آلو کا پراٹھا

آلو کا پراٹھا

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

مہر علی صاحب پر اللہ کا بڑا کرم تھا. نیک، متین خوش طبع انسان ہونے کے علاوہ اسلامیات اور انگریزی پڑھانے میں ماہر قابل استاد بھی تھے. اپنے والدین کی ایک مگر نیک اولاد، اس لیے ان کی زندگی میں بھی ان کی ساری خوشیوں اور محبت کا محور و مرکز مہر علی ریے، وفات کے بعد بھی پانچ مرلے کے گھر کے ساتھ جو کچھ ان کا تھا سب مہر صاحب کو ملا، والدین کی زندگی میں ہی بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے تھے، شادی بھی ان کی پسند سے کی، زوجہ بھی ایسی کہ ہر کام میں ماہر، اوپر سے سادہ اور قناعت پسند، لہذا ثواب دارین حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ساری زندگی درس و تدریس کرتے کرتے گزار دی. بہت جاں فشانی سے پڑھاتے. طالب علم کتنا بھی نالائق ہوتا ان کے ماتھے پر کبھی تیوری نہ چڑھتی، تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ پھر خاموشی اختیار کر لیتے، کچھ با ادب بامراد کے مظہر طالب علم خاموشی کو خفگی سمجھ کر خود کو ٹھیک کر لیتے اور کچھ خود بھی خاموشی سے اپنی ناہلی پر ڈٹے رہتے لیکن مہر علی ایک دو بار کہنے کے بعد کبھی کچھ نہ کہتے. ان کا در ہر طرح کے طالب علم کے لیے کھلا رہتا، صبح اسکول شام کو ٹیوشن، ایک جم غفیر ماسٹر صاحب کےعلم سے مستفید ہونے کا دعویدار تھا. جب بات آئی اولاد کی تو وہاں بھی مہر علی کو اللہ نے نعمت اور رحمت دونوں سے نوازا.
سعادت مند بیٹا صلاح الدین اور بیٹی صالحہ، دونوں کو سماج میں سر اٹھا کر جینے کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے مناسب جگہ شادی کردی، اللہ اللہ خیر صلا.
انسان کی منصوبہ بندی کتنی بھی اچھی اور مضبوط ہو مشیت ایزدی کے سامنے بھلا کہاں ٹکتی ہے، دونوں بہن بھائی میں دو سال کی چھوٹائی بڑائی تھی لیکن اتفاق سے دونوں کی شادی ایک ساتھ ہی قسمت میں لکھی تھی. میاں بیوی بہت خوش تھے کہ ابھی تو ریٹائر بھی نہیں ہوئے اور دونوں بچوں کے فرائض سے سبک دوش بھی ہوگئے. ریٹائرمنٹ میں پانچ سال باقی تھے کہ اچانک اہلیہ کے گردے میں درد اٹھا، پتھری اور سوجن کی تشخیص ہوئی، ڈاکٹرز کے چکر لگے، بہتیرے علاج معالجے کیے، جمع پونجی پانی کی طرح بہا ڈالی، سرکاری قرضے کی درخواست بھی گزاری، مگر اس کے پاس ہونے سے پہلے ہی گردے فیل ہوگئے. بظاہر چھوٹی سی بیماری مرض الموت ثابت ہوئی. دیکھتے ہی دیکھتے صحت مند خوبرو ناہید بانو دنوں میں
چٹ پٹ ہوگئیں.
ماسٹر صاحب بالکل بت بن گئے، بالوں میں خضاب لگانے والی چلی گئی تو سارے بال ایک دم سفید روئی سے نکل آئے، غم میں داڑھی بھی بڑھ گئی، مہر علی 56 سال کی عمر میں ابا جی سے بابا جی لگنے لگے، ایک سال تو لگا زخم بھرتے بھرتے، بیٹا بہو، ان کے دو بچے دادا کے آگے پیچھے پھرتے ان کا دل بہلاتے، وقت کی یہ ہی تو خوبی سب سے اچھی ہے کہ زخم جتنا بھی گہرا ہو بھرجاتا ہے. نشان بھلے کم نہ ہو مگر درد کم ہوجاتا ہے. ویسے بھی موت سے بڑی حقیقت کوئی نہیں. مہر علی بھی اللہ توکل انسان تھے، صابر شاکر، سب دل پر جھیل گئے، منہ سے ایک لفظ شکایت کا نکلا، نہ آنکھ سے آنسؤوں کی برسات، وقت بے وقت جھڑی.
بیٹا تو صاحب اولاد ہوگیا مگر بیٹی تا حال اولاد کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہوئی تھی، لہذا وہ بچوں کی پابندیوں سے آزاد تھی، ہفتے میں ایک دو چکر باپ کے پاس لگا جاتی، شوہر نے کبھی کوئی روک ٹوک نہ کی، اس کی ملازمت اچھی تھی، بیوی کو گاڑی دے رکھی تھی، اس پر ہی آتی جاتی، اس لیے راستے کی مشکلات بھی در پیش نہیں تھیں کہ منع کرتے. دن گزرنے تھے، گزر گئے.
اہلیہ کے ساتھ حج کا پروگرام بنایا تھا لیکن اب دل اچاٹ سا ہوگیا کہ تنہا کیا جانا، ویسے بھی بہت لمبا طریقۂ کار ہے. ریٹائرمنٹ کے بعد دیکھیں گے. صالحہ اپنی بے اولادی کے غم میں مبتلا تھی اس پر سوا، ماں کے مرنے کا دکھ، عجیب حال بنا لیا تھا، نہ جانے کن سوچوں میں گم رہتی، باپ، بھائی بھاوج سب نے اسے خود کو مصروف رکھنے کا مشورہ دیا، شوہر احتشام نے بھی مختلف کورسز کرنے پر زور دیا، سب کے کہنے پر اس کے کھانا پکانے کے شوق نے ہوا پکڑی تو شوہر نے صاف منع کر دیا کہ ” مجھے نہیں پسند کپڑوں سے پیاز لہسن کی بو آئے یا ہر وقت کھانے پر ہی زور ہو، کم اور سادہ کھانا ہی اچھی صحت کا ضامن ہے" حالانکہ کھانا پکانا صالحہ کے نزدیک ایک ہنر ہی نہیں ایک بہت دل چسپ شوق بھی تھا، لیکن شوہر کی عدم دل چسپی نے اسے اپنےاس شوق سے کوسوں دور کردیا تھا، باورچی خانے میں بھی بس جھانکنے جایا کرتی، احتشام نے ڈریس ڈیزائننگ کا تذکرہ کیا کہ بوتیک کھول لو، لیکن اس کام میں بکھیڑے بہت تھے، کاریگر ڈھونڈو، کپڑوں کا میٹریل اچھے قسم کا ہو، جدید فیشن سے واقفیت ہونا لازمی ہے، پھر اتنے برانڈز کی موجودگی میں جگہ بنانا، ہر وقت کسٹمر کے ساتھ سر کھپانا، سب باتیں صالحہ کو صرف وقت اور پیسے کا زیاں لگ رہا تھا، لہذا اس کام سے انکار کردیا.
پھر جب ایک دن ٹی وی لاؤنج میں نصب قد آدم آئینے پر اچانک اس کی نظر خود پر پڑی تو صالحہ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ تو بہت بجھا بجھا نظر آرہا ہے، کوئی رعنائی نہ دل کشی، تازگی نہ بشاشت، ابھی تیس سال کی ہی تھی مگر اسے لگا کہ وہ بوڑھی ہو رہی ہے، پھر شوہر کا خیال آیا تو اس سے دوسال بڑا احتشام خود سے چھوٹا دکھائی دیا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بیوٹیشن بنے گی اور بیوٹی پارلر کھولے گی.
اب اس کا سارا محور و مرکز خوب صورت بننے کے ٹوٹکے اور ٹریٹمنٹ بن چکے تھے. رسالوں میں بھانت بھانت کے سیلون ڈھونڈے جاتے، ان میں موجودہ سہولتیں سوچی جاتیں، صالحہ ایک بہترین اسپا کی معلومات حاصل کرنے میں سرگرداں ہوگئی. سب سے پہلے تو اس نے ابا کے بالوں کو رنگنے کی بات کی تو ابا نے سختی سے منع کردیا کہ بیوٹیشن بننا کوئی کام ہے، کرنا ہے تو کوئی ڈھنگ کا کام کرو.
ابھی یہ سب سوچ بچار چل رہی تھی کہ احتشام نے بم گرایا کہ وہ دبئی شفٹ ہورہا ہے لیکن اکیلے، سب حیران رہ گئے کہ بیوی کے ہوتے ہوئے اکیلے؟ والدین کے پاس تو اور بہن بھائی ہیں پر یہ اکیلی تنہا عورت ذات کو چھوڑ کر کیوں کر دبئی رہے گا، لیکن سرپرائز زیادہ دیرتک قائم نہیں رہا، احتشام نے اپنے مالک کی بیٹی سے دوسرا نکاح کر لیا تھا اور اب اپنے دوسرے سسر کے کاروبار کو سنبھالنے کے سلسلے میں دبئی منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا، صالحہ کو دھچکا لگا مگر تھوڑا سا، پھر جیسے وہ بھی باپ کی طرح بت بن گئی، اسے اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی، سات سال سے ازداوجی تعلق کے ساتھ ساتھ بہت گہری دوستی اور محبت، احتشام نے بھی بھرپور ساتھ دیا بس چھپائی تو یہ ہی بات، یا شاید اصل بات ہی چھپا گیا، صالحہ کو محسوس ہوگیا تھا کہ اولاد کی خواہش عورت کو ہی نہیں مرد کو بھی برابر کی ہوتی ہے اور وہ اتنے سالوں میں ماں بن سکی نہ احتشام کو باپ بنا سکی. اس لیے صالحہ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا، کوئی سوال نہ جواب، ایک دن شوہر کو اچھا سا ناشتہ کروا کر دفتر بھیجنے کے بعد خاموشی سے اپنی کچھ ضرورت کی چیزیں سمیٹیں، کسی سے کچھ کہے سنے بنا، رکشہ پکڑا اور اپنے باپ کے گھر آن پہنچی، بیٹی کو اس طرح منہ لٹکائے دیکھ کر باپ کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی، لیکن بولتے بھی تو کیا، باپ بیٹی خاموش، احتشام نے گھر آکر صالحہ کو بہت منایا کہ وہ گھر تمھارا ہے میں ہر دو تین ماہ بعد چکر لگاتا رہوں گا، تم میری بیوی ہو، تمھارا پورا حق ہے میں تمھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا، صالحہ کے بھائی صلاح الدین نے پہلی مرتبہ بہن کے کسی معاملے میں بولنے کی کوشش کی تو بہن نے بڑی ہونے کے حق سے چپ کروا دیا، احتشام نے دبئی شفٹ ہونے سے پہلے کئی چکر لگائے مگر بے سود، صالحہ کا چپ کا روزہ نہ افطار ہوا، آخر فیصلہ طلاق پر منتج ہوا. احتشام نے بھاری دل سے منع کیا، بہت ٹالا کہ کچھ عرصے سوچ لو، اس نے صالحہ کے سارے زیورات گہنے، کپڑے، جوتے ضرورت کی تمام اشیا جو صالحہ کے تصرف میں تھیں بہت ایمان داری سے اسے پہنچا دیں، کیونکہ جو بےایمانی وہ کر چکا تھا، اس کے مقابلے میں باقی سب ہیچ تھا، اچھی خاصی رقم بھی صالحہ اور اس کے والد کے منع کرنے کے باوجود اکاؤنٹ میں ڈلوا دی. یہ آخری حربہ تھا کہ شاید صالحہ مان جائے اور طلاق کی ضد چھوڑ دے لیکن صالحہ کے اندر احتشام کی محبت واقعی دم توڑ چکی تھی، سچ تو یہ ہے لوگ ہی نہیں رشتے بھی مرتے ہیں. اس لیے اس رشتے کی منطقی موت بھی طلاق ہی ثابت ہوئی.
صالحہ اپنے والد کے ساتھ شام کو بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی. صبح سارے گھر کا کام کرتی، اس کے سارے کورسز کرنے کے منصوبے بند ہوگئے، بوتیک، کوکنگ اور بیوٹیشن کے خواب؛ سب چکنا چور ہوگئے یا اس نے خود ہی کردیے، صالحہ کو والد کی روش پر چلنا پسند آگیا، بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر خوش ہوتی، دونوں باپ بیٹی مل کر پڑھاتے حتیٰ کہ ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچا اور فیصلہ ہوا کہ پہلے مہر علی اور ان کی اہلیہ ناہید بانو نے حج پر جانا تھا لیکن اب ان کے ساتھ صالحہ جائے گی.
اسکول میں آخری دن ایک تقریب منعقد کی گئی، ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور مہر علی صاحب کو سارے اسکول اسٹاف نے مختلف تحفے تحائف دے کر بہت احترام و تکریم کے ساتھ رخصت کیا.
گھر پہنچے تو دل بوجھل تھا. جس دن کا انتظار تھا، وہ بخیر و خوبی آگیا، یہ وہی دن تھا جس کے بعد ان کی پلاننگ بہت طویل تھی کہ "بیوی کے ساتھ سارا دن گھر کے کام میں مدد کروائیں گے، خوب کھل کر باتیں کریں گے، ہر وہ شوق پورا کریں گے جس کا وقت جوانی میں نہیں مل سکا تھا، دونوں حج کی سعادت بھی حاصل کریں گے" لیکن آج صرف ریٹائرمنٹ ہوئی، یہ اسکول کا اخری دن تھا مگر باقی کاموں کی شروعات کا دن بھی تھا. ناہید بانو کے اچانک چلے جانے کے بعد یہ زندگی کی آخری پلاننگ بن گئی تھی، کیونکہ اب مہر علی کے سامنے صرف بے کار لمبے دن اور اداس تنہا راتیں تھیں، دو چار دن مہر علی بجھے بجھے خاموش رہے، جیسے بالکل خالی ہوگئے ہوں لیکن پھر بھی بیٹے بہو اور پوتوں سے باتیں کر لیا کرتے، پوتوں کو پڑھاتے اور مذاق بھی کرلیتے، لیکن صالحہ کے احتشام سے جدائی کے بعد منہ پر قفل لگ گیا تھا، ہوں ہاں کے علاوہ کوئی لفظ سننے کو نہیں ملتا بالکل چپ چاپ، دیواریں گھورتے رہنا.
صالحہ کے مستقل آنے کے کچھ عرصے بعد مہر علی نے بیٹے بہو سے کہا اگر چاہو تو دوسرے پورشن میں الگ کھانا پکا نا شروع کر لو، تاکہ صالحہ کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ ہو. اور یہ ہی سب کو مناسب لگا. صالحہ بولتی نہیں تھی، کھوئی کھوئی رہتی، لیکن اس کا یہ کھویا پن صلاح الدین اور اس کی بیوی بچوں کے لیے بے زاری کا سبب تھا، اس کا اندازہ مہر علی نے بنا کسی کے کچھ کہے بتائے لگا لیا تھا.
یہ فیصلہ واقعی مناسب تھا، کیونکہ دھیرے دھیرے باپ کی فرمائش پر صالحہ نے باورچی خانہ سنبھال لیا، پھر روز کھانے کی رنگارنگ ڈشز تیار کی جانے لگیں، مختلف مصالحہ جات کی خوشبوئیں ان کے گھر سے باہر تک پھیل جاتیں، صالحہ روز نت نئے کھانے پکا کر مطمئن نظر آنے لگی تھی، ماسٹر صاحب بھی تعریف کرتے اور لطف اندوز ہوتے بلکہ بسا اوقات تو اس کے ساتھ سبزی بنواتے اور کھانا پکانے میں ہاتھ بٹاتے، شام کو بچے پڑھنے آجاتے، باپ بیٹی کو وقت گزارنے کے اچھے مشاغل مل گئے، ریٹائر ہوئے تین چار ماہ گزر گئے، مہر علی پینشن کے کاغذات کا انتظار کرتے رہے، مگر جب چار ماہ گزرنے کے باوجود سرکار کی طرف سے گریچوٹی فنڈ اور پینشن کا حکم صادر نہ ہوا تو تشویش ہوئی کہ آخر جا کر پتہ تو کیا جائے.
بس اس کے بعد سے ایجوکیشن بورڈ کے دفتر کے چکر پہ چکر، کبھی کوئی کاغذ کم کبھی کوئی، کبھی کہیں دستخط کبھی کہیں، یہ انکوائری کبھی وہ انکوائری، اچھا خاصا گھن چکر بن گئے. دو ماہ جوتے چٹخاتے رہے مگر کار ندارد، بیٹے کی تنخواہ اچھی تھی، باپ بہن کا پورا خیال رکھتا، صالحہ کے پاس بھی پیسے بہت تھے، ان کے حالات باقی ریٹائرڈ دوستوں سے کئی گنا اچھے تھے، اس لیے چھ ماہ بنا کسی مالی مشکل کے گزر بھی گئے لیکن مہر علی خود رار آدمی تھے، ساری زندگی خود کمایا، سب کو کھلایا، جس شخص نے میٹرک کے بعد سے باپ سے ایک روپیہ نہ مانگا ہو وہ اپنے بیٹے بیٹی کی کمائی کیسے کھاتا، آخر ایک دن ان کے دکھ کی تلافی کا سامان ہوگیا ایک درمیانی عمر کا افسر ظفر احمد تبادلہ ہوکر آیا، مہر علی کو دیکھتے ہی بولا: "میاں جی اتنے چکر لگانے سے بہتر تھا کہ کوئی اور چکر چلاتے. "
"کیا مطلب؟" مہر علی نے حیرت سے پوچھا.
"ارے محترم ایک گڈی ہزار ہزار کے کڑک نوٹوں کی دیتے، 24 گھنٹے میں نہ سہی 48 میں تو ہو ہی جاتا"
اتنا صاف گو افسر، مہر علی کو اپنے بودے پن کا افسوس ہوا کہ اتنی سی بات کیوں نہ سمجھے، وہ بے چارے یہ سمجھتے رہے کہ ان کی شرافت ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جب کہ ان کی وہ کند چھری تو جو صرف انھیں کاٹنے میں لگی تھی، خیر انھوں نے اس افسر کو پورے پچاس ہزار دینے کا وعدہ کیا کہ ایک ہفتے میں کام کروا دے، کیونکہ جائز کام کے لیے بھی ناجائز طریقہ استعمال کرنا پڑے، تو عوام کی معافی بنتی ہے، باقی اللہ سب جانتا ہے.
ٹھیک تین دن بعد ایک رات اچانک وہ افسر شدید بارش میں گاڑی بھگاتا ان کے گھر آن دھمکا، چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجا کر بولا کہ "آپ کی فائل لایا ہوں دیکھ لیجیے، سارے کاغذات پورے کرواکر لایا ہوں، بہت سے دستخط کرنے تھے، سوچا دستخط بھی کروالوں گا اور نذرانہ بھی وصول کرلوں گا."
یہ کہتے ہوئے اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی. مہر علی صاحب سٹپٹا کر رہ گئے. چارو ناچار رات اسے گھر ٹھہرانا پڑا، خوشی کی بات یہ تھی کہ وہ رات کا کھانا کسی بڑے افسر کے گھر سے کھا کر آیا تھا. کیونکہ خود کو روکنے کی از حد کوشش کے باوجود ڈکار پر ڈکار مارے جارہا تھا، لگ رہا تھا کھانا کھا کر نہیں تہہ در تہہ ٹھونس کرآیا تھا جو سانس لینا بھی مشکل ہورہا تھا، اس نے مہر علی کو ساری فائل تھما دی کہ "سارے کاغذات چیک کر لیجیے تاکہ پھر انھیں کبھی کوئی چکر نہ لگانا پڑے" اس دوران ظفر احمد کو کولڈ ڈرنک پیش کی گئی، اس نے بھی آدھا لیٹر کی بوتل پوری پی کہ زود ہضم ہے، جب ڈکاریں بند ہوئیں تو چائے کا کہا، وضع داری میں خالی چائے پیش کرنا مناسب نہیں تھا بسکٹ بھی رکھے گئے. پلیٹ کے سارے بسکٹس کھا گیا، پھر سونے پہ سہاگہ، سونے سے پہلے نیم گرم دودھ کا بھرا ہوا بڑا گلاس چڑھایا کہ نیند اچھی آتی ہے، عجیب "کھاؤ" آدمی تھا، دیکھنے میں مہذب مگر کھانے میں ندیدہ پن، خیر گفتگو بہت سلجھی ہوئی کرتا، ادھر کاغذات پر دستخط ختم ہوئے، ادھر ظفر احمد کے خراٹے شروع، صبح 8 بجے بالکل تروتازہ ہشاش بشاش ناشتے کی میز پر موجود تھا. صالحہ نے پرتکلف ناشتہ بنایا لیکن ناشتہ کرنے سے پہلے ظفر نے اشارہ کیا اور وہ اشارا ہر صاحب عقل سمجھ سکتا تھا. مہرعلی بھی سمجھ گئے، اسے فوراً ایک لفافے میں ہزار ہزار کے پچاس نوٹ سونپ دیے. پھر ناشتہ لگانے کی اجازت چاہی تو فوراً مل گئی، بہت اہتمام سے ناشتہ پیش کیا گیا.
ڈبل روٹی، جام، آملیٹ، آلو کا پراٹھا، مکھن اور لسی ایک مرد کے لیے معقول ناشتہ تھا، مگر ظفر صاحب تو اپنی طرز کے ایک ہی بندے تھے، پراٹھا کھایا تو کہا، "یہ تو چکھتے چکھاتے ہی ختم ہوگیا کہ اس میں تھا کیا کیا"
پھر پوری بتیسی نکال کر گویا ہوئے کہ "اناردانہ، ہری مرچیں اور سوکھے دھنیے کی مقدار اگر بڑھ جائے تو مزا دو بالا ہو جائے گا. "
ماسٹرصاحب نے صالحہ سے دوسرا پراٹھا بنوا کر پیش کیا،
ظفر احمد کے منہ کے زاویے بنتے رہے جیسے وہ ہر نوالے کا لطف اٹھا رہاہو، ماسٹر صاحب کے جانے اور پراٹھا پکوانے کی آواز سے ظفر کو اندازہ ہوگیا کہ باورچی خانہ بالکل ساتھ ہی ہے.
لہذا دوسرا پراٹھا آدھا ہی تناول کیا تو نسبتاً اونچی آواز میں گلا کھنکار کر بولا تاکہ خاتون جو باورچی خانے میں ہیں، سن لیں "تیسرا کھا کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اور کھاؤں کہ نہیں"
مہر علی ڈبل روٹی اور آملیٹ کھا رہے تھے جسے ظفر نے چھونا تک گوارا نہیں کیا، وہ کھاتے سے اٹھ کر تیسرے پراٹھے کا کہنے چلے گئے.
ظفر دوسرا پراٹھا ختم ہونے پر بولا کہ "میری والدہ مرحومہ کے ہاتھوں میں بہت لذت تھی اور ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کی بہو کے کھانوں میں بھی ایسا ہی ذائقہ ہو، جیسا ان پراٹھوں میں ہے."
پھر تھوڑا سا منہ بسورا اور مہر علی کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ "ماسٹر صاحب والدہ تو مرگئیں لیکن ان کی تمنا تو اب بھی پوری ہوسکتی ہے نا." مہر علی نے یک لخت اس کی طرف حیرت سے دیکھا لیکن حسب عادت چپ رہے.
صالحہ کو اس پیٹو کے لیے آلو کے پراٹھے پکانے میں عجب لطف آرہا تھا، احتشام کو بالکل شوق نہیں تھا کہ بیوی کے پاس سے مصالحوں کی بو آئے، اس لیے اس نے کھانا پکانے والوں کا انتظام کر رکھا تھا لیکن اب احتشام کے زندگی سے نکل جانے کے بعد اسے آلو کے پراٹھے پکانے کا مزا آرہا تھا کیونکہ ظفر احمد کی بھوک اور واہ واہ، دونوں ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں.
لسی پینے کے بعد اس نے جانے کا عندیہ دیا اور ماسٹر صاحب کی مہمان نوازی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا.
مہر علی اب تک ظفر احمد کی بہت سی باتوں سے محظوظ ہوچکے تھے اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کوجان چکے تھے، اس کی طرف سے دل میں کوئی میل نہیں بچا تھا، کیونکہ وہ زمانے کے چلن کامارا ہوا تھا، لہذا اس سے کوئی شکایت نہیں رہی تھی، اسے خوش دلی سے رخصت کرنے لگے تو اچانک ایک فون سننے کا اشارا کرکے کمرے سے باہر چلے گئے.
مہر صاحب کے باہر جاتے ہی ظفر کو اپنی نشست سے اٹھ کر ہلکا سا باہر جھانکنے کا موقع مل گیا، دیکھا تو اتفاق سے صالحہ سامنے ہی کھڑی تھی، ایک دم اسے دیکھتا دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئی اس کے قدم وہیں جم گئے، ظفر بھی لاشعوری طور پر یک دم سیدھا ہو گیا، دوسری طرف منہ پھیر لیا، لیکن کچھ لمحوں کے توقف کے بعد پھر تھوڑا سا جھانکا، باورچی خانے کی طرف جھک کر ذرا زور سے بولا
"کیا میں دوبارہ آلو کے پراٹھے کھانے آسکتا ہوں؟"
صالحہ اب وہاں نہیں تھی، لیکن اس کی ہنسی کی آواز ظفر تک پہنچ چکی تھی.
***
ارم رحمٰن کی گذشتہ نگارش:رئیس المتغزلین کی شاعری میں عشق کا پرتو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے