نئے دھان کا رنگ اور علی امام

نئے دھان کا رنگ اور علی امام

خواجہ حسن محمود
خانقاہ بارگاہِ عشقؔ تکیہ شریف، پٹنہ سٹی
رابطہ : naqshh2000@gmail.com

علی امام کی شخصیت، ماہیت، خاصیت، سیرت، صوفیانہ طبیعت اور وجود فردی اردو ادب میں نہ تو تعارف کی محتاج ہے اور نہ ہی تعریف کی۔ ان کی تصنیفات و اردو خدمات کے بارے میں میں لکھتا چلا جاؤں گا لیکن الفاظ کے ذخیرے کبھی کم نہیں ہوں گے۔
علی امام کے فلسفیانہ اور ادبی نظریات اور علم نفسیات کے پیدا کردہ رجحانات نے اردو ناول کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ شعور کی رو، آزاد تلازمۂ خیال، داخلی خود کلامی، علامت نگاری، وجودیت، تجریدیت وغیرہ نے انسانی واردات کے مطالعہ کو کس حد تک متاثر کیا ہے اور اس کے اثرات کہاں تک نظر آتے ہیں؛ ان تمام موضوعات کا احاطہ علی امام کا ادبی ذوق اور تصنیفات ہیں۔ علی امام کی تحریر میں روایتی طور پر ناول کے عناصرِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، زماں و مکاں، اسلوب، نقطۂ نظر، موضوع، عمدہ انداز نگارش، کہانی پن، احوال معاشرت اور تجسس وغیرہ ہمیشہ سے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قلم کار اپنے عہد کا گواہ ہوتا ہے جو اپنے عہد کے معاشرہ کی ہر حقیقت بیان کرتا ہے بالخصوص اُس دور کی اچھائی، برائی، ناانصافی، ظلم، تشدد اور اجتماعی ناہمواریوں کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے مصنفوں کی یقینا ضرورت ہے جو معاشرے کی نا ہمواریوں کو بہتر ڈھنگ سے بیان کر سکیں، سچائی کو رقم کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے دستاویز کو محفوظ کریں تاکہ وہ اس سے رہ نمائی حاصل کریں۔ علی امام کا ناول ”نئے دھان کا رنگ" ہمارے ماضی معاشرے کی عکاسی پر مبنی نیکوترین ناول ہے، یہ زندگی کی مکمل تصویر ہے جس میں زندگی کے مختلف واقعات و حادثات کو دل چسپ پیرایے میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل ناول ایک تاریخی اور تہذیبی دستاویز ہے جس میں زندگی کی مسرت و بصیرت، غم و الم کو پیش کیا گیا ہے۔ گویا یہ ایک طویل نثری قصہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ مربوط انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ کسی بھی ادب میں مکالمات کا ہونا اس کے صحت مندانہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ کتابیں اس بات کی علامت ہیں کہ سوال اٹھ رہے ہیں، جواب آ رہے ہیں اور تلاش جاری ہے، چاہے وہ تحقیق کی شکل میں ہو یا خالص مطالعہ کی صورت میں۔ قارئین اپنا جواب کتابوں سے پا رہے ہیں.
ناول "نئے دھان کا رنگ" یہ بتاتا ہے کہ سوچنے والے ذہن مٹے نہیں ہیں اور اردو ادب میں فکری لحاظ سے ابھی بہت جان باقی ہے۔ اس ناول کا اہم جزو اس کا دل چسپ مکالمہ ہے۔ اس کے ذریعہ کردار کی خصوصیات نہایت حیرت انگیز طریقے سے ظاہر کی گئی ہے۔ بات چیت انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو پیش کرتی ہے اور اسی ذریعہ سے ہمیں اس دنیا کے جملہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
ناول نگار مکالمہ لکھتے وقت پورے طور پر واقعات کے دائرے میں آجاتے ہیں. مکالمہ اس ناول کو روشنی بخشتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے واقعات پر روشنی ڈال کر ناول نگار نے اظہارِ خیال کو بہترین آلہ بنایا ہے۔ ہندستان میں اردو ادب کے منظر نامے پر 2 دہائیوں میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور وہ یہ کہ کلاسیکی اہمیت کے حامل قلم کار ایک ایک کرکے رخصت ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ لینے والوں میں اکثریت ان کی تھی، جنھیں ڈائجسٹ کے قلم کار کہنا غلط نہ ہوگا، حالانکہ دنیا بھر میں ادبی پیمانے پر ڈائجسٹ کو کبھی ادب تسلیم نہیں کیا گیا، اس کو آج کے دور کے مطابق پاپولر لٹریچر کہا جاسکتا ہے۔
اردو زبان میں لکھے گئے کچھ ناولوں میں سے چند تو ایسے ناول بھی ہیں، جن کو تخلیق ہوئے نصف صدی سے زائد زمانہ بیت گیا لیکن آج بھی قارئین کے درمیان معروف و مقبول ہیں، علی امام کا کلاسیکی اہمیت رکھنے والا ناول ”نئے دھان کا رنگ" بھی مستقبل میں ایسی ہی طویل حیات رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ ’’ نئے دھان کا رنگ" جیسا ادبی ذوق کا حامل ایک معیاری ناول اردو دنیا میں عشاقِ ادب کی دل چسپی کا مرکز بنے گا۔ علی امام کی کہانیوں کے پہلے مجموعے ”نہیں" 1985 اور تیسرے مجموعے ”ہاں میں یہاں ہوں" 2018 کے درمیان ایک دوسرا مجموعہ ”مت بھید" بھی ہے۔
” نئے دھان کا رنگ" ایک نہایت حیرت انگیز، دل چسپ، وقت کی اڑان پر سفر کرتا ہوا ماضی میں گم شدہ گاؤں، بستیوں کو پھر سے آباد کرتا ہے، یہ ایک منفرد اور انوکھا ناول ہے۔ کتاب کے انتساب میں اپنائیت اور ان کی خوشبو کے احساس کا صوفیانہ عکس ہے اور بگیا میں رشتوں کی تازگی کے لیے ڈھیر ساری درویشی دعائیں بھی شامل ہیں۔
”نئے دھان کا رنگ" وقت کی بہتی دریا کے مانند ہے، ایک ایسی بستی جس میں ماضی، حال اور مستقبل کا اٹوٹ سنگم موجود ہے۔ حیرت انگیز انوکھے گاؤں اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو متعارف کرانے والا یہ ایسا شش جہاتی ناول ہے، جس نے اپنے اندر بیک وقت کئی قدیم زمانوں، فنا ہو جانے والی رسموں تہذیبوں اور آنے والے وقت کی چاپ کو سمویا ہوا ہے۔
” نئے دھان کا رنگ" کئی کرداروں کے اردگرد بُنا گیا ہے جن میں محفوظ، پریربا، صوفی بابا، بدری بابو، مکھیا جی اور کھاسیٹا اہم ہیں، ناول کا مرکزی کردار محفوظ ہی ہے اور اس کے خاندان، گاؤں، دوست احباب، رشتہ داروں کی زندگی کا المیہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ناول کے ذیلی کرداروں میں محفوظ کے چھوٹے بھائی بدرو والدہ رئیسہ اور بہن مہرن کے علاوہ دیگر کرداروں میں رشید، شیلندر، لچھمی، امام صاحب، کرامت چاچا، گونگی، راجندر، مہندر، کرشنا، سہیل، پپو خان اور ایسے کئی چھوٹے چھوٹے کردار ہیں، جن کے ذریعے ناول کا خاکہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ناول کی تحریر میں جگہ جگہ ادب سائنس پرندوں و چرندوں پھل پھول سبزیوں کھیت کھلیان اور بالخصوص فٹبال کے مطالق گہرے ریسرچ، عمیق و دمیق مطالعے کے اثرات بھی ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں. 
یہ ناول گاؤں اور گاؤں میں رہنے والے محبت دار لوگوں کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ خواجہ رکن الدین عشقؔ اور چکبستؔ کا کلام کہانی کے بیانیے میں پس منظر اور پیش منظر کے طور پر موجود ہے۔ مکالمے، انسانی جذبات، رنج و غم، خوشی، میل جول، شادی بیاہ کے رسم و رواج، ہولی دیوالی، عید و بارہ وفات اور دیگر پہلوؤں کو نہایت خوب صورت انداز سے بیان کرتے ہوئے ناول مرحلوں کے ذریعے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ناول کی زبان نہایت آسان اور رواں ہے، البتہ ضروری طور پر ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، شاید اس کا جواز یہ پیش کیا جائے کہ یہ تو کرداروں کی آوشکتا تھی۔ اب جیسے یہاں لفظ آوشکتا کی جگہ لفظ ضرورت بھی لکھا جاسکتا تھا۔ آگے چل کر کرداروں کو بیان کرتے ہوئے ان کا تعارف اسی طرح لکھا گیا ہے، جس طرح وہ ناول میں بیان ہوئے ہیں۔
ناول میں گاؤں کی رسم و روایات کے علاوہ گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں، اچھائیوں، پرب تیوہار، شادی بیاہ کے رسم و رواج کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے، بلکہ زیبِ داستان کی خاطر ایک منفرد انداز میں مقامی منظر نگاری کی گئی ہے۔ ناول میں صوفی بابا اور بدری بابو کی رحلت کا منظر نہایت عاطفی طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے بہت تفصیلی منظر نگاری کے ساتھ صوفی بابا اور بدری بابو کی آخری رسومات کی ادائیگی کے مطالق ہر رواج کو حاصلِ مطالعہ کے طور سے بیان کیا ہے۔
اس ناول میں کرداروں کی کیمسٹری بہت اچھی بنائی گئی ہے، بھائی چارہ، میل جول اور محبت کے رنگوں میں لکھے ہوئے ناول میں سب سے عجیب بات ہر کردار کا متضاد رویہ ہے، منظر نگاری اور حالات و واقعات کے بیان میں سطحی پن بھی اپنی حدوں کو چُھو رہا ہے۔ سماج اور حقیقی زندگی کی باتیں بھی کثرت سے ہوئی ہیں۔ تضاد کو کرداروں کا تصادم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں افواہ اور اس کے نتیجے سے پیدا ہونے والے خلفشار سے گاؤں اور سماج میں رنجش کے اثرات کو بہت عمدہ نظریہ سے بیان کیا گیا ہے۔
کہانی یوں تو پریرنا کے لرزہ خیز حالات سے شروع ہوتی ہے لیکن پوری کہانی میں گاؤں کی عکاسی زیادہ کی گئی ہے، اس سے گاؤں اور دیہات کے ماضی کے عہد کو سمجھنے میں قارئین کو مدد مل سکتی ہے۔ ناول کی بنت بہت اچھی ہے اور زبان میں بہاؤ بھی بہت عالی ہے۔ایک اچھے اور عمدہ ناول کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب "نئے دھان کا رنگ" میں موجود ہیں۔ فکشن کی سب سے بڑی مشخص خاصیت یہ ہوتی ہے کہ قاری اس کو پڑھنے پر مجبور نہ ہو بلکہ کتاب خود قاری کو اپنی جانب ملتفت کرلے اور ایک مرتبہ قاری جب اس کو پڑھنا شروع کرے تو ختم کرکے ہی دم لے۔ اس حوالہ سے ناول بہت موفقیت آمیز ہے۔ دورانِ مطالعہ ایسا کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ناول نگار زبردستی بات کو کھینچنے اور طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
کچھ جگہوں پر مکالموں اور ڈائیلاگز میں تقریری ظل کا گمان ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر یہ تقریر اتنی فوق العاده ہو جاتی ہے کہ قاری کا ذہن فراگیری سرشار ہو جاتا ہے۔ سر ورق مجلل اور کاغذ فاخر ہے۔ ناول میں لسانی حوالے سے تاثریت، تمثالیت/ پیکریت، قرت ذہنی، ذہنی طہارت اور ستھرے پن کو کلیدی حیثت حاصل ہے۔ اسلوب کے حوالے سے ناول کو فنکارانہ نثر کا مخاطب بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس سبب ناول کی تصویر میں زندگی اس کے عام اخلاقی و فلسفی و مذہبی خیالات و متعلقات کے رنگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناول میں زندگی کا فکریہ اور نظریہ بے شمار نظر آتے ہیں۔ اس کو قاری محسوس بھی کریں گے۔ ناول کو اشکال کیے بغیر یہ تبصرہ لکھنا مجھ حقیر کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن یہ ضروری اس لیے تھا کہ ناول کی حریم خصوصی قارئین کے لیے قائم رہے۔ علی امام ایک  بڑے ادیب ہیں، زبان و بیان، تلفظ، املا اور انشا پر اُن کے قلم کو حرف آخر سمجھنا غلط نہیں ہوگا، آپ تحریر کے بازی گر ہیں، الفاظ کے جادو گر ہیں۔ اپنے افسانوں اور اس ناول کی شکل میں علی امام نے اردو زبان کی جو خدمت کی ہے وہ قابل تحسین و ستائش ہے۔ علی امام کی تحریروں کا عاشق ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ”نہیں، مت بھید، ہاں میں یہاں ہوں" اور "نئے دھان ک ارنگ"، جیسی شاہکار تصنیفات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان افسانوں سے شروع ہو کر افسانوں پر ہی ختم نہیں ہو گئی لیکن افسانوں کا موازنہ ہی کرنا ہے تو پھر علی امام کے افسانوں کا کوئی مقابل نہیں۔
علی امام کے مطالق تمام اہل علم ادیبوں کی تحریروں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کی علی امام کے بارے میں سوچی سمجھی رائے ہے کہ اُن کا مقام اردو کے کسی بھی بڑے ادیب سے کم نہیں۔
میرے دل میں علی امام کی ایک لایقین محبت اور احترام ہے، سچ کہوں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میرا مقام ہی نہیں کہ میرے جیسا ایک ادنا ناقص انسان ڈاکٹر علی امام جیسی شخصیت کے لکھے ہوئے پر بولنے یا لکھنے کی جسارت کرے، افسوس کہ چند باقیات الصالحات ہی اب ہمارے درمیان رہ گئی ہیں، اُن کی بہت قدر کی جانی چاہیے کہ آنے والی نسلوں کو بھی زبان و ادب سے محبت انھی حضرات کی عقیدت سے نصیب ہوگی۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:نئے دھان کا رنگ : ناول بھی حقیقت بھی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے