کتاب : نقش تنقید

کتاب : نقش تنقید

مصنفہ : ڈاکٹر فریدہ تبسم
تبصرہ : طیب فرقانی

افسانوں کے شوق میں، میں نے یہ کتاب پڑھ ڈالی، کئی افسانے دہرا لیے کیوں کہ یہ شان دار ہیں یا انھیں پڑھ کر بھول گیا تھا، جیسے ترنم ریاض کا افسانہ شہر اتنا جان دار ہے کہ آپ ہر کچھ وقفے کے بعد اسے دہرا سکتے ہیں اور انور خان کا افسانہ "کووں سے ڈھکا آسمان" پڑھ کر بھول گیا تھا کہ اس کا استعاراتی بیانیہ جلد گرفت میں نہ آسکا تھا.
اسی طرح انور سجاد کے افسانہ گائے کو دوبارہ پڑھ لیا اور دو چار بار اور پڑھ لوں تو بھی حرج نہیں کہ یہ افسانہ بھی بار بار پڑھا جانے والا ہے، مرحوم بیگ احساس کا افسانہ سانسوں کے درمیان، تنویر احمد تماپوری کا افسانہ رومانہ بھی پڑھ کر بھول گیا تھا، منٹو کا افسانہ پھندنے قریب بیس سال پہلے پڑھا تھا، اس کے بارے میں آپ سب جانتے ہی ہیں. باقی درج ذیل افسانے پہلی بار نظر سے گزرے.
کچھوے از انتظار حسین، رونے کی آواز از سریندر پرکاش، 19 مارچ 2350 از نورالحسنین، چھالیا از خورشید حیات، گیت گھاٹ اور گرجا گھر از معین الدین جینا بڑے، تاج محل اور گئو شالہ از ریاض توحیدی، کھوکھلی کگر از احمد رشید علیگ، استفراع از سلام بن رزاق.
سلام بن رزاق کی ایک تبصراتی تحریر اس کتاب میں شامل ہے، اس سے دو مختصر اقتباسات یہاں نقل کرتا ہوں:
"نقش تنقید میں منٹو کا پھندنے، انتظار حسین کا کچھوے، سریندر پرکاش کا رونے کی آواز، انور سجاد کا گائے؛ یہ ایسے افسانے ہیں جن پر لکھنے کے لیے جب تک ادب کا وسیع مطالعہ، گہری فکر اور زبان و بیان پر عبور حاصل نہ ہو تنقید کا حق ادا نہیں ہوسکتا."
"نقش تنقید میں جو تجزیے پیش کیے گئے ہیں وہ بزم افسانہ کے افسانوی ایونٹس میں لکھے گئے ہیں. بزم افسانہ ایک واٹس ایپ گروپ ہے جہاں ہندوستان کے تقریباً معتبر افسانہ نگار اور ادبی شخصیت شامل ہیں. "
درج بالا دونوں اقتباسات سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں صرف افسانے نہیں ہیں بلکہ ان افسانوں کے تجزیے بھی ہیں جو خود فریدہ تبسم نے لکھے ہیں. یہ تجزیے بزم افسانہ کے افسانوی ایونٹس میں پیش کیے گئے افسانوں پر لکھے گئے ہیں. بزم افسانہ میں اب تک 300 افسانے پیش کیے جا چکے ہیں، ان میں سے ڈاکٹر موصوفہ نے ان افسانوں کو منتخب کر کے، چھان پھٹک کر، مع ان کے تجزیوں کے کتابی صورت میں پیش کیا، اسی لیے ان افسانوں میں اتنا تنوع ہے. اور تجزیوں کی نوعیت میں بھی تنوع ہے. جب ہم کسی ایونٹ کے لیے تبصرے یا تجزیے لکھتے ہیں تو ان کی نوعیت ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ بالارادہ خود کے منتخب کردہ افسانوں کے تجزیوں کی ہوتی ہے. ایونٹس کے لیے لکھے گئے تبصروں تجزیوں میں ہم بہت سی باتیں قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں اور بہت دفعہ ہمیں سرسری گزرنا پڑتا ہے، کیوں کہ بہت سی باتیں دوسرے تجزیہ نگار کہہ چکے ہوتے ہیں، اس لیے ان تجزیوں میں فریدہ تبسم کے تنقیدی شعور کی بلاغت تو اپنے جلوے دکھاتی ہے لیکن گروپ سے باہر کے قارئین کے لیے کچھ تشنگی اور تنظیم و ٹھہراؤ کی کمی کا احساس بھی ابھر آتا ہے.
سلام بن رزاق کے پہلے اقتباس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں ڈاکٹر فریدہ تبسم کی تجزیہ نگاری کے حسن کا اعتراف ہے اور انھوں نے بھی ڈاکٹر موصوفہ کے تنقیدی شعور کو سراہا ہے. انھیں فریدہ تبسم میں ممتاز شیریں کا عکس نظر آتا ہے.
ڈاکٹر فریدہ تبسم کا تعلق دکن کے گلبرگہ سے ہے، زیر نظر کتاب ان کی تیسری کاوش ہے، اس سے قبل ان کی دو کتابیں: بیسویں صدی اور اردو شاعرات اور تنقیدی تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں.
اس کتاب اور صاحب کتاب کے تعارف پر ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری نے قریب چار صفحات کا مضمون بہ عنوان: نقش تنقید… تنقید و تخلیق کی تفہیم کا عمدہ نقش" بھی لکھا ہے جو اندرون کتاب شامل ہے. مجھے اس عنوان سے اتفاق ہے. کیوں کہ اس کتاب میں تخلیقی شہہ پاروں (افسانوں) کی تفہیم کی کوشش کے ساتھ شعر و فکشن کی تنقید اور شمس الرحمن فاروقی جیسے تنقید نگار پر درج ذیل عنوانات کے تحت سات مضامین بھی شامل ہیں.
اردو افسانہ: فن و موضوع اور نئے رجحانات، تنقیدی اساس… ایک جائزہ، شعری، تنقیدی اساس، اردو فکشن اور تنقیدی اساس، فکشن کی جدید تھیوریز، اردو ادب میں مائکرو فکشن (یہ ایک نیا موضوع ہے اور یہ مضمون موضوع کی کئی جہات پر روشنی ڈالتا ہے) اور اردو ادب کا شمس… شمس الرحمن فاروقی.
یہ مضامین معلوماتی اور اظہاری ہیں، اظہاری سے میری مراد یہ ہے کہ فریدہ تبسم کو تنقید کے تعلق سے جو معلومات حاصل ہیں انھیں، انھوں نے اپنے قارئین کے ساتھ مشترک کیا ہے. ان کی خود اعتمادی شان دار ہے. نظریہ، اصلاح معاشرہ اور اچھے کاموں کی تعریف ہے. معاشرے میں وہ بھلائی کے فروغ کی خواہاں ہیں اور علم و ادب اور اردو زبان سے ان کی محبت و رغبت بیاں ہوتی ہے. ان کے پاس دردمند دل ہے اور کہنے لیے بہت کچھ ہے. یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو خوب سجاتی نہیں ہیں. ایسا لگتا ہے خیالات کا وفور جلد سے جلد صفحہ قرطاس پر اتر کر الفاظ کا جامہ پہننا چاہتا ہے. اس کا نقصان یہ ہے کہ مجھ جیسے قاری کو دوران قرأت بہت مشقت اٹھانی پڑتی ہے کیوں کہ پیرا گراف ایک قسم کی بے ترتیبی اور بے تنظیمی کا شکار ہوگئے ہیں.
276 صفحات کی یہ کتاب ہارڈ کور میں اچھے کاغذ پر شایع ہوئی ہے اور پروف ریڈنگ پر خوب توجہ نہیں دی گئی ہے.
550 روپے کی اس کتاب کو 2022 میں ایم ایم پبلی کیشنز، دہلی نے شایع کیا ہے. مصنفہ کا فون نمبر مجھے دست یاب نہیں ہے، رابطے کے لیے ان کے درج ذیل فیس بک اکاؤنٹ کو چیک کرسکتے ہیں.
DrFareeda Begum
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:کتاب: افسانچے کی ادبی حیثیت (مباحثہ)

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب : نقش تنقید

  1. مختصر مگر جامع ۔۔۔فریدہ تبسم کی تنقید بہت موثر ہوتی ہے۔عمدہ کتاب پر عمدہ تبصرہ کے لیے آپ دونوں قابل مبارک باد ہیں۔۔۔عظیم اللہ ہاشمی (بنگال)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے