مشاہدات زنداں از حسرت موہانی: ایک مطالعہ

مشاہدات زنداں از حسرت موہانی: ایک مطالعہ

پروفیسر صالحہ رشید

ہندستان کو ایک طویل جد وجہد کے بعد برطانوی حکومت کے اقتدار سے چھٹکارا نصیب ہوا، جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ آزادی کے متوالے جان ہتھیلی پر رکھ کر جنگ کے میدان میں کود پڑے۔خارجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کیں مگر ان کے ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے اور غلامی کے طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کے لیے انگنت مجاہدین آزادی پورے جوش و خروش کے ساتھ سامنے آئے اور ملک کو کسی بھی قیمت پر جابر حکمرانوں سے آزاد کرانے کی قسم کھائی۔ ان جیالوں میں ایک نمایاں نام سید الاحرار سید فضل الحسن حسرت موہانی کا ہے جنھوں نے انگریزوں سے سیدھے ٹکر لی اور بارہا قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ انھیں پہلی مرتبہ 1908ء میں جیل ہوئی جس کی روداد انھوں نے ’مشاہدات زنداں‘ میں محفوظ کر دی۔ اہل وطن کو اس کا مطالعہ کرنا لازمی ہے تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ حصول آزادی کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے۔ حسرت نے قید و بند میں جو جسمانی، ذہنی، فکری اور ذہنی صعوبتیں برداشت کیں وہ سب حال کے تناظر میں زیر غور ہونی چاہئیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ آزادی کے انھی متوالوں کی قربانی کا صلہ ہے کہ آج ہم آزاد ملک کی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ حسرت کے الفاظ میں:
”دوران قید میں والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے بھائی صاحب کو مجبوراً کسی نہ کسی صورت سے زر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو جو قلیل جائیداد اور اثاثہ مجھ کو پہنچتی تھی وہ بھی مجسٹریٹ علی گڑھ کے حکم سے نیلام کر دی جاتی اور سرکاری نیلام جس بے دردی اور بے پروائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اس کا نمونہ اسی مقدمہ میں لوگوں کے پیش نظر ہو چکا تھا کہ زر جرمانہ کے عوض میں اردوئے معلیٰ کا کل کتب خانہ جس کی مجموعی قیمت تین چار ہزار روپیوں سے کسی طرح کم نہ تھی، صرف ساٹھ روپئے میں برباد کر دیا گیا۔ اہل حرفہ کے متعلق یہ قانون ہے کہ حکم نیلام سے ان کے پیشے کے اوزار مستثنیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ اخبار نویسوں، ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ اس درجہ سختی کیوں روا رکھی جاتی ہے کہ ان کی نایاب اور قیمتی کتابیں نا قدر دانوں کے ہاتھ کوڑیوں کے مول فروخت کر دی جاتی ہیں۔ جرمانہ اسی قدر ہونا چاہئے جس قدر ملزم سے ادا ہو سکے۔“ (مشاہدات زنداں ازحسرت موہانی صفحہ 43)
مذکورہ بالا اقتباس حسرت موہانی کی کتاب ’مشاہدات زنداں‘ سے نقل کیا گیا ہے۔ ’مشاہدات زنداں‘ حسرت کی پہلی قید و بند کی زندگی کی روداد پر مبنی 64/ صفحات پر مشتمل مختصر کتاب ہے، جو مولانا حسرت موہانی میموریل سوسائٹی، کراچی پاکستان سے 1990ء میں شائع ہوئی۔ اس پر سید اشتیاق اظہر کا دیباچہ، اس کے بعد مشاہدات زنداں۔ نتائج، پہلا واقعہ، دوسرا واقعہ تیسرا اور اس طرح تیرہ واقعات پھر فرنگی جیل خانوں میں کالے گورے کی تمیز، پوشاک، جائے قیام اور دیگر ضروریات اور فرائض مذہبی اور عام برتاؤ عنوان کے تحت مولانا کی تحریریں ہیں۔ بہ قول سید اشتیاق اظہر مشاہدات زنداں مولانا حسرت موہانی کی خود نوشت ایام اسیری کی ایک عبرت آموز اور سبق آموز داستان ہے جو حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس کا ایک ایک لفظ اہل وطن کو راہ حق میں ہر قسم کی صعوبتیں اور مصیبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ بخش سکتا ہے۔ شیر پنجاب لالہ لاجپت رائے نے مشاہدات زنداں کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ اس میں درج واقعات ۱/ دسمبر 1909ء سے جنوری 1911ء تک اردوئے معلیٰ میں قسط وار شائع ہوئے اور اس کے بعد متعدد صورتوں میں منظر عام پر آتے رہے۔ مشاہدات زندان کی شروعات اس اقتباس سے ہوتی ہے:
”تمام بھیڑ بھاڑ کے موقعوں پر عموماً اور تیسرے درجے کے ریلوے سفر میں خصوصاً عوام اہل ہند کی جہالت اور بیکسی کا نظارہ دیکھ کر اکثر لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ان لوگوں کو سیاسی معاملات سے دلچسی حاصل ہونے کے لئے ایک عرصۂ دراز درکار ہے اور اس وقت تک آزادیِ ہند کا خیال خواب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا لیکن ہمارے نزدیک اس غلط فہمی کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ خواص کے غرور اور عوام کے انکسار کی بدولت ان دونوں کے درمیان تبادلہ خیالات کی نوبت ہی نہیں آنے پاتی ورنہ صاف ظاہر ہو جاتا کہ جمہوری اہل ہند میں سیاسی اصول کو سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد کافی مقدار میں موجود ہے۔“ (مشاہدات زندان صفحہ۱۱۔۲۱)
یہ وہی حسرت موہانی ہیں جو ؎
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
جیسے شعر کہہ کر عوام کو اپنی شاعری کا مداح بنا لیتے ہیں تو دوسری طرف مشاہدات زنداں کے ذریعہ قاری کو ظلم و جبر کی تاریک وادی کی سیر کرادیتے ہیں۔ آپ ہی نے 1921ء میں ملک کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا، جس کی گونج ہندستانی عوام کے درمیان آج بھی سنی جاتی ہے۔ 1903ء میں آپ نے اردوئے معلیٰ کے نام سے ایک معیاری رسالہ علی گڑھ سے نکالا جس کے ذریعہ مسلمانوں میں قومیت پر مبنی سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی نے ایک جاگیردار خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہائی ذہانت و فراست کے ساتھ پیدا کیا۔ مڈل کے امتحان میں آپ پورے صوبے میں اول آئے اور وظیفے کے حق دار ہوئے۔ اس کے بعد انٹرنس امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کر آگے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجے گئے۔ یہاں ایک طرف تو ان کی غیر معمولی ذہانت و صلاحیت نے ادبی حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا، وہیں دوسری جانب کالج حکام جن میں اکثر انگریزوں کے ہمنوا تھے، ان کے انقلابی تیور سے پریشان ہو کر انھیں سزائیں دینے کے بہانے تلاشتے رہتے۔1902ء کا واقعہ ہے کہ حسرت نے کالج میں ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا۔ مشاعرے میں کچھ اشعار ایسے پڑھے گئے جن پر فحش ہونے کا الزام لگا کر کالج پرنسپل نے ان کے خلاف کار روائی کی اور انھیں کالج سے نکال دیا. البتہ انھیں امتحان دینے کی اجازت دے دی۔ بی. اے پاس کر لینے کے بعد حسرت نے ادبی و سیاسی رسالہ اردوئے معلیٰ نکالا اور راست طور پر آزادی کی جنگ میں کود پڑے۔ بال گنگا دھر تلک ان کے آئیڈیل تھے۔ حسرت بغاوت اور انقلاب کے علم بردار تھے۔ اپنے سیاسی رجحان کو انھوں نے عملی شکل دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔سودیشی اسٹور اور اردوئے معلیٰ اسی کے نمونے ہیں۔انھوں نے انتہائی دلیری اور بے باکی سے جنگ آزادی میں حصہ لیا، جس کے لیے قوم نے انھیں سید الاحرار کے لقب سے سرفراز کیا۔ اردوئے معلیٰ میں آزادی کے خواہوں اور ہندستان و دیگر ممالک میں انگریزوں کی پالیسی اور حکمت عملی کا پردہ فاش کرتے مضامین تواتر سے شائع ہوتے تھے۔ یہ رسالہ بے خوف اور بے باک صحافت کے لیے جانا جاتا تھا۔ 1908ء میں مصری رہنما مصطفیٰ کمال کی موت پر اردوئے معلیٰ کا ایک خصوصی شمارہ شائع ہوا، جس میں حسب معمول برطانوی حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو لے کر سخت نکتہ چینی کی گئی تھی۔ حکومت نے اس کے ایک مضمون کے مواد کو باغیانہ قرار دیا۔ حالانکہ یہ مضمون مصنف کے نام (اقبال سہیل) کے بغیر شائع کیا گیا تھا مگر حسرت کو اردوئے معلیٰ کے مدیر کی حیثیت سے حراست میں لے کر ان کے خلاف غداری sedition کا مقدمہ درج کیا گیا۔نواب وقار الملک نے بھی اس موقعے پر حسرت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ نتیجتاً حکومت نے ان کا کتب خانہ اور پریس بھی ضبط کر نیلام کر دیا۔ حسرت کو 23/ جون 1908ء کو حراست میں لیا گیا اور ۴/ اگست 1908ء کو دو سال قید سخت کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد دو مرتبہ 1914ء اور 1922ء میں بھی وہ قید و بند کے شکار ہوئے۔ پہلی مرتبہ جیل ہونے کی روداد کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
”جیل کی حقیقت راقم کے ذہن نشین صرف اس وقت ہوئی جب 23/ جون دفعتاً بعلت سڈیشن داخل حوالات ہونا پڑا۔۔۔ ملازمان جیل کی سختیاں، گھڑکیاں اور گالیاں، غذائے زندان کی حد سے زائد ابتر حالت، حاکمان جیل کے ظلم اور بے انصافیاں ان سب کی اصلی کیفیت قیدیوں کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی۔“ (مشاہدات زندان صفحہ13-14)
مولانا جب حراست میں لیے گئے تو ان کی شیر خوار بیٹی نعیمہ بیمار تھی اور گھر پر والدہ، بیٹی نعیمہ اور ایک خادمہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ”والدہ جیل میں ملنے آئیں اور تاکید کی کہ خبر دار جیل میں تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ جب تک مقدمہ چلتا رہا ہر ہفتہ آتیں۔ بھائی صاحب کو بلوا لیا۔ میری پسند کے اخبار مجسٹریٹ کی اجازت سے جیل بھجوا دیتیں۔ انھیں اخباروں سے مسٹر تلک کی گرفتاری کا حال معلوم ہوا، جس کے افسوس میں راقم کو اپنی تمام مصیبتیں فراموش ہو گئیں۔ مسٹر تلک کے ڈفینس ایڈریس کو پڑھ پڑھ کر البتہ روح تازہ اور ہمت بلند ہوتی ہے اور مجھ کو تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس ایڈریس کی سماعت کے بعد جج انصاف سے کام لے گا تو مسٹر تلک ضرور بری ہو جائیں گے لیکن جسٹس داور کے فیصلہ نے ان ساری امیدوں کا خون کر دیا۔ اس کبیدگی خاطر کے دوران ایک رباعی کہی ؎
 طاعت ہے فرنگیوں کی جن کا دستور
کیا خاک انھیں داد گری کا ہو شعور
انصاف کے دشمن کا داور ہے لقب
بر عکس نہند نام زنگی کافور
(مشاہدات صفحہ 14) 
”حوالات میں داخل ہونے پر نو گرفتاران زندان کو سب سے زیادہ افسوسناک نظارہ حوالاتیوں کی حالت زار کا نظر آتا ہے کہ ادنیٰ ملازمان جیل ناجائز حصول زر کی غرض سے ان کی تذلیل کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔بہت سے لوگ ان میں ناکردہ گناہ پولیس کا شکار اور پہلے ہی سے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ سنگدلی کا یہ قابل نفرین برتاؤ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔قواعد جیل کی رو سے حوالاتیوں سے کچھ کام نہیں لیا جا سکتا لیکن علی گڑھ جیل میں تو جب ہم نے دیکھا کسی کو گھاس چھیلتے، کسی کو جھاڑو دیتے یا کچھ نہیں تو پانی بھرتے پایا کیونکہ ان خدمات سے انکار کا نتیجہ زد و کوب کی ذلت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگوں پر بلا ثبوت کافی محض اس لئے مقدمے قائم کئے تھے کہ انھیں سزا نہ بھی ہو گی تو کم از کم حوالات میں رہ کر ان کی آبرو خاک میں مل جائے گی۔۔۔ ایسے لوگوں کے مقدمات کو اہل پولیس ملتوی کراتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حوالات کی زندگی سے تنگ آجاتے ہیں اور بری ہونے پر بھی ایک طرح سے کافی سزا برداشت کر چکتے ہیں۔۔۔ ایک حوالاتی نے کہا کہ مجھے از راہ عداوت ڈیڑھ ماہ سے حوالات میں بند کر رکھا ہے۔۔۔ اہل پولیس کی رشوت ستانی و جبر نیز بعض با اختیار لوگوں کی بے انصافی اور نا خدا ترسی اس حد کو پہنچ چکی ہے۔“ (مشاہدات صفحہ 15-16)
حسرت 23/جون 1908ء کو علی گڑھ میں حراست میں لیے گئے اور ”مقدمے کا فیصلہ تقریباً چالیس روز کی کشمکش بیکار کے بعد ۴/اگست 1908ء سے قید سخت کا آغاز اس طرح سے کہ کچہری سے جیل واپس پہنچتے ہی ایک لنگوٹ، جانگھیا اور ایک کرتا ٹوپی پہننے کے لئے، ایک ٹکڑا ٹاٹ اور ایک کمبل بچھانے اور اوڑھنے کے واسطے اور ایک قدح آہنی بڑا اور ایک چھوٹا دیگر جملہ ضرورتوں کو رفع کرنے کی غرض سے مرحمت ہوا۔۳/ اگست کو دفعتاً تبادلہ الہ آباد کی خبر معلوم ہوئی۔“ (مشاہدات صفحہ 16)
جب حکام جیل انھیں علی گڑھ سے نینی جیل الہ آباد لے جا رہے تو ان کے والد کو خبر لگی۔ انھیں اپنے بیٹے کو الہ آباد ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لنگوٹ پہنے ہتھکڑی اور بیڑی سے آراستہ پاکر بہت رنج ہوا اور یہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔ مولانا لکھتے ہیں:
”والد کی نسبت معلوم تھا کہ وہ اپیل کی غرض سے الہ آباد ہوں گے۔ انھوں نے مجھ سے ملنے کی کوشش کی مگر ملنے نہ دیا گیا۔ انھیں میری گرفتاری کا بہت قلق تھا اور اسی رنج میں واصل حق ہو گئے۔ مجھے اس کی اطلاع نہ دی گئی۔“
”جیل میں گورنمنٹ برانچ پریس اور جیل پریس کی موجودگی سے عام طور پر یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ قیدیوں کو وہاں بھیجا جانا اس غرض سے کہ ان سے لکھنے پڑھنے کی کوئی خدمت لی جائے مگر ایسا نہ ہوا بلکہ قید کی ساری مدت روزانہ ایک من آٹا پیسنے سے سروکار رہاحالانکہ عام قیدیوں سے بھی عموماً چکی ایک ماہ یا دو ماہ سے زیادہ نہیں پسوائی جاتی۔“ (مشاہدات صفحہ 17)
”کسی کو میرے علی گڑھ سے روانہ ہونے کی خبر نہ تھی۔ٹونڈلہ اسٹیشن پر انڈین ٹیلی گراف کا ایک نسخہ لیا۔ اس کا ایک ایک جزو بڑے شوق سے پڑھا پھر جیل میں اخبار نہ ملا۔ یہ تکلیف میرے لئے بہت بڑی تھی۔ حوالات علی گڑھ میں آئے اخبار، کتابوں اور کپڑوں کی ایک گٹھری ساتھ تھی۔ راستے میں آخری بار دیوان حافظ کی زیارت نصیب ہوئی۔“ (مشاہدات صفحہ 18)
”علی گڑھ میں عینک لگانے کی اجازت تھی لیکن نینی میں عینک اتروا کر جمع کروا لی گئی۔ گویا میری دست و پائی میں مزید اضافہ کیا گیا اور میرے ساتھ آئی گٹھری نذر آتش کر دی گئی اور مجھے دفتر میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔ دفتر میں مجھے غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہوگے تو بیمار بنا کر اسپتال بھیج دئے جاؤ گے اور وہاں مار کر خاک کر دئے جاؤ گے۔“(مشاہدات صفحہ 20)
حسرت نے نینی سنٹرل جیل کی چہار دیواری کے اندر چار علاحدہ حصوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ”پہلے حصے کو نئی تکلیف کہتے ہیں جس میں زیادہ تر ان کمسن جوان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو گورنمنٹ برانچ پریس میں کام کرتے ہیں۔ دوسری پرانی تکلیف جس میں عارضی طور پر آئے ہوئے قیدی یا جنگجو و شورہ پشت لوگوں کے سوا کوٹھریوں میں قید تنہائی بسر کرنے کے لئے تمام جیل سے ہر ہفتہ کچھ قیدی آتے جاتے رہتے ہیں۔پرانی اور نئی تکلیف میں بارکوں کی وضع یہ ہے کہ ہر ایک بارک میں دو رویہ کوٹھریاں بنی ہیں اور درمیان میں ایک کھلا ہوا احاطہ ہے جسے جیل کی زبان میں اُڑگُڑا کہتے ہیں۔ یہاں قیدیوں کے نہانے اور پاخانے وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے۔ تیسرے کو نیا احاطہ کہتے ہیں جس میں دوبارہ یا زیادہ مرتبہ کے سزا یافتہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ چوتھا پرانا احاطہ جس میں ایک سے زیادہ بار کے قیدی رکھے جاتے ہیں۔ ان دونوں بارکوں میں کوٹھریاں نہیں ہیں۔ یہاں دورویہ چبوترے ہیں۔ یہاں چالیس پچاس قیدی فرصت کے وقت مل کر بات چیت کر لیتے ہیں۔ پرانے احاطے کی تکلیف سے قیدی خوف کھاتے تھے لیکن چند دنوں بعد مجھے اسی احاطے میں جانا پڑا اور تمام زمانہ قید وہیں بسر کرنا پڑا۔۔۔ قید کے دوسرے ہی دن نائب جیلر کا حکم آگیا کہ علی گڑھ والے قیدی کو پرانے احاطے بھیج دو۔ مجھے سات نمبر بارک میں بھیجا گیا کیونکہ وہاں کا برقنداز پورے احاطے میں بد زبان اور سخت گیر مشہور تھا۔ اسے حکم دیا گیا کہ اس نئی آمد کی دماغ کی گرمی نکال دو. پرانا احاطہ پوری جیل میں تشدد اور سختی کے لئے بدنام تھا مگر بمصداق دشمن اگر قوی است نگہبان قوی تر است میرے ساتھ نیکی اور مروت کا برتاؤ کیا گیا۔ یہاں برقنداز ذاکر تھا۔ چونکہ دیگر قیدیوں کو مجھ سے بات کرنے کو منع کر دیا گیا تھا اس لئے رات کو جب ذاکر سو جاتا تو شاہجہان پور کے پنڈت تلک رام پہرے والے کچھ دیر رک کر مجھ سے گفتگو کرتے۔ وہ بہت ذہین تھے انھوں نے جلدی ہی سمجھ لیا کہ اخبار کسے کہتے ہیں، sedition کیا ہوتا ہے، سدیشی اور بائیکاٹ کیا ہے اور دو ہی تین دن میں تمام بارک والوں کو میرے معاملے کی خبر ہو گئی۔ (مشاہدات صفحہ 23-25)
”تھوڑے ہی دنوں میں رمضان المبارک کی آمد ہوئی۔مسلمان قیدیوں میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔ اسلامی اخوت کا زبردست اثر زندان فرنگ میں محسوس کیا۔ذاکر کا دل پسیجا اور وہ سحر و افطار کا انتظام کر دیتا۔ دن میں بیس بیس بار پانی پی کر آٹا پیسنے والے ایک بار بھی پانی پئے بغیر چکی پیس رہے تھے۔ عید کے روز تھوڑی دیر کے لئے تمام مسلمان قیدیوں کو اجازت ملتی ہے کہ وہ جیل اسپتال میں جمع ہو کر نماز پڑھ لیں لیکن ہمیں اجازت نہ ملی اور وارڈ کے چھہ سات لوگوں نے مل کر نماز پڑھی۔"
آگے لکھتے ہیں: ”عید بقر عید محرم وغیرہ پر بھی مسلمانوں کا مطلق خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ بقرعید پر نماز نہیں پڑھی جب کہ بڑے دن پر چھٹی کے علاوہ آدھا پاؤ گڑ بھی تقسیم کیا گیا۔ انگریز قیدی بہت آرام سے رہتے ہیں۔“ کپڑے تن ڈھکنے کے لئے کافی نہیں ”مجبوراً بحالت نیم برہنگی نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔“ (مشاہدات صفحہ 39)
لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ الہ آباد سنٹرل جیل میں عید کی تعطیل کا دستور تھا لیکن اتفاق سے کنگ ایڈورڈ آنجہانی کا اعلان بابت معافی قید مجرمان بتقریب جشن پنجاہ سال حکومت برطانیہ اسی روز حکام جیل کو ملا جس نے عید کی خوشی دوبالا کر دی۔ اس کے علاوہ تعطیل کو بھی لازمی کر دیا۔ شاہ ایڈورڈ ہفتم کا فرمان تھا کہ تمام قیدیوں کی قید یا معاف کی جائے یا اس میں تخفیف ہو لیکن غالباً درمیانی لوگوں کی در اندازی کا افسوس ناک نتیجہ یہ ہوا کہ معاف تو کسی کی بھی قید نہ ہوئی البتہ ایک ماہ کے حساب سے رہائی کل قیدیوں کے ٹکٹوں پر چڑھا دی گئی مگر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ تین ماہ کے بعد روزانہ دس بیس لوگوں کی جیلیاں خارج ہونا شروع ہو گئیں جس سے شاہی اعلان کی حد درجہ سبکی ہو گئی۔
الہ آباد میں تیس کے بجائے چالیس سیر گیہوں پسواتے ہیں۔ اگر سیر میں چھٹانک آدھ پاؤ بھی کم رہ جائے تو پیشی، اگر آٹا ذرا بھی موٹا رہ جائے تو پیشی، اگر آٹے میں ذرا بھی مٹی یا پانی ملنے کا شبہ ہو جائے تو پیشی۔پانی ملائے جانے کا واقعہ اس طور کہ بعض قیدی کافی خوراک نہ پانے کے سبب مجبوراً کچا غلہ چبا جاتے اور بعد میں آٹا پورا کرنے کے لئے اس میں مٹی ملا دیتے۔
مولانا کو چکی پیسنے میں غلط وجوہات کی بنا پر طرح طرح سے سزائیں دی گئیں مگر انھوں نے اف نہ کی۔انھیں سب سے زیادہ ملال اس بات کا تھا کہ ”شب و روز میں جس شخص کا تقریباً کل وقت شغل نوشت و خواند میں گذرتا ہو اسے دفعتاً ان تمام دلچسپیوں سے یک قلم عرصہ دراز کے لئے علٰحدہ کر دینا کتنے بڑے جبر کی بات ہے۔“ (مشاہدات صفحہ ۳۳)
”قیدیوں کے مارنے پیٹنے کی قانوناً ضرور ممانعت ہے لیکن جب خود وارڈ قواعد جیل کی پابندی نہیں کرتے تو ان کے ما تحت دفعداروں سے اس کی امید رکھنا عبث ہے۔“
حسرت کے مطابق ”عوام ہند کی زیرکی تمام سیاسی مسائل کو باوجود کم علمی بلکہ بے علمی، بہت جلد اور بہت اچھی طرح اپنے ذہن نشین کر سکتی ہے۔ جس مسئلہ کا ان کے روبرو ذکر ہوا اسے وہ لوگ نہ صرف چشم زدن میں سمجھ گئے بلکہ اس کے متعلق ایسی پختہ رائے بھی ظاہر کی جس کی بظاہر ان سے کوئی توقع نہ ہو سکتی۔ سودیشی، قومی تعلیم اور پنچایت کے اصولوں کو عوام نے بلا تکلف سمجھا اور پسند کیا۔جن لوگوں کو خواص اپنے زعم میں ناپاک اور رذیل سمجھ کر تمام اعلیٰ صفات سے محروم اور تعلیم و تہذیب سے مستفید ہونے کے قابل قرار دیتے ہیں، ہم نے ان سب کو بخوبی آزما کر دیکھا اور ہمیں یہ معلوم کر کے نہایت خوشی ہوئی کہ قیود سے متعلق تقریباً کل اصول یک قلم باطل ہیں اور تہذیب و تعلیم کے نقص کا دارو مدار صرف سوسائٹی کی اچھائی یا برائی پر منحصر ہے۔“ (مشاہدات صفحہ 13)
”ہم نے اپنے قیدی دوستوں میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ ذہین و شریف و علم دوست پایا ان میں ایک پاسی، ایک کج بندھیا، ایک ہندو تیلی اور ایک مسلمان تیلی تھا۔ ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اگر ادنیٰ اقوام کو حصول علم و تہذیب کے ذرائع حاصل ہوں تو وہ لوگ بلا شبہ ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ سکتے ہیں۔“ (مشاہدات صفحہ 14)
”دس بارہ قیدیوں کو آلہا اودل از بر تھا اور دو مسلمانوں کو بھی۔ غوثو میراثی نے غوث پاک محبوب سبحانی حضرت سید عبد القادر جیلانی کی شان میں ہندی نظم گائی اس کے تخلص میں ہمارے بزرگ مولوی سید فخر الحسین فطرتؔ کا تخلص آیا۔“
عرصہ دراز کے بعد جیل میں کتاب کی شکل دیکھ کر جتنی مسرت مجھے حاصل ہوئی اس کا اندازہ کوئی آزاد شخص ہرگز نہیں لگا سکتا۔
”جیل خانوں میں عام طور پر اتوار کو چھٹی ہوتی ہے مگر الہ آباد سنٹرل جیل میں حکام جیل کو، قیدیوں کو ایک دن بھی ہفتے میں فرصت دینا گوارا نہیں کیونکہ حکومت نے قید خانوں کو اچھے خاصے کارخانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس کے ایک دن بھی بند ہونے سے جیل کی مالی امداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ مہذب ممالک میں مجرموں کی اصلاح مد نظر ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں زیادہ کام لینے، کم خرچ کرنے پر زور ہے۔۔۔ قیدیوں کی تو کوئی سنتا نہیں۔ رہے آزاد مسلمان، ان کو انگریزوں کی خوشامد اور مسلم لیگ کے ذریعہ سے خاص رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش سے کب فرصت ملتی ہے اور کبھی ملے بھی تو بھلا حکومت کے مقرر کردہ قواعد پر اعتراض کرنے کا گناہ ان سے کیوں سرزد ہونے لگا۔“ (مشاہدات صفحہ 39)
”نائب جیلر کی غضب آلود نگاہ کے اثر سے عذر کرنے والے کے ہوش و حواس ابتدا ہی میں غائب ہو جاتے ہیں۔ہنٹر آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بے رحمی دل میں۔محکمہ جیل کے ادنیٰ سے ملازم سے لے کر انسپکٹر جنرل تک سب کے سب بے رحمی اور بے پروائی کے یکساں رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں۔ انگریز سے انگریزی میں گفتگو کرنا گستاخی پر محمول تھا۔ جنڈیل صاحب فرض ادا کرنے کے طور پر بکمال تیز گامی سارے جیل کا چکر لگا کر چلے جاتے ہیں اور کوئی قیدی چوں تک نہیں کرتا۔دوسرے دن رجسٹر معاینہ میں آپ کو یہ عبارت لکھی نظر آئے گی سب قیدی خوش ہیں۔ کسی کو کچھ شکایت نہیں۔ انتظام سب اچھا ہے۔ زندانی اصطلاح میں یہ جنڈیلی دورہ کہلاتا ہے۔ اسی دوران دو ایک دن کھانا بہتر مل جاتا ہے جیسے چولائی کے ڈنٹھل کے بجائے ترکاری کے بھی دو چار قتلے۔“(مشاہدات صفحہ 40-41)
”حکام جیل مطمئن تھے کہ کم از کم ڈیڑھ برس تک تو یہ شخص ہمارے قابو میں ہے۔ جتنی سختی اس کے ساتھ چاہو کرو۔۔۔ میری رہائی میں صرف ایک ماہ بلکہ کچھ اس سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا۔ اب تو منتظمین جیل کے کان کھڑے ہوئے اور انھیں میرے ساتھ اپنے برتاؤ کی سختی کا بھی کچھ احساس ہونے لگا۔چنانچہ ایک روز خلاف معمول شام کے وقت بارک بند کرنے کے موقع پر نائب جیلر نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کو کوئی دوسری مشقت دی جائے گی اسے پسند کروگے یا نہیں؟ لوگوں کو جناب موصوف کے اس غیر معمولی اظہار لطف و کرم پر کمال تعجب تھا لیکن راقم حروف کو ان کی نیت کا حال معلوم ہو گیا تھا کہ چند روز کے لئے کسی کارخانے میں بھیجنے سے اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہے کہ مجھ سے تمام میعاد چکی پسوانے کے الزام سے بچنے کی صورت اور قسم کھانے کی گنجائش نکل آئے۔ پس میں نے تبدیلی مشقت کے اس عجیب تحفے کو قبول کرنے سے یک قلم انکار کر دیا۔“ (مشاہدات صفحہ ۴۴)
”سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھے غیر معمولی طور پر دفتر کے بجائے نئی تکلیف میں طلب کیا۔ نئی تکلیف میں پہنچ کر منشی صاحب سے معلوم ہوا صاحب بہادر میرے استقلال اور نیک چلنی سے بہت خوش ہیں اور اس لئے اپنے اختیار سے غالباً وقت مقررہ سے کچھ قبل ہی مجھے رہا کر دیں گے۔“ (مشاہدات صفحہ 47)
”میں تاریخ مقررہ سے پندرہ روز قبل رہا ہو کر شام تک الہ آباد میں ٹھہر کر مکان روانہ ہوا اور وہاں دس دن قیام کرنے کے بعد با اطمینان تمام ردولی روانہ ہوا۔۔۔ وطن پہنچ کر جہاں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کی خوشی تھی وہیں اپنے جدید دوستوں سے جدا ہونے کا کسی قدر افسوس ضرور تھا۔“ (صفحہ 48)
”الہ آباد سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر ہڈسن عجیب و غریب مزاج کے شخص تھے، گاہی بسلامی برنجند و گاہی بدشنامی خلعت دہند۔ تند خوئی اور سخت گیری ان کی ضرب المثل تھی مگر ان کا ایک خاص وصف تھا۔ قیدیوں کو نشانات رہائی عطا کرنے میں جیسی فیاضی ان سے ظاہر ہوتی تھی غالباً کسی دوسرے سے نہ ہوئی۔۔۔صفائی اور ظاہری جسمانی صحت کا لحاظ جیسا الہ آباد سنٹرل جیل میں ہوتا ہے ویسا کسی دوسری جگہ نہیں ہوتا۔۔۔ ملازمان جیل کی زد و کوب اور سختی جو زیادہ تر قیدیوں سے حصول زر کی غرض سے کی جاتی ہے اس کی بھی شکایتیں مسٹر ہڈسن کے خوف سے بہت کم سننے کو ملیں۔“ (مشاہدات صفحہ 49)
”جیل میں مختلف مقامات سے آئے ہوئے قیدیوں کے اختلاف عادات و اخلاق زبان و لہجہ کی دلچسپ کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر ان میں سے ہر شخص اپنے عجیب و غریب واقعات زندگی کی ایک مختصر سی تاریخ بھی رکھتا ہے جو اکثر اوقات مصنوعی کہانیوں سے بھی زیادہ دل پسند ہوا کرتی ہیں۔ راقم الحروف بارک بند ہونے کے بعد سے سونے تک اپنا وقت اکثر انھیں افسانوں کے سننے میں بسر کرتا تھا۔۔۔ ہندی پڑھنے لکھنے کی مشق اپنے ساتھی قیدی سے کی۔ سب اپنے اپنے ہنر پر طویل گفتگو کرتے۔“ (مشاہدات صفحہ 50)
”یہیں پر میری پہلی ملاقات سوامی شوانند سے ہوئی۔“ (مشاپدات صفحہ 21)
”الہ آباد کے پنڈت جگت دھاری چترال کی مہم میں شریک ہو چکے تھے جس کے تمام مفصل حالات سے وہ بخوبی آگاہ تھے۔ اقوام سرحد کے افعال و عادات اور معرکہ چترال کے واقعات کا ذکر وہ نہایت جوش کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ضلع جھانسی کا سُنواں کھنگار مہم تبت میں شریک رہا اور اپنے فوج میں بھرتی ہونے کے وقت سے لے کر مہم تبت کے بعد گھر واپس آنے تک کے کل حالات تھوڑے تھوڑے روز سناتا تھا۔ مہم تبت کے دوران سرکاری رپورٹوں سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ انگریزوں کا نقصان بہت قلیل ہوا لیکن سُنواں کے قول کے مطابق تبتیوں کی بنا کردہ برف پوش خندقوں میں گوروں کی صفیں کی صفیں گر کر ایسی غائب ہو جاتی تھیں کہ پھر ان کا پتہ نہ لگتا تھا۔ اہل تبت کے رسم و رواج اور وہاں کی عورتوں کے دلچسپ حالات کو سُنواں خاص لطف کے ساتھ بیان کیا کرتا تھا۔“ (مشاہدات صفحہ 51)
”کیڈ گنج الہ آباد کے گنیش اہیر روزانہ صبح بھجن وغیرہ گایا کرتے تھے۔ راقم حروف کو ان کے اکثر بھجن اور ہندی گیت بغایت مرغوب تھے خصوصاً وہ جو سری کرشن کی تعریف میں ہوتے تھے۔“ (مشاہدات صفحہ 52)
”فیض آباد کے بابا سرجو داس ہندی کے عالم اور سنسکرت سے بھی واقف تھے۔ اپنے چیلے کے فریب کی وجہ سے چار سال کے لئے قید تھے۔ انھوں نے بھی جیل میں اپنے فقیری معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔ راقم حروف کے حالات پر وہ بہت مہربان تھے۔ یہاں تک کہ خاص اپنے چبوترے کے برابر والے چبوترے پر مجھے رہنے کی اجازت دی اور میرے مسلمان ہونے کا مطلق خیال نہ کیا۔“ (مشاہدات صفحہ 54)
”ضلع الہ آباد کے بہاری برقنداز کو انگریزی پڑھنے کا شوق تھا۔ روز شام کو وہ مجھ سے سبق لیا کرتے تھے۔لوہار خانے میں ان کی مشقت تھی جہاں سے روز تھوڑی سی پیاز اور نمک مرچ میرے لئے لانا انھوں نے اپنے اوپر لازم کر لیا تھا۔“ (مشاہدات صفحہ54)
”چیلر برقنداز قوم کا پاسی الہ آباد کا باسی تھا اور ذاکر کے جانے کے بعد آخر تک ہماری بارک کا برقنداز رہا۔ جیسا شریفانہ سلوک چیلر نے میرے ساتھ کیا کہ اکثر میں خیال کرتا تھا کہ طینت کو نیکی اور بدی کو ذات پات کے قیود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تعلیم کا شوق بھی جیسا میں نے چیلر میں دیکھا ویسا کسی دوسرے شخص میں نہیں دیکھا۔ محمد اسمٰعیل صاحب میرٹھی کی ریڈروں کو پڑھ پڑھ کر اس نے اردو میں اچھی خاصی مہارت پیدا کر لی تھی۔“ (مشاہدات صفحہ ۵۵) ایک سال کے عرصے میں ہزاروں ایسے واقعات اور سینکڑوں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کا حال لکھنا دلچسپی سے خالی نہیں۔
حسرت نے نینی جیل میں گذاری یک سالہ زندگی کے تجربات کی بنا پر جیل کے حالات کی بہتری کے بارے میں سوچا اور چند تجویزیں بھی پیش کیں۔ انھوں نے لکھا کہ ”سزا دہی اور سختی کے جتنے قواعد ہیں ان کی تو ایک ایک حرف کی پابندی اکثر اوقات ضرورت سے زیادہ کی جاتی ہے لیکن جو قاعدے ان کے مفید مطلب ہیں ان کا کسی کو خیال تک نہیں آتا۔ ان کی فکر قیدیوں کے کھانے اور پہننے کے انتظام میں اصلاح کو لے کر ہے۔ جیل میں فحش الفاظ اور گالیاں بہت رائج ہیں کیونکہ مار پیٹ پر سزا ہو جاتی ہے مگر مغلظات بکنے پر نہیں۔عیسائیوں کو مذہبی تعلیم ہر ہفتہ دی جاتی ہے۔ اگر مسلمانوں اور ہندؤں کو بھی دی جائے تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ اکثر قیدی پڑھنے کے شوقین ہیں لہٰذا ان کی تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے۔ قیدیوں سے ان کی طاقت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے مثلاً الہ آباد سنٹرل جیل کے رینڈی خانے میں قیدی طلوع آفتاب سے لے کر اکثر اوقات غروب آفتاب تک چند پیسوں کی خوراک کے بدلے کام کرتے ہیں۔ پولیٹیکل قیدیوں پر عام قیدیوں سے زیادہ سختی کی جاتی ہے اور وہ جیل خانے کی تمام جایز رعایتوں سے محروم رہتے ہیں۔ انھیں پڑھنے لکھنے کی رعایت دی جانی چاہئے۔“ (مشاہدات صفحہ57)
فرنگی جیل خانوں میں گورے اور کالے کی تمیز عنوان کے تحت لکھتے ہیں ”رنگ کا فرق تعصب یا غرور کے سوا کچھ نہیں۔ افسوس ہے کہ رنگ کے اس بیجا امتیاز کا دائرہ اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ عدالت ایوان اور جیل کی کوٹھریاں بھی اس کی حدود کے اندر آ گئی ہیں۔ عدالتوں میں گوروں کے ساتھ رعایتیں اور کالوں پر سختیاں قانوناً جائز رکھی جاتی ہیں۔ یہ امتیاز صرف جیل میں ہی گوروں کالوں کی خوراک پوشاک جائے قیام اور دیگر ضروریات فرائض مذہبی اور عام برتاؤ سب میں نا برابری برتی جاتی ہے۔ بعض آوارہ مزاج گوروں کے لئے گھر سے زیادہ جیل آرام دہ ہوتی ہے۔“ (مشاہدات صفحہ63)
مولانا حسرت موہانی کی ۴/اگست 1908ء کو ہوئی پہلی قید اس لیے اہم ہے کہ نینی جیل سے رہائی کے بعد اردوئے معلیٰ میں ’مشاہدات زنداں‘ کے عنوان سے ایک قسط وار مضمون لکھا۔ بعد میں علامہ نیاز فتحپوری نے اسے نگار میں شائع کیا۔ ان واقعات کی اشاعت سے پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی اور عوام میں غصہ کی لہر پیدا ہو گئی۔ جسے دیکھتے ہوئے حکومت یو پی کو جیل خانوں کی اصلاح کرنی پڑی ساتھ ہی ایک جیل اصلاح کمیشن تشکیل دینا پڑا اور اس کی رپورٹ پر اصلاحات ہوئیں۔ بعد میں جب پنڈت نہرو نینی جیل میں قید ہوئے تو اس جیل کے حالات کافی بدل چکے تھے۔ یہاں ضمناً پنڈت نہرو کی قید و بند کی زندگی مختصراً بیان کر دینی ضروری ہے۔ نہرو کو ان کی پوری زندگی کے دوران ۹/ مرتبہ جیل ہوئی۔ پہلی مرتبہ انھیں ۶/ دسمبر 1921ء سے ۳/ مارچ 1922ء تک یعنی 87/دن تک جیل میں رہنا پڑا۔ واقعہ یہ تھا کہ پرنس آف ویلز نے بھارت کا دورہ کیا اور کانگریس نے اس دورہ کی مخالفت کی۔ انگریزی حکومت کانگریسیوں پر سختی دکھانے لگی۔ سربراہوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔ حالت یہ تھی کہ پرنس جب الہ آباد پہنچا تو سڑکیں گلیاں ایک دم ویران پڑی تھیں۔ ۶/ دسمبر کو پولیس آنند بھون پہنچی اور جواہر لعل اور ان کے والد موتی لعل نہرو کو گرفتار کر لیا۔ جواہر لعل کو ۶/ ماہ جیل اور سو روپیہ جرمانہ کی سزا ملی۔ انھوں نے جرمانہ دینے سے انکار کر دیا۔ انھیں لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل میں قید کر دیا گیا۔ دوسری مرتبہ ۱۱/مئی 1922ء کو جب کانگریس بدیشی کپڑوں کے استعمال کی مخالفت کر رہی تھی تب نہرو الہ آباد ڈسٹرکٹ جیل میں ڈال دیے گئے اور 266/ دنوں کے بعد 31/ جنوری 1923ء کو رہا ہوئے۔ تیسری مرتبہ ۲۲/ ستمبر 1923ء کو نابھا جیل میں قید ہوئے۔ معاملہ یہ تھا کہ نابھا اور پٹیالہ دو ریاستوں کا آپس میں جھگڑا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزی حکومت نے نابھا کے راجہ کو گدی سے ہٹا دیا اور ریاست کو چلانے کے لیے اپنا آدمی مقرر کر دیا۔ اس پر سکھ بھڑک گئے۔ سکھوں کے کئی جتھے نابھا پہنچے۔ انگریزوں نے ان پر مظالم ڈھائے۔ جواہر لعل خبر پاکر نابھا کے لیے روانہ ہوئے۔ پولیس نے انھیں وہاں سے نکل جانے کو کہا مگر وہ نہ مانے اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ 12 / روز کے بعد 4/ اکتوبر 1923ء کو وہ رہا ہوئے۔ چوتھی بار وہ 14/اپریل 1930سے 11/ اکتوبر 1930ء تک الہ آباد کی نینی سنٹرل جیل میں 181/ دنوں تک قید رہے۔ ہوا یوں کہ فروری 1930ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے گاندھی جی کی سول نافرمانی تحریک کو شروع کرنے کی حامی بھر لی۔ گاندھی جی اپنے ہمنواؤں کے ساتھ ڈانڈی یاترا پر روانہ ہو ئے۔ جواہر لعل نہرو لوگوں کو اکٹھا کرنے میں لگ گئے۔ اس وقت جس طرح لوگوں کا ہجوم امنڈ پڑا، انگریز اسے دیکھ کر پریشان ہو گئے اور انھوں نے سختی بڑھا دی۔ 14/اپریل 1930ء کو نہرو رائے پور ہندی سمیلن میں شرکت کی غرض سے جا رہے تھے، تبھی راستے میں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ پانچویں مرتبہ انھیں تب جیل ہوئی جب وہ کسانوں کو ایک جٹ کر رہے تھے اور یہ اپیل کر رہے تھے کہ وہ انگریز سرکار کو ٹیکس نہ دیں۔ اس مہم کے دوران انھیں گرفتار کر ان پر بغاوت sedition کا مقدمہ چلا۔ دو سال قید با مشقت ہوئی اور جرمانہ بھی عائد کر دیا گیا۔ یہ قید 19 / اکتوبر 1930ء  سے 26/ جنوری 1931ء تک یعنی سو دن کی تھی۔ اسی قید کے دوران انھوں نے اپنی بیٹی اندرا کو مستقل خطوط لکھے۔ چھٹی مرتبہ نہرو 26/ دسمبر 1931ء سے 30 / اگست 1933ء تک نینی جیل میں تقریباً 614/دنوں تک قید رہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہندستانی کسانوں سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ زمین داروں کو لگان دینا بند کردیں، جب تک سرکار کسانوں کی پریشانیاں دور نہیں کرتی۔ یہ اپیل کار گر ثابت ہوئی۔اسے دبانے کے لیے یونائیٹیڈ پراونس کی سرکار ایک آرڈیننس لے آئی جس کی رو سے کسان اگر لگان دینے سے انکار کرتا ہے تو یہ جرم مانا جائے گا۔ نہرو پر الہ آباد سے باہر نہ نکلنے اور کسی بھی طرح کی سرگرمی میں شامل نہ ہونے کا فرمان نافذ ہوا۔ نہرو نہیں مانے اور گرفتار ہوئے۔ ساتویں مرتبہ انھیں 21/ فروری 1934ء سے 3/ستمبر 1935ء تک نینی جیل میں قید کر دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ 17 اور 18/جنوری کو نہرو کلکتہ گئے تھے اور وہاں کے البرٹ ہال میں کچھ جلسے کیے۔ ان میں کی گئی تقریروں کی بنا پر انھیں الہ آباد سے گرفتارکر بغاوت sedition کا مقدمہ چلایا گیا۔ نہرو نے اپنے بچاؤ میں کہا کہ اگر اس بغاوت کا مطلب بھارت کی آزادی ہے اور اگر اس کا مطلب بدیشی غلامی کے سارے نشان کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے تو بے شک میں نے راج دروہ sedition کیا ہے۔ آٹھویں مرتبہ 31/اکتوبر 1940ء سے 3 /دسمبر 1941ء تک 399/دنوں کی قید ہوئی اور نویں مرتبہ 9/ اگست 1942ء سے 15 /جون 1945ء تک بھارت چھوڑو تحریک کے دوران 1041/دنوں کی قید ہوئی۔
مولانا حسرت موہانی نے طویل عمر پائی اور ہندستان کی جد و جہد آزادی سے لے کر آزاد ہندستان کی سیاست میں بہت اہم رول ادا کیا۔ آپ ہی نے 1921ء میں ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا اور انگریزی راج سے مکمل آزادی کی آواز بلند کی۔ انقلاب زندہ باد کے نعرہ نے اس وقت لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی جب بھگت سنگھ (1907ء تا 23 مارچ 1931ء) نے دہلی میں مرکزی اسمبلی کے اجلاس میں انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے بم دھماکہ کیا۔ در اصل اس وقت اسمبلی میں دو بلوں پر غور کیا جانا تھا۔ پبلک سیفٹی بل جس میں حکومت کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے گرفتار کر سکتی ہے دوسرے ٹریڈ ڈسپیوٹ بل جس میں ٹریڈ یونینوں کو ہڑتال پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ بھگت سنگھ ان دونوں بل کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اگر آج بھی زبان زد خاص و عام ہے تو یہ انھیں عظیم شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی بدولت ہے۔ حصول آزادی کے بعد مولانا رکن پارلیمنٹ بھی رہے مگر ملک کی سیاست سے وہ کبھی مطمئن نہ رہے اور بالآخر 13/مئی 1951ء کو انھوں نے اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیا۔
مشاہدات زنداں کی بابت ان کا یہ قول قابل غور ہے:
”نو گرفتاران مصیبت کو کچھ روز تک مشاہدات زنداں میں عذاب دوزخ کا نمونہ نظر آتا ہے۔“ (مشاہدات صفحہ ۵۴)
’مشاہدات زنداں‘ حسرت موہانی کی فقط ایک سال کی قید و بند کی زندگی کی روداد ہے۔ اس کا وصف یہ ہے کہ اس کی قرأت کے ساتھ قاری کو ماضی اور حال ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ذرا سوچئے وقت بدلا، چہرے بدلے، حتیٰ کہ صدی بدل گئی مگر حالات پر لگے استفہامیہ نشان آج بھی حسب سابق موجود ہیں۔
***
صالحہ رشید کی گذشتہ نگارش: سر سید کا تعلیمی نظریہ اور الہ آباد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے