رشتوں کا ہونا زندگی کو خوب صورت بناتا ہے: ڈاکٹر کنول کیسر

رشتوں کا ہونا زندگی کو خوب صورت بناتا ہے: ڈاکٹر کنول کیسر

چائلڈ اسپیشلسٹ و کاؤنسلر ڈاکٹر کنول کیسر سے خصوصی مکالمہ

انٹرویو نگار: علیزے نجف

انسانی شخصیت اپنے اندر اوصاف و کمال کی افزائش کا بےپناہ امکان رکھتی ہے، جس کو بروئے کار لا کر خود کو ایک بہترین کردار میں ڈھالا جا سکتا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ جس فطرت پہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کی نشوونما کر کے کسی بھی اعلا عہدے و مرتبے کے ساتھ خود کو ایک بہترین انسان بھی بنائے رکھا جا سکتا ہے. ایک ایسا انسان جو کہ مذہبی اقدار اور اس سے جڑے فرائض کے ساتھ رشتوں سے جڑے تقدس کے تئیں بھی حساس ہوتا ہے، جو ماضی کی کہنہ روایات کے ساتھ جینے کے بجائے اس کو بدلنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے، ایسا انسان فقط اپنے آنگن کو ہی روشن نہیں کرتا بلکہ ان راہ گزاروں کو بھی روشنی کی سوغات دے جاتا ہے جہاں سے کہ وہ گذرتا ہے، اس دنیا میں ایسے لوگ ہمیشہ ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں، جنھوں نے اپنی ہر سعی و عمل کو مقصد کے دھاگے میں پرو کر لوگوں کو بہتر انسان بننے کی دعوت دی ہے۔ انھی میں سے ایک اہم قابل ذکر شخصیت ڈاکٹر کنول کیسر کی ہے، ان کا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے، پروفیشن کے اعتبار سے وہ چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں، ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں گھر کا ہر فرد ہی ڈاکٹر ہے، جو بہ شمول ان کے انتہائی پروفیشنل طرز زندگی رکھتا ہے. مطلب یہ کہ ایلیٹ کلاس فیملی کی طرز زندگی کے تحت ڈاکٹر کنول کیسر کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ گذرا، جہاں مذہب بس ایک روایت کی طرح زندگی کا حصہ تھا. اس کی حقیقت و ماہیت پہ غور کرنے کی فرصت انھیں حاصل نہیں تھی. 27 سال پہلے جب انھوں نے قرآن کلاس جوائن کیا تو ان کی زندگی میں ایک زبردست بدلاؤ آیا. الھدی انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن کی کارگذار اور ان کی استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے ان کی شخصیت میں اس انقلابی تبدیلی لانے میں بہت تعاون کیا. ڈاکٹر کنول کیسر نے اس ادارے سے ڈپلوما کی ڈگری لی، پھر وہ خود الھدی  کی ایک سرگرم رکن بن گئیں. اس وقت ڈاکٹر کنول کیسر الھدی کے تحت چل رہے پروگرام "ہمارے بچے" کی ڈائریکٹر ہیں، ڈاکٹر کنول کیسر صرف ایک چائلڈ اسپیشلسٹ ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک کاؤنسلر اور تھیراپسٹ بھی ہیں. انھوں نے میڈیکل کی ڈگری کے ساتھ سائیکالوجی اور کاؤنسلنگ کے حوالے سے کئی سارے کورسز بھی کیے. مختلف اڈکشن سینٹر کے ساتھ وہ کام بھی کررہی ہیں. وہ میڈیکل پریکٹس کرتے ہوئے کاؤنسلنگ، تھیراپیز اور ورکشاپس وغیرہ کرتے ہوئے پچھلے 23 سالوں سے بچوں کو قرآن پڑھا رہی ہیں اور ان کے والدین کو پیرنٹنگ میں پیدا ہونے والے نئے نئے چیلنجز کے حوالے سے ایجوکیٹ کرتی ہیں اور انھیں بتاتی ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو کیسے ایک بہتر انسان اور بہترین مسلمان بنا سکتے ہیں. بچوں کی نفسیات کو وہ گہرائی سے سمجھنے کا اعزاز رکھتی ہیں، انھوں نے اس موضوع پہ کئی کتابیں بھی لکھی ہیں جو  متعدد اداروں کے نصاب میں شامل ہیں. وہ ایک بہترین speaker ہیں. ان کی بےشمار ویڈیوز سوشل میڈیا پہ موجود ہیں. انھوں نے ہر عمر کے لوگوں کے لیے ورکشاپس بھی کیے ہیں. انسان کی اندرونی شخصیت سے جڑے ہر پہلو پہ قرآن و حدیث اور نفسیاتی علم کی روشنی میں اب تک بےشمار لیکچرز دے چکی ہیں، مختلف آرگنائزیشن کے ساتھ وہ مسلسل کسی نہ کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہی ہوتی ہیں. انھوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو سمجھ کر نہ صرف اپنی زندگی کو صحیح رخ پہ مائل کیا ہے بلکہ بہ توفیق خدا اوروں کی زندگی کو بھی صحیح رخ پہ لانے کے لیے انتھک جدوجہد بھی کی ہے، جو  اب تک جاری ہے، جب میں نے ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ دیکھیں تو میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی، ان کا انٹرویو کرنا میری شدید خواہش میں شامل تھا. انتہائی کوشش کے بعد میں اس خواہش کی تکمیل میں کامیاب ہو ہی گئی. اس کے لیے میں ڈاکٹر کنول کیسر کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروف ترین زندگی سے چند لمحے میرے لیے نکالے جزاک اللہ خیرا، الحمدللہ اس وقت ڈاکٹر کنول کیسر میرے سامنے ہیں. سچ پوچھیں تو میرے ذہن میں سوالات کا انبار لگا ہوا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میں سارے ہی سوالات نہیں پوچھ سکتی کیوں کہ پھر یہ طویل دورانیہ ہم سب کو بوجھل کر دے گا۔ میری کوشش ہے کہ جتنے بھی ممکن ہوں میں ان سے پوچھ لوں، مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس انٹرویو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا. اپنی زندگی کو ایک بامقصد رخ دینے میں مدد ملے گی. آئیے اب مزید تاخیر کیے بغیر ہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں. مزید ان کے بارے میں انھی سے جانتے ہیں۔
علیزے نجف: السلام علیکم
ڈاکٹر کنول کیسر: وعلیکم السلام
علیزے نجف: سب سے پہلے تو ہم آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میرا نام ڈاکٹر کنول کیسر ہے. میرا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے اور میں پچھلے تیس سالوں سے بہ طور چائلڈ اسپیشلسٹ  پاکستان کے راولپنڈی شہر میں پریکٹس کر رہی ہوں، تقریبا 26 سال پہلے میں نے قرآن کلاس کو جوائن کیا جہاں سے میرا ایک اور طرح کا سفر شروع ہوا، جس میں میں نے اپنے اوپر بھی کام کیا اور پھر میں نے کئی پروجیکٹ پہ کام کیا جس کا  ایک لمبا سلسلہ رہا ہے، جو اب تک چلا آرہا۔ اور رہا سوال یہ کہ میں خود کو کس طرح دیکھتی ہوں تو میں خود کو ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے کوئی بھی انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہے، ہاں یہ بھی ایک سچ ہے کہ جب بھی کوئی انسان کوئی چیز سیکھتا ہے تو اس ضمن میں سب سے پہلی ذمے داری یہی ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بنایا جائے اور اللہ سے اپنے تعلق کو بہتر بناتے ہوئے اس کو ہمہ وقت راضی کرنے کی کوشش کرتے رہا جائے، میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس تقاضے کو پورا کرنے میں لگی رہوں. اس کے تحت میں ہمیشہ ایک لرنر کی طرح جینے کی سعی کرتی ہوں، اور ساتھ ساتھ میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ میں سیکھوں اسے میں دوسروں تک پہنچاؤں تاکہ اچھی سوچ اور اچھے عمل کو فروغ مل سکے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق کس خطے سے ہے، فی الحال آپ کہاں قیام پذیر ہیں، کیا انسانی شخصیت پہ کسی خطے کی خصوصیات بھی اثرانداز ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میرا تعلق پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ہے. جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے کہ میں راولپنڈی میں جاب کرتی ہوں اور رہی بات خطے کی خصوصیات کی تو بےشک میں اس حوالے سے اپنے آپ کو کافی خوش قسمت خیال کرتی ہوں کہ میں پاکستان سے تعلق رکھتی ہوں، ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے ہمیں یہاں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے. خواہ وہ دین پر عمل کرنے کا معاملہ ہو، ہم ہر طرح سے اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں، اپنے خیالات کو لوگوں تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں، غرضیکہ ہمیں یہاں ہر طرح کی آزادی میسر ہے. میرے ذاتی تجربے کے مطابق اس حوالے سے یہ ملک اکثر ممالک سے زیادہ زرخیز ہے، جو  ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اور ہاں ساتھ ساتھ چیلنجز کا ہونا بھی ایک فطری عمل ہے. شیطان تو ہمیشہ ہی اپنا کام کرتا رہتا ہے، یعنی انسانوں کو بہکانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے. ہمیں اس کے مکر و فریب سے کیسے بچنا ہے یہ ہمیں خود سوچنا و سیکھنا ہوگا۔
علیزے نجف: کہتے ہیں انسانی شخصیت کی تعمیر میں ارد گرد کا ماحول بھی گہرا اثر ڈالتا ہے، آپ اپنے بچپن کے ماحول اور اب کے ماحول میں کیا فرق دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: بالکل وقت کے ساتھ تبدیلی قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے، جو  ہر دور میں رہا ہے، میں موجودہ وقت میں اس تبدیلی کو محسوس کرتی ہوں کہ یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے. ہم ہمہ وقت ایک دوسرے سے اسکرین کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں. اسکرین کی دنیا جو  ہر طرح کے مواد اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، نتیجتاً ہم وہاں پہ مختلف طرح کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے برعکس اگر میں اپنے بچپن کے ماحول کا ذکر کروں تو اس وقت physical activity زیادہ تھی اور بڑوں کے تئیں ادب و احترام والا ماحول تھا اور والدین کو زیادہ اختیارات حاصل تھے، اس وقت کے ماحول میں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا آسان تھا، اگرچہ دین کے تئیں لوگوں کی تحقیقات زیادہ گہری نہیں تھی لیکن دین کے بنیادی شرعی تقاضوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، جیسے نماز و روزے کے تئیں سچی رغبت، شرم و حیا اور دیگر اخلاقیات کو کافی اہمیت دی جاتی تھی، ٹکنالوجی کی زیادہ ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیلی ویژن وغیرہ تک رسائی مشکل تھی، لوگوں کے اندر بزرگوں کی باتوں کو اہمیت دینے کا مزاج تھا، جب کہ موجودہ وقت میں اس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ ساری خصوصیتیں ناپید ہوتی نظر آ رہی ہیں. اب لوگوں کے اندر لاشعوری طور پر سرکشی کا مزاج پیدا ہوتا جا رہا ہے اور وہ خود مرکزیت کا بھی شکار ہوتے جا رہے ہیں. اپنے خیالات پر کام کرنا انھیں پسند نہیں رہا، کہیں نہ کہیں ان کے اندر شدت پسندی کی ذہنیت بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے. کچھ لوگ مذہب کے نام پہ شدت پسندی اختیار کر رہے ہیں اور کچھ سیکولرزم کے نام پر مذہب کو غیر ضروری قرار دینے پر اڑے ہوئے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟ موجودہ وقت کے نظام ہائے تعلیم سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں، اگر نہیں تو آپ کے نزدیک اس کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میں نے میڈیکل کے شعبے سے تعلیم حاصل کی ہے اور چائلڈ اسپیشلسٹ کے طور پر اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہے. اس کے علاوہ میں نے الھدیٰ انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں سے مختلف ڈپلوماز اور کورسز کیے ہیں جیسے کہ سائیکالوجی اور کاؤنسلنگ تکنیک کے حوالے سے اور ایڈکشن ڈپارٹمنٹ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کام بھی کیا ہے۔
جہاں تک موجودہ وقت میں اعلا تعلیم کے فروغ پاتے نظریے کی بات ہے تو دیکھیے موجودہ وقت میں ہمارے یہاں کے تعلیم نظام میں جس چیز کو مرکزی توجہ حاصل ہے وہ گریڈز ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تقریباً پوری دنیا میں بھی ایسے ہی گریڈز کی ریس نظر آ رہی ہے۔
اب لوگوں کی توجہ معیار تعلیم سے ہٹ کر فلاں فلاں یونی ورسٹی کا بڑھتا اسکوپ اور اس کے ذریعے جاب ملنے کا امکان اور اس سے حاصل ہونے والا پیکج ہے، اب یہی کچھ لوگوں کا مطمح نظر بنتا جا رہا ہے. اس کی وجہ سے اگرچہ ہم اپنی آئی کیو پروگریس تو بہتر بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن ہماری ایموشنل انٹیلیجنس پستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ہم عملی زندگی کو برتنے کا سلیقہ ہی بھولتے جا رہے ہیں. میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے ارد گرد ایسے لوگ جو کہ ڈگریوں کے اعتبار سے مجھ سے بھی زیادہ پڑھے لکھے ہیں لیکن نہ وہ اسٹریس مینیجمینٹ جانتے ہیں اور نہ anger management جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں relationship building technique کا پتہ ہے. کسی ایکسپرٹ نے ایک بار مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا جو  مجھے کافی معقول بات لگی "یہ جو علم ہے یہ one click away ہے." ہم صرف ایک کلک سے دنیا بھر میں کسی بھی کونے میں جا کر کوئی بھی علم پڑھ سکتے ہیں. اس وقت جو تعلیمی ادارے ہیں اس وقت انھیں ضرورت ہے کہ کردار سازی کو مرکزی اہمیت دیں اور لوگوں کو life skills سکھائیں اور انھیں communication skills سکھائیں تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ان کا حل تلاش کر سکیں۔
علیزے نجف: موجودہ وقت میں تعلیم کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح کافی مقبول ہوتی نظر آ رہی ہے، وہ ہے ہوم اسکولنگ کی اصطلاح، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: سچ کہوں تو مجھے ہوم اسکولنگ کا براہ راست کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن جہاں تک ہوم اسکولنگ کے حوالے سے میرے مشاہدے کا تعلق ہے تو میں نے بس یہ دیکھا ہے کہ جو والدین ہوم اسکولنگ کے نظریے کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں، ان کے دلائل کیا ہیں اور جو لوگ ہوم اسکولنگ کے حق میں نہیں ان کے اس بارے میں کیا خیالات ہیں، میرا اس تعلق سے کوئی عملی تجربہ نہیں، میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہوم اسکولنگ کی طرز تعلیم کو اپنے حق میں مفید پاتا ہے اور اس کی فیملی بھی اس کے ساتھ تعاون کر رہی ہو اور spouse بھی معاونت کر رہا ہو تو اسے ضرور کرنا چاہئے، لیکن اسے اپنے نظریوں میں لچک بھی رکھنی چاہئے ہو گی، یعنی وہ اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے نظریے کو ہدف تنقید  بنانے سے گریز کرنا ہوگا، کیوں کہ ایسے میں ہم اس امکان کو بالکل بھی رد نہیں کر سکتے کہ کچھ مائیں اپنے بچوں کو چاہ کے بھی وہ وقت نہیں دے سکتیں جس کا ہوم اسکولنگ تقاضہ کرتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اندر وہ صلاحیت ہی نہ ہو یا وہ خود کو آرگنائز نہیں کر پا رہی ہوں، ایسے میں متوازن رویہ یہی ہے کہ نہ اسکول جانے والے ہوم اسکولر کو برا سمجھیں اور نہ ہی ہوم اسکولر اسکول جانے والوں کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوں، جو اپنے لیے جو مناسب خیال کرے اسے اپنا کر اپنے مقصد حیات کی طرف یکساں دھیان دیں، ان دونوں ذریعۂ تعلیم سے بچوں کے شعور کی تربیت کرنا مقصود ہونا چاہئے، ہمارا اصل مقصد دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے، اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہترین کاؤنسلر بھی ہیں، اگر چہ آپ نے باقاعدہ اس کی ڈگری حاصل نہیں کی، میرے خیال میں ڈگری تو محض ایک علامت ہے، اصل کارکردگی تو صلاحیت کی ہوتی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے ابتدا ہی سے شعبۂ نفسیات کا انتخاب کیوں نہیں کیا، زندگی کے کس موڑ پر آ کر آپ نے محسوس کیا کہ آپ ایک بہترین کاؤنسلر بھی بن سکتی ہیں، پھر آپ نے اس میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کس طرح کی کوششیں کیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: آپ کا یہ سوال کافی انٹرسٹنگ ہے، بالکل میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی لوگوں کی کاؤنسلنگ کروں گی یا ان کو اس حوالے سے کچھ سکھاؤں گی، میری زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میں نے قرآن کریم کی کلاس جوائن کی اور وہاں سے مجھے سمجھ آئی کہ مقصد حیات کیا ہے؟ اور پھر جب آہستہ آہستہ میں نے خود پہ کام کرنا شروع کیا تو مجھے اس کی سمجھ آئی کہ کسی کام کو سیکھ کر اس کے مطابق دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کے لیے کن skills کی ضرورت ہوتی ہے، خود کو groom کرنے کی اس کوشش کے دوران مرا رابطہ کچھ سائیکالوجسٹ سے ہوا اور ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا، ان کو قرآن پڑھانا اور ان کی ذہن سازی کرنا ان کے رویوں کو سمجھنے کے لیے مجھے ان کی نفسیات کو سمجھنا ضروری تھا، تبھی میں ان کو disciplined کر سکتی تھی، میں نے مطالعے کے ذریعے اس کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی، یہیں سے میرا انٹرسٹ سائیکالوجی میں ڈیولپ ہوا اور پھر میں نے بہت سے سائیکالوجسٹ سے استفادہ بھی کیا. شروع میں میں اس لیے سیکھتی تھی کہ میں اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کی صحیح تربیت کر سکوں اور جو بچے میری نگہداشت میں تھے ان کو صحیح گائڈ لائن دے سکوں، میرے پاس بچوں کا ایک پورا ڈپارٹمنٹ ہے جس کا نام ہے "ہمارے بچے" جو  الھدی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔
اس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے والدین کی بھی صحیح سمت میں رہ نمائی کرنی ہوگی، اس ضمن میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہو رہے تھے، مجھے ان سوالات کو تلاش کرنا پڑتا تھا اور مختلف ذرائع کا استعمال کرنا پڑتا تھا، اس وقت انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت بھی نہیں تھی، اگر چہ اب انٹرنیٹ کی سہولت ہر کس و ناکس کو میسر ہے، وہاں پہ آپ کے سارے سوالات کے جوابات بہ آسانی مل سکتے ہیں، لیکن والدین موجودہ وقت کی برق رفتار تبدیلی میں اپنے بچوں کی نفسیات کو پیچیدگی کا شکار ہوتے دیکھ کر خود اتنا الجھ جاتے ہیں کہ انھیں باقاعدہ کاؤنسلر کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے یہ ساری کی جانے کوششیں دراصل میں اپنے لیے کر رہی تھی لیکن مجھے اصل کانفیڈنس جنھوں نے دیا وہ میری mentor میری استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ تھیں، انھوں نے میرا حوصلہ بڑھایا، حالاں کہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس فیلڈ میں میں نے جو کچھ اب تک سیکھا ہے اس کے ذریعے میں بہت سے ایسے سوالوں کے جواب بھی دے سکتی ہوں، جس کا جواب شاید شعبۂ نفسیات سے منسلک لوگ بھی نہ دے سکیں، شاید اس وجہ سے کہ اس بارے میں ان کا clinical experience کم ہے۔ میرے پاس ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو ہمیں باقاعدہ اس بات کی ٹریننگ دی جاتی جاتی ہے کہ کس طرح مریض کی سائیکلوجی کے مطابق انھیں ڈیل کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے مجھے بہت encourage کیا کہ آپ والدین کی ہیلپ کریں کیوں کہ وہ بہت پریشان ہیں تو جب میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس فارمل ڈگری نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ کیا لوگ آپ سے ڈگری مانگتے ہیں یا وہ سولوشن مانگتے ہیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ کیا آپ لوگوں سے اس طرح کی جھوٹی بات کرتی ہیں کہ میں ماہر نفسیات ہوں اور میرے پاس کوئی ہائی پروفائل ڈگری ہے تو میں نے کہا نہیں، میں تو یہ نہیں کہتی تو انھوں کہا کہ پھر۔۔۔۔۔۔؟ ہمارا فرض بنتا ہے کہ جو علم ہمارے پاس ہے ہم اس سے لوگوں کی مدد کریں تو یہاں سے میرے اندر یہ اعتماد آیا اور میں نے دیکھا کہ میں جو لوگوں کو مشورہ دیتی تھی اس کے اچھے رزلٹ آتے تھے، لوگوں سے باتیں کرتی تھی تو لوگ اس سے خود کو relate کرتے تھے، مجھے اچھے فیڈ بیک ملتے، پھر میں نے سوچا واقعی میرے پاس ڈگری تو نہیں اس طرح کی میں نے بہت سے آن لائن کورسز کیے جیسے C.B.T. اور اسی طرح سے بچوں کےabuses behavior اور اس طرح کے بہت سارے جو چیلنجنگ سچویشن ہیں ان سے متعلق میں نے کئی طویل المدت کورسز کیے جیسے میں نے ایڈکشن کے بارے  addiction expert سے سیکھا اور پھر جب میں نے زیادہ کام کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ الحمداللہ جب میں لوگوں کو گائڈ کرتی ہوں تو لوگوں کو سمجھ آتی ہے. اس میں میں اپنے آپ کو کریڈٹ نہیں دوں گی، میں سمجھتی ہوں، جب انسان اللہ کا کلام پڑھتا ہے اور نیت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی دین و دنیا کی اصلاح ہو جائے تو اللہ خود دوسرے انسان کے اندر اچھی بات کو جگہ دے دیتے ہیں، اللہ ہی ہے جو کسی کی اصلاح کرتا ہے، ہم تو فقط کوشش ہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں میری کوششیں بس یہی تھیں کہ میں نے بہت سے لوگوں کے ساتھ کام کیا اور سیکھا. ابھی بھی میں ہر وقت پڑھ رہی ہوتی ہوں، میں قرآن مجید کو پڑھ بھی رہی ہوں اور پڑھا بھی رہی ہوں. اپنے استاد کو سنتی ہوں اور اسکالرز کو سنتی ہوں اور اپنی سمجھ کو زیادہ بڑھاتی ہوں. کیوں کہ میں خود کوئی اسکالر تو ہوں نہیں، میں اپنے آپ کو صرف قرآن کا طالب علم خیال کرتی ہوں، میں ہر وقت اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتی ہوں کہ میں خود پہ اپنی گرفت مضبوط رکھوں، پھر جب قرآن مجید پڑھتی ہوں تو ساتھ ساتھ میں یہ جاننے کی کوشش کرتی ہوں کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کے بارے میں سائیکالوجی کیا کہتی ہے، اسی طرح جب میں معلوماتی کتابیں پڑھتی ہوں تو میں یہ دیکھ رہی ہوتی ہوں کہ اچھا یہ قرآن مجید کی کن آیات کے ساتھ اور کن احادیث کے ساتھ ریلیٹڈ ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہاں سے میں دونوں باتوں کو اکٹھا ملا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
علیزے نجف: آپ الھدی انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن نامی ادارے سے بھی وابستہ ہیں، وہ کیا محرکات تھے جو آپ کو اس جانب متوجہ کرنے کے سبب بنے، دوسرے میں قارئین کی جانکاری کے لیے یہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں، الھدی کی بنیاد کس طرح کے ماحول میں رکھی گئی، اس کا مقصد تاسیس کیا تھا، فی الوقت اس کی branches کہاں کہاں ہیں اور اس کی بانی کون ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: جی میرا تعلق الھدی انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ ہے جو کہ ایک دینی ادارہ ہے جس میں مذہبی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ذہن سازی اور شخصیت سازی کو خاصی اہمیت حاصل ہے، جب کہ بنیادی طور پر میرا تعلق ایک ڈاکٹر فیملی سے ہے، میرے والدین بہن بھائی اور ان کے spouses سب کے سب ڈاکٹر ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے گھر میں ایک پروفیشنل ماحول رہا ہے، جیسے میڈیسن اور میڈیکل خدمات کے ساتھ ہی ہمارے روز مرہ کے معمولات رہے ہیں، میری فیملی سے ہٹ کر خاندان میں بھی بہت زیادہ ڈاکٹرز ہیں، اس ماحول کے پس منظر میں ہی میری پرورش ہوئی، میں شروع سے اس قدر religious بالکل نہیں تھی، میں میڈیسن پڑھ رہی تھی، مذہب سے میرا تعلق بالکل روایتی سا تھا، جیسے قرآن کی عزت کر لی، کبھی نمازیں پڑھ لیں، کبھی چھوٹ بھی گئیں، روایتی طرز پر روزے رکھ لیے، دین کے ان بنیادی تقاضوں پر عمل بس اس لیے تھا کہ گھر کے بزرگ نصیحت کرتے کہ بیٹا یہ پڑھ لو، یہ کر لو، وغیرہ وغیرہ، یہ سب کچھ محض تقلیدی طرز پہ ہی میری زندگی میں شامل تھا، اس کے پیچھے کوئی thought process نہیں تھا کہ اللہ ان ارکان کی ادائیگی کے ذریعے ہم سے کیا چاہتا ہے اور ایک مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے، میرا مذہب سے حقیقی تعلق اس وقت پیدا ہوا جب میں ایک مرتبہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے درس میں شریک ہوئی تو مجھے بہت اچھا لگا، پہلے مجھے یہ لگتا تھا کہ اگر میں قرآن مجید پڑھنا شروع ہو گئی، خاص طور سے اگر سمجھ کر پڑھتے ہوئے اس پہ عمل کرنا شروع کردیا تو شاید مجھ پر پابندیاں عائد ہو جائیں گی، شاید مجھے پردہ وغیرہ کا اہتمام بھی کرنا پڑے گا، مجھے اپنے بہت سے مشاغل چھوڑنے پڑیں گے اور یہ چیز مجھے تھوڑا سا پریشان کرتی تھی اور اس طرف آنے سے روک دیتی تھی کیوں کہ اس طرح کی باتیں ڈاکٹر کے اسٹاف کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں، لیکن جب میں پہلی مرتبہ الھدی فاؤنڈیشن میں گئی اور میں نے پہلی مرتبہ فرحت ہاشمی کو سنا تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچھا قرآن مجید میں اس طرح سے دیا ہوا ہے اور میرے اندر ایک طرح کا سکون سرایت کرتا جا رہا تھا، میں اس سے مانوس ہوئی جا رہی تھی، میں شروع میں ان کے ہفتہ واری درس پہ جاتی تھی، ہفتے میں ایک دن لیکن پورا ہفتہ اس کو پڑھتے سوچتے گزر جاتا تھا اور وہ سب کچھ مجھے خود سے relatable لگتا تھا، مجھے ان آیات سے مدد ملتی تھی، مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی اب بہتر ہونی شروع ہو گئی ہے اور اس سے مجھے boundery set کرنا آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ کہاں پہ ہاں کہنا ہے اور کہاں پہ نہیں کہنا ہے، کیسے تعلقات کو بہتر کرنا ہے، میرے اپنے اندر کن کوالٹیز کی کمی ہے اور وہ کیا چیزیں ہیں جن کو مجھے بہتر بنانا ہے، اس دوران مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھا کہ میں نے ڈاکٹر فرحت ہاشمی کو اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے عملی طور پر قریب دیکھا اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ انھوں نے مجھے کبھی نہیں روکا کہ تم اس کو نہ سنو، اس کے پاس نہ جاؤ، وہ مجھے ہر بار یہ بات کہتیں کہ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھ لیں اور سمجھ لیں تو مجھے ان کا یہ رویہ broad based لگتا تھا اور مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ انھوں نے مجھ سے کوئی زبردستی کام نہیں کروایا، ہمیشہ پیار و محبت سے سمجھایا، ان کے دلائل ہمیشہ قرآن اور حدیث سے اخذ کیے ہوتے تھے، اس سے میں نے یہ سیکھا کہ ایک pure form میں قرآن مجید کو پڑھنا اور سنت کو سمجھنا ضروری ہے، جب کہ اس سے پہلے مجھے اور باقی جگہوں پہ ایک ایجنڈہ نظر آتا تھا کہ اگر آپ نے اس ادارے کو جوائن کیا تو پھر آپ کو صرف اسی کے لیے کام کرنا ہو گا، فرحت ہاشمی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جہاں بھی خیر ہو اسے لے لینا چاہئے جیسا کہ قرآن میں ذکر ہوا ہے "تعاونوا علی البر والتقوی" جہاں بھی نیکی اور تقوی کی بات ہو وہاں تعاون کرو اور جہاں گناہ ہو وہاں فل سٹاپ لگا دو۔
الھدی کی بنیاد انھی خیالات پر رکھی گئی ہے کہ قرآن سب کے لیے ہے اور یہ کہ قرآن کو اس کی اصل صورت میں پڑھا جائے، جیسے اوائل اسلام کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پریکٹس کیا تھا، اسے ویسے پریکٹس کیا جائے اور ساتھ ساتھ جو آج کل کے چیلنجز ہیں اسے اس کی روشنی میں پڑھ کر آگے پڑھا جائے، الھدی کا مین ہیڈ آفس اسلام آباد میں ہے، جہاں پہ مختلف علاقوں کے طلبہ آتے ہیں، پڑھتے ہیں، جب وہ اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو کچھ الھدی کے برانچز میں کام کرتے ہیں اور کچھ اپنے علاقوں میں کام کرتے ہیں، انٹرنیشنل لیول پہ بھی اس کی برانچز ہیں جیسے کینیڈا، یو۔ایس۔اے آسٹریلیا میں ہے، مڈل ایسٹ کی بہت سی جگہوں پہ کام ہو رہا ہے، اس ادارے سے جڑے طلبہ کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ جس طرح ہم نے قرآن پڑھا اور سمجھا ہے اسی طرح اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ویب سائٹ پہ ہر طرح کا میٹریل مل جاتا ہے، جہاں پہ آپ خود پڑھ سکتے اور سن سکتے ہیں اور از خود اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ شعبۂ میڈیکل میں بہ طور child specialist کام کر رہی ہیں اور آپ نے پیرنٹنگ پہ بے شمار لیکچرز بھی دیے ہیں جو  ماؤں کے لیے کافی معاون ثابت ہوئے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ گذرتے وقت کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں کس قدر آگاہی پیدا ہوئی، مزید اس فیلڈ میں بیداری پیدا کرنے کے لیے آپ نے کیا منصوبے بنائے ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: بےشک اللہ تعالیٰ کی یہ پلاننگ تھی میرے لیے کہ میں ایک چائلڈ اسپیشلسٹ بنوں اور پھر بچوں کی نفسیات کی بھی سمجھ رکھتی ہوں "ہمارے بچے" پلیٹ فارم کے تحت بچوں پر کام بھی کر رہی ہوں جس میں 2 سال سے لے کر 19 سال تک کے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں، جیسے قرآن، نماز، حدیث، دعائیں اور اس کے ساتھ ہم انھیں life skills بھی سکھاتے ہیں کہ کیسے ہم اپنے آپ کو بامعنی بنا سکتے ہیں، بہ حیثیت مسلمان  ہمارا نظریۂ حیات کیا ہو اور دنیا میں جو کچھ رہا ہے اس صورت حال میں ہم کیسے آگے بڑھیں، یہ ساری چیزیں بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بچوں کے چیلنجز بھی بڑھتے جا رہے ہیں، مائیں بہت distracted ہیں اور ماؤں کا بچوں کے اوپر سے ہولڈ کم ہوتا جا رہا ہے، کہیں بچوں سے غفلت برتنے لگی ہیں، کہیں وہ بچوں کی مارپیٹ میں مصروف ہوگئی ہیں، اس کی وجہ سے ان کے آپسی تعلقات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ماؤں کو بالکل سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے بچوں کو کیسے ہینڈل کرنا ہے اور ایسا تب تک ہے جب تک بچہ ٹین ایج میں نہیں پہنچا ہے، جب بچہ ٹین ایج میں پہنچ جاتا ہے تو وہ دنیا سے متاثر ہو رہا ہوتا ہے. اب اس کے پاس فون آ گیا ہے اور وہ سوشل میڈیا سے جڑ گیا ہے، وہ کالج، یونی ورسٹی جا رہا ہے، اس وقت دنیا میں صرف میں میں کی تکرار ہے، میرا جو دل چاہتا ہے وہ میں کروں اور وہ بھی ایسی ہی باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے ایسے ہی سب چیزیں چاہئے، یہ بےشک ایک بہت بڑا چیلنج ہے، میں مستقبل کے لیے بس یہ دیکھتی ہوں کہ ان کو ان کی اصل سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے، جیسے بچوں کو یہ اونر شپ دی جائے کہ ہم کیسے اپنے اصل سے تعلق جوڑیں اور pure form میں قرآن مجید کو پڑھیں، کیوں کہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے، میں جہاں قرآن پڑھاتی ہوں اگر اسٹوڈنٹ ایک مرتبہ قرآن کو پڑھتے ہیں پھر ان کا دل چاہنے لگتا ہے قرآن پڑھنے کو، میں ایک ایڈکشن سینٹر میں جاتی ہوں، وہاں پہ بہت پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں، جو اپنے نشے کی بیماری کی وجہ سے آتے ہیں تو جب وہاں پہ میں انھیں قرآن پڑھاتی ہوں اور جب میں ان سے بات کرتی ہوں تو وہ اتنا حیران ہوتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے یہ باتیں کبھی نہیں سوچی تھیں، آج ہی میری کلاس تھی اور میں انھیں سورہ الملک پڑھا رہی تھی تو میں نے ان سے احسن عمل کی بات کی تھی، جس کا ذکر آیت نمبر 2 میں ہوا ہے، اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ ہم احسن عمل کر سکیں تو اس حوالے سے میں نے یہ کہا کہ دیکھیں یہ جو ایڈکشن کا پروسس ہے آپ یہاں اس سینٹر پہ ہیں اور آپ سوچیں کہ چلو ہم یہاں تھوڑی دیر کے لیے pretend کر لیتے ہیں، واپس گھر جا کے ہم وہی کریں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں، احسن عمل یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا لیں اللہ کی خاطر، اللہ کی خاطر ہم سوچیں کہ ہم نے نشہ چھوڑنا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا خوب صورت جسم دیا ہے، بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اور اگر ہم کئی زاویے سے زندگی کو دیکھیں تو بےشمار نعمتیں ہمیں نظر آئیں گی، جسے اللہ نے ہم کو دیا ہے، اس طرح بات کرنے سے ان کے دل میں موٹیویشن آتی ہے، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آج کل کے جو چیلینجز ہیں، ہمیں اس کو سمجھ کے بچوں کو اس کے مطابق رہ نمائی دینی چاہئے، آج کل easy money کا کانسپٹ ہے easy life style کا کانسپٹ ہے، بچوں میں اسکلز ختم ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے میں کہتی ہوں کہ back to basics کی طرف توجہ دینا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس کے ذریعے دیگر چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: ایک لڑکی خود مختلف ادوار و مدارج سے گذر کر ماں بنتی ہے، اس نے جو کچھ اپنی ذاتی زندگی سے سیکھا ہوتا ہے، کیا اسے بہترین ماں بنانے کے لیے وہ ساری صلاحیتیں کافی ہوتی ہیں یا مزید اسے بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عام ماں کس طرح اس تقاضے کو پورا کر سکتی ہے؟ 
ڈاکٹر کنول کیسر: لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کو ہی کچھ بیسک چیزیں تو شروع سے ہی سیکھنی چاہئیں، جیسے انھیں قرآن مجید کا علم ہونا چاہئے، ان کے اندر تقوی ہونا چاہئے، انھیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کی ترغیب دینی چاہئے، ان کے نزدیک سنت کے علم کی اہمیت ہونی چاہئے یا سنت کے مطابق زندگی گزارنی آنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ان تمام کاموں کو کرنے کے لیے کیا کیا اسکلز ضروری ہیں وہ سیکھنے چاہئیں اور اپنے اوپر فوکس کرنا چاہئے، مطلب اپنی ذات پہ کام کرنا چاہئے جیسے کوئی بھی مشکل ہے تو اس میں میں کیا کر سکتی ہوں جس سے بہتری آ سکتی ہے میرا عمل اور ردعمل کب کیسا ہونا چاہئے، جب ہم یہ سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے شادی شدہ زندگی سے متعلق انھیں آگاہی دینی چاہئے، شادی شدہ زندگی کے چیلینجز کے بارے میں بتانا چاہئے کہ وہاں پہ ایک لڑکی کے لیے کن اسکلز کہ ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، اب آپ دیکھیں دنیا میں جتنے کورسز ہوتے ہیں، جتنے اداروں کو آپ جوائن کرتے ہیں، اس کا انٹرویو یا انٹرنس دینا پڑتا ہے، اس کی ٹریننگ ہوتی ہے، پھر آپ کو اس ادارے میں داخلہ دیا جاتا ہے، تو ہم ایک لڑکی کو پڑھتے پڑھتے یا پڑھائی سے فراغت کے فورا بعد  اسے شادی شدہ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کا ہنر سکھائے بغیر سسرال رخصت کر دیا جاتا ہے اور زیادہ تر گھروں میں یہی کہا جاتا ہے کہ اگلے گھر جاؤ گی تو پتہ چلے گا، کام کرو گی تو سمجھ آئے گی، یہ تم نے مذاق بنایا ہوا ہے اور باتیں سناتے سناتے ڈراتے ڈراتے اسے ڈولی میں بٹھا دیتے ہیں، وہ گھر پہنچتی ہے، جہاں اس کی شادی ہوتی ہے، وہاں اسے سمجھ نہیں آتی کہ اسے کرنا کیا ہے، شوہر سے تعلق کیسے ہونے چاہئیں، میکے و سسرال کے درمیان بیلنس کیسے بنایا جائے اور اسی میں پھر پریگننسی ہو گئی، بچہ ہو گیا، اب اس کو پالنے کے طریقے کیا ہیں، اس کو تو نہیں سمجھ آتی کہ مجھے راتوں کو جاگنا پڑے گا، مجھے سیلف کیئر کرنی پڑے گی، یہ باتیں نہیں سمجھ آتیں تو ایسے طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ شادی سے پہلے بھی کورسز ہوں جن میں ان کو سکھایا جائے اور شادی کے بعد بھی کورسز ہوں، اکثر اگر کسی علاقے میں کوئی کورس رکھا جاتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ اس میں لوگ کہتے ہیں کہ آج کل یہ نیا فیشن نیا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے پیسے کمانے کا پیسے بنانے کا، ہم نے تو کبھی نہیں ایسی کورس کیے، تو میں کہتی ہوں کہ پھر آپ نے غلطیاں بھی زیادہ کیں اور دوسری بات یہ کہ اب ماحول بدل گیا ہے اور بدلتا ہی جا رہا ہے، بہت ساری بچیوں کو ضرورت ہے کہ انھیں مکمل گائڈ لائن دی جائے، چیلینجز بہت بڑے بڑے آنا شروع ہو گئے ہیں، اسی لیے آپ دیکھئے طلاقیں بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں کہ ایک عام ماں اگر اچھی طرح سے سیکھ لیتی ہے تو بہت اچھے طریقے سے وہ کام کر سکتی ہے اور اپنے بچے شوہر و سسرال کا خیال رکھ سکتی ہے، بس اس کو اپنے آپ کو equipped کرنا ہے، اس کے لیے ماں باپ  کو بھی اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف: زمانے کی اس برق رفتار تبدیلی نے جہاں بہت ساری آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں کچھ ایسی مشکلات بھی جنم لینے لگی ہیں جو کہ پہلے شاذ و نادر ہی ہوا کرتی تھیں، مثلا آف لائن رشتوں کا ڈیجیٹل دنیا میں کھو کر قریبی رشتوں سے عدم توجہی اور ان کے درمیان گفت و شنید کا فقدان وغیرہ وغیرہ، میرا سوال یہ ہے کہ برق رفتار دنیا میں ہم ذاتی زندگی کی رفتار کو کیسے معتدل بنا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: ہمارے پاس ایسے دن ہونے چاہئیں جس میں کہ انٹرنیٹ بند ہو، فون ہم سائڈ پہ رکھ دیں، ہم فیملی ٹائم سیٹ کریں، کچھ ایسے مشاغل ترتیب دیں جس میں کہ سبھی شامل ہوں، کچھ vacations لیں، اپنے رشتوں کو اہمیت دیں، ان کو احساس دلائیں کہ آپ ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں، ہم آپ کے لیے یہ احساسات رکھتے ہیں، آپ دیکھیں کہ دنیا میں اس وقت ایسے movement چلنا شروع ہو چکے ہیں جس میں لوگوں نے کنسرن شو کیا ہے، لوگ اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ رشتوں کا ہونا زندگی کو  خوب صورت بناتا ہے، وہ واپس سے اپنی پرانی اقدار کو بہتر انداز میں اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم جو ایشیائی ممالک کے لوگ ہیں نا، جو سوچ ہماری پچاس سال آگے کی ہونی چاہئے، تو ہم اس میں پچاس سال پیچھے ہی رہتے ہیں، جب ہمارے ہاتھوں سے چیزیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر ہم پریشان ہوتے ہیں، بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت سے واقف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ شروع سے فیملی گیدرنگ کی اہمیت کو سمجھیں اور ان سے خود کو جڑا ہوا محسوس کریں، لوگ اپنے رشتوں اور اپنے پیاروں سے کٹنے کے بجائے ان سے جڑنا سیکھیں اور اس دور میں رہتے ہوئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے، بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ان سارے مسئلے و مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، پھر ایسے مواقع لانے کی ضرورت ہے جس میں بچے یعنی آج کل کی نسل اپنے رشتوں کے ساتھ انگیج ہو سکے۔
علیزے نجف: ایک بچے کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کے ساتھ گھر کے ماحول کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے، مختصر افراد پہ مبنی خاندان کے ماحول کو کسی نہ کسی حد تک بہتر بنانے کی خاطر خواہ کوششیں کی جا سکتی ہیں، لیکن ایک لڑکی کے لیے سسرال کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں اس حوالے سے بہتری لانے کی کوشش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، آپ کے خیال میں وہ کیا طریقۂ کار ہو سکتے ہیں جو بچوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: دیکھیے یہ جو میکہ سسرال کی جنگ ہوتی ہے نا اس میں بنیادی طور پہ insecurities ہوتی ہیں، ساس میں، کبھی میکے میں، کبھی لڑکی میں، کبھی لڑکے میں، تو بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی موقع پہ گھر کا ماحول جنگ کا میدان نہ بنے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب حقوق و فرائض کی اہمیت کو سمجھیں، حقوق مانگنے کے بجائے جو اپنی طرف کے فرائض ہیں اسے پورا کریں اور وہ اپنے آپ کو اتنا equipped کریں کہ آپ توقعات کے بےبنیاد تصور سے آزاد ہو جائیں، لینے کے بجائے دینے والے بن کر جیئں، ہم اکثر چاہ رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے انسان ہی سب کچھ کریں، میں تو بالکل درست ہوں، ہم اکثر اوقات اپنے آپ کا جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میری نیت تو صاف ہے لیکن جب دوسرے انسان کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے ایکشن پہ فوکس کرتے ہیں، وہ انسان بے چارہ قسمیں بھی کھاتا رہے کہ میری نیت اچھی ہے لیکن ہم نہیں مانتے، ہم کہتے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے تو یہاں پہ یہ چیز ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو اس طرح سے ہی سمجھیں جیسے کہ ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ اچھا اکثر پھر لوگ کہتے ہیں کہ میں ظلم سہہ سہہ کر بیمار ہو گئی ہوں تو یہ بھی ہمیں نہیں کرنا ہے، ہمیں نہ ظلم کرنا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر ظلم کرنے کا حق دینا ہے، اس کے لیے آپ کی تربیت ہونی چاہئے کہ اسے resolve کیسے کریں، جب اس پہ کام نہیں کیا جاتا تبھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں جس انٹیلیجنس کو سب سے زیادہ سراہا جاتا ہے وہ ہے انٹلکچول انٹیلیجنس، یہی وجہ ہے کہ بچے ماں باپ کو خوش کر نے کے لیے اس کے سوا تمام تقاضوں کو نظر انداز کرنے لگ جاتے ہیں، یہی بچے جب عملی میدان میں اترتے ہیں تو اکثر رشتوں کو نبھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے اندر ایموشنل انٹیلیجنس کا بالکل شعور نہیں ہوتا، میرا سوال یہ ہے کہ بچوں کی ایموشنل انٹیلیجنس بہتر بنانے کے لیے ماں باب کو کس طرح کے اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: بالکل صحیح بات کہی آپ نے، آئی کیو سے زیادہ ای کیو کی ضرورت ہوتی ہے، یہی ہمیں پریکٹیکل لائف میں آسانیاں دیتی ہیں، دراصل دونوں میں توازن ہونا چاہئے، ای کیو کے لیے ان steps کو فالو کرنا چاہئے جو ہمیں ایکسپرٹ بتاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہمیں جذبات کو سمجھنا چاہئے، ان سے جذبات کے بارے میں بات کرنی چاہئے، تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ جذبات کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے، جیسے ہماری سوسائٹی میں عام طور سے کہا جاتا ہے کہ بچے ایک جگہ ٹکتے نہیں ہیں، بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں، ان سے کیسے اس طرح کی بات کی جائے، آپ کو یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ بچے کو کسی سے جیلسی بھی ہو سکتی ہے، نفرت بھی ہو سکتی ہے، اسے غصہ بھی آ سکتا ہے لیکن ایسے میں سوال یہ ہے کہ کرنا کیا ہے تو پہلے یہ کہ ان جذبات کو سمجھنا پھر یہ دیکھنا کہ ان کو کیسے مینیج کرنا سکھایا جائے، پھر دوسرے انسان کو سمجھنا دوسرے انسان کے جذبات کو بھی سمجھنا، یہ سوچنا کہ غصہ اس کا مزاج ہے یا یہ اس کی عادت ہے، اگرچہ سب کو برا لگ رہا ہے اور پھر یہ دیکھنا کہ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں کہ جس سے  تعلقات میں بہتری آ جائے، یہ وہ طریقے ہیں جو کہ بھائی بہن کو سکھانے چاہئیں، جسے ہم emotional regulation کہتے ہیں، جذبات کا زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں، ہمیں اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
علیزے نجف: انسانی زندگی میں شادی کا ادارہ ہمیشہ سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے شادی ایک روایتی بندھن بن کے رہ گیا ہے، شادی کا مقصد نسل انسانی کی افزائش کے ساتھ ساتھ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل بھی تھا، جو  باہمی تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہے، بہ حیثیت کاؤنسلر  آپ شادی کو کس زاویے سے دیکھتی ہیں اور اس رشتے کو بامعنی بنانے کے لیے کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
ڈاکٹر کنول کیسر: دیکھیے قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے ھن لباس لّکم وانتم لباس لّھنّ ان کو ایک دوسرے کا لباس بن کر رہنا ہوگا، ان کو شادی کا مقصد  سمجھنا ہوگا، جو شادی کے حوالے سے ہم نے فلموں میں کہانیاں دیکھ لیں، موویز دیکھ لیں، کچھ رومانٹک سا سین دیکھ لیا، پھر ہم نے فرض کر لیا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا، یا ہم نے کوئی افیئر چلا لیا اور یہ سوچ لیا کہ اس میں ہمارے ساتھ فلموں جیسا ہوگا تو یہ حقیقت میں نہیں ہوتا، شادی شدہ زندگی میں give and take ہوتا ہے، کمپرومائزز ہوتے ہیں، صرف ایک طرف سے نہیں دونوں طرف سے ہوتے ہیں، ہزبینڈ بھی کمپرومائز کرتا ہے وائف بھی کرتی ہے اور شادی شدہ زندگی میں ہم اپنی strength کو استعمال کرتے ہیں اور جب ہمیں اپنی کم زوریاں نظر آتی ہیں تو اسے بہتر بناتے ہیں، جب تک ہم اس طرح سے کام نہیں کریں گے  تو شادی شدہ رشتہ نہیں چل سکتا، ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ تمھارا وہاں سے جنازہ ہی نکلنا چاہئے، لڑکا لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ جیسے بھی کرو یہ رشتہِ نبھانا ہے، اب وہ دور ختم ہو چکا ہے، اب سب کچھ اس کے الٹ ہو چکا ہے، اب ماں باپ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے تمھیں چائے پانی بھی نہیں پوچھا، تو چھوڑ کر آ جانا، خواہ طلاق تک کی نوبت آ جائے، یہ دونوں ہی صورت حال انتہا پسندی پہ مبنی ہے، درمیان میں رہنا چاہئے، abuse نہ سہنا چاہئے اور نہ ہی کرنا چاہئے، اچھی شادی شدہ زندگی کی بنیاد تقوی پہ ہوتی ہے، تقوی ہوگا تو معاملات اچھے ہوں گے نہیں تو نہیں ہوں گے۔
علیزے نجف: آپ نے میڈیکل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی شعبے میں بھی کافی کام کیا ہے، یوں دونوں ہی طرح کے patient کی نفسیات کو آپ کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے لوگ نفسیاتی صحت کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کہ جسمانی صحت کو دیتے ہیں، نتیجتا رشتے تباہ ہو رہے ہیں اور لوگ ذہنی آسودگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے اور اس ضمن میں آگاہی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: اصل میں ہمارا ماحول ایسا ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہےکہ اگر آپ کی جسمانی صحت خراب ہے تو کوئی بات نہیں، آپ اس کے لیے اناونس بھی کر سکتے ہیں، بتا بھی سکتے ہیں، ہیلپ بھی لے سکتے ہیں، اس طرح کر کے مسئلے کو حل بھی کر سکتے ہیں، لیکن جب ہمیں نفسیاتی طور پہ کوئی مسئلہ ہو تو اس کو یا تو ایمان کی کمی سمجھا جاتا ہے یا پھر ہم کو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہمارے کم زور ہونے کی نشانی ہے یا ہمارے پاگل ہونے کی نشانی ہے، اس taboo کو بریک کرنا پڑے گا، لوگوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ کاونسلنگ دراصل آپ کی skills کو پالش کرنے کے لیے ہے، واقعی وہ لوگ جب تھیراپی میں جاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتے ہیں، انھیں ایسے ہی رزلٹ ملتے ہیں، ایسے ہی نتائج ملتے ہیں اور پھر وہ خود بھی پشیماں ہوتے ہیں کہ ہم نے کیوں خود کو لمبے عرصے تک اس مشکل و اذیت کے ساتھ رہنے دیا، مجھے تو پہلے ہی یہ قدم اٹھانا چاہئے تھا، یہ بھی ایک سچ ہے کہ ایک عام انسان کو میڈیکل کی جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اس کے لیے وہ کوئی دوائی کھاتے ہیں اور ان کو آرام مل جاتا ہے، لیکن یہ جو نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں نا اس کے لیے آپ کو دوا لینے کے ساتھ ساتھ بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، وہ skills جو ایکسپرٹ یا کوچ بتاتے ہیں، اس پہ آپ کو عمل کرنا پڑتا ہے اور برابر خود کے رویوں پہ نظر رکھنی ہوتی ہے، پھر نتائج برآمد ہوتے ہیں، یہ کام اس انسان کو بہت مشکل لگ رہا ہوتا ہے جو آل ریڈی بہت سارے مسئلوں میں الجھا ہوا ہوتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ مسائل پہ کام کر کے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: الھدی سے وابستگی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کا مذہبی رجحان کیسا ہے، ایک انسان کے لیے آپ مذہب کو اتنا ضروری کیوں خیال کرتی ہیں، مذہب سے بے بہرہ انسان کو مذہب کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میری زندگی میں جو بھی اچھی تبدیلی آئی ہے اور بہتری آئی ہے اور جو بھی آسانی ہوئی ہے، اس میں سے کسی بھی کام کا ایک فی صد بھی کریڈٹ میں نہیں لیتی، یہ سب قرآن کی برکت سے ہے، خواہ وہ میرا پروڈکٹو ہونا ہو، میرے جو کام ہیں جو پروجیکٹس ہیں اور یہ جو کچھ میں کر پا رہی ہوں یہ سب سوچ کی تبدیلی کا ثمر ہے اور مجھ میں یہ تبدیلی قرآن سے آئی ہے، یہ میری استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی صحبت صالحہ کا اثر ہے، اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ آسانی کی کہ اس نے مجھے ان سے ملایا، الھدی کا رکن بنایا، میرا تعلق ایک بہت پروفیشنل فیملی سے تھا، میرا طرز زندگی بہت مختلف تھا، مذہب سے ایک رسمی تعلق تھا، پھر اللہ نے مجھے مذہب اور قرآن سے قریب ہونے کے راستے دکھائے، اس کے لیے میں بہت احسان مند ہوں، میرا رب مجھ پہ بہت مہربان ہے، میں سمجھتی ہوں جب انسان کی زندگی میں واضح مقصد حیات ہو وہ زیادہ پروڈکٹو ہوتا ہے، قرآن ہمیں ہر موقع پہ یہ سکھاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، جب ہمیں یہ بات سمجھ آ جاتی ہے تو ہمیں خود اس پہ کام کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو جانیں کہ ہم کون ہیں اور کس کی تخلیق ہیں، ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، لیکن ہم ایک رٹے رٹائے طریقے سے اپنے اسکول کالج میں اسلامی تعلیم کا نصاب پڑھ لیتے ہیں، ہمیں اس طریقے سے ہٹ کر اسلام کو سمجھنا چاہئے، اسلام کا جو مقصد ہے اسے جاننے کی سعی کرنی چاہئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کا جو مقصد تھا وہ جاننا بھی ہمارا ہدف ہونا چاہئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد انذار و تبشیر، قرآن اور حکمت کی تعلیم، پھر اس کے بعد تزکیے کی باری آتی ہے، تزکیے کے بغیر اگر ہم دین کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں تو ہم کام نہیں کر سکتے، تزکیہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اپنی زندگی کے معاملات میں ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ ہم اپنے آپ کو گروم کر کے چلیں، اس دنیا میں ہم اللہ کی عبادت کے لیے آئے ہیں، دنیا میں جو کچھ بھی معاملات ہوتے ہیں اس میں ہمیں ویسے ہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو، اس طرح جو بھی ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہو جاتی ہے، زندگی میں clarity حاصل ہو جاتی ہے، مجھے کبھی کبھی بہت ترس آتا ہے ان لوگوں پہ، جو قرآن نہیں پڑھ رہے یا قرآن سے الجھ رہے ہیں یا وہ سائنسز اور باقی جو علوم ہیں ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ذرا غور کریے کہ وہ کون سا ایسا ایریا ہے جو اللہ نے قرآن میں کور نہیں کیا ہے، جس میں ہم بہترین طریقے سے اپنی پرفارمینس نہیں دے سکتے، بس یہ سمجھنے کی بات ہے، اللہ توفیق دے ان لوگوں کو کہ وہ اپنے دل کو کھولیں، جو گرہیں لگی ہوئی ہیں ان کو کاٹیں، اپنے دل میں موجود احساسات کو صحیح جگہ پہ لگائیں، قرآن، اسلام و دین کو اس طرح سے سمجھیں جیسے کہ اللہ نے اس کو نازل کیا ہے۔
علیزے نجف: بےشک مذہب انسانی زندگی میں آکسیجن کا کردار ادا کرتا ہے، جو روحانی صحت کی تشکیل کرتا ہے اور روحانیت جس کے بغیر انسان کا وجود مکمل نہیں۔ لوگ مذہب کی پیروی کسی نہ کسی حد تک کر ہی لیتے ہیں لیکن روحانی آسودگی سے محظوظ نہیں ہو پاتے، ایسا شاید اس وجہ سے ہے کہ وہ مذہب کو مقلدانہ نفسیات کے ساتھ اختیار کرتے ہیں، میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان مقلدانہ نفسیات سے باہر کیسے نکل سکتا ہے، دوسرے بچوں کو اس نفسیات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے، اس بارے میں آپ کیا رہنمائی دینا چاہیں گی؟
ڈاکٹر کنول کیسر: اگر ہم قرآن مجید کو جس طرح اللہ نے نازل کیا ہے، اس طرح پڑھیں جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پریکٹس کیا تھا، اس طرح سمجھیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ و صحابیات نے سیکھا، اس طرح سے سیکھیں تو ہمارے لیے آسودگی کو پانا بہت آسان ہو جاتا ہے، یہ کیفیت انسان کے اندر تب پیدا ہوتی ہے جب وہ تمام زاویے سے اس کو نہیں سمجھتا، جو زندگی میں چیلینجز ہیں ان کو بھی understand نہیں کرتا، وسعت نظری کے ساتھ قرآن مجید کو پڑھے بغیر کبھی بھی قرآن کی لذت کو صحیح معنوں میں نہیں پایا جا سکتا۔ غور و فکر کی صورت میں انسان تقلیدی فکر سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں بچوں کی صحت کے حوالے سے نانیاں دادیاں بےشمار ٹوٹکے اپنائے ہوئے ہوتی ہیں، جب گھر کی بیٹی یا بہو پہلی بار ماں بنتی ہے تو انھیں وہی سارے ٹوٹکے اپنانے کی ہدایت کرتی ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ بچے کی صحت کے لیے ان ٹوٹکوں پہ منحصر ہونا کیسا ہے، وقت کی تبدیلی کے ساتھ کیا یہ ضروری نہیں ہو گیا کہ بچے کو باقاعدہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی دوائیں دی جائیں، ایسے میں ان بزرگوں کے ساتھ مفاہمت کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں تجربہ کار لوگ بھی چاہئے ہوتے ہیں اور اہل علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے، دونوں کے درمیان توازن ہونا چاہئے، کئی دفعہ ہمیں علم یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس پہ کیا کام کرنا ہے، کئی دفعہ کچھ لوگوں کے تجربات ہوتے ہیں جو ہماری رہنمائی کرتے ہیں، علم وقت کے ساتھ بدل بھی جاتا ہے اور تجربات کئی دفعہ سالوں سال سے چل رہے ہوتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کا کوئی راستہ ہونا چاہئے یعنی میرے پاس جب مریض آتے ہیں تو کئی دفعہ جو گھر والے ٹوٹکے بتا رہے ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے ٹوٹکے بہت مفید ہوتے ہیں اور کر لینے چاہئیں اور کئی دفعہ کچھ ایسے ٹوٹکے ہوتے ہیں جو بالکل ٹھیک نہیں ہوتے تو اسی لیے تھوڑا سا میڈیکل ایجوکیشن کو بھی دیکھنا چاہئے اور اس کے reason کو بھی دیکھنا چاہئے کہ یہ جو ٹوٹکا بتایا جا رہا ہے اس کے کیا فائدے ہیں اور کیا نقصانات ہیں، اس کے مطابق ہم فیصلہ کر تے ہیں، اب ٹوٹکا یہ ہے کہ بچہ پیدا ہوا ہے تو اس کا سر سیدھا ہونا چاہئے اس کے لیے مختلف تدبیر لگائی جاتی ہیں تو میں اس کے جواب میں یہ کہتی ہوں کہ سر کے اندر جو ہے اس کو سیدھا کر لیں اگر باہر سے ذرا سا سر ٹیڑھا رہ بھی گیا تو کوئی نقصان نہیں لیکن اگر سوچ ٹیڑھی رہ گئی تو زندگی میں بڑا مسئلہ ہوگا، اسی طرح اگر ٹوٹکا یہ دیا جاتا ہے کہ تم اچھی طرح کھاؤ کیوں کہ تم بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو اس میں بالکل کوئی حرج نہیں اس کو اختیار کرنا چاہئے یا نانیاں یہ کہتی ہیں کہ بچے کو نہلاؤ بچے کی مالش کرو اس طرح بچے کو wrape کرو یا پیمپر کے استعمال کے بجائے نیچرل جو چیزیں ہیں وہ اختیار کر کے اس کی طہارت کا خیال رکھو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ بہت سے ٹوٹکے بہت بہترین ہوتے ہیں جو ہمیں سکھائے یا بتائے جاتے ہیں۔
علیزے نجف: پری میریٹل کاونسلنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا ایک لڑکی جس نے اپنی زندگی کے بہت سارے سال ایک خاص قسم کے ماحول میں گذارے ہوتے ہیں، شادی سے کچھ ماہ پہلے چند پری میریٹل کاؤنسلنگ کے سیشنز لینے سے کیا اس کا مائنڈ سیٹ یکسر بدل سکتا ہے یا یہ ضروری ہے کہ ماں باپ ابتدا ہی سے مثبت ماحول فراہم کریں اور بچوں کے لیے خود ایک اچھا رول ماڈل بنیں؟
ڈاکٹر کنول کیسر: ہاں یہ دونوں ہی چیزیں ضروری ہیں یعنی بچپن سے بھی تربیت ہونی چاہئے، ہر بات میں بچوں کو بہت کچھ سکھاتے رہنا چاہئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچی کو ہر وقت ہر بات پہ ایسے جملے سنائے جائیں کہ اگلے گھر جا کے کیا کرو گی، تمھارا کیا بنے گا وغیرہ وغیرہ، اس کے بجائے جو skill based باتیں ہوتی ہیں وہ سکھائی جائیں، دراصل جب ان کی شادی کی عمر ہو جائے تو اس کے مطابق انھیں step forward کرتے ہوئے بہ تدریج سلیقہ سکھایا جائے اور جب بات پکی ہو جائے تو باقی ساری چیزیں بالکل واضح طریقے سے سکھائی جائیں، لرننگ کا جو پراسس ہوتا ہے وہ لحد سے مہد تک چلتے رہنا چاہئے، رکنا نہیں چاہئے۔
علیزے نجف: ایک ٹرم ہے Positivity جو انسان کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن کہتے ہیں نا کہ ہر چیز کا توازن میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، اسی طرح جب positivety اپنے حدود سے باہر ہو جائے تو اسے toxic positivity کہتے ہیں، toxic positivity کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کو کس طرح مینیج کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: آپ پہ طرح طرح کی کیفیات آتی ہیں، کبھی آپ خوشی محسوس کرتے ہیں، کبھی آپ غم محسوس کرتے ہیں، لیکن جب آپ اوور آل اپنے دن کو دیکھیں تو آپ کو اپنی زندگی میں غم کم نظر آئیں خوشیاں زیادہ نظر آئیں، یعنی پازیٹیویٹی زیادہ نظر آئے تو یہ ہی مثبت و معتدل شخصیت ہوتی ہے، توازن یہی ہوتا ہے، توازن میں یہ نہیں ہوتا ہے کہ سب برابر برابر کی چیزیں ہوں، جو انسان ہر وقت یہ کہتا رہے کہ کوئی مسئلہ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ denial میں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز پازیٹیو ہے، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ انسان کے اندر جب صبر ہو، شکر ہو، توکل ہو، تو وہ اس طرح پرامید و پرسکون ہو کر سوچتا ہے، یہ پازیٹیویٹی جو ہے نا وہ ٹاکسک نہیں ہوتی یعنی آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہر کام میں ہر بات میں خیر رکھی ہے، جیسے کہ ایک حدیث ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے، مومن کا معاملہ خیر ہی خیر کا ہے، جب اس کو خوشی کی کوئی بات ملتی ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے، اجر پاتا ہے اور جب اس کی زندگی میں کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے، یہ خیر مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں، مومن کے لیے win. Win والی سچویشن ہوتی ہے، اس کے اندر پھر یہ ٹاکسک پازیٹیویٹی نہیں آتی، اس کو یہ پتا ہے کہ کوئی بھی سچویشن ہو اسے پازیٹیو رہنا ہے۔
علیزے نجف: ایک انسان کے ساتھ کبھی کبھی یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ اس کے خاندان میں کوئی ایک toxic ہوتا ہے جس سے پورے گھر کا ماحول کبیدہ ہو جاتا ہے اور اگر یہ toxicity گھر کے با اختیار انسان میں ہو تو مسائل کافی حد تک سنگین ہو جاتے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے جب کہ آپ چھوٹے ہوں، آپ انھیں نفسیاتی ٹریٹمنٹ لینے کا بھی نہیں کہہ سکتے ہو؟
ڈاکٹر کنول کیسر: اس سلسلے میں باؤنڈری سیٹنگ سیکھنی چاہئے، healthy boundary setting کیا ہوتی ہے؟ وہ اس طرح ہوتی ہے کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوتا ہے کہ ہمیں کس بات کو انٹرنلائز کرنا ہے اور کس بات کو ہم نے اپنی حد تک ہی رکھنا ہے، کہاں پہ لائن ڈرا کرنی ہے، بہت ساری سچویشن ہوتی ہیں، جس کو ہم مس ہینڈل کر رہے ہوتے ہیں، تو ایک ٹاکسک انسان آگے بڑھ جاتا ہے، اگر ساری فیملی ایک پیج پہ ہو تو اس انسان کو ٹریٹمنٹ پہ بھی لے جایا جا سکتا ہے اور فیملی کاؤنسلنگ کی طرف بڑھا جا سکتا ہے، میرے پاس کچھ ایسے کیسز آتے ہیں، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ہماری فیملی کا فلاں انسان ٹاکسک ہے، وہ ہمیں بلیم کرتا رہتا ہے، تو میں کہتی ہوں کہ کیا وہ کاؤنسلنگ میں آنے کو تیار ہو جائے گا، تو وہ کہتے ہیں ہاں اگر اسے یہ پتہ چلے کہ یہ کاؤنسلنگ اس کے لیے نہیں بلکہ باقی افراد کے لیے ہے، میں یہ کہتی ہوں کہ یہی سوچ کر لے آئیں اس کو۔ اس  سے کہیں کہ ہمیں ہی ضرورت ہے آپ چل کر ہمارے ساتھ ہمیں ہیلپ کریں، پھر یہ ہوتا ہے کہ باقاعدہ therapies کے بعد وہ اپنے مسئلے مسائل آپس میں حل کر لیتے ہیں۔
علیزے نجف: اگر آپ کو اپنی مجموعی شخصیت کو کوئی ایک نام دینا پڑے تو آپ کیا نام دیں گی؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میں تو ایک ہی نام دوں گی اللہ کی بندی، انسان کو اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھنا چاہئے جیسا کہ اللہ نے بنایا ہے، انسان کمی و کوتاہی والا ہوتا ہے، جو خیر آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے آتی ہے اور مشکل آتی ہے وہ انسان کی اپنی کمائی ہوتی ہے۔
علیزے نجف: یوں تو ہر کوئی دوسروں کے ساتھ رشتے نبھانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کرتا ہے، لیکن خود کے ساتھ ایک تعلق بنانے کی اہمیت سے غافل ہوتا ہے، خود کے ساتھ ایک بہتر تعلق کیسے بنایا جا سکتا ہے اور ڈاکٹر کنول کیسر کا خود کے ساتھ کیسا رشتہ ہے؟
ڈاکٹر کنول کیسر: الحمدللہ میرا اپنے ساتھ بہت اچھا رشتہِ ہے، میں اپنا بہت خیال رکھتی ہوں، میری سیلف ٹاک بہت اچھی ہے، میں اپنے آپ کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہوں، میں اپنے آپ کو ٹوک بھی دیتی ہوں، میں اپنے آپ پہ تنقید بھی کرتی ہوں، میں اپنی ضروریات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، اپنے آپ کو سہارا بھی دیتی ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ جتنی کلیئرٹی انسان اپنے اندر رکھتا ہے اس سے اس کی زندگی اتنی ہی آسان ہو جاتی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ میں فطرتا پازیٹیو انسان ہوں اور سوشل بھی ہوں، تو جب انسان پازیٹیو ہوتا ہے تو اس کے اندر صحت مند عادتیں پروان چڑھتی ہیں، اور الحمدللہ والدین کی طرف سے بہت سے معاملات میں سپورٹ ملی، انھوں نے خیال رکھا، اس لیے جو بھی کام سیکھے وہ اچھی طرح سے سیکھے، اس لیے میرے realistic parameters پہ اپنے آپ کو دیکھتی ہوں، اگر غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں تو اپنے آپ کو معاف کر دیتی ہوں اور پھر سیکھتی ہوں کہ اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے، کبھی کسی غلطی پہ شرمندگی ہوتی ہے تو اللہ کے سامنے جھکتی ہوں تو رو کر دعائیں مانگتی ہوں تو بس الحمدللہ اللہ پردہ رکھتا ہے، اللہ آسانیاں بھی فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ رہ نمائی بھی کرتا ہے تو انسان کو بھلا اور کیا چاہیے۔
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعے آپ نئی نسل کو بہ حیثیت ایک انسان  کیا پیغام دینا چاہیں گی اور آپ ان کو تبدیلیوں اور اصولوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لیے کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
ڈاکٹر کنول کیسر: میں ایک ہی پیغام دینا چاہوں گی کہ اپنے آپ کو قرآن کے ساتھ نتھی کر لیں، جوڑ لیں، آپ کی زندگی میں جو scanner ہونا چاہئے وہ قرآن مجید ہونا چاہئے، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہونی چاہئے اور اپنے آپ کو دنیاوی جو نفع بخش علوم ہیں، اس میں بھی high achiever بنائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ مسلمان کیسا ہوتا ہے، ہم نے خود اپنے آپ کو پیچھے رکھا، اس کی وجہ سے لوگوں نے ازخود سوچ لیا کہ مسلمان اچھا نہیں ہوتا تو ہمیں اس تصویر کو ٹھیک کرنا ہے اس کو بدلنا ہے اور لوگوں کو جہاں جہاں مشکلات ہیں اس میں ان کی رہ نمائی بھی کرنی ہے۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں: جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں ہمیں بالکل ویسا نہیں بن جانا چاہیے: ڈاکٹر طیبہ قدوائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے