زعفرانی کھیر

زعفرانی کھیر

ارم رحمٰن

کونڈوں کا تہوار بھی ایک موسم کی طرح ہوتا ہے، منتوں مرادوں کا، نذر نیاز کا، فضاؤں میں گرما گرم تازہ میٹھی اور نمکین پوڑیوں کا موسم.
ہر سال حضرت جعفر رضی اللہ کے نام سے منسوب 22 رجب کو بڑی عقیدت سے کونڈوں کا تہوار منایا جاتا ہے.
سنی شعیہ سارے مسالک کے لوگ کونڈے کھانے اور پکانے کو تیار رہتے ہیں، جو نہیں پکاتے وہ دوسروں سے پکواتے ہیں یا جاکر کھاتے ہیں.
پکوان جن میں میٹھی اور نمکین پکوڑیاں، جن کے ساتھ خاص طور پر زعفرانی کھیر پکائی جاتی ہے، جو اکثر مٹی کی ٹھوٹھیوں میں جمائی جاتی ہے. اس پر زعفران، کیوڑے میں گھول کر قطرہ قطرہ ہر ٹھوٹھی پر ٹپکا دیا جاتا ہے، اطراف میں چاندی کے ورق بھی سجا دیے جاتے ہیں، منتیں مانی جاتی ہیں، پھر منت پوری ہوگئی تو اس خوشی میں اور اگر نئی مراد ماننی ہو تو اس فکر میں، غرضیکہ کونڈوں کا تہوار ایک موسم کی طرح ہی ہوتا ہے اور سب مسلمان جوش وخروش سے اس تہوار کو مناتے ہیں لیکن اہل تشیع کے لیے مخصوص ہوتا ہے.
ان دنوں جب شالیمار باغ سے تھوڑا فاصلے پر نقشبندیہ علاقہ کھچا کھچ شعیہ سنی سے بلا تخصیص بھرا ہوا تھا، ذات پات سے پاک تھا، فرقہ واریت کی آگ جگہ جگہ نہیں پھیلی تھی تو ایسے میں اماں زبیدہ کے پڑوس میں ایک شعیہ خاندان عرصہ ہوا آن بسا اور پھر اس گلی میں رچ بس گیا، نقوی صاحب مع بیگم اوران کے چار بچے، ایک بیٹا تین بیٹیاں، وہیں مستقل رہائش پذیر ہوگئے، اماں زبیدہ کے سامنے ہی نقوی صاحب مرے، بیگم بیوہ ہوئیں مگر اماں جی نے ہمیشہ ان کو نقوی صاحب کی بیگم کہہ کر ہی پکارا. وہ عمر میں چھوٹی تھیں اور پنجابی بھی، اس لیے اماں کو زبیدہ آپا کہہ کر پکاریں، اماں اور نقوی صاحب کی بیگم کے گھر کے درمیان ایک دیوار تھی، اگر وہ دیوار ہٹا دی جاتی تو لگتا سب ایک ساتھ رہتے ہیں، کوئی کام ہوتا جھٹ دیوار پر سے آوازیں لگنے لگتیں..
"آپا بات سنو"
جواب میں
آپا پکارتیں،
” ارے نقوی صاحب کی بیگم" چونکہ لمبا نام تھا تو ان کی تین بیٹیوں رفعت، فرحت اور راحت کا نام پکارا جاتا، باپ کے مرنے کے کچھ دنوں بعد ہی دیکھتے ہی دیکھتے اکلوتا بیٹا امریکہ چلا گیا، اچھے پیسے کمانے اور بیٹی رفعت نرسنگ کا کورس کرکے سعودیہ چلی گئی. پیچھے بچیں فرحت، راحت اور نقوی صاحب کی بیگم، راحت کا رشتہ میٹرک کے بعد آیا، اماں زبیدہ اور دیگر رشتے داروں سے صلاح مشورہ کے بعد راحت کی شادی سنی گھرانے کے عمران سے کر دی گئی، بیٹے نے پیسہ بھیجا اور بڑی بیٹی نے پیسوں کے ساتھ شرکت کی، بڑی بیٹی رفعت کی شادی نہ ہوسکی نرسنگ کی وجہ سے، اور فرحت کی موٹاپے کی وجہ سے، وہ بی.اے کرکے سرکاری اسکول میں استانی لگ گئی. 
وقت گزرتا گیا، اماں زبیدہ کی پوتی شبنم بھی بارہ سال کی ہوگئی، اب دیوار پر آوازیں لگا کرتیں، "شبی او! شبی بات سننا"اور شبی جھٹ حاضر. اماں زبیدہ کو کام ہوتا تو جھٹ شبی سے کہتیں "جا فرحت کے گھر جا اور دیوار پہ بلا نقوی صاحب کی بیگم کو"
یہ سلسلہ چلتا رہا، شبی کی آٹھویں کے امتحان کے بعد چھٹیاں ہوئیں تو فرحت نے وزن کم کرنے کا سوچا تو شامت آئی شبی کی، شبی کی ڈیوٹی لگ گئی کہ ہر شام 4 ،5 بجے فرحت آپا کے گھر جائے اور جو بھی اچھل کود، ورزش کے نام پر فرحت کرے، وہ شبی بھی کرے، چارو ناچار شبی بھی اپنے چھوٹے بھائی، بہن کو لے کر پڑوس جا پہنچتی. 
ایک گھنٹے کی اٹھک بیٹھک اور دوڑ بھاگ میں فرحت آپی کا ساتھ دیتی، چھوٹے بچے انھیں دیکھ کر ہنسا کرتے، ایک ماہ میں 12 سالہ شبی مزید پتلی ہوگئی، لیکن 28 سالہ فرحت ایک انچ بھی کم نہ ہوئی، پھر شبی کام کی بھی ماہر تھی کیونکہ زبیدہ آپا کی پوتی، کسی کام میں پیچھے رہ جائے کیسے گوارا کرتیں، لگائے رکھتیں کسی نہ کسی کام میں، ایک دن فرحت آپی نے کہا
"شبی تمھیں ترپائی کرنی آتی ہے"
شبی نے جھٹ سر ہلایا "جی"
فرحت نے ریشمی دوپٹہ لاکر شبی کو دیا کہ ذرا کرنا ترپائی اور شبی صاحبہ شروع، ابھی وہ ترپائی میں منہمک تھی کہ اچانک گھر میں خوشبو کا جھونکا سا آیا پھر کھنکتی ہنسی کی آواز، اس نے چونک کر دیکھا تو ایک گداز بدن سنہری رنگت والی درمیانہ عمر کی خاتون جو سبز ساڑھی میں ملبوس تھی گلے میں سبز موتیوں کی گانی، کانوں میں سنہرے جھمکے، ساتھ میں لمبے بالوں کی ڈھیلی چوٹی کمر پر لہراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی. فرحت آپی کی امی کو سلام کیا لیکن شبی نے شرما کر منہ نیچے کر لیا. پھر کن اکھیوں سے باتیں کرتی اس خوبرو عورت کو دیکھنے لگی. وہ درمیانے قد کی پیاری سی عورت، شبی کی ساری توجہ کھینچ لے گئی. جب فرحت سے باتیں کر رہی تھی تو شبی اسے چپکے چپکے تکے جارہی تھی. فرحت اسے نسیمہ باجی کہہ رہی تھی. کسی بات پر کھلکھلا کر ہنسی تو اس کے بھرے گالوں پر دو کھڈے پڑے، جو شبی کو بہت دل کش لگے. شبی ان گڑھوں کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک نسیمہ نے شبی کے پاس آکر دوپٹہ پکڑ لیا اور بولی
"واہ اتنی اچھی ترپائی"
"پیاری سی بچی کون ہے؟"
شبی شرما گئی، فرحت نے بتایا یہ شبنم ہے، ساتھ والے گھر میں رہتی ہے. 
"اچھا جاؤں گی کسی دن اس کے گھر"  یہ سن کر شبی کے دل میں انجانی سی خوشی کی لہر دوڑ گئی، پھر نسیمہ نے نقوی صاحب کی بیگم سے اکیلے میں کچھ کہا
اور شبی کو یونہی حیران چھوڑ گئی، جاتے ہی شبی نے پوچھا:
"آپی یہ کون تھیں؟" شبی نے جھٹ پوچھا. 
"یہ نسیمہ باجی تھیں، ابھی پچھلے ماہ ہی سامنے والا گھر خریدا ہے انھوں نے."
فرحت نے جواب دیا
” آپی کیا یہ ہندو ہیں؟"
شبی نے اگلا سوال داغا
” کیوں لگا تمھیں؟"
انھوں نے ساڑھی جو باندھی ہوئی تھی، پھر فرحت نے زوردار قہقہہ لگایا. 
"ارے نہیں بدھو !
نسیمہ باجی مسلمان ہیں"
لیکن ملتان سے آئی ہیں، وہاں ساڑھی پہننا فیشن سمجھا جاتا تھا، بس اس لیے ان کو عادت پڑ گئی"
شبی نے دوپٹہ ترپائی کیا اور گھر چلی گئی. 
لیکن سارا وقت نسیمہ کے بارے میں سوچتی رہی، خود کو آئینے میں دیکھتی رہی، نسیمہ سے اپنا موازنہ کرتی رہی. 
"قد تو ان جتنا ہی ہے، بال بھی ان کی طرح کے ہیں، کاش دو گڑھے بھی گالوں میں پڑتے تو کتنا اچھا ہوتا"  شبی منہ کے زاویے بدل بدل کر دیکھتی رہی مگر گڑھے تھے ہی نہیں تو پڑتے کیسے؟
خیر اس نے نسیمہ کی طرح ڈھیلی چوٹی بنائی تو ماں اور اماں زبیدہ نے ٹوکا
” ارے اپنی عمر دیکھ، تو نے کیسے بال بنا لیے عورتوں کی طرح، کھول دے فوراً. اس نے بددلی سے کھول کر بچیوں کی طرح دو چوٹیاں بنا ڈالیں اور ربن باندھ لیے لیکن چپکے چپکے بالوں کو اسی طرح ڈھیلی چوٹی بنا کر آئینے میں دیکھا کرتی، دن گزرتے رہے، کبھی کبھی نسیمہ باجی کا دیدار ہو جاتا، لیکن اب شبی نسیمہ کا انتظار کرتی تھی، بولا تو کبھی کچھ نہیں، لیکن بہانے بہانے سے ذکر چھیڑتی، کبھی کبھی اس کی من کی مراد پوری ہوجاتی اور فرحت آپی کے گھر اچانک نسیمہ باجی خوشبو کا جھونکا بن کر آن پہنچتیں، کبھی نرم سے پیروں میں نازک سی پائل بھی ہوتی، پھر حیدرآبادی چپلوں میں گندمی چمکتے پیر اچھے بھی بہت لگتے، نسیمہ پر ہر رنگ کی ساڑھی جچتی، اکثر ساڑھی ایک رنگ کی ہوتی لیکن بارڈر دوسرے رنگ کا، شاید یہ بھی کوئی اسٹائل ہوگا، شبی تو بس دیکھتی ہی رہ جاتی. 
نسیمہ ہنستی تو گڑھے پڑتے، چلتی تو کولہوں پر چوٹی لہراتی، نسیمہ کی شخصیت اس قدر سحر انگیز تھی کہ اس کے سامنے شبی کو کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا، حتی کہ فرحت آپی بھی. فرحت کی نگاہوں میں حسرت ہوتی کہ کاش وہ بھی اتنی پیاری ہوتیں، شبی یہ بات سمجھ گئی تھی، کہ سانولی موٹی فرحت آپی مجبور تھیں نسیمہ کو سراہنے پر. 
جب شبی خود کو دیکھتی تو اسے صرف دوگڑھوں کی کمی محسوس ہوتی، اسے لگتا کہ وہ ضرور بڑی ہو کر نسیمہ جیسی بن جائے گی. نسیمہ کو اس محلے میں آئے دو ماہ ہو چلے تھے اور نسیمہ نے جو گھر خریدا تھا وہ تھوڑا سا آگے تھا. فرحت آپی کے سامنے والے دو گھروں کو چھوڑ کر تیسرا گھر. 
ساس اور بیٹا تو نہیں لیکن نسیمہ صرف دو گھروں میں گئی. ایک اپنے پڑوس میں دوسرا فرحت کے کیونکہ اس گلی میں فرحت آپی واحد لڑکی تھیں جو تقریباً ان کی ہم عمر تھیں، عمر تو نسیمہ کی فرحت سے زیادہ ہی لگتی تھی، لیکن ان کے مکان خریدنے کے بعد فرحت آپی کے گھر سے پہلی شیرینی گئی تھی کیونکہ نقوی صاحب کی بیگم گیارہویں شریف کو ختم دلاتیں اور گلی کے سات آٹھ گھروں میں خود دے کر آتیں، اس لیے جب ان کے گھر گئیں تو دعوت بھی دے آئیں اور پھر نسیمہ ان کے گھر آئیں، پھر فرحت آپی سے دوستی بھی ہوگئی، 
محلے والوں کو بس اتنا پتا تھا کہ مکان خریدنے والے شخص کا نام خالد ہے اور گھر کے بقیہ افراد میں دو خواتین، بوڑھی ماں اور ایک عدد بیوی نسیمہ شامل ہیں. لیجیے، خاندان مکمل، محلے کے سب گھروں کی چھتیں اکثر ملی ہوتی ہیں، اس لیے کبھی کبھار ساس چھت پر چڑھتی تو دو چار لوگوں کی نظر پڑ جاتی. خالد تو بس رات کو ہی دکھائی دیتا، جانے کیا کام کرتا تھا؟ گھر سے کب نکلتا تھا؟ بس رات کو گھر آتا دکھائی دیتا، صبح کب نکلتا کبھی کسی نے جاتے نہیں دیکھا. 
کچھ دنوں کے بعد ان کے گھر میں بہت چہل پہل دیکھی گئی، غروب آفتاب کے بعد گلی میں کافی مرد آتے اور رات گئے چلے جاتے، کچھ دن تو ٹھیک لگا پھر اہل محلہ کو تشویش ہونے لگی اور پھر خالد کے گھر جا کر تفتیش کی، کہ 20 25 دنوں سے کیا معاملہ چل رہا ہے؟ شام کو اجنبی سے مرد کیوں گھر آتے ہیں؟
کچھ معززین اور بزرگوں نے آپس میں صلاح مشورے کے بعد خالد سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر جا پہنچے. خالد نے بڑی عزت دی. اس کی ماں بھی دوپٹے کا پلو سر پر ڈالے مؤدبانہ انداز میں ملی، استفسار پر بتایا کہ
"میرے شوہر تو بہت پہلے مر گئے تھے اب جیٹھ مرے ہیں یعنی خالد کے تایا تو سارے خاندان والے مجھ سے اور خالد سے افسوس کرنے آرہے ہیں."
خالد چونکہ شام کو ہی گھر ہوتا ہے اس لیے شام کو ملنے آتے ہیں اور جب ہلکا سا اشارہ کیا کہ صرف مرد، عورتیں کیوں نہیں آتیں، تو جواب ملا ملتان سے آتے ہیں، عورتوں بچوں کو کہاں سفر میں لے کر پھریں، پھر ویسے بھی مرد زیادہ ہیں خاندان میں. 
جب روز گار کی بابت دریافت کیا کہ کیا کرتے ہیں خالد میاں؟ تو جواب ملا لاہور آکر روزگار کی تلاش میں صبح نکلتا ہے اور شام کو گھر لوٹتا ہے. 
خیر ایسی باتوں سے معصوم محلے والوں کی تسلی ہو ہی گئی، پھر یہ سلسلہ بند بھی ہوگیا، جب تک چلا، نسیمہ گھر سے باہر نہ نکلی لیکن پھر جب نسیمہ باجی فرحت آپی کے گھر آئیں تو کچھ کم زور لگ رہی تھیں. آنکھوں کے نیچے ہلکے ہلکے حلقے، چہرے پر بھی پہلے جیسی بشاشت نہیں تھی، نہ ان کی ہنسی میں وہ کھنکھناہٹ، انھوں نے نقوی صاحب کی بیگم کے ہاتھ میں کچھ پکایا، جسے شبی نہی دیکھ سکی. شبی چونکہ نسیمہ کی دیوانی تھی، وہ سر سے پیر تک اس کا جائزہ لیتی رہتی، کس رنگ کی ساڑھی پہنی؟ کیسا بارڈر تھا؟ کیسی چوڑیاں کیسے جھمکے؟ اس بار شبی نے محسوس کیا کہ نسیمہ باجی کے بازو پر خراشوں کے نشان تھے، گردن اور کمر پر بڑے گلے کی وجہ سے عجیب سے گہرے رنگ کے نشان نمایاں نظر آرہے تھے. ڈھیلی چوٹی چونکہ سینے پر آگے پڑی تھی لہذا کمر پر سب کچھ واضح تھا، ہر لکیر، خراش، لال نیلے نشان. 
شبی تو ایکس رے کرتی رہی، جب وہ چلی گئیں تو شبی نے حسب عادت پوچھا "فرحت آپی نسیمہ باجی کو کیا ہوا تھا، وہ بہت دنوں بعد آئیں، زخمی تھیں، لگتا ہے گری ہوں گی." شبی نے خود ہی سوال سوچے، اور خود ہی جواب بھی دے ڈالا. 
نقوی صاحب کی بیگم نے جواب دیے بنا فوراً کہا "جاؤ شبی گھر جاؤ لگا ہے آپا زبیدہ نے آواز دی ہے."
شبی حیران ہوئی کہ اس نے اپنی دادی کی آواز نہیں سنی لیکن خیر شاید نہ سن سکی ہو اور فوراً چلی گئی، 
پھر کچھ دن بالکل خاموشی چھا گئی، پندرہ بیس دنوں میں نسیمہ باجی پھر چہکنے لگیں، زخم بھی دھندلا گئے کہ اچانک پھر غلغلہ سا مچا، پھر تین تین چار چار مردوں کی ٹولی خالد کے گھر آنے لگی اب کی بار کون مرا؟ کچھ دن صبر کیا. پھر اہل محلہ کو فکر لاحق ہوگئی. 
پھر سر جوڑے صلاح مشورے ہوئے، محلے کے سب بظاہر بڑے بلائے گئے, جو پہلے مطمئن تھے اب ان کے دلوں میں بھی کھد بدھ ہوئی، معززین اور سفید ریش بزرگ اکٹھے ہوئے ان سب کا خیال تھا کہ شفقت پدری سے محروم خالد کی داد رسی کی جائے، اگر کسی مسئلے سے دوچار ہے تو! یا پوچھ گچھ کی جائے، کچھ اصرار کچھ تکرار کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ شرفا کے محلے میں رات کو غیر مردوں کا تانتا کاہے بندھا رہتا ہے؟
اور تو کسی گھر میں کسی خوشی، غم کے مواقع پر اتنے اتنے دنوں تک ایسی لگاتار گہما گہمی دیکھی نہ سنی!
سب کچھ توڑ جوڑ کرکے پھر خالد میاں کے گھر جا پہنچے. 
تو عقدہ کھلا خالد کو ابو ظہبی میں نوکری مل گئی. اس لیے پھر سے رشتے دار ملنے چلے آرہے ہیں. اب بھی کوئی عورت دیکھی نہ گئی، تو پتہ لگا کہ عورتیں پردہ دار ہیں پھر ملتان سے کون آئے؟ ایسا بھی کیا پردہ کہ ساس بھی منہ کھولے سامنے آئے اور خیر سے بہو تو دوپٹہ تو کبھی سر پر کیا لیتیں، زیادہ تر ساڑھی پہنتی، وہ بھی بڑے گلے والے بلاؤز کے ساتھ. 
ساڑھی کا پلو بھی سینے پر ایک طرف ہی پڑا رہتا، بلاؤز اور پیٹی کوٹ کے درمیان سنہرا بدن صاف دکھائی دیتا. سامنے بھی ساڑھی کا پلو برائے نام سا، سینے کو صحیح طرح ڈھانپتا نہ پیٹ کو، بسا اوقات اگر پیٹی کوٹ تھوڑا نیچے باندھا جاتا یا کھسک کر نیچے ہو جاتا تو گہری ناف باریک پلو کی آڑ سے چمکتی دکھائی دیتی، تو کیسا پردہ اور کس سے پردہ ؟؟
اب مہمان داری پہلے سے بھی زیادہ تھی، پھر 21، 20 دن لگ گئے اور اللہ اللہ کرکے خالد میاں ابوظہبی سدھار گئے، لیکن کبھی کبھی پیچھے کار اور رکشے میں کوئی ملنے آتا رہتا، محلے والے کر بھی کیا سکتے تھے، ان لوگوں نے گھر خریدا تھا کرائے پر تولیا نہیں تھا، جو بار بار ان سے پوچھ گچھ کرتے یا کہیں تھانے میں رپٹ لکھواتے،
آخر کو ہوا ہی کیا تھا؟
گھر ان کا، 
مہمان ان کے، 
باقی محلے کو کیا لینا دینا
اب کیا کیجیے صبر کے سوا، 
کہ جب سے یہ لوگ آئے ہیں تو کچھ کچھ دن بعد عجیب ہلچل سی مچ جاتی ہے اور جب پوچھو تو ہر بار جواب بھی ملے کرارا، اب جب کہ گھر کا اکلوتا مرد بھی پردیس چلا گیا تو دو چار دن بعد گاڑی اور رکشے پر کون آتا ہے؟
پھر گلی والے بھی خود ہی سوچوں کے تانے بانے بنتے رہتے کہ رشتے دار، دو تنہا خواتین کا حال دریافت کرنے آتے ہوں گے؟
چونکہ محلے والوں میں سے کسی مرد سے ابھی تک خاص شناسائی نہیں ہوئی تھی لہذا جھجھکتی ہوں گی، لیجیے ہر سوال کا جواب بھی بن ڈالا، بندہ بندہ اپنے تئیں سوچ بچار کرکے چپ ہو رہا کہ کس سے کیا کہیں؟ کہیں ہماری ہی سبکی نہ ہو جائے، اللہ پر چھوڑ کے سب چپکے ہو رہے، پھر باجی نسیمہ پورے ماہ فرحت آپی کے گھر نہیں آئیں، فرحت بھی دکھی تھی، لیکن شبی تو اس قدر بے چین تھی کہ بس نہیں چلتا تھا کہ گھر پہنچ جائے، لیکن نقوی صاحب کی بیگم نے فرحت کو اور آپا زبیدہ نے شبی کو سختی سے منع کر رکھا تھا کہ کبھی کسی کے گھر نہیں جانا اور نسیمہ کے گھر تو ہرگز نہیں، حالانکہ اب تو گھر میں دو عورتیں ہی تھیں پھر بھی نہیں جانا، بھلا یہ کیا بات ہوئی؟
شبی اور فرحت دونوں ہی بے چین تھیں، کیونکہ فرحت نے تو کتنی بالیاں، انگوٹھیاں، چوڑیاں نسیمہ کو دے ڈالی تھیں اور نسیمہ تھی بھی تو اتنی پیاری اور من موہنی باتیں کرنے والی، اس کے سوا اور تھا ہی کون جو ان دونوں سے ملنے آتا، آخر فرحت نے چپکے سے شبی کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا کہ ایک دن شبی فرحت کے گھر سے واپس جاتے ہوئے نسیمہ باجی کو دروازے پر سے ہی بلاوا دے گی، کہ فرحت آپی سے ملنے گھر آئیں، شبی فوراً مان گئی، کیونکہ دونوں ہی نسیمہ کی اسیر تھیں، پھر یہ ہی ہوا کہ شبی گھر سے نکلی، اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے نسیمہ کے گھر کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا، دروازہ جھٹ سے کھل گیا، جیسے کھلنے ہی والا ہو، یکا یک ایک مرد نکلا اور شبی کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا، جب کہ نسیمہ چونک گئی اور شبی نے ایک دم کہا:
"شام کو فرحت آپی سے ملنے آئیے گا"
یہ کہہ کر جواب لیے بنا اپنے گھر بھاگ گئی. 
شبی، شام کو ہی جا پہنچی فرحت کے گھر اور اس کے پہنچنے کے دس منٹ بعد ہی نسیمہ پہنچ گئی. 
نسیمہ نے آج پیازی رنگ کی ساڑھی پہنی تھی، ہرے بارڈر کے ساتھ اور ناک میں لونگ بھی گلابی، غضب ڈھا رہی تھیں ہاتھوں میں سونے کے کنگن، فرحت اور شبی اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے. شبی کو ایک دم یاد آیا کہ نسیمہ باجی کہیں شبی کا راز نہ کھول دیں کیونکہ وہ جلدی میں کہنا بھول گئی تھی کہ اس کے آنے کا کسی کو نہ بتائیے گا. 
اب اس کا رنگ اڑ گیا،
لگ رہا تھانسیمہ باجی فرصت سے آئی تھیں. 
پھر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں اور فرحت نے کہا کہ باجی "کونڈے کریں گی آپ؟" "نہیں اس سال نہیں۔۔۔" نسیمہ نے انکار کر دیا. 
"لیکن ہمارے گھر کھیر پکانے تو آئیں گی نا"
فرحت نے لاڈ سے پوچھا. 
” ہاں، کیوں نہیں."
پھر ہلکا سا مسکرا کر چپ ہوگئیں اور نازک کلائی میں کنگن ہلانے لگیں.
"بہت پیارے ہیں باجی" فرحت نے شرماتے ہوئے نسیمہ سے کہا. 
نسیمہ مسکرائی اور شبی کی اڑی رنگت دیکھ کر اس کے گال پر ہاتھ پھیرا پھر بولی "تمھیں بھی پسند ہیں نا" شبی کی جان میں جان آگئی کہ نسیمہ آپی نے اس کا خوف سمجھ لیا، پھر شبی نے شرما کر گردن ہاں میں ہلا دی. 
نسیمہ مسکرائی کہ "بڑے ہو کر تم بھی پہننا"
پھر فرحت کی امی یعنی نقوی صاحب کی بیگم گرچہ کم گو تھیں لیکن کنگن دیکھ کر ان سے بھی رہا نہیں گیا، بولیں:
"ارے نسیمہ! خالد نے پیسے بھیجے تھے کیا؟"
"جی خالہ!
ان کی ہی فرمائش تھی اور تاکید بھی کہ پہلی بار جو پیسے بھیجے ہیں تو کنگن بنوانا."
یہ کہہ کر منہ نیچے کر لیا.
"چلو اچھی بات ہے مبارک ہو."
یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئیں، پھر فرحت باجی کے اسکول کا حال اور شبی سے باتیں کرتی رہی، شبی نے پھر محسوس کیا کہ نسیمہ کے بدن پر جگہ جگہ کھرونچیں سی ہیں، گردن پر بھی، گانی کے نیچے بھی کچھ گہرا نشان، شبی کے مسلسل تکنے سے ایک دم نسیمہ کو کچھ عجیب سا احساس ہوا، وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، جب جانے لگی تو فرحت کو خیال آیا کہ دعوت کا وقت تو بتایا نہیں۔۔
نسیمہ کو جاتا دیکھ فرحت آپی تیزی سے بولیں
"باجی پرسوں شام کو آجانا مل کر پوڑیاں اور کھیر بنائیں گے."
نسیمہ باجی نے چوٹی ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی، وہ ادا سے پیچھے پھینکی، مسکرا کر بولی کہ ہاں ضرور اور دو گڑھے پڑ گئے، شبی کا دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ اب پرسوں محفل جمے گی، پھر جب وہ مغرب کے بعد آئی تو شبی اور اس کی دادی اماں زبیدہ بھی موجود تھیں
لیکن نسیمہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی جیسے سارا گھر جگمگا اٹھا، بلکل سفید ساڑھی اس پر پیلا بارڈر ناک میں چاندی کی لونگ چمکتے شفاف نگ والی لمبے بالوں کی ڈھیلی چوٹی کمر پر لہراتی ہوئی. 
پتہ نہیں کون سا عطر لگایا تھا کہ پورے گھر کی فضا مہک اٹھی، شبی مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھی، اسے لگ رہا تھا کہ جیسے سفید ساڑھی کھیر ہے پیلا بارڈر زعفران اور ناک میں لونگ جیسے چاندی کا ورق. 
نسیمہ باجی کتنی حسین ہیں! اس وقت تو لذیذ کھیر لگ رہی ہیں، لیکن صرف سوچا، بولنے کی ہمت کب تھی اس معصوم میں. 
آج فرحت اور شبی کے مزے تھے، نسیمہ باجی ان کے ساتھ تین گھنٹے رہیں، مزے مزے کی باتیں کیں، ہنسی مذاق ہوئے، ملتان کا کوئی مزے دار قصہ سنایا اور جب وہ کھلکھلا کر ہنستیں تو ہنسی کے جھرنے پھوٹتے، بہت رنگا رنگ محفل جمی، کھیر بنوائی، ٹھوٹھیوں میں جمائی، زعفران کیوڑے میں ڈال کر قطرہ قطرہ ہر ٹوٹی کے درمیان میں پکایا، جو کچھ دیر بعد تھوڑا پھیل کر کھیر میں جذب ہوگیا، پھر اس پیلے دائرے کے اطراف میں چاندی کے ورق لگائے، فرحت آپی نے پوڑیاں بیلیں اور تلیں، جب دس بجنے والے تھے تو نسیمہ باجی نے اجازت مانگی، سب کام تو ہو ہی چکا تھا، اس لیے نقوی صاحب کی بیگم نے روکنے کی بجائے شکریہ کہا، جاتے ہوئے فرحت آپی نے چار ٹھوٹھیاں پکڑا دیں کہ
"باجی آپ کی ساس کے لیے کیونکہ وہ تو کہیں جاتی نہیں."
نسیمہ مسکرائی اور سلام دعا کرکے چل پڑی، شبی دروازے تک چھوڑنے بھاگی کیونکہ نسیمہ کا چلنا اسے بہت پسند تھا، نسیمہ کی چال ایسی تھی کہ چوٹی دائیں بائیں کولہوں پر ہلتی رہتی، پتہ نہیں کیسے؟
ابھی وہ دروازے سے نکلی ہی تھی کہ فرحت نے آواز دی "شبی کہاں رہ گئی" شبی نے بد دلی سے کہا "جی آئی"
جب کہ شبی کی خواہش تھی کہ نسیمہ کو نظروں ہی نظروں میں گھر تک چھوڑ کر آئے، جب تک وہ گھر نہ پہنچے اس کی ہلتی چوٹی اور چال دیکھتی رہے، لیکن آواز سن کر اس نے دروازہ بند کردیا اور پھر ایک دم جیسے باہر کچھ گرنے اور گاڑی چلنے کی آواز آئی، لیکن اس سے پہلے شبی دوبارہ دروازہ کھول کر دیکھتی فرحت نے دوسری آواز لگائی اور وہ بھاگ کر پہنچی "جی آپی"
"ارے یہ پانی کا دیگچہ گر گیا صاف کردے پانی، کوئی پھسل نہ جائے، میں یہ آخری پوڑیاں تل لوں."
سارا کام سمیٹ کر جب آپا زبیدہ اور شبی اپنے گھر جانے کے لیے نکلیں تو شبی نے دیکھا نسیمہ باجی کے گھر کے سامنے کسی بڑی گاڑی کے ٹائروں کے نشان کیچڑ کی وجہ سے نمایاں نظر آرہے تھے، ٹھوٹھیاں ٹوٹی پڑی تھیں اور زعفرانی کھیر کتے چاٹ رہے تھے.
***
ارم رحمٰن کا گذشتہ افسانہ:داغ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے