیں۔ اسکول میں صرف کُرسیاں توڑنے کے لیے آتے ہیں۔ سوائے چغلی، غیبت اور وقت گزاری کے انھیں دوسرا کوئی کام نہیں آتا۔ نااہل، نکمے، ہڈ حرام کہیں کے“۔ انھیں سمجھا بجھا کر پانی پِلایا گیا۔ غصہ ذرا کم ہوا، تو ماجرا پوچھا گیا۔ پتا چلا کہ صاحب زادے نویں جماعت میں فیل ہو گئے ہیں۔ اس لیے والد صاحب دیوار کا امیتابھ بچن بنے ہوئے ہیں۔ انھیں بچے کے پرچے دِکھائے گئے۔ جس میں اُس ہونہار بَروا، نے اپنی مکوڑوں کی چال جیسی تحریر میں کہیں دس غلطیوں والا ایک جملہ ہجوں کے ساتھ لکھا تھا تو کہیں محض ایک آدھ تصویر اُتار کر رکھ دی تھی کہ ممتحن کو جو سمجھنا ہو، جو جواب اخذ کرنا ہو، وہ اِسی مجرد تصویر کی مدد سے کر لے اور اپنی فہم کے مطابق اچھے سے اچھے نمبرات دے دے۔ اب سوال یہ ہے کہ سر پرست موصوف اساتذہ کی نااہلی کے قصیدے پڑھنے کے لیے اپنے بچے کے نویں میں پہنچنے کا انتظار کیوں کرتے رہے؟ جب ان کا بچہ آٹھ برسوں تک مسلسل پاس ہوتا رہا تو ان کے کان کیوں نہ کھڑے ہوئے کہ بچہ اتنا لائق تو ہے نہیں پھر وہ پاس کیوں ہو رہا ہے۔ اگر یہی کام وہ ابتدا میں کر لیتے اور یوں ہی اسکول آ کر اساتذہ کا احتساب کر تے رہتے تو ان کے بچے کا انجام بالخیر ہوتا۔ وہ نویں جماعت میں تو کیا، زندگی کی کسی بھی جماعت میں کبھی بھی ناکام نہ ہوتا۔
ہم نے اپنی تدریسی زندگی میں ایسے سر پرست بھی دیکھے ہیں جو آج چراغ ہی نہیں بلکہ ہزار واٹ کا ہلوجن بلب لگا کر ڈھونڈ نے سے بھی کم کم ہی ملیں گے۔ ایک بچے کے سرپرست اس کے اسکول پہنچے اور شکایت کی کہ ان کے بچے کو کامن ٹیسٹ میں تین مضامین میں کم نمبرات حاصل ہوئے ہیں۔ یہ صا حب اپنے بچے کی تعلیمی کار کردگی جاننے کے لیے اسکول آتے رہتے تھے۔ انھیں پرچے دکھائے گئے۔ غلطی ممتحن کی نہیں بلکہ بچے کی نکلی۔ انھوں نے اُسی وقت اسکول کے احاطے میں تمام اساتذہ اور دیگر طلباء کے سامنے اپنے بچے کی ایسی پٹائی کی کہ صدر مدرس صاحب کو بیچ بچاؤ کرنا پڑا۔ حالانکہ ان صاحب کی یہ حر کت مناسب نہیں تھی۔ وہ اپنے بچے کو گھر لے جاکر سمجھا بجھا سکتے تھے۔ لیکن یہ واقعہ اپنے بچے کی تعلیم سے متعلق ان کی فکرمندی اور سروکار کی عکاسی کر تا ہے۔
مکرمی! ان واقعات کے ذریعے میں آپ پر لعن طعن نہیں کر رہا ہوں بلکہ آپ کو مشورہ دینا مقصود ہے کہ اپنی اولاد کو اگر اسکول بھیجیں تو ساتھ ہی روزانہ کم از کم دس منٹ کا وقفہ اس کا ہوم ورک چیک کر نے کے لیے فارغ کریں۔ اپنے دوستوں، رشتہ داروں یا اپنی چند غیر ضروری مصروفیات میں سے کچھ وقت اپنے بچے کے لیے نکالیں۔ دیکھیں کہ دِن بھر معلم نے آپ کے بچے کو کیا پڑھایا ہے۔ کیا میں آپ کو اس سے بھی زیادہ کار آمد بات نہ بتادوں؟ معلم نے کیا پڑھایا ہے، اس سے زیادہ اہمیت اس بات کو دیں کہ آپ کے بچے یا بچی نے کیا سیکھا ہے۔ کیونکہ معلم چاہے جو پڑھادے، اگر بچہ سیکھے گا ہی نہیں تو معلم کیا کر سکتا ہے؟ اور بچہ سیکھ رہا ہے یا نہیں، اس کا احتساب آپ سے زیادہ اچھے طریقے سے اور کون کر سکتا ہے؟ اگر اپنے بچے سے متعلق آپ کے ذہن میں کوئی بات آتی ہو تو اس کے معلم سے مل کر مشورہ کریں۔ کیونکہ آپ خود اپنے بچے کی نفسیات اور پسند نا پسند سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ اسی بات کی روشنی میں اس کے معلم سے گفت و شنید کریں تاکہ سر پرست اور معلم کے درمیان باہمی افہام و تفہیم کا معاملہ ہو۔ اساتذہ سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ ان سے اپنی اولاد کی کار کردگی کے بارے میں باز پرس کر تے رہیں اور اس کی تعلیمی کمزوریوں کا الزام صرف معلم پر ہی نہ رکھیں۔
آپ میں سے کچھ سر پرست ایسے بھی ہیں جو اپنے بچے کی تعلیم سے متعلق بیدار مغز تو ہو تے ہیں لیکن جب ان سے اپنے بچے پر مزید توجہ دینے کی خواہش کی جاتی ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے۔ ”اجی صا حب! میں اسے نہ صرف اسکول بھیجتا ہوں بلکہ اتنی اتنی (؟) ہزار فیس پر اسے فلاں صاحب کی ٹیوشن بھی لگوا رکھی ہے“۔ گویا اب معلم کے ساتھ ٹیوشن پڑھانے والا بھی ان کی اولاد کو تعلیم دینے میں ساجھے دار بنادیا گیا لیکن سر پرست موصوف اس عمل سے باہر کے باہر ہی ہیں۔
اپنی اولاد کے تعلیمی مسائل میں دل چسپی لیجئے۔ ان کے مسائل سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ میں فلموں کا شائق تو نہیں ہوں لیکن آپ کو مشورہ دے سکتا ہوں کہ عامر خان نے اس تعلیمی موضوع پر بہت خوب صورت فلم ’تارے زمین پر‘ بنائی ہے۔ اسے دیکھئے۔ میرا ایک ہم جماعت بچپن سے پولیو کا شکار تھا۔ دونوں پیروں سے معذور۔ بیساکھیوں کے سہارے چلتا تھا۔ لیکن تھا ذہین۔ کمال یہ ہے کہ اس کے والد سائیکل رکشا چلاتے تھے لیکن اسے ہائی اسکول تک پڑھایا۔ اس کی ہر طرح سے مدد کی۔ خود اپنے سائیکل رکشا میں دو ڈھائی کلومیٹر دور سے اسے اسکول لاتے اور لے جاتے تھے۔ اپنی مقدور بھر کوشش کرتے تھے کہ اپنے بیٹے کے ہر مسئلے کا حل وہ نکال سکیں۔ آج بھی میرا سر ان کے تیئں عقیدت سے خم ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں وہ اب اس دنیا میں ہیں یا نہیں اور میرا وہ ہم جماعت بھی زندگی کی جدو جہد میں کہاں گم ہوگیا ہے۔ خیر، اللہ انھیں اپنی امان میں رکھے۔
تعلیمی مسائل سے میری مراد یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو اسکول یا کالج سے واپسی کے بعد اسے ہمداردانہ انداز میں مختلف مضامین کے تئیں اس کی دل چسپی، مشکلات اور مسائل کے بارے میں سوالات کریں۔ کوئی دشواری نظر آئے تو اُسے حل کر نے کی سنجیدہ کوشش کریں تاکہ بچے کو محسوس ہو کہ وہ تعلیم کے عمل میں اکیلا اور بے یار و مدد گار نہیں ہے۔ آپ اس کے ساتھ ہیں۔
اس ضمن میں ایک زندہ مثال ملاحظہ کیجیے۔ کسی زمانے میں ہم ایک انگریزی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ اس اسکول میں ایک ذہین طالبِ علم چھٹی جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ اس کے والد میرے بے تکلف جاننے والوں میں تھے جو بعد میں دوست بن گئے تھے۔ آئے دن اسکول کی انتظامیہ سے ان کی دو دو باتیں ہوا کرتی تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ بچے کی ذہانت کے لحاظ سے اساتذہ کی تدریس نہیں ہوا کر تی تھی۔ کبھی انھیں دوسرے بچوں کے مقابلے میں اپنے بچے کو کم نمبرات ملنے کی شکایت ہوتی۔ میں ان سے مسلسل رابطے میں رہا کر تا تھا۔ ایک دن میں نے انھیں ایک نہایت متضاد مشورہ دیا جسے سُن کر وہ بھونچکے رہ گئے۔ میں نے کہا، ”ٓآپ ایسا کیجیے، اسے اردو میڈیم اسکول میں داخل کر وا دیجیے۔“ میرے اس بے تُکے مشورہ پر بعد میں انھوں نے سنجیدگی سے غور کیا اور اس شرط پر اسے اردو میڈیم اسکول میں ساتویں جماعت میں داخل کروایا کہ بقیہ ذمہ داری یعنی اس کی مسلسل رہنمائی اور تعلیمی نگرانی میں کروں۔ اب ہوا یہ کہ انگریزی زبان میں مضامین کی تفھیم میں جو تھوڑی بہت کسر رہ جاتی تھی، مادری زبان میں وہ مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ بچہ بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگا ۔
وہ پڑھنے کے لیے اکثر میرے گھر آیا کرتا۔ جب دل چاہے گھر آجاتا، جو چاہے سوال کرتا اور مطمئن ہوجانے تک سوالات کرتا رہتا۔ آج وہ لڑکا شہر کا ایک معروف ایم ۔ ڈی (ڈاکٹر) ہے اور ایک بڑے اسپتال کا ڈائریکٹر بھی۔ چونکہ اس کے والد نے اس کے مسائل کو نہایت زیرکی اور سنجیدگی سے لیا، بر وقت تدبیر کی اس لیے وہ بچہ کامیابی کے زینے چڑھتا گیا۔ مثل مشہور ہے کہ ؎
قدرِ جوہر شاہ داند، یا بداند جوہری
(یعنی ہیرے کی قیمت و قدر یا تو بادشاہ جانتا ہے یا پھر جوہری جانتا ہے)
اپنی اولاد کی شخصیت کے ہر پہلو پر توجہ دیجیے۔ صرف کاغذ قلم ہی زندگی کا منتہی ٰنہیں ہوتے۔ انھیں مسابقتی امتحانات اور ثقافتی پروگرامس کے لیے تیار کریں۔ اس جانب ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہم درسی اورہم نصابی سرگرمیوں، ڈراموں، تقریری و تحریری مقابلوں وغیرہ میں انھیں شامل کروائیں تاکہ ان کی ہمہ جہت ترقی ہو سکے۔
اس مضمون کی تحریر کے دوران میرے کالج کے کچھ طلبہ میرے پاس آئے اور ایک مسئلہ آپ کے رویے سے متعلق بیان کیا۔ مجھے بھی بڑی حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ ایک جانب تو آپ امتحانات کے دوران اپنے بچے سے بڑی اونچی اونچی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ اور دوسری طرف پرچوں کے دوران بھی انھیں غیر ضروری کاموں میں الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ دن اگر آپ یا گھر کا کوئی دوسرا فرد سودا سلف لائے یا اناج پسوالے تو آسمان زمیں پر نہیں آجائے گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ایسا کر نے سے دنیا کے نظام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس ذرا مصلحت سے کام لیجئے۔ اور کچھ معمولات کو چند دنوں کے لیے معطل کر دیجئے۔
میرے معظم!
امتحانات کے نام پر مجھے آپ میں سے چند سرپرستوں کا ایک مخصوص رویہ بھی یاد آ رہا ہے۔ آپ کی اولاد اپنے امتحانات کے بارے میں اتنی فکر مند نہیں ہوتی جتنے آپ ہوتے ہیں۔ آپ مسلسل اس فکر میں رہتے ہیں کہ اسے کون سا سنٹر ملا ہے؟ وہاں ممتحن کون ہے؟ کس کی سفارش سے امتحان گاہ میں نقل کروانے کا انتظام ہو سکتا ہے؟ باہر سے آپ کے بچے کو نقل کی رسد کیسے پہنچائی جائے؟ آپ ممتحن کو اگلے، پچھلے تمام رشتے اور تمام قرابت داریاں یاد دِلاتے ہیں تا کہ وہ پرچے کے روز آپ کے بچے یا بچی کا ”خیال“ رکھیں۔ میں نے اس ضمن میں ایک ایسا شرمناک منظر دیکھا ہے کہ لکھتے ہوئے بھی وہ منظر کسی فلم کی طرح میرے ذہن پر تازہ اور متحرک ہوا جارہا ہے۔ پرچے کے دوران امتحان گاہ کے باہر ایک سرپرست جو باریش اور کرتا پاجامہ زیبِ تن کیے ہوئے تھے، بار بار پولس اور حفاظتی دستے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اُچک اُچک کر اور لپک لپک کر اپنے بچے کے کمرے کی طرف رسد لے کر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چونکہ ان کا حلیہ ایک ٹریڈ مارک مسلمان کا لگ رہا تھا، اس لیے ابتدا میں پولس کا سپاہی بھی لحاظ کر تا رہا۔ لیکن جب اس کے صبر اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس نے ان صاحب کو دو ڈنڈے ایسے رسید کیے کہ موصوف شاید تمام رسد بھول گئے ہوں گے۔ یہ ذلت اور بے غیرتی کسی جائز مقصد کے لیے ہوتی تو ہم اسے عملی جہاد سمجھ کر مستحسن قرار دیتے۔ لیکن ہمیں افسوس ہوا کہ اگر اتنی فکر، بھاگ دوڑ اور محنت ان کی اولاد خود اپنے امتحان کی تیاری کے لیے کرتی تو شاید انھیں اس کے پرچے کا دن بھی یاد رکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
بچے کے امتحانات ختم ہوجانے کے بعد اساتذہ کے فون اور اب موبائل فونس کھڑ کھڑانے اور سنسنانے لگتے ہیں۔ (آپ اگر اس قبیل سے تعلق نہیں رکھتے تو معذرت، ان سطور کو چھوڑ کر آگے بڑھئے۔ میرے مخاطب تو اس قبیل کے افراد ہیں۔) اس دفعہ آپ کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ آپ کے بچے کے پرچے کہاں جاتے ہیں۔ چند مرتبہ غلطی سے کچھ والدین نے ہمیں فون کیا۔ ”سر! ہمارے حالات تو آپ جانتے ہی ہیں۔ بڑی مشکل سے اولاد کو یہاں تک پڑھا پائے ہیں۔ آج کل سب کچھ percentage پر مبنی ہے۔ ویسے تو پرچے اچھے گئے ہیں لیکن نہ جانے کب کیا اونچ نیچ ہوجائے۔ اگر آپ کی کوشش شامل رہی تو بچے کو امتیازی نمبرات مل سکتے ہیں۔“ جب انھیں پتا چلتا ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا، اور یہ انتہائی رانگ نمبر لگ گیا تھا تو وہ کچھ مایوس ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس مایوسی میں بھی ان کی ذہانت کم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں ”کم از کم اتنا تو کیجئے کہ ہمیں کسی دوسرے ایسے معلم کا نام بتادیجئے جو اس کارِخیر میں ماہر اور پیشہ ور ہو۔“ اور ہم انھیں دو تین ایسے لوگوں کے نام بتا کر ان کے اس ”کارِخیر“ میں شریک ہونے سے نہ بچ سکے۔
کیا کوئی حد ہے اس بد دیانتی کی؟
آپ اس کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں کہ ”پیشہ ور معلم“ کو چاہے جتنے پیسے دینے پڑیں، آپ کا سپوت صلاحیت اور قابلیت نہ ہوتے ہوئے بھی نہایت اچھے نمبرات سے کامیاب ہوجائے پھر چاہے آپ کو اس کے لیے کتنے ہی پاپڑ کیوں نہ بیلنے پڑیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح نمبرات بڑھوا کر آپ اسے اس قابل بنا سکیں گے؟ اگر وہ تھوڑی بہت بھی قابلیت رکھتا ہے تو آپ کے اس عمل سے اس کی خود اعتمادی متاثر ہوگی اور وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجائے گا۔ اگر وہ لمبی دوڑ کا گھوڑا ہے تو اُسے صرف میدان دکھائیے، اور چھوڑ دیجئے، اسے خود دوڑنے دیجیے۔ اسے لکڑی کے پیر مت لگوائیے جن سے وہ دوڑنا تو دور کی بات ہے، چل بھی نہ سکے۔ اور اگر آپ اسے بالجبر قابل بنانے پر تُلے ہیں تو یہ عین خلافِ فطرت بات ہے۔ وہ جس کام کا اہل ہی نہیں ہے، آپ کی محبت اور یک طرفہ سوچ اس کام کو تباہ کر دے گی جس کو آپ کا سپوت انجام دے گا۔ ہمارے بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ ؎
مشک آن است کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید۔(یعنی مشک وہ ہوتا ہے جو خود اپنی خوشبو سے اپنے ہونے کا پتا دیتا ہے نہ کہ عطار کے بتا نے سے)۔
یاد رکھئے۔ ایسا کرنا حق داروں کا حق غصب کرنا ہے۔ اور اللہ کے یہاں بھی اس فریب کو ہر گز پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا جائے گا۔ یہ مت سوچئے کہ دین الگ ہے اور دنیا الگ۔ کتابِ مبین دینا کے ہر معاملے میں ہماری واضح رہنمائی کرتی ہے۔ ہمارے اسی مزاج اور اسی رویے نے ہماری دنیا سے دین کو نکال باہر کیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ہم آج انتہائی ذلیل و خوار ہیں۔ تعداد میں زیادہ ہیں لیکن جھاگ کی طرح ہی بے قیمت ہیں۔ اخلاقی اقدار کی فکر کیجئے! دین اور عاقبت کا سوچئے! آپ جو کر رہے ہیں وہ کسی صورت میں دین کے ترازو میں صحیح نہیں بیٹھتا اور یہ سیدھا سیدھا اور کھلا ہوا قبیح عمل ہے۔
چلئے، پند و نصیحت بہت ہوئی۔ یوں بھی میں کوئی ناصح نہیں ہوں۔ محض ایک سوتر دھار ہوں۔ اب اگلے نکتہ کی طرف آتا ہوں۔
ملت کو ذرا یہ تو بتائیے کہ آپ اپنی اولاد کو تعلیم دلوارہے ہیں، اسے اسکول بھیج رہے ہیں، اسے ماہر اساتذہ سے ٹیوشن دلوارہے ہیں، لیکن آپ کی یہ اولاد چوبیس گھنٹوں میں صرف آٹھ گھنٹے باہر رہتی ہے۔ یعنی سولہ گھنٹے وہ گھر میں رہتی ہے۔ آپ نے گھر میں اس کی تعلیم کا کیا نظم کیا ہے؟ کیا آپ نے اپنے گھر کا ماحول تعلیمی بنایا ہے؟
ایک منٹ۔۔۔ ذرا رکیے! آپ کے گھر سے ٹی۔ وی پر چل رہی فلم کے گانے کی آواز کا حجم کم کیجیے۔ جی ہاں۔ آپ کا ٹی۔ وی اگر تعلیمی ماحول پر غور کر نے اور اس کا مطلب سمجھنے کی اجازت دے گا، تب جاکر صحت مند ماحول کی تشکیل ہوگی۔ مگر میں نوے فی صد بلکہ پچانوے فی صد گھروں میں ماؤں کو ایکتا کپور کے اخلاق اور کردار سوز سیریلوں، بڑوں کو فلموں یا نیوز چینلوں اور نوجوانوں کو چوری چھپے یا کھلے عام موبائل فون پر بے باک فلموں اور بچوں کو ریل، گیمز اور اخلاق سوز وڈیوز میں مشغول پاتا ہوں۔ پھر اسکول میں دی جانے والی تعلیم کا follow up کون، کب اور کیسے کرے؟ بتا ئیے! رہی سہی کسر موبائلوں کی نرالی تباہ کن دنیا نے پوری کردی ہے۔ لیجئے، قصہ ختم۔ کیسی تعلیم اور کیسا تعلیمی ماحول؟
دیکھے! ایسا مت کیجیے۔ گھر میں اپنی اولاد کو صحت مند تعلیمی ماحول فراہم کیجیے تاکہ اس کے ذہن پر دباؤ بنا رہے کہ اسکول میں پڑھائے جانے والے سبق کے بارے میں گھر میں باز پرس ہوگی، اس وجہ سے آپ کی اولاد ذہنی طور پر مستعد رہے گی۔ تعلیم کو صرف ایک رسم نہ سمجھیں۔ آج کل یہی رواج چل پڑا ہے۔ تعلیم در اصل ایک با مقصد عمل ہے جو زندگیوں کی تشکیل کرتا ہے۔ اس حقیقت کو خود بھی سمجھیں اور اپنی اولاد کے ذہن پر بھی یہ بات نقش کردیں کہ آپ اُسے تعلیم کسی مقصد کے تحت دلوارہے ہیں۔ اور مقصد سے میری مراد صرف ڈاکٹر یا انجینئر یا معلم بننا نہیں ہے بلکہ انسان کی شخصیت کا مکمل ارتقا ہے۔ ورنہ ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک معلم، غرض ہر تعلیم یافتہ شخص محض پیسہ کمانے کی مشین بن جائے گا۔
اپنی اولاد کو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دین اور دینی علوم کی طرف راغب کریں۔ اُسے صرف بغدادی قاعدہ پڑھوانے اور چند سورتیں رٹوانے سے زیادہ قرآن اور احادیث کا مفہوم آسان انداز میں سمجھائیں۔ کیونکہ دنیا تو چند روز کی ہے۔ آخری اور ہمیشہ ہمیشہ کا جہاں تو اس دنیا کے بعد ہی ہے۔ اپنی اولاد کو صرف ڈگریاں خرید کر نہ دیں بلکہ اس میں صحت مند دنیاوی اور دینی رجحان کی نشو و نما کریں۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ نام نہاد تعلیم یافتہ یا ماڈرن گھرانوں میں انتاکشری (فلمی گانوں) کے مقابلے ہوتے ہیں جو اکثر فحش اور مخرب اخلاق گیتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کیا جدید کلچر کے نام پر یہ سب مناسب ہے؟ کیا اس سے گھر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اخلاق پر مثبت اثر ہوگا؟ بالکل نہیں! اس کا علاج یہ ہے کہ بیت بازی کی محفل سجائی جائے۔ انتاکشری، دراصل ہمارے پرانے تعلیمی طریقہ ’بیت بازی‘ ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ گذشتہ زمانے میں شرفا کے گھرانوں میں شام کے فارغ وقت میں بیت بازی کے مقابلے ہوتے تھے جن کا مقصد بچوں کے حافظے کو مضبوط بنانا اور ان میں ادبی ذوق پروان چڑھانا ہوا کرتا تھا۔ بیت بازی کے ان مقابلوں کے انعقاد کی وجہ سے بچوں کا حافظہ بھی قوی ہوجاتا تھا اور شعری ذوق کے ساتھ ساتھ شاعری کے فن، قواعد اور صحت مند اقدار پر بھی ان کی گرفت پکی ہوجاتی تھی۔ اس صحت مند اور نافع روایت کو اپنے گھروں میں زندہ کیجئے تاکہ تعلیمی ماحول تشکیل پاسکے۔ آپ کی اولاد بھی زبانِ حال سے تقاضا کر رہی ہے کہ ؎
لا، پھر ایک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی (اقبالؔ)
تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے صحت مند کھیل کود کی طرف بھی راغب کریں۔ محض پڑھنے پڑھنے سے بچہ تعلیم کے عمل سے بیزار ہوسکتا ہے۔ اس کے نفسیاتی پہلوؤں کو نظر انداز نہ کریں۔ اگر آپ اپنی اولاد پر سختی کر تے ہوں تو سختی کی ایک حد مقرر کریں اور اس کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی سے بھی کام لیں۔ ایسا نہ ہو کہ معلم کی سختی اسکول اور آپ کی سختی اسے گھر کو جیل سمجھنے پر مجبور کر دے۔ لیکن اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ نئے زمانے کے فیشن کے طور پر اپنی اولاد کے دوست بن جاتے ہیں اور پھر اس پر فخر بھی کر تے ہیں۔ سوچئے اور غور کیجئے کہ اگر ماں باپ اس کے دوست بن جائیں گے تو وہ ماں باپ کو کہاں جاکر تلاش کرے؟ ماں باپ اسے گلیوں میں ملنے سے تو رہے! البتہ وہ گلیوں میں دوست ڈھونڈ سکتا ہے۔ آپ ماں باپ ہی بنے رہیں۔ اپنی اولاد کی رہبری کریں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن اس بات کا دھیان رکھیں کہ دوست یا سہیلی کے نام پر آپ کی اولاد، آپ کا بیٹا یا آپ کی بیٹی کیسے لڑکیوں اور لڑکوں سے دوستی کر رہے ہیں۔ یاد رکھئے، علامہ اقبال ؔ نے کہا ہے ؎
خراب کر گئی شاہیں بچہ کو صحبتِ زاغ
اور شیخ سعدی نے بھی کہا ہے کہ ؎
صحبتِ صالح ترا صالح کُند
صحبتِ طالح ترا طالح کُند
اس نئے زمانے کی دوستیوں اور دوستوں نے ایسے گُل کھلائے ہیں کہ عقل حیرت میں پڑجاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے؟ آنکھ جو کچھ تماشے نہ دکھائے، کم ہے۔ ادھر آپ خوش ہیں کہ میرے بیٹے نے کتنے زیادہ دوست بنائے ہیں یا میری بیٹی کی کتنی سہیلیاں ہیں۔ اور وہ سب اسے کتنا زیادہ چاہتے یا چاہتی ہیں۔ لیکن اکثر اوقات معاملہ cross-connection کا بن جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ان کی عمر اور اس عمر میں ان کے نفسیاتی تغیرات کا بھی مکلف ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم والدین بچوں کے دوستوں کی جنس کی تبدیلی کو محسوس نہیں کر پاتے، یعنی دوست سہیلی میں اور سہیلی دوست میں کب بدل جاتا یا جاتی ہے، ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہو نے پاتا۔ واہ رے ہمارا تجاہلِ عارفانہ اور آہ رے امتدادِ زمانہ! اور ہائے رے یہ مخلوط طریقۂ تعلیم! چلئے، آپ کو ایک ایسا منظر دکھاؤں کہ میری طرح آپ کی بھی روح کانپ اُٹھے۔ میں واقعے کو مختصراً بیان کروں گا تاکہ تفصیل کہیں لذت اندوزی کی شکل نہ اختیار کرلے۔ ملتِ اسلامیہ کے ایک نہایت معزز فرد، یعنی ایک سر پرست کو جب مطلع کیا گیا کہ ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم آپ کی صاحب زادی، آپ کی عفت مآب دُختر نیک اختر، اپنے ایک غیر مسلم ہم جماعت کے ساتھ نامناسب جگہوں پر قطعی نامناسب حالت میں کئی مرتبہ دیکھی جاچکی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ اِس فتنے کا تدارک کیجئے ورنہ دیر ہوجائے گی۔ قسم خدا کی، ان کا جواب لکھتے ہوئے میرا قلم کانپ رہا ہے۔ ؎
گویم مشکل، وگر نہ گو یم، مشکل
کہنے لگے۔ ”اول تو میری بچی ایسا کر ہی نہیں سکتی“۔ اور جب انھیں معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے ثبوت پیش کیے گئے تو بولے۔ ”دیکھئے، وہ میری بیٹی ہے، آپ کی نہیں۔ آپ کو اس سے کیا؟ آپ اپنا کام کیجئے۔ آئندہ اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش نہ کیجئے گا۔ ورنہ بُرا ہوگا“۔ اللہ کرے ملت کا کوئی بھی فرد کبھی اس مر حلے تک نہ آنے پائے۔ اگر بات ایسی نہ ہو تب بھی فتنہ دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چند ماہ پیشتر مہاراشٹر کے ضلع لاتور میں ایک نویں جماعت کے طالبِ علم نے اپنی دادی کا قتل کر دیا جو پوتے کے ساتھ اسی کے کمرے میں رہا کرتی تھی۔ وہ پوتے کو روز دیر رات تک اپنے کمپیوٹر پر الٹی سیدھی فلمیں اور پروگرام دیکھنے اور بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے سے منع کر تی تھی جس سے چڑ کر پوتے نے یہ انتہائی اقدام کیا۔ یہ دوستیاں آپ کے لاڈلے یا لاڈلی کو کہیں کا نہیں رکھیں گی، یہ کبھی نہ بھولئے۔ اس لیے ان دوستیوں کا بھی حساب رکھئے۔ آج کل ایسی دوستیاں اور ایسے cross-connections ملت کی نئی نسل کو ارتداد کے طرف لے جا رہے ہیں۔ اس کا واضح سبب اولاد کی تر بیت پر کوئی توجہ نہ دینا ہے۔ اس کی تربیت کو دین کی بنیاد فراہم کریں۔ اُسے فلموں، تباہ کُن اور اخلاق سوز سیریلس کے بجائے اسلامی تاریخ کے ابواب سے روشناس کروائیں۔ گھر میں اردو کی دینی اور اخلاقی کتابیں منگواتے رہیں۔ اردو رسائل و اخبارات اپنی میز پر رکھے رہنے دیں تاکہ آ پ کی اولاد بے دھیانی میں ہی سہی، کم از کم اردو کی کسی کتاب یا رسالے کو ہاتھ تو لگائے گی۔
انگریزی میڈیم اسکولوں کے مایا جال میں گرفتار ہونے سے بچیں۔ میرے محترم! یہ انگریزی میڈیم اسکولیں ہیں جن کا ٹریلر تو جنت دکھا تا ہے لیکن پوری فلم کسی اور ہی مقام کی سو فی صد ضمانت دیتی ہے۔ جو طلبہ خود اپنی ایمانی قوت کے بل بوتے پر اپنی شعوری کوشش کے ساتھ اس سے بچ نکلتے ہیں ان کی بات دیگر ہے۔ لیکن یہ سوچئے کہ انگریزی صرف ایک زبان ہے۔ بچہ یہ زبان کبھی بھی سیکھ سکتا ہے۔ صرف ایک انگریزی زبان کی لالچ اور حسین فریب میں اسے دین و دنیا اور عاقبت سے دور نہ کریں۔ ہمارے مشاہدات اور تجربات کو اپنا مشاہدہ اور تجربہ سمجھیں اور سیلاب آنے سے قبل ہی اس پر پُل باندھ لیں، ورنہ اس سیلاب کی تباہ کاریاں کہیں آپ کی زندگی کے پورے سکون ہی کو غارت نہ کردیں۔آپ دانا ہیں، دانائی کا ثبوت دیں۔ تجاہلِ عارفانہ کا زمانہ کب کا بیت گیا ہے۔ اب یہ صرف شاعری میں ہی زیب دیتا ہے، حقیقت کی دنیا میں اس کا گُزر محال ہے۔ سُن رکھئے کہ دانائی اور نا دانی کے درمیان صرف حرف ’نا‘ کے ادھر اُدھر ہونے کا ہی فرق نہیں ہے بلکہ اس فرق کو یو ں سمجھئے کہ ؎
ہر چہ دانا کُند، کُند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار
یعنی سیدھے سادے الفاظ میں ’سب کچھ لُٹا کے ہوش میں آ ئے تو کیا کِیا؟‘ والی بات ہے۔
ہوسکتا ہے ان میں سے بہت سی باتیں آپ کو ناگوار گزری ہوں لیکن ان باتوں کو ایک مجذوب کی بڑ سمجھنے کے بجائے انھیں نیک اور مخلصانہ مشورے سمجھیں اور خلوصِ دل کے ساتھ ان پر غور کریں۔
امید ہے آپ اس معاملے میں ہماری مخالفت کرنے کے بجائے ہماری بات سے اتفاق کر تے ہوئے اس مہم میں ہمارا ساتھ دیں گے۔
آپ کا مخلص
خان حسنین عاقبؔ
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: خطاب بہ معلمین اردو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے