فیض کو فیض بنانے میں ایلس فیض کا بھی اہم کردار تھا: منیزہ ہاشمی

فیض کو فیض بنانے میں ایلس فیض کا بھی اہم کردار تھا: منیزہ ہاشمی

فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کا خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار : علیزے نجف

برصغیر میں اردو زبان و ادب کی بساط پہ کئی ایسی شخصیات گذری ہیں جنھوں نے عالمی سطح پہ اس زبان کو نہ صرف منوایا بلکہ اس کی قدر و منزلت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے، فیض احمد فیض ایک ایسا ہی معتبر نام ہے جو کہ غالب اور اقبال کے نام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی عالمی سطح پہ کیا گیا۔ فیض احمد فیض کی دو صاحب زادیاں، ہیں بڑی صاحب زادی کا نام سلیمہ ہاشمی ہے جو پاکستان کی صف اول کی مایۂ ناز آرٹسٹ ہیں. منیزہ ہاشمی ان کی چھوٹی صاحب زادی ہیں، ان کی دونوں صاحب زادیوں نے فیض کی نظریاتی وراثت کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے، اس کے لے وہ پچھلی ایک دہائی سے فیض فیسٹیول کا اہتمام کرتی آرہی ہیں۔ منیزہ ہاشمی کا تعلق ٹی وی انڈسٹری سے ہے، انھوں نے اس شعبے میں چالیس سال خدمات انجام دی ہیں، یہ معروف و مقبول پروڈیوسر و ڈائریکٹر ہیں. انھوں نے اپنی منفرد صلاحیت اور قائدانہ خوبیوں سے اسکرین پہ آنے والے پروگرامز کو نیا زاویہ و دل کشی بخشی، انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے خاتون بیچ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس کے علاوہ پہلی خاتون جنرل مینیجر، پہلی خاتون پروگرام ڈائریکٹر رہیں، کامن ویلتھ براڈ کاسٹنگ ایسوسیشن کے لیے تین بار نامزد ہوئیں، اس کی پریسیڈینٹ بنیں، اس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون تھیں، الحمراء کی پہلی خاتون چیئر پرسن بھی رہیں، انھیں اب تک کئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے، جس میں ‘پرائڈ آف پرفارمنس’ بھی شامل ہے۔ منیزہ ہاشمی ایک باوضع بااصول خاتون ہیں، جنھوں نے ہر طرح کے حالات میں اپنی خاندانی جاہ و حشمت کو سنبھالے رکھا، اس پہ آنچ نہیں آنے دی۔ فیض کا عکس ان میں صاف نظر آتا ہے، ان کی ہی طرح امید کی مشعل ہاتھوں میں تھامے شاہ راہ حیات پہ آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ انھوں نے مجھے انٹرویو لینے کا موقع عنایت کیا، اس وقت میں اپنے سوالات کی فہرست کے ساتھ ان کے سامنے ہوں، ہم اس انٹرویو کے ذریعے فیض احمد فیض کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی کوشش کریں گے، ساتھ ہی ساتھ منیزہ ہاشمی کے خیالات و نظریات اور ان کی زندگی کے تجربات کے متعلق بھی باتیں کریں گے.

علیزےنجف: ہم میں سے کسی کے لیے آپ اجنبی نہیں، سو میرا پہلا سوال یہ ہوگا کہ آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں، فیض احمد فیض کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے اوروں کی طرح کیا آپ نے بھی خود سے کوئی توقع رکھی تھی؟
منیزہ ہاشمی: مجھے یوں تو ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ میں کس کی بیٹی ہوں، ہاں بچپن میں اس کا اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنے بڑے آدمی ہیں، کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، کیوں کہ بچپن میں وہ ہمارے ساتھ زیادہ رہے نہیں تھے، وہ جیل میں جاتے تھے، آتے تھے، پھر جاتے تھے، کبھی شہر یا ملک سے باہر ہوتے تھے، نوکری اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیچ بچپن [میں] وہ کلوز تعلق نہیں بن سکا، جو  پاس رہنے کی ہی صورت میں ممکن تھا۔ رہی بات یہ کہ میری خود سے کیا توقع تھی تو اس حوالے سے جو بات میرے ذہن میں آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ کراچی ٹیلی ویژن سینٹر کی افتتاحی تقریب میں میں اور والد صاحب موجود تھے، الطاف گوہر صاحب سکریٹری آف انفارمیشن تھے اور فیض صاحب کے قریبی دوست تھے، وہ والد صاحب سے ملنے کے لیے آئے تبھی میں نے ابا کو کہنی مار کر کہا کہ پلیز ان سے کہیں نا کہ مجھے ٹی وی جوائن کرنا ہے، انھوں نے میری طرف دیکھا، پھر الطاف صاحب سے کہا کہ بھئی یہ ہماری بیٹی منیزہ ہیں، انھوں نے ابھی بی. اے کا امتحان دیا ہے، اب فارغ ہیں، ٹیلی ویژن میں کام کرنا چاہتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ الطاف صاحب یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ کیوں نہیں ضرور۔ جہاں تک مجھے یاد ہے دو یا تین دن کے بعد مجھے خط موصول ہوا کہ آپ اسلام آباد پہنچیں، آپ کو ٹریننگ کے لیے بلایا جا رہا ہے، میں نے دل میں کہا لو بھئی ادھر کہا ادھر بات پوری ہوگئی۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے یہی سوچ میرے ذہن میں ابھری۔
مجھے ساری زندگی اس بات کا شدید احساس رہا کہ میں کس کی بیٹی ہوں، یہ احساس وقت کے ساتھ بڑھتا ہی گیا ہے، میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ مجھے کس طرح سے اپنے معاملات انجام دینے ہیں اور کس طرح سے لوگوں کے ساتھ پیش آنا ہے، کیوں کہ میرے سر پر فیض احمد فیض کا بڑا ہاتھ ہے، مجھے کہیں بھی اس نام پہ کوئی حرف نہ آنے دینا تھا، لوگ مجھے فیض احمد فیض کی بیٹی کی عینک سے دیکھتے ہیں، مجھے اس اعزاز کا وقار قائم رکھنا تھا۔ رہی بات توقعات کی تو وہ میں نے خود ہی خود سے لگا لی تھی یا یوں کہیں کہ خوب سے خوب تر بننے کی ایک بیماری ہے، مجھے ہمیشہ بہترین کی تلاش رہی، خود کو ایک رزلٹ دیا، اگلی مرتبہ اس سے بہتر پھر اس سے بہتر رزلٹ لانے کی تگ و دو میں رہی ہوں، یہ نفسیات کہیں نہ کہیں اب بھی مجھ میں باقی ہے۔
علیزے نجف: لوگوں کی اکثریت آپ کو فیض احمد فیض کی بیٹی کی حیثیت سے جانتی ہے، ایسے میں کیا آپ کے اندر کبھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کو آپ کی خدمات کے تحت جانا پہچانا جائے؟
منیزہ ہاشمی: بیٹا آپ نے بڑی خوب صورت یادوں کو کرید دیا ہے، عمر کے اس زمرے میں آ کر میں اللہ کا صدہا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں اس معتبر نام سے پہچانی جاتی ہوں، جس نام پہ کسی کی انگلی یہ کہنے کے لیے نہیں اٹھ سکتی کہ فیض نے اپنے مشن سے، اپنے وژن سے، اپنے خیالات سے، کبھی بھی بےوفائی کی ہو، فیض احمد فیض کی بیٹی ہونا ایک بڑی ذمےداری ہے جس کو ہم نبھانے میں لگے ہوئے ہیں، پھر آپ نے وہی بات یاد دلا دی کہ ایک مرتبہ میں اور ابا کہیں بیٹھے ہوئے تھے، وہ عادتاً میرا تعارف اس طرح کروانے لگے جس طرح کہ کرواتے رہے تھے، بھئی یہ ہماری بیٹی منیزہ ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں ٹیلی ویژن جوائن کر چکی تھی، میں نے بےساختہ ان سے کہا کہ ابا جی یہ آپ ہر وقت کیوں ہماری بیٹی ہماری بیٹی کہہ کر متعارف کرواتے رہتے ہیں، آپ میری پہچان کے ساتھ میرا تعارف کروایا کریں نا۔ پھر میں نے نوٹس کیا کہ اس کے بعد جب بھی کوئی ملنے کے لیے آتا تو کہتے کہ بھئی یہ منیزہ ہیں، ٹیلی ویژن کی بہت معروف و مشہور ڈائریکٹر و پروڈیوسر ہیں اور ہماری بیٹی ہیں، ہماری بیٹی سب سے آخر میں آگیا۔ آج مجھے ان یادوں کو سوچتے ہوئے اس شخص پہ بےاختیار پیار آتا ہے کہ اس کے اندر کیا سادگی و معصومیت تھی۔ یہ بچپن کی نادان سوچ تھی، بعد میں اس شخص کی عظمت کا جب اندازہ ہوا تو خود کو خود ہی ان کے پیچھے کھڑا کردیا۔
اس عظیم انسان سے نسبت رکھنے کی وجہ سے میرے سامنے کامیابی و شہرت کے بےشمار دروازے کھلتے چلے گئے، مجھے اچھی طرح یاد ہے اس تعارف کی وجہ سے وزیر اعظم، صدر، منسٹر، بادشاہ، ملکہ نے کھڑے ہو ہو کر ہمیں کس طرح سلام کیا ہے، تالیاں بجائی ہیں، ایک مرتبہ نہیں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے، میں نے نادانی میں کہہ دیا تھا کہ میرا ذاتی تعارف دیا کریں، یقینا وہ اس پہ مسکرائے ہوں گے، اب میں یہ قطعی طور پہ نہیں چاہتی کہ میرے فیض احمد فیض کی بیٹی ہونے کے تعارف کو ثانوی حیثیت دی جائے، مجھے اوپر رکھا جائے، میں چاہتی ہو کہ مجھے ہمیشہ فیض احمد فیض کی بیٹی جیسے تعارف سے یاد کیا جائے، وہ میرے لیے صرف میرے باپ ہی نہیں بلکہ کل جہان ہیں۔
علیزے نجف: آپ کے والدین نے آپ کی شخصیت سازی کس طرح سے کی، کیا ان کے کوئی اصول بھی تھے؟
منیزہ ہاشمی: مجھے نہیں یاد کہ کبھی میرے ماں باپ نے ہمیں بٹھا کر یہ سمجھایا ہو کہ یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا، اس طرح سے رہو، ایسے پیش آؤ وغیرہ وغیرہ، میرا مزاج ذرا شرارتی اور چلبلا سا تھا تو یہاں وہاں بھاگتی پھرتی تھی، شرارتیں کرتی رہتی تھی تو اس کے لیے میری ماں بس یہ کہتی کہ کیا ہوا ہے؟ سکون سے بیٹھو کہیں چوٹ نہ لگ جائے وغیرہ وغیرہ، جو عمومی طور پہ مائیں بچوں سے کہتی ہیں. بچپن کے دور کی یادوں میں بس مجھے اپنی ماں کا صبح اٹھنا، گھر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر دفتر جانا، وہاں سے واپس آنا ہی یاد آتا ہے، اس کے علاوہ کچھ خاص یاد نہیں، میری والدہ ہی میرا رول ماڈل تھیں، ابا کے جیل جانے کی وجہ سے ہمارے گھر میں کافی مشکلات تھیں، گھر پہ صرف والدہ ہوتی تھیں، جو ہمارا خیال رکھتیں وہ ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جاب کرتی تھیں، ہم چھوٹے تھے، بےشک اس عمر میں دوسرے بچوں کی طرح ہماری بھی کچھ ضروریات و خواہشات ہوا کرتی ہوں گی، جس کو پورا کرنے کے لیے صرف میری ماں تھی، ہو سکتا ہے والد صاحب کے کوئی دوست پیسے دے جاتے ہوں، مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں، مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ ہمارا ایک صاف ستھرا گھر تھا، وہ اب بھی اسی طرح موجود ہے کبھی آپ آؤ تو میں آپ کو لے چلوں گی لاہور، وہ گھر دکھاؤں گی، اس گھر پہ فیض احمد فیض کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے، پہلے ہم تانگے سے اسکول جایا کرتے تھے پھر سائیکل وغیرہ سے، ان وقتوں میں صرف ہماری والدہ ہمارے ساتھ تھیں، ایسے میں مجھے نہیں یاد کہ انھوں نے کبھی ہمیں بٹھا کر کوئی خاص نصیحت کی ہو، نہ زندگی کے حوالے سے نہ ہی ملک کے حوالے سے، میں اپنی بات کر رہی ہوں، سلیمہ کی نہیں، اس نے ابا کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے، ٹریول بھی کیا ہے، میرے ذہن میں اپنے والدین کے حوالے سے صرف ابزرویشن ہے جس میں  پیار و محبت اور روٹین کی زندگی شامل ہے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں کسی انسان کی عادات و اطوار پہ جینز کا بھی بہت گہرا اثر ہوتا ہے، آپ اپنے والدین کی کن خوبیوں کو پیدائشی طور سے اپنے اندر محسوس کرتی ہیں؟
منیزہ ہاشمی: اب میرے اندر جینیٹکلی کیا ہے کیا نہیں ہے یہ تو کوئی سائنسدان ہی بتا سکتا ہے (مسکراہٹ) میرے اندر تو میری والد کی خوب صورت عادات میں سے ایک بھی نہیں ہے، تحمل، صبر، خاموشی، غصہ نہ کرنا، برداشت کا مظاہرہ کرنا یہ سب کچھ میرے اندر نہیں ہے، ہاں یہ الگ بات کہ وقت کے ساتھ تھوڑا بہت میرے اندر آگیا ہے، ہاں اگر کوئی جینیٹک اثر آیا ہے تو میری والدہ کا زیادہ آیا ہے، کیوں کہ میری والدہ انگریز تھیں، وہ بہت Disciplinarian تھیں، کافی اسٹرکٹ، صاف گو تھیں، جو کہ میں بھی ہوں، وہ تھوڑا غصہ بھی کرتی تھیں، میں بھی کرتی ہوں، لیکن وقت کے ساتھ کافی کم ہو گیا ہے، وہ بہت ایمان دار، پروفیشنل تھیں، میں اس معاملے میں بھی بالکل ان کے جیسی ہوں، والد صاحب سے ذرا کم انٹریکشن رہا، پھر میری شادی ہوگئی، وہ کبھی اسلام آباد تو کبھی لاہور میں رہے پھر بیروت چلے گئے، اس لیے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔
میرے والد پنجاب سے تھے اس لیے پنجاب کی محبت میری جینز میں شامل ہے، پنجابی میری زبان ہے، مجھے بےحد پیار ہے پنجابی زبان و کھانوں سے۔ اس کے علاوہ لوگ کہتے ہیں کہ میرے چہرے میں فیض احمد فیض نظر آتے ہیں، میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں، میری پوتی نے ابھی کچھ دو مہینے پہلے مجھے ہنستے ہوئے دیکھا، پھر بےاختیار کہہ اٹھی O my God you look like Nana faiz میں نے کہا what…. وہ مجھے اٹھارہ سالوں سے دیکھ رہی ہے، کبھی ایسا اس نے نہیں کہا، اس نے کہا آج آپ میں نانا فیض کی جھلک دکھائی دی۔ میرے کمرے میں ان کی ایک بڑی سی تصویر ہے، میں ان کے سامنے کھڑی ہو جاؤں تو ایک دم سے لوگ کہتے ہیں کہ ماشاءاللہ آپ دونوں میں کتنی مشابہت ہے، میری بہن کا چہرہ میری ماں سے کافی مشابہ ہے، بس چہرے کے خدو خال کی حد تک میں اپنے والد سے ملتی ہوں اور دوسرے معاملوں میں میں اپنی ماں کے جیسی ہوں۔
علیزے نجف: ایک وقت تھا جب فیض احمد فیض بہ شمول آپ کا خاندان مشکل حالات سے دو چار تھا، آج جب کہ پوری دنیا فیض احمد فیض کی عظمت کا اعتراف کرتی ہے؛ ان دونوں ادوار میں لوگوں کے رویوں سے آپ نے کیا سیکھا، کیا برا وقت خوبیوں کو گہن لگا دیتا ہے جو سبھی نظریں چرانا شروع کر دیتے ہیں؟
منیزہ ہاشمی: جی بالکل، ہم نے بہت برے وقت بھی دیکھے ہیں اور الحمدللہ بہت اچھے وقت بھی دیکھے ہیں، اس میں سیاست کے اتار چڑھاؤ کا بڑا گہرا عمل دخل رہا ہے، بےشک اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں مشکل وقت ہم نے دیکھا، اپنے بچپن میں ابا کے جیل جانے کی وجہ سے بھی بہ شمول ہماری والدہ کے ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مارشل لا کے زمانے میں بہت سختی تھی اور فیض کا نام لینے پہ بھی پابندی تھی، اس وقت میں پی. ٹی. وی سے جڑی ہوئی تھی، ایک گہری نظر تھی جو مجھ پہ مرکوز رہا کرتی تھی کہ کہیں میں غلطی کروں اور وہ میری گرفت کریں، اس چکر میں میری کئی مرتبہ پرموشن بھی روکی گئی، غیر معیاری پروگرامز مجھے دیے گئے، اس کے علاوہ اور کئی طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب کچھ گیارہ سال چلتا رہا، جو  میرے لیے پروفیشنلی بہت اذیت ناک تھے۔ اس کا اثر میرے بچوں پہ بھی پڑا۔ ان کی اسکولنگ کا زمانہ تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے میرا چھوٹا بیٹا عدیل ایک دن اسکول سے گھر آیا اور کہنے لگا کہ امی what is this میں نے کہا کیا ہوا تو اس نے کہا کہ میرے ٹیچر کہہ رہے تھے کہ تمھارے نانا غدار ہیں یہ غدار کیا ہوتا ہے؟ اس دس سال کے بچے کو کوئی کیا سمجھائے کہ یہ سیاسی معاملات کیا ہوتے ہیں اور وہ غدار نہیں ہیں تو یہ ٹیچر اس طرح کی باتیں بچوں سے کیوں کر رہا ہے ، انھیں بنچ پہ کھڑا کر دیتے اور کہتے یہ دیکھو یہ غدار کا نواسا ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کی باتیں بچوں کے ساتھ ہوئیں۔ ایک طرف مجھے آفس کی ٹینشن ہوتی تھی دوسری طرف گھر آ کر دونوں بچوں کی فکر ہوتی تھی. 
ایک مارشل لا کے ہٹنے کے کچھ وقت بعد پھر دوسرا مارشل لا نافذ ہو جاتا اور وہ ہٹا پھر بنگلہ دیش کا قضیہ پیدا ہوا، یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ تھوڑے بہت حالات بدلتے تھے پھر وہی ٹینشن، کچھ نہیں پتہ ہوتا کہ کب وہ آئیں اور ابا کو جیل لے کے چلے جائیں۔ اسی دوران وہ آٹھ سال کے لیے ملک بدر ہوئے اور وہ آٹھ سال انھوں نے بیروت میں گزارے، میں اپنی آفس کی ذمےداریوں کی وجہ سے اس دوران ان سے ملنے نہیں جا سکی، ہاں سلیمہ گئیں تھیں ابا سے ملنے بیروت اور کچھ دن ان کے ساتھ بھی گزارا تھا، مجھے اپنے نہ جا سکنے کا بہت ملال رہا۔ بہرحال وقت کیسا ہی ہو گزر ہی جاتا ہے، یہ وقت بھی گذرا پھر اچھا وقت آیا، ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں، ابا کو ان کا جائز مقام ملا، اب الحمدللہ ہر زبان پہ فیض کا نام ہے، چاہے وہ صدر ہوں یا وزیر اعظم یا سینیٹر، سبھی کی زبان پہ ان کے اشعار اور ان کے لیے عزت ہے، اب حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ان کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے، اب وہی ان کے سامنے عقیدت سے سر جھکا رہے ہیں، دھند چھٹنے کے بعد حقائق اپنا آپ منوا ہی لیتے ہیں، پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہمارے حالات میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ہیں، اسی کے ساتھ ہمارے حالات میں بھی تبدیلی آئی ہے، اس وقت تو خیر میں ریٹائر ہو چکی ہوں، ان سب چیزوں کا مجھے اب کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑتا، الحمدللہ فیض کو چاہنے و ماننے والے پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود ہیں۔
علیزے نجف: آپ بارہا کہتی آئی ہیں کہ میرے والد کی شخصیت کے اسرار ان کے جانے کے بعد مجھ پہ منکشف ہوئے، ایک بچے کی طرح کچھ معصوم شکایتیں بھی آپ کو ان سے تھیں، آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو آپ ان کی کمی کو کس طرح محسوس کرتی ہیں؟
منیزہ ہاشمی: آپ پشیمانی کی بات کر رہی ہیں تو یہ میرے دل میں ہر گھڑی ہر لمحے ہوتی ہے اور میری آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہیں کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا۔ میں ان کی کمی کو بہت شدت سے محسوس کرتی ہوں، آج پاکستان کی سیاست میں پچھلے دو سالوں سے جو کچھ چل رہا ہے، دوسری طرف غزہ کے جو حالات ہیں دیکھ کر دل میں عجیب سا درد ہوتا ہے، اور یوکرین کی پچھلے دو سالوں سے جو حالت زار ہے جی چاہتا ہے کہ کوئی تو ایسا ملے جس سے یہ پوچھ سکوں یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کوئی تو مجھے اس کا حل بتائے تو مجھے کوئی ایسا نظر نہیں آتا جس سے میں ان موضوعات پہ تشفی بخش باتیں کر سکوں۔ اس طرح کے انسان میرے لیے صرف میرے والد صاحب تھے، مجھے ان کی یاد ہر وقت ہر گھڑی آتی ہے کہ وہ ہوتے تو مجھے شاید اس سوال کا جواب دیتے، اوروں کا تو نہیں پتہ لیکن مجھے اس ملک میں ذی شعور لوگوں کا ایک قحط معلوم ہوتا ہے۔ والد صاحب کے جو اچھے صاحب شعور دوست تھے، ظاہر وہ بھی چل بسے، ایسے میں ہم ہی اس جگہ پہ ہیں لیکن ظاہر ہے جب ہمیں خود نہیں پتہ تو ہم کسی اور کو کیا بتا سکیں گے۔ ملک اور دنیا کے حالات اور زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنے میں جب کبھی الجھن ہوتی ہے تو دل بےاختیار والد صاحب کو ڈھونڈتا ہے، نظریں انھیں افق پہ تلاشنا شروع کر دیتی ہیں، جو ناکام ہو کر واپس آجاتی ہیں۔
علیزے نجف: آپ کے گھر میں ایک زبردست ادبی ماحول تھا، آپ کے گھر میں ادبی شخصیات کی محفلیں سجا کرتی تھی، پھر آپ ادب کے اس کینوس پہ اپنے حصے کا رنگ بھرنے کے بجائے ٹی وی انڈسٹری کی طرف کیسے آگئیں؟
منیزہ ہاشمی: ہاں بالکل ہمارے گھر کا ادبی ماحول تھا، بڑے بڑے لوگ آ رہے تھے، جا رہے تھے، جس میں سنگر، لکھاری، ادیب بھی ہوتے تھے، تقریبا سبھی شعبے کے لوگ آتے تھے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میری ان سے جان پہچان دعا سلام وغیرہ ضرور رہی لیکن زیادہ ان کے قریب نہیں ہو پائی، نہ ہی میرا رجحان ان کی طرف ہوا، البتہ میری بہن آرٹ کی طرف مائل ہوگئیں، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ بڑی تھیں، ان پہ سب کی نظر کرم زیادہ تھی، میں چھوٹی تھی، میں نے خود ہی اپنے راستوں کا تعین کیا (مسکراہٹ) مجھے بس یہ شوق تھا کہ میں ہر فیلڈ میں پہلی خاتون اچیور بنوں، میں اس مقام تک پہنچوں جہاں مجھ سے پہلے کوئی خاتون نہیں پہنچ سکی ہو۔
میں 1967ء پاکستان ٹیلی ویژن کے اس بیچ میں شامل رہی جو پہلا خاتون بیچ تھا، اس وقت میں اور میری ہمشیرہ اسکرین پہ آنا شروع ہوئیں، یوں مجھے پہلی خواتین ہونے کا شرف ملا (اس دوران میرا بی.اے کا رزلٹ کلیئر ہوا تھا، میری ملاقات میرے شوہر سے ہوئی، شادی کی بات چل نکلی، میری والدہ نے کہا کہ جب تک تم فنانشیلی انڈیپنڈنٹ نہیں ہو جاتی میں تمھیں شادی کی پرمیشن نہیں دوں گی، کیوں کہ میں نہیں چاہتی کہ تم کسی پہ ڈپینڈنٹ رہو، بی. اے کے بعد میں نے پی. ٹی. وی جوائن کر لیا،اس کے بعد ہماری شادی ہو گئی.) پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، میں پہلی خاتون جنرل مینیجر تھی، پہلی خاتون ڈائریکٹر پروگرام تھی، میں پہلی خاتون ڈائریکٹر ٹریننگ تھی، وہاں سے باہر نکلی تو میں کامن ویلتھ براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کے لیے تین مرتبہ نامزد ہوئی، پریسیڈنٹ بنی، یہ انٹرنیشنل اعزاز حاصل کرنی والی میں پہلی پاکستانی خاتون تھی، الحمراء کی پہلی خاتون چیئر پرسن رہی، میری خدمات کو سراہتے ہوئے مختلف اعزازات سے نوازا گیا، جس میں "پرائڈ آف پرفارمنس" بھی شامل ہے، وقت کے ساتھ راستہ ہموار ہوتا گیا اور میرا شوق بھی پورا ہوتا رہا، میرا ماننا یہ ہے کہ ہم جب سچی جستجو خود میں پیدا کر لیتے ہیں تو مواقع پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے ٹی.وی انڈسٹری میں چالیس سال کام کیا ہے، پی. ٹی. وی سے ریٹائر ہونے کے بعد پھر سے انھوں نے مجھے بہ طور کنسلٹینٹ ہائر کر لیا ہے، اس کے علاوہ فیض فیسٹیول جو کہ ہر سال ہوتا ہے، اس کی میں مینیجر و آرگنائزر بھی ہوں، ادب سے میرا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ میں کتابیں پڑھ لیتی تھی. 
علیزے نجف: آپ کے گھر میں کتاب اور اسکرین کا بہترین امتزاج پایا جاتا ہے، کہا جاتا ہے اسکرین کی دنیا نے لوگوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین لی ہیں اور اسے دشت نورد بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت فکری بےسمتی کا شکار ہے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
منیزہ ہاشمی: جی ہاں! بےشک میں اس بات کو مانتی ہوں کہ یہ جو آلہ ہے ہمارے ہاتھوں میں اس نے ہماری زندگی کو آسان بھی کیا ہے اور مشکل بھی کیا ہے، میرے اپنے پوتے و پوتیاں بھی اسی میں لگے رہتے ہیں، کوویڈ کے دوران ان کی وجہ سے کافی آسانی ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد اس کا استعمال ایک ایڈکشن بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کوویڈ سے پہلے(میرے ماشاءاللہ تین پوتے دو پوتیاں ہیں جو کہ یونی ورسٹی، کالج و اسکول میں ہیں) میرے پوتے پوتیاں کتابیں لے کر کافی شوق سے پڑھا کرتے تھے، لیکن اب ان کا زیادہ وقت اسکرین پہ ہی گذرتا ہے، چیٹ جی پی ٹی، اے آئی نے یہ بتا دیا کہ دنیا کتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ میں حیران رہ جاتی ہوں، ابھی پتہ نہیں کیا کچھ آنا باقی ہے، ایسے میں جب میں صبح کے وقت چائے کی پیالی کے ساتھ اخبار لے کر بیٹھتی ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے حالاں کہ وہ خبریں شام کو ہی میں سوشل میڈیا پہ دیکھ چکی ہوتی ہوں لیکن اخبار کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے، بچے کہتے ہیں کہ کیا دادو آپ پرانے فیشن کے ساتھ جی رہی ہیں۔ میں کہتی ہوں ہاں بیٹا یہ مجھے پسند ہے، اس تبدیلی کے منفی اثرات پہ بےشک ہمیں افسوس ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ہمیں بدلنا ہی پڑے گا، ہم خواہ اس کی کتنی ہی کیوں نہ مخالفت کر لیں، ہم اس کو روک نہیں سکتے۔ بےشک اس نے دنیا میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں، اس لیے ہم اسے یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے، میں خود اس عمر میں اس کے ذریعے دنیا سے جڑی ہوئی ہوں، اس کے ذریعے مجھے بھی بہت آسانی ہوتی ہے، اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسکرین آج بہت ناگزیر اور نافع شئے ہے، ہاں بس ہمیں اس کا صحیح استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔
علیزے نجف: آپ کو کیا لگتا ہے کہ فیض احمد فیض کے نظریات و خیالات کی تشکیل میں کن عناصر نے اہم کردار ادا کیا تھا، آپ ان کے نظریات کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
منیزہ ہاشمی: اب یہ کہنا میرے لیے کہ ان کے نظریات اور خیالات کی تشکیل کس طرح ہوئی پس پردہ کیا عناصر رہے، اس حوالے سے میں سمجھتی ہوں کہ میری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے کہ میں ان کی کوئی بات کروں، اس بارے میں کوئی رائے قائم کروں، جتنا میں نے ان کو جانا ہے، ان کی شاعری پڑھ کے اور لوگوں سے سن کے تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ وہ ایک ہیومنسٹ انسان تھے، جس طرح لوگ کہتے ہیں کہ عام آدمی کے ساتھ بھی ان کا ایک الگ لگاؤ تھا، ہر طبقے کے لوگوں سے ان کا ایک خاص رشتہ تھا اور پھر وہ رشتہ ان کی شاعری میں بھی لوگوں کو نظر آتا ہے، کم از کم مجھ سے آج تک کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ فیض صاحب نے کبھی غصہ کیا، ڈانٹا، اور غیر مہذب لہجے و لفظ کی تو بات ہی نہیں کر سکتے، چاہے سامنے والا شخص کوئی بھی ہو ان کا کتنا مخالف ہی کیوں نہ ہو ان کے چہرے پہ ناپسںندیدگی کبھی نظر نہیں آتی تھی، حالانکہ کئی سارے ایسے لوگ رہے ہیں جو ان کے پیچھے ان کے خلاف باتیں کرتے تھے، لیکن انھوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ان سے بات کی، ہونٹوں پہ ہلکی مسکراہٹ بھی ہوتی، بےشک ان کے دل میں کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہوگا کہ یہ میرے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتا ہے یا ایسے کیوں سوچتا ہے، کیوں کہ یہ تو انسانی وصف کے خلاف ہے کہ آپ دل میں یہ نہ سوچیں کہ یہ شخص مجھے پسند نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے ان کے چہرے پہ یا ان کی طبیعت میں یا ان کے خلوص میں کبھی فرق نہیں آیا۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ خدا داد صفت ہے، ایسے لوگ میں سمجھتی ہوں ہوتے ہی نہیں ہیں یا بہت کم ہوتے ہیں۔ اشفاق صاحب جو کہ بہت مشہور لکھاری، صاحب بصیرت انسان رہے ہیں، اشفاق صاحب اور فیض صاحب کے درمیان شدید نظریاتی اختلاف رہے ہیں، یوں کہ ایک دائیں نظریات کا حامی تھا، دوسرا بائیں نظریات کا۔ اشفاق صاحب کا بہت مشہور قول ہے جو انھوں نے خود لکھا بھی ہے، انھوں نے کہا کہ "اگر فیض رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں ہوتے اور اگر کہیں کوئی لڑائی ہوتی تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اواز دیتے جاؤ فیض کو بھیجو وہ جا کے وہاں امن پیدا کرے گا" ان سے اختلاف رکھنے والے لوگ اگر ان کے بارے میں یہ بات کرتے ہیں کہ ان کے اندر اتنی پیس اور اتنی امن پسندی تھی کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی لڑے یا کوئی ایسی بات کرے تو ان کی امن پسندی اور صلح جوئی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
میرے والد ایک انتہائی اصول پسند انسان تھے، انھوں نے اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، پاکستان میں رہتے ہوئے مارشل لا کے زمانے میں جب ان پہ پریشر پڑھا تو اپنے خیالات و نظریات سے پیچھے ہٹنے کے بجائے انھوں نے ملک کو چھوڑنے کو زیادہ بہتر سمجھا، بےشک یہ بھی ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا کہ وہ بیروت میں آٹھ سال رہے، جب کہ وہاں بھی جنگ کی سی حالت تھی لیکن انھوں نے یہ مشکل فیصلہ کیا اور اپنے اصولوں پہ آخری وقت تک قائم رہے۔ یہی اصول پسندی مجھ میں بھی آئی، میں بھی اصولوں کے لیے سخت رویہ اپنانے سے گریز نہیں کرتی ہوں، میری بہن بھی بالکل ایسی ہی ہیں۔
علیزے نجف: پچھلی آٹھ دہائیوں کی تہذیب و معاشرت کے سبھی پہلو آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں، اس دورانیے میں واقع ہونے والی مجموعی تبدیلیوں کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتی ہیں؟
منیزہ ہاشمی: ہاں آٹھ دہائیاں ابھی مکمل تو نہیں ہوئی ہیں، مکمل ہونے کو ہیں، میں اس وقت عمر کے اعتبار سے 78 ویں کے ہندسے میں داخل ہو چکی ہوں، رہی بات تبدیلیوں کی، خاص طور سے سیاسی تبدیلیوں کی تو ہمارے ملک پاکستان کی سیاست ہمیشہ ہی سے ہچکولے لیتی رہی ہے. 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں آئے تو اس وقت بھی حالات کچھ اچھے نہیں تھے، لیکن اچھائی کی ایک امید بندھ گئی تھی، اس کے بعد ڈیموکریسی کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کا پہلا آئین بنا، اسلامک سمٹ ہوئی۔ 1976 تک اس لحاظ سے پاکستان کی حالت کافی اچھی رہی، اس کے بعد بھٹو خاندان ڈگمگانے لگا، مولوی لوگ سیاست میں آگے آنے لگے اور 1977 میں پھر مارشل لا آگیا، اس کے بعد مسلسل کئی سالوں تک یہ کشمکش جاری رہی، پھر بےنظیر بھٹو کے آنے کے بعد اس میں کچھ استحکام پیدا ہوا۔ غرضیکہ پاکستان کی جمہوریت ہمیشہ ہی مسائل کی زد میں رہی، آج بھی یہی صورت حال ہے، کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکی ہے، قرضوں کا ایک الگ بوجھ ہے، معاشی اعتبار سے بھی پاکستان کی کمر وقت کے ساتھ ٹوٹتی جا رہی ہے، وہ اپنے اخراجات کے لیے کبھی اس ملک کا کبھی دوسرے ملک کا محتاج رہا ہے، اس وقت بھی الیکشن ہونے کو ہے لیکن روایتی گہما گہمی کا کچھ پتہ نہیں، ہر کوئی بےگمان ہوا بیٹھا ہے، ملک کی سیاست آمریت اور جمہوریت کے بیچ ڈانواں ڈول ہو رہی ہے، بےشک ہم نے معاشرتی سطح پہ تبدیلیاں دیکھی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں زیادہ تر ناخوش گوار ہی رہی ہیں، ان حالات میں بس ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔
علیزے نجف: پچھلی ایک دہائی سے فیض فیسٹیول آپ لوگ منعقد کر رہے ہیں، اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ یہ کیسا پروگرام ہوتا ہے؟
منیزہ ہاشمی: ہاں یہ آٹھواں فیض فیسٹیول ہونے جا رہا ہے، جو  فروری میں ہونا طے ہے، اس فیسٹیول کا آغاز 2011 میں ہوا تھا، ہم نے فیض احمد فیض کی سال گرہ کے دن کو فیض کی یاد میں پہلا پروگرام کیا تھا، پھر اس کے بعد ہم نے ایک آدھ سال کی پلاننگ کرنے کے بعد 2012 میں فیض فیسٹیول کے طور پہ اسے باقاعدہ آرگنائز کرانا شروع کیا، ابتدا میں یہ بہت چھوٹا تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ بڑا ہوتا چلا گیا، اب تو ماشاءاللہ یہ کافی بڑے پیمانے پہ منعقد ہوتا ہے، درمیان میں کوویڈ کی وجہ سے دو سال نہیں ہو سکا، پچھلے سال 2023 میں ہونے والا فیض فیسٹیول ماشاءاللہ بہت کامیاب رہا، جس میں ہر عمر کے لوگ بچے بوڑھے جوان سبھی آئے تھے، ہاں جوانوں کی تعداد پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے، یہ اس بات کی بڑی مثال ہے کہ فیض کی شاعری اور ان کے نظریات و خیالات ہر عمر کے لوگوں کو اپیل کرتے ہیں، اس پروگرام میں ہم فیض احمد فیض کی شخصیت کے سارے پہلو پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ فیض احمد فیض کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں، وہ عوامی بھی تھے، سیاسی بھی تھے، وہ ہیومنسٹ بھی تھے، جرنلسٹ بھی تھے، آرٹ سے بھی ان کا تعلق تھا، اس لیے ہم اس پروگرام میں کلچر اور ان سے جڑے ہیریٹیج کی باتیں کرتے ہیں، جس میں صرف رقص و موسیقی ہی شامل نہیں ہے، بلکہ کئی سارے ادبی سیگمنٹ بھی ہوتے ہیں، ان کی شاعری پڑھی جاتی ہے، ان کے خیالات و نظریات پہ بحث کی جاتی ہے۔ چوں کہ میں اس پروگرام کی منتظم اعلا ہوں، اس لیے اس کو مینیج کرنے اور آرگنائز کرنے کی بیشتر ذمےداری میرے ہی کندھے پہ ہوتی ہے۔ 13 فروری کو فیض صاحب کی سال گرہ ہوتی ہے، اس لیے اس تاریخ کے قریبی ویک اینڈ پہ ہم اس تین روزہ فیض فیسٹیول کا انعقاد کرتے ہیں، الحمدللہ اب تو باقاعدہ ایک ٹیم ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے اسپانسرز بھی بڑھ رہے ہیں، جس سے اس کی مقبولیت اور کامیابی دونوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ سال پہلے یونیسکو نے گورنمنٹ پنجاب لاہور شہر کو سٹی آف لٹریچر قرار دیا تھا، اس وجہ سے پنجاب گورنمنٹ کا بھی ہمیں کافی تعاون حاصل رہتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کے والدین کے بارے میں کسی نے کہا کہ فیض، فیض احمد فیض نہ ہوتا اگر اس کے پیچھے ایلس نہ ہوتی، سوال یہ ہے کہ لوگ بنیاد کے پتھر کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟
منیزہ ہاشمی: یہ بات صحیح ہے کہ فیض کو فیض بنانے میں ایلس فیض کا بھی ایک بہت بڑا کردار تھا، وہ بنیاد کا پتھر تھیں جو  موجود تھا لیکن نظر نہیں آتا تھا، ابا کی بہت قریبی دوست شیلا سندھو تھیں، جو  آپ کے شہر دلی کی تھیں، انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا "فیض سب کو نظر آتا ہے لیکن فیض کے پیچھے کھڑی ایلس کسی کو نظر نہیں آتی." میں بھی سمجھتی ہوں کہ فیض کی کامیابی میں ان کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے، وہ اس رشتے کو لے کر کافی پروٹیکٹیو اور سپورٹیو تھیں، وہ انگریز تھیں، انگریز اصولوں کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ میں بہت چھوٹی تھی، ابا کے جیل میں ہونے کے دوران مجھے ان کا رونا آج بھی یاد ہے، بعض اوقات ابا کی کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کہاں ہیں، کہاں نہیں ہیں، ابتدائی چار پانچ سال بہت مشکل تھے، اس حوالے سے اگر دیکھا جائے، وہ عورت بہت ہمت کے ساتھ اس شخص کے ساتھ کھڑی رہیں، ان کے سامنے کئی سارے چیلنجز تھے، معاشی مشکلات بھی تھیں، اس دوران ضرور ایسے موقعے آئے ہوں گے، جب وہ انگلینڈ واپس جا سکتی تھیں، وہاں پہ ان کا خاندان تھا، وہاں کی شہریت بھی ان کے پاس تھی، ایسے میں وہ ہمیں وہاں اچھی طرح وہاں پال سکتی تھیں، خود بھی ایک اچھی زندگی گزار سکتی تھیں، لیکن انھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، نہ ہی انگلینڈ کی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی شہریت لی۔ وہ ساری زندگی برٹش ہی رہیں، اس کا فائدہ ہمیں ملا کہ ہمیں برٹش پاسپورٹ مل گیا، ایلس فیض ساری زندگی فیض احمد فیض کے ساتھ ہر اچھے برے وقت میں کھڑی رہیں، جب ابا بیروت گئے تو وہ بھی ان کے ساتھ رہیں، ایک چھوٹے سے فلیٹ میں وہ رہتے تھے، وہاں پہ پاکستانی لائف اسٹائل کی طرح نہ نوکر چاکر تھے، نہ آسائشیں تھیں، کیوں کہ وہاں کے بھی حالات اچھے نہیں تھے، بم دھماکے ہو رہے تھے، جس دکان پہ گئے اگلے دن وہ دکان اڑی ہوئی تھی۔ ادھر ادھر جا نہیں سکتے تھے، پھر وہ تیونیشیا چلے گئے، فیض ایک درویش صفت انسان تھے، کبھی کینیڈا، کبھی افریقہ تو کبھی انگلینڈ میں رہے، والدہ کے پاس پرٹش پاسپورٹ تھا تو اس حوالے سے انھیں بھی آسانی حاصل تھی، وہ ہمارے لیے بھی فکر مند ہوتی تھیں، لیکن جب ہماری شادیاں ہوگئیں تو ان کی یہ فکر ختم ہو گئی۔ جب انھیں "لندن پیس پرائز" کے لیے نامزد کیا گیا تو پاکستان حکومت نے کہا کہ آپ اگر اسے ریسیو کرنے جائیں گے تو پھر واپس واپس مت آئیے گا، وہ ایک بڑا اعزاز تھا، وہ اسے ریسیو کرنے کے لیے گئے اور لندن میں ہی رک گئے، ہم بھی ان کے ساتھ تھے، ان کے ساتھ انگلینڈ میں دو سال رہے۔ ایک افراتفری والی زندگی رہی، میری والدہ ایلس فیض بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں، جب فیض راہی عدم کو رخصت ہو گئے تو پھر بھی وہ پاکستان میں رہیں، ان کی بھی وفات پاکستان میں ہوئی اور ان دونوں کی قبریں بھی ایک ساتھ ہیں۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بےشک ایلس فیض نے فیض کو فیض بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا، بہ طور بیوی اور والدہ انھوں نے بہت سارے محاذ کامیابی کے ساتھ سر کیے۔ فیض احمد فیض کی قد آور شخصیت کے سامنے بھلے ہی وہ کسی کو نظر نہ آئیں لیکن ان کا ایک اپنا مستند کردار ہے جس کو تاریخ کبھی رد نہیں کر سکتی۔
علیزے نجف: آپ اپنی اب تک کی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی، آپ نے جس طرح یہ زندگی گزاری؟
منیزہ ہاشمی: میں سمجھتی ہوں کہ میں نے بہت مطمئن زندگی گزاری ہے، جب اچھا وقت رہا تو الحمدللہ ہمیشہ شکر کیا اور جب مشکل وقت آیا تو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کچھ چھوڑ دوں، کوشش ترک کرنے کی روایت ہمارے خاندان میں ہی نہیں تھی تو مجھ میں کہاں سے یہ عادت پیدا ہوتی، خواہ حالات جیسے بھی رہے، میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی تدبیر کر کے اس مشکل سے باہر خود کو نکال لیتی، جیسا کہ فیض صاحب نے بھی کہا ہے:
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
ہم نے تو بہت بعد میں یہ شعر پڑھا، لیکن لگتا ہے کہ اس شعر کی روح ہمیشہ سے میرے اندر تھی، مجھے ہمیشہ سے یہ پتہ تھا کہ کچھ بھی ہو جائے گیو اپ نہیں کرنا ہے، کبھی نہ کبھی تو روشنی آئے، گی رت بدلے گی۔ میں سمجھتی ہوں کہ فیض کے یہاں سب سے زیادہ امید کی بات ہوتی ہے، یہ ان کا بہت بڑا کنٹریبیوشن ان کی شاعری کی شکل میں موجود ہے۔ وہ اپنی شاعری کی ابتدا چاہے جس طرح بھی کریں لیکن اس کا اختتام امید پہ ہی ہوتا تھا، "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ" اس نظم کے آخر میں بھی وہ امید کی کرن دکھاتے ہیں، میں نے اپنی زندگی میں اگر کچھ بھی سیکھا ہے تو وہ یہی سیکھا ہے کہ آپ چلتے رہو، چلتے رہو راستے مل ہی جائیں گے، منزل کبھی نہ کبھی قدموں تلے ضرور ہو گی۔ میرا یقین بہت مکمل ہے. اپنے دین پہ اپنے خدا پہ اپنے رسول پہ کہ میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں چلتی رہی، اگر میں صحیح راستے پہ چلتی رہی تو ضرور ایک دن منزل تک پہنچ جاؤں گی۔
میں نے اپنی زندگی کے تقریباً تمام فیصلے خود ہی کیے ہیں، والد صاحب ہمارے ساتھ زیادہ رہے نہیں، والدہ بھی کبھی ہوتیں کبھی نہیں ہوتیں، کچھ مجھے خود پہ اعتماد بھی تھا، میں نے خود اپنا شوق پہچانا اور نکل پڑی، اس لیے تقریبا تمام فیصلے چاہے وہ پڑھائی کے ہوں، شادی کے ہوں، چاہے وہ نوکری کرنے کے، چاہے وہ بچوں کے حوالے سے ہوں وہ باہر جانے کے چاہے وہ نوکری کرنے کے ہوں، تمام نشیب و فراز کے سامنے میں ڈٹی رہی، آگے بڑھتی رہی، اس وقت اگر میں مڑ کے دیکھتی ہوں بیٹا تو ان 77 ساڑھے 77 سالوں میں کیا کھویا کیا پایا کا حساب کرتی ہوں تو پایا زیادہ ہے کھویا کم ہے، کھویا ظاہر ہے پیارے دوست چلے گئے، والدین چلے گئے اور اپنے کئی عزیز رشتہ دار چلے گئے ہیں، خیر جانا تو سبھی کو ہے، یہ ایک الگ دکھ ہے۔ رہی بات پانے کی تو الحمدللہ بہت کچھ پایا ہے، اللہ نے بےتحاشہ عزت قدر و منزلت سے نوازا ہے، لوگ بہت احترام کرتے ہیں، بعض تو بہت ڈرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اصولوں کے معاملے میں بہت سخت ہوں، اگر کسی نے کسی کام کو اس طرح نہیں کیا، جس طرح کہ کرنا چاہئے تو میں کھڑے کھڑے ہی اس کا تجزیہ کر کے اس کی خامیاں اس پہ واضح کر دیتی ہوں، اب اسے منفی سمجھیں یا مثبت یہ میری زندگی کا حصہ ہے، سامنے کوئی بھی ہو میں اس کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات کہہ دیتی ہوں، ایک موقعے پہ ایک جرنیل نے مجھ پہ آواز اونچی کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیض کی بیٹی ہیں، آپ کو اس کا احساس ہے بھی یا نہیں، میں نے بھی ترکی بہ ترکی کہہ دیا کہ کیا کروں اپنا باپ بدل دوں، آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں اپنا باپ نہیں بدل سکتی، کمرے میں جتنے لوگ موجود تھے، سب حق دق رہ گئے کہ میں کس کے سامنے بول رہی ہوں۔ میرے مزاج میں تھوڑی سختی بےشک ہے لیکن بس اپنے اصول اور نظریات کی حد تک۔ میں نے بہت کام کیے ہیں ہر حالت میں میں نے امید کی ڈور تھامے رکھی، خواہ حالات کیسے بھی رہے لیکن میں نے ذرا توقف کے بعد ہی سہی لیکن اپنا سفر جاری رکھا، میں بہت فوکسڈ انسان ہوں، اس بات پہ یقین رکھتی ہوں کہ اللہ میرے ساتھ ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے ایسے ایسے بھی کام کیے ہیں، جو شاید کہ کوئی اور کرسکتا، الحمدللہ میں نے ہر محاذ کو سر کیا اور کامیابی حاصل کی۔
علیزے نجف: آج جب آپ تنہا ہوتی ہیں، گذرے سالوں کے شب و روز کا حساب کرتی ہیں تو وہ کون کون سے لمحے ہیں جو آپ کے لبوں پہ مسکراہٹ لا دیتے ہیں اور کن لمحوں کا کرب دل کو اداس کر دیتا ہے؟
منیزہ ہاشمی: بےشک میں اس وقت عمر کے اس حصے میں ہوں جب  میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور گھر کی ذمےداریوں سے بھی فارغ ہو چکی ہوں، پوتے پوتیاں بھی بڑے ہو گئے ہیں، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے دونوں ہی بچے بہت سعادت مند ہیں، ماشاءاللہ میری دونوں بہویں بھی بہت پیاری ہیں، ایک بیٹے کے ساتھ میں رہتی ہوں، دوسرا بھی تھوڑی دور پہ رہتا ہے۔ ہمارے خاندان کے بیچ بہت محبت و احترام کا رشتہ ہے, پوتے پوتیاں تو میری جان ہیں، سب کی اپنی اپنی مصروفیات ہیں، کوئی کالج کوئی یونی ورسٹی میں ہے. ایک پوتی ماشاءاللہ اس وقت پڑھائی کے لیے ملک سے باہر ہوتی ہے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، ہاں جب میں فرصت سے اپنے کمرے میں ہوتی ہوں تو اس وقت کوئی فلم دیکھ لیتی ہوں، کوئی اور کام کر لیتی ہوں، اس وقت فیض فیسٹیول کی تیاریاں چل رہی ہیں، چوں کہ میں ہی اس کی منتظم اعلا ہوں تو اس حوالے سے بھی بہت زیادہ مصروفیات ہوتی ہیں۔ جب یہ فیسٹیول ہو جائے گا، تبھی سکون کا سانس لے پاؤں گی۔
اس کے علاوہ میں اپنی صحت و فٹنس کو لے کر کافی کانشیس ہوں تو میں باقاعدہ ایکسرسائز کرتی ہوں، ہفتے میں تین بار یوگا بھی کر لیتی ہوں، مجھے آرتھرائیٹس ہے تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ کو پانی میں کچھ دیر کھڑے ہونا اور چلنا ہے تو موسم اچھا ہو تو سوئمنگ بھی کرتی ہوں۔ اکیلے رہنے کے لیے میرے پاس زیادہ وقت نہیں رہتا، جب کہ دل کرتا ہے کمرے میں بند ہو کر اخبار پڑھوں، لیپ ٹاپ پہ فلمیں دیکھوں، اور دوسرے مشاغل کے لیے وقت نکالوں، بالکل خاموش رہوں تو اتنا وقت بہت کم ملتا ہے، کیوں کہ دوستوں سے ملنا ملانا ان سے گپیں مارنا چلتا رہتا ہے۔ اس وقت جب کہ بیٹا میں آپ سے بات کررہی ہوں تو ایسے میں کئی ایسی یادیں ذہن میں ابھری ہیں، جن سے  مسکراہٹ بھی آتی ہے اور دل خوش بھی ہوتا ہے، وہیں کچھ ایسی باتیں بھی یاد آتی ہیں، جن سے  دل اداس ہوتا ہے، خوش گوار یادیں بےشمار ہیں، اپنے پوتے پوتیوں کی مسکراہٹیں، ان کا میرے گلے لگ کر پیار کرنا، پھر اپنے بچوں کو دیکھنا اور یہ سوچنا کہ یہ کبھی میری گود میں ہوا کرتے تھے، اب ماشاءاللہ میرے سے بھی دو دو ہاتھ اونچے ہیں، کبھی ادھر سے ہوا کا جھونکا یاد بن کر گزرا کبھی ادھر سے کوئی اور خیال ذہن میں آگیا، لیکن خیر یہ سب لمحے گذر چکے ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں یہ یادیں بھی انسان کا اثاثہ ہوتی ہیں، تنہا ہونے کا زیادہ وقت تو نہیں ملتا کیوں کہ میں ابھی بھی انھی لوگوں کے درمیان  ہوں جن سے متعلق یادیں ہوتی ہیں اور کچھ لوگ نہیں بھی رہے، لیکن اللہ کا شکر ہے بہت اچھی زندگی گزر رہی ہے۔
علیزے نجف: کسی انسان کا فیض شناس بننے کے لیے اس کی سوچ و نظریات کو کسی خاص زاویے میں ہونا ضروری ہے یا ایک عام انسان بھی بہ آسانی ان کے تحریر کردہ لفظوں کی گرہوں کو کھول سکتا ہے؟
منیزہ ہاشمی: آپ نے بالکل صحیح کہا کہ فیض کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن کو کھلا رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ فیض احمد فیض کو پڑھنا بالکل آسان کام نہیں ہے، خود میرے لیے بھی یہ آسان نہیں رہا، میری استاد جو  میری بہت اچھی دوست بھی ہیں، ڈاکٹر سیدہ فاطمہ زہرہ، میں نے ان سے فیض احمد فیض کو پڑھا ہے. ماشاءاللہ بہت قابل شخصیت ہیں، کئی زبانوں پہ انھیں عبور حاصل ہے، وہ فیض احمد فیض کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دیکھیں فیض احمد فیض جنھیں چار زبانوں پہ عبور حاصل تھا اردو، انگریزی، فارسی، عربی جب وہ شاعری کہے گا تو ان زبانوں کے مخلوط استعارے و تشبیہ استعمال کرے گا تو اس کو سمجھنا کیسے آسان ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے خود ان کی سطح پہ کھڑے ہو کر ان کی سوچ کی پرتوں کو کھولنا ہوگا، اس لیے میرا خیال ہے کہ فیض کو پڑھنے کے لیے ایک استاد کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے پہلے آدمی کے اندر اس بات کو جاننے کا شوق ہونا چاہئے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور ان کا ذہنی پس منظر کیا ہے۔ اس بات کا قطعاَ مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے سادہ اور آسان نظمیں نہیں کہیں ہیں، انھوں نے بہت ساری ایسی نظمیں کہی ہیں جن کو  ایک عام انسان بھی تھوڑی سی کوشش کر کے سمجھ سکتا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور خود تجربہ بھی کیا ہے کہ آپ فیض کی کسی بھی نظم کو جب پڑھتے ہیں تو اس وقت آپ کے موڈ کے حساب سے اس کے معنی و مفہوم کچھ اور ہوں گے پھر پندرہ بیس دن کے بعد جب آپ دوبارہ اس نظم کو پڑھیں گے تو اس وقت کے موڈ کے اعتبار سے اس کے الگ معنی و مفہوم ہوں گے۔
فیض کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چالیس سال کا عرصہ گذر گیا ہے، لیکن آج بھی ان کی لکھی ہوئی نظموں کو پڑھتے ہوئے بارہا احساس ہوتا ہے کہ گویا یہ نظمیں آج کے لیے لکھی گئی ہیں. اب پاکستان کا ہی حال دیکھ لیں یا غزہ کا، دل میں ایک ایک درد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے. 
ان کی اکثر نظموں میں بےشک دکھ ہے، کرب ہے، اداسی ہے لیکن امید کی ایک کرن ہے جو صبح کے طلوع ہونے کی بات کرتی ہے، وہ کہتی ہے کہ بےشک یہ شام بہت غم آلود ہے لیکن کوئی بات نہیں شام ہی تو ہے جو  گزر جائے گی۔ فیض احمد فیض کی شاعری کی بےشمار پرتیں ہیں، رنگوں کی پرت، ساتھ ہی آوازوں کی اور موسیقی کی بھی پرتیں ہیں، اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اسے کیسے سمجھتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر کوئی اسے ازخود سمجھ سکے، اس لیے استاد کی رہ نمائی انسان کے لیے آسانی پیدا کرتی ہے۔
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟
منیزہ ہاشمی: میرا وہی پیغام ہے جو فیض کا پیغام ہے. امن کا پیغام، انسان دوستی کا پیغام ہے. محبت کا پیغام ہے. اگر ہم سب اس دنیا میں محبت اور امن سے رہنے لگ جائیں تو یہ دنیا بہت ہی خوب صورت، بہت ہی پیاری بن جائے گی کہ جب ہم اس دنیا کو چھوڑ جائیں گے تو ہمیں اس بات کا اطمینان ہوگا کہ ہماری نسلیں محفوظ جگہوں پہ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت دنیا میں ہر طرف بدامنی اور نفرت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور انسان دوستی پہ اپنے خودغرضانہ مفادات کو مقدم رکھا جا رہا ہے۔ ہر فرد و ہر قوم کو اس حوالے سے اپنا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی پڑھیں:ادب انسانی جذبات اور اس کے وجود کے تاریک نہاں خانوں میں پوشیدہ ذات کا اظہار ہے: خالد جاوید

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے