گھر واپسی

گھر واپسی

وسیم حیدر ہاشمی 

ایسے خوش قسمت اشخاص کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے جو اپنی زندگی، اپنی مرضی کے مطابق گزارلیتے ہوں۔ہر باپ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا باپ کی زندگی میں اس سے بہتر مقام حاصل کرلے مگر ہر ممکن کوشش کے باوجود ایسا بہت کم ممکن ہوپاتا ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ بیشتر اولاد بڑے ہونے کے بعد اپنے والد کے پیشے کو اپنالییے ہیں۔ ہاتھ پانوں مارنے کے باوجود ناکامی کے بعد والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ اولاد اسی کے پیشے کو اپنائے۔ بس، کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے کہ اولاد اپنے پیشے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو جائے۔
چونکہ میرے والد صوبائی گورنمنٹ  میں انجینیر کے عہدے پر فائز تھے اس لیے ان کی بھی یہی خواہش تھی کہ بیٹا بڑا ہو کر انجینیر بنے. چناں چہ اسی خیال سے انھوں نے مجھے نویں جماعت میں سائنس دلوایا۔ میرے خاندان کی فضا پر چونکہ ہمیشہ سے اردو حاوی تھی، اس لیے والد کی ہر ممکن کوششوں کے باوجود نیوٹن اور آئنسٹائن کے اصولوں، سائن تھیٹا، کاس تھیٹا، وَرنیر کیلیپرس، بیورِٹ، پپِٹ، اِسکروگیج وغیرہ کی تکنیک کو میرے ذہن نے کبھی قبول نہیں کیا۔ میرا ذہن از خود چکبستؔ، اسمٰعیل میرٹھی، میرؔ، غالبؔ، میرحسن، اقبالؔ، میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ وغیرہ میں الجھا رہتا۔ میرے ذہن میں پرورش پارہے اردو کے یہ جراثیم مل جل کر کب نیوٹن، آئنسٹائن، جگدیش چند باسو وغیرہ کو چٹ کر گئے، مجھے اس کا احساس تک نہ ہوسکا۔ نتیجتاً میں ہائی اسکول میں فیل ہو گیا۔ جب میں کچھ ڈرا، سہما اور شرمندہ سا گھر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر متحیر تھا کہ گھر کا ماحول میری توقعات کے ایک دم برعکس تھا۔ والد نے براہ راست تو مجھ سے کچھ نہیں کہا مگر والدہ کو میرے سلسلے میں چند ہدایات دیں تھیں۔
”تم اس مرتبہ فیل ہو گئے تو کوئی بات نہیں۔ فیل، پاس ہونا تو بچوں کے ساتھ لگا ہی رہتا ہے۔ اگر تم سائنس نہیں پڑھنا چاہتے تو کوئی بات نہیں۔ اس سال اپنی پسند کے سبجکٹ کے ساتھ دوبارہ داخلہ لو اور……..“ اور میں نے اثبات میں سر کے اشارے سے حامی بھرلی۔ والدین کے اس پسندیدہ رویہ پر میں بہت خوش اور دل ہی دل میں ان کا مشکور و ممنون بھی تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ میں نے کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے ہوئے نہ صرف اردو میں ایم.اے. تک تعلیم حاصل کی بلکہ انگیزی اور معلومات عامہ کی اچھی صلاحیتوں کے سبب مرکزی گورنمنٹ میں ’گریڈ ٹو افسر‘ کی نوکری بھی حاصل کر لی۔ اس کے بعد میری شادی کا مسئلہ درپیش ہوا۔ ہمارے سماج میں چونکہ لڑکیوں کی اچھائی کا پیمانہ خوب صورتی طے پایا ہے اور لڑکوں کی اچھی آمدنی، چناں چہ میری شادی جلد ہی ایک ’اچھی سی‘ لڑکی کے ساتھ کروا دی گئی۔ اچھی سرکاری نوکری کے ساتھ دو کمروں پر مشتمل اجداد کا عطیہ ایک پشتینی گھر، مطمئن زندگی کے لیے کافی تھے۔
فِکشن سے دل چسپی کے سبب چونکہ میں کالج کے زمانے سے ہی مختصر افسانے لکھتا تھا، جو وقتاً فوقتاً ملک کے مؤقر رسائل و جراید میں شائع ہوتے رہتے تھے، اسی سبب چار پانچ برس کے عرصہ میں ہی میرا نام قارئین اور ناقدین کے درمیان بحث کا موضوع بن گیا۔ اسی خام خیالی کے باعث میں خود کو خاص تصور کرنے لگا تھا۔ مجھ میں واقع یہ نامعقول تبدیلی صرف گھر خاندان، محلے پڑوس اور دوست یار تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس عارضی کامیابی کے سبب میں نے اپنے دفتری عملے کے درمیان بھی ٹھیک اسی طرح خود کو اندھوں میں کانا راجہ تصور کر لیا تھا جیسے ماضی بعید میں شاہان وقت خود کو ظل الہٰی، تاجدار زمین و آسمان اور مالک ملک و مکان کے خودساختہ خطاب سے نواز لیا کرتے تھے۔ میرے نامعقول خیال کے مطابق اخبارات، رسائل اور مختلف ریسرچ جرنلوں میں شائع انعام وغیرہ حاصل کرتے ہوئے میری تصاویر اور تعریفی کلمات نے میرے نام کو میری زندگی میں ہی بقائے دوام کی سند عطا کر دی تھی، جس کے سبب مَیں مسلسل اپنے نام کو پکی روشنائی میں دیکھنے کی میری خواہش بتدریج بڑھتی رہی۔ ان عارضی کامیابیوں کے سبب میں نے گھر اور دفتر کی ذمہ داریوں سے خود کو کافی حد تک مستثنیٰ کر لیا تھا، جس کا منفی اثر میری ذاتی زندگی پر یہ پڑا کہ دفتر کا عملہ مجھے غیرذمہ دار تصور کرنے کے ساتھ مجھ سے قدرے بیزار رہنے لگا اور بچے بھی بے راہ روی کے شکار ہونے لگے۔ میری خودستائی اور بے حسی کے سبب ان تبدیلیوں کا براہ راست مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بچوں کے مستقبل سے بے پرواہ، میری زندگی کا واحد ہدف، اب ایک عدد جدید فلیٹ اور ’پدم پُرسکار‘ حاصل کرنا رہ گیا تھا۔
’خدا مہربان تو گدھا پہلوان‘ والی کہاوت اس وقت مجھ پر صادق آئی جب بلی کے بھاگ سے چھیکا ٹوٹا۔ جب مَیں شعبہ کی نوکری سے سبک دوش ہوا تو شعبہ کے جانب سے اتنی کثیر رقم ہاتھ لگی کہ میں اپنی شخصیت میں مزید بھاری پن محسوس کرنے لگا۔’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘ چناں چہ میں نے شہر کے شور و غل سے دور، تین کمروں پر مشتمل ایک خوب صورت سا فلیٹ خرید کر اپنے اُس خود ساختہ خواب کی وہ تعبیر حاصل کر لی، جو میری زندگی کا عین ہدف تھا۔ بینک بیلنس اندازے سے زیادہ کم ہوجانے کے باوجود نئے فیلٹ میں رہنے کی خوشی میرے دل و دماغ پر تادیر تازہ رہی۔ بیوی کے اصرار پر دونوں بچوں کو پھٹپھٹیا بھی دلوا دی۔ اس خریداری میں بیوی کے اصرار کے ساتھ اس کی ناقابل تردید دلیل یہ تھی کہ ”نئے فلیٹ سے، بازار دور ہے۔ سودا سلف، ہاٹ بازار اور اسکول کالج کے لیے دونوں کے پاس شہر تک جانے آنے کا کوئی معقول ذریعہ تو ہونا ہی چاہیے“۔ فلیٹ کے سڑک کی جانب والے دو خوب صورت اور بڑے کمروں پر بچے قابض ہو گئے اور ہمارے حصے میں فلیٹ کے عقبی حصے کا چھوٹا کمرہ آیا، جسے بچوں کی خوشی کے پیش نظر ہم لوگوں نے صبر و شکر کے ساتھ قبول کر لیا۔ بینک کی بچی جمع پونجی بھی بچوں کی خواہش کی نذر ہوگئی۔ موبائل فون، اب چونکہ ضروریات زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے، اس لیے بچوں کی خواہش کے مطابق انھیں ’ٹچ اِسکرین‘ والا مہنگا موبائل فون دلوانا پڑا جب کہ میرے پاس پرانے زمانے والا چھوٹا موبائل فون تو تھا ہی۔ بچوں کے  مطابق، میری ضروریات کے لحاظ سے وہ کافی تھا۔ کل تک، جب ہم چاروں افراد ایک ہی کمرے میں رہتے تھے تو ایک دوسرے کی ہر خوشی اور اونچ نیچ میں برابر کے شریک اور ایک دوسرے سے قریب تر تھے۔ جب سے الگ کمروں کے ساتھ ان کے پاس اپنے موبائل فون آگئے تھے، ہم لوگوں کی زندگی نے ایک عجیب سے مثلث کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس مثلث کی اب یہ صورت ہو گئی تھی کہ جہاں دیکھنے میں تو اس کے تینوں سرے ملے ہوئے تھے مگر درمیانی خلا ہمیں ہمیشہ بے چین کیے رہتا تھا۔ اب ہم لوگوں کی حالت یہ تھی کہ ’’ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہی خود ہماری خبر نہیں آتی“۔ اب آسرا تھا تو شعبہ سے موصول ہونے والی نصف تنخواہ سے بھی کم پِنشن کا۔ پھر بھی، میں یہ سوچ کر خوش تھا کہ اللہ تعلی کے فضل و کرم سے بچوں کو جلد ہی کوئی معقول نوکری مل جائے گی اور میں آزادی کے ساتھ اپنے پسندیدہ مشغلے یعنی ’فِکشن رائٹِنگ‘ میں مشغول رہوں گا اور جلد ہی مجھے سرکار کی جانب سے کم از کم ’پدم پُرسکار‘ تو مل ہی جائے گا کہ اچانک ایک روز معلوم ہوا کہ اہلیہ ’شوگر‘ کی اور میں ’ہائی پَر ٹِنشن‘ کا مریض ہو چکا ہوں۔ اس آفت ناگہانی پر بچوں کا عجیب تبصرہ تھا ”…….اس عمر میں تو یہ امراض عام ہیں۔ اس میں فکر کی کیا بات ہے“۔ یہ سن کر دل پژمردہ تو ہوا مگر مجھے ناگوار نہیں لگا۔ ’بچے شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں‘ میں نے سوچا۔
اپنے شعبے میں چالیس برس کی خدمات کا بونس ’بڑے صاحب‘ کی مہربانیوں اور ہمدردی کی صورت مجھے یہ حاصل ہوا کہ میرے بڑے بیٹے کو جب انھوں نے اسی شعبے میں کلرکی سے نواز ا تو میرے پاس ان کے شکریہ کے لیے الفاظ کم پڑگئے۔ بہر حال، میں خوش تھا۔ بڑے بیٹے کی نوکری کیا لگی کہ اس کے رشتوں کی بھرمار ہو گئی۔ اہلیہ کی ضد کے آگے سرنگوں ہو کر میں نے بیٹے کی شادی، سالے کی بیٹی سے کروا دی۔ بہو کے ہمراہ گھر میں نئی خوشیاں بھی آئیں مگر وہ عارضی ثابت ہوئیں۔ بیٹا جلد ہی بہو کے ساتھ اُس فلیٹ میں منتقل ہو گیا، جو اسے شعبہ کی جانب سے ملا تھا۔ ہر چند کہ بیٹے اور بہو کے اخراجات سے اب میں سبک دوش ہو چکا تھا مگر خانگی اخراجات کے ساتھ ہم دونوں کی دوائیں، فلیٹ اور سوسائٹی کے اخرات کے بار جب پنشن کے برداشت سے باہر ہو گئے تو نوبت قرض تک آپہنچی، جو مجھے کسی بھی صورت گوارہ نہ تھا۔ ان حالات میں مجھے اپنے اجداد کے مقفل گھر کی یاد کچھ زیادہ ہی بے چین کرنے لگی تو میں نے زندگی کا پہلا فیصلہ اہلیہ کو بتائے بغیر، تن تنہا کر لیا اور فلیٹ کو فروخت کر کے واپس اپنے اجداد کے پشتینی گھر میں منتقل ہوگیا۔ میرے اس اچانک فیصلے سے اہلیہ اور چھوٹا بیٹا بہت ناراض ہوئے۔ اہلیہ پر غم و غصے کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انھوں نے مجھ سے بات تک کرنا ترک کر دیا، جو میرے لیے مزید گراں بار تھا۔ میں اسے ہر وقت خوش کرنے کی فکر میں نئی نئی ترکیبیں سوچا کرتا مگر کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا۔ ذہنی فکر اور گھریلوں الجھنوں کے درمیان اہلیہ کے علاج میں کچھ لاپرواہی ہوئی تو اس کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ چار و ناچار اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ شوگر کے سبب اس کی دونوں کڈنی خراب ہو چکی ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹروں نے ’ڈائلسِس‘ کی تجویز پیش کی۔ چار ماہ تک ہفتہ میں دومرتبہ انھیں ہسپتال لے جانا تھا۔ اس کام میں اکثر چھوٹا بیٹا مددگار ہوتا مگر اس کی مصروفیات کی بنا پر کبھی کبھار یہ ذمہ داری مجھے تن تنہا اٹھانا پڑتی تھی۔
بڑے لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہر کوئی اخیر میں اکیلا ہوتا ہے“ چناں چہ یہ کہاوت ایک روز مجھ پر بھی صادق آئی۔ چھوٹا بیٹا اپنی نوکری کے سلسلے میں شہر سے دور، نوکری کے لیے کوئی امتحان دینے گیا ہوا تھا۔ میں ڈائلسِس کے لیے اہلیہ کو تنہا لے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ڈائلسِس کے بعد واپسی سے قبل اچانک اس کی حالت بہت بگڑ گئی، جس کی وجہ سے وہ بیہوش ہو گئیں تو مجبوراً میں نے بڑے بیٹے کو فون کیا۔ وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔ بہو نے جواب دیا کہ آتے ہی انھیں بتا دوں گی۔ شام کے چار بجتے بجتے میرا سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے اتنی ناراض تھی کہ بات کیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو گئی۔
بولا، نہ کچھ کہا، نہ کسی سے خفا ہوا
چپ چاپ درمیان سے اٹھا، چلا گیا
***
صاحب افسانہ کا گذشتہ افسانہ: مہلک مرض کی سند

شیئر کیجیے

One thought on “گھر واپسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے