نوراں

نوراں

ارم رحمٰن ایڈووکیٹ
لاہور، پاکستان

سردیوں کا آغاز ہوا چاہتا تھا اور اللہ داد کا عشق بھی انگڑائی لے کر جاگنے لگا تھا، اسے نوراں کی یاد ستانے لگی، اس کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کے باوجود اس کی غیر موجودگی اسے خالی پن کا احساس دلانے لگی. نوراں کیا تھی، بس آٹے کا ڈھیر، چہرے مہرے میں نمک نام کو نہ تھا، اونچی لمبی تڑنگی چوڑا چکلا جثہ، اور وزن بھی دومن سے شاید ہی کچھ کم، اللہ داد کے ٹکر کی، ماں نے اللہ داد کو اپنی قسم دے کر عجیب مصیبت میں ڈال دیا تھا، اپنی منہ بولی بہن کے مرتے وقت کے الفاظ اپنی گرہ سے باندھ لیے اور چالیسواں کا ختم دلا کر اگلے دن ہی اللہ داد کا نوراں سے نکاح پڑھوا دیا، حد ہوگئی ایسی بھی کیا وصیت پر عمل کرنا، کون سا خالہ نے مڑ کر آنا تھا اور پوچھنا تھا، چلو سگی خالہ ہوتی یا دور پار کی بھی تو بات سمجھ میں آتی، یہ تو منہ بولی تھی، نہ لینا نہ دینا، بہرحال اس کی وصیت پر عمل کرنے نے اللہ داد کی من موجی زندگی کو گھن چکر بنا ڈالا، حالانکہ دونوں بڑے بھائیوں سے ان کی پسند پوچھی گئی تھی اور تو اور دونوں بہنوں تک سے ڈھکے چھپے انداز میں عندیہ لیا گیا لیکن اللہ داد جو سب سے گبرو جوان تھا، اس سے پوچھنا تک گوارا نہ کیا، شاید وہ ماں تھی، اس لیے سمجھ گئی کہ اللہ داد اپنی مرضی ہی کرے گا، اس سے پہلے کچھ کرے، اسے کھونٹے سے باندھ دینا ضروری ہے لیکن یہ سچ تھا، واقعی اللہ داد پر ساتھ والے گاؤں کی سانولی سلونی نمکین گدرائے بدن والی سکینہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا. 
لیکن چھ فٹ قد اور مونچھوں کو تیل پلا کر کونوں پر سے موڑنے والا کیسے ایک لڑکی سے ہار مان لیتا بس اکڑ تھی کہ اوٹ سے دیکھتا اور دل ہی دل میں واری صدقے جاتا، دیکھتی تو وہ بھی تھی، لیکن سب لڑکیاں ہی اللہ داد کو دیکھتی تھیں اپنے گاؤں کی یا کہیں اور کی، اور اسے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی مل سکتی تھی، مگر اماں کو پسند آئی تو بس نوراں، لڑکیاں تو بڑی مرتی تھیں، گاؤں کی کئی لڑکیاں کھانے پکا پکا کر بہانے بہانے سے اس کی ماں کی نظروں میں آنے کی کوشش کرتی تو رہیں اور ماں دعاؤں کے ساتھ خالی برتن دے کر چپ ہوجایا کرتی تھی. 
شاید وہ سکینہ سے کبھی کچھ اظہار کرتا تو سکینہ بھی مان جاتی مگر ابھی لک چھپ جاری تھی کہ نوراں گلے پڑ گئی، شروع میں شدید کوفت ہوئی کہ رشتہ نہ کرو ماں، لیکن کیا وجہ تھی کہ نہ کرے ماں، ایک دو بار سوچا کہ سکینہ کے بارے میں ماں کو بتا دے مگر کیا بتاتا، کبھی سلام دعا تک نہیں ہوئی، اس کے باپ بھائی کو کر لیتا لیکن گھر کی عورتوں کی دفعہ نظریں جھکا لیتا، عزت تو ادھر بھی اور ادھر بھی، لیکن کیا، بس ایک بار چپکے چپکے رویا پھر مان گیا، کیونکہ اللہ داد چاہے جانے کا متمنی تھا، جب لڑکیاں اس کے گھر اس کے چکر میں آتیں تو اس کی انا کو تسکین ملا کرتی اور وہ چاہتا تھا کہ سکینہ بھی اس پر مرے، پہل کرے، مگر شاید سکینہ بھی اللہ داد سے کم ناک والی نہیں تھی یا شاید وہ سمجھی ہی نہیں تھی اللہ داد کی چاہت کو، لیکن جو ہوا سو ہوا منہ بولی خالہ کے چالیسویں تک اسے سنبھلنے کا موقع مل ہی گیا اور شادی کی رات بوجھل دل سے کمرے میں داخل ہوا تو نوراں ٹیوب لائٹ کی طرح روشن تھی اور اس کا وجود پورے ہستر پر پھیلا پڑا تھا. جوانی کا بے لگام گھوڑا جسے بدکنے میں دیر نہیں لگتی ایک منہ زور دریا کی طرح شور مچاتا، حدیں پھلانگتا، سہاگ رات میں کیسے تھمتا، نوراں کو یوں سجے دھجے دیکھ کر ویسے بھی اسے سکون ملا کہ اس نے سکینہ کے ساتھ کون سی جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں؟ کون سے وعدے وعید کیے تھے؟
ٹھیک ہے مقدر کا لکھا ہی ملتا ہے، وہ چند لمحوں میں ہی پگھلتا گیا اور دل سے نوراں کا ہو گیا. 
چھ ماہ میں نوراں کا عادی ہوگیا، بولتا کم تھا اور اسے تکتا زیادہ. وہ جب کام میں لگی ہوتی اللہ داد اسے دیکھتا رہتا کہ کسی زاویے سے تو پرکشش لگے، کبھی کھلکھلا کر ہنس دیتی تو چوڑا سا دہانہ کھل جاتا،
بڑے بڑے دانت باہر کو نکل پڑتے، چوڑی عام سائز کی کلائی میں آتی نہیں تھی، جھانجروں والے پیروں سے زمین پر چلتی تو گائے اور اس کے قدموں کی آواز میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا کہ گائے کے گلے کی گھنٹی بولی یا نوراں کی موئی پائل، پھر بھی نوراں جیسی بھی تھی، اللہ داد کے لیے رات کا خوشگوار تحفہ تو تھی. ستمبر میں شادی ہوئی تو مارچ تک موسم بہت خوش گوار گزرا، حالانکہ کئی بار ماں کے پوچھنے پر طبعیت مکدر ہوئی کہ "کچھ ہے کیا"؟
نوراں خود میں شرما کر سمٹ جاتی اور اللہ داد کا منہ بن جاتا، کیا ہے ماں کو ہر وقت ایک ہی سوال ایک ہی فکر، در حقیقت نوراں اس کی ضروت تھی، شاید اسی لیے وہ اسے برداشت بھی کر گیا، مرد کو اور کیا چاہیے گھرداری اور مرد کی ذمہ داری، دن جیسا بھی گزرے رات تو سکون کی ہونی چاہیے اور یہ سکون نوراں اسے باقاعدگی سے دے رہی تھی، اولاد تو بس ایک خواہش ہے. فطرتاً نئی نسل کی افزائش ہے ورنہ بانجھ عورت بھی مرد کو سکون دے سکتی ہے. 
پھر ماں کی دعائیں، دم درود تعویذ تک بنوا کر لے آئی اولاد کے لیے اور سارے حربے آزما کر ماں کی سنی گئی. 
نوراں کا حمل کیا ٹھہرا کہ ہر وقت چکر متلی اور الٹیوں کے لیے پھیرے، کبھی سر درد کبھی پیٹ درد، اور نوراں کی حالت ایسی ہوگئی کہ منہ تک سے بو آنے لگی، پیر بھاری ہوا اور اللہ داد کی بد دلی کا آغاز، ایک کام کی نہ رہی، اور جس کے ذریعے وہ اللہ داد کے ساتھ تھی وہ کرنے کی حالت نہ رہی تو اللہ داد نے اس کو بلانا تو کیا دیکھنا چھوڑ دیا، زیادہ تر گھر سے باہر رہتا، کھیتوں میں کام کرتا اور کبھی کبھی ساتھ والے سکینہ کے کھیتوں پر جا پہنچتا، باپ بھائی ہوتے اور کبھی کبھی سکینہ بھی،
وہی ادائے دلبرانہ وہی شان بے نیازی
اللہ داد کا دل پھر سے غوطے کھانے لگتا، تو اسے نوراں سے شادی کا فیصلہ غلط محسوس ہونے لگتا. 
لیکن اس کی خاموشی اس کی عزت بنائے رکھتی تھی،
ایک تو گرمیوں کا موسم پھر نوراں کی یہ علالت اسے چڑاچڑا بنا رہی تھی، اس کو اپنے بھائیوں کی بیویوں اور بہنوں کا کبھی کچھ سنا ہی نہیں تھا یا شاید کسی نے اس طرح کے حالات کا علم نہیں ہونے دیا تھا. اب وہ ذہن پر زور ڈال رہا تھا کہ کیا سب عورتوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے؟ دیکھنے میں تو کیسی موٹا سانڈ اور برداشت رتی بھر نہیں، لگتی تو چٹان جیسی ہے اور اندر سے چوہا، اللہ داد ہر وقت اول فول سوچتا رہتا، وہ سمجھتا تھا کہ سب ڈھونگ ہے، یہ ناٹک کرتی ہے نخرے اٹھوانے کے لیے، شوہر کی پروا نہیں کہ کس حال میں ہے، ضرورت ہے تو پوچھ لو، مگر نہیں جب دیکھو چارپائی توڑتی رہتی. 
آخر سب احتیاطوں اور اللہ داد سے بے رخی کے باوجود دوسرے ماہ ہی بچہ ضائع ہوگیا اور پھسوڑی پڑگئی کہ اب ایک ماہ آرام کرنا ہے لازمی. 
اللہ اللہ کرکے، نوراں پھر اپنے کمرے میں پہنچی تو اللہ داد کو سکون ملا، دو تین ماہ کی مستقل دوا دارو سے بھلی چنگی ہوگئی، اللہ داد کا رویہ بھی پہلے جیسا ہوگیا اور جب وہ ایک بار پھر سے حاملہ ہوئی، تو پہلی الٹی پر اللہ داد اس پر برس پڑا کہ "کیا مصیبت ہے بچہ پیدا نہ کرو جب ہر بار یہ ہی تماشہ لگانا ہے."
لیکن لہجہ دھیما اور آواز ہلکی رکھی کہ باہر آواز نہ جائے لیکن غصے سے باہر نکل گیا، اب کے تو اس نے اماں سے کہہ دیا کہ
” اسے دوا دو روز روز کا یہ گند نہیں دیکھا جاتا"
"لیکن اس حالت میں کون دوا دیتا ہے"
ماں نے پیار سے پکارا. 
لیکن اللہ داد منہ پھیر کر چلتا بنا اور نوراں سے سختی سے کہہ دیا کہ "اس کمرے میں رہو گی میرے ساتھ، نخرے مت دکھانا ورنہ…."
نوراں تھوڑا ڈر گئی ایک تو عجیب سی کیفیت، پھر چکر اور قے کے مسئلے، پھر بھی اس نے اللہ داد سے تعاون کیا جب حالت سنبھلتی تو اللہ داد اپنا مقصد پورا کر جاتا،
اب قسمت دیکھیے کیا بے احتیاطی ہوئی کہ ایک ماہ ختم ہونے سے پہلے ہی بچہ پھر ضائع، سب کی دوڑیں لگ گئیں، بھاگنا پڑا ڈسپنسری، چیخیں مار مار کر نوراں نے گھر سر پر اٹھا لیا تھا، ڈسپنسری میں وہ دن ڈاکٹر کے آنے کا تھا، شکر اس نے سب سنبھال لیا اور نوراں کی خاموشی تو اچھی تھی لیکن اس کے اندر پلنے والی روح سانس لینے سے پہلے خاموش ہوگئی، یہ دکھ کی بات تھی. 
اب کے باپ اور بھائی نے بھی اللہ داد کا کندھا تھپتھپایا، لیکن اللہ داد مطمئن تھا کہ اس کا داؤ تو لگتا ہی رہا تھا، ڈاکٹر نے نوراں کی حالت غیر ہوتی دیکھ، اچھی طرح چیک اپ کرکے فیصلہ کیا کہ اسے ایک ماہ بہت اچھی خوراک اور مکمل آرام دیا جائے، بلاوجہ اٹھنے اور چلنے پھرنے کو بھی پابندی لگا دی، یہ سب سننے کے بعد اللہ داد تلملا کر رہ گیا کہ اکتوبر ختم ہو گیا ہے اب پورا نومبر یہ مجھے کوئی سکھ نہ دے گی. جب کہ ایسا خنک موسم تو اللہ داد کا پسندیدہ تھا، محبت اور چاہت کا عجیب سا احساس جاگنے لگتا تھا. 
سردی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے ساتھی کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگتی تھی، بچے کے ساتھ چلو یہ موسم بھی ضائع، اللہ داد منہ لٹکائے گھر پہنچا جب کہ باقی سب گھروالے نارمل تھے، سب سمجھے کہ اللہ داد کو دوسری بار بھی اولاد کی خوشخبری پوری طرح نہیں ملی اس لیے اتنا اکھڑا اکھڑا پھر رہا ہے. 
بات آئی گئی ہوگئی، ہفتے بعد جب گھر میں ماں نہیں تھی شاید کھیتوں یا پڑوس میں گئی ہوگی، اللہ داد جھٹ نوراں کے قریب جا پہنچا، اس سے پہلے کہ وہ جھپٹتا، نوراں نے اسے سختی سے منع کردیا کہ "ڈاکٹر نے منع کیا ہے ویسے بھی میری کمر میں درد ہے."
"تڑاخ" ایک زور دار تھپڑ نوراں کے گال پر رسید کیا، ایک تو تھپڑکی آواز اونچی دوسرا گندی گالی دی، وہیں تھوکا اور غصے میں بڑبڑاتا باہر نکل گیا. 
نوراں بے چاری سہہ تو گئی مگر سہم گئی، ماں سے ذکر تک نہ کیا، گال پر ہاتھ رکھ کر اسی کروٹ لیٹ گئی تاکہ جب تک اللہ داد کی انگلیوں کے نشان اس کے چہرے پر ہیں کسی کی نظر نہ پڑے، اللہ کی کرنی اسی رات ابا کو کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا شہر لے کے جانا پڑا، پھیپھڑوں میں تکلیف تھی، پندرہ بیس دن ہسپتال میں باپ کے ساتھ رہا، وہاں ایک دو رشتے دار بھی تھے، انھوں نے بھی خوب خیال رکھا، انھوں نے
اللہ داد سے کہا جاؤ گاؤں چکر لگا آؤ ہم ہیں مگر اللہ داد نے سعادت مندی کی انتہا کردی کہ
"ابا کوصحیح سلامت گھر لے کر ہی جاؤں گا"
حالانکہ دل ہی دل میں تپ رہا تھا کہ جا کر کروں گا کیا؟
وہ مہارانی تو آرام فرما رہی ہے، پھر دکھ کے دن ختم ہوئے، اللہ داد کی بھی داد رسی ہوئی، گھر پہنچ کر نوراں کو کمرے میں پایا، ابا کی کھانسی کا شور بھی ختم ہوا، پھر وہی سر مستی کے دن شروع دسمبر اور جنوری کی شدید ٹھنڈ اور کسی کے لمس کی حدت کا ساتھ، اللہ داد کا دل جھوم اٹھا، اس کی پسند کا ساتھی تو ساتھ نہیں تھا مگر موسم اور جوش نے سب دلدر دور کردیے، تین ماہ کا ساتھ خوش گوار رہا، نوراں بھی تھپڑ کا غم بھول چکی تھی، اللہ داد کے لیے بننے سنورنے، سجنے دھجنے لگی، اس کی کسی بات یا ادا پر مسکراتی یا شرماتی، تو اللہ داد کو لگتا کہ مجھ جیسے مرد سے کوئی بھی عورت بھلا ناراض کیسے رہ سکتی ہے؟ مجھ میں وہ سب خوبیاں ہیں کہ کوئی بھی عورت میرے پہلو میں آنے کی تمنا کرسکتی ہے!
یہ خمار اور خودپسندی کا بخار چڑھے تین ماہ ہوئے ہوں گے کہ پھر سے مژدہ سنا گیا کہ اب کی بار تو نوراں زمین پر پیر تب اتارے گی جب ماں بنے گی، دونوں بھائیوں کی بیویاں بھی اپنے گھر سے آکر ایک ایک وقت کھانا پکانے لگیں، دونوں بہنیں بھی ہفتے میں ایک ایک دن آکر رہتیں کہ ماں کی کام کاج میں مدد ہو جائے. 
ادھر نوراں کا الٹیاں کر کر برا حال ادھر کوئی پھل کھایا تو الٹ ڈالا، دودھ دہی دیکھ کر ہی ابکائی آجاتی، انڈہ اور گوشت تو دیکھنا تک گوارا نہیں تھا، بڑی آفت تھی،
سارے گھر میں میلے کا سماں تھا، ہر بندہ ڈاکٹر حکیم بن گیا، یہ کھا لو، یہ اچھا ہے، اس سے الٹی نہیں آئے گی، دل خراب ہو تو لیموں چاٹ لو اور کچھ نہیں تو اچار پھانک لو، جتنے لوگ اتنے علاج، کسی نہ کسی طرح سے اس کی کچھ نہ کچھ کھلائی پلائی ہوتی ہی رہی. 
الٹی، قے دست ،اللہ داد کا ساری صورت حال دیکھ کر دل ہی اوب گیا، گرمیوں کا موسم شروع ہونے لگا، مئی تک تو زمین کا ہی نہیں اللہ داد کا پارا بھی کافی چڑھ گیا، بڑے بھائی سے کہہ کر شہر میں جتنے بھی کام ہوتے تھے اپنے ذمے لیے، کھاد، سپرے، نئے بیج اور نجانے جو بھی کھیت کھلیان کے لیے مفید تھا سب ذمہ لے لیا، 
دس بارہ دن بعد آتا تو اور کام پوچھ کر چلا جاتا، ایک بار ابا کا چیک اپ کروانے زبردستی لے گیا، دو ماہ کیسے گزارے بس وہی جانتا تھا، نوراں کا تو نام سننا گوارا نہیں تھا اور پھر جب تیسرا ماہ لگا ماں نے منت مانی کی کہ اللہ یہ مہینہ خیریت سے گزرجائے تو مسجد کے پنکھے ٹھیک کروا دے گی. 
تھی تو اللہ داد کی ماں مگر بہت عقل مند، مسجد میں پنکھے ہی دو تھے اور وہ بھی ٹھیک چل رہے تھے، جون کا مہینہ شروع، ٹپ ٹپ پسینے کی دھاریں اور گرمی سے برا حال، گلا خشک، نوراں کا خیال آیا تو اس کو دیکھنے چلا گیا، وہ بھی پسینے میں تر بتر تھی، قریب پہنچا تو عجیب سی ہمک اس کے وجود سے آئی، اللہ داد کا دل اور کھٹا ہوگیا، پتہ نہیں کس مٹی کا بنا تھا، دل تھا کہ پتھر موم ہوکر نہ دیتا تھا. 
اس کی بیوی اس کا بچہ جننے چلی تھی ذرا سا پیار کوئی میٹھا بول کوئی رو رعایت، مگر کہاں جی نواب صاحب کو تو غلام کنیز چاہیے تھے، ابرو کی جنبش اور کنیز حاضر، موسم گرم ہو تو جذبات ٹھنڈے کرے، موسم ٹھنڈا ہو تو بستر گرم کرے. 
کہاں کی محبت ؟
کہاں کی چاہت؟
بس ایک ضرورت تو پوری ہوجاتی تو سب بھلا،  ورنہ تو دیکھتی رہ میں چلا،  اللہ داد کی بے حسی دیدنی تھی، 
شاید اس کی بے اعتنائی رب کو پسند نہیں آئی، نوراں کی کوکھ پھر خالی ہوگئی. 
اب تو ماں کا بھی رورو کر برا حال، سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی اتنی چاہت سے کی اور وہ دو سال میں بھی بے اولاد. کہنے کو تو تیسرا حمل ضائع ہوا مگر شادی کو تو دو سال بھی پوری طرح پورے نہ ہوئے تھے، ایسی کیا جلدی تھی کہ صف ماتم بچھ گئی. 
اب کی بار تو ڈاکٹر سے ہر ہفتے چیک اپ بھی کروایا تھا مگر جانے کیا نقص تھا کہ ہر بار کوکھ بسنے سے پہلے اجڑ جاتی، لیڈی ڈاکٹر نے شہر جانے کا مشورہ دیا کہ شہر کے بڑے ہسپتال جاکر اچھی طرح چیک اپ کرواؤ،
ڈاکٹر نے سب ٹیسٹ کروائے دوائیں دیں اور کہا کہ اب چھ ماہ تک بالکل حاملہ نہ ہو نے پائے، مکمل تین ماہ آرام کرے، دوا کھائے، پھر چیک اپ کروانے آئے، پندرہ بیس دن اللہ داد چپ رہا پھر اچانک موقع ملا تو بیوی پر چڑھ دوڑا، نوراں نے مزاحمت کی تو وہیں مٹی کے چولہے کے پاس پڑی بالن کی لکڑی سے نوراں کو پیٹنا شروع کر دیا، تین چار ڈنڈے تو وہ خاموشی سے برداشت کر گئی مگر جب اللہ داد کا ہاتھ نہیں رکا تو پھر نوراں نے وہی لکڑی زور سے کھینچی اور رکھ کر اللہ داد کی دھنائی کر ڈالی، اتنی طاقت اور زور کہاں سے آگیا، ابھی کچھ دن پہلے تو ناک پکڑو تو دم نکلتا تھا، اور اب ایسے وار کیے کہ اللہ داد کو گھر سے باہر بھاگنا پڑ گیا، قسمت اچھی تھی دونوں کا بھرم رہ گیا، اس دھینگا مشتی کا گواہ صرف اللہ تھا اور اللہ کو ابھی پردہ رکھنا تھا، شام تک سب گھر آگئے تو اللہ داد نے کہا اماں نوراں کو اس کے بھائی کے گھر بھیج دے، آرام کے لیے ویسے بھی شادی کے بعد ایک بار بھی رہنے نہیں گئی، اس کے پس منظر سے اللہ داد واقف تھا یا نوراں اور سب کو پھر یہ ہی لگا کہ نوراں کی دل جوئی کے لیے اللہ داد نے دل پر پتھر رکھ اس سے کچھ عرصے جدا ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور پھر دو دن میں ہی نوراں کا بڑا بھائی اسے لینے آن پہنچا اور طے ہوا کہ تین ماہ تک آرام کروانا لازمی ہے. 
یہ نہ ہو کہ وہاں جا کر بھاوج کام میں لگا دے، سادہ مزاج مخلص سا بھائی تھا بولا  "بے فکر رہیں جی، بس یہ روٹی توڑے گی یا چارپائی" دیکھیے کیسے صحت مند کرکے بھیجتا ہوں، دو بھینسیں اور لی ہیں مکھن میں تول دوں گا بہن رانی کو" فرط جذبات میں بولتا گیا کیونکہ دو سالوں میں وہ اور دوسرے دو بھائی بس ایک ایک بار آئے تھے، پہلی میٹھی عید پر پھر بڑی عید پر، جو تحفے تحائف تھے پورے سال میں دینے تھے ایک دو بار میں دے کر فارغ اور اب بہن کو گھر لے جاکر خاطر داری کرنے کے لیے بھی دل وجان سے راضی تھے، 
برضا و رغبت نوراں ساتھ چلی گئی، سب نسخے رپورٹیں اور دوائیں لے کر تاکہ کوئی مشکل ہو تو فوراً ڈاکٹر کو دکھا سکیں کیونکہ ان کا خیال تھا ان کے گاؤں میں جو ڈاکٹرنی تھی بہت قابل تھی، اس کی موجودگی میں اب تک کوئی زچہ، بچہ نہیں مرے. 
اللہ داد نے بہت ٹھنڈے انداز سے بیوی اور سالے کو وداع کیا، پھر کچھ دن بعد گاؤں کے آخری کنارے پر چنبیلی کے گھر میں ڈیرے ڈال دیے، سورج ڈھلتے ہی اس کے گھر پہنچ جاتا اور تڑکے ہی تڑکے اپنے گھر، چنبیلی وہی عورت تھی جو عورت کے ڈسے مردوں کا زہر چوسا کرتی، ان کو ان کی مرضی کے مطابق راحت اور سکون دیا کرتی تھی، مرد کوئی بھی ہو چنبیلی کے پاس وہی آتا جو اس کی اصلیت اور حقیقت جانتا ہوتا، چنبیلی اپنانے کی نہیں دل بہلانے کے لیے بہت اچھی تھی، بھانت بھانت کی خبریں لاتی اور وہ باتیں جو بہت خاص لوگوں کو ہی پتہ ہوتیں اور پھر باتوں ہی باتوں میں ایک دم پتہ لگا کہ سکینہ کی شادی تو چار ماہ پہلے ہی ہوگئی تھی. 
اب جب وہ حاملہ ہوئی تو اس کی طبعیت اتنی خراب ہے کہ نوالہ منہ میں رکھنا مشکل، پانی تک پیٹ میں نہیں رکتا، فوراً سے قے کر ڈالتی ہے، شوہر نے باپ بھائی کو بلا کر گھر بھیج دیا کہ "سنبھالو بیمار بیٹی ٹھیک ہو جائے تو واپس چھوڑ جانا"
پتہ نہیں سکینہ کے نام کا اثر تھا یا چنبیلی کے سنانے کا انداز، اللہ داد تو بپھر گیا اور ایک دم ہتھے سے اکھڑ گیا،
سکینہ کے شوہر کو ماں بہن کی گالی دی پھر چیخا
"حرام کا جنا، مزے لوٹتا رہا اور جب بیوی بیمار ہوئی تو اوب گیا، حرام زادہ سامنے آئے تو گلا کاٹ ڈالوں،
نامرد کہیں کا، مرد ایسے ہوتے ہیں بیوی کو رکھنا نہیں آیا سالے کو، جاتا ہوگا کسی گشتی کنجری کے پاس، منہ کو حرام لگا ہوگا جو عزت راس نہیں آئی، اتنی اچھی بیوی کے تو بندہ پیر دھو دھو پیے، بے غیرت، مرے کہیں منہ کالا کرکے، سور کی اولاد"
اللہ داد غصے میں لال بھبھوکا ہوا، جو منہ میں آیا بولتا جارہا تھا، منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اور چنبیلی ہکا بکا اس کا منہ تکے جارہی تھی اس سے پہلے کہ کچھ بولتی
اللہ داد پیر پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا.
***
ارم رحمٰن کی گذشتہ نگارش:تفریح کی ایک دوپہر: تاثرات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے