کالو کا درد، کرشن کا دل

کالو کا درد، کرشن کا دل

افسانہ : کالو بھنگی
افسانہ نگار : کرشن چندر
تجزیہ : غضنفر

مرکزی کاشانے میں مقیم کرشن چندر کے کالو بھنگی کو دیکھنے سے پہلے حاشیائی ٹھکانے میں رہنے والے اوم پرکاش بالمیکی کا یہ بیان سنیے:
’’جو دلت نہیں، وہ دلت ادب کی تخلیق نہیں کر سکتا کیوں کہ دلت خود جس استحصال کا شکار ہوتا ہے، اس استحصال سے پیدا ہونے والے کرب کا بیان دلت ہی پوری شدّت کے ساتھ کر سکتا ہے۔ غیر دلت تخلیق کار تو ہمدردی میں اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ وہ اس شدّتِ کرب کو کیا جانے جسے دلت نے صدیوں تک محسوس کیا ہے۔‘‘
’دلت ساہتیہ کا سوندر یہ شاستر‘ میں دیا گیا اوم پر کاش بالمیکی کا یہ بیان شاید اس لیے شِدّت اختیار کر گیا کہ حاشیہ مرکز کی متواتر مار سے مدّتوں تک سیاہ ہوتا رہا ہے۔ حاشیے کی سیاہی اور گاڑھی ہوتی جائے اس کے لیے ایسی ایسی سازشیں رچی گئیں کہ حاشیے پر بسنے والوں کا احساس تک مرگیا۔ اُن سے ان کے حواس چھن گئے۔ نتھنوں تک خوشبو نہ پہنچے اور دل و دماغ تر و تازہ نہ ہوں اس کے لیے ان کی سماعت میں ایک کہانی ڈال دی گئی کہ پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے۔
عقل کا پودا ہرا بھرا نہ ہو اور ان میں شعور و ادراک کی کونپلیں نہ پھوٹیں، اس کے لیے ایسا کچھ کردیا گیا کہ حاشیائی افراد اپنے مہین اور ذائقے دار اناجوں کو موٹے جھوٹے اناجوں سے بدلنے لگے۔
دیو وانی سن کر دانش مندی پاس نہ آجائے، اس کے لیے کچھ کانوں میں سیسہ ڈال کر باقی سماعتوں کو دہشت زدہ کردیا گیا تاکہ کوئی دیووانی کے بول تک جانے کی ہمت نہ کرسکے۔
معاشی حالت کمزور ہو جائے اس کے لیے دھرم کرم اور سنکٹوں سے ندان کے نام پر ا ن سے دچھنا لینے اور ان کی کھاد سامگری کو ہون کنڈ کی آگ میں جھونک دینے کی پرتھائیں ایجاد کی گئیں اور ان پر تھاؤں پر عمل کرنے کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائی گئی کہ حاشیے پر بسنے والے خوشی خوشی اپنا سر مایہ آگ کی نذر کرنے لگے۔
انجام یہ نکلا کہ وہ دانے دانے کو محتاج ہوگئے اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر سانپ بچھّو، چوہا، بلی یہاں تک کہ مردہ جانوروں کا سڑا ہوا مانس بھی کھانے لگے۔ ان کی بصارت پر ایسا جادو کردیا گیا کہ دوسرے کے گھر آنگن کی صفائی کے وقت کونے کھدروں کی گندگی اور نابدانوں کے کیڑے تو دکھائی دینے مگر اپنے آس پاس کی غلاظت اور موری کے پلّو انھیں نظر نہ آسکے۔ مختصر یہ کہ حاشیے کا رشتہ، رنگ سے، خوشبو سے، لمس سے، ذائقے سے، صوت سے، شعور سے ہر ایک سے ٹوٹتا گیا۔ حواس سے محروم حاشیے کے رنگ روپ اور سیاہ پڑتے گئے اور مرکز میں بیٹھے ادیبوں کی نگاہیں حاشیے کے سیاہ رنگوں سے مسلسل چشم پوشی کرتی رہیں۔ حاشیے کے لب چیختے رہے اور مرکز کے مفکّروں کی سماعت بہری بنی بیٹھی رہی۔ ایک طرف کا احساس مرتا رہا اور دوسری جانب کا احساس مون دھارن کیے ہوئے موت کا تماشا دیکھتا رہا۔ ایک کے حواس اپنی حرکت و حرارت کھوتے رہے اور دوسرے کے حواس اس جاں کاہ اور جاں گُسِل عمل پر بھی بے عملی اور سردمہری کا ثبوت دیتے رہے۔ ان سب کے باوجود اوم پرکاش بالمیکی کے ’دلت ساہتیہ کا سوندریہ شاستر‘ کے اس بیان کا سچ پورا سچ نہیں ہے۔ اس سچ میں کرودھ اور آکروش کی وہ آگ بھی شامل ہے جو بھڑکتی ہے تو سب کو لپیٹ میں لیتی ہے۔ ہر ایک کو بھسم کر دیتی ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑتی۔ دراصل یہ بیان غصّے سے مشتعل ہاتھوں کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیوں کی مانند ہے جن کی زد میں بے قصور چھاتیاں بھی آجاتی ہیں۔
اوم پرکاش بالمیکی کے اس بیان کا واضح مقصد یہ ہے کہ جو دلت نہیں، وہ دلت ادب کی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اب ذرا اس تصویر پر نظر جمائیے:
’’ کالو بھنگی اپنی پرانی جھاڑو لیے، اپنے بڑے بڑے ننگے گھٹنے لیے، اپنے پھٹے پھٹے کھردرے بدہیئت پاؤں لیے، اپنی سوکھی ٹانگوں پر ابھری وریدیں لیے، اپنے کولھوں کی ابھری ابھری ہڈیاں لیے اپنے بھوکے پیٹ اور اس کی خشک جلد کی سیاہ سلوٹیں لیے اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر گرد آلود بالوں کی جھاڑیاں لیے، اپنے سکڑے سکڑے ہونٹوں، پھیلے پھیلے نتھنوں، جھرّیوں والے گال اور اپنی آنکھوں کے نیم تاریک گڑھوں کے اوپر ننگی چندیا ابھارے میرے ذہن کے کونے میں کھڑا ہے۔‘‘ ۱؎
’’ میں سات برس کا تھا جب میں نے کالو بھنگی کو پہلی بار دیکھا۔ اس کے بیس برس بعد جب وہ مَرا، میں نے اسے اسی حالت میں دیکھا۔ کوئی فرق نہ تھا۔ وہی گھٹنے، وہی پاؤں، وہی رنگت، وہی چہرہ، وہی چندیا، وہی ٹوٹے ہوئے دانت، وہی جھاڑو جو ایسا معلوم ہوتا تھا، ماں کے پیٹ سے اٹھائے چلا آرہا ہے۔ کالو بھنگی کی جھاڑو اس کے جسم کا ایک حصہ معلوم ہوتی تھی، وہ ہر روز مریضوں کا بول و بزاز صاف کرتا تھا، ڈسپنسری میں فنائل چھڑکتا تھا، پھر ڈاکٹر صاحب اور کمپونڈر صاحب کے بنگلوں میں صفائی کا کام کرتا تھا۔ کمپونڈر صاحب کی بکری اور ڈاکٹر صاحب کی گائے کو چرانے کے لیے جنگل لے جاتا اور دن ڈھلتے ہی انھیں واپس ہسپتال میں لے آتا اور مویشی خانے میں باندھ کر اپنا کھانا تیار کرتا اور اسے کھاکر سو جاتا۔ بیس سال سے اسے میں یہی کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا – ہر روز، بلا ناغہ‘‘ ۲؎۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ کالو بھنگی کی تصویر ہے جسے حاشیے پر رہنے والے کسی اوم پرکاش بالمیک نے نہیں بنائی ہے بلکہ طبقہً اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کرشن چندر نے بنائی جو ہمیشہ مرکز میں ہے۔
_ کرشن چندر کے ہاتھوں بنائی گئی اس تصویر میں کیا ایک ایسا کردار نہیں ابھرتا جو صرف نام کا ہی نہیں بلکہ مقدر کا بھی کالو ہے۔ جس کے رنگ، روپ اور خط و خال میں ہی نہیں، دل، دماغ اور روح میں بھی سیاہی بھری ہوئی ہے۔ جس کے ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے، جس کی اپنی ذات سے لے کر آبا و اجداد کی حیات تک میلا اٹھانے اور گندگی میں زندگی گزارنے کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
— کیا اس کردار میں ایک کم حیثیت، کم ذات، کم زور، کم سخن، کم فہم اور کم نصیب انسان کا پیکر نہیں ابھرتا؟
— کیا اس کے حلیے سے ایک دریدہ، نا تراشیدہ، ستم رسیدہ اور مرکز گزیدہ آدمی کا ہیولا نہیں جھانکتا؟
— کیا اس کے سراپے سے ایک مفلس، مظلوم، مفلوک الحال اور مضطرب متنفس کے سینے کا درد نہیں جھلکتا؟
— کیا اس کے ماتھے پر کسی میلے مقدر کا میل دکھائی نہیں دیتا؟
— کیا اس کے کٹے پھٹے اور دبے کچلے انگوں اور سیاہ سلوٹوں والی رنگت سے وہ جبر منعکس نہیں ہوتا جسے کوئی مجبور و معذور اور معتوب و مقہور خاموشی سے سہہ رہا ہے۔
— کیا اس کے ہونٹوں پرکسی باہری دباؤ اور باطنی تناؤ سے پیدا ہونے والی کوئی خاموش چیخ سنائی نہیں دیتی؟
— کیا یہ کردار اپنے رنگ، ڈھنگ، رہن سہن اور کام کاج سے حاشیائی کردار نہیں لگتا؟
اگر آپ نے ایمان داری اور معروضی نقطۂ نظر سے ان تحریروں کو دیکھا ہوگا تو ضرور آپ کا جواب اثبات میں ہوگا اور اس کھردرے بد ہئیت پاؤں، سوکھی ٹانگوں، ابھری ہڈیوں والے کولھوں، بھوکے پیٹ، سیاہ سلوٹوں والی خشک جلد، سکڑے سکڑے ہونٹوں، پھیلے پھیلے نتھنوں، جھریوں والے گال، تاریک گڑھوں والی آنکھوں والے میلے کچیلے، دبے کچلے دلت آدمی کے درد کا احساس ضرور ہوا ہوگا، مگر یہ تحریریں کسی دلت ادیب بھگوان داس یا اوم پرکاش بالمیکی کی نہیں بلکہ ایک ایسے ادیب کی ہیں جو اپنی ذات یا معاشی و معاشرتی حالات کسی بھی اعتبار سے دلت نہیں ہے؟ اور جو حاشیے پر نہیں بلکہ مرکز میں رہا ہے اور جس نے فلم نگری کے چکا چوندھ ماحول اور جنت نشاں کشمیر کی رومانی و روح پرور فضاؤں میں نہایت ٹھاٹ باٹ کی شان دار زندگی گزاری ہے۔
اس غیر دلت تخلیق کار، جس کا نام کرشن چندر ہے، نے اس حاشیائی کردار کو نہ صرف یہ کہ سات سال کی عمر سے لے کر اس کی موت تک اپنے ذہن میں بٹھائے رکھا بلکہ اسے دردمند آنکھوں سے مسلسل دیکھتا رہا، اس پر متواتر سوچتا رہا اور لگاتار اسے بدلنے کی فکر میں گھلتا بھی رہا۔ اس تخلیق کار نے کالو کو صرف اس کے اپنے چوکٹھے میں ہی نہیں دیکھا بلکہ اسے ایک بڑے تناظر میں رکھ کر دیکھا تاکہ کالو کی زندگی کی سیاہی پوری طرح روشن ہوسکے۔ اس کے جسم و جان میں پیوست معاشرتی، طبقاتی، تہذیبی اور دستوری تمازت کی ساری سوئیاں دکھائی دے سکیں۔ کبھی اس کا موازنہ اسی کے ساتھ کام کرنے والے خلجی کمپاؤنڈر سے کیا:
’’جو مڈل پاس تھا، تیس روپے تنخوا پاتا تھا۔ پندرہ بیس اوپر سے کمالیتا تھا۔ خلجی جو جوان تھا  جو محبت کرتا تھا۔ جو چھوٹے سے بنگلے میں رہتا تھا۔ جو اچھے ادیبوں کے افسانے پڑھتا تھا اور عشق میں روتا تھا۔ جس نے نوراں سے عشق کیا۔ اس سے پہلے بیگماں سے پھر ریشماں اور جانکی سے۔‘‘ 
اس کے برعکس
’’ کالو بھنگی نے بیگماں کی لہو اور پیپ سے بھری ہوئی  پٹّیاں دھوئیں۔ ریشماں کی غلیظ پٹّیاں صاف کیں جانکی کی گندی پٹّیاں دھوئیں اور نوراں کا پخانہ اُٹھاتا رہا تین ماہ دس روز تک۔
کالو بھنگی نے ریشماں کو جاتے ہوئے دیکھا۔
اس نے نوراں کو جاتے ہوئے دیکھا لیکن وہ کبھی دیوار  سے لگ کر نہیں رویا۔‘‘
اور کبھی چپراسی بختیار سے:
’’جس کو پندرہ روپے تنخواہ ملتی ہے اور جب کبھی وہ ڈاکٹر یا کمپاؤنڈر یا ویکسی نیٹر کے ہمراہ دورے پر جاتا ہے تو اسے ڈبل بھتہ اور  سفر خرچ بھی ملتا ہے۔ پھر گاؤں میں اس کی اپنی زمین بھی ہے اور ایک چھوٹا سا مکان بھی. اس کی بیوی ہے۔ تین بچّے ہیں۔ بختیار کی
زندگی میں بھی افسانے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوب صورت افسانے مگر کالو بھنگی ان نعمتوں سے محروم ہے۔ ‘‘
کالو کبھی دیوار سے لگ کر اس لیے نہیں رویا کہ اس نے کبھی عشق نہیں کیا۔ اس نے عشق اس لیے نہیں کیا کہ عشق کے لیے خلجی کی طرح جوان دکھنا پڑتا ہے. جوان دکھنے کے لیے چہرے پر رنگت لانی ہوتی ہے. آئینے کے سامنے سنورنا پڑتا ہے۔ سفید لٹھّے کی شلوار پہننی پڑتی ہے. قمیض پر کلف لگانا پڑتا ہے۔ خوشبو دار تیل لگا کر کنگھی کرنا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا
ہے جب تنخواہ بیس روپے سے زیادہ ہوتی ہے. یا کچھ اوپر کی کمائی بھی ہوتی ہے۔ اگر کالو کی تنخواہ بھی بیس روپے ہوتی، وہ بھی مڈل پاس یا فیل ہوتا، اُسے بھی وراثت میں کچھ کلچر، تہذیب، تھوڑی سی انسانی مسرت ملی ہوتی تو ضرور وہ بھی عشق کرتا۔ بختیار کی طرح اس کی زندگی میں بھی خوب صورت افسانے ہوتے۔ خلجی کی طرح عشق میں وہ بھی ہنستا اور روتا بھی مگر آٹھ روپیوں میں وہ پیٹ کی اینٹھنوں کو سنبھالتا یا دل کے تاروں کی طرف توجہ کرتا. اسی لیے اس کے دل کے تار جھنجھنا نے سے پہلے ہی بے آواز ہوگئے اور وہ یہ بھی نہیں جان پایا کہ عشق ہوتا کیا ہے؟
’’ تمھارا جی نہیں چاہتا کالو بھنگی؟‘‘
’’کیا صاحب؟‘‘
’’عشق کرنے کے لیے جی چاہتا ہے تمھارا؟‘‘شاید کسی سے محبت کی ہو گی جبھی تم نے اب تک شادی نہیں کی.‘‘
’’عشق کیا ہوتا ہے صاحب؟‘‘
’’عورت سے عشق کرتے ہیں لوگ ۔‘‘
’’عشق کیسے کرتے ہیں صاحب شادی تو ضرور کرتے ہیں۔ بڑے لوگ عشق بھی کرتے ہوں گے چھوٹے صاحب مگر ہم نے نہیں سنا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں.‘‘
اس موازنے میں کرشن چندر نے جہاں یہ دکھایا ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں کالو کتنا کمتر اور بدتر ہے وہیں اس نکتے کو بھی اجا گر کردیا ہے کہ کم مائیگی انسان کے نازک احساسات کو کس طرح کچل کر رکھ دیتی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی فراہم کردیا ہے کہ کرشن کے اندر کا فن کار کالو کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کے اندرون میں اتر کر اس کی نفسیاتی گرہیں بھی کھولتا ہے اور اس عمل میں وہ کالو کے اتنے قریب چلا جاتا ہے کہ آدمی کی جون میں پیدا ہونے والا کالو کچھ اور دکھائی دینے لگتا ہے:
’’……گائے اور بکری دونوں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملائے چلے آتے تھے۔ گویا تین دوست سیر کو نکلے ہیں۔کالو بھنگی سنبلو توڑ توڑ کر بکری کے منہہ میں ڈال رہا ہے اور خود بھی کھا رہا ہے اور آپ ہی آپ باتیں کررہا ہے اور ان سے بھی باتیں کیے جارہا ہے اور وہ دونوں جانور بھی کبھی غرّا کر، کبھی کان پٹھپھٹا کر، کبھی پاوں ہلاک، کبھی دم دباکر، کبھی ناچ کر، کبھی گا کر ہر طرح سے اس کی گفتگو میں شریک ہورہے ہیں۔ پھر چند
لمحوں بعد کالو بھنگی آگے چلنے لگتا تو گائے بھی چرنا چھوڑ دیتی اور بکری بھی جھاڑی سے پرے ہٹ جاتی اور کالو بھنگی کے ساتھ چلنے لگتی. آگے کہیں چھوٹی سے ندی آتی یا کوئی ننّا منّا چشمہ تو کالو بھنگی وہیں بیٹھ جاتا بلکہ لیٹ کر وہیں چشمے کی سطح سے اپنے ہونٹ ملادیتا اور جانوروں کی طرح پانی پینے لگتا اور اسی
طرح وہ دونوں جانور بھی پانی پینے لگتے کیونکہ بیچارے انسان تو نہیں تھے کہ اوک سے پی سکتے ۔‘‘
اور کرشن چندر کا یہ مشاہدہ بھی ہم تک پہنچ جاتا کہ ہمارے ہی درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو انسان ہوتے ہوئے بھی اوک سے پانی پینا بھول چکے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی حالت جانوروں جیسی ہوچکی ہے اور جو منہہ سے کچھ نہیں کہتے، ان کا دل کیا چاہتا ہے، کالو کے اندر داخل ہوکر کرشن چندر نے اس کا بھی پتا لگایا اور ایسے لوگوں کے لیے خود تخلیق کار کے شعور اور لاشعور کی کیا خواہش ہے، اس تک بھی رسائی حاصل کی۔
’’ تو چاہتا ہے کہ کوئی تیرے گندے کھردرے پائوں دھو ڈالے۔ دھو دھو کے ان سے غلاظت دور کرے، ان کی بیائیوں پر مرہم لگائے، تو چاہتا ہے تیرے گھٹنوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں گوشت میں چھپ جائیں۔ تیری رانوں میں طاقت اور سختی آجائے، تیرے پیٹ کی مرجھائی ہوئی سلوٹیں غائب ہوجائیں، تو چاہتا ہے کوئی تیرے ہونٹوں میں رس ڈال دے۔ انھیں گویائی بخش دے۔ تیری آنکھوں میں چمک ڈال دے، تیرے گالوں میں لہو بھر دے، تیری چندیا کو گھنے بالوں کی زلفیں عطا کرے۔ تجھے ایک مصفا لباس دے دے، تیرے ارد گرد ایک چھوٹی
سی چار دیواری کھڑی کردے، حسین، مصفا، پاکیزہ۔ اس میں تیری بیوی راج کرے، تیرے بچے قہقہے لگاتے پھریں‘‘
اور اسی خواہش اور جذبے کے تحت کرشن چندر نے کالو کی تنخواہ کو الٹ پھیر کر بار بار دیکھا بھی:
’’ہر بار ان آٹھ روپیوں کو الٹ پھیر کے دیکھتا ہوں۔
چار روپیے کا آٹا، ایک روپے کا نمک، ایک روپے کا تمباکو، آٹھ آنے کی چائے، چارآنے کا گڑ، چار آنے کا مصالحہ، سات روپیہ اور ایک روپیہ بنیے کا۔‘‘
تنخواہ کے ان روپیوں کو بار بار الٹ پھیر کر کرشن چندر نے اس لیے دیکھا کہ کہیں سے کوئی گنجائش نکل آئے تاکہ کالو پیٹ کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی کچھ تازگی پہنچا سکے۔ اپنے چہرے کو سجا سکے۔ کبھی کلف لگا ہوا قمیض اور سفید لٹھّے کی شلوار پہن سکے، خوشبو دار تیل لگا سکے تاکہ کوئی اس کی جانب بھی دیکھ سکے، وہ بھی کسی کو اچھا لگ سکے اور وہ بھی کسی سے مل کر ہنس سکے، کسی سے بچھڑ کر رو سکے اور نہیں تو کم سے کم اُسے کسی وقت مکّی کا پراٹھا ہی میّسر آجائے۔
ان آٹھ روپیوں کو بار بار الٹ پھیر کر دیکھنے کا ایک مقصد شاید دنیا کو یہ دکھانا بھی ہے کہ کالو کو اس کی جان توڑ محنت او ر دوسروں کی غلاظت اُٹھانے کے عوض جو اجرت ملتی ہے وہ اتنی کم ہے کہ اس سے جسم کی جلن، روح کی تپش اور دماغ کی سوزش تو کیا دور ہوگی، ٹھیک سے پیٹ کی آگ بھی نہیں بجھ پاتی اور مصنف کا منشا غالباً یہ بتانا بھی ہے کہ محنت اور اجرت کا صدیوں سے چلا آ رہا یہ نظام ناقص ہی نہیں جابرانہ بھی ہے۔ جس نظام کی نگاہیں اگر اس پیٹ تک نہیں پہنچتیں جو صاحبِ شکم کی مسلسل محنت، مشقت اور جاں فشانی کے باوجود خالی رہ جاتا ہے تو سمجھیے کہ وہ نظام یا تو اندھا ہے یا اس میں ضرورت سے زیادہ بینائی ہے کہ جس سے وہ یہ بھی دیکھ پارہا ہے کہ کھُردری ہتھیلیوں پر زیادہ سکّوں کے آجانے سے نگاہِ نظام بھی چوندھیا جاتی ہے۔
کرشن چندر نے یہ سب اس لیے نہیں کیا کہ انھیں کالو بھنگی سے ہمدردی تھی. ہمدردی میں ہمدردی کی جاتی ہے، درد نہیں پالا جاتا۔ ہمدردی میں کسی کی جانب دو چار قدم بڑھائے جاتے ہیں دور تک نہیں جایا جاتا، ہمدردی میں زخموں کے دہانے تک تو جایا جاتا ہے ان کی ٹیس تک نہیں پہنچا جاتا، ہمدردی میں افسوس ظاہر کیا جاتا ہے، چین نہیں گنوایا جاتا اور یہاں تو کالو کے غم میں تخلیق کار اس طرح مبتلا ہے جیسے کوئی ماں درد زہ میں ہوتی ہے. یا کوئی یعقوب فراقِ یوسف کے کرب میں۔ یہاں کرشن چندر کے کالو پریم میں وہی عکس جھلکتا ہے جو کشن کے سداما پریم میں دکھائی دیتا ہے۔ پرائے درد میں اس طرح کا اشتراک اور ضطراب اسی وقت ممکن ہے جب سینے میں حسّاس دل موجود ہو۔ہمدردی میں کوئی کسی بد ہیئت اور سیاہ کردار کو اپنی جوان اور روشن راتوں میں اس طرح داخل نہیں ہونے دیتا جیسا کہ کرشن چندر نے کالو بھنگی کو داخل ہونے دیا:
’’جب راتیں جوان اور چمکدار ہونے لگتیں اور قریب کے جنگل سے شہد اور کستوری اور جنگلی گلاب کی خوشبوئیں آنے لگتیں اور ہرن چوکڑیاں بھرتے ہوئے دکھائی دیتے اور تارے جھکتے جھکتے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے اور کسی کے رسیلے ہونٹ آنے والے بوسوں کا خیال کرکے کانپنے لگتے، اس وقت بھی کہیں کالو بھنگی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا اور پنسل کاغذلے کر اس کے پاس جاتا‘‘
ادیب اگر حسّاس ہے تو زندگی چاہے حاشیے پر ہو یا مرکز میں، محسوس ضرور ہوگی اور جب زندگی محسوس ہوگی تو اظہار میں وہ کرب بھی جھلکے گا جو کسی استحصال یا جبر سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ شدتِ احساس سے محسوس کیا ہوا درد جسم و جان پر جھیلے بغیر بھی روح میں اُتر آتا ہے۔ پھر ایسے میں یہ ضروری نہیں رہ جاتا کہ استحصال کی برق کہاں اور کس پر گرتی ہے؟ اور اگر محسوس کرنے والے کے پاس احساس کی قوت کے ساتھ ساتھ تخیّل اور لفظ کی طاقت بھی ہے تو وہ زند گی ادب کا روپ بھی اختیار کرے گی۔ یہاں اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ادب صرف احساس کے سہارے خلق نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ احساس کسی بھی تخلیق کی اساس ہوتا ہے۔ اس کے بغیر درد و کرب تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ درد میں مبتلا ہونے والا انسان بھی اپنے درد کو اسی وقت محسوس کرسکتا ہے جب اس کے پاس قوتِ احساس ہو مگر یہ احساس بھی تنِ تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ اکیلا احساس درد کو چیخ میں تو بدل سکتا ہے مگر اسے ادب کا آہنگ نہیں دے سکتا۔ ادب کا آہنگ تو لفظ عطا کرتا ہے۔ لفظ اپنے جادو سے درد میں روح پھونکتا ہے۔ درد کو محسوس کرنے والے دل کے پاس اگر لفظ کا جادو نہیں ہے تو محسوس کیا ہوا درد سر چڑھ کر نہیں بول سکتا۔ لفظ اپنی جادو گری سے اس درد میں وہ صور پھونکتا ہے کہ درد قیامت ڈھانے لگتا ہے۔ یہ لفظ کا ہی جادو ہے جو درد کو تیر بناتا ہے اور اس تیر سے چھاتی کو چھلنی کرتا ہے۔ یہ اسی جادو کا کمال ہے کہ لفط تلوار بن جاتا ہے اور میان سے نکلتے ہی دلوں کو چیر کر رکھ دیتا ہے اور ان تیر و تلوار پر جو قوت سان چڑھا تی ہے، انھیں آب بخشتی ہے، وہ تخئیل کی قوت ہے۔ تخئیل لفظ کو محا کاتی انداز عطا کرتا ہے۔ اسے تجسیمی شان بخشتا ہے۔ یہ تخئیل ہی ہے جو رسٌی کو سانپ بنا دیتا ہے۔ ابرو کو خنجر میں بدل دیتا ہے۔ تل کو تاڑ کردیتا ہے۔ لفظ کو شیشے میں اور شیشے کو آب گینے میں ڈھال دیتا ہے۔گویا درد کو تخلیق میں ڈھالنے کے لیے احساس کے ساتھ لفظ کی قوت اور تخئیل کی طاقت بھی ضروری ہے۔ اگر یہ قوتیں کسی کے پاس ہیں تو وہ دور رہ کر بھی درد کے پاس جاسکتا ہے۔ کنارے کھڑے ہوکر بھی درد کے مد و جزر کو دیکھ سکتا ہے۔ تلاطمِ کرب کو محسوس کرسکتا ہے۔ کراہ کے شور کو سن سکتا ہے۔ طغیانیوں کے زیروبم پر ہچکولے کھا سکتا ہے۔ اور اس درد کو لفظ اور تخئیل کی مدد سے ادب کا روپ دے کر دوسروں کو بھی اس درد میں شریک کرسکتا ہے۔ اور اگر یہ قوتیں نہیں ہیں تو کوئی لاکھ درد میں مبتلا ہو، مصائب و آلام میں گھرا ہو، دکھ بھوگ رہا ہو، درد سہہ رہا ہو، ظلم و جور کی مار کھارہا ہو، شدّت کرب سے چھٹپٹا رہا ہو، وہ اپنے درد و کرب کا ادبی عکّاس نہیں بن سکتا۔ اسے تخلیق میں نہیں ڈھال سکتا، اسے ادب کا روپ نہیں دے سکتا۔
سچ تو یہ ہے کہ ادب ادیب کے اس احساس سے جنم لیتا ہے جس کی مثال ایک ایسے شیشے کی ہوتی ہے جو دور تک کی روشنی کو بھی اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ وہ احساس ایک ایسا مقناطیس ہوتا ہے جو دور دراز کی چیزوں کو بھی اپنے پاس کھینچ لیتا ہے۔ وہ ایک سورج کی مانند ہے جو زمین پر آئے بغیر ہی زمین کو گرمی اور روشنی سے بھردیتا ہے۔ وہ ایک ایسا چاند ہے جو رہتا تو ہے آسمان پر مگر اپنی چاندنی زمین پر بکھیرتا ہے۔ یہ وہ سحرکارانہ قوت ہے جس کے کرشمے سمجھ سے باہر ہیں۔جس کی بدولت تیر لگے بغیر بھی سینہ چھلنی ہوجاتا ہے، نوکِ سناں چبھے بنا بھی جسم کراہ اُٹھتا ہے۔ لکھنؤ  میں رہ کر بھی کربلا کا کرب نواحِ جاں میں اُتر آتا ہے۔ کرکشیتر میں اترے بنا بھی مہابھارت کا خونیں منظر خنجر کی طرح سینے میں پیوست ہوجاتا ہے۔ تبر سے دل تڑپ اٹھتا ہے. چیر ہرن دیکھے بنا بھی آنکھیں لہو لہان ہوجاتی ہیں۔ دس سروں والے راکشس کے ہاتھوں بن میں واقع ہونے والے سیتا ہرن کا حادثہ گھر بیٹھے بھی تن میں بھالے کی طرح چُبھ جاتا ہے اور من مضطرب ہو اُٹھتا ہے۔ عورت مرد اور مرد عورت کی کیفیات سے گزرنے لگتے ہیں۔ مسند نشیں مخملی تخت پر بیٹھے بیٹھے ٹاٹ کی سختیوں کو محسوس کرلیتا ہے اور ٹاٹ پر بیٹھنے والا مسند کے لمس تک پہنچ جاتا ہے۔ ادیب کا یہ احساس جب جادوئی لفظ کا قالب اختیار کرتا ہے اور اور اس پر تخئیل کا طلسمی رنگ چڑھتا ہے تو وہ فن پارہ بن جاتا ہے۔ یعنی فن، فن کار کے اس تخئیل آمیز احساس سے پیدا ہوتا ہے جو گال کو گلاب بنا دیتا ہے۔ چہرے کو چاند کردیتا ہے اور لب کو لعلِ بد خشاں میں بدل دیتا ہے۔ جانور کو انسان کا روپ دے دیتا ہے اور بے جان اشیا میں جان ڈال دیتا ہے۔ جیسا کہ اس کہانی میں کرشن چندر نے گائے کو بیوی کے مماثل کردیا ہے:
’’ میں تیرے ٹوٹے ہوئے دانتوں کی ہنسی کو پہچانتا ہوں۔ جب تو گائے سے اپنا سر چٹواتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ تو اپنے تخیل میں اپنی بیوی کو دیکھتا ہے جو تیرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر کر تیرا سر سہلارہی ہے۔حتٰی کے تیری آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ تیرا سر جھک جاتا ہے اور تو اس کی مہربان آغوش میں سوجاتا ہے۔‘‘
اور مکئی کے بھٹّے کو ایک جیتا جاگتا انسانی کردار بنادیا ہے :
’’نہایت آہستہ آہستہ بڑے سکون سے، بڑی مشّاقی سے وہ بھُٹّے کو ہر طرف سے دیکھ دیکھ کر بھونتا جیسے وہ برسوں سے اس بھُٹّے کو جانتا تھا۔ ایک دوست کی طرح وہ بھُٹّے سے باتیں کرتا، اتنی نرمی اور شفقت سے وہ اس سے پیش آتا گویا وہ بھُٹّا اس کا اپنا رشتے دار یا سگا بھائی تھا۔ میرے خیال میں خود بھُٹّے کو یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ کالو بھنگی اس سے کتنی محبت کرتا ہے ورنہ محبت کے بغیر اس بے جان شے میں اتنی رعنائی کیسے پیدا ہوسکتی تھی۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ کس طرح تخلیق کار نے اپنی قوتِ متخیئلہ اور زبان کے جادو سے ایک گائے کو کالو کا شریکِ سفر بنادیا ہے اور ایک بے جان بھٹے کو انسانی کردار کا قالب عطا کردیا ہے. یہاں صرف تخلیق کار کے تخئیل اور بیان کا کمال ہی نظر نہیں آتا بلکہ کالو سے وابستہ اس کا وہ سروکار (کنسرن) بھی دکھائی دیتا ہے جس کے سبب وہ کالو کے ایک ایک عمل اور ایک ایک حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مجبور ہے اور یہ اس لیے ممکن ہوپاتا ہے کہ وہ اپنے سینے میں ایک حسّاس دل رکھتا ہے۔ ایسا دل جسے کالو بھنگی کی سیاہیوں کی سوئیاں کبھی سونے نہیں دیتیں۔
کسی ادیب کے اندر اگر یہ تینوں قوتیں موجود ہیں اور وہ ادیب ادب کے تئیں سنجیدہ ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ انسانی درد تک پہنچے گا. اس درد کو اپنے اندر جذب کر کے اسے مناسب اور موثر اظہار کا روپ دے گا بلکہ اس درد کے اسباب کا بھی پتا لگائے گا اور اس کے مداوے کی فکر بھی کرے گا۔ مثلاً کالو بھنگی کی اس کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ میں تیری وہ کہانی جانتا ہوں جو ہوسکتی تھی، لیکن ہو نہ سکی کیونکہ میں افسانہ نگار ہوں، میں اک نئی کہانی گھڑ سکتا ہوں۔ اس کے لیے میں اکیلا کافی نہیں ہوں۔ اس کے لیے افسانہ نگار اور اس کا پڑھنے والا اور ڈاکٹر اور کمپونڈر اور بختیار اور گائوں کے پٹواری اور نمبردار اور دوکاندار اور حاکم اور سیاست دان اور مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ہر شخص کی، لاکھوں، کروڑوں، اربوں آدمیوں کی اکٹھی مدد چاہیے۔ میں اکیلا مجبور ہوں، کچھ نہیں کرسکوں گا۔ جب تک ہم سب مل کر ایک دوسرے کو مدد نہ کرسکیں گے، یہ کام نہ ہوگا، اور تو اسی طرح اپنی جھاڑو لیے میرے ذہن کے دروازے پر کھڑا رہے گا۔‘‘ 
اس اقتباس سے کیا یہ اندازہ نہیں لگتا کہ کرشن چندر نے اس کہانی میں نہ صرف یہ کہ کالو بھنگی کی دلت صورتِ حال کی ترجمانی کی ہے بلکہ اُس صورتِ حال کو بدلنے کی سعی بھی کی ہے اور بدلاؤ کی تدبیریں بھی بتلائی ہیں۔ ساتھ ہی اس حقیقت کا احساس بھی دلا یا ہے کہ اس سنگین صورتِ حال کو کوئی ایک آدمی نہیں بدل سکتا۔ اس کے لیے سب کو آگے آنا ہوگا۔ تبھی کوئی ایسا انقلاب آسکے گا جس کی بدولت انسانی روح کی مکمل مسرت جھلک اٹھے گی اور تب:
’’شاید وہ دن کبھی آجائے کہ کوئی تجھ سے تیری
جھاڑو چھڑادے اور تیرے ہاتھوں کو نرمی سے تھام
کر تجھے قوسِ قُزح اس پار لے جائے۔‘‘
مرکز میں بیٹھے دیگر ادیبوں کو بھی چاہیے کہ وہ حاشیے پر بھی نگاہ ڈالیں. حاشیے پر انھیں مرکز سے زیادہ مواد مل سکتا ہے۔ حاشیے کی سیاہیاں انھیں زیادہ ایسی سوئیاں فراہم کر سکتی ہیں جنھیں چبھوکر بے حس جسموں میں درد کا احساس جگایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو اوم پر کاش بالمیکی ایک اور بیان دینے پر مجبور ہوجائیں گے اور ان کا وہ بیان کچھ اس طرح کا ہوگا:
’’فن کا ر کے پاس اگر احساس ہے اور اس احساس کے اظہار کے لیے لفظ ہے اور اس لفظ میں رنگ بھرنے کے لیے تخئیل ہے تو غیر دلت بھی نہ صرف یہ کہ دلت درد کو محسوس کرسکتا ہے بلکہ اس درد کو بہتر اظہار کا روپ دے سکتا ہے اور دلت زندگی پر کالو بھنگی جیسی ایک نہیں بلکہ درجنوں کہانیاں لکھ سکتا ہے اور ایسے ایسے تخلیقی سُر سنا سکتا ہے جو دلت اور غیر دلت دونوں دلوں میں دل سوزی اور دردمندی کی جوت جگاسکتا ہے اور اس جوت سے ایک ایسا انسان سامنے آ سکتا ہے جو ایک کیا سارے کالوؤں کے ہاتھوں کو نرمی سے تھام کر انھیں قوسِ قُزح کے اس پار لے جاسکتا ہے۔‘
کرشن چندر نے اپنے اس افسانے میں لفظوں سے مصوری کی ہے۔ کسی مشّاق مصور کی طرح الفاظ کے درو بست سے احساسات و جذبات تک کو متشکل کر دیا ہے۔ اپنے لسانی برش سے کالو کو واقعی کالو بنا دیا ہے۔ اس کی شبیہ کا مرقع ایسا تیار کیا ہے کہ باہر کے ساتھ ساتھ بھیتر کی سیاہی بھی ابھر آئی ہے۔ غور سے دیکھیے تو پوری کہانی ایک پینٹنگ لگتی ہے۔ سیاہ، سفید، نیلے پیلے، گلابی، قرمزی، دھانی، آسمانی، ارغوانی، زعفرانی سبھی رنگ جس میں جگمگاتے ہیں اور ایک ایسا قوس قزائی مرقع بناتے ہیں جو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں رنگ و نور بھرتے ہی ہیں، پتلیوں میں سوئیاں بھی چبھو دیتے ہیں۔
***
غضنفر کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں: بادِ صبا کا انتظار : کس کو اور کیوں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے