جدید دور کنفیوژن کا دور ہے: مہر افروز

جدید دور کنفیوژن کا دور ہے: مہر افروز

ڈاکٹر مہر افروز سے ایک ملاقات

انٹرویو نگار : علیزے نجف

حوصلے کسی پنکھ کے مانند ہوتے ہیں جو ایک بار کھل جائے تو پرواز کے لیے آسمان ڈھونڈ ہی لیتے ہیں، جب یہ عزم و ہمت اور حوصلہ کسی کے ذہن و جاں میں سما جائے تو یہ زندگی کو ایک مقصد اور بلندی عطا کر دیتے ہیں، ڈاکٹر مہر افروز ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھایا بلکہ انھوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی روشنی سے منور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے، معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں، ڈاکٹر مہر افروز نے معلمہ و ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ نصاب سازی کے میدان میں بھی خدمات انجام دی ہیں، وہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی پہچانی جاتی ہیں، انھوں نے معاشرتی زبوں حالی کی طرف توجہ دلانے کے لیے کئی ایسی ڈاکیومنٹریز بھی بنائی ہیں جن سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی بہتری و بھلائی کے لیے کس قدر حساس ہیں، انھوں نے اسپیشل بچوں کے لیے بھی قابل قدر کوششیں سر انجام دی ہیں۔ اس وقت وہ میرے سامنے ہیں اس لیے ان کے بارے میں مزید باتیں ہم انھی سے جانتے ہیں، آئیے ہم مزید تفصیل سے بچتے ہوئے سوالات کی طرف بڑھتے ہیں. 

علیزے نجف: السلام علیکم
مہر افروز : وعلیکم السلام
علیزے نجف: آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں اور کس طرح پہچانے جانے کی خواہش مند ہیں؟
مہر افروز: میرا نام افروزہ خانم ہے. قلمی نام مہر افروز ہے، والد کا نام یعقوب خان ہارون پٹھان ہے، والدہ کا نام زبیدہ بیگم ہے، صوفی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلہ چشتیہ اور قادریہ سے متعلق ہیں۔ بھرے پرے بھائی بہنوں، پھوپھیاں، خالائیں، چچا، ماموں سے بھرا قبیلہ، اب ایسے بڑے قبیلوں میں بچوں کی جس طرح تربیت ہوتی ہے اسی طرح ہماری بھی ہوئی۔ میں فی الوقت ایک ایجوکیشنسٹ، سماجی کارکن، اور وومین ایکٹویسٹ کے طور پر جانی جاتی ہوں، قلم کار، افسانہ نگار، مبصر، مصاحبہ کار، اور نقاد بھی ہوں، انگریزی ماہر تعلیم کے طور پر جانی جاتی ہوں۔ ہماری ہزار صلاحیتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہم فانی ہیں، اللہ کی ذات قائم و دائم ہے. جو بھی عزت اللہ نے دی ہے اوقات سے زیادہ ہے۔ میں اپنی اسی شناخت پر اللہ کی شکر گزار ہوں۔ مجھے اگر انسانوں کی خدمت گار کے طور جانا جائے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیم و تربیت کا ابتدائی مرحلہ کیسا رہا؟ آپ کی ذہن سازی میں کن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا، ان کی تربیت کا انفرادی پہلو کیا تھا؟
مہر افروز: بنیادی تعلیم گھر پر ہوئی، پھر اسکول میں داخلہ ہوا. ان دنوں اردو میڈیم سے ہایر سیکینڈری کی تعلیم کا ذریعہ بھی بہتر نہیں تھا۔ ہندی اور انگریزی میڈیم ہائی اسکول ہوا کرتے تھے، پہلی زبان اردو اور بقایا مضامین انگریزی میڈیم میں پڑھنے ہوتے۔ اس طرح میٹریکیولیشن کیا۔ انٹر میڈیٹ بھی آرٹس کے مضامین لے کر کیا ہے. 
میں ایک ایسے شہر سے ہوں جس کو منی انڈیا کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ یہ ایک جنگلاتی شہر ہے، جو میگنیز کی معدن سے مالامال تھا۔ تقریباً پانچ فیکٹریاں وہاں پر موجود تھیں۔ سب سے بڑا کارخانہ کاغذ کا تھا۔ جو ویسٹ کوسٹ پیپر مل کے نام سے اب بھی موجود ہے. یہ بانگور خاندان کی ملکیت ہے۔ میگنیز کا کارخانہ ایک گجراتی ہرن پٹیل نے لگایا تھا، جہاں کچّی میگنیز سے فیرو الایئز Ferro Alloyees نام سے لوہا بنایا جاتا۔ کاغذ اور لوہے کی ترسیل کے لیے ریلوے کی ایک سنگل لاین ڈانڈیلی سے الناور جنکشن تک چلائی جاتی، جہاں سے یہ ڈبے ممبئی جانے والی مال گاڑیوں سے جوڑے جاتے۔ ساڑھے نو بجے صبح ٹرین آتی اور شام میں لوڈنگ کے بعد ساڑھے پانچ بجے چلی جاتی۔ ہمارے بچپن میں اس ٹرین کو دیکھنے بیٹھنے اور اس کا پھینکا گیا کوئلہ ایندھن کے لیے جمع کرنا ہمارا ایک شوق ہوا کرتا۔
ہلیال تعلقہ تھا، وہاں تک بسیں چلتیں، کبھی دن میں ایک یا دو بسیں ہبلی دھارواڈ تک ہوا کرتیں. ایک اردو اور ایک کنڑی سرکاری اسکول ہوا کرتا. بانگور فیملی نے اپنے مزدوروں کے لیے انگریزی اور ہندی میڈیم کے اسکول، پری یونی ورسٹی کالج اور ڈگری کالج بھی کھول رکھے تھے. اس کے علاوہ مشنری کانونٹ اسکول بھی ہوا کرتا تھا. ہر قسم کا ہندستانی جو شمالی ہندستان کا باشندہ ہوا کرتا ڈانڈیلی شہر میں بسا کرتا، دکانیں اسٹیشنری، مارواڑیوں، راجستھانیوں نے سنبھال رکھی تھیں۔ کپڑوں کی مارکیٹ کیرلا کے مسلمانوں کے پاس تھی. اناج کی دکانیں ہندو برادری نے سنبھال رکھی تھیں، اور کچا بازار، پھل سبزی ترکاری مقامی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ میری اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ بچپن سے ہی کئی زبانوں، تہذیب و کلچر کے لوگوں سے رابطہ رہا اور کئی زبانوں کو سمجھنے کی صلاحیت بچپن میں ہی ماحول سے حاصل کی ہے. تقریباً ان دنوں اردو، ہندی، گجراتی، راجستھانی، ملیالم اور تمل، مرہٹی، کونکنی زبانوں کو سننے سمجھنے اور ضرورت کے تحت بولنے کی صلاحیت پیدا ہوچکی تھی۔
عربی زبان استاد اور  مولوی صاحب کی نگرانی میں گھر پر سیکھی اور قرآن کو بامعنی تفسیر کے ساتھ سیکھا۔اس طرح کثیر لسانی صلاحیت وہیں سے پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ والد پیشہ سے استاد تھے، انھی کی تعلیم اور تربیت کا اثر ہے کہ جو کچھ بھی ہوں بس ہوں۔ والدہ معلمہ تھیں، مرہٹی اور انگریزی جانتی تھیں. یہ دونوں زبانیں بنیادی طور پر انھی سے سیکھی ہیں. گھر میں چچا، ماموں، خالاووں کی ریل پیل، ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے ٹوکتے روکتے، اخلاقی باتیں سکھاتے، ماموں سے ہندی اور کنڑی سیکھی. دیگر اساتذہ کرام نے بھی ہم پر خوب محنتیں کیں. جس کا نتیجہ اپنی اس شخصیت کے ساتھ آپ کے سامنے موجود ہوں. 
علیزے نجف: ماشاءاللہ آپ کی حاصل کردہ تعلیمی ڈگریوں کی ایک لمبی فہرست ہے، یہ علمی جنون کیا آپ کو ورثے میں ملا تھا، اگر نہیں تو پھر اس کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما رہا ہے؟
مہر افروز : میرا بچپن سے خواب تو یہ تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں، یعنی معالج۔ مگر سائنس کالج میرے گھر سے اتنی دور تھا، کہ ابا جی مجھے بھیجنے پر تیار نہ تھے۔انھوں نے کہا کہ اگر آرٹس لینی ہے تو کالج جاؤ ورنہ گھر میں بیٹھ جاؤ۔ اب مجبوری میں آرٹس کے مضامین لے کر انٹرمیڈیٹ کرلیا۔ پھر انگریزی میجر زبان، مائنر ہندی اور تاریخ ایک مضمون لے کر ہم نے ڈگری مکمل کی۔ ڈگری کے آخری سال میں رشتہ آنے لگے تو اس سے پہلے کہ ڈگری مکمل ہوتی شادی کردی گئی۔
شادی کے بعد فائنل سال مکمل کیا. دوبچوں کی ولادت کے بعد انگریزی ایم. اے کیا۔ سسر صاحب نے تعلیم مکمل کرنے میں بہت ساتھ دیا اور سرپرستی کی. پھر بی ایڈ کیا اور بہ حیثیت سیکینڈری اسکول میں انگریزی معلمہ کے ملازمت حاصل کی۔ کئی سالوں تک گھر بچے اور ملازمت کی نذر ہوگئے۔
1992 سے دوبارہ پڑھنا شروع کیا، اس بار اردو، ہندی عربک میں ماسٹرس کیے۔ ایم. ایڈ کیا۔ بنگلور سے انگریزی اور مغربی زبان پڑھانے کا ڈپلوما کیا۔ حیدر آباد سے ٹیچنگ اینڈ ٹیسٹنگ کا اسپیشل ڈپلوما حاصل کیا۔جامعہ کا ایک ڈپلوما لسانیات پر موجود ہے۔
پتہ نہیں پڑھنے کا جنون تھا کہ والد اور سسر کی شہہ تھی کہ بس پڑھتی گئی اور ڈگریوں کے انبار لگے۔ایجوکیشن میں ایم. فل بھی کیا. پی. ایچ.ڈی کرنے کے لیے اردو، ہندی، عربی اور انگریزی لسانیات پر تقابلی مطالعہ کا ارادہ تھا مگر رجسٹریشن کے باوجود ارادہ مکمل نہیں ہوسکا۔
 2017 سے لے کر 2022 تک پی. ایچ. ڈی ہمارے شہر کی کرناٹک یونی ورسٹی سے تصوف کے موضوع پر امتیازی خصوصیت کے ساتھ مکمل کی۔
بچے بھی پڑھتے رہے۔ ان دنوں، وہ راتوں کو جاگ کر پڑھائی کرتے، میں سوجاتی تو ان کی پڑھائی متاثر ہوسکتی تھی، اس لیے میں بھی ان کے ساتھ پڑھتی رہی اور ڈگریاں لیتی رہی۔
علیزے نجف: آپ نے کئی سارے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، وہاں کے نظام کو قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور گذشہ نصف صدی میں طلبہ کے رجحان میں کس طرح کا فرق واقع ہوا ہے، اس میں کس طرح کی تبدیلی لائے جانے کی ضرورت ہے؟
مہر افروز: جی میں نے کئی تعلیمی ادارہ جات دیکھے، ان سے منسلک رہی، پڑھا بھی، انھی اداروں میں پڑھایا بھی ۔
زمانۂ قدیم میں انسانی اقدار کے ساتھ کسی ہنر کا سیکھ لینا، کسی ایک یا دو زبانوں پر مہارت حاصل کر لینا تعلیم کہلاتا تھا۔ تعلیم پریکٹیکل اور عملی ہوتی تھی، بجائے اس کے کہ مضامین کو رٹاّ لگایا جائے اور امتحانی پرچے پر ذہنی قے کردی جائے۔
آج کی تعلیم مختلف اسٹریمز میں مہارت کے نام پر کچھ کتابیں پڑھنا، امتحان دینا اور ڈگری لینا ہے۔ ڈگری اس لیے بھی لی جاتی ہے کہ ملازمت حاصل کی جاسکے۔تعلیم برائے روزگار انسان کو ایک بڑے معاشی جال کا پرزہ بناتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ سماج کی بہترین کار آمد اکائی ہوتا ہے۔ منفرد معاشی نظام کا پرزہ نہیں ہوتا۔
بامقصد، انفرادی تشکیل جو لیڈر بن سکے یا چراغ بن کر کسی جماعت یا افراد کو راہ دکھا سکے، بہت کم کم ہو رہا ہے۔ آج سندر راجن پچائی گوگل سی.ای.او ہندستان کا بہترین تعلیم یافتہ شخص ملازم ہے، مالک نہیں ہے۔ہمارا تعلیمی نظام آج بھی نوکر شاہی اشخاص تیار کررہا ہے، ڈیجیٹل کمپنیوں کے مالکان مغربی دنیا سے ہیں۔ہندستانی نہیں ہیں۔
سائنس کے میدان اور ریسرچز میں ٹیکنکل دنیا میں اسرو ہے. جس کی قیادت ہندستان کر رہا ہے. مگر ادویات کی ساری کمپنیاں ابھی مغرب کی مرہون منت ہیں. گلوبلایزیشن کی پالیسی نے جتنا دنیا کو نقصان پہنچایا ہے کسی اور پالیسی نے نہیں پہنچایا۔ تعلیم کے ذرائع، کالجز یونی ورسٹیاں عام ہیں۔ مواقع تعلیم بھی عام ہیں۔ مگر تعلیم کا معیار گر رہا ہے. ہم مشینی پرزے بنا رہے ہیں، کار آمد انسان نہیں۔ انسانی اقدار کی کمی ہر میدان میں محسوس کی جاتی ہے۔ پیسہ اہم ہے، انسان بے قیمت ہے۔ ہر آدمی اپنی خواہشات، زر، زمین، تعیشات کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہا ہے۔ انسان کا جینا بے مقصد ہے، ہر ترازو معاش، ذریعۂ معاش اور ذخیرہ اندوزی، اور اس کے ذرائع کو تول رہا ہے۔ اور مول بھی اسی کا ہے۔ انسانیت مرتی اور دم توڑتی جارہی ہے. ریسیشن (معاشی بحران) کی وجہ دنیا ایک بہت بڑے خاتمے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایسی صورت حال بقائے انسانی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ انسان بے مول مہرہ ہے جو استعمال کیا جاتا ہے۔
تعلیم کا فوکس اگر انسان سازی، تخلیقیت، یکسانیت، مذہبی، ثقافتی، ادبی، لسانی ترقّی پر مبنی ہو، انسانی اقدار، انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے کرۂ ارض کا تحفظ اور ماحولیاتی تحفظ، رواداری، عالمی برادری، اخوت اور یکسانیت ہو تو، وہ تعلیم بےشک بہت زیادہ کار آمد ہوگی۔ زمین کی سرحدوں نے اور نئے نئے ابھرنے والے ازمس کی سازشوں نے کرۂ ارض پر انسانوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔ انسان کو ان خطرناک ازمس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور فطرت و قدرت سے قریب ہو کر زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے، جس میں فکر خالص ہو، محنت میں پسینہ اور مٹی ہو، غذا میں کچا پن اور مصنوعیات کی کمی ہو، کپڑوں میں سادگی اور بدن ڈھکا ہوا ہو، رہن سہن فطرت اور قدرت سے قریب تر ہو، جذبے خالص اور سچے ہوں۔ رشتے منافقت سے دور ہوں اور رویوں میں ریاکاری نہ ہو۔ تعلیم ضرورت بھر ہو، ہنر کاری اور تخلیقیت انسان کا پیٹ آسانی سے بھرے اور عیش والی زندگی سے دور رکھے۔ دولت کے لیے انسانوں کا استحصال نہ ہو. بس ایسی ایک گلوبل دنیا جسے ہم گلوبل ولیج کہیں، منظور و پسندیدہ ہے۔ تعلیمی نظام ایک دوسرے انسان کا درد پہچاننے والا انسان بنائے، معاشیاتی استحصالی پرزے تیار نہ کرے۔
کووڈ کے نام پر بایو ہتھیاروں اور انسانی جانوں سے کھلواڑ نہ ہو، دوائی کے نام پر ایک رشتہ بچانے کے لیے پورا خاندان فروخت و بے گھر نہ ہو۔ شفا کے نام پر انسانوں کی جانوں سے کھلواڑ نہ ہو۔ بس ایسی تعلیم چاہئے۔ بڑے بڑے ادارے لاکھوں کروڑوں کی فیس لے کر جو ڈگریاں بیچ رہے ہیں، وہ کس کام کی ہیں۔ ایسا علم کس کام کا جس میں انسان اور انسانیت جیسے الفاظ کے لیے جگہ نہ ہو. 
علیزے نجف: اس وقت پورے ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کو لاگو کیے جانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے، یہ نئی تعلیمی پالیسی تعلیمی نظام کو بدلنے میں کس حد تک کامیاب ہو گی، کیا محض قانون لاگو ہونے سے یہ ممکن ہے یا اساتذہ اور طلبہ کی ذہن سازی کے لیے مزید کوششیں مطلوب ہیں؟
مہر افروز: نئی تعلیمی پالیسی ایک نیا جادو کا ڈبہ ہے، جس میں کٹھ پتلیوں کا نیا کھیل رکھا گیا ہے. یہ ایک مخصوص سوچ اور وچار دھارا کو تمام ہندستانیوں پر تھوپنے کی سازش ہے. مقامیت، مقامی تہذیب، مقامی کلچر، مقامی تاریخ و جغرافیہ و وسائل کو اہمیت دینے کے نام پر ایک مخصوص سوچ، تہذیب، رویوں اور کلچر کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے. زعفرانی رنگ کو ہر طرف پھیلانے کی کوشش ہے. 
کچھ اچھی چیزیں بھی اس میں ہیں کہ انفرادی دل چسپی، انفرادی تحریک، انفرادی رفتار کو اس میں جگہ دی گئی ہے. جس میں طالب علم اپنی پسند، خود تحریک اور خود کی رفتار کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتا ہے. تعلیم علم و عمل کا نام ہے، یعنی حاصل کیے گئے علم پر عمل درآمد کرنا، اس کے تحت ہنر سازی پریکٹیکل ایجوکیشن کو اہمیت دی جارہی ہے اور نویں جماعت سے ہی اپنا اسٹریم چننے کی آزادی ہے. یہ ایک اچھی چیز نظر آتی ہے، جو نئی قومی تعلیمی پالیسی میں دکھائی گئی ہے. اساتذہ کے اذہان کا شیرازہ اصل میں ان تعلیمی پالیسیوں کے گاہے بہ گاہے بدلاؤ نے بکھیر رکھا ہے. خود ان کو پتہ نہیں ان کو کرنا کیا ہے۔ طلبہ کی ذہن سازی کے علاوہ وہ ہر چیز کرتے رہتے ہیں۔ اساتذہ کو خود سمجھانے اور ان کی ذہن سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ اساتذہ بہ ذاتِ خود بہت اچھے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اچھا کام کررہے ہیں مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
علیزے نجف: آپ ایک ایجوکیشنسٹ ہیں، اس حوالے سے آپ کا تجربہ و مشاہدہ کئی سالوں پہ محیط ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تعلیم کے اس قدر فروغ پانے کے باوجود معاشرے اور خاندان میں کردار اور اخلاقی رویے رو بہ زوال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، آپ کے خیال میں نوجوان نسل کا تعلق کس طرح اخلاقی اقدار سے جوڑا اور مستحکم کیا جا سکتا ہے؟
مہر افروز: میرے بچپن کی پڑھائی سے لے کر اب تک جو میرا مشاہدہ ہے، وہ یہ ہے کہ تعلیم کا اہم مقصد، ان دنوں انسان سازی و اخلاق سازی ہوا کرتا تھا اور ایسے ہی ہماری تعلیم و تربیت ہوئی ہے، جس کی وجہ کچھ تھوڑی بہت انسانیت، اخلاقی دولت ہماری عمر کے لوگوں میں اب بھی موجود ہے۔ سنہ دوہزار کے بعد گلوبلائیزیشن کے فنڈے نے جو کہ کیپٹلزم کا اصل انڈا تھا، انسان سازی کے بجائے مشینی پرزہ سازی کو اہمیت دی، بین الاقوامی تجارتی منڈی میں کام کرنے والے الگ الگ معیار کے پرزوں اور عہدے داروں کی ضرورت کو مہیا کرنے والی فیکٹریاں جن کو ہم یونی ورسٹیاں، جامعات اور کالجز کا نام دے سکتے ہیں، قائم کی گئیں۔جدیدیت کے نام پر فیشن اور برہنگی کو عام کیا گیا، عورت کے اعضائے مخصوصہ سے لے کر بچے کی مسکراہٹ تک ایڈور ٹائز کی دنیا میں زریعہ فروخت و تجارت بن گیا. مصنوعات کی تیاری، کیمیکلز کا بے جا استعمال، ہوٹلز، مالز ،پیزا ڈیلیوری بوائیز نے گھریلو نظام حتیٰ کہ ہمارے باورچی خانے تک کو متاثر کر رکھا ہے۔پہلے ٹیلی وژن پھر کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ اور اب فون کی دنیا نے رشتوں کی تقدیس ختم کردی ہے، خاندان کے نظام کا شیرازہ بکھیر دیا اور گھر نام کی عمارت رہ گئی، رشتوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔
ایسے وقت میں اخلاق کی بات کرنے والا دیوانہ اور پاگل کہلاتا ہے۔ فرسودہ اور اولڈ فیشن آدمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہمیں ہمت نہیں ہارنی ہے، ہم اپنے گھر سے ابتدا کریں گے، اور روایتوں، اقدار اور اخلاق کی بات اپنے بچوں سے کرتے ہوئے اپنے دائرۂ کار کو پڑوس، محلہ اور شہر میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ درس اخلاق یہ ہے کہ "ہم انسان ہیں۔ یہ زمین سارے انسانوں کی ہے۔ زمین پر اتارے گئے سارے پیغمبر، رشی، منی، اور اوتار، انھوں نے ایک ہی درس دیا، قدرت سب سے بڑی ہے۔ قدرت کے ہم سب بندے ہیں۔ اور ہمیں بہ حیثیت انسان ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ نہ ظلم کرنا ہے نہ استحصال۔ ورنہ یہ زمین بہت جلد ختم ہوجائے گی. ہم ایک ایٹم بم کی الارم کلاک پر بیٹھے ہیں جو ٹک ٹک کرکے اپنے خاتمے کے قریب ہونے کا اعلان کررہی ہے."
علیزے نجف: اسپیشل بچوں کی ایجوکیشن کے حوالے سے ہمارے یہاں موجود تعلیمی اداروں کے مجموعی رویے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں اور خود ماں باپ ان نفسیاتی بیماریوں سے کتنا آگاہ ہیں، جو بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل ہوتی ہیں، جیسے اے.ڈی.ایچ.ڈی، ڈسلیکسیا وغیرہ؟
مہر افروز: میں نے اسپیشل بچوں کے تعلیمی پیکیج اور سہولیات پر کافی کام کیا ہے۔ ان کے لیے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام "اسپرش" ہے. یہ کرناٹک حکومت، محکمۂ تعلیم کا دھارواڈ ضلع کو دیا گیا ایک پراجیکٹ تھا جو اتنا مقبول عام ہوا کہ اس کی سوا لاکھ کاپیاں شایع کی گئیں، اور ہر سرکاری اسکول کو مفت بانٹی گئیں۔ بعد ازاں "اسپرش کا دوسرا حصہ" گدگ ضلع میں فلمایا گیا، جس کی ہیڈنگ، ایڈیٹنگ اور صدا کاری میں نے خود کی ہے۔ یہ ڈاکیومینٹری یوٹیوب پر موجود ہے. تعلیمی اداروں کے مجموعی رویوں میں ہماری کوششوں سے کافی سدھار آیا ہے. ایم.ایچ.آر.ڈی نے ہماری کتاب کا انگریزی اور ہندی ترجمہ کرواکر اس پروجیکٹ کو قومی سطح پر لے لیا تھا، اس کا کہاں تک نفاذ ہوا اس کی خبر نہیں ہے۔ مگر اب اسپیشل بچوں کی نگہ داشت اور ان کی ترقی و تعلیم کے کم از کم پچاس فی صد راستے ہموار کردیے گئے ہیں۔ پڑھے لکھے کھلے ذہن کے والدین میں اپنے بچوں کی ذہنی کم زوریوں کو سمجھنے کا رجحان پنپ رہا ہے. ابھی ماس، ایجوکیشن (اجتماعی بیداری) کی ضرورت ہے۔ ہندستان خواندہ کم اور ناخواندہ زیادہ ہے۔ "تارے زمین پر" جیسی فلمیں عوام کے ذہن پر اثر انداز ہوئی ہیں اور والدین ایسے بچوں کو زحمت نہیں سمجھتے. اٹینشن ڈس آرڈر سینڈروم، ڈسلیکسیا اور ڈس گرافیا پر کام ہورہا ہے۔ ٹیچرس کو تربیت دی جاتی ہے۔ والدین کی تربیتیں بھی جاری ہیں۔لیکن تیزی کے ساتھ بڑھتی آبادی والے ملک میں ہماری کوششیں ناکافی ہیں۔ جب تک عوام میں بیداری نہیں آئے گی ان بچوں کی حفاظت، تعلیم، اور بقا ایک سوال بن کر باقی رہے گی۔
علیزے نجف: آپ کا اردو زبان سے گہرا اٹوٹ تعلق ہے، مادری زبان میں حصول تعلیم کے کیا فائدے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ خود مسلم طبقہ اردو زبان کو بطور مادری زبان کے قبول کرنے کو تیار نہیں؟
مہر افروز: اردو جن کی مادری زبان ہے ان میں ایک خیال خام یا Myth پنپ رہا ہے کہ اردو کسی کام کی نہیں. دراصل زبان اس وقت طاقتور ہوتی ہے جب اس سے معاش یا حصول معاش کے مواقع جڑ جاتے ہیں۔ پہلے سارے اعلا قوم کے افراد اردو و فارسی سیکھتے کہ اردو درباری اور کاروباری اور عدلیہ کی زبان تھی۔ دھیرے دھیرے اردو دربار سے اتری، عدلیہ سے اتری، کوٹھوں گلیوں، بازاروں میں چڑھی تب بھی اردو کی کافی مقبولیت رہی. اب کوٹھے ختم ہوئے اور طوائف جب کال گرل بن گئی تو انگریزی نے اردو کی جگہ لے لی۔ انگریزی زبان کا جنون، برصغیر میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ والدین اردو کو چھوڑ کر انگریزی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانے اور ان کو پروان چڑھانے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔جن کے بچے ذہین ہوتے ہیں وہ کسی طرح آگے بڑھ کر زندگی کی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں مگر ایسے بچے جن کو گھروں میں پڑھانے والا کوئی موجود نہ ہو وہ رکشا ڈرائیور بن کر یس، نو کرنے والا ان شرٹ ٹپ ٹاپ ڈرائیور یا محض دربان ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیمی نفسیات تو یہی کہتی ہے کہ پانچ سال کی عمر تک بچہ جس زبان کو سنتا اور بولتا رہا ہو، اسی زبان میں اچھی طرح سمجھ بھی سکتا ہے، اس لیے کم از کم پانچویں جماعت تک اس کی تعلیم مادری زبان میں ہی ہو۔ یہ نکتہ ہماری تعلیمی پالیسی کا حصہ ہے اور لکھا ہوا موجود ہے۔ اس کی بیداری اور سماج میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری بات ہمارے اپنے اساتذہ جو اردو اسکولز میں پڑھاتے ہیں، ان کی غیر ذمہ دارانہ رویے، تساہل پسندی، اور ان کے اپنے ذاتی تعلیمی معیار نے اردو اسکولز کے تعلیمی معیار کو بہت حد تک گرا دیا ہے، جس سے عوام کا رخ انگریزی میڈیم اسکولز کی طرف بڑھ گیا ہے۔
علیزے نجف: نصاب سازی کے ضمن میں آپ نے اب تک کس طرح کی خدمات انجام دی ہیں، نصاب سازی کرتے ہوئے کن باتوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے؟
مہر افروز: کسی ملک یا ریاست کا تعلیمی نصاب اس ملک کی جغرافیائی ماحول، پس منظر کی تاریخ، معاشیاتی ضرورتیں، آبادی کا تناسب بہ لحاظ جنس، مذہب، زبان، عقاید، امن و آتشی، بین ثقافتی ضروریات اور انسانوں کے آپسی بھائی چارے اور تہذیبِ مشترکہ کو بڑھاوا دینے پر منحصر ہوتا ہے، جس میں اخلاق، انسانی ہمدردی، اشتراک، مساوات، اور ترسیل خیال و جذبے کا اظہار جو بھی زبان ہو اس کی اہمیت کے ساتھ ساتھ سماج میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی بقا و فلاح بھی سوچی جانی ہو۔ ان نکات پر منحصر ہوتا ہے۔ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس ملک یا ریاست کا تعلیمی اسٹرکچر، ڈھانچہ اور خاکہ پہلے بناتے ہیں، پھر اس کو بہ لحاظ مضامین مختلف خانوں میں بانٹ کر مضامین اور عنوانات کے تحت تقسیم کر لیتے ہیں۔
نصاب کاری کے لیے بہ زبان انگریزی میں نے ریاستی اور ملکی کمیٹیوں کے لیے کام کیا ہے۔ چونکہ میں ادارۂ تعلیم و تربیت سے جڑی ہوئی ہوں، تو اساتذہ کا تربیتی مواد کا نصاب تیار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوا کرتی ہے، اس میں بھی میں نے اپنا حصہ لگانے کی پوری سعی کی ہے اور کامیاب رہی ہوں۔ کرناٹک کے تقریباً وہ تمام اساتذہ جو انگریزی اور زباندانی پڑھاتے ہیں، انھوں نے اس نصاب اور بہ حیثیت ماہر وسائل تعلیم و تربیت، میرے پاس تربیت لی اور اپنی بائیس سالہ استاد الاساتذہ کی زندگی میں میں نے ڈھائی لاکھ اساتذہ کی تربیت کی ہے۔
علیزے نجف: معاشرے کے نشیب و فراز پہ آپ کی گہری نظر ہے، موجودہ معاشرے میں اگر آپ کو کوئی دو تبدیلیاں لانی ہوں تو وہ کیا ہوں گی اور کن دو خوبیوں سے آپ بہت مطمئن اور پرامید ہیں؟
مہر افروز:  ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کی وجہ ہر مرحلے اور منزل پر استحصال بہت زیادہ ہے. امیری اور غریبی کا بیانیہ صرف معاشی صورت حال پر باقی رہ گیا ہے، جب کہ جہالت اور ناخواندہ ہونا، ادراک اور عرفان کا نہ ہونا اصل غریب ہونا اور نقصان میں ہونا ہے۔
اگر میرے ہاتھ کوئی جادو کی چھڑی آجائے تو یہ معاش اور پیسوں والا پیمانہ بدل کر میں انسان، انسانی ہنر اور اخلاق و تقویٰ کا پیمانہ معاشرے میں لاگو کرنے کی کوشش کروں گی۔
دوسرے بچوں اور عورتوں کا جس قدر استحصال و ظلم اس معاشرے میں ہورہا ہے اسے میں روکنے کی کوشش کرنا چاہوں گی۔
علیزے نجف: کیرئر کاؤنسلنگ کی اہمیت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی، بچے کے کیرئر کا انتخاب کرتے ہوئے ماں باپ کو کن تین باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے؟
مہر افروز: ذرائع ابلاغ کی بہتات کے اس زمانے میں جہاں ہر کوئی اپنی بانسری بجا رہا ہے، طلبہ کے ہاتھ میں کتاب سے زیادہ ٹیب اور موبائل ہے، جس پر وہ تفریح زیادہ اور علم کم ڈھونڈتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں کیریر کاؤنسلنگ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے. ہمارا دسویں پاس طالب علم یا طالبہ اتنے میچور یا بالغ نظر نہیں ہوتے کہ انھیں اپنی ذاتی صلاحیتوں کا ادراک ہو. یا ان کا اپنا رجحان کس سمت میں ہے اس کا اندازہ لگا سکیں۔ ایسے بچوں کو کیریئر کونسلنگ کرنا، ان کی اپنی ذہنی صلاحیتوں اور ہنر کی طرف توجہ دلانا اور مستقبل میں کون سا کورس یا تربیت ان کے لیے کار آمد ہوسکتی ہے اس کا ادراک کروانا، والدین یا اساتذہ کی ذمہ داری ہے، اس لیے وہ عمر جس کو ہم زندگی کا اہم سنگ میل کہتے ہیں، طلبہ کیریئر کاونسلنگ کروانا بے حد ضروری ہے۔ کرئیر کاؤنسلنگ کرتے وقت، طالب علم کی اپنی دل چسپی، رفتار، ذہانت، رجحان اور مواقع کو ذہن میں رکھنا ازحد ضروری ہے اور اس سے جڑے خطرات سے بھی ان کو آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ اپنے خود حفاظتی انتظامات کے ساتھ اس کورس میں داخلہ لے سکیں۔
علیزے نجف: ہمارے ملک کے طلبہ میں صحیح معنوں میں ریسرچ کا رجحان اس قدر کم کیوں ہے، وہ کاپی پیسٹ کے عادی کیوں ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس سمت بھی خصوصی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے؟
مہر افروز: ہمارے ملک میں یونی ورسٹیاں مشرومز کی طرح اگ آئی ہیں، ہر قسم کے تعلیمی شعبہ جات میسر ہیں۔ کالجز کی بھرمار ہے۔ طلبہ نے ادھر ڈگری کی ادھر کسی نہ کسی یونی ورسٹی میں ماسٹرس کا داخلہ بھی مل جاتا ہے۔ ماسٹرس ختم کرتے ہی جن کو ملازمت مل گئی وہ نکل جاتے ہیں۔ جن کو ملازمت نہیں ملتی یا جن کے سپنے کچھ زیادہ ہی بلند ہوتے ہیں وہ ریسرچ کے میدان میں آجاتے ہیں۔ ریسرچ کا مطلب نیا کھوجنا یا نئے زاویۂ نگاہ سے قدیم چیز کو دیکھنا ہے. یہ زاویۂ نگاہ کا بننا کثرت مطالعہ، گہری سوچ و فکر اور ذہنی بلوغت و فکر کے بعد آتا ہے، جو  ہمارے ان طلبہ میں ابھی آیا نہیں ہوتا ہے. ریسرچ کے لیے ذہنی پختگی ضروری ہے۔
دوسری اصل حقیقت ہماری یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے خود پروفیسران بھی اس قد و قامت کے نہیں رہے جو پہلے ہوا کرتے تھے، اس کی وجہ سے بھی ہماری ریسرچ کا معیار کافی حد تک گرگیا ہے۔
تیسری وجہ ہے تساہل پسندی اور محنت نہ کرنا؛ یہ دونوں طرف ممکن ہے، اس لیے کاپی پیسٹ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اگر ان نکات پر توجہ دی جائے تو ہوسکتا ہے ہماری تحقیق کا معیار بڑھ جائے۔
علیزے نجف: لکھنے پڑھنے کے علاوہ آپ کے کیا مشاغل ہیں اور اس کے لیے کیسے وقت نکالتی ہیں؟
مہر افروز: لکھنے پڑھنے کے علاوہ میرا ایک اہم ترین مشغلہ سوشل ورک اور فلم سازی ہے۔
میں جب سے چھوٹی تھی، شاید ایمرجنسی کا زمانہ تھا، ہمارے بہت سے بزرگ قید کردیے گئے تھے اور ہمارے والدین جو اس وقت سرکاری ملازمین تھے. میدان میں عملی طور پر کام نہیں کرسکتے تھے۔ مگر ہم بھائی بہن جو مشکل سے بارہ سے چھ سال کے درمیان میں رہے ہوں گے، ضرورت مندوں کے گھر کھانا پہنچانا، ادویات پہنچانا، پیغامات پہنچانا، اور دیگر کام کیا کرتے تھے۔ایسے ماحول میں پلنے والے بچے بہت حساس اور بہت جلد ذہنی طور پر بڑے ہوجاتے ہیں. میں ان حساس بچوں میں سے ایک ہوں۔ میرے والد کی بصیرت اور دوراندیش طبیعت نے میری تربیت کی ہے اور اپنے سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو دیکھنا اور اپنی ضرورتوں کو پیچھے رکھ کر دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنا، ہم نے والدین سے سیکھا ہے۔ یہ اب میری عادتِ ثانیہ بن گئی ہے. سوشل ورک میں، مَیں عورتوں کے لیے خود کفیلی کے لیے کاونسلنگ کرتی ہوں۔ ان کے لیے ذرائع خود کفیلی مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہوں. صحت کے میدان میں اپنی ڈاکٹر فیمیلی کے ساتھ غریب محلوں میں ہیلتھ چیک اپ کیمپس لگواتی ہوں۔ ایڈز کے مریضوں کی شناخت، ان کے رہن سہن کا الگ انتظام، ادویات کا انتظام اور ان کی خوراک، لباس اور دیکھ بھال کا انتظام ہم بہ طور ادارہ فراہم کرتے ہیں. 
کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پراسٹیٹیوشن (جسم فروشی) چلتی ہے، وہاں سے چھوٹی بچیوں کو اٹھاکر اس ماحول سے دور لے جاکر سرکاری ہاسٹلز مہیا کروانا اور ان کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دینا اور ان کی پرورش کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔
محکمہ خواتین و فلاح و بہبود برائے اطفال کے لیے فلمنگ کرتی ہوں اور بے روزگار خواتین کو روزگار فراہم کروانے کے لیے سفارش کرتی ہوں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت درست ڈھنگ سے ہو اس کے لیے بھی نیچرل ماحول کی ڈاکیومینٹریز بنا کر محمکہ تعلیم کو فراہم کرتی ہوں۔ کلاس رومز کی فلمنگ والدین اور اساتذہ کی اجازت سے کی ہے۔ اس طرح اب تک 58 ڈاکیومینٹریس بنا چکی ہوں۔ کرناٹک کی اقلیتوں کی جسٹس سچر رپورٹ میں میری فلم کی ہوئی ڈاکیومینڑی ہے اور لکھی گئی رپورٹ اور دستاویز ہے. جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق اگر کچھ کرنے کا درد ہے تو ہم اپنے آرام کو تج کر کچھ کر گزرتے ہیں۔
میڈیکل تعلیم یا انجینرنگ کی تعلیم کے دوران بچے نشہ بازی کا شکار ہوتے ہیں، اپنی خود اعتمادی اور خود یقینی کھو کر کبھی کبھی خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ایک نفسیاتی کاؤنسلر کی حیثیت سے میں نے ایسے بچوں کی مدد کی ہے اور ان کو ڈپریشن سے نکال کر عام زندگی کی طرف لوٹایا ہے. اللہ کا احسان ہے یہ خدمت بھی اللہ نے کروالی ہے. 
تعلیم بالغان اور ضرورت مند غریب بچوں کی پڑھائی کے لیے حتی المقدور ذرائع فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
باغبانی کا شوق ہے، جو ادویات اور پھولوں کے پودے گملوں میں لگا کر اگانے کی کوشش میں پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر بیکار مشاغل چھوڑ دیں تو ہمارے پاس اتنا وقت تو بچ جاتا ہے کہ ہم دوسروں کا سوچ سکیں۔
علیزے نجف: اگر آپ کو ایک جملے میں اپنے آپ کو ڈیفائن کرنا پڑے تو وہ ایک جملہ کیا ہوگا؟
مہر افروز: "قوم و ملت کی مخلص خادمہ جس کی اپنی کوئی غرض نہیں ہے."
علیزے نجف: زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے کن عوامل پہ کام کرنے کو آپ ضروری سمجھتی ہیں؟
مہر افروز: زندگی ایک موقع ہے جینے کا، اپنی اور اپنے سے جڑے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنے کا، خود بھی جئیں، محنت کریں، اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کریں، دوسروں کے دکھ درد میں خود شامل ہوں۔یہ زندگی ایک امانت ہے جس کو سنبھال کر اٹھانا ہے اور بار امانت کی حفاظت بھی کرنی ہے، اس زندگی کی ہر نعمت کا سوال ہوگا، حقوق اللہ کے بعد دوسرا سوال حقوق العباد کا ہوگا، اس کے لیے حقوق العباد ادا کرنے کی پوری کوشش کریں اور زندگی کو کامیاب بنائیں۔مثبت رہیں، مثبت سوچیں، مثبت جئیں۔
علیزے نجف: آخر میں آپ طلبہ کو کیا پیغام دینا چاہیں گی، کوئی دو اصول جو انھیں تعلیمی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنانے کی تاکید کریں گی؟
مہر افروز : جدید دور کنفیوژن کا دور ہے، ذرایع ابلاغ کی بھرمار ہے، طلبہ خود کو فوکسڈ اور مرکوز رکھیں۔ طلبہ کی زندگی، والدین اور قوم کی امانت ہے. خود کو بنائیں، بگاڑیں نہیں، عیش کرنے کو زندگی پڑی، اپنی نوجوانی کو اس میں ضایع مت کریں۔ خوش رہیں مثبت سوچ رکھیں، اپنے آپ کو اِس لیے بتائیں کہ آپ معاشرے کی مثبت اکائی ہیں۔
دوسرا اصول ہے، خود پابند اور سیلف ڈسپلینڈ بنیں، وقت کو اہمیت دیں تاکہ وقت آپ کو اہمیت دے. آپ وقت کو سنبھل کر استعمال کریں گے تو وقت آپ کو سنبھال لے گا۔
***
گذشتہ گفتگو : فیض کو فیض بنانے میں ایلس فیض کا بھی اہم کردار تھا: منیزہ ہاشمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے