چھوٹی خالہ

چھوٹی خالہ

قیُوّم خالد
شکاگو، امریکہ

سفر اپنے آخری مرحلہ میں تھا، ریل گاڑی کی رفتار دم توڑ رہی تھی، تھکن سے اُس کا جسم چُور چُور تھا، ایک ایک ہڈی درد کررہی تھی۔ حیدرآباد سے نئی دہلی، نئی دہلی سے امرتسر، اٹاری، پھر واہگہ بارڈر، پھر لاہور اور وہاں سے اسلام آباد، بیچ میں اِمیگریشن اور کسٹمز کی خواری۔ سُلیمان بھائی نے کہا بھی تھا کہ ہوائی جہاز سے چلے جاؤ، ٹکٹ کے پیسے میں دے دیتا ہُوں۔ لیکِن ابّا کی اُصول پسندی، وہ کب کِسی کا احسان لینے راضی ہوتے، وہ اپنی ضِد پر اڑے رہے کہ ٹرین سے ہی جاؤں گا۔ سامان کُچھ زِیادہ نہ تھا، وہ دونوں سہُولت سے اِسٹیشن پر اُتر گئے، ابّا کی نظریں جمیل بھائی کو ڈُھونڈنے لگیں، اچانک عاتِکہ کی نظر جِس پر پڑی وہ دُنیا کا آخری شخص تھا جِس سے وہ یہاں مِلنا چاہتی تھی، وہ اُس کے خالہ زاد شجیع بھائی تھے۔ وہ تیزی سے اُن لوگوں کے قریب آئے، ابّا نے نہایت پُرتپاک انداز میں اُن سے ہاتھ مِلایا، ”مُجھے نجمہ باجی نے آپ لوگوں کو لینے کے لیے بھیجا ہے." شجیع بھائی نے ادب سے کہا، وہ زیرِلب مُسکرادی اور ہاتھ اُٹھاکر سلام کیا، اُنھوں نے ہاتھ بڑھاکر مُصافحہ کرنا چاہا، اچانک اُنھیں یاد آیا کہ یہ امریکہ نہیں ہے، اُنھوں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا، وہ پھر مُسکرادی، اِس دفعہ مُسکراہٹ بہت واضح تھی۔ اگر ابّا نے اِنکار نہ کِیا ہوتا تو وہ اب اُن کے پیچھے کھڑی ہوتی ایک فرماں بردار بیوی کی طرح۔ کِیا پتہ وہ جینس اور ٹی شرٹ پہن کر ابّا کو ریسیو کرنے آتی۔ وہ بھلا یہاں ہوتی ہی کیوں؟ صباحت بھابھی کے بغیر شجیع بھائی کا پاکستان سے کِیا رِشتہ؟ پھر اُس نے اپنے آپ پر ملامت کی، وہ نجمہ باجی کے لیے ضرور آتی، دُہرا رِشتہ جو ہوتا، اُسے اپنی منطق پر دِل ہی دِل میں ہنسی آگئی۔
”جمیل کیوں نہیں آئے" ابّا نے کار میں بیٹھتے ہُوئے پُوچھا۔
”وہ اپنے کام کے سِلسلہ میں بحرین گئے ہُوئے ہیں، چار دِن بعد لوٹینگیں"
”بیوی شدید بیمار ہے اور اُنھیں کام کی سُوجھی ہے"
” مِڈل اِیسٹ میں کنٹریکٹس کے کام تو ہر حال میں نِبھانے ہوتے ہیں، پاکِستان ہِندوستان والا معاملہ نہیں چلتا" شجیع بھائی نے وضاحت کی جو ابّا کو پسند نہیں آئی۔
” صباحت بھابھی کیسی ہیں، کیا وہ امریکہ میں ہی ہیں" عاتِکہ نے پُوچھا۔
” نہیں وہ بھی آئی ہُوئی ہیں۔ آج نجمہ باجی کا کیمو تھیراپی کا دِن تھا، اُن کے ساتھ ہاسپِٹل گئی ہُوئی ہیں" یہ جوا ب عاتکہ کو پسند نہیں آیا۔ ”یہاں تین دِن سے بارِش ہو رہی ہے" جمیل نے بات بدلتے ہُوئے کہا۔
اُس نے کھِڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، پہاڑوں سے پانی ایسے رِس رہا تھا جیسے دِل میں قطرہ قطرہ غم رِستا ہے۔ باقی راستہ خاموشی سے کٹا، تینوں کے دِل بوجھل تھے۔
دو گھنٹے بعد نجمہ باجی بھی واپس آگئیں، نقاہت سے اُن کا حال خراب تھا۔ قدم کہیں رکھ رہی تھں کہیں پڑ رہے تھے۔ دونوں باپ بیٹی مِل کر بہت روئے۔ دو دِن تک اُن کی حالت بہت خراب رہی بات کرنے کے قابِل بھی نہیں تھی۔
کِتنی خوب صُورت زِندگی تھی آپی اور جمیل بھائی کی، کِتنا چاہتے ہیں جمیل بھائی۔ امّاں پہلے اس رشتے کے حق میں نہیں تھی، اُنھیں سُسرال سے دُکھ مِلے تھے۔ جمیل بھائی نے خُود امّاں کو یقین دِلایا تھا کہ وہ اُن کی بیٹی کو سُکھ چین سے رکھیں گیں، اُنھوں نے بات نِبھائی بھی۔ بیچ میں یہ بِیماری نِکل آئی، نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔
چار دِن بعد جمیل بھائی بھی بحرین سے واپس آگئے۔موقع سے ابّا نے بھتیجے کی سرزنِش کی کہ نجمہ کا عِلاج امریکہ لے جاکر کراؤ۔ تُمھیں تو خبط ہے پاکستان میں رہنے کا۔ اِسلامی مملکت، اِسلامی مملکت، مُجھے تو یہاں کُچھ نظر نہیں آیا۔ جمیل بھائی نے کُچھ نہیں کہا۔ مگر بات بہت بڑھ گئی تھی۔ پہلے پہل جب دونوں پِستانوں میں گِلٹیاں دریافت ہوئیں تو ڈاکٹر نے اُنھیں نِکال دِیا تھا، ٹیسٹ میں معلُوم ہُوا کہ کینسر ہے۔ گِلٹیاں بہت تیزی سے واپس آگئیں اور اب کے دو گِلٹیاں اور زِیادہ تھیں، ڈاکٹر حیران رہ گیا، تیز رفتاری کے پیشِ نظر ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ  پستان نِکال دیے جائیں، نِکال دیے گئے۔ کیموتھراپی بھی شُروع کردی گئی، اُس کے باوجُود کینسر قابُو میں نہ آیا اور سینہ میں پھیل گیا۔ عِلاج چلتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہُوا، اب تو دِھیرے دِھیرے دِماغ بھی مُتّاثر ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹر بے بس تھے۔
نجمہ کے بچّے بہت مِلنسار تھے، نانا اور چھوٹی خالہ کے آنے سے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ بڑے دو سمجھ دار تھے باقی سب بچّے عاتِکہ کو گھیرے رہتے۔ چھوٹی خالہ، چھوٹی خالہ کہتے منہ نہیں سُوکھتا، ہر ایک کی ضِد رہتی کہ کھانا عاتِکہ کے ہاتھ سے کھائیں گے، منہ چھوٹی خالہ دُھلانا۔ غرض ہر کام چھوٹی خالہ کرنا۔ نجمہ نے ڈرایا کہ اِس طرح تنگ کروگی تو وہ چلی جائیں گی، یہ سُن کر حُسنہ نے عاتِکہ کی جُوتیاں چُھپادیں۔
ایک دِن کھانے کی میز پر شجیع اُکھڑےاُکھڑے سے اُداس سے تھے۔ حالانکہ وہ بہت بذلہ سنج، ہنس مُکھ تھے، اِتنی سنجیدگی سے مذاق کرتے کہ سامنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ مذاق کر رہے ہیں، اُن کی موجودگی میں محفِل قہقہہ زار رہتی۔ وہ حاظر جواب بھی بہت تھے۔ عاتِکہ نے جُملہ کسا شجیع بھائی آپ فِکر نہ کریں میں صباحت بھابھی کو کُچھ بھی نہیں بتاؤں گی، پُرانے راز، راز ہی رہیں گے۔ اس پر نجمہ اورصباحت دونوں کِھل کِھلا کر ہنس پڑے۔ نجمہ نے صباحت کو سب کُچھ بتادِیا تھا کہ کِس طرح شجیع کو عاتِکہ پسند تھی اور خالہ جان نے عاتِکہ کا رِشتہ مانگا تھا اور ابّا نے اِنکار کردِیا تھا۔
”تُم کب سے اِتنی باتُونی ہوگئی ہو۔ پہلے تو کِسی کو گھانس ہی نہیں ڈالتی تھیں۔" شجیع نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دِیا۔ ”کیا کریں اب گھانس سستی ہوگئی ہے، اُس کے علاوہ اب لوگوں نے ہمیں گھانس ڈالنا چھوڑ دِیا ہے۔" پھر ٹیبل پر خاموشی چھا گئی، بے ساختہ ہنسی بھی ایک جُرم تھی۔
دو دِن بعد شجیع، صباحت امریکہ واپس چلے گئے، نجمہ نے سُکون کا سانس لیا، اب وہ پُورا وقت عاتِکہ کے ساتھ بِتا سکتی تھی۔ اُسے احساسِ ندامت نے گھیر لیا، شجیع چُھٹیاں لے کر اُتنی دور سے اُس کی عِیادت کو آیا تھا۔" اچھّا ہُوا تُم ابّا کے ساتھ آگئیں، مُجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی تھیں۔" پھر دونوں نے دو تین دِن تک بہت باتیں کیں، آمنہ کی شادی، دونوں بھائیوں کی زِندگی کی تفصیلات۔ مگر اِس دوران بھی حالات گمبھیر ہی رہے، نجمہ دو دفعہ باتھ رُوم میں گِرگئیں۔
ایک دِن وہ دونوں باتیں کرنے بیٹھے تھے کہ اچانک نجمہ نے پُوچھ ہی لِیا ”تُم نے اکرم سے طلّاق کیوں لی؟"
عاتِکہ چونک گئی حالانکہ اُسے پتہ تھا کہ ایک نہ ایک دِن یہ بات نکلے گی۔ ”سب نصیب کی باتیں ہیں۔ پہلے بات endometriosis سے شُروع ہُوئی heavy bleeding مہینہ میں پندرہ پندرہ دِن تک۔ چار blood transfusion ساتھ میں uterus میں fibroids بننے لگے پھر ovarian cysts۔ اِسی میں پانچ سال نِکل گئے۔کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا سب نے یہی مشورہ دِیا کہ uterus نِکال دو۔"
” وہ تو طلّاق نہیں دے رہا تھا، تُم نے خُود کیوں لی"
”وہ تو adoption کی بات کررہا تھا، مگر مُجھ سے دُوسروں کے بچّے نہیں پالے جاتے"
نجمہ ایک لمحہ کے لیے چونک گئی پر کُچھ کہا نہیں۔
”پھر بے رُوح زِندگی گُزارنے سے کیا فائدہ۔ اب اپنے ہی امّی ابّا کی بات لے لو، زِندگی بھر بنی نہیں (امّاں کو ابّا کے اُصولوں سے چِڑ تھی اور زِندگی میں لچک چاہتی تھیں اور ابّا اپنے اُصولوں پر اڑے رہتے)، مگر چھ بچّے پیدا کر لیے، یہاں تو بچّوں کی بات بھی نہیں تھی۔"
”پھر بھی طلاق شدہ زِندگی سے وہ زِندگی بہتر تھی۔"
”اور جِس طرح سے اُس نے جلد ہی شادی کرلی اُس سے ظاہر ہُوا کہ وہ میرا دِل رکھنے کے لیے کہہ رہا تھا، کل کے پچھتاووں سے آج کے کڑے فیصلے بہتر ہوتے ہیں، اپنی زِندگی کے ساتھ کِسی اور کی زِندگی برباد کرنے سے کیا حاصل۔ میں اب نوکری کرتی ہُوں کِسی پر بوجھ نہیں ہُوں اور اپنی زندگی سے مُطمئن ہُوں" عاتِکہ بہن کے گلے لگ گئی اور گال پر ایک بوسہ لے لیا اور بات ختم کردی۔ نجمہ کی بات ادُھوری رہ گئی۔
دو دِن نجمہ کی طبیعت بہت خراب رہی، وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکی، دو دِن بعد نجمہ نے کہا ”تُمھیں یاد ہے نہ میں نے تُم سے کہا تھا کہ جب تُم یہاں آؤگی تو میں تُمھاری شادی کرادُوں گی"
” وہ تو آپ مذاق میں کہہ رہی تھیں، مُجھ سے کون شادی کرے گا"
"ہیں تُمھارے چاہنے والے" نجمہ نے مذاق کے لہجہ میں کہا۔
” چاہنے والے کب تک اِنتظار کرتے، کب کے گھر بسا چُکے"
عاتِکہ صاف محسُوس کر رہی تھی کہ نجمہ بار بار تُھوک نِگل رہی ہے  اور لفظ اُس کے گلے میں پھنس رہے ہیں، وہ وہ نہیں کہہ پارہی جو کہنا چاہ رہی ہے۔ بِالآخر نجمہ نے کہا ”نہیں میں نے سنجیدگی سے کہا تھا، غرض میری ہے، میرے بچّے چھوٹے ہیں اور اُنھیں یہاں پاکستان میں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ جمیل دو دو مہینے مِڈل اِیسٹ میں رہتے ہیں اور اکژ باہر آنا جانا رہتا ہے۔ گھر دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے، مُجھے یقین ہے کہ جمیل دُوسری شادی کر لیں گے۔ نئی ماں بچّوں سے کیسا سُلوک کرے گی نہیں معلوم۔ میری خواہش ہے کہ تُم جمیل سے شادی کرلو، میں نے جمیل سے بات کی ہے وہ اس بات پر راضی ہے۔" عاتِکہ یہ سب سُن کر سنّ رہ گئی اور تُھوک نگل کر بڑی مُشکِل سے بول سکی ”میرے سارے حالات جاننے کے بعد بھی؟"
”ہاں۔ اُنھیں بچّوں کے لیے صرف ایک ماں چاہئے" وہ کِتنی ہی دیر گُم سُم رہی، اُس سے کُچھ بولا نہیں جارہا تھا، اُس کی آنکھ سے آنسُو بہہ نِکلے، دونوں بہنیں رونے لگیں۔
” آپی یہ بات آپ نے کِسی کو بتائی تو نہیں ابّا کو، بھائیوں کو؟"
” نہیں، یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہے، صرف جمیل کو پتہ ہے کہ میں تُم سے یہ بات کرنے والی ہُوں، وہ بھی غیر جانب دار ہیں۔ میری ہی غرض ہے اِس لیے میں بے غیرت ہوکر بات کر رہی ہُوں"
” بات یہ نہیں ہے، یہ ایک بڑا فیصلہ ہے، پتہ نہیں مُجھے پاکستان میں رہنے کی اِجازت مِلے گی یا نہیں"
” اُس کی فِکر نہ کرو جمیل اِنتظام کرلیں گے"
” ویسے تو آدھا خاندان مُجھ سے ناراض ہے پھر بھی میں یہاں اکیلی رہ جاؤں گی، تُم بھی تو یہاں اکیلی ہو یہ تُمھارا ہی حوصلہ ہے" 
” میرے بچّے بڑے ہوکر تُمھیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے"
” پھر بھی میں سارے خاندان سے کٹ جاؤں گی، جمیل بھائی کو مجھ سے اچھی بِیوی مِل جائے گی"
” تُم سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، تُم پر میں کوئی زبردستی نہیں کر رہی ہوں۔ تُم یہاں آئی تو مُجھے خیال آیا کہ میرے بچّوں کو تُم سے اچھی ماں کون مِل سکتی ہے۔ مُناسِب سمجھو تو ابّا سے مشورہ کرلو"
دونوں نے ابّا سے بات کی تو اُنھوں نے اپنا دامن صاف بچا لِیا، پہلی شادی میری ذِمہ داری تھی وہ میں نے پُوری کردی، اِس نے میری مرضی کے خِلاف طلاق لے لی، اب اِس کی زِندگی ہے اِس کے فیصلے ہیں۔ ابّا کے لہجے میں ناراضگی تھی۔" ویسے تُم اِس سے بڑی قُربانی مانگ رہی ہو۔ یہ تو اپنی زِندگی بھی نہیں چلا سکتی" عاتِکہ جُھنجُھلا کر کمرے سے نِکل گئی۔
عاتِکہ لاکھ سوچنے کے باوجُود اِس اُلجھن کو سُلجھا نہیں پا رہی تھی، کُچھ سُوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اب اُسے جمیل بھائی کے سامنے آتے ہُوئے جِھجھک ہو رہی تھی۔اِتّفاق سے جمیل کام کے سلسلے میں مسقط چلے گئے۔ دِن بہت بے کیف گُزر رہے تھے۔ ابّا بے حد بور ہورہے تھے، اُن سے بات کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دِن ابّا نے سخت ناراض ہوکر کہا ”جمیل نے اگریکلچر کی فیلڈ یہ کہہ کر چُنی تھی کہ خاندان کی زمینوں کی دیکھ بھال کرے گا، تعلیم کے بعد امریکہ چلا گیا، وہاں سے مشرقِ وسطہ نِکل گیا horticulturist بن کر پھر وہاں سے یہاں۔ اگر مُجھے پتہ ہوتا یہ پاکستان آکر بیٹھ جائے گا تو اُسے میں اپنی بیٹی کیوں دیتا؟ میری بیٹی سب سے کٹ گئی."
”جانے بھی دِیجئے نا ابّا اب تو سب کُچھ ختم ہوگیا" نجمہ نے اُداس ہوکر کہا۔
عاتِکہ خِجل سی تھی، دِن تو باتوں اور دُوسری مصرُوفیتوں میں گُزر جاتا، لیکِن راتوں میں عاتِکہ کو نِیند نہیں آتی۔ نجمہ بھی سُبکی محسُوس کر رہی تھی کہ بات بھی کھوئی مُدّعا کہہ کے۔ عیادت کے لیے دونوں حیدرآباد سے آئے تھے لیکِن اب نجمہ دونوں کی دِل جوئی کر رہی تھی، طبیعت ہُنوز گمبھیر تھی، اب اُس کے سُدھرنے کی کوئی صُورت نہ تھی، ڈاکٹروں نے تو پہلے ہی جواب دے دیا تھا۔"
اِسلام آباد بہت خُوب صورت شہر ہے کاش میں آپ دونوں کو دِکھانے چل سکتی." پھر اُس نے دو دِن میں ڈرائیور کے ذریعہ شہر کی سیر کروادی اور بچّوں کو بھی ساتھ کردیا کہ نانا اور خالہ کا دِل لگا رہے۔ بڑا لڑکا نو برس کا تھا، اُس نے گائیڈ کے فرائض جیسے تیسے نِبھا لیے۔
جمیل کے آنے کے کوئی آثار نہ تھے، ابّا اور عاتِکہ کے جانے کے دِن آگئے، نجمہ نے ابّا کو مشورہ دِیا کہ جمیل کے آنے تک ٹھہر جائیں پِھر چلے جانا۔ وہ پہلے بہادری سے اپنی بیماری سے لڑ رہی تھی۔ اپنوں کے آ جانے کے بعد اُن کے جانے کے خیال سے ہی نہ جانے کیوں اب اُسے گھر میں اکیلے رہنے سے ڈر لگ رہا تھا۔ حالانکہ گھر میں نوکر چاکر تھے، گاڑی تھی، ڈرائیور تھا، ہر قسم کی سہُولت تھی۔ ابّا نے یہ کہہ کر بات مسترد کردی کہ جمیل کی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے یہ مناسب نہیں ہے، میری بھی حیدرآباد میں مصروفیات ہیں۔ ٹکٹیں الگ ضائع ہوجائیں گی اور پِھر اِسلام آباد سے لے کر حیدرآباد تک ریزرویشن مِلنا بہت مُشکِل ہوگا۔
” آپ لوگ پلین سے چلے جائیں"
” یہ تُم لوگ کیا پلین پلین کی رٹ لگاتے رہتے ہو." ابّا ناراض ہوگئے۔
مُسلسِل جاگنے سے عاتِکہ کی آنکھیں سُوج رہی تھیں، کُچھ دخل رونے کا بھی تھا۔ حالت یہ تھی کہ ہر کوئی اپنا غم دُوسرے سے چھپا رہا تھا۔ جانے کی صبح بھی آگئی اورگھڑی بھی آ گئی۔ ابّا نے کار میں بیٹھ کر آواز لگائی ”چلو بھئی دیر ہو رہی ہے" پانچ مِنٹ بعد ابّا نے پھر آواز لگائی۔ نجمہ بڑی مُشکِل سے چل کر باہر آئی تھی، آنسو ضبط کرکے، گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔” حسن جا کر دیکھو چھوٹی خالہ کہاں ہے، تُم اُن کا سامان تو لے کر آؤ." حسن بھاگ کر اندر گیا، اور تھوڑی دیر بعد آکر اِطلّاع دی۔ کمرے میں چھوٹی خالہ کا ساراسامان بِکھرا پڑا ہے، اور چھوٹی خالہ ابّو کی پھولوں کی نرسری میں ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : داغ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے