نئے دھان کا رنگ : ناول بھی حقیقت بھی

نئے دھان کا رنگ : ناول بھی حقیقت بھی

ٹی ایم ضیاء الحق

علی امام کا شمار اردو فکشن نگار کی ایسی نامور شخصیات میں ہوتا ہے، جن کی زندگی کا ہر لمحہ تعلیم و ادب کی تخلیق اور تاریخ و تنقید کی تصنیف و تالیف میں صرف ہوا۔ ان کا نام اور کام ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ ناول و افسانہ میں ان کا ایک مقام ہے۔ علی امام نے اپنا پہلا کہانیوں کا مجموعہ "نہیں" 1985 میں لکھا۔ دوسرا کہانیوں کا مجموعہ متبھید 1995 میں آیا تیسرا "ہاں میں یہاں" اور 2017 تک لکھی ساری کہانیوں کا ایک مجموعہ علی امام کے افسانے کے نام سے 2018 میں آیا. اس سال 2023 میں علی امام کا ایک ناول "نئے دھان کا رنگ" آیا ہے.
دو سو چار صفحات پر مشتمل اس ناول کا موضوع دراصل سماج کی وہ حقیقت ہے جس کی لپیٹ میں ہم سب آرہے ہیں. علی امام نے ناول "نئے دھان کا رنگ" میں ایک طرف تو ترقیات کے نام پر ہو رہے کام اور سماج پر جو اثرات پڑ رہے ہیں اس پر سوال کھڑا کیا ہے۔ دوسری طرف سماج کے تانے بانے کو کیسے مذہب کے نام پر توڑا جاتا ہے۔ کھاد کی شکل میں دھان پر جو زہر دے رہے ہیں جس سے آپ ہی نہیں پورا سماج زہریلا ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے مصنف نے اس ناول کا نام "نئے دھان کا رنگ" رکھا ہے اور حالات و واقعات کو بڑی خوب صورتی سے اس ناول میں بیان کیا ہے. ملک کی آزادی سے لےکر آج تک کے حالات کو علی امام نے اس ناول میں مہارت سے پیش کیا ہے۔
نورالحسنین اپنے مضمون اردو ناول کی ایک صدی میں لکھتے ہیں:
ناول خواہ کسی زبان میں لکھا جائے وہ سماج کی تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ جس عہد اور جس مقام کی بنیادوں پر لکھا جاتا ہے اس میں اس مقام کے افراد، وہاں کا جغرافیائی پس منظر، تاریخی آثار (اگر مقام کا تعلق تاریخی ہو تو) وہاں کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، معاشرتی، سماجی طور طریقے، زبان و بیان کا انداز، بولی ٹھولی اور محاورہ، بازار ہارٹ ، گلیاں اور چوبارے ، دشت و جنگل ، باغ و بن ، ندی نالے غرض اس مقام کی ہر طرح سے عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘
علی امام صاحب نے اپنے ناول "نئے دھان کا رنگ" میں سماج کے مسائل، وہاں کے رہن سہن، بول چال اور رسم و رواج وغیرہ کو بڑی فن کاری سے سمویا ہے۔
علی امام کے اس ناول میں نفسیاتی مطالعے اور فلسفیانہ مسائل کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی، سماجی، تہذیبی اور معاشی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
یہ ناول بہت خوب صورت انداز میں ایک صوفی اور مولوی کے ساتھ ساتھ ایک یوگی اور پجاری کا فرق سمجھاتی ہے.
نئے دھان کا رنگ صرف ایک ناول نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ریسرچ ہے، جہاں سماج کی ہر چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جوڑ کر ناول کی شکل دی گئی ہے، جس وجہ کر یہ معنی خیز ہے.
علی امام کے تعلق سے ڈاکٹر احسان تابش لکھتے ہیں:
”معروف افسانہ نگار علی امام نے کبھی انا کا سودا نہیں کیا. افسانہ نگار علی امام کے افسانے اور ناول قابل مطالعہ اور معنویت سے بھرپور ہوتے ہیں. علی امام کو بات کہنے کا ہنر آتا ہے. افسانے سے جب کہانی مر رہی تھی اس وقت بھی افسانہ نگار علی امام افسانے میں کہانی کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے. علی امام منفرد لب و لہجے کے ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں. سہل انداز میں بڑی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں. ان کے افسانوں میں مجروح ہوتے رشتے کا کرب اور ہونے نہ ہونے کے درمیان کا سچ سر چڑھ کر بولتا ہے.
میری نظر میں افسانہ نگار ناول نگار علی امام فکروفن کی سطح پر کامیاب ہیں. ان کے افسانے معنویت سے بھر ہوتے ہیں.“
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب معروف افسانہ نگار علی امام کے افسانہ اور ناول پر بات ہونی چاہئے.
فکشن نگار عشرت ظہیر نے اس ناول کے تعلق سے لکھا ہے کہ "دراصل ناول کا تھیم سادہ بیانی کا متقاضی ہے، لیکن اس کے بیان میں اشاراتی پہلو کا حسن مضمر ہے۔ اردو میں شاید یہ پہلا ناول ہے، جس میں کئی عناصر کی غیر موجودگی ناول کا اختصاص بھی ہے اور اس کی انفرادیت بھی۔ اس ناول کو پلاٹ لیس ناول کہا جا سکتا ہے."
ہماری نئی نسل یہ جانتی ہے کہ رشتے کا اشتہار اخباروں میں اور آج کے سوشل میڈیا پر دینا پڑتا ہے مگر آج کی نئی نسل کو کیا پتہ کہ رشتے سہج اور سہل طور پر اور اتنی آسانی سے بھی طے پاتے ہیں:
راجندر نے کہا۔ راہل کی شادی کر دیجیے… کہیں لڑکی دیکھا ہے۔ "میرے گاؤں کے بدری بابو کو جانتے ہیں۔ ہاں ہاں، پوسٹ ماسٹر صاحب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔“ راجندر بولا۔ ان کی بچی ہے، لمبی گوری، پڑھنے لکھنے میں تیز کنڈ لی اور بایو ڈاٹا بھیجنے کے لیے ان سے بات کرتا ہوں.“ "مجھے ایک بات کی فکر ہے. کم سے کم محفوظ کی شادی ہو جاتی۔ میں اپنے سامنے دیکھ لیتا۔ بدری بابو بولے۔ نراشا کی بات مت کیجیے، صوفی بابا… پر مین بول رہی تھی کہ اس کو ڈاکٹر صاحب کی بیٹی فاطمہ بہت پسند ہے، مہرن کی بھی یہی رائے ہے۔“ بدری بابو پھر بولے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو ٹٹولوں گا، آپ کی کیا رائے ہے۔ صوفی صاحب بولے ”جو بہتر ہو … آپ کریں۔” ہماری نئی نسل نے ڈھائی سال کے بچے کو پری نرسری اور پلے اسکول جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر رسم مکتب کی ولولہ انگیز اور خوش کن کیفیتوں سے ناواقف ہیں: محفوظ نے پوچھا: پریرنا، آپ نین کیا ہے؟“
آج کی نئی نسل جو میگی، چاؤمین جیسی چیزوں کو کھاتی ہے اس کو کیا علم کہ "مکئی، چاول اور مڑوے کی روٹیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں کھانے میں بڑا ذائقہ دیتی ہیں۔“
ایک اور جگہ:
ایک دن بدری بابونہر کنارے صبح سویرے چہل قدمی کر رہے تھے، تو ان کو شور سنائی دیا۔ وہ آواز کی طرف بڑھے تو دیکھا، رنگ لال اور جمعراتی میں بہت لیکن ہو رہا ہے۔" [؟]
رنگ لال اور جمعراتی کی تکرار در اصل پگڈنڈی کاٹ کر اپنے کھیت کی طرف پانی کا بہاؤ منتقل کرنے سے متعلق تھا۔ بت کچن کا ایسا منظر تو گاؤں میں آئے دن دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن ان میں گھمنڈ، ہٹ دھرمی اور اہنکار کی لہروں کی منفی متحرک
کیفیتوں کے اظہار میں کرامت میاں پالن اور حمیدہ اماں نے گوریوں کی ایک دنیا بسا رکھی ہے۔ وہ گوریوں کی خبر گیری کرتے ہیں، بلیوں اور سانپوں سے ان کی حفاظت میں خود کو بے آرام کرتے ہیں۔ حمیدہ اماں ایسی گھونسلا سازی کرتی ہیں، گویا وہ اصلی ہوں۔ ناریل کے ریشے، جوٹ کے ریشوں سے گڑھا ہوا گھونسلا اور مڑوا کے ڈنٹھل سے ایسا مصنوعی گھونسلا بناتی ہیں کہ چڑیاں بھی دھوکا کھا جائیں۔ چہ بچہ میں پانی ڈالتے، دھان کی بالیوں کو جگہ جگہ باندھتے، چہ بچہ میں گوریا پانی پیتی اپنے پروں کو بھگوتی اور سارے جسم پر چھڑکتی… اور یہ سب کچھ محض دل بستگی اور قدرت کے نگار خانے کے سہانے منظر سے حظ حاصل کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ زندگی کی توقیر اور اس کے تحرک کا استعارہ ہے۔ کرامت میاں پالن پر سینا کی بات سن کر مچل اٹھے.. یہ شوق نہیں ہے بیٹا، بس یہ سمجھو یہ ایک طرح کا روگ ہے۔ محبت … کہتے کہتے وہ رک سے گئے۔ میری ایک جائی تھی… رنگ روپ اور رس … ہم دونوں کی روح… ہم دونوں کی جان قدرت کا کرشمہ دیکھو… وہ اچانک اپنے قادر مطلق سے جالی … وقت کا دریا بہہ رہا ہے اور انسان مجبور محض ہے۔ گردش زمانہ انسان کو جینا اور وقت کے ساتھ مفاہمت کرنا سکھا دیتا ہے۔ کرامت میاں پالن کا بیٹی کی کمی اور احساس حزن کے مقابل گوریوں کی ایک دنیا آباد کرنا دراصل زندگی کی تقدیر کے اشاریے ہیں۔
کرامت میاں کی گوریوں سے متعلق حقیقت پر مبنی گفتگو حیرت انگیز اور دل چسپ راز آشکار کرتی ہیں: یہ فطرت کی نایاب شے ہے، سرسبز و شاداب فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں سے محفوظ رکھتی ہے….. یہ 38 کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہیں… گوریا کی عمر چار سے سات سال تک کی ہوتی ہے… اس کا وزن 40 گرام تک ہوتا ہے، پالن میاں چونک کر بولے… یہ بیٹی ہے۔ یہ ہلکے بھورے رنگ کی ہے۔ سر اور گلا دونوں بھورے رنگ کا ہے۔ جسم پر چھوٹے چھوٹے پنکھ ہیں اور یہ دیکھو اس کی چونچ پیلی ہے. ترکی میں ہر گھر کے باہر اک پتھر لگا ہوتا ہے، جس میں پرندے اپنا گھونسلا بنا کر رہتے ہیں.،،
چھوٹے چھوٹے امور کے بیان کا سلسلہ گوریوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ نئے دھان کا رنگ حیرت ناک طور پر شادی بیاہ، تہوار … رمضان، عید، ہولی دیوالی … رام لیلا سے متعلق رسم، روایتوں اور حقیقتوں اور سماجی برتاؤ کے نکتوں کی توضیح و صراحت کا دل کش منظر نامہ بھی سمیٹے ہوئے ہے۔! ناول نئے دھان کا رنگ مرحلہ در مرحلہ زندگی اور زندگی جینے کے طریقوں، سلیقوں کی گھتیاں کھولتا بھی ہے اور سوالات بھی کھڑے کرتا ہے:
چہار طرف جو زہر بویا جا رہا ہے اسے روکنے کی ضرورت ہے، آج کے نئی نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے. موجودہ دور میں اس طرح کے ناول کی ضرورت جو بتا سکے کہ سماج کو بنانے میں اللہ تعالیٰ کی ہر تخلیق کی کتنی ضرورت ہے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کا تعارف و تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے