کتاب: کوتاہیاں (انشائیوں کا مجموعہ)

کتاب: کوتاہیاں (انشائیوں کا مجموعہ)

طیب فرقانی

"مزاح نگار سنجیدہ باتوں کا ستیاناس اور غیر سنجیدہ گفتگو کو اہمیت دینا جانتا ہے. " یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے وہ ایسا کیوں کرتا ہے. اس سوال کا جواب بعد میں تلاش کریں گے پہلے یہ بتا دوں کہ یہ قول کس بابا کا فرمایا ہوا ہے۔
یہ معشوق احمد ہیں جو ایس معشوق احمد کے نام سے ادبی حلقوں میں جانے جاتے ہیں، کولگام کشمیر، ہند میں رہتے ہیں۔ انشائیے لکھتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، تنقید و تبصرہ لکھتے ہیں اور خوش رہتے ہیں، دوسروں کو بھی خوشیاں بانٹنے میں بخل سے کام نہیں لیتے ہیں. ان کے اوپر ایک مرزا کا سایہ ہے، پورا نام مرزا مشہور مشوری، جو بات بات پر مشورے دیتا ہے، کھری کھری اور سچی باتیں بکتا ہے، دوسروں کی نصیحت سے اوب کر خود نصیحتیں شروع کردیتا ہے. ظاہر ہے یہ مرزا غالب نہیں ہے اور نہ ہی مشتاق احمد یوسفی کا مرزا ۔۔۔بلکہ ان مرزاؤں نے جو راگ اور تانیں چھیڑی ہیں انھی کا چھیڑا ہوا اور چھوڑا ہوا ایک حصہ مرزا بن کر کھڑا ہوگیا جیسے بات سے بات پیدا ہوتی ہے روایت سے روایت پیدا ہوگئی ہے.
اس مرزا کا سایہ ایس معشوق احمد پر اتنا گہرا ہے کہ بھری جوانی میں تین کتابیں اور پچاس کے قریب کالمز ان سے لکھوا لیے اور یہ بھولا شرمیلا لڑکا چپ چاپ دیکھتا رہا، اف تک نہ کہا۔ جب تیسری کتاب کوتاہیاں منظر عام پر آئی تو مرزا نے ٹہوکا دیا کہ اب کتابیں اپنے یار دوستوں کو مفت بھیجو، مرتا کیا نہ کرتا ایس معشوق احمد نے مجھے بھی ایک کاپی بھیجی. اب میں ٹھہرا بیوی بچوں والا، دکھتا تو آدمی جیسا ہی ہوں، لوگ کہتے ہیں کہ تم تھوڑا بہت پڑھ لکھ بھی لیتے ہو تو لو ایس معشوق کی "کوتاہیاں" بھی پڑھو. ارے صاحب کوتاہیاں کون پڑھتا ہے. جھٹ مرزا سامنے آگئے اور بولے:
"انسان کتنا ہی نیک اور پارسا کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس سے کوتاہیاں اور غلطیاں ضرور سرزد ہوتی ہیں. خاکسار (ایس معشوق احمد) بھی انسان ہے مجھ سے بھی آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ میں نے کوتاہیاں اور غلطیاں کی ہوں گی."
میں نے کہا تو پھر کوتاہیاں ہی کیوں خوبیاں کیوں نہیں؟
کہنے لگے صاحب "انسان سے کوتاہیاں کیوں سرزد ہوتی ہیں اس کی معقول وجہ یہی نظر آتی ہے کہ اسے اپنے عیب اور کوتاہیاں عیب نہیں لگتے بلکہ خوبیاں لگتی ہیں. " اچھا اچھا سمجھ گیا. کوتاہیوں کو خوبیاں پڑھوں؟ بابا نے سچ ہی کہا : "مزاح نگار سنجیدہ باتوں کا ستیاناس اور غیر سنجیدہ گفتگو کو اہمیت دینا جانتا ہے. "
میں نے کوتاہیاں میں کوتاہیوں کی گنتی شروع کی، اکیس نکلیں. سب اکیسویں صدی کی ہیں. مثلاً :
” بعض شوخ اور چنچل لڑکیوں سے بات کرنے کو دل مچل جائے تو بات شروع کرنے کی غرض سے ان سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے اور پھر یہ حالت ہوجاتی ہے کہ :
سوال کرکے میں خود ہی بہت پشیمان ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
(عمر پوچھنا)
” مرزا کہتے ہیں کہ انسان کو جوانی میں تو دو ہی خوشی کے موقعے میسر آتے ہیں، دولھا بننا اور صاحب کتاب ہونا. دولھا ماں باپ کی کوششوں سے بنتا ہے اور صاحب کتاب اسے پبلشر بناتا ہے. " ( بس چار دن)
” جیسے شوہر بیوی کے بغیر ادھورا سا، نامکمل سا اور ناتمام سا لگتا ہے ویسے ہی ادھار کا ذکر ہو اور گالی نہ دی جائے یہ بھی کچھ ادھورا اور نامانوس سا لگتا ہے. " (ادھار اور گالی)
مرزا نے کہا کہ ارے میاں اتنی مثالیں مت پیش کرو کہ لگے کہ تبصرے کو خواہ مخواہ طویل کرنے کے لیے مثالیں ٹھونس رہے ہو. میں نے کہا چلو مرزا تم ٹھیک ہی کہتے ہو. لوگوں کو بتادیں کہ "کوتاہیاں" ایس معشوق احمد کی تازہ ترین کتاب ہے. یہ انشائیوں پر مشتمل ہے اور انشائیوں اور صاحب کتاب کی تعریف، توصیف، تنقید، تاثرات پر مبنی مضامین بھی اس میں شامل ہیں. مرزا نے ٹوکا کہ لو میاں تم تو سنجیدہ ہوگئے؟ میں نے کہا ان مضامین میں قلم کاروں نے ایس معشوق احمد کے انشائیوں کی تعریف میں جو زمین آسمان کے قلابے ملادیے ہیں وہ منہ دیکھی بات تو نہیں لگتی. ان میں سب باتیں سچ نہ ہوں تب بھی دل لگتی باتیں تو ضرور ہیں.
ایک بات بتاؤ مرزا کہ ادیب آخر کرتا کیا ہے؟ مرزا نے کہا جو وہ دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے، سوچتا ہے اسے الگ الگ فارم میں خوب صورتی سے بیان کردیتا ہے. میں نے کہا تو کان کھول کر سن لو ایس معشوق نے بھی جو محسوس کیا اور اپنے ارد گرد دیکھا اسے لطافت، نزاکت، سلاست اور ظرافت سے بیان کردیا. یعنی وہ باتیں گہری کہتا ہے لیکن نرمی سے کہتا ہے، باتیں کھردری کرتا ہے لیکن الفاظ نرم نرم لاتا ہے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے.
مجھے یقین ہے کہ جی این کے پبلی کیشنز والوں نے ان کا انشائیہ "بس چار دن " ضرور پڑھ لیا ہوگا، اسی لیے اتنی اچھی کتاب اور اتنی جلدی چھاپ دی. ١٢٨ صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت ٣٠٠ روپے رکھی ہے ورنہ ایس معشوق احمد نے پبلشر کو اس انشائیے میں جس طرح بھگو بھگو کر مارا ہے کہ پانی پینے کا موقع بھی نہیں دیا.
ایک راز کی بات بتادوں کتاب کی قیمت بس رسما ہی بتادی ورنہ یقین ہے کہ آپ اسے خریدوگے نہیں کیوں کہ ان دنوں اردو کتابیں خریدنا اپنی ہیٹی کروانا ہے. تب بھی اگر کوتاہیاں کے کچھ انشائیے پڑھنے کا من کرے تو اشتراک ڈاٹ کام پر پڑھ لیں کیوں کہ ایس معشوق احمد اشتراک ڈاٹ کام کے اولین معشوقین میں سے ہیں.
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:پروفیسر احمد حسن دانش: کچھ یادیں، کچھ باتیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے