بیک ٹو نیچر انسانی زندگی اور ماحولیات دونوں کے لیے مفید : نیر تاباں

بیک ٹو نیچر انسانی زندگی اور ماحولیات دونوں کے لیے مفید : نیر تاباں

اعلا اقدار کی حامل شخصیت نیر تاباں کا خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار: علیزے نجف

اللہ نے ہر انسان میں کئی ایسے کمالات ودیعت کیے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ تو ابتدائی عمر میں ظاہر ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ منکشف ہوتے جاتے ہیں، ایک باشعور انسان خود کی دریافت کو اپنی زندگی کا سب بڑا مقصد سمجھتا ہے، انسان جس کو اللہ نے بہترین ساخت پہ پیدا کیا ہے، جب وہ ان کمالات کو عملی سطح پہ اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے تو اس کی زندگی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے. وہ خود کے ساتھ اوروں کے لیے بھی خیر کا باعث بن جاتا ہے۔ نیر تاباں ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جن کی زندگی ایک مسلسل جستجو سے عبارت ہے، وقت کے ساتھ ان کی خوبیوں اور مہارتوں میں ماشاءاللہ اضافہ ہوتا رہتا ہے، یہ ہمہ جہت صفات کی حامل ہیں، ان کا بنیادی تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے، پچھلے پندرہ سالوں سے یہ کینیڈا میں مقیم ہیں، ان کی شخصیت کی سب سے نمایاں صفت ان کا خلوص اور مہربان رویہ ہے، ان سے بات کرتے ہوئے ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے، یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی جستجو میں کوشاں رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ گھر داری اور بچوں کے ساتھ آج بھی وہ حصول علم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہیں، ان کی شخصیت دینی و عصری تعلیم کا حسین امتزاج ہے، بچوں کو اسلامی و اخلاقی اقدار سے روشناس کرانے کے لیے تربیتی کورس کراتی ہیں، نوجوان نسل بالخصوص پیرنٹنگ کے شعبے میں اپنے فکر و تحقیق سے رہ نمائی میں ہمہ تن مصروف رہتی ہیں، یہ minimalist اور آرگینک اشیا کے فروغ اور ماحولیات کے تئیں حساسیت برتنے کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں سشتگی و شائستگی کے ساتھ گہرائی و زیرکی بھی ہوتی ہے۔ حقیقت اس میں سے ایک نمایاں عنصر ہے۔ اس وقت نیر تاباں میرے سامنے ہیں اور میرے پاس ہمیشہ کی طرح سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے، جب سامنے کوئی پسندیدہ شخصیت ہو تو تجسس اور اشتیاق اپنی انتہا پہ ہوتا ہے، ان کا انٹرویو کرنا میری شدید دلی خواہش تھی، انھوں نے بھی اپنے مصروف ترین شیڈول سے میرے لیے ٹائم نکالا، اس کے لیے میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں، آئیے اب ہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں.
علیزے نجف: میں گفتگو کا آغاز آپ کے تعارف سے کرنا چاہتی ہوں، آپ ہمیں خود سے متعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتائیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
نیر تاباں: میرا نام میرے نانا ابو نے نیر تاباں رکھا۔ اس کا مطلب ہے بہت روشن، بے حد چمک دار۔ میری پیدائش پاکستان کے شہر راولپنڈی کی ہے اور وہیں میری اسکولنگ اور شادی سے پہلے کا تمام وقت گزرا ہے۔ ہمارے پاس کوئی لگژری قسم کے کھلونے اور لائف سٹائل نہ تھا لیکن نانی، دادی کے گھر کی خوب صورت یادیں میری زندگی کا حصہ ہیں۔
شادی کے بعد ہم کینیڈا آ گئے تھے اور اب سولہ سال سے یہی مقیم ہیں۔ شعور کا ایک لمبا عرصہ یہاں گزارنے کے بعد مجھے کینیڈا اپنے گھر جیسا ہی پیارا ہے۔ اگر پاکستان پہلی محبت ہے تو کینیڈا دوسری محبت ہے۔
علیزے نجف: آپ کے خاندان کی کس ہستی نے آپ کی شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کی تربیت کے کن اصولوں نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟
نیر تاباں: میرے نانا کی گود میں میرا بچپن گزرا ہے۔ مجھے ان سے بے انتہا محبت ہے، حالانکہ میں دس گیارہ سال کی تھی جب وہ چل بسے لیکن ابھی بھی ان کا ذکر کرتے میں اپنے اندر بے حد محبت محسوس کرتی ہوں۔ لکھائی پڑھائی کا شوق ان کی طرف سے ڈالا گیا۔ پھر میری والدہ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں اس لیے بھی لکھنا پڑھنا گھٹی میں شامل تھا۔ میری کزن ہیں راحیلہ ساجد، یہیں فیس بک پر لکھنے کے حوالے سے بہت لوگ انھیں جانتے ہیں، میں ان سے بھی بہت متاثر رہی ہوں لیکن بہرحال مجھ میں ایک متضاد صفت ہے جو شاید میری اپنی ہی شخصیت کا حصہ ہے۔ کھرا حساب کتاب، ہر جگہ وقت پر پہنچنا، فارغ وقت میں کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا، خاندان والوں کے ساتھ رکھ رکھاؤ۔ یہ سب ان پیارے لوگوں سے سیکھا ہے۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے، آپ کسب علم کے لیے فارمل تعلیم کے ساتھ انفارمل تعلیم کو کس قدر ضروری سمجھتی ہیں اور اس کے لیے کن ذرائع کو مؤثر خیال کرتی ہیں؟
نیر تاباں: بہت برس قبل اسٹیٹسٹکس میں ماسٹرز کیا تھا۔ کچھ سال پہلے سوشل ورک سے متعلق کافی سبجیکٹس پڑھے اور اسلامک سائیکالوجی میں دو سال کا سرٹیفیکیٹ لیا۔ ان فارمل ایجوکیشن از حد ضروری ہے۔ ورکشاپس، اچھی کتابیں، لیکچرز، ٹیڈ ٹاک۔ اب تو انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت آسانیاں ہیں۔ سیکھنے والا مزاج ہو تو بہت سارے آپشنز موجود ہیں جس سے کہ کوئی بہ آسانی سیکھ سکتا ہے۔
علیزے نجف : آپ کا یہ تعلیمی سفر عام روایتی انداز سے کافی ہٹ کر ہے جو کہ ایک تعطل کے بعد اب بھی جاری ہے، اس سفر کے دوبارہ شروع کرنے کی انسپریشن آپ کو کہاں سے ملی، ہمارے یہاں لوگ ایک بار تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کے بعد دوبارہ سے جوڑنے میں یا تو عار سمجھتے ہیں یا پھر ضروری خیال نہیں کرتے، اس طرح کے فکسڈ مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
نیر تاباں: انسان عمر کے ساتھ ساتھ ایک نئی شخصیت میں ڈھلنے لگتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پسند ناپسند میں بھی فرق آتا ہے۔ میں نے بہت سال پہلے اسٹیٹس میجر رکھا تھا، ساتھ میتھ، اکنامکس، کمپیوٹر پڑھ رہے تھے ہم۔ لیکن مجھے بار بار لگتا رہا کہ مجھے ہیومن سایئکالوجی میں دل چسپی ہے۔ Psychology Today کے آرٹیکلز میں بہت شوق سے پڑھنے لگی۔ یہ کوئی پندرہ سال پرانی بات ہے۔ اس وقت میں نے باقاعدہ طور پر تو تفسیر ہی پڑھی۔ ساتھ ساتھ ویمن آرگنائزیشنز میں والنٹیئر کرنے سے اپنی ایمپتھیٹک فطرت کا علم ہوا۔ یہیں سے سوشل ورک کا۔ تو بس یہی کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خود کو پہچاننے کا سلسلہ جاری رکھیں اور کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رکھیں کہ دماغ کو زنگ نہ لگ جائے۔ نیا سیکھتے رہنے سے انسان کو اعتماد ملتا ہے اور آج کے دور میں جب ترقی کچھ زیادہ ہی تیزی سے ہو رہی ہے تو نئے تقاضوں کے مطابق خود کو لیس رکھنے کے لیے علم ضروری ہے۔
علیزے نجف: اس وقت بات تعلیم و تعلم کی ہو رہی ہے تو میرا اگلا سوال بھی اسی ضمن میں ہوگا، آپ کا بنیادی تعلق ایک ایشیائی ملک سے ہے، اس وقت آپ کینیڈا میں مقیم ہیں، ان دونوں براعظموں کے تعلیمی نظام کے درمیان کس طرح کا بنیادی فرق پایا جاتا ہے؟
نیر تاباں: بھاری بستے، ہوم ورک، آئے دن ٹیسٹ اور اگزامز۔ یہ ایک فرق ہے۔ دوسرا فرق پڑھانے کے انداز کا اور بچوں کو ٹیسٹ کرنے کا ہے۔ یہاں ایک ٹاپک پر مختلف طریقے سے پڑھایا جاتا ہے کہ کانسپٹ ہضم ہو جائے، جب کہ ایشیائی ممالک میں لیاقت سوال کا جواب یاد کرنے اور من و عن اگزام شیٹ پر اتارنے کا نام ہے۔ کچھ تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ آ رہی ہیں۔ مزید بہتری کی گنجائش بھی ہے، امید بھی۔
علیزے نجف: کہتے ہیں اساتذہ کے ہاتھوں میں ایک فرد ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا مستقبل ہوتا ہے، آپ کا تجربہ اس ضمن میں کیسا رہا، آپ نے اپنے ایام طالب علمی میں اپنے اساتذہ کو کیسا پایا، موجودہ دور کی اس اخلاقی پس ماندگی کی ذمےداری کس حد تک اساتذہ پہ ڈالی جا سکتی ہے؟
نیر تاباں: میرے اساتذہ زیادہ تر تو ایسے ہی تھے، جیسے ان وقتوں میں ہوتے تھے۔ طلبہ سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا، پڑھانے کی حد تک اچھے تھے۔ چھٹی کلاس میں میتھ کی ایک ٹیچر تھیں، وہ بہت نرم خو سی تھیں۔ مجھے اپنے مزاج کی وجہ سے بہت پسند تھیں۔ نویں میں کیمسٹری کی ٹیچر ایسی ملی تھیں۔ مجھے اب یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میں ان کلاسز میں یہ مضامین بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ ٹیچر سے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹیچر سے محبت کی وجہ سے وہ مضمون مجھے اچھے لگتے تھے۔
اخلاقی پس ماندگی کے لیے اساتذہ والدین کو اور والدین اساتذہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، جب کہ تربیت کا اصل بیڑہ اسکرین نے اٹھا رکھا ہے۔ والدین اور اساتذہ مل کر ہی بچوں کو سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کر سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کو انسانی نفسیات سے گہرا لگاؤ ہے، اس کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے آپ نے وسیع تناظر میں اس کا مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان کو بنیادی نفسیاتی علم سے کس حد واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے حصول کے لیے کس طرح کی حکمت عملی کارگر ثابت ہو سکتی ہے؟
نیر تاباں: انسانی نفسیات کا بنیادی علم بہت ضروری ہے، کیوں کہ ہر وقت انسانوں سے واسطہ جو پڑنا ہے۔ پھر وہ بزرگ ہوں، ٹین ایجرز ہوں، اولاد ہو، یا محفل میں مل جانے والا اجنبی، ہم بہتر طور پر ہر ایک سے ڈیل کر پائیں گے، اگر نفسیات کا بنیادی علم ہوگا تو ہر ایک سے پہلے اپنے آپ سے شناسائی ہو پائے گی۔ ہم کچھ کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں، کیسے اس پر قابو پانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو سمجھ پانا دوسروں کو سمجھنے سے بڑھ کر اہم ہے۔
علیزے نجف: سیکولر نفسیات کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کو نفسیات کی روشنی میں سمجھنے کے لیے بھی آپ نے کورسز کیے ہیں، ہمارے یہاں ایک عمومی نظریہ پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کو نفسیاتی عوارض کا سامنا ہو تو لوگ اس کو دعا درود کے ذریعے overcome کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جب کہ نفسیات کی سائنس کہتی ہے کہ نفسیاتی عوارض کا مذہب سے سرے سے کوئی تعلق نہیں، آپ اس پورے منظرنامے کو کس طرح دیکھتی ہیں اور اس حوالے سے کیا رائے رکھتی ہیں؟
نیر تاباں: میں اسے ان دونوں کے درمیان میں دیکھتی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تھیراپیز اور ادویات کا اہتمام کیا جائے، اور دل کے سکون کے لیے اللہ سے تعلق بھی بڑا ہی اہم ہے۔ بلکہ اب تو بہت سی ریسرچز سے یہ بات ثابت بھی ہے کہ وہ لوگ جو کسی سپریم پاور کو مانتے ہیں، انھیں ڈپریشن اس طرح متاثر نہیں کرتا جیسے نہ ماننے والوں کو کرتا ہے۔ کتنی ہی آزمائشوں کو ہم ”اللہ کی مصلحت“ سمجھ کر سہہ لیتے ہیں، اجر کی تمنا میں برداشت کر لیتے ہیں، دعا میں دل کھول کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر دم درود سے یہاں مراد پیروں فقیروں کے آستانوں پر جانا ہے تو میں اس کے حق میں بالکل نہیں، اگر یہاں مراد وہ دعا ہے جو
؀ پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
میرے نزدیک دعا سے مراد یہی دعا ہے
دوا اور دعا کا ایک ساتھ ہونا ہی بہترین ہے۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں ایک طرف سائنسی ارتقا کو روز بروز عروج حاصل ہوتا جا رہا ہے، دوسری طرف انسانی قدریں اسی تیزی سے پامال ہوتی جا رہی ہیں، یوں کہہ سکتے ہیں کہ روبوٹک ذہنیت غالب ہوتی دکھ رہی ہے، جس میں جذبات کا فقدان ہے، میرا سوال یہ ہے کہ انسانی قدروں کے زوال کے پیچھے کیا بنیادی وجہ پائی جاتی ہے، اس جذبات و منطق کے درمیان بڑھتے عدم توازن کو کیسے اعتدال میں لایا جا سکتا ہے؟
نیر تاباں: آپ نے اپنے سوال میں خود ہی جواب دے دیا کہ سائنسی ارتقا جہاں ایک طرف تو ہماری زندگیوں میں ناقابل یقین قسم کی آسانیاں لا رہی ہے، وہیں انسان کو انسان سے دور کرنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک طویل عرصے پر مبنی ریسرچ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ آج کے نوجوان میں انسانی تاریخ کا اب تک کا سب سے کم ایمپتھی لیول ہے۔ آئی کانٹیکٹ ہی نہیں بچا تو ایمپتھی کہاں سے آئے۔ ورچوئل لائف کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ مطالعہ، کچھ اچھے دوست ہوں، کوئی فکری گفتگو، نیچر سے تعلق، اللہ سے دوستی ہو تبھی یہ توازن کسی حد تک برقرار رہ سکتا ہے۔
علیزے نجف: کیا وجہ ہے لوگ قرآن پہ ایمان لاتے ہوئے اور خدا پہ یقین رکھتے ہوئے بھی اس قدر ذہنی انتشار کا شکار ہیں، کیا اس کی وجہ ان کی تقلیدی نفسیات ہے، وہ قرآن جیسا دستور حیات رکھتے ہوئے بھی اس کی حکمت و تاثیر سے محروم ہیں؟ اپنے تجربات کی روشنی میں بتائیے. 
نیر تاباں: ہم نے کتنی ہی بار سنا کہ یہ فتنوں کا دور ہے۔ شیطان دائیں سے، بائیں سے، سامنے سے، پیچھے سے ہم پر حملہ آور ہے۔ تو بے چینی ایک تو اس وجہ سے بھی ہے کہ شیطان کے جال میں ہم پھنس جاتے ہیں۔
پھر سوشل میڈیا۔ دوسروں کے ساتھ کمپیریزن نے بھی ذہنی انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہماری غذا خالص نہیں، نیند کے اوقات الٹ پلٹ ہو رہے ہیں، اسکرین نے اصل زندگی کے رشتے ناطے ہڑپ لیے ہیں تو ذہنی انتشار تو ہو گا ہی، زندگی میں توازن لانے کے لیے اپنی جسمانی، جذباتی، روحانی صحت کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو  لوگ نظر انداز کر رہے ہیں۔
علیزے نجف: قدرتی ماحولیات سے آپ کو فطری لگاؤ ہے، آپ ماحولیات کے تئیں اپنے شوق کی تسکین کس طرح کرتی ہیں، آپ ایک عام فرد کو ماحولیات کے تحفظ کے لیے کن باتوں کا خاص خیال رکھنے کی تلقین کریں گی؟
نیر تاباں: میں اسے شوق نہیں کہنا چاہوں گی۔ یہ ایک ضرورت ہے جس میں ہم سب کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سہولیات کے جس طرح سے ہم عادی ہو چکے ہیں، قدم پیچھے کرنا مشکل لگتا ہے۔ ہم میں سے اکثر کو یا تو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں، جس کو تھوڑا بہت ہے بھی وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کو تیار نہیں۔ اگر مجھے صرف ایک جملے میں سمیٹنا ہو تو میں کہوں گی کہ ہر وہ چیز جسے آپ استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں، اس کا استعمال انتہائی محدود کرتے کرتے ختم کر دیجیے۔ وہ چیزیں استعمال کیجیے جو دھل کر بار بار استعمال ہوتی ہیں۔
علیزے نجف: آپ کا شمار minimalist لوگوں میں ہوتا ہے، اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں کم یاب ہیں، لوگ اسراف و تبذیر کو ایک شان کی طرح اپنائے ہوئے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے اس رویے کو کب اور کیسے اپنایا اور اس کو کس طرح اپنی زندگی میں implement کیے ہوئی ہیں؟
نیر تاباں: ابتدا تو یوں ہوئی کہ نیچرل لِونگ کے پیجز لائک کر رکھے تھے۔ وہاں سے پلاسٹک فری، ویسٹ فری کا سلسلہ شروع ہوتا ہوتا منیملزم تک جا پہنچا۔ میں ان سب چیزوں کو آپس میں نرمی سے گندھا ہوا پاتی ہوں۔ اس طرف آئے پانچ چھے سال ہوچکے ہیں۔ میں نے اضافی سجاوٹ کی چیزیں ہٹا دیں، کپڑے جوتے میک اپ کی شاپنگ بھی کوشش کرتی ہوں کہ ایک حد میں رہ کر کروں۔ جوتے، پینٹس، شرٹس اسٹیپل کلرز میں موجود ہیں اور اوپر گاؤن اور اسکارف رنگ بدل بدل کر پہنتی ہوں تو ایک ہی ڈریس بہت طرح سے پہنا جا سکتا ہے۔ کتاب محبت سے پڑھ کر کسی قدردان کو تحفہ دینا پسند کرتی ہوں۔ یوں محبت اور کتاب کسی پیارے تک جا پہنچتی ہے اور میرے گھر میں اضافی چیزیں جمع نہیں ہوتیں۔ سالانہ ڈی کلٹرنگ بھی کرتی ہوں کہ گھر کی ہر دراز، الماری کھل کر سب کچھ باہر نکال دیا جاتا ہے اور پھر واپس وہی چیز رکھی جاتی ہے جو ضرورت کی ہے۔ کم چیزیں ہوں صفائی بھی آسان، اور روح تک اترتے ہوئے سکون کا الگ احساس ہوتا ہے۔
علیزے نجف: پیرنٹنگ کے حوالے سے آپ نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے، بچوں کی نفسیات پہ آپ کی گہری نظر ہے اس کے تحت میں چاہوں گی کہ سب سے پہلے آپ صحیح مثبت پیرنٹنگ کی ضرورت اور اس کی خوبیوں کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق بیان کریں اور یہ بھی بتائیں کہ مثبت پیرنٹنگ کی کمی کے کیا کیا بدترین عواقب ہو سکتے ہیں؟
نیر تاباں: صحیح پیرنٹنگ بس یہی ہے کہ بچے کے ساتھ آپ بہترین تعلق میں ہوں۔ ہر وقت صحیح غلط کی تکرار نہ ہو۔ یونہی بے مقصد باتیں، کوئی کھیل، کہیں باہر گھومنا بھی ہو۔ یہ ضروری اس لئے ہے کہ بھیڑیے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اب تو ایک پوری دنیا فون کی صورت بچے کی ہتھیلی پر دھری ہے۔ یہاں ہم چوکے اور بچہ جانے کس سے اپنے دل کا حال کہہ ڈالے، اپنی مشکل بیان کرے۔ اس لیے پیرنٹنگ میں بچے سے اچھے تعلق کو زیادہ اہمیت دیا جائے تا کہ وہ ہمیں اپنی سیف پلیس سمجھے اور کچھ بھی شیئر کرنے میں جھجھک نہ محسوس کرے۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں سب سے زیادہ جن کے جذبات کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ بچے ہیں، ماں باپ ان کو چنداں اہمیت نہیں دیتے، ان کے فکر و نظر کو توجہ اور اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے اکثر وہ جذباتی شکستگی سے دوچار ہوجاتے ہیں، آپ ایسے ماں باپ کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، اس حوالے سے عمومی سطح پہ بیداری پیدا کرنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے؟
نیر تاباں: والدین کے اوپر خود بہت اسٹریس ہے۔ مالی طور پر جس کی جتنی چادر ہے، اس سے زیادہ اس کو پاؤں پھیلانے کی جگہ درکار ہے۔ وہ کئی طرح کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر یہ کہ آج کے والدین خود ایک یکسر مختلف ماحول میں بڑے ہوئے۔ ان تمام طور طریقوں کو اَن لرن کرنا خود میں ایک چیلنج ہے۔ مزید مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے باقی والدین کے بہت پرفیکٹ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے، جو ایک طرف تو اچھا پیرنٹ بننے پر اکساتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک ان چاہا گِلٹ اور اسٹریس بھی دیتا ہے۔ والدین جب ان سب چیزوں سے گزر رہے ہوں تو لامحالہ اندر کا غبار اولاد پر نکالتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کی خوراک میں میٹھے کی زیادتی، تادیر اسکرین کا استعمال انھیں بھی ہائپر بنائے ہوئے ہے کہ وہ بات سننے و ماننے کو تیار نہیں۔ آدھی تربیت تو ان کی میڈیا کر رہا ہے۔ بچوں کو بھی تھوڑی حدود بتائی جائیں، خود اپنے بھی وہ بوجھ والدین کم کریں جو کہ کرنا پاسبل ہے تا کہ ذمےداریوں کے ساتھ زندگی کا لطف بھی لے پائیں۔
علیزے نجف: تعلیمی اداروں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے اب کچھ والدین ہوم اسکولنگ کے بارے میں سنجیدگی سے نہ صرف غور و فکر کر رہے ہیں بلکہ اپنا بھی رہے ہیں، آپ بھی کسی نہ کسی طرح بچوں کی اسکولنگ سے جڑی ہوئی ہیں، ایسے میں آپ کی ہوم اسکولنگ کے بارے میں کیا رائے ہے، کیا مستقبل قریب میں یہ تعلیمی اداروں کا متبادل ثابت ہو سکتے ہیں؟
نیر تاباں: بچے کے لیے ماں کی گود سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ ڈھائی تین سال تک کا بچہ اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بس ایکٹیویٹیز کے لیے۔ مجھے یہ ظلم لگتا ہے کہ سونے کی عمر میں صبح صبح بچے کو اسکول کے لیے جگا دیا جائے، اسے زبردستی ناشتہ کروایا جائے۔ اسے سارا دن ٹک کر ایک کمرے میں بیٹھنے پر مجبور کیا جائے۔ ہوم اسکولنگ کے لیے وقت اور توجہ درکار ہے، جو ہمارے یہاں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ جو لوگ کر رہے ہیں، باکمال ہیں۔ میری دعا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں زیادہ جانیں، خود کورسز کریں۔ اور اپنے بچوں کو اسکول کی مقابلہ بازی سے نکال کر گھر کے پرسکون ماحول میں ان کی اپنی منفرد دل چسپی اور رفتار کے مطابق پڑھائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت عمدہ ہو جائے۔ اس کے مثبت اثرات خاندان کے ساتھ معاشرے پہ بھی مرتب ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: بچے کی شخصیت کی تشکیل میں گھر اور تعلیمی اداروں کا ماحول بنیادی کردار ادا کرتا ہے، لیکن ماں باپ اور اساتذہ پرانی طرز فکر کے ساتھ اس سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کی وجہ سے بچے کی نفسیات میں ایک تذبذب اور بےسکونی کی سی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی ہے، اس المیے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کی صورت کیا ہوگی؟
نیر تاباں: مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں وہ ٹراما سائیکل بریک کرنے کی ضرورت ہو گی جو ہمارے دور کے والدین اور اساتذہ کے ماضی کا حصہ رہی ہے۔ ہم اپنے دور کے طور طریقوں کو دہرا نہیں سکتے۔ ایک طرف تو کچھ ایسی ورکشاپس وغیرہ اٹینڈ کی جائیں جو ہمارے رویے بدلنے میں مددگار ہو سکیں۔ دوسری طرف ہمیں اپنے اندر اصلاح کی لیے مسلسل کوشش کی جائے۔ اندر بدلے گا، تبھی باہر تبدیلی آئے گی۔
علیزے نجف: آپ نہ صرف بچوں کی نفسیات کے ساتھ ڈیل کرتی ہیں بلکہ انھیں کورسز وغیرہ بھی کرواتی ہیں، میں چاہتی ہوں کہ آپ اس سوال کے ضمن میں ان کورسز کے بارے میں بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اب تک کتنے بچے اس سے مستفید ہو چکے ہیں اور مستقبل میں اس حوالے سے کیا کوئی نیا ہدف بھی رکھتی ہیں؟
نیر تاباں : بچوں کے کورسز ڈیزائن کرنا اور پھر بچوں کے ساتھ لائیو وہ کورسز کروانا بہت پرلطف ہے، لیکن اب جاب کے بعد اس کے لیے وقت کم نکل پاتا ہے۔ اب تک ہزاروں بچے مستفید ہو چکے ہیں۔ لیگو کیرکٹرز کے ساتھ قرآن کہانیاں، سورة حجرات اور سورة لقمان سے نکالے گئے سولہ اسباق میں ہر ایک پر الگ الگ ورکشاپس رہیں۔ کردار سازی کے ضمن میں نصاب کے مطابق بہت اچھوتا کام کیا، الحمد للہ پریزنٹیشنز کے ذریعے۔ بچوں کو پڑھانے کے لیے انھی کی زندگی سے مثالیں لے کر سمجھایا گیا۔ ابھی بھی میں کینیڈا، امریکہ کے بچوں کے ساتھ انگلش میں کور ٹو کور ترجمہ و مختصر تفسیر کروا رہی ہوں۔ دس سے چودہ پندرہ سال کے لڑکے لڑکیاں۔ مستقبل میں بچوں کے لیے کچھ پلان تو نہیں کیا، لیکن کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور رہے گا، کیونکہ یہ چیز مجھے اندرونی سکون دیتی ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک مختلف موضوعات پہ بےشمار آرٹیکلز لکھے، جس نے لوگوں کی سوچ کے زاویے کو متاثر کیا، سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کے اندر لکھنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا، دوسرے یہ کہ کیا آپ اپنی تحریروں کو کتاب کی صورت یکجا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
نیر تاباں: لکھنے کا رجحان تو مجھے خود نہیں پتہ۔ بس اردو ٹائپ کرنی سیکھی تو ایک پیج کی ایڈمن تھی، وہیں دو چار جملے لکھ دیا کرتی تھی۔ نام کے بغیر پوسٹ کرتی تھی اور گھوم گھما کر مختلف ناموں سے مجھے میری ہی تحریر ملتی تو خیال آیا کہ ایک پروفائل بنا لوں جہاں میری تحریریں جمع ہوں۔ بس وہیں سے سلسلہ شروع ہوا۔ کتاب کے بارے میں شش و پنج میں ہوں۔ آیا کتاب اس لیے چھپوا لی جائے کہ بس چھپ جائے سب کچھ، یا اس کا معیار ایسا ہے کہ لوگ نام لے کر کتاب پڑھنا چاہیں۔ جب تک میرا دل مکمل طور پر اس چیز پر مطمئن نہ ہو گا کہ کتاب کا معیار بہترین ہے اور وہ بہت سی کتابوں میں سے ایک کتاب نہیں ہے تب تک میں کتاب نہیں چھپواؤں گی۔
علیزے نجف: خود کو بہتر بنانے کے لیے زندگی میں سیکھنا اور سیکھتے رہنا بہت ضروری ہے، آپ کے اندر یہ جذبہ بدرجۂ اتم موجود ہے، میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے سیکھنے کے لیے کن ذرائع کو سب سے زیادہ معاون پایا اور سیکھتے رہنے کی نفسیات کی آبیاری کیسے کی؟
نیر تاباں: یہ لگن اندر سے ہی نکلتی ہے۔ پھر عمر کے ساتھ ساتھ بھی انسان گروم کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر لگن ہے، تو آپ سیکھ لیں گے، سیکھنا چاہیں گے ورنہ کوئی نہ کوئی بہانہ نکلتا آئے گا۔ جب آپ کی چاہت ہو گی تو ذرائع نکلتے ہی آئیں گے۔ میری پلاسٹک فری، ویسٹ فری، منیملسٹ لائف، یہ سب کچھ فیس بک گروپس سے ہی آئیڈیاز اور ہمت لے کر کیا گیا ہے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں کتابیں پڑھنے والا کئی زندگیاں جیتا ہے، کتابیں انسان کے تصور کے لیے ایک بہترین غذا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کسی کتاب کے انتخاب کے وقت آپ کن باتوں کو مدنظر رکھتی ہیں اور کتاب پڑھتے ہوئے اس کا ماحصل ذہن میں کیسے محفوظ رکھتی ہیں، کتابی علم زندگی کے سکھائے ہوئے سبق کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
نیر تاباں: اب تو کچھ وقت سے نان فکشن، سیلف ہیلپ بکس یا بائیو گرافیز ہی پڑھتی ہوں۔ جس کا نام اچھا لگے وہ پڑھ لیتی ہوں اور پڑھ کر بھول جاتی ہوں، الا یہ کہ تحریر میں لے آؤں۔ ہاں اگر ٹائم مینجمنٹ کی کتاب ہے، یا اسٹریس بھگانے کی یا غصہ قابو پانے کی، تو جو سیکھوں وہ ساتھ ساتھ اپلائے کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ کچھ حصہ اپلائے ہو جاتا ہے، باقی کچھ عرصہ بعد زندگی کے جھمیلوں میں پڑھ کر بھول بھال جاتا ہے۔
علیزے نجف: آپ آرگینک اشیا کے استعمال کو فروغ دینے کے حوالے سے بھی جانی جاتی جاتی ہیں، آپ خود اس پہ عمل پیرا بھی ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ آج کے ماحول میں انسان کے لیے back to nature کے رویے کو پھر سے اپنانا کس قدر ضروری ہے اور آپ نے کس سے متاثر ہو کر اس نظریے کو اپنایا اور اس کے اب تک کے حاصل کردہ فوائد کیا رہے ہیں؟
نیر تاباں: میں نے اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد اس طرف ریسرچ شروع کی۔ پھر جیسے پلاسٹک فری کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ چیزیں اس لیے خود بنانا شروع کر دیں۔ فوائد ہی فوائد ہیں۔ آپ خود کو بھی کیمیکلز سے بچا رہے ہیں، ماحول کا بھی بھلا کر رہے ہیں، اور جیب کے لیے بھی اچھا ہے۔ back to nature یہ انسانی زندگی اور ماحولیات دونوں کے لئے بہت مفید ہے۔
علیزے نجف: آج کے دور میں زندگی اس قدر تیز رفتار ہو گئی ہے کہ لوگوں کو خود کے لیے بھی وقت نکالنا محال لگتا ہے، زندگی کی اس تیز رفتاری کو کیسے بریک لگایا جائے اور خود کو وقت دینا آپ کس قدر ضروری خیال کرتی ہیں اور ایک عام انسان خود کو اہمیت دینے کے لیے کیا کرے؟
نیر تاباں: زندگی تیز رفتار تو ہوئی سو ہوئی، سوشل میڈیا کے بعد سے خود کو وقت دینا بہت ہی مشکل سا ہو گیا ہے۔ ہم سبھی اس مشکل کا شکار ہیں۔ تنہائی میسر ہی نہیں۔ دو گھڑی خود سے بات کرنے کا وقت نہیں۔ اپنے آپ سے ہی تعلق ٹوٹا پھوٹا سا ہے۔ اس چیز پر جب تک ہم شعوری سطح پہ کوشش نہ کریں گے، اندر کا خالی پن بڑھتا رہے گا۔ دن کا کوئی ایک حصہ ایسا ضرور ہو جہاں ہم ہوں اور ہمارے ساتھ بھی ہم ہوں۔ اس طرح خود سے تعلق استوار ہو گا، خود سے محبت ہو گی تو اپنا خیال رکھنے کے کئی طریقے خود ہی آ جائیں گے۔
علیزے نجف: اگر آپ کو اپنی اب تک کی گذری ہوئی زندگی کو کوئی عنوان دینا پڑے تو وہ کیا ہوگا اور اس عنوان کے دینے کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہو گی؟
نیر تاباں: عجب ہے کہ اس لمحے جو فوری جواب میرے قلم سے ادا ہو رہا ہے وہ ہے رائیگانی!
اسے یخ بستگی موسم کی ایک برفیلی شام کا اثر کہیے یا پھر چند ہی دن میں آنے والی سال گرہ کا احساس کہ جب ہم مڈ فورٹیز کو چھونے کے قریب ہیں۔ بہرحال خالی ہاتھ ہیں۔ دامن میں لے دے کر بس کچھ امیدیں ہیں، جو اللہ سے باندھ رکھی ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک اپنی زندگی کو کن اصولوں کے تحت گذارا ہے اور ان اصولوں کی تشکیل میں کن عوامل نے بنیادی کردار ادا کے ہیں؟
نیر تاباں: مجھے نہیں معلوم کہ کون سے اصول اور کون سے عوامل۔ میں ایک عام سی بندی ہوں جو وقت کے دھارے کے مطابق ڈھلتی چلی جا رہی ہے۔
علیزے نجف: انسانی جذبات بھی نشیب و فراز کی زد میں رہتے ہیں، کبھی کبھی یوں ہی بےسبب اداسی تو کبھی انجانی سی خوشی کا احساس. میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ اداسی اور بوریت کا شکار ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں اور تفریح کے لیے کن مشغلوں کو اپناتی ہیں؟
نیر تاباں: ہمارے لِونگ روم میں ایک بڑی سی کھڑکی ہے۔ میں اس سے باہر دیکھ کر اچھا محسوس کرتی ہوں۔ دور دیکھو تو پہاڑیاں نظر آتی ہیں، جو ہر موسم میں پورے قد سے کھڑی رہتی ہیں۔ داہنے ہاتھ پر کچھ پائن ٹریز ہیں۔ سال کے بارہ مہینے وہ درخت ہرے رہتے ہیں۔ سورج کی تمازت ان کا کچھ بگاڑتی ہے، نہ یخ ہوائیں ان کے پتے لے اڑتی ہیں، نہ برف انھیں ویران کرتی ہے۔ بالکل سامنے بھی کچھ درخت ہیں۔ سردیوں میں بالکل ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں، لیکن پھر وقت بدلتا ہے، واپس ہریالی آنے لگتی ہے۔ کبھی کوئی پرندہ۔ کبھی زندگی کی رفتار پر قدم سے قدم بڑھانے والے لوگ۔ میں سوچتی ہوں اس چہرے کے پیچھے کیا کہانی ہو گی۔۔ یہ سب چیزیں مجھے اداسی میں سکون دیتی ہیں۔
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعے  قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
نیر تاباں: پڑھنے والوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ اللہ سے قدردان لوگوں کی دعا مانگتے رہا کیجیے اور خود بھی آس پاس والوں کے قدر دان بننے کی کوشش کیا کیجیے۔
***
گذشتہ گفتگو یہاں پڑھیں:رشتوں کا ہونا زندگی کو خوب صورت بناتا ہے: ڈاکٹر کنول کیسر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے