وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے

وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے

فــــرزانہ پـــروین
Email – fparveen150@gmail.com
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے

مذکورہ بالا میر ببر علی انیس کی رباعی کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے جو خاکسار، ملنسار، شفیق، مشفق و مہربان اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں. جب کہ بعض لوگ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو منوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں. لیکن آج میں ایک ایسے ہر دل عزیز شخص کا ذکر کر رہی ہوں جس سے ملنے کے بعد ہر کوئی اس کی تعریف میں رطب السان ہو جاتا ہے۔ پر نور چہرہ، چوڑی پیشانی، آنکھوں میں ذہانت و ذکاوت کی چمک، چہرے پر ہر وقت ایک دل کش مسکراہٹ جو یاس زدہ لوگوں کو زندگی جینے کا پیغام دیتی ہے، باتوں کا انداز ایسا کہ جیسے اسے کوئی جلدی نہیں ہر لفظ ٹھہر ٹھہر کر اتنی خوب صورتی سے ادا کرتا ہے کہ سننے والوں کے دل میں ہر بات اتر جاتی ہے. وہ شخص کوئی اور نہیں ڈاکٹر دبیر احمد ہیں، جو علمی و ادبی حلقے میں معتبر نظروں سے دیکھے جاتے ہیں، جن کا ذکر لوگ فقط زبان سے نہیں بلکہ دل سے بھی کرتے ہیں اور میری خوش بختی یہ کہ میں ایسے ہر دل عزیز شخص کی شاگردہ رہی ہوں. آج جب میں ان کے متعلق کچھ لکھنے بیٹھی ہوں تو اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کس کس گوشے پر روشنی ڈالوں، کیوں کہ زندگی کے ہر کٹھن موڑ پر وہ میرے ساتھ میرے پاس کھڑے نظر آئے ۔۔۔۔ کبھی باپ بن کر، کبھی بھائی کی صورت اور کبھی استاد کی شکل میں۔
"وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے"
میں نے ان کی کتابیں اور مضامین کا بھی مطالعہ کیا ہے، بہ حیثیت استاد میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے، آج جب میں ان کے متعلق لکھنے بیٹھی ہوں تو بہت ساری باتیں ذہن میں گڈمڈ ہو رہی ہیں، ان کی محبتوں اور شفقتوں کے اتنے سارے واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں کہ سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجسمہ ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اتنے اوصاف کے مالک ہوتے ہیں کہ ان کی خامیاں ان اوصاف میں کہیں گم ہو جاتی ہیں، لہذا میں نے بھی ہر گزرتے وقت کے ساتھ ان میں خوبیاں ہی دیکھی ہیں۔
میں مولانا آزاد کالج کی طالبہ رہ چکی ہوں، سر سے پہلے پہل میں کالج میں ہی ملی، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں پہلی بار سر کی کلاس میں داخل ہوئی تھی، تو انھوں نے مجھ سے میرا نام، میرے والد کا نام، پتا اور والد کے کام کے متعلق استفسار کیا تھا اور پھر سر نے مجھ سے ایک مشکل سا لفظ لکھنے کے لیے کہا، میں وہ لفظ لکھ کر سر کو دکھانے کے لیے آگے بڑھی تو سر نے کہا "دکھانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے تمھارے قلم کی حرکت سے سمجھ لیا کہ تم نے درست لکھا ہے" سر کی دور بینی کی داد دیتی ہوں جو قلم کی جنبش بھی خوب سمجھتے ہیں.
ان کا مطالعہ زبردست رہا ہے، اس کا اندازہ مجھے کئی بار ہوا، کالج کے زمانے میں کئی روز کی محنت کے بعد میں نے ڈرامے پر ایک مضمون تیار کیا اور استاد مرحوم سید محمد اظہر عالم کو نظر ثانی کرنے کے لیے دیا جو کلاس میں ڈراما پڑھاتے تھے۔ چند روز گزر جانے کے بعد جب میں نے اظہر سر سے اپنا مضمون واپس مانگا تو کل کا وعدہ کرکے ٹال گئے۔ پھر جب بھی میں ان سے مضمون واپس مانگتی وہ مجھے مختلف بہانوں سے ٹال دیتے۔ ایک روز میں نے کہا کہ سر اگر کام نہیں بھی ہوا ہے تو آپ مجھے مضمون واپس کردیں کیونکہ چند روز کے بعد امتحان ہے، تب سر نے بہت آہستہ سے کہا کہ "فرزانہ تمھارا نوٹس کہیں گم ہو گیا ہے" یہ سننا تھا کہ میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ میں گیلی آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے واپس چلی آئی، امتحان نزدیک تھا، جی چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں، تبھی دبیر سر کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی. سر نے مجھے اردو ڈپارٹمنٹ میں آنے کے لیے کہا اور پھر اداسی کی وجہ پوچھی، تب میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا، سر نے کہا کہ تم مضمون مجھے دے دیتی میں نظر ثانی کر لیتا، تب میں نے نہایت سادگی سے کہا کہ سر آپ تو داستان اور تنقید کے استاد ہیں، آپ ڈرامے پر لکھا گیا مضمون کیسے چیک کر سکتے ہیں؟ سر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹھو اور مضمون کا موضوع بتاؤ، میں نے بتایا "ڈراما کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی" اور پھر سر نے اسی وقت بغیر کسی کتاب کی مدد کے مجھے مضمون بیٹھ کر ڈکٹیٹ کروادیا۔
میں نے کلاس میں بھی کبھی انھیں کتاب لے کر پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا، وہ وقت پر جماعت میں داخل ہوتے اور پوچھتے کیا پڑھانا ہے؟ اور پھر ہم جو بھی موضوع کہتے سر اسی وقت اسے اتنی تفصیل کے ساتھ واضح کرتے کہ پھر کسی کو کوئی کتاب کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی. اس واقعہ کے بعد مجھے جب بھی کسی پرچے میں دشواری ہوتی میں سر کو کہتی اور سر مجھے اسی وقت نوٹس لکھوا دیتے.
کالج میں شعبۂ اردو کا کوئی بھی پروگرام ہو اس کی تیاری کی بیشتر (بلکہ تمام کہنا زیادہ بہتر ہوگا) ذمہ داریاں سر ہی نبھاتے، وہ چند اسٹوڈنٹس کو لے کر کام شروع کرتے اور پروگرام کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرتے. کئی بار تو ایسا بھی ہوتا کہ کالج کا وقت ختم ہوجاتا، دیگر اساتذہ مقررہ وقت پر گھر روانہ ہو جاتے لیکن کام باقی رہنے کے سبب سر رات سات، کبھی آٹھ بجے تک کام کرتے رہتے۔ لڑکیوں کو وہ رکنے سے منع کردیتے تھے اور جن لڑکوں کے ساتھ وہ کام کرتے ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کالج میں پریم چند کی حیات و ادبی خدمات پر ایک سیمینار ہونے والا تھا، سر کئی روز سے اس کی کامیابی کے لیے سخت محنت کر رہے تھے، اس میں کالج کے باہر سے بھی کئی معتبر ادبا اور مہمانان شریک ہونے والے تھے، مقررہ دن سیمینار شروع ہوا، تمام لوگ تشریف فرما تھے، یکے بعد دیگرے سبھی اپنا اپنا مقالہ پیش کر رہے تھے، سر کی بھی باری آئی، ابھی انھوں نے اپنا مقالہ شروع ہی کیا تھا کہ صدر شعبۂ اردو (جو سر کی محنت، صلاحیت اور قابلیت سے شاید خائف رہتے تھے، میں قصداً ان کا نام لکھنے سے گریز کر رہی ہوں) نے سیمینار کے اصول کے خلاف صاحب مقالہ کو ٹوکتے ہوئے حکمیہ اور تضحیک آمیز لہجے میں کہا کہ "محترم گئو دان کی کہانی سب جانتے ہیں، آپ اپنی بات پیش کیجیے" ان کے طنزیہ لہجے کی کاٹ کو مجلس میں بیشتر لوگوں نے محسوس کیا لیکن کہتے ہیں نا کہ خاموشی سے بہتر کوئی جواب نہیں، سر نے بھی اسی فارمولے پر عمل کیا اور انھوں نے مقالہ وہیں پر روک کر مائک پر "شکریہ" کہا اور بیٹھ گئے. ان کے بیٹھتے ہی سامعین کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی اور صدر شعبۂ اردو کے خلاف ایک ہنگامہ سا ہوگیا اور سبھوں نے یہ تاثر دیا کہ صدر محترم کو اس بات کی بھی تمیز نہیں کہ سیمینار میں کس طرح مقالہ نگار کو کسی بات کی تاکید کی جاتی ہے.
سر کی بیشتر خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نیکی اس طرح کرتے ہیں کہ ساتھ رہنے والے کو بھی کبھی اس کی خبر نہیں ہوتی، یہ تو اسٹوڈنٹس ہی ہوتے ہیں جو جذبات سے مغلوب ہوکر کبھی کبھی یہ راز افشا کر دیتے ہیں کہ سر نے ان کی فیس ادا کر دی ہے یا ان کی تعلیم کے اخراجات وہی اٹھا رہے ہیں. ایک بار میں کالج میں اپنے کلاس روم کی جانب قدم بڑھا رہی تھی کہ اچانک ایک لڑکی کے منھ سے سر کا نام سن کر میں ٹھٹھک گئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ لڑکی دوسری لڑکی سے کہہ رہی تھی کہ دبیر سر نے اس کی فیس کی ادائیگی کر دی ہے. اس روز میری نظروں میں سر کی عزت اور بڑھ گئی. یہاں لوگ تھوڑا سا راشن اور ایک کمبل بھی نمائش کے بغیر نہیں دیتے اور ایک سر ہیں جو کبھی غلطی سے بھی ان باتوں کا ذکر اپنی زبان پر نہیں لاتے.
میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ سر کی شفقتیں طلبہ و طالبات سب کے لیے یکساں ہوتی ہیں، کوئی بھی طالب علم اگر ان کے پاس مدد کے لیے آتا تو سر اس کی مدد ضرور کرتے، ہمارے سینئر بیچ میں بھی ایک طالب علم تھا جس کا تعلق کلکتہ کے مضافات سے تھا (میں اس کا نام اور جگہ لکھنے سے گریز کر رہی ہوں کہ میرا مقصد اسے ذلیل کرنا نہیں ہے) وہ سر کے بے حد قریب تھا، سر اس پر بے حد بھروسا کرتے تھے اور حسب حاجت اس کا مالی تعاون بھی کرتے تھے، یہ بات سر نے کبھی خود سے نہیں کہی بلکہ وہ طالب علم خود ہی کبھی مجھ سے اور کبھی دوسرے لوگوں سے اس بات کا ذکر کر دیا کرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ دوسروں کے بہکاوے میں آکر اس نے سر کو غلط سمجھنا اور کہنا شروع کر دیا اور پھر نزدیکیاں دوریوں میں تبدیل ہو گئیں. وقت گزرتا گیا اور پھر وہ طالب علم جب پرائمری ٹیچر کے انٹرویو کے لیے پہنچا تو وہاں سر نے اسے دیکھا اور اس کے لیے کوششیں کیں، آج ان کی کوشش سے وہ برسر روزگار ہے، یہ ان کی وسیع القلبی ہی ہے ورنہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اپنے خلاف زہر اگلنے والوں کی کبھی مدد نہیں کرتا، لیکن یہ سر تھے جو مخالفوں کا بھی برا چاہنا تو دور برا سوچ بھی نہیں سکتے.
جب میں تھرڈ ائیر میں تھی تو میرے گھر کے حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے جاب کی سخت ضرورت آن پڑی اور تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ایک دفتر میں اچھی جاب بھی مل گئی لیکن میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھی کہ کالج کا آخری سال ہے اور کلاسز آف کر کے ملازمت کرنے سے امتحان کا نتیجہ خراب ہونے کا خدشہ بھی تھا لیکن اسی وقت سر جیسے میرے لیے فرشتہ بن کر آئے، انھوں نے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور مجھے جاب کرنے کا مشورہ اس یقین کے ساتھ دیا کہ تمھاری پڑھائی کا حرج نہیں ہوگا، اور انھوں نے جو وعدہ کیا اسے بہ خوبی نبھایا بھی، میں دفتر میں کام کے دوران روزانہ اپنی عزیز دوست ساجدہ پروین کو کال کر کے تمام کلاسز کے متعلق پوچھ لیتی کہ کس ٹیچر نے کیا پڑھایا ہے اور شام کو جب میں گھر آتی تو سر مجھے خود کال کرتے اور تمام ٹیچرز کے پڑھائے ہوئے سبق کا خلاصہ کال پر ہی کر دیتے، اس زمانے میں آؤٹ گوئنگ کال کے چارجز بہت زیادہ ہوا کرتے تھے لیکن سر نے کبھی اس کا خیال نہیں کیا، وہ مجھے اتنے ہی سکون سے پڑھاتے جتنا کہ آف لائن کلاس میں. یہ ان کی مدد کا ہی نتیجہ تھا کہ میں فرسٹ ڈویژن سے کامیاب ہو پائی.
کالج سے فارغ ہو کر میں نے ایم. اے مکمل کیا اور کورس کے دوران مجھے جب جب سر کی رہ نمائی یا ان کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی سر نے ہمیشہ خوش آمدید کہا. سر سے باتیں اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، اب میں نے انھیں بہ حیثیت ایک نیک دل انسان دیکھنا شروع کیا تو ان کی اور بھی صفات سامنے آئیں. 2017 یا 18 کی بات ہے، کالج کا تاریخی مشاعرہ تھا، اسی پروگرام میں کامیاب طلبہ و طالبات کو انعامات سے بھی نوازا جا رہا تھا، ایک طالبہ جس نے کالج میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی مائک پر اپنے تاثرات بیان کر رہی تھی، اس نے اپنے رب اور والدہ کا شکر ادا کرنے کے بعد سر کا شکریہ بھی ادا کیا، وہ بے حد جذباتی ہو رہی تھی، اس کی آواز میں خوشی اور آنکھوں میں نمی صاف محسوس کی جارہی تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ سر نے ہر قدم پہ اس کا ساتھ دیا، اسے کبھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، ایک والد کی طرح انھوں نے اس کا خیال رکھا وغیرہ. تمام الفاظ گرچہ اس لڑکی کے تھے لیکن احساسات بالکل میرے تھے. 2015 میں جب میرے ابو کی وفات ہوئی تو سر بھی ان کے جنازے میں شریک تھے، سر مجھے ہمیشہ حوصلہ دیتے اور ایک بڑے بھائی اور والد کی طرح قدم قدم پر میری رہ نمائی کرتے، کبھی شفقت بھری ڈانٹ بھی لگاتے.
سر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی خوشیاں تو سب کے ساتھ بانٹتے ہیں لیکن غم خود تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ خود غمگین ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی ہمت افزائی کرنا سر کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے. 17 نومبر 2018ء کا وہ المناک واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے، جب سر ماں کے آنچل اور ان کی ممتا سے محروم ہوئے تھے، فجر کے وقت ان کی والدہ کی وفات ہوئی تھی، میں بھی دوپہر کو سر کے گھر گئی تھی اور عصر کے وقت واپس آئی تھی، میرے بڑے ابو جو ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے ان کی حالت بھی نازک تھی، جانکنی کا عالم تھا اور آخر کار اسی شب عشا کے بعد ان کی بھی وفات ہوگئی، میں بے حد غمگین تھی، ہم دونوں کا غم مشترکہ تھا بلکہ سر کا دکھ مجھ سے بھی زیادہ تھا کہ انھوں نے ماں جیسی ہستی کو کھویا تھا، میں نے جان بوجھ کر انھیں بڑے ابو کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا لیکن سر کو خبر مل ہی گئی، تدفین ہو چکی تھی، پھر شام کو سر نے کال کیا، آواز میں شدید کرب اور برسوں کی نقاہت محسوس ہو رہی تھی، ان کا غم تازہ تھا، لیکن وہ مجھے دلاسا دیے جا رہے تھے، میری ہمت افزائی کر رہے تھے، جب کہ میں سر کی ہمت افزائی کے لیے دو بول بھی ادا نہیں کر پائی، ان کی جرات و ہمت کو میں دل سے سلام کرتی ہوں.
2019 کی بات ہے مغرب کے وقت میں نے سر کو کال کیا اور کہا کہ سر میں نے اپنے اسکول کے اسٹوڈنٹس کو ظفر اوگانوی پر پروجیکٹ بنانے کو کہا ہے، لیکن بچوں کے پاس کوئی مضمون نہیں ہے، اگر آپ کے پاس ظفر اوگانوی صاحب پر کوئی مضمون ہو تو آپ مجھے وھاٹس ایپ پر سینڈ کر دیجیے گا. سر نے کال پر ہی کہا کہ میں بول رہا ہوں تم ابھی لکھو اور پھر سر نے مضمون لکھوانا شروع کیا اور تقریباً 20، 25 منٹ کے بعد جب مضمون مکمل ہوگیا تب میں نے یوں ہی سر سے پوچھ لیا کہ سر آپ کہاں ہیں؟ اور جواب سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے کہا کہ "میں راستے میں ہوں اور کافی دیر سے کار ڈرائیو کر رہا ہوں" تو یہ ہے سر کی ذہانت و فطانت کا عالم۔ وہ راہ چلتے ہوئے بھی کسی کتب خانے سے کم نہیں ہوتے ہیں. تاریخ و سال، حوالہ و قول سب کچھ انہیں ازبر ہوتا ہے. 
اللہ کسی کو اگر عزت و رتبے سے نوازتا ہے تو اکثر لوگ اس رتبے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن سر ایسے خوددار طبع اور غیور واقع ہوئے ہیں کہ انھوں نے اپنے رتبے کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، مثلاً کالج یا مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے کسی پروگرام میں ہوتے ہیں اور انھیں بھوک محسوس ہوتی ہے تو وہ ادارے کے فوڈ پیکٹ کو ہاتھ لگانے کے بجائے کھانے کی چیزیں ہوٹل سے منگوا لیتے ہیں بلکہ لانے والے کو خاص طور پر کہتے ہیں کہ تمھیں جو بھی پسند ہو اپنے لیے بھی لے لینا۔ اردو اکاڈمی کے بک فئیر 2020 کا آخری روز تھا پروگرام تمام ہو چکا تھا اور حاجی محمد محسن اسکوائر (مغربی بنگال اردو اکاڈمی سے متصل میدان جہاں ہر سال کتاب میلہ لگتا ہے) اب خالی ہو رہا تھا، بک اسٹال والے اپنی کتابیں سمیٹ رہے تھے، مجھے بھی گھر جانا تھا، سوچا کہ جانے سے قبل سر سے مل لوں، ابھی میں ان سے باتیں کر ہی رہی تھی کہ ایک شخص کتابوں کا ایک پیکٹ لیے سر کی جانب آیا اور کہا کہ سر آپ کی کتابیں (شاید سر نے ان کے اسٹال سے چند کتابیں پسند کی تھیں)، سر نے کہا کہ پہلے آپ قیمت بتائیں، وہ شخص مسکرانے لگا اور کہا کہ سر میں آپ سے قیمت کیسے لے سکتا ہوں، آپ اسے ہماری طرف سے تحفہ سمجھیں، لیکن سر بہ ضد ہو گئے کہ آپ جب تک اس کی قیمت نہیں بتائیں گے میں کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا، آخر کار اس شخص کو قیمت بتانی پڑی، سر نے قیمت ادا کی اور پیکٹ میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سر کے سامنے ہی شوق سے کتابیں دیکھنے لگی۔ سر ایسے فراخ دل کہ میرے بنا کچھ کہے کہنے لگے تمھیں جو بھی کتابیں پسند ہیں رکھ لو. 
گذشتہ سال میری طبیعت کافی خراب ہوگئی تھی، ڈاکٹر نے میرے مرض کو بہت سیریس بتایا۔ میری امی ڈاکٹر کے کچھ کہنے سے قبل ہی رونے لگیں، ذہنی طور پر میں بھی بہت پریشان تھی، میں خود بھی ڈاکٹر سے کھل کر بات نہیں کر پا رہی تھی، ایسے میں مجھے اپنے والد یا ایک بھائی کی کمی شدت سے کھل رہی تھی اور تب میں نے شام کے وقت سر کو کال کیا اور اپنی طبیعت کے متعلق ساری باتیں کہہ دیں۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ فکر مت کرو اور صبح ہی فلاں ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لو، میں نے اپائنٹمنٹ لے لیا، مقررہ وقت پر سر اپنی اہلیہ کے ساتھ شفا خانہ پہنچے اور پھر ان دونوں نے مجھے ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد دیر تک ڈاکٹر سے بات کی اور پھر کافی دیر تک دونوں مجھے طرح طرح کی تاکید کرتے رہے، اس وقت ان کے چہرے پر جو فکر کے آثار تھے وہ صرف ایک استاد کے نہیں تھے، بلکہ بڑے بھائی کے تھے. ان کے احسانات، محبتوں اور شفقتوں کا کوئی مول ہو ہی نہیں سکتا. 
میں نے بچپن سے "فرشتہ صفت" صرف کتابوں میں پڑھا تھا لیکن سر سے ملنے کے بعد میں نے جانا کہ فرشتہ صفت انسان ایسے ہی ہوتے ہیں، جو ہمیشہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے ہیں. مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں آپ خود میری بات سے اتفاق کریں گے. میں نے اس مضمون میں قصداً ان کی کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا کہ بہ حیثیت ادیب وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوگ پڑھ چکے ہوں گے اور اپنی رائے قائم کرچکے ہوں گے۔ لہذا سورج کو چراغ دکھانا فضول ہے. یہ علم کی ہی روشنی ہے جس نے ان کے ذہن و دل کو منور کیا ہے اور جس کا عکس ان کے چہرے پر بھی نظر آتا ہے. ان کی گفتگو سے ان کی تہذیب کا پتا چلتا ہے. برسوں پہلے ایک بار میں نے سر کی کسی بات پر کہا تھا کہ "آپ سے عقیدت ہی ایسی ہے" سر نے فوراً کہا کہ "عقیدت ایمان کا درجہ رکھتی ہے اور کسی انسان سے عقیدت مندی کا اظہار کرنا درست نہیں" لیکن آج برسوں کے بعد میں پھر کہتی ہوں کہ سر سے جو میری عقیدت جڑی ہے وہ ان شاءاللہ کبھی ختم نہیں ہوگی. 
 ***
فرزانہ پروین کی گذشتہ نگارش: غالب کا ہے انداز بیاں اور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے