ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کے چار افسانے

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کے چار افسانے

(فکر و فن کے آئینے میں)

وسیم عقیل شاہ
(جلگاؤں)

عصر حاضر میں جو لوگ تخلیق و تنقیدکا ملکہ رکھتے ہیں اور جن کی تخلیقات اور تنقیدی نگارشات کی پزیرائی ہر جگہ ہورہی ہے، ان میں اردو ادب کے سفیرِمسکراہٹ، معروف نقاد اور معتبر افسانہ نگار ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ریاض توحیدی اقبالیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں اور تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، تاہم انھوں نے اقبالیات کے علاوہ افسانہ اور تنقید میں ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ آج ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی ان کی افسانہ نگاری اور تنقید نگاری کو سراہا جاتا ہے۔ جیسے معروف نقاد پروفیسر قدوس جاوید ایک مضمون ’’ڈاکٹر ریاض توحیدی: مابعد جدید دور کا نمائندہ افسانہ نگار" میں لکھتے ہیں:
"ریاض توحیدی کی فکشن نگاری کا یہ پہلو بھی قابل ستائش ہے کہ ایک صاحب بصیرت افسانہ نگار اور باشعور نقاد ہونے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں صرف مقامی موضوعات کی کہانیاں نہیں ملتی ہیں بلکہ ان کے بیشتر افسانوں کا کینوس اتنا پھیلا ہوا ہے کہ ان میں عالمی سطح کے موضوعات و مسائل کو بڑی فنکاری اور دانشورنہ انداز سے موضوع بنایا گیا ہے۔"
(رسالہ، عالمی ادبستان، معاصر اردو افسانہ نمبر۔ نئی نسل کے حوالے سے۔ ص: 123۔ جولائی تا دسمبر 2022ء)
ڈاکٹر توحیدی کے افسانے اور مضامین مسلسل رسائل و جرائد اور سوشل میڈیا کی ادبی سائٹس اور فورمز پر سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں جہان اقبال، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال شناس، کالے پیڑوں کا جنگل، کالے دیووَں کا سایہ اور معاصر اردو افسانہ تفہیم و تجزیہ۔ جلد اول دوم شامل ہیں۔ جن کے ایک سے زائد ایڈیشن ہند و پاک سے شایع ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کی افسانوی کائنات میں متنوع موضوعات کی کہانیاں نظرآتی ہیں، جو مختلف کردار، بیانیہ، تخیلات و مشاہدات اور افکار و خیالات کے رنگا رنگ جلوئے دکھاتی ہیں۔ معیاری زبان و بیان، عمدہ بیانیہ اور تکنیک کے نئے نئے تجربے اور دیگر فنی خوبیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ اور سب سے اچھی بات یہ کہ موصوف کا فن پارہ فن، کہانی اور تھیم کی ماہرانہ عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ نگار جس ماحول میں سانس لیتا ہے تو اس کے افسانوں میں اس ماحول کی کہانیاں ضرور ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کے افسانوں میں بھی کشمیر سے متعلق کہانیاں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کے بیشتر افسانے عالمی مسائل و موضوعات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے افسانے داخلی کرب اور خارجی مشاہدے کے عمدہ نمونے ہوتے ہیں. وہ موضوع کو پیش کرنے کے دوران راست بیانیہ کے علاوہ علامتی اسلوب بھی اپناتے ہیں اور تمثیل، علامت اور استعاروں کے برتنے میں کبھی کہانی پن کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے ہیں۔ یہ دراصل فکری و فنی سطح پر وہ اسلوب ہے جو فطری طور پر تخلیق کا حصہ بنتا ہے اور جو سادہ بیانیہ کی کہانیوں میں بھی دبازت اور تہہ داریوں کا عکاس ثابت ہوتا ہے۔ وجہ اس کی ممکنہ طور پر موضوع سے بذات خود ان کا انسلاک اور سروکار ہے، اس لیے بھی کہ ان کے جن افسانوں کا موضوع کشمیر ہے، وہاں پر بھی علامت نگاری فنی و اسلوبیاتی سطح پر کامیابی کے ساتھ اپنی ترسیل کرتی ہے۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی افسانہ نگاری ایک مقالہ کا تقاضا کرتی ہے اور اس پر کام بھی ہوا ہے تاہم پیش نظر مضمون میں ان کے چار افسانوں: بہار آنے تک، ہمارے بچوں کو بچاؤ، کالے دیووَں کی واپسی اور پوش کالونی کے ویران کھنڈر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔ ان میں تین کا موضوع کشمیر کی صورت حال ہے۔ اور چوتھے افسانے کا موضوع کشمیر سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔
افسانہ بہار آنے تک میں جنت نشان کشمیر کی آب و ہوا کا تخلیقی نقشہ کھینچا گیا ہے جو قاری کو مسحور کرکے رکھ دیتا ہے۔ یہ افسانہ اگرچہ ایک رومانوی نوعیت کی کہانی بیان کر رہا ہے، تاہم اس میں بھی خراب موسمی حالات کے پیش نظر کشمیر کے مسائل کا ذکر نظرآتا ہے۔ یہ ایک رومانی انداز کا افسانہ ہے جو دو دلوں کے ملن کی دل گداز داستان سناتا ہے۔ اس داستان میں کشمیر کا روح پرور حسن نکھر کر آیا ہے اور وہاں کی معاشرتی اور سماجی زندگی کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح ایک ہلکا سا تاریخی حوالہ بھی افسانے میں درج ہے، جو سلطان یوسف شاہ چک کے حوالے سے ہے۔ جس کو بڑی ہنرمندی سے دو محبت کرنے والوں کی پریم کہانی سے جوڑا گیا ہے۔ سلطان یوسف شاہ چک کشمیر کا خودمختار حکمران تھا جو کشمیر کی ناموس کے لیے مغلوں سے بے خوف و خطر سینہ سپر رہا، مگر شہنشاہ اکبر کے دور میں سارا کشمیر اس کے اقتدار سے جاتا رہا۔ افسانہ نگار کے مطابق یہیں سے کشمیر کے بے پناہ حسن کو نظر بد لگی اور کشمیر مسلسل استحصال کا شکار ہوتا رہا ہے۔ یوسف شاہ چک خود بھی عاشق مزاج بادشاہ تھا اور اس کی ملکہ کا نام زون یعنی چاند تھا۔ افسانے کا کلائمکس کہانی کی مایوس فضا میں ایک دم امید کی کرن جگاتا ہے جو اس افسانے کی ایک اہم خوبی نظر آتی ہے، نہیں تو افسانہ قاری کی مایوسی میں اضافہ کر کے ختم ہوجاتا۔ بلا شبہ افسانہ کہیں کہیں کہانی میں طوالت کا احساس دلا رہا ہے اور ایک دو جگہ موضوعاتی جھول بھی محسوس ہوتا ہے لیکن پھر بھی انجام تک قاری افسانہ پڑھنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ کیونکہ تکنیکی طور پر افسانہ نگار نے پلاٹ کو سنھبالے رکھا ہے۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے افسانے کاعنوان "بہارآنے تک" کہانی کے اعتبار سے خوب سوچ کر رکھا ہے، کیونکہ بہار ایسے سرور و کیف اور اطمینان و شادمانی کی علامت ہے جو خزاں سہ کر نصیب ہوتی ہے۔ مصائب و آلام کے بعد نصیب ہونے والا سکھ ہی زندگی کا اصل سکھ کہلاتا ہے۔ کردار گلشن اور گلفام کی زندگی میں برف کے تودوں نے وہ مصیبت لائی تھی کہ کسی کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ دونوں کا دوبارہ ملن بھی ہوگا اور وصل تک دونوں برائے نام زندہ تھے، بہ طور خاص افسانہ نگار نے گلشن کی مایوس زندگی کا عمدہ نقشہ اس طرح سے کھینچا ہے:
"گلفام کے گھر میں مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ اب لوگ زیادہ سے زیادہ لاش حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ گلشن کا دل بھی عجیب قسم کے وسوسوں سے ڈوبے ہی جارہا تھا۔ اس کے سامنے صرف گلفام کا مسکراتا چہرہ باربار آرہا تھا اور وہ خون کے آنسو بہاتے بہاتے حبہ خاتون کا درد بھرا گیت گائے جارہی تھی کہ میرے یوسف تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلا گیا۔ کوئی بھی دلاسہ کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا۔"
اس افسانے کی پہلی شناخت میں رومان ہے اور موضوع کی توسیع میں کشمیر کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، یعنی برفیلے موسم میں کشمیر کی قومی شاہراہ پر جان لیوا حادثات۔ اچھے افسانوں کا خاصہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اکہرے بیانیے کے حامل نہیں ہوتے۔ اپنے اندر پرت در پرت گہری فکر اور افہام و ابعاد کا ایک جہاں لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس کی مثال یہ افسانہ ہے۔ کیونکہ کشمیر کے کئی مسائل میں ایک اہم مسئلہ شدید برف باری اور پہاڑوں سے برف کے بڑے بڑے تودے گرنے کا بھی ہے۔ جس سے وہاں کے عوام کی زندگی مصیبتوں سے دوبھر ہوجاتی ہے۔ گزشتہ برس اور اس سے بھی دو برس پہلے کے حالات ہمارے سامنے ہیں. جہاں انسان دوستی کی مثالیں ہیں تو غیر انسانی رویوں کے قصے بھی، جو اخبارات میں شایع اور سوشل میڈیا، ماس میڈیا پر وائرل بھی ہوچکے ہیں۔ یہ بھی کہ برفیلے تودوں میں دھنسنے سے کئی کئی دن تک انسانی لاشیں سڑتی گلتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی نے جس طرح اپنے دیگر افسانوں میں کشمیر کے روح فرسا حالات کو قلم بند کیا ہے وہیں اسی طرح کے افسانوں میں ایسے مسائل کو بھی سنجیدگی سے برتا ہے۔ خواہ یہ مسئلہ ویسا نہیں ہے جیسا ہم ریاض توحیدی کے دیگر افسانوں میں دیکھتے ہیں۔ تب بھی یہ مسئلہ کشمیر کا اہم مسئلہ ہے جس کو افسانہ نگار نے اچھے ڈھنگ سے سامنے لایا ہے. 
کشمیر کے تناظر میں لکھا گیا ڈاکٹر ریاض توحیدی کا دوسرا افسانہ "ہمارے بچوں کو بچاؤ" ہے۔ یہ افسانہ کشمیر کے روح فرسا حالات کا سچا تخلیقی ترجمان ہے۔ اس پر کئی ناقدین نے لکھا اور بیک زبان اس بات کا اعتراف کیا کہ ڈاکٹر ریاض توحیدی کے قلم میں معصوم کشمیریوں کا لہو روشنائی کا کام کرتا ہے۔ اس افسانے کو روایتی تکنیک کے برعکس ایسے موڑ دیے گئے ہیں کہ قاری افسانہ پڑھتے پڑھتے خون کے آنسو روتا ہے۔
اس افسانے کا مرکزی کردار راوی ہے جو یہ دردانگیز قصہ سناتا ہے. ظاہری طور پر افسانے کا راوی آج کے حالات پر کلام کرتا نظر آتا ہے لیکن اس کے کلام کی زیریں لہریں ہولے ہولے قاری کو 1947ء تک کے تاریخی پس منظر تک بہا کرلے جاتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر میں آج کے دور میں بھی انٹرنیٹ سروس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تو ساٹھ ستر برسوں سے وہاں کی زندگی کے مختلف شعبوں میں ڈر خوف، محرومی، شناختی بحران اور مجموعی استحصال کی صورت کو کیسے باہر کی دنیا تک پہنچنے دیا جاتا۔ کریم چاچا کی زندگی کا کردار پورے کشمیر کی ساٹھ ستر سالہ تاریخ کا اشاریہ ہے۔ راوی کی نظر کے سامنے کریم چاچا کا بیٹا اور خود اس کے بیٹے کی صورت پورے کشمیری بچوں کی زندگی اور کشمیر کے ماضی و حال کے لہو لہان حالات و واقعات ہیں جن سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نظرنہیں آتی۔ اس لیے بھی کہ کریم چاچا کے بیٹے کے فوت ہوجانے کے بعد اس کا (راوی کا) بیٹا اور معصوم بیٹی اس کے دل و دماغ پر زندگی کی صورت لیے چھائے ہوئے ہیں. بچوں کو باہر بھیج کر تعلیم حاصل کروانا دراصل تعلیم کو امید کی کرن سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا کہ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے یہ اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں، "ہمارے بچوں کو بچاؤ"۔ اس کے باوجود وہاں پر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے وہ بھی افسانے میں دکھایا گیا ہے، کہ مشتاق کی موت کے حوالے سے اگر افسانہ نگار کا مطمح نظر یہ بنتا ہے کہ کشمیریوں کے لیے اپنی زندگی بچانا نہ صرف کشمیر بلکہ ملک بھر میں ناممکن سا ہو گیا ہے تو اس خیال کے وسیلے سے یہ کہانی ایک مخصوص علاقے سے نکل کر ملکی سطح پر اقلیتی فرقے کی عکاس بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے پھر اس خیال ہی کے تحت کہانی میں مآب لنچنگ کا شکار ہوئے ایک بچے کی دل دہلا دینے والی چیخیں اور جے شری رام کے نعرے بلند ہوتے ہیں. 
ملک کے غیر جانب دار جمہوری نظام پر اس کہانی میں کرارا ضرب لگایا گیا ہے. اسے تاریخی حوالوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دفعہ  370 کی تبدیلی کو لے کر کشمیریوں کے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی، تاہم افسانہ نگار کے مطابق ابتدا ہی سے بھارتی جمہوریت نے کشمیریوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا ہے جس کی درناک مثالیں آج بھی آئے دن مختلف ذرائع سے ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں. 
افسانہ نگار نے سادہ انداز میں اس کہانی کو تخلیق کیا ہے۔ کہانی میں تکنیک، بنت، پلاٹ، زبان و بیان، کردار نگاری، منظر نگاری اور دیگر فنی عناصر سلیقے سے برتے گئے ہیں۔ کہانی کا کینوس پھیلا ہوا ہے لیکن جھول نہیں ہے۔ روانی عمدہ ہے، یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کہانی کے ساتھ تھیم بھی کلائمکس تک برابر ساتھ چلتا ہے، جس سے افسانہ نگار کا نقطہ نظر بھی کھل کر سامنے آتا ہے. 
ڈاکٹر توحیدی کا اسی طرح کا ایک عمدہ علامتی افسانہ "کالے دیؤوں کی واپسی" کشمیر کی تاریخ اور حال کا ایک دل آویز فن پارہ ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا ڈاکٹر ریاض توحیدی کا یہ مشہور علامتی افسانہ” کالے دیووَں  کا سایہ" چند برس قبل شایع ہوا ہے۔ اور فیس بک پر کسی افسانوی ایونٹ میں پیش بھی ہوا تھا۔ اس میں جو کچھ بیان کیا گیا تھا وہ بھی اہم تھا لیکن شاید اس میں کچھ بیان ہونا باقی رہ گیا تھا، جسے اس افسانے "کالے دیووَں کی واپسی" میں بیان کیا گیا ہے۔ دونوں افسانے اگرچہ اپنی اپنی جگہ پر مکمل ہیں تاہم موضوع کی توسیع پزیری کے پیش نظر جیسے یہ افسانہ اسی موضوع کی توسیع ہے. اس طرح ایک موضوع اور ایک فکر کے دو سلسلے بہ صورت یہ دو افسانے بھی ڈاکٹر ریاض توحیدی کی تخلیقی کائنات کے حصے ہیں۔
ایک بات یہ بھی غور طلب ہے کہ کشمیر کو دکھانے والے دو ہی ورژن، میڈیم ہمارے سامنے ہیں، ایک میڈیا اور دوسرا آرٹ۔ ہم میں سے اکثر انھی دو میڈیمز سے کشمیر کو دیکھتے آئے ہیں۔ میڈیا وہی دکھاتا ہے جیسا کہ اسے دکھانے کا حکم ملتا ہے، یا اپنی مرضی سے من پسند چیزیں دکھاتا ہے۔ لیکن دیانت دار ادیب یا شاعر یا فنون لطیفہ کا کوئی سچا آرٹسٹ کسی بھی سیاسی یا مذہبی دباؤ کا متحمل نہیں ہوتا، لہذا ایسے سچے فن کار کشمیر کی تصویر کشی کرتے وقت بڑی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں. جن فن کاروں نے (بہ شمول نظم و نثر) اس طرف بڑی بے باکی سے پیش قدمی کی ہے، ان میں سے ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی کہانیاں نہیں بلکہ لہو لہان کشمیر کی چیختی پکارتی آوازیں ہیں جو درد مند دل رکھنے والوں ہی کو سنائی دیتی ہیں. افسانہ "کالے دیووَں کی واپسی" میں یہ چیخ و پکار علامتی پیرایہ میں اس طرح سے قاری کو غم زدہ کرتی ہے کہ انسان سوچتا ہے کیا واقعی اتنا سب ہونے کے باوجود کشمیر جنت کہلانے کے قابل ہے۔ افسانے کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں:
"اسے ایک کنارے پر قبرستان دکھائی دیا، جہاں پر گمنام قبروں کے درمیان غائب شدہ بچوں کا سوگ منایا جارہا تھا۔ قبرستان کے ساتھ ہی خوب صورت بچوں کی اندھی آنکھیں ستم کا رونا رو رہی تھیں۔ تھوڑا اور چلنے کے بعد نوجوانوں کی لاشیں پیڑوں پر لٹکی ہوئی تھیں اور عورتوں کے کاٹے گئے بال سانپوں کی طرح پانی پر رینگ رہے تھے۔ جہلم کے سارے ماحول میں کہرام بپا تھا۔
وہ یہ اندوہ ناک صورت حال دیکھ کر سوچنے لگا کہ وادی کے اوپر یہ کون سی آفت آن پڑی ہے کہ ہر آنکھ سے مایوسی کے آنسو ٹپک رہے ہیں اور ہر دل سے ماتم کی آہیں نکل رہی ہیں۔ یہاں کی فضا بھی تو ماتم کناں ہے اور یہاں کے خوب صورت نظارے بھی کالی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اس کے قدم دوبارہ دھند زدہ ماحول کا سراغ لگانے کے لیے منبع کی طرف چل پڑے۔ چلتے چلتے وہ جب جہلم کے سرے تک پہنچ گیا تو وہ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوا کہ سرے کے اوپر منہ کھولے غاروں سے خون کے فوارے ابل رہے ہیں اور بچوں کے خون آلود سروں اور جسموں کو پانی میں پھینکا جارہا ہے."
ڈاکٹر ریاض توحیدی کے افسانوں کا موضوعاتی کینوس کافی وسیع ہے۔ ان میں سماجی و اقتصادی، سیاسی و معاشرتی اور نجی و اقتصادی وغیرہ مسائل و موضوعات پر کہانیاں ملتی ہیں۔ ایک افسانہ "پوش کالونی کے ویران کھنڈر" (جو رسالہ ایوان اردو، شمارہ اکتوبر 2020ء میں شایع ہوا تھا) ڈاکٹر ریاض توحیدی کی یہ کہانی اگرچہ کشمیر کے ستم زدہ حالات پر تحریر نہیں ہوئی ہے تاہم اس افسانے کا موضوع ہر اس جگہ سے تعلق رکھتا ہے جن کے بچے دوسرے ممالک میں نوکری یا تجارت کی خاطر چلے جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کے والدین دولت مند ہونے کے باوجو بڑھاپے کی تنہائی کے کرب کو جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، افسانے کی فضا بندی میں فکری برتاؤ اور ژرف نگاہ کا ایسا جادو چلایا گیا ہے کہ ہر جملے اور مکالمے میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو گئی ہے۔ افسانے کا مرکزی خیال قدروں اور انسانی رشتوں کی گھٹتی اہمیت ہے جسے افسانہ نگار نے نئے زاویے سے دیکھنے اور دل کش بیانیے میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح افسانہ مابعد جدید دور کے ایک سلگتے موضوع کو فکرانگیز کہانی میں پیش کررہا ہے۔ پوش یا امیروں کی کالونیوں میں زندگی کس درجہ جذبات و احساسات سے عاری ہوتی ہے اسے جس فن کاری سے ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کہانی میں برتا ہے، یہ انھی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔ پروفیسر کی زبان سے یہ تشوشناک خیالات دیکھیں:
” اس پوش کالونی کے بظاہر خوش نظر آنے والے بیشتر لوگ اندر سے کتنے بیمار ہیں وہ ان کا دردبانٹ کر ہی پتہ چلتا ہے. یہ سب آسیبِ زر کا نتیجہ ہے۔ ہم لوگ مادیت پرستی کی دوڑ میں تہذیبی اور اخلاقی قدروں کو بھول گئے ہیں۔ انسان جب مادیت کا پجاری بن جاتا ہے تو پھر اس کی حیثیت ایک مشین سے کم نہیں رہتی ہے. اس کے اندر نہ احساس باقی رہتا ہے اور نہ ہی سکون کی خوش بو دوڑتی ہے۔ یہ اسی مادی تہذیب کا اثر ہے کہ اب آہستہ آہستہ مشترکہ خاندان کے کلچرکا خاتمہ ہورہا ہے اور سوسائٹی میں مسابقتی دوڑ شروع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اپنائیت کی بجائے رشتوں کے کھوکھلے پن کا چلن عام ہورہا ہے."
افسانے کی پہلی قرأت پر جو چند باتیں راقم کے ذہن میں آئیں، ان میں اول تو موضوع فکر انگیز ہے۔ اگرچہ روایتی ہے کہ رشتوں کی پامالی، رشتوں کی کھٹاس، آپسی انتشار، استحصال اردو فکشن کے کثیرالاستعمال موضوع ہیں لیکن اس کے لیے موصوف نے جو تخلیقی مواد اکٹھا کیا ہے، وہ بڑا محنت طلب امر ہے اور عصر حاضر کے دولت مندوں کا ایک اہم موضوع بھی ہے. دو طلبہ کے ذریعے کہانی کو تراشا گیا ہے۔ پھر اسے ایک مخصوص زاویے سے شروع کر کے ایک سرا خود افسانہ نگار اپنے ہاتھ میں اور دوسرا قاری کے ہاتھ دے کر تخلیقی فضا سے بھرپور ایک طویل افسانوی ڈور کھینچتا ہے۔ جس میں الفاظ اور واقعات، کہانی کے مدار پر نہایت دل فریب انداز میں گردش کرتے ہیں۔ قاری اس سحر میں اخیر تک جکڑ کر رہتا ہے، وہ افسانہ نگار کی سجائی ہوئی خیالی دنیا کے سارے مسائل اور درد کا حصہ بنتا ہے، جس سے قاری کو جمالیاتی تسکین بھی ملتی ہے۔ اور افسانہ نگار کی کامیابی بھی نظرآتی ہے. کیونکہ قدرے طویل افسانہ ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی فنی جھول نظر نہیں آتا ہے اور پلاٹ کا ربط کہیں ٹوٹتا محسوس نہیں ہوتا۔
مختصراََ یہ کہ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری جس طرح فکر و خیال اور تخیل کو فنی کمال کے ساتھ تخلیق کا حصہ بناتے ہوئے افسانوی قالب میں ڈھالتے ہیں، وہ فن افسانہ نگاری کا ماہرانہ ثبوت فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ قاری ان کے افسانے سے محظوظ ہوکر محسوس کرتا ہے کہ واقعی کوئی افسانہ پڑھ لیا جو کہ ایک افسانہ نگاری کی کامیابی کا ثبوت ہوتا ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: شخصیت: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے