فکشن کے دھاگے میں الم کے موتی پرونے کا فن خالد جاوید ہی کا امتیاز رہا!!

فکشن کے دھاگے میں الم کے موتی پرونے کا فن خالد جاوید ہی کا امتیاز رہا!!

جمیل احمد عدیل
ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ اسلامیہ کالج، لاہور، پاکستان

ہمسایہ ملک کے ڈاکٹر خالد جاوید کی کبیری شناخت اگرچہ ناول قرار پائی لیکن ان کے جملوں میں چھلکتی جرات، کثیر معنویت، مدفون سچ میں دھڑکتی نبض کی جستجو، کہانی کے روایتی اسٹرکچر سے صریح انحراف ۔۔۔۔ ان کے افسانوی مجموعوں کو اس حد تک سب سے الگ کرتے ہیں کہ دوران قرات خود قاری فاخرانہ انفراد کا مالک ہو جاتا ہے اور اسے تفریحی ادب کے شائقین اور بھی فروتر نظر آنے لگتے ہیں. فی الحقیقت اس جہان کے ہر جزو میں رکھے گئے نقص کے وصف کو جن چند فکشن نگاروں نے شدت سے جانا، خالد جاوید ان میں سے ایک ٹھہرے! وجودی قضایا کو ہمارے ہاں محسوس کرنے کی تربیت کو اس لیے نصاب سے خارج کیا گیا کہ ممنوعہ کونوں کھدروں میں جھانکنے سے وہ "اعلا جمالیات" ریزہ ریزہ ہونے لگتی ہے جس کی اساس پر عظیم "ایوان اعتقاد" کی تعمیر ہوئی. ادھر خالد جاوید ہیں کہ ان کے لیے رد جمالیات کی صورت حال سرمدی منظور کے درجے پر فائز ہو کر رہی. وجود کی جدید بلکہ غیر معروف تفہیم کے لیے خالد جاوید کے ناولوں کی طرح افسانوں میں بھی شکم اور زیر شکم پہ رکنے کا خاص اہتمام ملتا ہے. بدن کے رقبے میں یہ دونوں مقامات لذایذ اور کرب ناکی کے وہ منطقے ہیں جن پر دماغی شرطوں کا اثر و نفوذ بہت ہی جلد غیر موثر ہو جاتا ہے. اس کے بعد جو خودکار بغاوت سامنے آتی ہے، خالد جاوید نے قیامت کی انھی طرفوں سے اپنے افسانے تراشے ہیں. ان افسانوں کے متون قاری سے چشم پوشی کی سہولت چھین لیتے ہیں. نظریں ہٹانے کے لیے اتنی قوت درکار نہیں ہوتی جتنی بعد میں دھیان کو بٹانے کی خاطر چاہیے اور فرد مضطرب ہو کر معتقدات کے موروثی/ سماجی مصادر سے کمک طلب کرتا ہے، جو اسے فراہم بھی ہو جاتی ہوگی لیکن جس مقدس رشتے کو آنکھ نے ایک بار برہنہ دیکھ لیا ہو، اب وہ منظر کس تیزاب سے تحلیل ہوگا؟
خالد جاوید کے افسانی متون قاری کی پتلیوں میں ان شبیہوں کو مستقل اقامت گزیں کر دیتے ہیں جن سے مفر ممکن نہیں رہتا. جس بدقسمت کے لیے ڈائننگ ٹیبل اور ٹوائلٹ کے بیچ فاصلہ معدوم کر دیا گیا ہو، اس کی متوحش بینائی کے المیے کو کیا بیان کیا جائے! یہی ستم یوں دہرایا گیا کہ زندگی اور موت کے درمیان حائل دوری کو نابود کر دکھایا گیا ہے. ہر نوع کے مفروضہ رومان کو تفریق کرکے موت کا بھیانک قضیہ خالد جاوید کے ہاں بار بار مراجعت کے عمل سے گزرا. سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ بلی بھی کبوتر کو آنکھیں میچنے پر سدا مجبور کرتی آئی اور ہمارا یہ افسانہ نگار اس جبر کو مسلط کر دیتا ہے: اب دیکھو! اس ڈائن کو جو وارد ہوتے ہی عزیز ترین ہستی کو میت میں تبدیل کر دیتی ہے، ایسی تنہا لاش بنا کر، جس میں سے سخت سہمناک لہریں عود عود کر نکلتی ہیں. اسی دہشت سے نجات کے لیے لوگ تیزی سے آگ، مٹی، پانی سے مدد مانگتے ہیں. جیسے ہی کریا کرم/ تدفین/ غرقابی اپنے انجام کو پہنچی، لواحقین کی جان میں جان آگئی! پر خالد جاوید کے ناول/ افسانے میں مذکورہ نجات دستیاب نہیں. یہاں موت ایک فعال اکائی ہے، فرد کو اسے برابر سہنا ہوگا! خالد جاوید کے فکشن میں موت کے آہو یہاں وہاں قلانچیں بھرتے پھر رہے ہیں، محض وقوعوں کا حصہ ہو کر نہیں، معلوم و نا معلوم ماہیتوں کی رگوں میں اتر کر. 
خالد جاوید کے کرداروں کا مشاہدہ کر کے یہ ادراک ہوتا ہے کہ ابنارمل اور نارمل میں غالباً ایک ہی فرق ہے کہ نارمل نے اپنی ابنارمیلٹی چھپانے پر قدرت حاصل کر رکھی ہوتی ہے. سو، فکشن کے اس دشت جنوں کی سیاحت کے دوران اندازہ ترتیب پائے گا کہ مصنف کے لیے اپنے موضوعات، افکار، طرز احساس اور سبک کی مناسبتوں سے اس درجہ ندرت ممکن بنانا لازم ہو گیا تھا کہ اسے جو کہنا تھا، اس میں روایتی اسلوب اور زبان کا صحافیانہ اکہرا پن سرے سے  وارا  ہی نہیں کھاتا تھا، چنانچہ اپنے دور میں سباق کا اعزاز پانے والا یہ تخلیق کار اپنا نیا لغت  وضع نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟
خالد جاوید نے تعداد میں زیادہ افسانے نہیں لکھے، مگر جو لکھا سراپا انتخاب. سو، اس یکسر مختلف افسانہ نگار کے لحاظ سے ایک بات اور کہنی ہے کہ سامر کو کہانی کی گردن پہ مجبوراً چھری چلانا پڑتی ہے کہ وقوعوں کا فاضل خون بہائے بغیر افسانہ بنتا نہیں. خالد جاوید عموماً ایسا نہیں کرتے کہ ان کا معاملہ بری جانداروں کی بجائے مچھلی سے رہتا ہے. وہ اسے صرف مقامیت کے پانی سے جدا کر دیتے ہیں، یوں سارا فالتو خون  خود بخود  اس ماہی کے منھ میں جمع ہوجاتا ہے. قاری کو پتا بھی نہیں چلتا کہ افسانہ نگار نے کب  ایپی گلوٹس  کو بھی الگ کرکے متن کو خالص کرلیا. 
اس ضمن میں خالد صاحب کے نمایندہ افسانے  "مٹی کے تعاقب میں" کو پیش کیا جا سکتا ہے. یہ کہانی واقعات کی کھتونی بالکل نہیں، اسے افسانے کا واقعہ کہیے. جس میں محض راوی ہی بدل بدل کر ظہور نہیں کرتے، ماجرے کی ترتیب بھی یکسر مختلف ہو کر سامنے آتی ہے. یہی بے ترتیبی  متنوع موضوعات کو سہار سکتی تھی. اس طرح: وجودی کرب، سرمایا دارای کا کابوس، ماحولیاتی منظر نامہ، موت کی اذیت، اقلیدسی شعور کی کارفرمائی، بدن کی پراسرار معنویت، الہیات، جادو جبت، وقت کی ماہیت، جینیاتی تعامل، فلسفہ، لسانیات کے بھید، جنس کا جبر، نظریہ ارتقا کا ٹراما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا متعدد اطراف ایسی کتھا میں منقلب ہو گئی ہیں جس میں طوالت ضرور ہے مگر خوانندہ کا ارتکاز کہیں نہیں ٹوٹتا. زیست اور سماج کا ایسا سفاک اور دراک مشاہدہ بہت ہی کم اردو افسانے میں جذب ہوا ہوگا. افسانے کا بیانیہ کئی مقامات پر بورخیس کی تصدیق کرتا ہے: "معمولی سے معمولی چیز جو سادہ نظر آتی ہے، وہ پیچیدہ ہے. کیوں؟ اس لیے کہ وہ کائنات کا حصہ ہے؛ کوئی شے خود اپنے آپ میں ایک بے گانہ اکائی نہیں." یہی سچ افسانے کے مرکزی کردار کی زبان سے ادا ہوا: "ہر شے دوسری شے سے پیوست ہے. ایک خاموش زنجیر کی طرح. اندھیرے کے استر کی طرح." لیکن یہ عمیق زاویہ قاری پر دانائی کی دھاک بٹھانے کا حیلہ نہیں بلکہ افسانے کے ٹیکسچر میں پوری طرح جذب ہو کر دانش بنا ہے. واضح رہے خالد جاوید کی پہلی وابستگی افسانے کے فنی سروکار سے ہے، تفلسف کو چکاچوندھ کا ذریعہ بنانا، ان کی کسی شعوری ترجیح میں موجود نہیں. 
جس مرحلے میں یہ افسانہ فرد کے قضیے سے اوپر اٹھ کر کیپیٹل ازم کی تعذیب کا ترجمان ہوا، وہ اسے غیر معمولی بنا دیتا ہے کہ سرکس کی علامت کا ایسا ہنرمندانہ برتاو تخلیق کی تکمیل کا استعارہ بن کر قاری کی فکری سطح کو دفعتاً سرفراز کر دیتا ہے. پس ماندہ خطوں کے باسی حتی کہ ترقی پذیر ممالک کے باشندے بھی افسانے کے محوری بشر کی مانند بینک کیشئیر  ہی تو ہیں جن کا فرض منصبی دوسرے لوگوں کے کرنسی نوٹ گنتے رہنا ٹھہرا. یوں غیروں کے نوٹوں کو شمار کرتے کرتے ایک روز افلاس، یاسیت اور یکسانیت سے عاجز آ کر وہ ریل کی پٹڑی پہ جا کھڑے ہوتے ہیں. انھیں استعمار کی تیز رفتار ایجاد موت کے مہربان فرشتے کی صورت دکھائی دینے لگتی ہے. یوں ساکت و متحرک کا فوری ملاپ فرد کو آناً فاناً ایک جہان سے دوسرے جہان میں منتقل کر دیتا ہے. ہاں! اول الذکر میں ایک طویل القامت کالا کتا اس کے تعاقب میں رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بد نصیب بچے کی طرح دروازہ پیٹتا رہتا ہے پر کواڑ نہیں کھلتے کہ اندر ریاست کے جیسی ماں اندھے سنگیت کار کی زیر سرپرستی مغنیہ بننے میں مشغول ہے. اس اثنا میں بھوری آنکھوں اور موٹی موٹی کلیوں سے اٹے بالوں والا سگ دیوانہ اس معصوم کی ٹانگ بھنبھوڑ ڈالتا ہے. اب رہا ثانی الذکر جہان تو اس کی ابتدا مردہ گھر سے ہوتی ہے جہاں وہ ایک ادھیڑ عمر شخص کی لاش بنا پڑا ہے، جس کے کان اور ناف سے خون رس رہا ہے. پوسٹ مارٹم ہاوس کے پیشہ ور، ڈیڈ باڈی پر بغدے اور کلہاڑیاں آزما رہے ہیں تاکہ بدن کی کھدائی کے نتیجے میں ایک مخصوص گھسی پٹی رپورٹ سرکاری کاغذ پر درج ہو سکے. ستم یہ ہوا کہ موت مسلط ہونے کے باوجود چیر پھاڑ کا سارا درد جسم سہہ رہا ہے. اس آستانے میں کوئی آتما شاتما مقیم نہیں ملی. بعدازاں توڑی گئی پسلیوں اور چیرے گئے سینے کو موٹے سوئے سے سیا جا رہا ہے. سڑانڈ کے دہانے پہ پڑی میت پر انکشاف ہوتا ہے کہ حقیقت اور التباس میں کوئی بعد نہیں.
مذکورہ متن میں شمشان گھاٹ کی راکھ کے ذروں کو اس طرح جوڑا گیا ہے کہ مٹی کا تعاقب بے مراد نہیں رہا. یوں حیات کی ایسی بے رحم سرگزشت افسانہ بن گئی جسے برداشت کر جانا کسی حساس طبع کے لیے تو سہل نہیں. فکشن کے دھاگے میں الم کے موتی پرونے کا فن خالد جاوید ہی کا امتیاز رہا !!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:تفریح کی ایک دوپہر: تاثرات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے