جاوید نہال حشمی کی افسانچہ نگاری کا فنی اختصاص

جاوید نہال حشمی کی افسانچہ نگاری کا فنی اختصاص

فرزانہ پروین (کولکاتا)

آج کی مصروف ترین زندگی میں ہر شخص شارٹ کٹ کی جانب بھاگتا نظر آ رہا ہے. جسے دیکھو مختصر وقت میں اپنے کام کو انجام دینے کی سعی کر رہا ہے. ایسے میں جب ہم اردو ادب کی جانب نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کے زوال کا اہم سبب اس کی طوالت تھی، ناول کا بھی کم و بیش یہی حال ہے. افسانے آج بھی لکھے اور شوق سے پڑھے جا رہے ہیں، لیکن ان تمام اصناف سے قطع نظر افسانچے کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی اہم وجہ اس کا اختصار ہے۔ جب کوئی طویل فن پارہ ہماری نظروں سے گزرتا ہے تو دل چسپی اور خواہش ہونے کے باوجود ہم اسے بعد میں پڑھنے کا سوچ کر ٹال جاتے ہیں. جب کہ افسانچے میں ایسی کشش ہوتی ہے جو قاری کی توجہ فوراً اپنی جانب مبذول کرتی ہے اور قاری اپنا ردعمل بھی فوری طور پر ظاہر کر دیتا ہے۔ افسانچے کی مقبولیت اور اس کی کامیابی فقط اختصار پر منحصر نہیں بلکہ اس میں کہانی پن کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اختصار کے نام پر کچھ بھی لکھ دینا افسانچہ نہیں ہوتا۔ افسانچہ نگاری نہایت مشکل صنف ہے۔ افسانچہ نگار کے لیے لازم ہے کہ وہ جس موضوع کا بھی انتخاب کرے اسے اختصار لفظی کے ساتھ اس طرح پیش کرے کہ افسانچہ پڑھنے کے دوران قاری کی دل چسپی برقرار رہے اور اختتام یوں ہو کہ قاری دیر تک سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ مصنف کو ایک ایک لفظ کا استعمال ناپ تول کر نہایت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے۔ بے جا طوالت افسانچے کے تاثر کو زائل کر دیتی ہے۔
معین الدین عثمانی کا خیال ہے کہ:
”کم سے کم لفظوں میں کسی واقعہ کو افسانوی لوازمات کے ساتھ ہنرمندی سے برتنے پر افسانچہ وجود میں آ سکتا ہے"
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ رائی کا پہاڑ بنانا آسان ہوتا ہے لیکن سمندر کو کوزے میں سمیٹنا بہت مشکل ۔ افسانچہ نگاری سمندر کو کوزے میں سمیٹنے کا عمل ہے۔ آج ہندستان کے بیشتر صوبوں میں سینکڑوں افسانچہ نگار اس عمل میں منہمک نظر آ رہے ہیں، اگر میں سر زمین بنگال کی بات کروں تو یہاں کئی ایسے قلم کار ہیں جو صنف افسانچہ نگاری پر طبع آزمائی کر رہے ہیں. ان میں سلیم سرفراز، عشرت بیتاب، شگوفہ تمنا، طلعت انجم، جلیل عشرت، محمود یاسین، مقصود دانش، شاہد فروغی، انجم رومان، سید محمد نعمت اللہ، شبیر ذوالمنان، اصغر شمیم، محمد علی صدیقی، شمیم جہانگیری، روشن کمال حشمی، شمشیر علی شعلہ، احمد کمال حشمی، ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا اور جاوید نہال حشمی کے نام قابلِ ذکر ہیں. جاوید نہال حشمی اور سلیم سرفراز کے افسانچوں کے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ آسنسول سے تعلق رکھنے والے ادیب سلیم سرفراز کے افسانچوں کا مجموعہ ”وقت خسارے" سنہ ٢٠٢١ میں شائع ہوا، جب کہ سید محمد نعمت اللہ، محمد علی صدیقی اور شمشیر علی شعلہ سنجیدگی سے اس فن پر طبع آزمائی کر رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کے مجموعے بھی جلد ہی بنگال کے علمی و ادبی فضا کو معطر کریں گے، دیگر افسانچہ نگار وقتاً فوقتاً اس صنف میں طبع آزمائی کر کے اپنی شناخت بنانے میں لگے ہیں۔
جاوید نہال حشمی کا تعلق بنگال کے ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ ان کے والد حشم الرمضان ایک کہنہ مشق استاد شاعر، ادیب و ناقد تھے جیسے وہ لائق و فائق ویسے ہی ان کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں، سبھی ماشاء اللہ اعلا تعلیم یافتہ ہیں، ایک بیٹی فرحت نشاط حشمی کے علاوہ سبھی سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں۔ ان کے بڑے صاحب زادے احمد کمال حشمی بنگال کے نامور شاعر اور ادیب ہیں، ارشد جمال حشمی بھی اعلا پایہ کے شاعر و نثر نگار ہیں، جاوید نہال حشمی بہترین افسانہ نگار، افسانچہ نگار اور انشائیہ نگار ہیں، خالد اقبال حشمی بھی شاعر ہیں، جب کہ شاہد جلال حشمی ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے اپنے علاقے کی فلاح و بہبودی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں. اس کے علاوہ انھوں نے اپنے والد کی یاد میں ایک اسکول بھی قائم کیا ہے، جہاں بچوں کو معیاری تعلیم دی جاتی ہے. حشم الرمضان کی چھوٹی صاحب زادی عشرت صراط حشمی سرکاری اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں، لہٰذا ان کے گھرانے کے لیے فارسی کا یہ مشہور مقولہ ”ایں خانہ تمام آفتاب است" مکمل طور پر صادق آتا ہے۔
جاوید نہال حشمی نے علمی و ادبی گھرانے میں پرورش پائی. کہانیاں لکھنے اور پڑھنے کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا، جب یہ چودہ سال کے تھے تو ان کی پہلی کہانی ”سنہرا خواب" ١٩٨١ء میں ماہنامہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی. اس کے بعد لکھنے اور شائع ہونے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور ٢٠١٦ء میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ”دیوار" منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے اس کتاب پر انھیں علامہ راشد الخیری ایوارڈ اور بہار اردو اکیڈمی نے اس کتاب پر دس ہزار روپے کے انعام سے سرفراز کیا۔ دیوار کے بعد ان کی دوسری کتاب ”کلائیڈواسکوپ" جو افسانچوں کا مجموعہ ہے ٢٠١٩ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے انھیں ”پریم چند" ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے بعد ان کی تیسری کتاب ”کوئی لوٹا دے مرے" (انشائیوں کا مجموعہ) ٢٠٢١ء میں آئی۔
کلائیڈو اسکوپ کو بنگال میں افسانچوں کی پہلی کتاب ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے. یہ بیاسی افسانچوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جس میں سماجی، سیاسی اور نفسیاتی مسائل کو بڑی چابک دستی سے پیش کیا گیا ہے۔
بہ قول فیروز عابد:
”جاوید نہال حشمی نوجوان افسانہ نگار ہیں. ان کے افسانے ان کے ہم عصروں سے اس لیے الگ ہیں کہ ان کے اندر سماج اور ماحول دونوں کی وہ ان گنت تصویریں ہیں جو انھیں خون کے آنسو رلاتی ہیں. چونکہ وہ ایک اچھے آرٹسٹ بھی ہیں اور قلم کے ساتھ ساتھ برش بھی ان کے اظہار کا وسیلہ ہے تو وہ ذرا الگ ہٹ کر سوچتے ہیں. وہ بالکل زمیں سے جڑی ہوئی حقیقتوں کا بیان کرتے ہیں۔"
فیروز عابد صاحب بالکل بجا فرماتے ہیں کہ جاوید نہال حشمی زمین سے جڑی ہوئی حقیقتوں کا بیان کرتے ہیں. ان کی کتاب کلائیڈو اسکوپ میں بیشتر ایسے افسانچے موجود ہیں جو ہمارے روز مرہ کے حالات و واقعات پر مبنی ہیں. لاڈلہ، سلسلہ، فرض کا بوجھ، شک، خدا کی مرضی، لنگی، اورل ٹسٹ، بے جوڑ، نفل روزہ، فورتھ آپشن، نیو جنریشن، انعکاس وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
”نیو جنریشن" میں آج کی اولاد کی بے راہ روی، شدت پسندی اور ایک والد کی بے بسی کو دکھایا گیا ہے۔ آج کے بچے اب کسی بھی بات یا کام کے لیے والدین یا بزرگوں سے اجازت طلب نہیں کرتے بلکہ انھیں صرف اطلاع دیتے ہیں اور بے بس والدین دل نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی رضا میں راضی ہو جاتے ہیں کہ انکار کی صورت میں کہیں ان کی اولاد کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔
”لاڈلہ" ماڈرن سوسائٹی کی ان عورتوں پر براہ راست طنز ہے جن کی اپنی اولادیں تو دایہ کے زیر سایہ پرورش پاتی ہیں اور وہ اپنی ممتا اپنے پالتو کتے پر لٹاتی ہیں۔
”بے جوڑ" معاشرے کے ان لڑکوں کے لیے ایک سبق ہے جو اچھی، خوب صورت اور تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتے بے جوڑ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ لڑکی یا اس کے والدین پر کیا گزرے گی. لیکن مزا تب آتا ہے جب ایسے لڑکوں کو کوئی لڑکی اپنے لیے بے جوڑ کہہ کر ٹھکرا دے۔
”مارکیٹ ویلو" میں کسی لڑکی کا پرائیوٹ ٹیوشن کے نام پر دیر رات کسی مخصوص علاقے میں جانا اور اس کے پرس سے مخصوص پلز اور وہ چھوٹے سے پیکٹ کا نکلنا کسی اور ہی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔
”لنگی" گندی ذہنیت رکھنے والے رحیم صاحب جیسے مسلمانوں کی جانب اشارہ ہے جو فطرہ اور زکوٰة کی رقم بھی بادل نخواستہ نکالتے ہیں. رحیم صاحب کی ایک قیمتی لنگی جب ان کی بیگم غلطی سے سلیمان چاچا کو دے دیتی ہے تو رحیم صاحب کے تیور بگڑ جاتے ہیں، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ مسکرا کر اپنی بیگم کو کہتے ہیں کہ
”چلو اچھا ہی ہوا کسی غریب کی بروقت مدد ہو گئی"
”انھوں نے حساب لگا لیا تھا۔ وہ دو اور ان کے تین بچے چھیالیس روپے کے حساب سے دو سو تیس روپے ہوتے تھے اور لنگی ڈھائی سو روپے کی تھی"
آج جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کے لیے جہاں خطبے اور جلسے ہوتے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جہیز نہ لینے والوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں. ”شک" اعلا خاندان سے تعلق رکھنے والا خوبرو، سرکاری عہدے پر فائز نوجوان کا قصہ ہے جس کے جہیز نہ لینے پر لڑکی کی ماں شک میں مبتلا ہو کر فکر مندی سے یہ جملہ کہتی ہے کہ
”سنا ہے اس نے کسی بھی قسم کا جہیز لینے سے انکار کر دیا ہے"
ڈاکٹر عظیم راہی صنف افسانچہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ
”افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کر دینے کا نام ہے"
اس سلسلے میں احمد کمال حشمی کہتے ہیں کہ
”افسانچے کو پٹاخے کی طرح ہونا چاہئے جو دیکھنے میں تو چھوٹا ہو مگر اس کی آواز دور تک اور گونج دیر تک سنی جائے"
مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جاوید نہال حشمی کے افسانچے ان شرائط پر کھرے اترتے ہیں. ہم چاہ کر بھی اس کی گونج کو اَن سنی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے اثرات کو اپنے ذہن سے جھٹک سکتے ہیں. یہ سماج کے جابر حقیقتوں کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں. عکس، چراغ تلے، منی پولیشن، لین دین، سلسلہ، دو زاویوں کا مثلث، فورتھ آپشن، نفل روزہ، درد اور کچلی ہوئی زندگی وغیرہ اس قسم کے افسانچے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان چند ساعت کے لئے ٹھہر جاتا ہے اور ذہن میں ہوائیاں سی اڑنے لگتی ہیں. انسان کچھ پل کے لیے سہی لیکن سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
”نفل روزہ" ایک ایسا افسانچہ ہے جس پر پورا افسانہ لکھا جا سکتا ہے. عام طور پر مسلمانوں کو اپنے تمام فرائض ماہِ رمضان میں ہی یاد آتے ہیں. جب کہ عام دنوں میں ہمارا پڑوسی افلاس، فاقہ کشی سے تنگ آکر جب تک کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے ہمیں اس کی حالت ابتری کا علم ہی نہیں ہوتا ہے. لہٰذا ایک اچھا پڑوسی وہی ہوتا ہے جو صرف ماہِ رمضان میں نہیں بلکہ سال بھر اپنے پڑوسی کا خیال رکھے۔
نفل روزہ میں ایک شخص کا مسلکی اختلاف رکھنے والے عابد صاحب سے یہ طنز کرنا کہ پورے رمضان سامنے والی بھکارن کے گھر ہر کوئی افطاری بھیج رہا ہے سوائے آپ کے، تو اس پر عابد صاحب کا یہ جواب ہمیں سوچنے پر مجبور کر تا ہے کہ
”رمضان کے بجائے میں اس کے نفل روزوں کی افطاری کرواتا ہوں"
”فورتھ آپشن" سماج کی ہر اس لڑکی کا المیہ ہے جس سے اس کی مرضی کبھی پوچھی نہیں جاتی. اس کی زندگی کے سارے فیصلے اس کے والدین لیتے ہیں لڑکی کو کسی بھی معاملے میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی. ذہین ہونے کے باوجود نہ اسے آگے پڑھنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں اپنی شادی کے سلسلے میں کچھ بولنے کی اجازت ہوتی ہے. نتیجتاً والدین کی چند شرطوں کی وجہ سے جب لڑکی کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے اور اس کے لیے رنڈوے اور طلاق شدہ۔۔۔ شادی شدہ مگر بے اولاد۔۔۔ پچپن سال کے کنوارے جیسے لوگوں کے رشتے آنے لگتے ہیں تب پہلی بار لڑکی کے والدین اس سے اس کی مرضی پوچھتے ہیں اور تب لڑکی کے پاس فورتھ آپشن کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔
”خدا کی مرضی" میں معاشرے کی ان عورتوں کی تصویر کشی کی گئی ہے جو بچے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنے شوہر کے حکم کے آگے مجبور ہو جاتی ہیں. طرہ یہ کہ ایبارشن کو مِس کیرج کا نام دے کر پھر اسی شوہر کے ظلم اور گناہ کی پردہ پوشی بھی کرتی ہیں۔
”منی پولیشن" شریعت اور قانون کا ناجائز فائدہ اٹھانے والی عورتوں پر گہرا طنز ہے۔
”پسِ پردہ" نادرہ اور عالیہ جیسی ماڈرن اور بے باک لڑکیوں کی کہانی ہے جو گرمیوں میں اسکین ٹینگ کی پرابلم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سر سے پیر تک پردے کا اہتمام کرتی ہیں، جسے دیکھ کر لوگوں کو یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ کسی مہذب گھرانے کی پردہ نشیں خاتون ہیں، لیکن موسم بدلتے ہی خود ان کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔ طاہرہ بیگم جو اپنی بیٹیوں سے نادرہ اور عالیہ کی تعریفیں کرتی ہیں، دسمبر کے مہینے میں ایک شاپنگ مال میں ان دونوں کو جینز اور ٹاپس میں ملبوس نوجوان لڑکوں کے کندھوں پر ہاتھ مارتے دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہیں اور طاہرہ بیگم جب اس کے حجاب کے متعلق سوال کرتی ہیں تو نادرہ کا یہ جواب حیران کر دیتاہے کہ
”اوہ کم آن آنٹی۔۔۔۔ دسمبر کی دھوپ اتنی تیز نہیں ہوتی کہ اسکین ٹینگ کی پرابلم ہو۔ اور ویسے بھی مال کے اندر کی ہوا پولیوشن فری ہوتی ہے۔۔۔ سو۔۔۔ ناک اور منہ ڈھکنے کی کوئی لاجک بھی نہیں."
”کلائڈو اسکوپ" میں اسلم صاحب کے کردار کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ میرے منہ پر میری اور تیرے منہ پر تیری والا معاملہ ہے۔ اکرم صاحب جس سے بھی ملتے ہیں اس کی تعریف اور دوسروں کی برائیاں کرتے نظر آتے ہیں اور آج ہمارے اِرد گرد ایسے ‘خیر خواہ` کی بہتات ہے۔
جاوید نہال حشمی اپنے بعض افسانچوں میں اشارے کنایے سے بھی کام لیتے نظر آتے ہیں. آئینے میں قید عکس، زندہ کہانی، سرابوں کے قیدی اور عذاب اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ مصنف اپنی بات براہ راست کہنے کے بجائے ایمائیت اور رمزئیت کا سہارا لیتے ہوئے کچھ ذمہ داریاں قارئین پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر اس کا نتیجہ خود اخذ کر لیں۔
جاوہد نہال حشمی ایک اچھے افسانچہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ قابل افسانہ نگار بھی ہیں اور ایک افسانہ نگار جب افسانچہ نگاری کی جانب مائل ہوتا ہے تو ان تمام لوازمات کا خیال رکھتا ہے جو افسانے میں ہوتا ہے. اب یہ مصنف پر منحصر ہے کہ وہ کتنی فن کاری سے اسے صفحۂ قرطاس پر رقم کرتا ہے اور جب ہم کلائیڈو اسکوپ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جاوید نہال حشمی نے اس فن کے ساتھ کوئی مذاق نہیں کیا ہے. میں لفظ مذاق کا استعمال اس لیے کر رہی ہوںکہ آج سوشل میڈیا پر کئی ایسے لوگ ہیں جو افسانچہ نگاری کے نام پر کھیل تماشا کرتے نظر آرہے ہیں، کوئی بے تکا بے ربط سا دو جملہ لکھ کر اسے افسانچے کا نام دے دیتے ہیں، بعض افسانچہ کے نام پر لطیفہ کہتے ہیں، جب کہ افسانچہ ایک سنجیدہ صنف ہے، اس میں مزاح و ظرافت کی کوئی جگہ نہیں، اس کے لیے طنز و مزاح اور انشائیہ جیسے اصناف موجود ہیں۔
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری رقم طراز ہیں کہ
”افسانچہ کھیل تماشا نہیں ہے اور نہ ہی لطیفہ بازی بلکہ افسانچہ کا موضوع بھرپور مواد کا تقاضا کرتا ہے۔ افسانچوں میں اضافی خوبی کے طور پر طنز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے."
کسی بھی واقعہ کو اس طرح پیش کردینا جیسے ہم اپنی ڈائری میں رقم کرتے ہیں، افسانچہ نہیں ہوتا بلکہ خوبی تو یہ ہے کہ اسی واقعہ کو فنی مہارت کے ساتھ اس طرح پیش کیا جائے کہ اس میں افسانچے کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ جاوید نہال حشمی اس ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی کتاب کلائیڈو اسکوپ کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ان کے افسانچوں کے موضوعات کچھ الگ نہیں ہوتے بلکہ عام زندگی میں پیش آنے والے واقعات، روز مرہ کی باتیں، معاشرہ اور اس میں ہونے والی برائیاں جنھیں ہم قابل اعتنا نہیں سمجھتے، گھریلو مسائل وغیرہ ہی ہیں لیکن ان موضوعات کو انھوں نے جس کمال فن سے افسانچے کے سانچے میں ڈھالا ہے وہ قابلِ تعریف ہے. غیر ضروری طور پر افسانچے کی طوالت مٰیں اضافہ نہیں کرتے بلکہ کسی پیغام کی ترسیل کے لیے جتنا کہنا ضروری ہوتا ہے اتنا ہی کہتے ہیں۔
لہٰذا ان صفات کی روشنی میں، میں یہ یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ کلائیڈو اسکوپ افسانچے کی چند بہترین کتابوں میں سے ایک ہے اور جاوید نہال حشمی اگر اسی طرح اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ اہل بنگالہ کو ان پر ناز ہوگا۔
Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata-700017
Mobile-7003222679
Email- fparveen150@gmail.com
***
فرزانہ پروین کی گذشتہ نگارش :جاوید نہال حشمی____پیکر صفات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے