قاری میکائیل ضیاؔئی کا نعتیہ مجموعہ مرحبا: چند ادبی خصوصیات

قاری میکائیل ضیاؔئی کا نعتیہ مجموعہ مرحبا: چند ادبی خصوصیات

طفیل احمد مصباحی

ادیبِ شہیر، صاحبِ تصانیفِ کثیرہ، معمارِ ادب، ممتاز نعت گو، شاعرِ با کمال جناب مولانا قاری محمد میکائل ضیاؔئی دام ظلہ العالی (ساکن سبحان پور کٹوریہ، ضلع بانکا، بہار) ایک مایۂ علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ ان کی، دینی، علمی، تدریسی، ادبی، صحافتی اور شعری خدمات قابلِ قدر ہیں۔ ذاتِ واحد میں ایک انجمن سمٹ آئی ہے۔ وہ بیک وقت عالم و فاضل، فنی قاری، مدرس، مصنف و مؤلف، ادیب و شاعر اور صحافی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک عالمِ با عمل اور نیک طبیعت انسان ہیں۔ ایک عالمِ ربانی کی جو شان ہونی چاہیے، وہ ان کی ذات میں ابھرے ہوئے نقوش کی طرح نمایاں ہے۔ حسنِ اخلاق کے پیکر اور خوبیِ کردار کے جلوؤں سے آراستہ ہیں۔ طبیعت میں شرافت و پاکیزگی، تواضع و خاکساری، عجز و انکساری، سادگی و بے ریائی اور خاموشی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ اکابر علما و مشائخ اور اجلہ اساتذۂ کرام کے فیضِ صحبت سے آج خود بزرگی کے مقام پر فائز ہیں۔ موصوف اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے بعد دنیاوی جھمیلوں سے دور رہ کر زندگی گذارنے کے عادی ہیں۔ تصنیف و تالیف، قرطاس و قلم اور ادب و شاعری سے قدیم یارانہ ہے۔ یہی چیزیں ان کی کُل کائنات ہیں۔ غرض کہ آپ کی تہہ دار فکر و شخصیت کی مختلف جہتیں ہیں اور ہر جہت سے آپ ایک کامیاب انسان کہے جانے کے لائق ہیں۔
کامیاب مصنف، مایۂ ناز ادیب اور قادر الکلام نعت گو شاعر کی حیثیت سے آپ کی ایک منفرد شناخت ہے۔ اس وقت نعت گوئی میں اختصاص و امتیاز کا درجہ رکھتے ہیں اور نہایت کامیاب نعتیہ شاعری کرتے ہیں۔ طویل مشق و ممارست اور کثرتِ مزاولت نے ان کی نعت نگاری میں ادبیت کا رنگ گھول دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام میں وہ ساری ادبی خصوصیات بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں، جو کسی قادر الکلام شاعر کا طرۂ امتیاز سمجھی جاتی ہیں۔ خالص ادبی اعتبار سے ان کی نعتیہ شاعری میں عشق و وارفتگی، مواد و ہیئت کی عمدگی، فصاحت و بلاغت، سلاست، خیال کی لطافت، فکر کی گہرائی، تخیل کی پاکیزگی، سادگی، صفائی، برجستگی، روانی، زبان کی دل کشی، تعبیرات کی عمدگی، اظہار کا والہانہ پن، بیان کی طرفگی، ادب و فن کی رعنائی اور خامہ و فکر کی پختگی اپنے شباب پر نظر آتی ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں معنوی گہرائی اور اسلوب کی تازہ کاری کے ساتھ بلا کی جاذبیت اور کشش پائی جاتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے نعتیہ ادب کی کہکشاں صفحۂ قرطاس پر بکھیر دی ہے:
شبِ اسریٰ ترے دم سے ہوئے لوح و قلم روشن
ترے جلوؤں سے عرش و لا مکاں نے روشنی پائی

عشقِ سرکارِ دو عالم میں جو ہوتے ہیں فنا
کچھ وہی لوگ ستاروں کو قبا کرتے ہیں

دل میں رسولِ پاک کی الفت ہے خیمہ زن
سر پر مرے کرم کا عمامہ انہیں کا ہے

مجھے تمازتِ عصیاں نہ ڈھونڈ پائے گی
مرے وجود پہ ہے سایۂ لوائے رسول

ہمیں زنجیرِ عشقِ مصطفیٰ ہر شے سے پیاری ہے
یہی شمعِ فروزاں ہم شبِ زنداں میں رکھتے ہیں

ہر سازِ رگِ جاں ہے اسی نام سے باقی
روشن ہے وہی نام مرے درد و دوا میں

ہمارے ہاتھ کی تحریر بھی انہیں کی ہے
ہماری فکر کے سب زاویے بھی ان کے ہیں

دھند فکر و تردد کی سب چھٹ گئی
حشر میں جب حوالے دیے آپ کے
ان اشعار میں مذکورہ بالا تمام ادبی خصوصیات موجود ہیں اور یہ شاعر کی قادر الکلامی پر دال ہیں۔ موجودہ صدی نعت کی صدی ہے۔ یہ دعویٰ بڑی حد تک اپنے اندر سچائی رکھتا ہے۔ عصرِ حاضر نے صحرائے نعت کے جن مجنوؤں کو وجود بخشا ہے، علامہ قاری میکائیل ضیاؔئی ان میں سے ایک ہیں۔ نعت لکھنا، نعت پڑھنا اور گیسوئے نعت کی مشاطگی کرنا، یہی ان کا مشغلۂ حیات ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے نعتیہ ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے شہرِ بھاگل پور میں ماضی قریب میں شہبازِ خطابت حضرت علامہ اشتیاق عالم ضیاؔ شہبازی علیہ الرحمہ گذرے ہیں، جن کی منفرد نعت گوئی نے محسنؔ کاکوروی کی یاد تازہ کر دی تھی۔ علامہ ضیاؔ شہبازی کے بعد اس وقت راقم کی نظر میں شہرِ بھاگل پور و بانکا (جو کسی وقت بھاگل پور کا حصہ تھا) میں ان سے بڑا نعت گو شاعر نظر نہیں آتا۔ آپ کے تین نعتیہ مجموعہ ہائے کلام "مدح و ثنا"، "شاخِ طوبیٰ" اور "مرحبا" آپ کی شعری عظمت اور نعتیہ مہارت کو اجاگر کرتے ہیں۔ بھاگل پور کے علاوہ شہرِ کان پور بھی آپ کی ادبی کارگذاریوں اور نعت کی نغمہ سنجیوں سے مالا مال ہوا ہے۔ آپ کو صنفِ نعت سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ آپ کی نعتیہ شاعری پر پی ایچ ڈی یا کم از کم ایم فل سطح کا ایک مدلل مقالہ یا رسالہ لکھا جا سکتا ہے۔ ذیل کے اشعار دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ اس عاشقِ صادق کو نعت گوئی سے کس قدر انہماک و اشتغال ہے:
یارب ہمارے سر میں کچھ ایسی سمائے نعت
دل کے نگار خانے سے ہرگز نہ جائے نعت

پوری حیات صرف ہو مدحِ رسول میں
ہو وقف لمحہ لمحہ ہمارا برائے نعت

ایسا اثر دکھائے نبی کی ثنا گری
ہر شے بہ پیشِ سرورِ عالم سنائے نعت

ہر ذرۂ جہاں کو ملے حسن و تازگی
شمس و قمر میں تاروں میں یوں مسکرائے نعت

عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک ہو نور نور
دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ضیائے نعت

حساؔن، روؔمی، جاؔمی، غزالؔی کا واسطہ
تاثیر برکتوں کی ہمیں بھی دکھائے نعت
علامہ قاری میکائیل ضیاؔئی کی شاعرانہ مہارت کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کو "قافیہ تنگ ہونا" والے محاورے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ زبان پر مضبوط گرفت اور نوع بہ نوع اسالیبِ بیان پر قدرت کے سبب وہ سخت اور کھردری زمین پر بھی نعتیہ اشعار کے گل بوٹے بڑی آسانی سے کھِلا دیتے ہیں۔ ردیف کو نبھانے کا فن خوب جانتے ہیں اور قافیہ پیمائی کے گُر سے واقف ہیں۔ ذیل کے اشعار میں رنگ و بو، وضو، جستجو، آب جو اور نمو جیسے قافیے کو انھوں نے جس انداز سے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے، وہ ان کی قادر الکلامی پر دال ہے:
سرِ شعلۂ محبت ہے لکیر رنگ و بو کی
کہ بھڑک رہی ہے دل میں مرے آگ جستجو کی

ہوئے رحمتوں کے بادل مرے سر پہ سایہ افگن
شہِ انبیا کی جب بھی کبھی میں نے گفتگو کی

جو نبی کے اسمِ اعظم سے دعا نہ ہو مزین
وہ اسی طرح ہے جیسے ہو نماز بے وضو کی

ہے بَہار ہر جہاں کی شہِ دیں کی چشمِ رحمت
وہی تشنگی بجھائے ہے ہر ایک آبجو کی

ہے وجود آپ ہی سے ، یہ جہاں کہ وہ جہاں ہو
ہوئیں آپ ہی سے حاصل سبھی قوتیں نمو کی
شعر و سخن کی ظاہری خوبیاں اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، جتنی ان کی معنوی خوبیاں۔ زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ "مرحبا" میں شعر و ادب کی ظاہری خوبیاں بھی ہیں اور باطنی محاسن بھی۔ اس مجموعے کی سب سے بڑی خصوصیت عشق و الفت، حسنِ عقیدت و اردات، جذبِ بیکراں، سوز و گداز اور غایت درجہ ربودگی و وارفتگی ہے۔ ہر شعر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ دار اور اظہارِ عقیدت کا والہانہ ترجمان ہے۔ اس کی زیریں لہروں میں بسی عشق و عقیدت کی خوشبو قارئین کے مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیں کہ ایک عاشقِ صادق کس طرح اپنے ممدوح و مطلوب کی دہلیزِ کرم پر عقیدت کا خراج پیش کر رہا ہے:
زباں کو گر نہ ملے ان کے نام کی لذت
ہر ایک ذائقہ کام و دہن سے جاتا ہے

دل میں جب ہے قیام آقا کا
کیا تمنائے رنگ و بو کرنا

تسلی دیں مجھے سرکارِ بطحا
میں روؤں استنِ حنانہ بن کر
راقم الحروف اپنی عن قریب شائع ہونے والی کتاب "تذکرہ شعرائے بھاگل پور" میں قاری میکائیل ضیاؔئی صاحب کے فکر و فن پر تفصیلی روشنی ڈال چکا ہے، اس لیے یہاں انھیں چند سطور پر اکتفا کرتا ہے۔ ۳۲۰ / صفحات پر مشتمل اس تازہ ترین نعتیہ مجموعے (مرحبا) کی اشاعت پر راقم آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ دین و مذہب اور زبان و ادب کی خدمت کے مواقع مہیا فرمائے ۔ آمین ۔
***
طفیل مصباحی کی گذشتہ نگارش:راکیش دلبرؔ سلطان پوری کا منفرد شعری لہجہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے