غضنفر شناسی سے شناسائی

غضنفر شناسی سے شناسائی

ایس معشوق احمد
کولگام، کشمیر، ہند

پروفیسر غضنفر کے تخلیقی اور علمی کارناموں سے کون واقف نہیں، ایک کثیر الجہات شخصیت، فکشن کا ایک بڑا نام، نو ناولوں کا خالق، بہترین خاکہ نگار، ایک رفیع المنزلت ناقد، جہاں دیدہ شاعر اور بلند پایہ ادیب جس نے اردو قارئین کو منفرد اسلوب دیا کبھی میٹھا "پانی" پلایا تو کبھی”کہانی انکل" کے روپ میں دویہ بانی، فسوں، مم اور وش منتھن کی کہانیاں سنائیں اور کبھی "مانجھی" بن کر ہمیں دنیا کی سیر کرائی تاکہ ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ "دیکھ لی دنیا ہم نے"۔ کبھی فکشن سے الگ ہوکر "لسانی کھیل" کھیلے تو کبھی”پارکنگ ایریا" میں بیٹھ کر "کرب جاں" کے قصے سنائے، کبھی "روئے خوش رنگ" کو "سرخ رو" کیا تو کبھی زبان و ادب کے تدریسی پہلو کو "جدید طریقہ تدریس" کے ذریعے سمجھانے کی سعی کی تاکہ "خوش رنگ چہرے" ان پہلوؤں کو سمجھ سکیں۔ کبھی ہمیں یہ باور کرایا کہ اللہ نے جس کو تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہو وہ جلد "کوئلے سے ہیرا" بن جاتا ہے اور اس کی آنکھ ہمیشہ روشن رہتی ہے، کبھی اس کی”آنکھ میں لکنت" نہیں آتی۔ ان تمام نکات کو اس متنوع خوبیوں کے مالک فن کار نے ہمیں بہتریں طرز میں سمجھایا۔ اس مختلف الجہات تخلیق کار کے سوانحی کوائف، ان کے تخلیقی عمل، ان کے حلیہ اور عادات و اطوار، ان کی ناول نگاری، اسلوب کے انحرافی پہلو، ان کے ناولوں کے موضوعات، ان کے ناولوں کی فکری و فنی سچائیاں، ان کی لفظیات، ان کے رنگ و آہنگ اور ان کے ناولوں کے تنقیدی اور تجزیاتی جائزوں کو "غضنفر شناسی (ناولوں کی روشنی میں)" نامی کتاب میں موضوع بنایا گیا ہے اور غضنفر کے حوالے سے اس مفصل اور اہم ماخذ کو ڈاکٹر رمیشا قمر نے مرتب کیا ہے۔ یہ ضخیم کتاب 484 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب اپنی نوعیت کے حوالے سے اہم ہے۔
ابتدا میں مرتبہ نے "مرتب کے معروضات" کے عنوان سے غضنفر سے تعارف، ان کی تحریروں کو پڑھ کر ان کے سحر بیانی سے لطف اندوز ہونے، ان کے شگفتہ، پرلطف، داستانی طرز اور ان کے ناولوں کا مختصر تعارف کیا ہے۔اس کے علاوہ کتاب کے چار ابواب کا نقشہ بھی کھینچا ہے اور مقالہ نگاروں کا تعارف بھی کرایا ہے۔
پہلے باب کو "ذات و حیات" کا عنوان دیا گیا ہے اور اس میں چار تحریریں شامل ہیں۔ پہلی تحریر غصنفر کے سوانحی کوائف ہے جس میں ان کی مکمل حالات زندگی، ان کی تصانیف کی فہرست، ان پر ہوئے تحقیقی کام، ان کی ادبی خدمات کے عوض ملے اعزازات و انعامات اور مختلف اداروں سے وابستگی کی تفصیل درج ہے۔ اس حصے کی دوسری تحریر "میرا تخلیقی عمل" میں غضنفر نے اپنے تخلیقی پروسس اور ایک تخلیق کار کن عوامل سے گرزتا ہے، کا نقشہ کھینچا ہے جو اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انھوں نے اپنے بارے میں مکمل اظہار خیال کیا ہے جس سے ان کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اس باب کی تیسری تحریر پروفسیر علی احمد فاطمی کا غضنفر پر لکھا گیا خاکہ ہے۔ اس خاکے میں غضنفر سے پہلی ملاقات سے لے کر اس کے خوبصورت بالوں کا ذکر، دوستوں کا حلقہ، ان کی شاعری، ریسرچ، بے روزگاری اور روزگار کا ملنا، ان کے عشق اور شادی، ان کی افسانہ نگاری، ناول نگاری کا ذکر عقیدت اور محبت سے کیا ہے۔اس باب کی آخری تحریر ڈاکٹر رمیشا قمر کا لیا گیا انٹرویو ہے جس سے غضنفر کے تخلیق اور تخلیقی سفر، ان کی شخصیت، فکرو فن، فکشن میں کیے گئے تجربوں، ان کی مثنوی نگاری، ناول نگاری، درس و تدریس سے وابستگی، اردو زبان کی صورت حال غرض غضنفر کے خیالات سے شناسائی ہوتی ہے۔ باب دوم کا عنوان "فنی و فکری جہات" رکھا گیا ہے اور اس میں کل سولہ مضامین غضنفر کی ناول نگاری، ان کے موضوعات، ان کے اسلوب کے انحرافی پہلو، ان کی لفظیات، ان کے استعارات اور احتجاجی رحجانات کے حوالے سے شامل کیے گئے ہیں۔ اس باب کا پہلا مضمون "غضنفر: ایک نئے ذہن کا ناول نگار" اردو ادب کے بلند پایہ ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کے قلم سے نکلا ہے۔ اس مضمون میں غضنفر کی ناول نگاری کے حوالے سے مکالمہ باندھا گیا ہے اور ان کے ناولوں کے موضوعات، کردار نگاری اور زبان و بیان پر بحث ہوئی ہے۔ غضنفر کے اسلوب اور زبان و بیان کے حوالے سے پروفیسر وہاب اشرفی رقم طراز ہیں:
"ان کا اسلوب کہیں اساطیری، کہیں اشاراتی، کہیں علامتی تو کہیں بالکل سامنے کی کیفیت سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ احساس دلاتا ہے کہ Mythology پر ان کی بڑی نگاہ ہے جسے وہ موقع بہ موقع exploit کرتے رہتے ہیں، لیکن اس عمل میں وہ میکانکی نہیں ہوتے۔ جہاں معیاری زبان کی ضرورت ہے وہاں وہ بے حد چوکس نظر آتے ہیں، جہاں شاعرانہ کیف مطلوب ہے وہاں تخلیقی جوت جگاتا ہے."
اس حصے کا دوسرا مضمون "غضنفر کی ناول نگاری" ماہر لسانیات اور پارکھ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کی جنبش قلم کا نتیجہ ہے۔ اس میں غنضفر کی ناول نگاری اور تمام ناولوں پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔ تیسرا اور غضنفر کے اسلوب کے حوالے سے اہم مضمون "غضنفر کے اسلوب کا انحرافی پہلو" پروفیسر علی رفاد فتیحی کا شامل کتاب ہے، جس میں غضنفر کے ناولوں میں اسلوب کے تصوراتی انحراف اور غیر تصوراتی انحراف پر مثالوں کے ساتھ بات ہوئی ہے۔ غضنفر کے ناولوں میں لسانی نظام کے حوالے سے پروفیسر رفاد فتیحی لکھتے ہیں:
"غضنفر کے ناولوں کے لسانی نظام کو اگر ہم اصول نشانیات (semioties) کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان ناولوں کی تمام اکائیاں مل کر ایسی تصویر تشکیل کرتی ہیں جس میں استفہامیہ رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان ناولوں کا ہر جز کل کی طرف لے جاتا ہے اور ناول کے کلی اثر میں اضافہ کرتا ہے اور اس طرح ان تمام ناولوں میں ایک رابطہ اور pattern نظر آتا ہے جو ان ناولوں کی لسانی معنویت کے ساتھ ساتھ جمالیاتی معنویت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ غضنفر کے ناولوں کا یہ ساختیاتی نظام مخفی حقائق کی تلاش میں کار گر ثابت ہوتا ہے۔"
اردو ناول جب زمینی آواز سے محروم ہوا اور اس پر سکوت طاری ہوا تو اس سکوت کو توڑنے اور ناول کی تجدید نو میں غضنفر کے رول اور ان کے ناولوں کے کردار کو مضمون "اردو ناول کی تجدید اور غضنفر" میں پیغام آفاقی نے موضوع بنایا ہے۔ اس مضمون میں پانی، مم، کہانی انکل، دویہ بانی کے موضوعات اور غضنفر کی فنی مہارت پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔ اس مضمون میں غضنفر کو ناول کی تجدید کا کامیاب دست کار قرار دیا گیا ہے۔ پیغام آفاقی لکھتے ہیں:
"اردو کا افسانوی ادب چکنی اور کھردری زبانوں کے خانوں میں تقسیم ہوگیا۔ چکنی زبان زندگی سے گریز کررہی تھی اور کھردری زبان زمین کی نئی حقیقتوں کے خراد سے تیار ہورہی تھی اور یہی زبان آج کی ٹکسالی زبان بنتی جارہی تھی۔ اس ٹکسالی زبان کو جن ادیبوں نے سکہ رائج الوقت سمجھ کر اسے استعمال کرنا شروع کیا وہی ناول کی تجدید کے کامیاب دست کار تھے۔ اس دست کاری کے نمونے غضنفر کے یہاں ان کے مختلف ناولوں میں صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔"
"غضنفر : آبیانہ سے آبیاژہ تک" میں پروفسیر ارتضی کریم نے غضنفر کو طرز کہن اور تقلید سے پرے کا فکشن نگار قرار دیا ہے اور ان کی منفرد نثر کو سمجھانے کے لیے مثالیں بھی دی ہیں۔ پروفیسر ارتصی کریم نے اس مضمون میں غضنفر کے دو ناولوں پانی اور کہانی انکل پر اظہار خیال کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ غضنفر کے معاصرین میں غضنفر کی طرح موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی خال خال نظر آتی ہے۔ غضنفر نے ناولوں میں موضوع اور تکنیک کے تجربے کیے. اس حوالے سے پروفیسر ارتضی کریم رقم طراز ہیں:
” دویہ بانی ہو یا وش منتھن، کینچلی ہو یا شوراب، مم ہو یا مانجھی؛ غضنفر نے سب میں تجربے اور کامیاب تجربے سے کام لیا ہے۔ نہ صرف موضوعات کی سطح پر بلکہ زبان و بیان کے تعلق سے اجتہادی رویہ اپنایا ہے۔جہاں تک تکنیک کی بات ہے اس میں بھی غضنفر نے اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے اور چونکہ یہ تخلیقی اور اختراعی صورت ہے اور ایک تجربہ بھی اس لیے بعض احباب اسے "کولاژ" کا نام بھی دیتے ہیں اور کثرت میں وحدت کی تلاش کرتے ہوئے غضنفر کے آرٹ کی تفہیم کرتے ہیں۔"
” آبیاژہ: انسانی زندگی کے تضاد و تصادم کا علامتی اظہار" دوسرے باب کا چھٹا مضمون ہے۔ پچھلے سال ڈاکٹر رمیشا قمر نے غضنفر کے نو ناولوں کو آبیاژہ کے عنوان سے یک جا کیا. اس مضمون میں پروفیسر صغیر افراہیم نے اس مجموعے کو موضوع بنایا ہے اور ان نو ناولوں کا جائزہ بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ان ناولوں کی خصوصیات، کردار نگاری، زبان و بیان، ان میں کیے گئے فنی تجربات اور ان کی تکینک کا بھی جائزہ لیا ہے۔اس مفصل تنقیدی جائزے کے بعد پروفیسر صغیر افراہیم آبیاژہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
” ترتیب میں، لفظوں کے انتخاب میں، صوتی آہنگ پیدا کرنے میں، لفظوں کی تکرار وغیرہ میں آبیاژہ کے سبھی ناول منفرد ہیں۔ ان ناولوں میں تکینک اور اسٹائل شیر و شکر کی طرح گھلے ملے ہوئے ہیں اور یہی ہم آمیزی غضنفر کے تخلیقی اظہار کی ضامن بنتی ہے۔"
عدیم الفرصتی میں ہر فرد کے ساتھ ساتھ قارئین بھی جلد بازی کے شکار ہیں۔ قاری مختصر تحریرات کو پڑھ کر ہی ذوق مطالعہ کی تسکین کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ضخیم کتاب مصنہ شہود پر آتی ہے تو اسے پڑھنے کی خواہش دب سی جاتی ہے اور مطالعے کے دوران انسان اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے، اس اکتاہٹ اور آبیاژہ کے مفصل جائزہ کو ابو ذر ہاشمی نے اپنے مضمون "پانی آبیاژہ کا" میں موضوع بنایا ہے۔ جہاں انھوں نے اس مضمون میں آبیاژہ کے ناولوں پر خامہ فرسائی کی ہے وہیں آبیاژہ کی ضخامت کو دیکھ کر کچھ گھبرائے بھی ہیں لکھتے ہیں:
” آبیاژہ آیا۔ ایک جلد، غضنفر کے نو ناولوں کی، یک جا۔ نو سو چھ صفحات، وزنی اتنی کہ کسی پر آپڑے تو چوٹ ضرور لگے اور وہ اس وزن کو محسوس ضرور کرے۔ ہم جیسے ناقاری پر یہ وار ہوا تو ہم گبھرائے۔ چارہ کیا تھا۔ ضخامت دیکھ کر ہی آفریں آفریں پکار اٹھے۔آفریں ناول نگار کے لیے، آفریں مرتب کے لیے کہ بڑے حوصلے کا کام کیا۔ ایک ایسے دور میں جو آشوب قرات سے دوچار ہے ناولوں کا مجموعہ لانا قاری کا امتحان لینا ہے۔ سو آفریں آفریں کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے."
گبھراہٹ رفع ہوئی تو ابو ذر ہاشمی تھوڑے کھل گئے اور کھل کر آبیاژہ پر اظہار خیال کیا، جس میں پانی کی طلسمی داستان بھی رقم کی اور دویہ بانی کی سحر بیانی پر بھی اظہار خیال کیا، فرقہ وارانہ ذہنیت کے وش منتھن پر بھی خامہ فرسائی کی اور مانجھی بن کر شوراب کی بھی سیر کرائی جس میں عورت کی بے چارگی اور ناقدری کا احساس جگایا گیا ہے. ابو ذر ہاشمی نے غضنفر کی ناول نگاری کے اختصاص کے بارے میں لکھا کہ غضنفر حق کے متلاشی فن کار ہیں۔
مقصود دانش نے اپنے مضمون "غضنفر کے ناولوں کی فکری و فنی سچائیاں" میں دانش اور ہنری مندی کے ساتھ غضنفر کی فکر اور فن کو پرکھا ہے اور غضنفر کے حوالے سے یہ سچائی بھی رقم کی ہے:
” داستان طرازوں کے بعد غضنفر پہلے فکشن نگار ہیں جن کے بیانیہ کے پٹاروں سے سپاٹ واقعات کے سانپوں کے بجائے حسن و معنی کے سنگیت نکلتے ہیں۔"
ناول دویہ بانی میں غصنفر نے اشلوکوں کی سولی پر پورے دلت سماج کو چڑھایا ہے، پانی میں مصنف نے استعاروں میں ماضی بعید و قریب کو آنکھوں کے سامنے ہویدا کردیا ہے، کینچلی میں غضنفر چونکاتے نہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں، مانجھی کا بیانیہ سالم ہے اور غضنفر نے ایمائی پیرایہ اظہار اختیار کیا ہے، فسوں کا موضوع اردو کے قارئین کے گلے نہیں اتر سکتا جیسی سچائیوں کے علاوہ مقصود دانش نے غضنفر کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
” غضنفر لفظوں کے جادوگر بھی ہیں، افکار و خیالات کے خوگر بھی، ان کے ہاں تخلیقی نگارشات میں موضوع کی حدیں بہت پھیلی ہوئی نہیں ہوتیں لیکن جن موضوعات کو بھی منتخب کرتے ہیں ان کو آرٹ و فن کا نمونہ بنا دیتے ہیں۔"
ایک پر خطر راستے کی سیر سہیل وحید نے اپنے مضمون "لفظیات کے جمہوری نظام کے ادیب: غضنفر" میں کرائی ہے۔ اس مضمون میں لفظ کیسے وجود میں آتے ہیں، غضنفر کی زبان دانی، غضنفر کا ہندی الفاظ کا اپنے ناولوں میں بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ غضنفر کی فکشن نگاری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ غضنفر کی زبان دانی کے حوالے سے وحید سہیل لکھتے ہیں:
"غضنفر جب چاہتے ہیں، جیسی چاہتے ہیں، ویسی زبان لکھ لیتے ہیں۔ انھیں ہر قسم کی زبان لکھنے کا ملکہ حاصل ہے. وہ جب چاہتے ہیں عام زبان لکھ لیتے ہیں اور جب ضرورت محسوس کرتے ہیں تب طبقہ خاص کے درمیان بولی جانے والی زبان اپنی تحریر میں لے آتے ہیں."
غضنفر کی ناول نگاری، ان کے یہاں رنگارنگی، اور ان کے ناولوں کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر اقبال حسن آزاد نے "غضنفر: ایک مختلف رنگ و آہنگ کا ناول نگار" نامی مضمون میں لیا ہے۔ ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹر اقبال حسن آزاد لکھتے ہیں کہ:
"غضنفر نے اپنے ناولوں میں زندگی کے تمام رنگوں کو ایک ساتھ سمو دیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون ہیں سب کا رس ان میں موجود ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، تواریخ، فلسفہ، منطق، عمرانیات، لسانیات اور سائنس کے تمام مظاہر ان میں نظر آتے ہیں۔"
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے "غضنفر کی ناول نگاری" نامی مضمون میں غضنفر کے ناولوں پر اظہار خیال کیا ہے اور ان کے اسلوب، الفاظ کے برتاؤ اور ان ناولوں کے کرداروں کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ ڈاکٹر شہاب ظفر نے غضنفر کے ناولوں میں دویہ بانی کو اپنا پسندیدہ ناول قرار دیا ہے۔ اس ناول کے متعلق لکھتے ہیں:
” دویہ بانی میری نظر میں غضنفر کا سب سے عمدہ اور میرا پسندیدہ ناول رہا ہے جو ان کے گذشتہ ناولوں سے موضوع، زبان اور اپنے قصے کی گہرائی و انفرادیت کی بنا پر اردو میں دلت ادب کا منظر نامہ تیار کرتا ہوا بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ یہ ناول زمان و مکان کی قید سے آزاد نہیں بلکہ کئی زمانوں پر محیط ہے۔"
"غضنفر: کشتی سخن کا مانجھی" میں سلیم سرفراز نے غضنفر سے اپنے پہلے تعارف کا ذکر جو ان کے افسانے کڑوا تیل سے ہوا، ان کے ناول پانی کے چرچے، ان کے ناولوں کے موضوعات اور اسلوب، زبان و بیان کی جادو گری اور ان کی شاعری کو موضوع بنایا ہے۔ غضنفر کے اسلوب اور ان کی ہندی زبان پر دسترس کے حوالے سے سیلم سرفراز لکھتے ہیں کہ:
"جس طرح ان کے ناولوں کے موضوعات میں تنوع ہے اسی طرح ان کا اسلوب بھی نت نئے تجربات سے گزرتا رہا ہے۔ انھیں اردو زبان کے ساتھ ہندی زبان پر بھی کافی دسترس حاصل ہے اور ہندو مائتھولوجی کا بھی گہرا گیان ہے۔ ان کے ناولوں اور افسانوں میں بارہا اس کا ادراک ہوتا رہا ہے۔"
ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا نے "غضنفر کے ناولوں میں احتجاجی رحجانات" میں غضنفر کے ناولوں میں احتجاجی رحجانات کی نشان دہی مثالوں کے ساتھ کی ہے۔ ناول پانی میں غضنفر پانی پر مگر مچھ کی اجارہ داری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، کینچلی میں سماج، فلسفہ، قانون، رسم و رواج کے مروجہ اصولوں کے خلاف توانا آواز بلند کرتے ہیں، کہانی انکل میں مروجہ نظام ظلم و جبر کے خلاف احتجاج، فسوں میں غضنفر نے احتجاج کے کئی الاؤ سلگائے ہیں اور وہ ناقص تعلیمی نظام، مادہ پرستی، خود غرضی، حق تلفی اور استحصال کے خلاف احتجاج، شوراب میں نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کی بیداری، دویہ بانی میں طبقاتی نظام، بھید بھاؤ، اونچ نیچ، تفریق کے خلاف احتجاج، وش منتھن میں کمزور اور مظلوم طاقتور اور ظالم کے خلاف احتجاج اور مانجھی میں غضنفر نے برہنگی اور عورت کو ننگا کرنے کے خلاف احتجاجی صدا بلند کی ہے۔ ڈاکٹر صابرہ خاتون کا یہ مضمون باقی مضامین سے منفرد ہے اور اس میں غضنفر کے ناولوں کو مختلف زوایے سے دیکھا اور پرکھا گیا ہے۔ غضنفر احتجاج کو زندگی کی علامت سمجھتے ہیں، اس حوالے سے صابرہ خاتون لکھتی ہیں: 
"غضنفر اس بات سے واقف ہیں کہ احتجاج زندگی کی علامت ہے اور خاموشی موت کی، احتجاج کے بغیر زندگی روح سے خالی جسم کی مانند ہے۔"
ڈاکٹر سلمان عبد الصمد نے”پانی کی خشکی کا تخلیقی استعارہ اور غضنفر" میں غضنفر کے ناول پانی میں استعمال کی گئی علامتوں کی گرہیں کھولی ہیں اور پانی، نہنگ، آبیاژہ جیسی علامتوں کی شرح بھی کی ہے۔پانی اور مم میں مماثلتوں، منظر نگاری اور اسلوب تخاطب پر بھی مختصر روشنی ڈالی ہے۔ پانی کے مختلف رنگوں کے حوالے سے سلمان عبد الصمد لکھتے ہیں:
"تحلیل نفسی کے تناظر میں اگر غصنفر اور پانی کا محاکمہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کے یہاں پانی کے مختلف رنگ ہیں۔ کبھی پانی کی خشکی جبر و استحصال کی کہانی سناتی ہے تو کبھی پانی اپنے مکمل معنی کے ساتھ انسانی زندگی کی سوچ و فکر کی اہمیت ثابت کرتا ہے۔"
"اردو ناول کے امکانات: غضنفر کے ناولوں کی روشنی میں" شفا فاطمہ کا مضمون ہے جس میں حوالوں کی بھرمار کے ساتھ غصنفر کی ناول نگاری پر روشنی تو ڈالی گئی ہے لیکن اردو ناول کے امکانات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے، البتہ یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ:
"غضنفر کے ناولوں کے اثرات اب اور بڑھیں گے اور ان سے اردو ناول کے امکانات مزید روشن ہوں گے کہ غضنفر کے جو ناول آؤٹ آف پرنٹ ہوگئے تھے اور نئی نسل کی رسائی ان تک نہیں ہوپاتی تھی، آبیاژہ کی شکل میں یک جا ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔"
باب دوم کا آخری مضمون کتاب کی مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر کا "شہ گام اسلوب کا خالق: غضنفر " ہے۔ غضنفر کے افسانوی تخلیقات کے امتیازات، غضنفر کی شاعرانہ نثر، دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا ہنر، فن کارانہ سیاسی شعور، اسلوب کی رنگا رنگی، دیگر زبانوں کا استعمال غرض اس مضمون میں غضنفر کی مختلف جہات پر اظہار خیال کیا گیا ہے اور ان خوبیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ غضنفر کی ہمہ جہتی اور پہچان کے حوالے سے ڈاکٹر رمیشا قمر لکھتی ہیں:
"اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غضنفر ہر طرح کے اظہار پر قادر ہیں اور انھوں نے تقریبا تمام اصناف ادب میں عمدہ اور قابل قدر نمونے پیش کیے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غضنفر نے صحفہ قرطاس پر جو قلمی کہکشاں سجائی ہے اس میں افسانے کی جگمگاہٹ، ناول کی جھلملاہٹ، غزل کی نرماہٹ، نظم کی کھنکھناہٹ، مثنوی کی مسکراہٹ، خاکے کی سرسراہٹ، انشائیے کی چلبلاہٹ، ڈرامے کی گڑگڑاہٹ سبھی کچھ ہے مگر ان کی اصل پہچان جس صنف ادب سے بنی ناول ہے۔"
باب سوم کا عنوان "پانی سے دیکھ لی دنیا ہم نے تک کی شناخت" باندھا گیا ہے۔ اس باب میں کل اکیس مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سارے مضامین غصنفر کے ناولوں کو سمجھنے میں معاون ہیں۔ اس باب کا پہلا مضمون غضنفر کے پہلے ناول پانی پر پروفیسر بیگ احساس نے لکھا ہے۔ اس میں ناول کے موضوع، کہانی، اس ناول کی معنویت، استعارہ سازی اور ناول میں پیش کیے گئے نفسیاتی نکتوں کو سلجھایا گیا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس کا ماننا ہے کہ:
"ناول کی فضا پر اسرار ہے لیکن بعید از قیاس نہیں ہے۔ایک کے بعد ایک واقعات اور خواب ناول کو دل چسپ بناتے ہیں۔ طلسماتی مناظر متحیر اور صنف نازک کی خوب صورتی اور سراپا کا بیان ایک خوش گوار تاثر چھوڑتا ہے۔"
اس باب کا دوسرا نام جو شامل کتاب ہے خالد اشرف کا "پانی: جدید علامتی اسلوب کا اظہار" ہے، جس میں بڑی فن کاری اور چابک دستی سے ناول پانی پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ خالد اشرف پانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"غضنفر کا پانی جدید علامتی اسلوب کے اظہار کا ناول ہے۔ جس میں مصنف نے ایک ایسے فرد کو موضوع بنایا ہے جو تمام آسائشوں اور نعمتوں سے پر اس دنیا میں نہ صرف پانی جیسی بنیادی شے کا طلب گار ہے اور پانی خوفناک نہنگوں کے قبضے میں ہے۔"
پروفسیر نیر مسعود نے”کینچلی: تازگی بھرا ناول" میں کینچلی کو پرکھا ہے اور لکھا ہے کہ اس کا موضوع مانوس ہی نہیں پامال اور پیش افتادہ بھی ہے اور ایسی کہانی ہمارے فکشن میں بار بار دہرائی گئی ہے لیکن غضنفر نے اپنے موضوع کو تازگی سے بھرا ہے۔ اس ناول کے موضوع اور جزئیات کے حوالے سے پروفیسر نیر مسعود لکھتے ہیں:
"موضوع اور جزئیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کینچلی کچھ سطحی سی کہانی نظر آتی ہے۔ اس میں ایک سال گرہ کے موقع پر ہیرائن کا گانا بھی ہے۔ ایک چھوٹا موٹا ولین سرجیت بھی اپنی غیر ضروری جھلک دکھاتا ہے۔ ذہنی اور جذباتی کشمکش کی اظہار کے لیے آئینے کے سامنے عکس اور شخص کے مکالمے بھی ہیں۔ یہ عناصر ایک ادبی ناول کو بگاڑنے کے لیے کافی ہیں۔"
ڈاکٹر جمشید قمر نے "کینچلی: فنکاری کے چند پہلو" نامی مضمون میں فن کاری سے کینچلی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔ ڈاکٹر جمشید لکھتے ہیں:
"ناول میں کہانی کے انجام سے یہ سچائی یہاں ظاہر ہوتی ہے کہ ان دونوں نے اپنے دکھوں کا عرفان حاصل کرلیا ہے، وہ جان گئے ہیں کہ زندگی کے موجودہ تجربے نے جس ناگوار سچائی کو ان کے سامنے لاکھڑا کیا ہے اسے گوارا کر لینے سے ہی ان کے قلوب ہر طرح کے بوجھ اور دباؤ سے نجات پا سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئیں بدگمانی اور پشیمانی کی کینچلی اتر سکتی ہے۔"
انور ظہیر نے "کہانی انکل اور ہمارا معاشرہ" میں غضنفر کے ناول کہانی انکل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور کہانی انکل کی ناکام اور مایوس زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ غضنفر کہانی انکل میں اس لیے کامیاب ہیں کہ ناول میں آرٹ نے زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کیا ہے۔ انور ظہیر ناول کے متعلق لکھتے ہیں:
"یہ ناول عوام سے ایک طرح براہ راست گفتگو کرتا ہے۔انھیں ہوشیار کرتا ہے۔ انسانی دوستی کی بنیاد پر کہانی رقم ہوئی ہے اور ان کا فکر انگیز تجربہ ناول کی کامیابی کی ضمانت بنتا نظر آتا ہے۔ علامتوں، استعاروں اور اشاروں سے معاشرے پر پڑے نقاب کو سرکایا گیا ہے اور اس طرح کہ نہ فن پر حرف آئے اور نہ ترسیل میں ناکامی ہوئی بلکہ حیرت و استعجاب اور شاعرانہ تخیل سے ایک نئی دنیا کا خواب ابھرتا ہے۔"
"کہانی انکل اور وقت کا تصور" میں ڈاکٹر طیب فرقانی نے اس ناول کے حوالے سے بعض غلط فمہیوں کا ازالہ کیا ہے اور اسے سوچ سمجھ کر لکھا گیا ناول قرار دیا ہے۔اس مضمون میں کہانی انکل کی کہانیوں کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طیب فرقانی نے کہانی انکل کو مستقبل کا ناول قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
"کسی بھی زمانے میں جب استحصال کی کہانی ابھرے گی تو غضنفر کی کہانیاں اور ناول کہانی انکل بامعنی رہے گا۔ غضنفر کا یہ پہلو بہت اہم ہے، مثلا روزگار کا مسئلہ، فرقہ پرستی کا مسئلہ، اندھی عقیدت کا مسئلہ جمہوری حکومتوں میں جب بھی کھڑا ہوگا کہانی انکل ہمیں یاد آئیں گے۔ کہانی کے کچھ حوالے تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے غضنفر مستقبل دیکھ رہے تھے۔"
” دویہ بانی: پہلی قرأت کے بعد" میں حسین الحق نے دویہ بانی کے متعلق بعض انکشافات کیے ہیں جیسے کہ انھیں اس ناول پر رشک آتا ہے، مجھے غضنفر پر فخر ہے، ناول کا قصہ اچھوتا ہے اور اسلوب رواں دواں۔ اس ناول کو حسین الحق نے آگ کا دریا اور اداس نسلیں کے برابر کا ناول قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
” اس ناول کا قصہ ایسا اچھوتا ہے کہ اب تک گویا یہ قصہ اردو میں بیان نہیں کیا گیا، وہی حال زبان کا کہ اردو ناولوں میں اب تک یہ زبان استعمال نہیں کی گئی۔اسلوب ایسا رواں دواں کہ پانی کی لہر کی طرح بہتا چلا جاتا ہے اور بہا لے جاتا ہے۔ آگ کا دریا جس کی برابری میں اداس نسلیں سے دویہ بانی تک اردو کا کوئی ناول کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔"
” دویہ بانی ایک دلت بیانیہ" ناول دویہ بانی پر ایک بہترین اور مفصل مضمون ہے جس میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے دلت کون ہیں؟، ان کا نقشہ، عادات و اطوار، رہن سہن، ان کے ساتھ روا سلوک، دویہ بانی کا اسلوب، ناول کا تانا بانا، سماجی بھید بھاؤ اور تفریق، دویہ بانی کی مکمل کہانی، اس ناول کے پلاٹ، اس ناول کے بنیادی کرداروں اور اس کے استعاراتی نظام کا مکمل جائزہ لیا ہے۔ اس ناول کے پلاٹ کے حوالے سے پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ رقم طراز ہیں:
"دویہ بانی کا پلاٹ کوئی لمبا چوڑا یا پیچیدہ پلاٹ نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی انوکھا پن ہے لیکن اس کے سماجی و تہذیبی تناظر اور فکری محور نے اسے دل چسپ بنا دیا ہے۔ مذہب کی آڑ میں سماج کے کم زور طبقے پر طبقہ اشرافیہ کے ظلم و جبر، استحصال اور سماجی نابرابری کے خلاف احتجاج اور کچھ کر گزرنے کا عزم اس بیانیہ کے پلاٹ کو بے حد جان دار اور متحرک (dynamic) بنا دیتا ہے۔ دویہ بانی کی زبان اس کے پلاٹ کے عین مطابق ہے لیکن سنسکرت کے تتسم الفاظ کا اکثر بے دریغ استعمال قارئین کی سماعت پر گراں گزرتا ہے۔"
پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے مضمون "اردو کا اہم کمیپس ناول" میں فسوں کو کیمپس ناول قرار دیا ہے اور کیمپس کی تعریف کے ساتھ ساتھ ناول کے موضوع اور کردار نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس ناول کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
"غصنفر نے فسوں میں منظر ناموں، مکالموں، جغرافیائی مناظر اور جزئیات نگاری کے ساتھ دخلیل راوی intrusive narrator کو بھی فنکارانہ شعور کے ساتھ استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں ایسا بیانیہ عرصہ narrative space عالم وجود میں آیا ہے جس کی اپیل multi sensory ہے۔ یہ ناول محض خواب اور شکست خواب کی کشاکش کے بیان کو محیط نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد انسانی شخصیت کی مختلف جہتوں کو آشکار کرنا ہے۔"
"ایک قاری کا تاثر (فسوں کے حوالے سے)" مضمون میں پروفیسر طارق چھتاری ناول فسوں کے قاری بن گئے ہیں اور انھوں نے اس ناول پر تاثرات ہی رقم نہ کیے بلکہ اس ناول کی بنیاد اور کرداروں کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ پروفیسر طارق چھتاری کے مطابق جو ناول سچے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں وہ غیر دل چسپ ہوتے ہیں لیکن غضنفر نے واقعات میں مناسب تبدیلی، کرداروں کی شخصیت میں ذرا سا اضافہ اور قصے کی صداقت میں بجا اور فطری مداخلت کرکے علی گڑھ کے ایک عہد کو تخلیقی پیکر میں ڈھال کر زندہ جاوید بنا دیا۔ فسوں کے مرکزی کردار کے حوالے سے پروفیسر موصوف لکھتے ہیں:
” یوں تو اس ناول کا ہر کردار اپنی جگہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے مگر واحد متکلم جسے تنقیدی اصطلاح میں مرکزی کردار کہہ سکتے ہیں بہت سادہ مگر بہت پیچیدہ، بہت معصوم مگر بہت زمانہ شناس، بہت سچا مگر پرفریب ہستی کا مالک اور بہت نرم دل مگر تلخ کردار کی شکل میں قارئین سے متعارف ہوتا ہے۔"
"وش منتھن ایک تنقیدی جائزہ" ایک بہترین مضمون ہے جس میں ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے وش منتھن کے آغاز اور کردار نگاری کا جائزہ لیا ہے اور اسے ایک جذباتی ناول قرار دیا ہے۔ اس ناول میں غضنفر نے تمثیلی، علامتی اور استعاراتی طرز کا جابجا استعمال کیا ہے۔ اس ناول میں غضنفر کی سوچ کو اہم قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
” وش منتھن میں حالات و واقعات یا کرداروں کی پیشکش سے زیادہ غضنفر کی وہ سوچ اہمیت رکھتی ہے جس کے ذریعے انھوں نے ہند اسلامی کلچر کے پس منظر میں مسلمانوں کے وجود کا جواز فراہم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور ایک بہتر اور خوش آئند مستقبل کے لیے قارئین کو دعوت فکر دی ہے۔"
"وش منتھن اور تطہیر ذات کا عمل "میں ڈاکٹر دانش اثری نے وش منتھن کو موضوع بنایا اور اس ناول کی خوبیوں اور مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے۔ "مم : تخلیقی تجدید کی مہم جوئی کا استعارہ" میں فرحت احساس نے مم کی تفہیم، اس کے قصے، کرداروں، خضر کا چشمہ حیوان اور آب حیات کی خبر دینا اور پانی اور مم کے غضنفر کو الگ الگ قرار دینا جیسے پہلوؤں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ فرحت احساس مم کے متعلق لکھتے ہیں:
"مم کے ساتھ تفہیمی معاملہ کرتے ہوئے سب سے پہلا سابقہ اسی لفظ "مم" کے ساتھ پڑنا ناگزیر ہے۔ اگرچہ یہ لفظ عنوان کے علاوہ پورے متن میں کہیں موجود نہیں ہے مگر مم کے عنوانی اضافے نے پورے متن کو ایک پر اسرار وسعت دی ہے۔ مم انسانی کے حیاتیاتی آغاز، اس کے عرصہ طفلی کا ایک لازمی لفظ ہے جس کے استعمال سے اس پورے قصے میں ایک سوانحی جہت پیدا ہوگئی ہے۔"
ڈاکٹر فیروز عالم نے بھی مم کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کے پلاٹ کے متعلق ڈاکٹر فیروز عالم لکھتے ہیں:
"مم کا پلاٹ حضرت آدم سے دور حاضر تک کے منتخب واقعات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ ہر دور میں زیادہ تر وسائل پر طاقت ور افراد کا قضبہ رہا ہے اور کمزور لوگ ہر دور میں پریشان حال رہے ہیں۔ ہابیل اور قابیل کا واقعہ، دیوتاؤں کے لیے تیار کیا گیا امرت پی کر راکششوں کا امر ہوجانا، بھکت پر ہلاد کا واقعہ، دھرت راشٹر کا واقعہ، حضرت محمد کا نبوت سے سرفراز ہونا وغیرہ بہت سے واقعات کا ذکر ناول میں علامتی انداز میں آیا ہے۔"
پروفیسر مولا بخش نے "غضنفر کے ناول شوراب پر ایک نظر" میں شوراب پر ایک نظر ہی نہیں ڈالی بلکہ متواتر اسے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس کی تکنیک، اس کی آئیڈولوجی، اس ناول کے کردار، شیبا کی ذہنی حالت اور کرب اور غضنفر کی زبان پر اظہار خیال کیا ہے۔ انھوں نے شوراب کو ایک فیملی ڈراما قرار دیا ہے۔ ناول کی تکنیک کے متعلق لکھتے ہیں:
"ناول میں بیک وقت واحد غائب بیانیہ اور واحد متکلم بیانیہ کی ساختوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ گویا کردار ہی واقعات کے عینی شاہد بھی ہیں اور راوی بھی۔"
"غضنفر کا تخلیقی رویہ اور شوراب" مضمون میں ڈاکٹر زبیر شاداب نے غضنفر کے تخلیقی رویوں، ان کے ناولوں کے موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربات کے علاوہ شوراب اور اس کی موضوعاتی اور فنی جہات کو موضوع بنایا ہے۔ شوراب کے متعلق لکھتے ہیں:
"ناول کے منظریہ اسلوب اور خطوط نگاری کے فن سے آدھی کے بجائے پوری ملاقات نیز قلبی ترسیل کا ذریعہ تلاش کرنا غضنفر کی تخلیقی جستجو کا ثبوت ہے۔ اگر شوراب میں خطوط نگاری کا سہارا نہیں لیا گیا ہوتا تو شاید شیبا اور شاداب کے ظاہر و باطن کے سبھی پہلو اس دیانت و صداقت سے سامنے نہیں آپاتے۔"
"غضنفر کا ناول مانجھی ایک مطالعہ" میں نور الحسنین نے مانجھی کے اسلوب، مرکزی کردار، تکنیک کو موضوع بنایا ہے اور لکھا ہے کہ دریا کی اس سیر کے آڑ میں غضنفر نے دریا کو زندگی کا استعارہ بنا دیا ہے۔ نور الحسنین اس ناول کے متعلق لکھتے ہیں:
"غضنفر اپنے اس ناول کے ذریعے زندگی کے عجیب عجیب چہرے دکھاتے ہیں۔ کہیں استحصال، کہیں لوٹ کھسوٹ، کہیں انتظامیہ خود کرپٹ ہے، کہیں نسلی امتیازات، کہیں لاقانونیت اور کہیں اقتدار کی کرسی اور اس سے چمٹے رہنے کی خواہش کہ چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ سے لگی ہوئی۔"
پروفیسر صفدر امام قادری نے”مانجھی – نئی دیو مالا گڑھنے کی کوشش" میں لکھا ہے کہ مانجھی میں غضنفر نے قدیم اسطور کی بحث شروع کی ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے غضنفر کے فکشن کا جائزہ بھی لیا ہے اور مانجھی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر صفدر امام قادری یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ غضنفر کے ناول مختصر ہوتے ہیں اور ان میں دانشورانہ لہر آتی جاتی ہے۔ انھوں نے مانجھی کو دل چسپ اور قابل مطالعہ ناول قرار دے کر غضنفر کی زبان کو سحرکارانہ بتایا ہے۔ مانجھی کے متعلق لکھتے ہیں:
"غضنفر کے ناول مانجھی کا موضوع دنیا ہے۔ گنگا، جمنا اور سرسوتی یا ناؤ کی سیر، دیومالائی حکایات وہ بھول بھلیاں ہیں جن کے پار گئے بغیر ناول کا جہان دیگر سامنے نہیں آسکتا۔"
ناول مانجھی پر ایک جامع مضمون ڈاکٹر خالد مبشر نے "مانجھی: روحانی اضطراب کا استعارہ" کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔ اس میں انھوں نے غضنفر کی فکشن نگاری، مانجھی کا جائزہ، اس کی کردار نگاری، اس کے اساطیری اسلوب اور داستانوی فضا کو موضوع بحث بنایا ہے۔ وہ مانجھی کو داستانویت سے لبریز ناول قرار دیتے ہیں. اس کے متعلق رقم طراز ہیں:
"غضنفر کا یہ ناول مانجھی جس کی اساس ہندو دیو مالا پر قائم ہے یہ گذشتہ بیس برسوں میں ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے ماحولیاتی، معاشی، تہذیبی، سیاسی اور نظریاتی انقلابات کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ یہ ناول مختلف عصری موضوعات و مسائل پر ایک زرخیز تخلیقی ڈسکورس کی عمدہ نظیر ہے۔"
"غضنفر کی خود نوشت: چند تاثرات" میں سید محمد اشرف نے غضنفر کی سوانح عمری پر اپنے خیالات رقم کیے ہیں اور دیکھ لی دنیا ہم نے کو ایک درمیان حجیم کا ناول قرار دیا ہے اور لکھا ہے اس کے ہیرو فقط غضنفر نہیں بلکہ اس کے والد، چچا، شہریار اور قاضی عبد الستار بھی بانکپن کے ساتھ ہیرو جیسی شان رکھتے ہیں۔ دیکھ لی دنیا ہم نے کی تکنیک فلیش بیک، بعض اشخاص کا ذکر محبت سے کرنے کا ذکر، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اساتذہ کا ذکر اور اس کی زبان و بیان پر سید محمد اشرف نے نگاہ ڈالی ہے۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں:
"غضنفر کی خود نوشت "دیکھ لی دنیا ہم نے" اردو کی تازہ ترین خود نوشت ہے جو اپنے اندر ناول جیسا حجم اور افسانے جیسا لطف رکھتی ہے اور اس کتاب کے لکھنے میں غضنفر نے جس صداقت کا مظاہرہ کیا اس کے با وصف یہ کتاب مدتوں یاد رکھی جائے گی۔"
باب سوم کا آخری مضمون ڈاکٹر دائم محمد انصاری کی جنبش قلم کا نتیجہ ہے جو غضنفر کی دیکھ لی دنیا ہم نے کو دوام بخشنے کے لیے کافی ہے کہ اس میں اس کتاب میں درج مختلف واقعات اور اسلوب کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے. ڈاکٹر دائم محمد کا خیال ہے کہ:
"غضنفر کی یہ خود نوشت اپنے اندر سوانحی ناول کے اوصاف بھی رکھتی ہے۔ بیانیہ کا سیال بہاؤ، واقعات کا تسلسل، کردار نگاری کی فنکارانہ مہارت اور زندگی کو اس کی رنگینوں کے ساتھ دیکھنے کا نظریہ سمیت اس کتاب میں وہ تمام ضروری اوصاف ہیں جن سے ناول کا خمیر اٹھتا ہے۔"
کتاب کا چوتھا باب فکر و فن پر اجمالی تاثرات میں مرتبہ نے بتیس بلند قامت ناقدین اور ادبا کے تاثرات اور تنقیدی آرا کو یکجا کیا ہے۔ ان میں شامل چند اہم نام دیکھ کر یہ اندازہ کرلینا مشکل نہیں کہ غضنفر کے فکر و فن کو کن نامور اور وقیع ناقدین نے موضوع بنایا ہے اور ان تاثرات کی اہمیت کتنی ہے۔ ان میں پروفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر قمر رئیس، پروفسیر شہریار، پروفسیر شمیم حنفی، سید محمد اشرف، حقانی القاسمی، ڈاکٹر ریاض توحیدی جیسے ناقدین شامل ہیں جن کے گراں قدر خیالات سے غضنفر کی ناول نگاری اور ان کی فنی باریکیوں سے قارئین شناسائی حاصل کرتے ہیں۔
غضنفر شناسی (ناولوں کی روشنی میں) نامی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ غضنفر کی ناول نگاری، ان کی فکری جہات، ان کے ناولوں کے موضوعات، ان کے نالوں کی کردار نگاری، اسلوب کے مختلف پہلوؤں، زبان و بیان کی جدت طرازیوں اور ان کے ناولوں کے تنقیدی تجزیوں کے حوالے سے یہ ایک مفید اور کار آمد کتاب ہے۔ غضنفر شناسی جیسی ضخیم کتاب کو پڑھنا مشکل ہے اور اس کا جائزہ لینا جان بازی کا کام ہے۔ اتنی ضخیم کتاب کو ترتیب دینے میں خدا جانے مرتِّبہ کو کتنی راتوں کی نیند قربان کرنی پڑی ہوگی۔ اتنی ضخیم کتاب کو ترتیب دیکھنا جانفشانی، عرق ریزی، حوصلے اور ہمت کا کام ہے اور اس میں کچھ کمیوں اور خامیوں کا در آنا خلاف توقع نہیں۔ کتاب میں بعض املا کی غلطیاں موجود ہیں جن کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کے دوسرے باب میں ایسی تحریروں کو جگہ دی گئی ہے جن میں تواتر کے ساتھ یکساں باتیں دہرائی گئی ہیں اور اس باب میں سوائے چند منفرد مضامین کے غضنفر کے حوالے سے مختلف اسلوب اور انداز اپنا کر یکساں باتیں دہرائی گئی ہیں۔ اسں کتاب کے تمام مضامین میں تنقیدی رویے اور زبان کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کتاب کی خوبی میں اضافے کا سبب ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو غضنفر شناسی کے حوالے سے یہ ایک منفرد اور مفید تنقیدی کارنامہ ہے جس سے غضنفر کے فکر و فن، ان کے ناولوں کی تکنیک، موضوعات، اسلوب اور امتیازات و انفرادات پر روشنی پڑتی ہے۔
***
ایس معشوق احمد کی گذشتہ نگارش:ابن صفی : کردار نگاری اور نمائندہ کردار _ ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے