عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و شعری منظر نامہ

عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و شعری منظر نامہ

امتیاز احمد دانش
احمد ہاؤس، بخشی نگر گیٹ
کھتاڑی محلہ، آرہ، بہار، رابطہ ۔6204056560
Mail: iahmaddanish50@gmail.com

زمینِ سخن میں پڑے سو رہے ہیں 
 شہیدانِ تیغِ سخن کیسے کیسے
ریاست بہار کا تاریخی شہر آرہ، قدیم زمانے سے ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ کبھی یہ ضلع شاہ آباد کا ہیڈ کواٹر ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کی خصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس زرخیزمٹی میں بڑے بڑے شعرا و ادبا، فن کاروں، موسیقاروں اور سیاست دانوں نے جنم لیے۔مشہور گیت کار ایس ایچ بہاری، مشہور مردنگ وادک بابو للن سنگھ، شہنائی نواز استاد بسمل اللہ خان اور سابق نائب وزیر اعظم بابو جگجیون رام جیسی شخصیتوں کی لازوال تاریخ یہ شہر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ بیسویں صدی میں آزادی سے قبل تک شیش محل چوک سے گوپالی چوک موجودہ ڈنس ٹینک تک کی سڑکیں شام ہوتے ہی خوشبوؤں سے معطر ہو اٹھتی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب رقاصوں کے کوٹھیوں پر موسیقی کی محفلیں آراستہ ہو جاتی تھیں۔ طبلوں کی تھاپ اور پائلوں کی جھنکار سے فضا نغمگی میں ڈوب جاتی تھی۔ دھرمن چوک پر آباد تاریخی دھرمن مسجد جسے بابو کنور سنگھ نے اپنی معشوقہ بی بی دھرمن کے نام سے بنوائی تھی۔ اس شہر کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال ہے۔ مسجد کے پورب جانب معروف شاعر علامہ صفیر بلگرامی تلامذہ غالب کا خلوت کدہ تھا۔ ان کی وفات کے بعد فرزند ولی حیدر گہر نے اس وراثت کو سنبھال رکھا تھا۔ شام ہوتے ہی اہل قلم، اہل ذوق حضرات اس باب سخن میں تشریف لاتے اور سخن آرائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ چند گز کے فاصلے پر میر صاحب کا پھاٹک سید محمد ہادی بلگرامی کے مکان (موجودہ ہادی مارکٹ) کی پہلی منزل پر واقع مشاعرہ گاہ میں ولی حیدر گہر کی بزم ”بزم ادب“ کے زیر اہتمام ہر ماہ طرحی مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔مشاعرے میں پٹنہ، سہسرام، بکسر کے علاوہ دور دراز کے شعراے کرام تشریف لاتے تھے۔
مرزا غالب کے دور میں یہاں کا ادبی منظر نامہ اس شہر کی ادبی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس وقت کے سخنوروں میں خلیل و فوق آروی، باقر آروی، سید غلام حسین قدر بلگرامی، علامہ صفیر بلگرامی، خواجہ فخرالدین حسین سخن، بندہ علی بندہ بلگرامی، سید وارث علی اشکی، عسکری بلگرامی، انور علی یاس آروی، شجاعت علی شجاعت، فرید الدین یکتا، وجد آروی، سید لقمان حیدر، شاداں بلگرامی، سلیمان حیدر وزیر، مولا بخش خاں رضواں، سید ہاشم بلگرامی، سلیمان خاں جادو، حشر آروی اور علامہ بدر آروی وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے شعر و سخن کے پرچم کو نہ صرف بلند کر رکھا تھا بلکہ انھوں نے زبان و ادب کی بے پناہ خدمات انجام دیے تھے۔ دوسری جانب مرزا غالب کا غلبہ دنیائے ادب پر غالب تھا۔
شہر آرہ کی ادبی تاریخ پر مشتمل ش۔م۔عارف ماہر آروی کی کتاب ”آرہ ایک شہر سخن“ مطبوعہ ۱۹۹۱ء میں فوق آروی، باقر آروی، قدر بلگرامی، صفیر بلگرامی اور خواجہ فخر الدین حسین سخن کا شمار غالب کے شاگردوں میں کیا گیا ہے۔ یوں تو غالب کے شاگردوں کے باضابطہ شواہد موجود نہیں۔ لیکن وصی احمد بلگرامی کے مضامین پر مستتمل کتاب ”دیر و حرم کا افسانہ“ اور ”تاریخ بلگرام“ مطبوعہ ”صفیر بلگرامی اکیڈمی“ کراچی پاکستان، سن اشاعت ٢٠٠٣ء میں ان شاعروں کے غالب سے قریبی رشتے کا اشارہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر مختار الدین احمد  کے مطابق قاضی عبد الودود صاحب کا ایک مضمون ”غالب کے خطوط صفیر بلگرامی کے نام“ آج کل، دہلی کے اگست ١٩٥٢ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا، جو اس حقیقت کی غماز ہے۔
اس دور میں فوق آروی صوبہ بہار میں شعر و ادب کا معتبر نام تھا۔ وہ اردو اور فارسی دونوں زبان میں شاعری کرتے تھے۔ فارسی میں تخلص فوق اور اردو میں تخلص خلیل لکھتے تھے۔ غالب سے ان کے نسبت کی تصدیق ان کے نام لکھے گئے خطوط سے ہوتی ہے۔ جو کلیات فوق میں شامل ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خلیل ایں غزل ارزوئے دعویٰ
جوابش و بد غالب نکتہ آرا
فوق ہے آغاز سے انجام پر میری نظر
ابتدا سے ہی ہماری انتہا ہے سامنے
ہم سن چکے ہیں حضرت آدم کی سر گذشت
جنت میں بھی رہے گا یہ کھٹکا لگا ہوا 
  فوق آروی کی تاریخ پیدائش ١٨٣٠ء ہے۔ زندگی کا وقفہ ملکی محلہ، آرہ میں گزرا۔ اور غالباً ١٨٩٩ء میں وفات پا گئے۔
اس سلسلے کی اگلی کڑی میں زبان و ادب کی عظیم الشان شخصیت باقر آروی کا نام آتا ہے۔ جن کی پیدائش ١٩ / جون ١٨٣١ء کو ہوئی تھی۔ والد وارث علی اشکی کا شمار غالب کے ہم عصر شاعروں میں ہوتا تھا۔ باقر کی شاعری والد کے زیر سایہ پروان چڑھی۔ وہ اردو فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے۔ انھوں نے ١٨٦٠ء میں خواجہ فخر الدین حسین سخن تلمیذ غالب کے مشورے پر مرزا غالب سے شاگردی کا شرف حاصل کیا تھا۔ اور ”برہان قاطع۔۲“ کے معرکہ میں حق شاگردی ادا کر تے ہوئے استاد کی عظمت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالاتھا۔ ”بحوالہ آرہ ایک شہر سخن“ واقعہ یوں ہے کہ ”محمد حسین برہان ابن خلف تبریزی کی ضخیم فرہنگ ’برہان قاطع’ ١٨٥٢ء میں لکھی گئی تھی۔ اس کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی صورت میں غالب نے ١٨٦٠ء میں ”قاطع برہان“ شائع کیا۔ اس کا چھپنا تھا کہ غالب کے مخالفین کا سیلاب امڈ پڑا۔ مضامین، نثر و نظم، منظومات اور قطعات کے حوالے سے سوال، جواب، جواب الجواب کی جنگ شروع ہو گئی۔ قطعات کے انبار لگ گئے۔ جس کے بعد ایسے تمام قطعات کو یک جا کر کے منشی سنت پرشاد نے اپنے مطبع، واقع آرہ سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب ”ہنگامۂ دل آشوب“ شائع کیا۔ جس کی پہلی جلد ۱۱/ اپریل١٨٦٧ء کو شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ٣١ قطعات غالب، ٤٦ قطعات فدا، ٣٤ قطعات باقر آروی اور ٣٧ قطعات خواجہ فخرالدین حسین سخن کے شامل تھے۔ ”ہنگامۂ دل آشوب“ کی دوسری جلد ٢٨ /جولائی ١٨٦٧ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ جس میں مختلف شعرا کے ٢٨٥ اشعار شامل تھے۔ اس معرکہ آرائی میں تیسری کتاب ”تیغ و تیز تر“ تھی۔ جو غالب کی مخالفت میں شائع ہوئی تھی۔ اس دور میں آغا علی شمس لکھنوی نے غالب کی مخالفت میں ایک مضمون ”اخبار اودھ“ مطبوعہ ١٨٦٧ء میں شائع کرایا تھا۔ جس کا جواب سخن نے اردو اور باقر نے فارسی میں دیا تھا۔ سوال و جواب کے اس کتابی سلسلے کو غالب نے آخر کار ”قاطع برہان“ میں کچھ اضافے کے ساتھ ایک کتاب ”درفش کاویانی“ طبع کراکر اس بحث کا خاتمہ کیا۔
باقر آروی سخت اور مشکل زمینوں میں غزلیں کہا کرتے تھے۔ ان کی غزلیں عموماً خود سر زمینوں میں ہوتی تھیں۔ راقم الحروف کے پاس باقر آروی کا ایک دیوان تو ہے لیکن اس خستہ حال دیوان میں تقریباً سو صفحات ہی موجود ہیں. میرے خیال میں یہ کتاب بھی ضخیم ہوگی۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ بیس سال قبل ایک بوریے میں دیمک زدہ خستہ حال کتابیں جھاڑیوں میں مجھے ملی تھیں۔ جس میں یہ نایاب کتابیں شامل تھیں۔باقر آروی کی بیاض کے بچے کھچے صفحات سے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:
تجھ کو دیکھوں ادھر اُدھر افسوس
رہگزر میں ترا گزر افسوس
لاکھ تدبیر کی مگر نہ ہوا
شجرِ عشق بارور افسوس
وصل میں اب ہجر کا مطلق نہیں آتا خیال
وہ تڑپنا خواب تھا اور رات دن رونا خیال
کیا کہیے تو ہی آنکھوں میں کیا سر سے پاؤں تک
تصویر نور ہے بخدا سر سے پاؤں تک
مجھ کو تو دو نہ بحر خدا صدمۂ فراق
مجھ سے نہ اٹھ سکے گا ذرا صدمۂ فراق
الفت میں بھر دیا ہے الٰہی کہاں کا لطف
شرمندہ جس کے سامنے ہے دو جہاں کا لطف
سب کسوت دل لوٹ ذرا داغِ جگر لوٹ
جائز ہے ترے واستے اے رشکِ قمر لوٹ
اے گلِ تر تجھ کو ہے کیا نوجوانی پر گھمنڈ
کیوں نہ پھر مجھ کو ہو اشک ارغوانی پر گھمنڈ
کس مہر سے دم بھر یہ ہم آغوش ہوئی دھوپ
اب تک نہیں ہوش اس کو یہ بے ہوش ہوئی دھوپ
جو تو سنے گا نہ دردِ نہاں کو اے صیاد
یہ رہ نہ جائے گا قصہ بیاں کو اے صیاد
باقر آروی واحد شاعر تھے جنھوں نے اپنے ہم عصروں میں لمبی عمر پائی اور انیسویں صدی میں داخل ہوئے۔ان کی وفات ٢٤/ جولائی ١٩٠٨ء کو ہوئی اور انھیں بربیگہ قبرستان میں دفن کیا گیا۔
باقر آروی کے ہم عصر شاعر غلام حسین قدر بلگرامی کی ولادت غالباً ١٨٣٣ء میں ہوئی تھی۔ آپ دونوں شعرا کی عمر میں محض دو سال کا فاصلہ تھا۔ قدر بلگرامی شادی کے بعد کواتھ (بلگرام) ضلع بھوجپور سے ملازمت کے سلسلے میں لکھنؤ چلے گئے۔ لیکن آرہ آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ لکھنؤ میں انھیں سحر و برق کا ساتھ ملا۔ ان کے انتقال کے بعد وہ امداد علی سحر سے اصلاح لینے لگے۔ وہاں سے پھر پنجاب تشریف لے گئے۔ مگر جلد ملازمت سے مستعفی ہو کر دلی چلے آئے۔ دلی میں غالب کی قدم بوسی کی اور ان کی شاگردی اختیار کر لی۔ وہاں وہ لمبے وقفے تک رہے۔ گویا دلی ان کا مسکن بنا۔اپنی ایک رباعی میں اساتذہ کا ذکر یوں کرتے ہیں:
سیکھے سحر و برق سے بندش کے بند
پھر غالب و سحر  نے بتائے پیوند
مجھ سا کبھی زمانے میں نہ ہوگا اے قدؔر
بدنام کنندۂ نکونا مے چند
قدر بلگرامی کی غزلیں نئی نئی سنگلاخ زمینوں میں ہوتی تھیں۔ راقم الحروف کے پاس تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ”دیوان قدر“ کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ان کی تصنیفات میں یقیناً کچھ اور کتابیں ہوں گی۔ بہر حال چند اشعار حاضر خدمت ہیں:
نبض کی شکل ہے رگ رگ مرے قاتل بیتاب
اب تو ہر عضو ہوا ہے صفت دل بیتاب

لڑاتا ہے آنکھیں گرفتار الفت
نظر بند ہوگا گنہگار الفت
آنکھ کو سرمہ ہے منظور نظر کیا باعث
کیوں دیا صاد پہ بیکار زبر کیا باعث
خدا کی ذات ہے دریا کی آب کے مانند
اٹھے ہیں حضرت آدم حباب کے مانند
دیکھئے کا لی گھٹا میں بہار طاؤس
بعد اک سال کے نکلا ہے بخار طاؤس  
جناب قدر کو تاریخ گوئی میں بھی مہارت حاصل تھی۔اپنے استاد غالب کے قطعہ رحلت میں فرماتے ہیں:
مرے استاد عالی جاہ غالب۔۔١٨٦٧ ء
دو ذیقعدہ کو اب مر گئے آہ۔۔ ١٢٨٥ ہجری
آپ ستمبر ١٨٨٤ء لکھنؤ میں محض ٥١ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اور وہیں میر خدا بخش کربلا میں مدفون ہوئے۔
صفیر بلگرامی کی پیدائش ۸/ اپریل ١٨٣٤ء کو ہوئی۔بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ اپنے آبائی وطن بلگرام (کواتھ) سے آرہ آبسے۔ اپنے شعری سفر کے دواران مرثیہ گوئی میں میر منظر علی ضمیر لکھنوی تلمیذ مرزا سلامت علی دبیر سے مشورۂ سخن کیا۔ ١٨٦١ء میں فارسی کلام پر مرزا غالب سے رجوع کیا۔ اپنے ماموں شاہ عالم کے ساتھ دلی جاکر مرزا غالب کی قدم بوسی کی۔ اور یہ قلمی رشتہ رفتہ رفتہ مزید استوار ہوتا گیا۔ایک روایت ہے کہ غالب کے قدم کلکتہ جانے کے دوران عظیم آباد (پٹنہ) کے ساتھ آرہ میں بھی رکے تھے۔ حالانکہ اس دعوے کے کوئی شواہد تو موجود نہیں ہیں۔لیکن آب سوہن پر کہے گئے قطعات سے اس کا اشارہ ملتا ہے:
خوشتر بود آب سوہن از قند و نبات
باوے چہ زنیل جیون و فرات
ایں پارۂ عالمے کہ ہندش نامند
گوئی ظلمات سوہن آب حیات
گفتمش چوں عظیم آباد؟
گفت رنگیں تراز فضائے چمن
گفتمش سلسبیل خوش باشد
گفت خوشتر نباشد از سوہن؟
غالب سے مخاطب ہوکر صفیر بلگرامی فرماتے ہیں۔ دریائے سوہن کے سا تھ ساتھ شہر آرہ میں دریائے سخن بھی موج زن ہے اور موجوں سے آواز آرہی ہے:
اے اہل نظر عجیب ہے آرا
گلزار ہے باغ پر فضا ہے آرا
اس باغ کو انقلاب کا خوف نہیں
الٹیں جو اسے تو بھی ہرا ہے آرا
(مذکورہ اقتباس ”دیر و حرم کا افسانہ" سے ماخوز ہے)
صفیر بلگرامی ایک شاعر ہی نہیں بلکہ صحافی، نقاد، ناول نویس، خوش نویس اور قواعد داں بھی تھے۔ معرکہ آرائی میں ان کی ایک سناخت تھی۔ ریاست بہار سے پہلا اردو اخبار”نور الانوار“ کی اشاعت محمد ہاشم بلگرامی، سید خورشید احمد کلیم اور صفیر بلگرامی کی کاوشوں کا ثمرہ تھا۔ یہ اخبار مصائب حسین وحشت بہاری کی نگرانی میں ”اسٹار آف انڈیا“ آرہ میں طبع ہوا کرتا تھا۔ ١٨٦٧ء میں ”ہنر القواعد“ کے نام سے ایک علمی سہہ ماہی آرہ سے جاری کیا گیا۔ جس کے مہتمم خواجہ فخرالدین حسین سخن اور نگراں سید وارث علی ہوا کرتے تھے۔ ١٨٧٣ء میں چار ورقوں پر مشتمل ہفتہ وار ”ضیاء الابصار“ شائع ہوا۔ جس کے سرپرست ہاشم بلگرامی اور ایڈیٹر خود صفیر تھے۔ مئی ١٨٨٦ء میں ”آرہ گزٹ“ کے نام سے چار ورقوں پر مشتمل ایک ہفتہ وار جاری کیا جو لمبے وقفے تک شائع ہوتا رہا۔
آپ کی مطبوعات میں ”جلوۂ خضر“ کے بارے میں امیر مینائی لکھتے ہیں کہ صفیر بلگرامی کی یہ بلند پایہ تالیف جس پر صوبہ بہار ناز کر سکتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر بیلی، پروفیسر لندن یونی ورسٹی، اپنی کتاب ہسٹری آف اردو لٹریچر (تاریخ ادب اردو) مطبوعہ ١٩٣٢ء ص ۲۹ میں فرماتے ہیں:

life in Safir Belgrami………he lived a large part of his
"Arrah” and wrote much verse, principally love lyric,his published books include in anthology,Salvat-i-khizr,and volumes of lyrics called,Safir-e-Bulbul and Khumkhana-e-Safir. He wrote a novel, Rooh Afza, wich was not published. Perhapes his most importent works was Jalwa-e-Khizr, A history of urdu litehature,Which he wrote with a view to correcting what hi considered the mis.statements of Azads Ab-i-Hayat
(A history of urdu literature by Dr.T.G Balley,M.A)

ترجمہ: ”صفیر بلگرامی………کی زندگی کا زیادہ حصہ آرہ میں گزرا۔ نظم میں ان کا کلام بہت کچھ ہے بالخصوص غزلیات، ان کی مطبوعہ کتابوں میں ”صلوات خضر“ (بیاض اشعار) اور ”صفیر بلبل“ دو دیوان غزلیات بھی ہیں۔ ایک ناول انھوں نے ”روح افزا“ بھی لکھا تھا جو طبع نہیں ہوا مگر ان کی اہم ترین تالیف ”جلوۂ خضر“ ہے۔ یہ تاریخ ادب اردو کی اور مؤلف کے خیال میں آزاد کی ”آب حیات“ میں جو غلط بیانیاں تھیں، اُنھی کی تصحیح کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہے“۔(بحوالہ ’دیر و حرم کا افسانہ‘ ص ٢٠٠)
اس طرح صفیر بلگرامی کی مطبوعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ وہیں ان کے ساتھ ان کے رفقا کے کارناموں کی لمبی داستان ہے۔ مذکورہ کتابوں کی از سر نو اشاعت ”صفیر بلگرامی اکیڈمی“ کراچی پاکستان سے سن ٢٠٠٠ء کے اوائل میں وصی احمد بلگرامی کے فرزند رضوان احمد بلگرامی  کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ رضوان احمد بلگرامی ٢٠٠٦ء میں ہندستان تشریف لائے تھے تو قیام آرہ کے دوران مجھ سے کتابوں کے متعلق ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ وہاں سے انھوں نے کچھ کتابیں مجھ ناچیز کو بھجوائی تھیں۔ شومی قسمت کہ یہاں سے واپس جانے کے کچھ ہی سال بعد وہ وفات پا گئے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے بہت سارے واقعات کا علم ہوا۔
ایک واقعہ یوں ہے کہ بانکی پور چوہٹہ پر میر اسماعیل کے یہاں مجلس تھی، لوگ ابھی آ رہے تھے۔ جب تک مجلس میں مرزا دبیر پر تبصرہ ہو رہا تھا۔ میر جان علی اصدقی عظیم آبادی شاگرد نثار علی باقر گنج نے کہا صاحبو! مرزا دبیر فرماتے ہیں:
”پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکلا“
سوال یہ کہ چمن میں پھول ہوتا ہے یا پھل؟ ہر طرف سے آواز آئی پھول! پھول! جب ہی جناب صفیر بول پڑے حضرت سودا فرماتے ہیں:
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
او خانہ برانداز چمن! کچھ تو ادھر بھی
مجمعے نے ان کی طرف سر سے پاؤں تک دیکھا، آپ کون!انہوں نے جواب دیا۔
انتخاب زمانہ ہوں میں
کہ وطن بلگرام ہے میرا
ایک دوسرا واقعہ یوں ہے کہ ایک مشاعرے میں صفیر بلگرامی نے فی البدیہہ ٢١ شعر کی دو غزلیں سنائیں۔ تو یوسف علی شہید نے کہا لاریب قادر کلامی اس کو کہتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد ایک دوسرے مشاعرے میں جوش نے کہا کہ ہم اس کو شاعر مانیں گے جو فی البدیہہ ”خنجر تہہِ خنجر“ باندھ کر دکھلا دے۔ صفیر بلگرامی نے دس اشعار فی البدیہہ کہہ ڈالے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جس طرح سے جی چاہے مجھے قتل کرو تم
تڑپوں گا نہ اے صاحب خنجر تہہِ خنجر
ہے جوش کا دعویٰ یہ کہ شاعر اسے سمجھوں
باندھے جو کوئی قافیہ خنجر تہہِ خنجر
شاعر مجھے کہتے ہیں صفیر سخن آرا
یوں باندھتے ہیں قافیہ خنجر تہہِ خنجر
صفیر بلگرامی نئی نئی سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ لیکن اس فن میں قدر بلگرامی اور باقر آروی کو فوقیت حاصل تھی۔ بہر حال صفیر کے چند اشعار:
عکس تیرا جب پڑا ساقی میان موج میں
سایہ افگن خم سے ہوگا سائبان موج میں
میرے آگے غیر سے اس طرح یارانے کی بات
واقعی ہے اے ستمگر یہ تو مر جانے کی بات
اے صفیر اس سوز غم سے کون عاشق بچ سکے
جل بجھا کل رات دیکھی تم نے پروانے کی بات
صفیر بلگرامی کو اپنے جائے پیدائش بلگرام (کواتھ) ضلع بھوجپور سے بے حد لگاؤ تھا۔ انھوں نے ایک کتاب ”تاریخ بلگرام“ مرتب کیا تھا۔ جس میں اس عہد کے شعرا نے بلگرام کی شان میں قصیدے گڑھے ہیں۔ اس کتاب کی دوبارہ اشاعت ٢٠٠٨ء میں صفیر بلگرامی اکیڈمی، کراچی، پاکستان سے بھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار:
قدر بلگرامی
ہر دل عزیز ہوں مرالغاں ہے بلگرام
اس کی روش بسا ہوں گلستاں ہے بلگرام
صفیر بلگرامی
ہم کو کیوں کر ہو نہ پیارا بلگرام
ہے وطن اے دل ہمارا بلگرام
ماہرین علم و فن کی جا ہے یہ
خطۂ یوناں ہے سارا بلگرام
مولد مسکن وطن ہے اے صفیرؔ
تین جا مارہرہ آرا بلگرام
ہاشم بلگرامی
سب پہ روشن ہے جلالِ بلگرام
سب پہ ظاہر ہے کمالِ بلگرام
ہاشم  ایسا شہر دنیا میں کہاں
ایک جنت ہے مثالِ بلگرام
بلگرام سے وابستہ صفیر بلگرامی کے کئی شاگردوں کا ذکر ملتا ہے۔ ویسے ان کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ (مرقعۂ فیض مطبوعہ ١٨٧٨ء) میں ان کے ٦١ شاگردوں کا ذکر ملتا ہے۔ جس میں شاد عظیم آبادی کا نام بھی شامل ہے۔ لیکن اس میں تضاد ہے۔ عبد المالک آروی نے اپنی کتاب ”الہامات شاد“ سن اشاعت ١٩٣٣ء مطبوعہ ”طاق بستاں“ بمقام آرہ میں لکھا ہے کہ داغ سے اقبال کے تلمذ کی روایت ایسی قابل اشک فسانی ہے جیسے صفیر سے شاد کی۔ انھوں نے اپنی دلیلوں اور شاد کے اخلاقی رحجان سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انھوں نے کبھی صفیر کی شاگردی نہیں کی۔ لیکن ڈاکٹر مختار الدین احمد نے ”تاریخ بلگرام“ جلد۔ ۲، مطبوعہ، کراچی پاکستان میں لکھا ہے کہ شاد نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں بے شک اصلاح لی تھی۔ لیکن کچھ عرصے بعد مطالعہ اور مشق سخن سے انھیں مہارت حاصل ہو گئی تھی کہ کسی سے اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کیا۔ دوسری جانب وصی احمد بلگرامی نے شاد عظیم آبادی کے اشعار میں صفیر بلگرامی کی دی گئی اصلاح کے ساتھ تقریباً پچاس اشعار بہ طور نمونہ دلیلوں کے ساتھ اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان اصلاحوں کا سلسلہ کامل سات برس تک جاری رہا۔ ١٢٦١ھ سے ١٢٦٧ھ تک اس زمانے میں صفیر بلگرامی کا قیام عظیم آباد کشمیری کوٹھی میں تھا۔ اس وجہ کر جناب شاد کو فیض حاصل کرنے میں بہت سہولت ہوئی۔
(مذکورہ اقتباس ”دیر و حرم کا افسانہ" ص ١٨٤ سے ماخوذ ہے) انیسویں صدی اپنی عمر کی چھٹی دہائی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ صفیر بلگرامی نے ایک خط اپنے استاد حضرت غالب کو لکھا۔ اس خط میں خواجہ فخرالدین حسین سخن کے مسودے کا بھی ذکر تھا۔ مرزا غالب نے اپنی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے خط کا جواب دیا:
مولوی سید احمد فرزند……….اس پیر ہفتاد سالہ کی دعا پہنچے۔ آج میں نے لیٹے لیٹے حساب کیا کہ سترواں برس مجھے جاتا ہے۔
سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس
بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس
حضرت غالب کے خط کا جواب صفیر بلگرامی نے یوں بھیجا:
سنا صفیر یہ کہتے ہیں حضرت غالب
بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس
مگر یہ پہلے سے عداد غین کی ہے دعا
خدا کرے مرا غالب جئے ہزار برس
مرزا غالب کے متعدد خطوط صفیر بلگرامی کے نام مشہور کتاب ”جلوۂ خضر“ میں نقل ہیں۔
١٥ / فروری ١٨٦٩ء کو غالب وفات پا گئے۔ اور صفیر بلگرامی کے سر سے استاد کا سایہ اٹھ گیا۔ اس جدائی کے غم کا بوجھ اٹھا ئے صفیر نے اپنی زندگی کا اکیس سالہ سفر طے کیا۔ زندگی کا بیشتر وقفہ عظیم آباد میں گزرا۔ اس دوران خواجہ فخرالدین حسین سخن ملازمت سے سبک دوش ہوکر مشتقل طور پر عظیم آباد میں رہنے لگے تھے۔
خواجہ فخرالدین حسین سخن کی جائے پیدائش لکھنؤ تھی۔ وہ مرزا ابراھیم کے ساتھ آرہ تشریف لائے۔ مرزا موصوف نے ان کو صفیر بلگرامی سے ملوایا تھا۔ انھوں نے آرہ میں ١٨٦٧ء تک وکالت کی۔ قیام آرہ کے دوران آپ اور صفیر بلگرامی کی کاوشوں سے پہلا ادبی ادارہ ”بزم احباب“ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس کے زیر اہتمام شعری مجلس منعقد ہوتی تھی۔ اس بزم کے زیر سایہ کئی کتابیں بھی شایع ہوئی تھیں۔ قیام آرہ کے دوران سخن کے ادبی خدمات کا تذکرہ اس مضمون میں پہلے کیا جا چکا ہے۔ ان کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:
درد جگر نہیں مجھے کچھ درد سر نہیں
وہ درد ہے کہ جس کی دوا چارہ گر نہیں
رفیق اپنا ہر اک مجھ سے جدا منزل بہ منزل ہے
کہیں آنسو ٹپکتے ہیں کہیں بسمل مرا دل ہے
مہدی بھرے ہاتھوں سے مرے اشک نہ پوچھو
پانی میں اجی آگ لگانا نہیں اچھا
کیا مجھ کو مزا پڑ گیا اس رد و بدل کا
پھر آج بھی ہم سے وہی وعدہ ہوا کل کا
چاہتا ہوں نہ اس سے بولوں مگر
دلِ کمبخت مانتا ہی نہیں
غالب کے ہو شاگرد سخن کہتے ہو کیا خوب
ہر شعر میں ملتا ہے مزہ ایک غزل کا
قیام عظیم آباد کے دوران سخن اور صفیر ایک دوسرے کے دامن گیر رہے۔ صفیر بلگرامی نے مشغلے کے طور پر ایک کتاب کی دکان کھول رکھی تھی۔ ڈاکٹر مختار الدین احمد ”تاریخ بلگرام“ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت پٹنہ میں اردو کتابوں کی دو دکانیں ہی مشہور تھیں۔ ایک شاد بک ڈپو اور دوسرا صفیر بک ڈپو۔ موصوف کے مطابق دکانیں بڑی تو نہیں تھیں لیکن ضرورت کی کتابیں مل جاتی تھیں۔ صفیر بلگرامی کی طبیعت اچانک جب خراب ہوئی تو وہ واپس آرہ چلے آئے۔ ان کے خاندان کے بقیہ لوگ بلگرام میں مقیم تھے لہٰذا طبیعت جب زیادہ بگڑی تو انھیں بلگرام لے جایا گیا۔ جہاں ١٢ / مئی ١٨٩٠ء کو وہ وفات پا گئے اور شعر و ادب کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ ان کی میت آرہ لائی گئی اور محلہ میر گنج، آرہ میں واقع قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا۔ صفیر بلگرامی کی رحلت پر شاد عظیم آبادی کا مقطع اس غم کی یاد دلاتا ہے:

اے شادؔ تم تو روتے تھے نکہت کے واسطے
اے لو عدم سے آج سدھارے صفیر بھی
اب شہر آرہ میں پرستاران اردو کی صفِ اول میں باقر آروی رہ گئے تھے تو عظیم آباد میں سخن اور شاد، دونوں ایک دوسرے کے دامن گیر رہے۔ تقریباً دس سالوں تک یہ جوڑی سلامت رہی۔ لیکن اسے بھی گہن لگ گیا۔اور غالباً ١٩٠١ء میں سخن بھی ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گئے۔ ان کی رحلت پر مولوی محمد وزیر فرماتے ہیں:
سال رحلت آں وزیر دل حزیں
گفت درد آہ فخرالدین حسین
انیسویں صدی کا یہ آخری عشرہ تھا۔ اس کے قبل کہ یہاں کی ادبی فضا ناپید ہو جاتی، علامہ بدر آروی تلمیذ صفیر بلگرامی نے نئی نسل کو متحرک کیا۔ ان کے ہم عصر حشر آروی نے ١٨٩٨ء میں ”بزم صفیر“ کی بنیاد ڈالی۔ اس بزم کے زیر سایہ نئی نسل کی آبیاری کی جانے لگی۔ ماہرین علم و فن نے اس کوشش کو مہمیز لگایا۔ اور سخنوروں کا یہ کارواں ١٩ ویں صدی کے ارتقائی منزل کی جانب گامزن ہو گیا۔
درج بالا میں پیش کی گئی تمام باتوں کی روشنی میں قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے عہد میں زبان و ادب کی آبیاری کے سلسلے میں شہر آرہ کے فن کاروں اور قلم کاروں نے کس طرح خون جگر صرف کیا ہے۔ غالب کے شاگردوں کی طویل فہرست میں آرہ کے فن کاروں کی شمولیت خود غالب جیسے عظیم شاعر کی توجہ اور محبت کی ضامن ہے۔ عہد غالب میں آرہ کی تخلیقات کی روشنی میں اس عہد کی ادبی تاریخ کو سمجھنے میں معاون قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں جو اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے یہ موضوع مکمل اور بسیط کتاب کا متقاضی ہے۔ اگر کوئی محقق باقاعدہ اس موضوع پر خامہ فرسائی کرے تو اس کے ذریعے عہد غالب کی ادبی و شعری روایت کے مزید گوشے روشن ہوں گے اور یہ کہ اس سے اس عہد کی زبان، تہذیب اور ادبی روایت کو سمجھنے میں معاونت حاصل ہوگی۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ عہد غالب میں ریاستِ بہار کے شہر آرہ کا ادبی و شعری منظر نامہ نا قابل فراموش ہے۔
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ہندستان کا تہذیبی نظامِ فکر اور اردو زبان و ادب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے