پروفیسر شیمہ رضوی کی یاد میں

پروفیسر شیمہ رضوی کی یاد میں

رویدہ ضمیر

احباب جمع ہیں میر حال دل کہہ لے
پھر التفات دلِ دوستاں رہے نہ رہے
(میر تقی میں)
بیسویں صدی کے نصف آخر میں شیمہ رضوی سے زیادہ اردو ادب کی خدمت کرنے والی خاتون کم ہی نظر آئیں گی۔ آپ نے ایم۔ اے۔ اردو لکھنؤ یونی ورسٹی سے امتیازی نمبروں سے کیا اور پھر یہیں سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی بہ عنوان "طالب علی خاں عیشیؔ۔ حیات وکارنا مے" پھر یہیں لکچرر ہو گئیں۔
اگر چہ آج وہ ہمارے درمیان نہ سہی مگر ان کی خوشبوؤں کا احساس ہمہ وقت ہمارے ساتھ رہتا ہے اور آج ہم یہاں اس عظیم خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
گزر مرا، ترے کوچے میں گو نہیں، نہ سہی
مرے خیال میں تو بار بار گزرے ہے
(مرزا محمد رفیع سودؔا)
اور اس عظیم ہستی پر خیال آرائی کرنا ہم جیسے طالب علموں کے لیے ایسا ہی ہے گویا سورج کو چراغ دکھانا۔
محترمہ عائشہ اعزاز عرف شیمہ رضوی ایک با اخلاق، با صلاحیت، با کردار تعلیم یافتہ اور انتہائی فعال شخصیت تھیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک وقت میں ان میں کئی روپ پنہاں تھے تو غلط نہ ہوگا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک لیڈر کے روپ میں نظر آتیں، یونی ورسٹی میں ایک لکچرر کے روپ میں، کلاس میں ایک مشفق استاد کے روپ میں اور تنہائی میں وہ ایک بہترین دوست کے روپ میں نظر آتی تھیں۔ الغرض ان کے جتنے بھی روپ تھے اتنے ہی پیارے اور نرالے تھے۔
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں، کتنے بجھے تارے
تب ایک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
(آنند نرائن ملاؔ)
آپ لکھنو یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کی پہلی خاتون لکچرر پہلی ریڈر اور پہلی صدر شعبۂ اردو تھیں، اتر پردیش کی پہلی ڈی. لٹ تھیں۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا: ”اردو ادب میں حیدر بخش حیدری کا مقام“۔ بچوں کے لیے کہانیاں اور ریڈیو ٹاک-افسانے بھی لکھا کرتی تھیں مگر لکچرر ہوتے ہی آپ کے قلم کی جولانیاں آسمان کو چھونے لگیں اور متعدد کتابیں منظر عام پر آگئیں۔ اس میں سے کچھ خاص کتابوں کے نام ملاحظہ ہوں:
ا۔ طالب علی خاں عیشی۔ حیات اور کارنامے۔ (مطبوعہ 1992ء)
۲۔ افکار و نظریات (مطبوعہ 2008ء)
(انعام یافتہ اردو اکادمی اتر پردیش)
۳۔ لکھنؤ میں اردو زبان و ادب۔ ماضی، حال اور مستقبل
(مطبوعہ 2008ء)
۴۔ زاویۂ نگاہ (مطبوعہ 1993)
۵۔ انجمن ناز (مطبوعہ 1994ء)
۶۔ اردو غزل اور اس کا فکری وقتی نظام (مطبوعہ 1990ء)
یہ کتاب ہندی اور انگریزی میں بھی شائع ہو چکی ہے۔)
اس کے علاوہ اور بھی کتابیں ہیں جن کی تعداد تقریبا 19 ہے، جن میں سے تین کتابوں پر اتر پردیش اردو اکادمی سے ایک کتاب پر، آل انڈیا میر اکیڈمی سے اور ایک کتاب پر ہندی سنستھان سے انعامات حاصل ہو چکے ہیں۔ مقالوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو ہے، جو مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔
میڈیا میں بھی آپ کا نام تھا۔ اردو ہندی نیوز ریڈر کی وجہ سے اور بہترین تلفظ کی وجہ سے وہ لوگوں کو مسحور کر دیتی تھیں۔ خود ہمارے والد صاحب ان کی خبریں بہت انہماک سے سنا کرتے تھے۔ اس وقت مجھے بہت سی یادیں گھیرے ہوئے ہیں۔
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
میرے والد صاحب مجھ سے آپ کا ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے اور جب کرامت میں نے ایڈمیشن لیا، گریجویشن میں وہاں ایک میم کا سرنام بھی رضوی تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شمیمہ رضوی میم یونی ورسٹی میں لکچرر ہیں۔ اس وقت یو نیورسٹی جانے کا اتفاق ہی نہیں ہو۔ مگر جب ایم۔ اے۔ میں ایڈمیشن لیا تو آپ سے ملاقات کا بڑا اشتیاق تھا مگر آپ سے میری ملاقات کچھ عجیب حالات میں ہوئی۔ وہ اس طرح کہ تعلیمی سال کا ابتدائی مہینہ تھا، ایڈمیشن کا سلسلہ تھا اور کلاسیں کم ہوتی تھیں، میں اپنی چند سہلیوں کے ساتھ شکایت لے کرگئی کہ میم! کلاسیز نہیں ہوتی ہیں۔ ہم لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اس س وقت آپ کا استقلال دیکھنے لائق تھا، نہ غصہ نہ گرمی، بلکہ مسکراتے ہوئے میری شکایت سنی اور انھوں نے بیٹھے ہوئے اساتذہ سے اسی وقت ٹائم ٹیبل سیٹ کرایا اور بولیں جاؤ کل سے کلاسیز شروع ہو جائیں گی اور وہی ہوا دوسرے دن سے با قاعدہ کلاسیز شروع ہو گئیں۔ اس وقت مجھے شدت سے احساس ہوا کہ واقعی اخلاق اور اعلا ظرفی اسے کہتے ہیں۔
تالاب تو ہو جاتے ہیں برسات میں کم ظرف
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا
آپ نے ایک ادنیٰ سی طالبہ کی بات سنی اور اس کا مثبت رد عمل بھی ظاہر کیا۔ اپنے اخلاق اعلا کی وجہ سے وہ میرے حواس پر چھانے لگیں اور میں بہانے بہانے سے آپ کے پاس جانے لگی اور آپ کو بھی شاید اس بات کا احساس ہوا اور آپ کا التفات بھی میری جانب بڑھنے لگا، یا ہو سکتا ہے یہ میری خوش فہمی ہو، کیونکہ آپ کے اعلا اخلاق کی وجہ سے ہر ایک کو یہی لگتا تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہیں اور میرے زیادہ قریب ہیں، انسان کی یہ خوبی بھی کم نظیر ہے۔
بہر حال شاید ہماری محبتوں کو اور ان کی ترقیوں کو زمانے کی نظر لگ گئی اور اگست 2009ء کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی شخصیت اتنی پر وقار اور شش جہات تھی کہ کم وقت میں اس کا احاطہ بہت مشکل ہے۔ آپ ہندوستا کی چودہ اکادمیوں میں منتخب ہونے والی پہلی خاتون چیر پرسن ہیں، آپ نے متعدد اکادمیوں میں مشاعرے کرائے، جس میں ملک کی برسر اقتدار شخصیات تشریف لائیں۔ حقیقتاً اردو زبان وادب کے لیے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
مندرجہ ذیل اشعار میرے جذبات کی صحیح ترجمانی کر رہے ہیں:
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
(قائم چاند پوری)
وفا تبسم صبح بہار نئی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پر آنکھ بھر آئی
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:‘بالا سور‘ یاترا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے