ڈاکٹر قمر رحمان: سائنسی افق کا ایک روشن ستارہ

ڈاکٹر قمر رحمان: سائنسی افق کا ایک روشن ستارہ

علیزے نجف

انسانی زندگی میں واقعات و تجربات ہی نظریات و خیالات کی تشکیل کی بنیاد بنتے ہیں، ایک انسان جو ارد گرد کے ماحول کے ساتھ جیتے ہوئے منفرد نظریات کی تشکیل کا حوصلہ رکھتا ہے انھیں صاحب فکر کہا جاتا ہے، آگے چل کر یہی اہل فکر افراد معاشرے اور قوم کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں کیوں کہ ان کے تجربات و نظریات آگے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسی شخصیات کا ہونا اس معاشرے میں زندگی کے موجود ہونے کی نوید دیتا ہے، انسان ہمیشہ سے اپنی جولانیِ طبع کے باعث خطرات کو چیلنجز کی طرح قبول کر کے اس کو سر کرنے کا عادی رہا ہے، اس کے اندر ایک فاتح کی نفسیات پائی جاتی ہے، جس کی تسکین کے لیے وہ سیاروں پہ کمند ڈالنے کے راستے ڈھونڈتا رہتا ہے، انسانی صف میں کھڑی صنف نازک کہلانے والی ہستیاں بھی اب کسی شعبے میں پیچھے نہیں رہیں. بدلتے وقت میں معاشرے میں بڑھتی بیداری نے معاشرتی تنگ نظری کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے. اس کی وجہ سے ان کی ہر شعبے میں موجودگی کا تناسب تشفی بخش ہے. مشاہدے سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ تعلیمی میدان میں لڑکیاں اب لڑکوں سے آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ آسانیاں ہماری ان شخصیات کے مرہون منت ہیں جنھوں نے ہم سے پہلے اس تنگ نظر معاشرے میں اپنی جدوجہد کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ ہم ذہنی استعداد اور لیاقت و قابلیت کے معاملے میں کسی سے کم نہیں. انھوں نے اپنے عزم و ہمت اور جہد مسلسل سے وہ کر دکھایا جس کے کرنے کا سہرا صرف مرد کے سر باندھا جاتا رہا تھا، اس ضمن میں بےشمار صنف نازک صنف آہن بن کر ابھریں، انھیں میں سے ایک نمایاں نام ڈاکٹر قمر رحمان کا ہے۔ ڈاکٹر قمر رحمان واقعی اسم با مسمی ہیں، علمی افق پہ پورے آب و تاب سے نمودار ہو کر وہ جہانِ رنگ و بو کو روشنی کے ساتھ ساتھ تازگی و شگفتگی بھی بخش رہی ہیں، ان کی شخصیت ایک عہد کی تہذیب و ثقافت کا مرقع ہے، انھوں نے اس دور کو بھی دیکھا ہے جب معاشرے میں مادی ترقی سے زیادہ انسانی اخلاقیات اور اسلاف کی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں کو غلبہ حاصل تھا، اور اس پہ مستزاد ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے انسانی تہذیب کی آبیاری میں ایک مسلم کردار ادا کیا ہے اور اب جب کہ انسانی قدریں بیت تیزی سے بدل رہی ہیں اور ان کی ترجیحات یکسر مختلف رخ اختیار کر چکی ہیں، اس دور میں بھی رہتے ہوئے وہ لکھنؤ کے تہذیب رفتہ کی نہ صرف اب بھی دل دادہ ہیں بلکہ عہد نو کی مثبت تعمیری ترقیوں کی آمیزش کے ساتھ اس کی عکاسی کرتی نظر آ رہی ہیں۔ انھوں نے بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنے کی بھرپور جد و جہد بھی کی ہے، بےشک ہر دور کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں. وسیع النظری کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے لافانی انسانی اقدار کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے، ڈاکٹر قمر رحمان اس جد و جہد کے ساتھ کامیابی کے ساتھ برسرپیکار رہی ہیں، ڈاکٹر قمر رحمان صاحب کتاب بھی ہیں، ان کی کتاب "افق" اردو ادب کی بساط پہ ایک نمایاں مقام رکھتی ہے، جو ادب و سائنس کا بہترین امتزاج رکھتی ہے، یہ ان کی سرگزشت حیات ہے اور ان کا حاصل زندگی بھی، جو قوس قزح کی طرح مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر قمر رحمان کون ہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے افق کا مطالعہ کرنا ناگزیر ہے، افق ایک ایسی باہمت لڑکی کی داستان ہے جس نے حالات کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے کسی سنگ تراش کی طرح راہ میں آنے والی ہر چٹان کو یوں تراشا کہ وہ سنگ میل بن گیا، جیسا کہ وہ آغاز سفر کے تحت لکھتی ہیں "زندگی ایک طرف واقعی بے حد خوب صورت ہے اور دوسری طرف آزمائشوں سے بھرپور" یہ جملہ ان کی سنجیدہ فکر کے ساتھ ان کی زندہ دلی اور زندگی کے حسن کو محسوس کرنے کی صلاحیت کی غمازی کر رہا ہے، کہیں نہ کہیں اس جملے میں ان کی پوری زندگی کے سفر میں درپیش نشیب و فراز کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے مانو کہ قطرے میں دجلہ۔ آگے وہ لکھتی ہیں: "مجھ کو اس بات کا ذرا سا بھی علم نہیں تھا کہ پردے سے نکلی ہوئی ایک لڑکی ایک نئی راہ پہ چل نکلے گی۔ وہ راہ جس پہ اس دور کی میرے خاندان کی کسی لڑکی کا سوچنا بھی شاید دشوار تھا، اللہ تعالیٰ کی میرے اوپر بہت رحمت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ اس طرح میرے وسیلے سے کچھ لوگ فیضیاب ہو سکیں ( میرے پی. ایچ. ڈی طلبہ اور میرا کام خاص کر ان عورتوں کے لیے جو ماحولیاتی آلودگی اور گھروں کے اندر دھوئیں اور asbestos کا شکار ہو جاتی ہیں )" ڈاکٹر قمر رحمان ہندستان کی دس خواتین سائنٹسٹ کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں، یہ انڈیا کی پہلی سائنٹسٹ رہیں ہیں جنھیں 2009 میں چھ سو سالہ قدیم معتبر جرمن یونی ورسٹی، روسٹاک یونی ورسٹی نے ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا. یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں پہ سب سے پہلی مرتبہ سائنسی دنیا کی سب سے قد آور شخصیت Albert Einstein, Max Planck کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا تھا۔ انھیں وگیان وبھوشن اور یش بھارتی ایوارڈ نامی اعلا اعزازات سے بھی نوازا گیا، ان کی سپروژن میں 45 طلبہ نے اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ مکمل کی، ڈاکٹر قمر رحمان ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایڈوائزری پینل میں شامل ہونے کا شرف رکھتی ہیں، وہ سی۔ ایس۔ آئی. آر میں سائنس داں بھی رہیں، وہ جرمنی کی مایۂ ناز یونی ورسٹی، روسٹاک یونی ورسٹی اور لکھنؤ میں واقع امیٹی یونی ورسٹی کی پروفیسر ہیں۔ جرمنی سے ان کا بہت گہرا تعلق ہے. ان کے لفظوں میں کہوں تو ہندستان کے بعد جرمنی ان کا دوسرا مسکن ہے، جہاں وہ ہر سال کچھ مہینے ضرور قیام کرتی ہیں، روسٹاک یونی ورسٹی میں لکچر دیتی ہیں، اس علم پسند ملک کی تواضع پسندی اور اعلا ظرفی سے استفادہ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر قمر رحمان کے اس آدھے ادھورے تعارفی عکس پہ ہم ذرا مزید روشنی ڈالتے ہیں. اس کے لیے ہم ذرا اپنے قلم کے رخ کو ان کے ماضی کی طرف موڑتے ہیں. قمر رحمان نے ہمیشہ ہی زندگی کے ہر پیچ و خم اور اس کی گرہوں کو بہت سلیقے سے سلجھایا ہے، ان کے آبا و اجداد کا تعلق خلیل سالار زئی کی اولاد سے تھا، جو شاہ جہاں کے دور حکومت میں افغانستان سے ہندستان آئے تھے، ان کا خاندان علمی ثقافت اور انسانی تہذیب کی پاس داری کرنے والے خاندانوں میں پیش پیش تھا، اگر ایک طرف پردے کی روایت کو سینے سے لگائے ہوئے تھا تو دوسری طرف مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت پہ ایمان رکھتا تھا، ان کے خاندان کی دو عظیم شخصیتیں اس چراغ کی طرح تھیں جو علم کی روشنی کا منبع رہے تھے، ان کے دادا خان بہادر حبیب الرحمن خاں جو آئی. سی. ایس افسر تھے اور دوسرے ان کے چھوٹے دادا خان بہادر فضل الرحمان خاں جو بیس سال لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر رہے اور بتیس سال میونسپل بورڈ کے چیئرمین رہے، انھوں نے ایک کالج کا آغاز بھی کیا، جس کا نام گاندھی فیض عام کالج ہے، ان کا خاندان تعلیمی میدان میں ممتاز خدمت انجام دیتا رہا، ایک طرف وہ پردے کی روایت کو پوری طرح اپنائے ہوئے تھا، تو دوسری طرف وہ پردے میں رہتے ہوئے عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی ازحد حساس تھا، وہ جانتا تھا کہ انسانی قدروں کے تحفظ میں مرد و عورت یکساں طور پہ اہم کردار ادا کرتے ہیں، نسلوں کا صالح روش پہ قائم رہنے اور اس کے تحفظ کے لیے اس کا تربیت یافتہ، محفوظ ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت کے حالات آج سے قدرے مختلف تھے، نہ صرف وسائل محدود تھے بلکہ تعلیم نسواں کے حوالے سے لوگوں کی عمومی سوچ انتہائی تعصب و تنگ نظری کا شکار تھی. ایسے ماحول میں ان کا خاندان کسی پیش رو کی طرح دور رس مسلّم حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی قوم کے عام خیالات پہ شائستگی سے ضرب لگاتے ہوئے انھیں جگانے کی کوشش میں مصروف رہا۔ ڈاکٹر قمر رحمان کا تعلیمی سفر شاہ جہاں پور سے شروع ہوا اور پھر علی گڑھ سے ہوتے ہوئے مختلف اعلا علمی درس گاہوں سے انھیں کسب علم کا فیض حاصل ہوا، ڈاکٹر قمر رحمان کی زندہ دلی اور برجستگی کمال کی ہے، اپنے ایام طالب علمی میں اپنی اس شوخ فطرت کی وجہ سے بہت جلد لوگوں سے گھل مل جایا کرتی تھیں، ان کا حلقۂ احباب وسیع پیمانے پہ مشتمل رہا، انھیں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا لیکن اس وقت کے ماحول کے پیش نظر اپنی والدہ کے مشورے پہ اس خواب سے دستبردار ہو گئیں اور سائنس کے دامن میں پناہ لے لیا، غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر قمر رحمان سائنس کی اسٹوڈنٹ ہوتے ہوئے اردو ادب کی محبت میں گرفتار رہیں. خاص طور سے اردو شاعری، جس کا سحر آج بھی ان کے احساس کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر قمر رحمان نے اپنے عہد کی کئی ادبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں، جن میں علی سردار جعفری، فیض احمد فیض، مظفر علی، جاوید اختر، عصمت چغتائی کا نام قابل ذکر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی ہم نشینی نے ان کی زبان کو اتنا شیریں کر دیا کہ انھوں نے کم و بیش اپنے ہر احساس کو شعری پیراہن دینے پہ ملکہ حاصل کر لیا، ان کی کتاب "افق" میں جابجا شعری نگینے جڑے ہوئے ہیں۔ لکھنوی لب و لہجہ ان کی پہچان کا اہم جز ہے، مسکراہٹ ہمہ وقت ان کے چہرے کا طواف کرتی رہتی ہے۔ ان کی کتاب افق ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک بہترین سفرنامہ بھی ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسے سفر سے عبارت ہے جو انتہائی پیچ و خم کے ہوتے ہوئے بھی بلندیِ افق کو چھونے میں کوشاں رہا، شاہ جہان پور سے شروع ہونے والا یہ سفر محض ہندستان کے بڑے بڑے شہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ اس کی حدوں کو پار کرتے ہوئے سرحد پار کئی سارے ملکوں تک جا پہنچتا ہے۔ ابھی ہم ان کے آغاز سفر کی بات کرتے ہیں، وہ سائنس کی طالبہ تھیں، بی. ایس. سی کے دوران ہی عام رسم و رواج کے تحت راوی نے ان کی شادی کا قصہ چھیڑ دیا، مزے کی بات یہ رہی کہ وہ خود اس کے لیے بہت ایکسائٹڈ تھیں، بہ قول ان کے "میں کافی خوش تھی کہ بہت سارے بچے ہوں گے، ان کے ساتھ ایک اچھی اور خوش گوار زندگی گزاروں گی، سچ بولوں تو پڑھنے لکھنے کا شوق بھی زندگی کی اس ہمہ ہمی پہ غالب ہو گیا، کپڑے اور زیورات کا بھی بہت شوق تھا، جو سوچا کہ شادی کے بعد پہنوں گی" یہ خیالات بالکل ویسے ہی ہیں جو اس عمر میں کسی بھی لڑکی کے ہو سکتے ہیں، ایک تدبیر انسان کرتا ہے اور ایک تدبیر اوپر والے کی ہوتی ہے، ہوا کچھ یوں کہ یہ خواب Lily کے پھول کی صورت ثابت ہوئے جس کی زندگی کی مدت ذرا قلیل تھی، کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ان کی علاحدگی ہوگئی، اس وقت ان کی گود میں ایک بیٹی بھی تھی، ان کے سامنے ایک لمبی تنہا زندگی کسی انجانے خوف کو لیے کھڑی تھی، جس کو گزارنے کے لیے بہت ہمت اور استقامت کی ضرورت تھی۔ یہیں سے ہی ان کی زندگی کا ایک انقلابی رخ شروع ہوتا ہے، انھوں نے روایتی زنجیروں سے اپنے پیروں کو مقفل ہونے نہیں دیا، اپنے خوابوں کو اس قدر بلند کر دیا کہ ان کی نگاہ زمین میں حائل پریشانیوں پہ ٹھہر ہی نہیں سکیں، تمام طرح کے عزم و ہمت کے باوجود اس سفر میں انھیں بہت ساری تلخیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کی تلخی کو ان کی کامیابیوں نے زیادہ دن باقی رہنے نہیں دیا، انھوں نے بی. ایس. سی کے بعد سینٹ جونز کالج میں ایم. ایس. سی میں داخلہ لیا، وہاں سے انھوں نے ایم. ایس. سی مکمل کیا، اس کے بعد لکھنؤ کے حسین مسلم گرلس کالج میں کیمسٹری پڑھانے لگیں، اس تجرباتی سفر میں زندگی کے نئے رنگ و آہنگ ان پہ عیاں ہوئے، خود اعتمادی میں اضافہ ہوا، علم کی مزید تشنگی محسوس ہوئی تو انھوں نے ایک دن لکھنؤ یونی ورسٹی کے بایو کیمسٹری ڈپارٹمنٹ جا کر ان کے ہیڈ پروفیسر پی.ایس کرشنن سے ملاقات کی اور ان سے پی. ایچ. ڈی کا شوق ظاہر کیا، ان کی ہمت و لگن کو دیکھتے ہوئے پروفیسر صاحب نے انکاری ہوتے ہوئے بھی ان کی خواہش پوری کرنے پہ راضی ہو گئے، پڑھانے کے ساتھ تحقیق کا یہ سلسلہ سالوں پہ محیط رہا، سی. ایس. آئی. آر کی نیشنل لیب میں بہ طور سائنٹسٹ ان کا تقرر ہوگیا، پھر انھوں نے اپنا پی. ایچ. ڈی تھیسس لکھنا شروع کر دیا، ان کا کام asbestos کے نقصان دہ اثرات پہ تھا، اس کی وجہ سے پھیپھڑوں کی بیماری ہو جاتی ہے جس کو asbestosis کہتے ہیں، اس کا کوئی علاج نہیں ہے، ایک بار بیماری شروع ہو جائے تو بڑھتی ہی جاتی ہے اور انسان کی موت ہو جاتی ہے، اس کے استعمال سے کینسر بھی ہوتا ہے، انھوں نے نینو پارٹیکلز پہ بھی ریسرچ کی، اس کے سائڈ ایفیکٹ پہ بےشمار لکچرز بھی دیے، چوں کہ اس سے بھی بیماریاں ہو رہی تھیں، اس لیے انھوں نے اس کے استعمال کے منفی مضمرات کو دیکھتے ہوئے اس کے استعمال کو کم کرنے اور اس پہ پابندی لگانے کی بات کہی، انھوں نے اس بیماری سے متاثر لوگوں کی زندگیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اس بیماری سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے انھوں نے ہر سطح پہ ہر ممکن کوشش کی، ان عورتوں کے لیے کام کیا جو کنڈے اور دھوئیں والی لکڑی پہ کھانا بنانے اور روشنی کے لیے مٹی کا تیل استعمال کرنے کی وجہ سے اس مرض کا شکار بن جاتی ہیں. ان کی دکھ بھری کہانیاں ان کے ساتھ سفر کرتی رہیں. انھوں نے اس درد کے درماں کے لیے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ہر جگہ انھوں نے اپنی بات کو بہت مدلل انداز میں پیش کیا، جس نے لوگوں کو ان کے نظریات کا قائل کر دیا، عالمی سطح پہ ان کے لیکچرز کو پزیرائی ملی، یہاں تک کہ جب جرمنی میں ان کی تحقیقات کو سراہا گیا تو ان کے دل میں بےاختیار خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ہندستان میں بھی انھیں اس طرح سمجھا اور سراہا جاتا، اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ انھیں ہندستان سے شکایت تھی. شاید بات یہ تھی کہ مغربی ممالک اپنی علم نوازی میں ہندستان سے کہیں آگے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ظرف کی وسعت اور دور رس نگاہ موجود ہے، ڈاکٹر قمر رحمان کے تحقیقاتی لیکچرز اور ان کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ asbestos کے استعمال کو کئی طرح کی پابندیوں اور شرائط سے مشروط کر دیا گیا۔ ڈاکٹر قمر رحمان نے اپنی زندگی کا کم و بیش ہر لمحہ علمی افق کی سیر کرتے ہوئے گزارا ہے، انھوں نے جرمنی، کینیڈا، امریکہ، فرانس، پیرس، اٹلی، آسٹریا، نیدر لینڈ، اسکاٹ لینڈ، ناروے، سوئزر لینڈ، ڈنمارک، بلیجیم، اسپین، فن لینڈ، کروشیا، یونان، ساؤتھ افریقہ، ایران، دبئی، سنگاپور، بنگلہ دیش، پاکستان، کے متعدد شہروں کا سفر کر کے ان کی یاد داشتوں کو کتاب کی صورت میں محفوظ کیا ہے، چوں کہ یہ ایک سائنس دان ہیں، اس لیے ان کے ہر سفر کی روداد پڑھتے ہوئے کئی سارے سائنسی حقائق کو جاننے کا موقع ملتا ہے، جس سے ہر قاری خواہ اس کا تعلق سائنس نہ بھی ہو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، انھوں نے دنیا کے کئی عظیم ترین سائنس دانوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا ہے، ان کے ساتھ اپنے خیالات کو پورے اعتماد کے ساتھ شیئر کیا ہے، ان سے ہمیشہ سیکھنے کی جہد بھی کی ہے، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ساری زندگی سائنسی دشت کی سیاحت کرتے ہوئے گزار دی، ان کا ہر سفر ہمیشہ وسیلۂ ظفر ثابت ہوا، ہر سفر کی تصویری جھلکیاں بھی انھوں نے اپنی کتاب میں محفوظ کی ہیں، جو کسی مہم جو اور سیاحت پسند انسان کے اندر سفر کی آرزو و جستجو کو مزید سوا کر سکتا ہے۔ انھوں نے ہندستان کے تقریبا سبھی تاریخی شہروں کا سفر کیا ہے. مدراس، حیدرآباد، بنگلور، میسور، ممبئی کا سفر کیا. وہاں کی خوب صورتی اور خصائص کو قریب سے دیکھا۔ مہم جوئی ان کی فطرت میں رہی ہے، خواہ علم کے میدان میں ہو یا سیاحت کے میدان میں، ہر جگہ وہ اپنی اسی خاص جولانیِ طبع کی تسکین کرتی نظر آ رہی ہیں۔ آج بھی وہ درازیِ عمر کے باوجود خود کو علمی میدان میں متحرک رکھے ہوئے ہیں، طلبہ کو آسانی بہم پہنچانے کی سعی میں لگی رہتی ہیں، ان کا رویہ اور اخلاق اس قدر مشفقانہ ہے کہ ہر کوئی چند لمحے کی ملاقات کو گھنٹوں میں بدلتے دیکھنا چاہتا ہے، ڈاکٹر قمر رحمان سائنسی میدان کا ایسا سنگ میل ہیں جو نسائیت کی ترجمانی کرتا ہے، جو کہنہ پروری پہ نہ صرف تںقید کرتا ہے بلکہ اس کے بالمقابل تعمیری راستے کی طرف رخ کر کے اسے اپنا قبلہ بناتا ہے، اور اعلا کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ *** علیزے نجف کی گذشتہ نگارش:فیض کو فیض بنانے میں ایلس فیض کا بھی اہم کردار تھا: منیزہ ہاشمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے