حنوط

حنوط

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

بارش کے بعد مٹی سے نکلتی سوندھی سوندھی خوشبو مجھے بہت پسند تھی، سردیوں کے موسم میں دھند نتھنوں میں گھس کر سکون دیتی تھی. اسی طرح میں مختلف اگر بتیوں، لوبان، عنبر عود وغیرہ، دیگر مختلف عطر کی خوشبویات کی مداح تھی. 
دراصل میں قوت شامہ سے بہت کام لیتی تھی، راستے بھی خوشبو یا کسی خاص بو کے حوالے سے مجھے یاد رہتے تھے، اکثر دوپہر کو ظہر کی نماز کے بعد میں اپنے گھر سے کچھ فاصلے پہ سوہے بازار جسے صرافہ بازار کہا جاتا تھا، یعنی جہاں سونے کا کاروبار ہوتا ہو، وہاں لمبے راستے سے جانا پسند کیا کرتی تھی، دل چسپ بات وہاں اب سونے کے علاوہ اور سارے کاروبار ہونے لگے تھے. اس راستے پہ آپ کو آپ کی ضرورت کی ساری اشیا مل جائیں گی سونے کے علاوہ، آپ کی بائیک خراب ہوگئی تو اتریے، ورکشاپ میں دیجیے، ساتھ ہی گوشت کی دکان ہے. اس کے دوسری طرف پھلوں کی ریڑھی، آگے چل کر سبزی کی دکان، چند قدم ہی چلیں گے تو قلفے اور فالودے والا آپ کو اور آپ فالودے کو للچائی نظروں سے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر سکتے ہیں، جب تک آپ کی بائیک ٹھیک ہوگی تو آپ سڑک کے نکڑ پہ میٹھا پان کھا کر نقلی کوکاکولا جس کو پینے کے بعد نکلنے والی ڈکار یہ ثابت کر دے گی کہ آپ لکڑ ہضم پتھر ہضم انسان ہیں، اگر چاہیں تو ضرورت کے مطابق پھل سبزی گوشت بھی خرید سکتے ہیں اور اگر آپ کی بائیک خراب نہ بھی ہوئی ہو تو سیلون اور بیوٹی پارلر کی دکانوں پہ لگی تصویریں آپ کی نیت ضرور خراب کر سکتی ہیں، ابھی سڑک ختم نہیں ہوگی کہ مچھلی والا ایک خاص انداز میں مچھلی رکھے بیٹھا دکھائی دے گا، ایک بڑے سے کڑاہے میں تازہ تازہ تلتی گرما گرم مچھلی اس جگہ کی خوشبو یا مہک خاص ہی ہوگی، اگر تلنے کاوقت نہ ہوا ہو تو کچی مچھلی کی بو سے بچتے بچاتے آپ پہنچیں گے سیدھا حاذق طبیب کے شفا خانے پر، جہاں ہر طرح کی رنگ برنگی بوتلیں جن میں کوئی رنگین مائع یا جڑی بوٹیوں کا سفوف رکھا ہوگا، ایک بار دکان کے پاس کھڑے ہوجائیں تو آپ کو کھانسی کے شربت اور جوشاندے کی ملی جلی خوشبو محسوس ہوگی. مزید چلیے تو دانتوں کا کلینک ملے گا جس کے ایک پورشن کے باہر گائناکالوجسٹ کا بڑا سا بورڈ بھی واضح نظر آئے گا. کچھ دیر اور دور چلیں گے تو آپ کو جوتا گھانٹنے والا فٹ پاتھ پر مختصر سا سازوسامان رکھے کپڑا بچھائے نظر آئے گا. آگے چکی ملے گی آٹے کی اور اس کے پاس گزرتے گرم گرم آٹے کی بھینی بھینی خوشبو ضرور بھلی لگے گی، جیسے بسکٹ فیکٹری سے بھی خوشبو آتی ہے، ساتھ اسٹیشنری کی دکان، بالکل ساتھ کپڑے پیکو اور لیسوں کی دکان آپ کی منتظر ہوگی. 
اب آئے گی مسحور کن خوشبو کہ کچھ لمحے آپ کا دل چاہے گا وہاں رک کر خوشبو کو محسوس کیا جائے، ایک گھنے برگد کے درخت کے نیچے مستطیل چبوترے پہ سبز چادر ڈال کر جس پر چاروں قل لکھے ہوتے ہیں، بچھی نظر آئے گی، یہ چبوترہ محض سیمنٹ بجری کا ڈھیر نہیں بلکہ کسی اللہ والے کی قبر ہے، کیونکہ ایک مجاور مسلسل وہاں بیٹھا رہتا ہے اور کمزور عقائد کےاکا دکا لوگ وہاں سلام کرتے دکھائی دیں گے، بے چارے کچھ سادہ لوح تو ہاتھ اٹھائے دعا مانگتے بھی نظر آئیں گے، چاروں طرف دیے، جن کا تیل بہہ کر اس چادر کو داغ دار کر چکا ہوگا، مگر اگر بتیوں کی خوشبو سب پہ حاوی ہوگی، ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد جو شاید کسی نے اپنا پلاٹ دے کر اللہ کے نام پر تعمیر کروائی ہو، کیونکہ دنیا میں شاید مسجد بنوانا پانچ وقت نماز پڑھنے سے آسان ہوتا ہے اور نظر بھی آتا ہے، مسجد شاید بہت کم بندوں کے لیے تھی کیونکہ اکثر وہاں سے گزرنے پر مشکل پڑتی ہے، جنازہ مسجد میں رکھا جاتا ہے اور لواحقین باہر کھڑے زندہ لوگوں کو گھور رہے ہوتے ہیں، شازو نادر ہی کوئی روتا ہوگا، اب یہ اس جگہ کا کمال ہے یا چھوٹی مسجد کی برکت کہ کسی کو رونا آتا ہی نہیں تھا، کچھ لوگ تو دوسروں کو روک رہے ہوتے ہیں، بس کھانا تیار ہے جنازے کے بعد کھا کر چلیں گے، تایا ابا کے بیٹے کا نکاح ہے، نجانے دیر ہو جائے، کھانا وقت پہ ملے یا نہیں، غرضیکہ مجھے یہ سب منظر دیکھتے دیکھتے چلتے رہنا اچھا لگتا ہے، عجیب سی رونق، گہما گہمی، میت سامنے مگر ہم دنیادار لوگ موت سے بے خبر اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، میں سیدھا چلتے چلتے کبھی کبھی کسی گلی میں مڑ جاتی تھی، کبھی کسی، کیونکہ جتنی بھی گلیاں ہیں وہ سب آگے جا کر "مین جی ٹی روڈ" پر ہی نکلتی ہیں، اس لیے راستہ بھولنے کا احتمال نہیں رہتا. میں ہمیشہ مختلف گلیوں سے گزرنا پسند کرتی تھی کیونکہ نئے لوگ نئی جگہیں. 
ان راستوں سے آتی انواع و اقسام کی خوشبویات مجھے اچھی لگا کرتی تھیں، اگر وہاں جانے کا ناغہ ذرا طویل ہو جائے تو کسی نئی دکان کا اضافہ نظر آئے گا یا کسی دکان کی غیر موجودگی، تبدیلیاں بہت جلدی جلدی وقوع پذیر ہوتی ہیں، ویسے بھی اکثر کبھی کوئی گلی بن رہی ہوتی ہے، کبھی پانی یا گیس کے پائپ کے لیے ساری پکی گلی کچی مٹی کا ڈھیر بنادی جاتی، کبھی کوئی گھر بنتا تو سڑک یا گلی میں کافی دور تک اینٹوں اور ریت کا ڈھیر نظر آتا، لوگ حسب ضرورت کچھ خود اٹھا لیتے، بس کچھ نہ کچھ ادھیڑ بن لگی رہتی اور متبادل راستہ اختیار کرنا پڑتا، بالفرض اگر یہ سب نہ بھی ہوتا تب بھی گلی کا راستہ بند کرنے کے لیے تمبو لگا دیے جاتے، اب سمجھ نہیں آتا کہ لال رنگ کے ریشمی پوشش والی کرسیوں پر مہندی، نکاح کے مہمان بیٹھے ہیں یا میت کے سوگوار. 
تمبو تو ہوتے ہی رنگ برنگے ہیں، اسی طرح مختلف راستوں سے گزرتے گزرتے سب گلیاں یاد ہو گئی تھیں، پھر اتفاق ایسا ہوا کہ الیکشن کے دنوں سے کچھ پہلے یونین کونسلر نے اپنی کارکردگی دکھانے کے چکر میں اس علاقے کی ساری گلیوں میں سیوریج سسٹم کی درستگی کی خاطر اکھاڑ پچھاڑ شروع کروا دی، کہیں سے مٹی کھدی ملتی، کبھی کہیں سے سڑک ٹوٹی، سارے رستے کا بیڑہ غرق ہوگیا. 
دو تین ماہ بس جانا نہیں ہوا، پھر جب یکا یک ہوک اٹھی تو میں والدین کے قیلولہ کرنے کے اوقات میں دوپہر کو نکل پڑی، گرم دوپہروں میں دھوپ میں پھرنا گرچہ والدین کو ناپسند تھا مگر مجھے آرام سے سب کاموں سے فراغت پا کر نکلنا اچھا لگتا تھا. ایک ڈیڑھ گھنٹے کی سلجھی سمٹی سیر یا آوارہ گردی کا عجیب ہی لطف ہوتا تھا. اب جو اتنے عرصے بعد سب سے لمبے راستے سے نکل کر آخری گلی میں مڑی تو وہاں دور سے ہی گلی کے نکڑ پرایک بڑی سی دکان نظر آئی. باہر شیشہ ہی شیشہ تھا. آگے بڑھتی گئی تو پھر اس دکان کے پاس پہنچ کر عجیب سی پراسراریت محسوس ہونے لگی. شیشے میں اپنا آپ دکھائی دیتا تھا. اندر کیا ہے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا. لیکن چونکہ باہر بورڈ لگا تھا جس پر موٹا موٹا جیسے خشک لکڑی کا رنگ ہوتا ہے سنہرا مٹیالہ سا، اس رنگ میں لکھا تھا:
"قدیم نوادرات" میں حیران رہ گئی کہ یہ دکان یہاں کیسے؟  اتنے بدذوق اور نسبتاً غریب علاقے میں اتنی قیمتی اشیا کی دکان، کیسے چلے گی؟
ابھی میں باہر سے ہی تجزیے اور مشاہدے میں لگی تھی اور اس گلی کو پہچاننے کی کوشش کرنے میں لگی تھی کہ کسی اور گلی میں تو نہیں آپہنچی تو خیال آیا کہ گلی تو پرانی لگ رہی ہے دیکھی بھالی مگریہ دکان پہلے نہیں تھی. 
کب بنی، لگتی پرانی ہے لیکن نظر اب پڑی، حیرت ہے اتنی بڑی دکان کیسے نظروں سے محو ہوئی، پھر غور کیا تو محسوس ہوا کہ دکان نئی نہیں تھی بلکہ میرا وہاں سے گزرنا پہلی بار تھا، خیر میں نے کچھ دیر باہر سے دیکھ پرکھ کی، پھر یکا یک خیال آیا کہ اندر جا کر دیکھوں تو "کون سے نوادرات ہیں، جو اس گلی کے ٹٹ پنجیے خرید سکتے ہیں" لیکن تھوڑا گھبرا رہی تھی، کیونکہ اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی، اندر کوئی ہے بھی یا نہیں، اگر بہت سارے لوگ ہیں خاموشی کیوں ہے، کوئی پکڑ ہی نہ لے، پھر خیال آیا کہ دکان کھلی ہے، بس دھکا دے کر داخل ہی ہونا ہے، ڈرنا کیسا، پھر دل چونکا کہ کوئی اندر سے بند کردے، فضول ترین وہم اور خدشات سر پہ سوار تھے اور ایسے موقع پر فوراً "کر ڈالو"  کا لائحہ عمل میری خصلت میں تھا، جس چیز سے ڈر لگے، وسوسے آئیں، میں کر ڈالتی تھی، پھر اللہ کا نام لے کر بھاری شیشے کا دروازہ اندر کی طرف دھکیلا، صرف دروازے کی ہلکی سی چرچراہٹ ہوئی، یک دم بالکل خاموشی، دروازہ چھوڑتے ہی لپک کے بند ہوگیا، اندر ساری فضا ہی عجیب بوجھل سی تھی، چاروں طرف کیا تھا بعد میں دیکھتی، پہلے میں نے لمبا سانس لے کر اس دکان میں پھیلی خوشبو سونگھی، وہ آج خاص قسم کا سفوف جس سے جانوروں کے جسم حنوط کیے جاتے ہیں، اس کی تھی اور اس بو کی شدت کو کم کرنے کے لیے لیونڈر کا فریشن ائیر چھڑکا ہوا تھا، دوسری بار ناک میں شاید کسی کونے میں سلگتے لوبان کی مہک بھی محسوس ہوئی، دو تین لمبے سانسوں کے بعد مجھے فضا مانوس لگنے لگی. 
میں نے چاروں طرف دیکھا اور سوچا کیا دکان میں صرف میں ہی ہوں اور کوئی بھی نہیں، کوئی مالک ملازم کوئی تو ہوگا، کمرے میں روشنی مدھم تھی جو اس دکان کو پراسرار یا پرسکون بنانے میں کافی مددگار ثابت ہورہی تھی، میں نے دائیں بائیں دیکھا، کوئی بندہ نظر نہیں آیا، چاروں طرف کارنس بنی ہوئی تھی چوڑی سی، جیسے پرانے گھروں میں ہوتی تھیں، جب ڈریسنگ ٹیبل یا دیواروں میں فکسڈ الماری کا دور نہیں تھا، میں نے ایک کونے سے ہر نادر نمونے کو دیکھنا شروع کیا، ہر نادر نمونہ چھوٹا تھا، زیادہ بڑا نہیں، کارنس پہ ان کے آگے ان کی قیمت بھی لکھی ہوئی تھی، چھوٹے چھوٹے ہاتھی دانت کے زیور، لڑیاں۔مالائیں، کانوں کے چھوٹے ٹاپس، مختلف نگوں کے زیورات، پتھروں کے بنے مختلف ڈیکوریشن پیس، لکڑی یا پیتل برونس کی صندوقچیاں ایک ہتھیلی پہ رکھی جائے. 
ان میں جگہ بس اتنی تھی کہ کوئی زیور رکھا جا سکتا تھا یا کوئی یاداشت کا کاغذ، عجیب رنگ کی شکل سے پرانی لگ رہی تھیں، مختلف رنگوں کے نگ یا پتھر بڑے پیارے تھے، ان پہ قیمت کے ساتھ ان کا نام بھی لکھا تھا، زمرد، عقیق، فیروزہ، یاقوت، مرجان وغیرہ. سب کی قیمتیں ایسی تھیں کہ ایک شوقین بندہ کچھ روپیہ خرچ کرکے حاصل کر سکتا تھا. اس دائیں طرف کارنس پہ سب ایسا ہی سامان تھا. اب میری نظر سامنے دیوار کی طرف گئی تو حنوط شدہ ہرن کی کھوپڑی، طوطا، کوا اور کوئی باز یا شکرا سب ایسے مجھے دیکھ رہے تھے کہ ابھی زندہ ہو جائیں گے. وہاں چڑیا، فاختہ، بلبل بھی کھال میں بھس بھری موجود تھیں جیسے زندہ ہی کھڑی ہوں، چیتا شیر وغیرہ کہاں سے آتا، ایک عدد بلی جس کی آنکھیں بالکل سبز تھیں، اس طرح چمک رہی تھیں کہ وہ زندہ ہے، اسے مذاق میں بچوں کے کھیل کی طرح "اسٹیچو" کہہ کر ساکت کر دیا ہو، یا پھر ان آنکھوں کی چمک خیرہ کردینے والے زمرد کی طرح تھی، وہ بلی بڑی خونخوار نظر آرہی تھی، اگر زیادہ دیر نگاہیں جما رکھیں تو کہیں حملہ نہ کردے، کچھ لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی، پھر پرندوں پر نظر پڑی، ان کو بھی غور سے دیکھا لیکن بلی کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں. بار بار میری توجہ اپنی طرف مبذول کروارہی تھیں، ان سب جانداروں کو بہت صفائی اور سلیقے سے مسالہ لگا کر حنوط کیا گیا تھا. اس لیے دکان کی فضا میں اسی مسالے کی خوشبو رچی بسی تھی، ان کی قیمت اس علاقے کے بندوں کو وارا نہیں کھاتی تھی، اس لیے شاید یہ ماضی کے جاندار اور حالیہ شاندار حنوط شدگان ویسے کے ویسے ہی تھے. 
ان پر ہلکی ہلکی سی گرد بھی محسوس ہوئی پھر آخری کارنس جو ہر طرح کے خنجر، چاقو، چھریوں کو نمایاں کر رہی تھی، چمچے، کانٹے، کچھ پرانے برتن، جو نہ جانے کس زمانے کے ہوں گے، ترتیب سے لگے ہوئے تھے، برتن چھوٹے تھے اور دام مناسب، پھر بھی غریبوں کے لیے نہیں، آخر میں خوب صورت گھڑیاں، دیوار پہ لگی ہوئی بھی تھیں، چھوٹی چھوٹی اسٹینڈ پہ کھڑی ہونے والی، وال کلاک کافی بڑا، دیوار پہ آویزاں تھا. جس کا وہ لمبا سا پینڈولم بہت دل فریب لگ رہا تھا، ان تمام اشیا میں بوسیدگی اور انجان سی اداسی تھی، عجیب رنگ اترے، پھیکے یا شاید جھوٹے. 
میں نے ایک چھوٹا سا گھڑیال اٹھایا، بہت دل کش تھا، سنہرے اور کالے رنگ کا، دل آگیا تھا اس پہ، اس کی قیمت دیکھی تو وہ قابل قبول تھی، اس وقت تو نہیں لیکن بعد ازاں کچھ رقم پس انداز کرکے وہ خریدی جا سکتی تھی، منقش اور چھوٹا چمکتا ہوا پیارا سا گھڑیال نے واقعی میرادل موہ لیا تھا. 
میں دیکھنے میں مگن تھی کہ ایک دم میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی. اس کارنس کے بالکل آخری کونے میں دو آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں، کمال یہ تھا کہ مجھے محسوس ہی نہیں ہو سکا تھا، نجانےکب سے میرا تعاقب کر رہی ہوں گی. 
ایک صاحب اسٹول پہ براجمان تھے، بیٹھنے سے پتہ لگ رہا تھا کہ وہ پستہ قد اور کمزور جسم کے مالک ہیں، ان کے سر کے بال روئی کے گالوں کی طرح مکمل سفید تھے اور آنکھوں کی چمک ان کے زندہ ہونے کی واحد نشانی تھی، اگر وہ آنکھیں بند کر لیتے تو پلکوں کی سفید جھالر ان صاحب کو بھی ایک حنوط شدہ مجسمہ یا بت ہی ثابت کر دیتیں، ان کے چہرے پہ چند ثانیے نظر ٹکا کر غور کیا تو ان کی شخصیت بے ضرر محسوس ہوئی، میں نے گردن کو ہلکی سے جنبش دی، جیسے سلام کرتے ہیں، انھوں نے نظریں جھکا لیں، چونکہ میں اس دکان کا جائزہ لے چکی تھی، لہذا سلام کے بعد وہاں ٹھہری نہیں، 
جب باہر نکلی تو کھلی ہوا میں کھل کر سانس لیا لیکن باہر نکلتے ہی لو کے تھپیڑوں نے یہ بھی احساس دلایا کہ دکان ائیر کنڈیشنڈ تھی، شاید گرمی سے ان جانوروں کا بھوسا پگھل سکتا تھا یا سڑاند آنے کا ڈر ہو گا، جو بھی تھا باہر نکل کر واضح فرق محسوس ہوا، قید سے آزادی کا، اس دکان کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اندر جا کر لگا تھا کہ وقت تھم گیا ہے، اس کی رفتار عام وقت گزرنے کی رفتار سے کم تھی، رکے رکے منظر، تھما تھما وقت، انھی سوچوں میں غلطیاں وپیچاں گھر کی طرف چلتی گئی، طبعیت سیراب ہوگئی تھی، جیسے کہیں روح کے اندر تک وہ تمام نوادرات تہہ در تہہ سلیقے سے جم گئے ہوں، پھر کافی دنوں تک باہر نکلنا نہیں ہوا، کیونکہ اس بار بارشیں بہت شدت سے ہوئیں، گلیوں میں پانی کھڑا ہونا معمول تھا، بارش رک بھی جاتی تو کئی دن تک بارش کا پانی گلیوں اور راستوں میں کھڑا رہتا، جولائی اگست میں نجانے کتنے سالوں کے ریکارڈ ٹوٹے، بادل جم کر برسا، جیسے اب کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا، 
عاشق کی آگ بجھانی تھی اور پیاسے کی پیاس، غرضیکہ جل تھل ایک ہوگیا، ستمبر کے مہینے کا آغاز ہوئے ہفتہ دس دن ہوگئے تھے اور بارش ہوئے بھی، پھر ہوک اٹھی کہ جون میں گئی تھی کہ موسم بہت خوش گوار ہو گیا ہے. اب اس دکان میں جاکر اور لطف آئے گا، اس چھوٹے سے گھڑیال کو خریدنے کے پیسے بھی جمع ہوگئے تھے، بس نکل پڑی ایک دوپہر کو، کیچڑ سے بچتے ہوئے، کبھی کچے کبھی پکے راستے پہ چلتی، جہاں گلیاں نیچی تھیں وہاں کچھ حساس یا سمجھدار لوگوں نے اینٹیں رکھ دی تھیں کہ ان اینٹوں پہ چل کر وہ راستہ طے کر لیا جائے، 20 منٹ کا راستہ 35 منٹ میں طے ہوا، وہی گلی، وہی کونے کی دکان، میں نے ذہن میں دہرایا، گلی میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ دور بہت سا ملبہ پڑا ہے، کئی مزدور کام میں لگے ہیں، پہلے میں سمجھی کہ غلط گلی میں گھس گئی ہوں، پھر دائیں بائیں بورڈ پڑھے تو پہچان گئی، گلی وہی ہے کیونکہ میں خوشبو اور بورڈ یاد رکھتی تھی، ورنہ راستے یاد رکھنے کی صلاحیت مجھ میں نہیں تھی، آگے اور آگے پھر وہی نکڑ "یہ کیا ہوا" پھیلی ہوئی ڈھیروں اینٹیں دیکھ کر میرے منہ سے اچانک نکلا، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا. مزدور ملبہ ہٹاتے رہے، پھر میں نے اونچی آواز میں ان سے دریافت کیا کہ "یہاں ایک دکان تھی نا، پرانی چیزوں کی!" جواب ملا "جی باجی! یہ اسی دکان کا ملبہ ہے"
یہ سن کر میرا منہ کھلا رہ گیا. 
"کیسے، کب؟ "
سات دن پہلے جو آخری زوردار بارش ہوئی تھی وہ زمین بوس ہوگئی،" ۔۔ ” کیا" اب میرے دماغ نے کام کرنا شروع کیا، "کیسے گری، وہ تو پکی تھی"، باجی دکان کے نیچے تہہ خانہ تھا، اس نے بنیادیں کمزور کر دی تھیں جب زور کی بارش ہوئی دکان بیٹھ گئی، یہ سن کر میرا دل بھی بیٹھ گیا، کیا سب ختم ہوگیا، زمین میں دب گیا وہ گھڑیال بھی، میں عجیب سے انداز میں بڑبڑائی،
"سنو! اس دکان کے مالک کہاں ہیں"، "باجی وہ بھی تہہ میں دب کے مر گئے، تین دن لگے ملبے تلے مالک کو نکالنے میں لیکن ایک بات ہے، جب لاش نکالی گئی تو بالکل صحیح سلامت تھی جیسے بزرگوار آنکھیں بند کیے لیٹے ہوں."
ان کی لاش بھی حنوط ہوگئی تھی شاید. 
***
ارم رحمٰن کا یہ افسانہ بھی پڑھیں:زعفرانی کھیر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے