غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب کا ہے انداز بیاں اور

فرزانہ پروین
کولکاتا، مغربی بنگال، ہند

اردو ادب میں اب تک ہزاروں شعرا آئے اور سینکڑوں شعرا نے اپنی شاعرانہ خصوصیات کی بنا پر اردو شاعری میں اپنی انفرادی شناخت بھی بنائی۔ ہم ان شعرا کو بڑا شاعر، معتبر شاعر، مقبول شاعر تو کہتے ہیں لیکن لفظ ”عظیم" کا استعمال فقط تین شعرا کے لیے کیا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں میر تقی میر، انیسویں صدی عیسوی میں مرزا غالب اور بیسویں صدی عیسوی میں علامہ اقبال عظیم شاعر قرار دیے گئے۔ تینوں کی حیثیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن آج بھی جب اردو کے سب سے بڑے شاعر کی بات آتی ہے تو ادب کا ایک بڑا طبقہ اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ہم میر اور غالب میں کسے برتر کہیں؟ میرا مقصد یہاں میر و غالب کا موازنہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ میر تقی میر بھلے ہی ناقدین ادب کی نگاہ میں خداے سخن ہوں مگر جو عوامی شہرت اور مقبولیت غالب کے حصے میں آئی وہ اردو کے کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئی۔
غالب کی شاعرانہ عظمت کو آج پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ ہندستان کا غیر اردو داں طبقہ بھی غالب کے نام اور اشعار سے واقف ہے۔ غالب کو جو شہرت دوام حاصل ہے اس کی وجہ ان کے فکری محاسن سے زیادہ ان کا وہ منفرد شعری اسلوب ہے جس نے نہ صرف اردو تنقید کو متاثر کیا بلکہ ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان کی زندگی میں بھلے ہی ان کی پزیرائی نہ ہوئی ہو لیکن انھیں اپنی شاعرانہ عظمت کا احساس تھا تبھی وہ پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اس شعر کا سارا حسن لفظ ”اور" میں مضمر ہے کیونکہ غالب کے یہاں جو منفرد انداز اور لب و لہجہ ملتا ہے وہ انھیں دوسرے شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔
غالب ہر خاص و عام میں مقبول شاعر ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غالب کی شاعری میں فکری، فنی، اسلوبیاتی، نظریاتی خوبیوں کے ساتھ گہرائی و گیرائی کا جہان معنی پوشیدہ ہے، جس میں ہمہ گیری بھی ہے اور بلند آہنگی بھی، فکر انگیزی بھی ہے اور جمالیاتی پہلو بھی۔ ان کی شاعری میں جو دل آویزی، لطافت، مستی، سرشاری، ندرت، جدت، تازہ خیالی، سادگی میں پرکاری ہے وہی غالب کو سب سے اہم شاعر بناتی ہے۔
ان کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے جتنے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کے طور پر زبان زد ہو چکے ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہو، مثال کے طور پر چند مصرعے اور اشعار دیکھیں۔
”بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
”نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟"
”دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے"
”مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں"
”شرم تم کو مگر نہیں آتی"
”درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا"
”ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا"
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
شعر چاہے مشکل پسندی کی اعلا مثال ہو یا سہل ممتنع کی، اگر اس میں کچھ نیا نہ کہا جائے یا نئے ڈھنگ سے نہ کہا جائے تو بہر حال شاعری تو ہوجاتی ہے لیکن اعلا درجے کی شاعری نہیں ہو پاتی، اور وہ دیرپا تاثر بھی قائم نہیں کر پاتی۔ کسی بھی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے جدت طرازی بہت ضروری ہے اور غالب تو اپنی جدت طرازی کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے، وہ روایت سے بغاوت کرنے والے شاعر تھے، انھوں نے کسی کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی راہ خود نکالی۔ وہ کسی بھی نکتے اور نظریے کو اپنے منفرد انداز اور مخصوص لب و لہجے میں ادا کرتے تھے۔ دیوان غالب کے مطالعہ سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ انھوں نے کئی اشعار میں قافیہ اور ردیف کا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر اشعار دیکھیں:
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابناے زماں غالب
بدی کی اُس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
مذکورہ شعر جس غزل کا ہے اس میں آنے، جانے، اٹھانے، بہانے وغیرہ قوافی ہیں جب کہ ردیف ہے ”کی" قوافی میں حرف روی الف ہے۔ غالب نے شعر کے مصرع ثانی میں بارہا کہہ کر حرف روی کو نبھایا اور قافیہ کا بقیہ حصہ ”نے" اور ردیف ”کی" کو ملا کر ”نیکی" لفظ کا استعمال جس فنی مہارت سے کیا ہے اس کی مثالیں بہت کم شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد، آیا
یہ شعر جس غزل سے ماخوذ ہے اس میں قوافی سفر، نظر، مگر، سر، گھر وغیرہ ہیں اور ردیف ہے ”یاد آیا"۔ غالب نے اپنی ہنر مندی دکھاتے ہوئے قافیہ "فر" اور ردیف "یاد آیا" کو اس طرح ملایا کہ فریاد آیا بن گیا۔
رہزنی ہے کہ دلسِتانی ہے؟
لے کے دل، دلسِتاں روانہ ہوا
مذکورہ بالا شعر میں لفظ ”روا" قافیہ اور ”نہ ہوا" ردیف ہے جسے شاعر نے بڑی خوب صورتی سے ”روانہ ہوا" ادا کیا ہے، جب کہ غزل کے قوافی برا، مزا، ادا، گلا وغیرہ ہیں اور ردیف ”نہ ہوا"۔ یہ اشعار اس بات پر دال ہیں کہ غالب میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو کسی شاعر کو آفاقی بناتی ہیں۔
انسان کی زندگی عروج و زوال، خوشی، غم، اذیت، اداسی، بے بسی، مجبوری، قہقہہ، خاموشی غرض کہ ان جیسی کتنی ہی کیفیات کی آماجگاہ ہے۔ ہر شخص کبھی بے حد خوش ہوتا ہے تو کبھی غمگین، کبھی خلوت پسند کرتا ہے تو کبھی جلوت، کبھی بلا سبب ہی اداس ہو جاتا ہے تو کبھی اس کے لبوں پہ مسکان ہوتی ہے۔ اور شاعری انھی کیفیات و جذبات کو لفظوں میں اس طرح پرونے کا نام ہے جو سیدھے دل میں اتر جائے۔ غالب کے یہاں جذبات و احساسات کا ایسا برملا اظہار ملتا ہے کہ اس کے حسن کو لفظوں میں پرونا مشکل ہے۔ چند اشعار دیکھیں:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
میری قسمت میں غم اگر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دئے ہوتے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
عشق میں ملنے والے درد و اذیت، سوز و گداز، محبت کی شدت کو ان اشعار میں صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عشق تو ایک آفاقی جذبہ ہے اور اردو شاعری کی یہ روح ہے. اسے زمانہ قدیم سے اب تک تقریبا تمام شعرا نے اپنے اپنے انداز میں برتنے کی کوشش کی ہے لیکن غالب نے اس کے ان گنت پہلوؤں کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے اور اس کے معاملات، واردات اور کیفیات کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔
تکرار لفظی کا شمار شاعری کے عیوب میں ہوتا ہے لیکن شاعر اگر اسے برتنے کے ہنر سے آشنا ہے اور استادانہ کمال رکھتا ہے تو یہی عیب شعر کا حسن بن جاتا ہے اور شعر کو شاعری کی معراج عطا کرتا ہے اور اگر اسے برتنے میں ذرا بھی کوتاہی ہوئی تو شعر بوجھل بن کر رہ جاتا ہے۔ غالب نے اپنے اشعار میں لفظوں کی تکرار سے الگ ہی حسن پیدا کیا ہے اور کہیں وہ زور بیان کے لیے بھی ایک ہی لفظ کو بار بار لاتے ہیں۔ تکرار لفظی کی مثال میں غالب کے چند اشعار دیکھیں اور اس کی غنائیت پر سر دھنیں:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس شعر میں غالب کا منفرد انداز دیکھیں:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
مذکورہ بالا شعر میں استعارے و کنایے اور لفظی تکرار نے ان کے حسن میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ شاعر نے ہجر کی اذیت اور تنہائی کی اداسی کا اظہار بڑے کرب کے ساتھ کیا ہے کہ ہجر کی رات کاٹے نہیں کٹتی، شام سے صبح کرنا کتنا کٹھن امر ہے، شاعر ہر سانس ایک نئی موت مرتا ہے اور اس کا دل زخم زخم ہے لہذا وہ کہتا ہے کہ میرے زخموں کا حال مت پوچھ، اسے کرید کرید کر ہرا نہ کر، تنہائی نے میری حالت غیر کر دی ہے اور اس رات کا گزرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فرہاد کے لیے جوئے شیر کا لانا۔شاعر نے یہاں غضب کی مثال دے کر شعر کو جو معنویت عطا کی ہے یہی اسے دیگر شعرا سے منفرد بناتی ہے۔
غالب کے اشعار میں شعری بول چال اور استفہامیہ انداز جا بجا ملتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطوط میں تکلم کا سماں تو پیدا کیا ہی ہے لیکن ان کے اشعار بھی اس ہنر سے خالی نہیں، ان کا استفہامیہ اور تکلم بھرا لہجہ شعر میں جو جاذبیت پیدا کرتا ہے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیں:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟
مجھ سے مت کہہ: ”تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی"
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟
تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالب
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
غالب کے کلام کی ایک اور خصوصیت تہہ داری ہے جو اسے دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہے، بہ ظاہر بہت آسان اور سادہ نظر آنے والا شعر بھی سیدھا سادا اور سپاٹ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں کتنے ہی پیچ و خم، نشیب و فراز، رمز و ایما اور اشارے کنایے ہوتے ہیں، شعر پرت در پرت جب کھلتا ہے تو اس کے الگ الگ معانی سامنے آنے لگتے ہیں. ایک شعر دیکھیں:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
بہ ظاہر شعر سادہ ہے۔ سہل ممتنع ہے۔ اور سہل ممتنع میں ایک جہاں آباد ہوا کرتا ہے۔ شاعر نے نہایت سادگی سے اپنی بات مکمل کی ہے۔ شاعر کا خیال ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے لیکن نیند کے لیے تو کوئی وقت مقرر نہیں۔ جو معنی پوشیدہ ہے وہ یہ کہ شاعر کہہ رہا ہے کہ ایسا تو نہیں کہ میری نیند موت بن گئی ہے جو وقت پر ہی آئے گی۔
ایک اور شعر میں غالب کہتے ہیں:
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
اس شعر کا کلیدی لفظ "لڑکپن" ہے اور لڑکپن بچپن اور جوانی کے درمیان کا مرحلہ ہے، یعنی بچپن میں کوئی شعور نہیں ہوتا جب کہ لڑکپن میں شعور شروع ہوتا ہے۔ ظاہر ہے شاعر نے لفظ لڑکپن کا استعمال کر کے شعر کے حسنِ معنی کو دوبالا کر دیا ہے کہ میں نے لڑکپن میں جب مجنوں پر پتھر اٹھایا تو اپنا ہی سر یاد آیا۔
اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیں:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اس شعر کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ شاعر دشت کی جانب جاتا ہے اور وہاں کی ویرانی اسے اپنے گھر کی یاد دلاتی ہے کہ اسی دشت کی طرح میرا گھر بھی ویران ہے جب کہ اس شعر کے مصرع اولیٰ کو اگر حقارت سے ادا کیا جائے تو یہ معنی نکلتا ہے کہ بھلا دشت کی ویرانی بھی کوئی ویرانی ہے، اس سے زیادہ تو میرا گھر ویران پڑا ہے، اصل ویرانی دیکھنی ہو تو میرا گھر دیکھو۔
ایک اور شعر میں غالب بہ ظاہر بڑی سادگی سے کہتے ہیں:
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس کا آسان سا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ میں دنیا کے دکھ، درد و غم سے اکتا گیا ہوں، کوئی تو میرے دکھ کی دوا کرے اور حضرت عیسیٰ میرے مسیحا بن کر آئیں، مگر ہم ذرا سا غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس شعر کا اصل حسن لفظ ”کوئی" میں پوشیدہ ہے. شاعر کہتا ہے کہ ابن مریم کوئی ہوتا ہے تو ہوا کرے لیکن میرے دکھ کی دوا جو کر رہا ہے وہی میرے لیے ابن مریم ہے۔ کیونکہ اب اس زمانے میں کوئی عیسیٰ تو پیدا نہیں ہوں گے۔
چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا، وہ بھی تہہ داری ایسی کہ شعر جتنی بار پڑھا یا غور کیا جائے وہ پرت در پرت نئے مفہوم کے ساتھ سامنے آتا ہے، سہل ممتنع کے شعر کی خوبی بھی یہی ہوتی ہے کہ اس میں معنی کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔
شاعری میں تلمیحات، رمز، اشارہ کنایہ، استعارہ کا ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ اس سے معنی میں وسعت اور شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے، تلمیح شعر کو اس قدر بلیغ کر دیتا ہے کہ ہمارا ذہن ان تاریخی واقعات کی جانب گردش کرنے لگتا ہے اور ہم اس کے سحر میں کھو جاتے ہیں. دیوان غالب میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جن میں تلمیح کو اس طرح برتا گیا ہے کہ اس کا حسن دو چند ہو گیا ہے. نمونۂ اشعار دیکھیں:
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے
پیشے میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
غالب کی شخصیت پر بہار تھی، ان کی طبیعت میں شوخی و ظرافت کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ انھوں نے اپنی شوخی سے کسی کی دل آزاری کرنے یا کسی کو نیچا دکھانے کا کام نہیں کیا بلکہ اس میں زندگی اور جولانی پیدا کی ہے، جدت اور ندرت پیدا کی ہے، ان کی شوخی کے کئی واقعات مشہور ہیں. اپنے اسی ظریفانہ انداز کو انھوں شعری پیکر میں بھی ڈھالا ہے۔ لطف تو تب آتا ہے جب انسانوں کے ساتھ وہ فرشتے اور خالقِ کائنات کو بھی اپنی ظرافت کا نشانہ بناتے ہیں۔
مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہم سایۂ خدا ہے
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں، صرف درباں ہو گئیں
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
دیوان غالب دراصل ایک ایسا گلدستہ ہے جو مختلف و منفرد رنگ و بو کے پھولوں سے آراستہ ہے۔ ان کے قبل اور بعد کے کسی شاعر کے یہاں وہ انداز، وہ اسلوب، وہ لہجہ نہیں ملتا جس کے سبب کوئی شاعر اپنا ”انداز بیاں اور" ہونے کا دعوی کرسکے۔ یہ دعویٰ صرف اور صرف غالب نے کیا اور وہ اس میں حق بہ جانب بھی ہیں۔ اسی دعوے کی صداقت کی بنیاد پر غالب اپنی شہرت، مقبولیت اور عظمت کی وجہ سے آج تک تمام شعرا پر غالب ہیں۔
٭٭٭٭
Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata – 700017
Mobile :7003222679
Email – fparveen150@gmail.com
مضمون نگار کی گذشتہ نگارش:کتاب: دبیر احمد کا ذہنی و فکری سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے