تربیت درست نہ ہو تو شخصیت وجود میں نہیں آسکتی: ڈاکٹر اسلم پرویز

تربیت درست نہ ہو تو شخصیت وجود میں نہیں آسکتی: ڈاکٹر اسلم پرویز

مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز سے ایک ملاقات

انٹرویو نگار: علیزے نجف

ڈاکٹر اسلم پرویز مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں، ذاکر حسین کالج میں بھی بہ طور پرنسپل خدمات انجام دی ہیں، ڈاکٹر صاحب ایک مشفق استاد ہیں، جو اپنے طلبہ کی ذہن سازی پہ خصوصی توجہ دیتے ہیں، ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب گذشتہ چالیس سالوں سے مسلسل مسلمانوں میں سائنس اور سائنسی انداز فکر فروغ دینے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں، قرآن فہمی کے حوالے سے آپ کی کی جانے والی کوششیں قابل تعریف ہیں، انھوں نے نئی دہلی کے ذاکر نگر علاقے میں "قرآن سینٹر" قائم کیا ہے. یہاں طلبہ کو سائنسی مضامین کے ساتھ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے، آپ کی تمام تر توجہ قرآن کریم کو علوم کی مدد سے سمجھنے، اس کے پیغام کو عام کرنے پہ ہے۔ اس اندازِ فکر کو عام کرنے کے واسطے آپ نے 1992ء میں انجمن فروغ سائنس کی داغ بیل ڈالی، جس کے سرپرست پروفیسر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ)، حکیم عبدالحمید اور سیّد حامد صاحب تھے۔ اردو ماہنامہ "سائنس" وہ واحد سائنسی رسالہ ہے جو آپ کی نگرانی میں مسلسل تیس سالوں سے پابندی کے ساتھ نکل رہا ہے، ڈاکٹر اسلم پرویز "اسلامی فاؤنڈیشن برائے سائنس و ماحولیات" کے بانی ڈائریکٹر ہیں اور اسی پلیٹ فارم سے انگریزی دان طبقے تک اللّہ کا پیغام علمی و عقلی انداز میں پہنچا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، ان کو اب تک کئی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
علیزےنجف: آپ کی شخصیت کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں لیکن روایت کے مطابق میں اس انٹرویو کا آغاز آپ کے تعارف سے ہی کرنا چاہتی ہوں. آپ ہمیں خود سے متعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتائیں کہ آپ کی جائے پیدائش کہاں ہے اور آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کس مقام پہ گزارا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: میری پیدائش پرانی دہلی کے بلّی ماران علاقے میں 1954ء میں ہوئی، پانچویں جماعت تک تعلیم نزدیک کے سرکاری پرائمری اسکول میں ہوئی، چھٹی جماعت میں اینگلو عربک اسکول میں داخل کرا دیا گیا، اس وقت ہائر سیکنڈری سسٹم رائج تھا جس کے تحت چھٹی سے آٹھویں جماعت تک میں نے تیسری زبان کے طور پہ عربی کو چنا، نویں جماعت میں سائنس لے لی. اس طرح ہائر سیکنڈری 1971ء میں سائنس کے ساتھ پاس کی، دہلی کالج ( موجودہ ذاکر حسین کالج) میں بی ایس سی میں داخلہ لے لیا جہاں سے 1974 میں پاس کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی چلا گیا، وہاں سے ایم ایس سی باٹنی یعنی نباتات کاؤنسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ( CSIR) سے جونیئر سینئر ڈپارٹمنٹ میں کلاس پڑھانے کو ملیں، 1977 میں ذاکر حسین کالج میں چند ماہ کی عارضی ملازمت کی. بعد ازاں علی گڑھ واپس آکر پی ایچ ڈی مکمل کر لی، بعد ازاں وہیں اس شعبہ میں تقرر بہ حیثیت لیکچرار ہو گیا. یہ پوزیشن عارضی تھی لہذا اس دوران ذاکر حسین کالج میں بھی انٹرویو دیتا رہا. 82- 1981 کے دوران پڑھایا بھی، اور پھر 1984 میں علی گڑھ کو خیر آباد کہا. ذاکر حسین کالج میں مستقل ملازمت جوائن کر لی، گریجویشن سے واپس ذاکر حسین کالج آنے تک لگ بھگ دس سال کا عرصہ علی گڑھ میں گذرا، اس سے پہلے اور بعد کا حصہ دہلی میں ہی گذرا۔
علیزے نجف: آپ کے بچپن کے ماحول اور آج کے ماحول میں سب سے زیادہ آپ کس طرح کا فرق محسوس کرتے ہیں؟ کیا یہ تبدیلی صرف منفی سطح پہ ہی آئی ہے یا مثبت پہلو میں بھی کچھ تغیر واقع ہوا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: میں نے بچپن میں جو دہلی دیکھی اس کے ماحول اور معاشرے میں بہت کچھ فرق نظر آتا ہے. میرا بچپن بلی ماران اور جامع مسجد کے علاقوں میں گذرا. اس وقت چوری چکاری، لوٹ مار کا نام بھی سننے میں نہیں آتا تھا، گھر کے دروازے عموما کھلے رہتے تھے، ہم لوگ گرمیوں میں صحن میں سوتے تھے، اور کبھی مچھروں کا دیدار نہیں ہوا، محلہ داری بہت مضبوط تھی، ظہر بعد سے عصر تک کوئی پھیری والا گلی میں نہیں آتا تھا. چوکیدار روک دیتے تھے کہ ابھی آرام کا وقت ہے، دکان داروں کی اکثریت مہذب اور نرم گفتار تھی. ان میں مسلمان بنیے بھی شامل تھے، پورے علاقے میں چند ایمبیسیڈر کاریں تھی (غالبا تین). زیادہ تر لوگ پیدل یا رکشہ تانگہ کا استعمال کرتے تھے، ٹریفک برائے نام تھا. پانی میں انفیکشن یا پولوشن کا کوئی وجود نہ تھا، سڑک کنارے لگے سرکاری نل اور ہینڈ پمپ کا پانی راہ گیر پیتے تھے، گھروں میں سرکاری نلوں کا ہی پانی پیا جاتا تھا، آج ہم کو ان باتوں کے سچ ہونے پہ شک ہوتا ہے، (خاص طور سے نئی نسلوں کو) وہ اخلاق و محبت اور تواضع و انکساری، تہذیب اور شیریں گفتاری مفقود ہے، آج ہم نے بہت سے کاموں سے وقت بچا لیا ہے لیکن افسوس کہ باقی ماندہ وقت کو ہم ضائع ہی کرتے ہیں اور اس کا استعمال تعمیری کاموں میں برائے نام ہی کرتے ہیں، لوگوں کی آمدنی بڑھی ہے (اس کی بڑی وجہ حرام ذرائع کو بےتکلفی کے ساتھ بےدریغ اپنانا بھی ہے) لیکن پیسے کا صحیح استعمال اور بردباری و سلیقے کی کمی نے معاشرے میں دکھاوے اور فضول خرچی کو فروغ دیا ہے، کم ظرفی عام ہو گئی ہے، ایک طرف تربیت و تعلیم کی کمی دوسری طرف مال میں اضافہ دونوں نے مل کر معاشرے اور ماحول کو برباد کر دیا ہے۔
علیزے نجف: اگر معاشرتی سطح پہ بداخلاقی اور بےاصولی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، معاشرتی سطح پہ اس طرح کی خرابیوں کی اصلاح کسی ایک انسان کے بس میں ہے نہیں. ایسے میں خاندانی سطح پہ اگر کوئی اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے کس طرح کی بنیادی باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور بچوں کی ذہن سازی کرتے وقت معاشرتی برائیوں سے انھیں کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: سماج افراد سے بنتا ہے اور افراد سازی کا پہلا اور اہم ترین مرحلہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے. بعد ازاں اسکول، اساتذہ، خاندان اور سماج کا کردار ہوتا ہے، سماج کے بدلتے اقدار (جن کے آگے ہماری اکثریت ہتھیار ڈال دیتی ہے) نیز زبان و تہذیب کے مٹتے آثاروں نے ہم سب کو مادہ پرست بنا دیا ہے، ہمارا نصب العین ایک پرتعیش اور آرام دہ زندگی ہے. اس سانچے میں ڈھلے بچے اور بچیوں سے ہم توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ مثالی والدین بنیں گے، مسلمانوں کے تعلق سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک عرصے سے بچوں کو ناظرہ قرآن کے نام پہ ان کو حروف شناس بنا رہے ہیں. پہلے وعظ و نصیحت کے پروگراموں میں بچے بڑوں کے ساتھ شرکت کرتے تھے، کچھ گھروں میں ایک انداز کی گفتگو یا بیٹھک ہوتی تھی، جس کے ذریعے کچھ نہ کچھ اللہ کا پیغام ان تک پہنچ جاتا تھا. اب صورت حال یہ ہے کہ ایسی بامعنی محفلیں اگر سجتی بھی ہیں تو بچے بڑوں کے ساتھ وہاں نہیں جاتے اور سونے پہ سہاگہ آج کا میڈیا اور بچوں تک اس کی دسترس، صرف ناظرہ قرآن ان کو قرآن کا فہم نہیں دیتا. اللہ کے احکامات سے وہ واقف نہیں ہوتے. لہذٰا آس پاس کے رنگ میں ڈھل جانے کے سوا ان کے پاس اور کوئی متبادل بھی نہیں. ہمارے معاشرے میں تمام بگاڑ کی وجہ قرآن سے دوری ہے. قرآن خود اپنے نزول کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ "لوگ اس کی آیات پہ غور کریں" (النحل44) لیکن ہمارے یہاں اس کا کوئی نظم نہیں ہے، لہٰذا وہ مسلم کردار جو قرآن وجود میں لاتا ہے، ہمارے یہاں نظر نہیں آتا. مادیت اور اخلاقی پستی کے ماحول میں پلی لڑکی وہ ماں نہیں بن سکتی جن کی گودوں سے ابن الہیثم، ابن سینا، فارابی، یا رازی وجود میں آتے تھے. اللہ نے ہر انسان کو بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے، ہر بچے میں ہر کام کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے، لیکن ان صلاحیتوں کو ابھارنے اور نکھارنے کا کام والدین اور اساتذہ کا ہے. اگر تربیت درست نہ ہو تو وہ شخصیت وجود میں ہی نہیں آتی جو کہ آ سکتی تھی۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت تعلیم و تعلم کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے. آپ نے اپنے تدریسی سفر کو کن اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے طے کیا؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: مجھے شروع سے پڑھانے میں دل چسپی تھی. یہ میرا پسندیدہ مشغلہ تھا. لہٰذا میں نے شروع سے ہی اپنے لیے کوشش کری، بوٹنی میں ڈاکٹریٹ کے ساتھ میرا درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا. علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ذاکر حسین دہلی کالج (دہلی یونی ورسٹی) میں تقریبا پینتیس سال پڑھانے کے بعد میرا تقرر بہ طور پرنسپل ذاکر حسین کالج 2005 میں ہوگیا. یہ ذمےداری میں نے ساڑھے دس سال نبھائی. بعد ازاں 2015 میں احقر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پہ چن لیا گیا. اس ذمےداری سے میں فروری 2020ء میں فراغت پا گیا. مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد میں واقع ایک سینٹرل یونی ورسٹی ہے، اپنی تدریسی اور انتظامی ذمےداریاں میں نے حکومت کے متعلقہ اداروں کے طے کردہ قوانین کے تحت انجام دیں، ہمیشہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی، انصاف، ہمدردی، ذاتی دل چسپی میری شخصیت کے وہ خاص وصف تھے جو اس تمام عرصے میں میری رہ نمائی کرتے رہے، ہر ذمےداری کو اپنی ذمےداری سمجھ کر پوری دل چسپی اور دل جمعی سے انجام دیا. انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوڑا. خاص طور پہ تقرری کے معاملوں میں، میں نے اچھے اور فعال افراد کو جمع کیا، جس کے مثبت نتائج میں آج بھی دیکھ رہا ہوں. تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس انداز سے کام کرنے والے سے کافی تعداد میں لوگ ناخوش ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کی توقعات و خواہشات پہ پورا نہیں اترتا. یہ بات میرے نزدیک اہم نہیں تھی ادارے کی ترقی میرے لیے ترجیح اول تھی۔
علیزے نجف: آپ کے دور طالب علمی کی کون سی ایسی دو خوبیاں ہیں، جن کی کمی تعلیمی اداروں میں آپ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور ان اقدار کو پھر سے کیسے تعلیمی نظام میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: میری طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کی اکثریت طلبا میں دل چسپی لیتی تھی اور ان کی تربیت پہ بھی توجہ دیتی تھی، طلبہ سے ان کا راست تعلق ہوتا تھا، مادہ پرستی کا وہ زور نہیں تھا جو آج ہے، آج اساتذہ کی اکثریت محض ٹائم ٹیبل اور کورس پہ نظر رکھتی ہے، بچوں کو الگ سے وقت دینا، ان کی تربیت میں حصہ لینا یا ان کی پریشانیوں و مسائل کا حل نکالنا ان کی ذمےداری نہیں ہے. اکثریت نوکری کے ساتھ کاروبار، پراپرٹی ڈیلنگ، یا ٹیوشن میں مصروف ہے، جب کہ اب تنخواہیں پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے، لیکن مادیت کی دوڑ میں شریک ہونے کے بعد ان کے انداز ہی بدل گئے ہیں. اقدار ان کے یہاں سے بھی غائب ہو رہے ہیں، اس طرح ہماری موجودہ نسلوں کی اکثریت، والدین اور اساتذہ کی تربیت سے محروم ہے، رفتہ رفتہ وہ بھی نہ صرف اس کے عادی ہو گئے ہیں بلکہ اب اس سے پہلو بھی بچانے لگے ہیں، تاکہ من مانی زندگی گزار سکیں۔
علیزے نجف: میں نے ہمیشہ اپنے ارد گرد کے تعلیمی اداروں میں دیکھا ہے کہ وہاں کے پرائمری کلاس کے بچوں کے ٹیچرز کا انتخاب کرتے ہوئے نہ کوئی معیار دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے تجربے کو اہم خیال کیا جاتا ہے. میری رائے کے مطابق بچے کے اندر شخصیت سازی کا بیج اسی ابتدائی عمر میں ڈالا جاتا ہے اور اس مدت میں ان کی شخصیت میں رویوں کی بنیادی رکھی جاتی ہے. نااہل استادوں کی وجہ سے بچے کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے. علیزے نجف: میرا سوال یہ ہے کہ آپ اس ضمن میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے کس طرح کے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: بچے کی ابتدائی عمر ہی اس کی ذہن سازی اور شخصیت سازی کی عمر ہوتی ہے. ناواقفیت اور بدعملی کی وجہ سے ہمارے سماج میں بچوں کو "بچہ" سمجھ کر اہمیت نہیں دی جاتی، سمجھ دار والدین بچے کی کم عمری سے ہی تربیت کرتے ہیں. لہذا پرائمری کے اساتذہ کا رول بہت اہم یے. ہمارے اداروں میں چاہے وہ اسکول ہو یا کالج یا یونی ورسٹیاں؛ بڑی حد تک تقرری سفارشات یا کسی اور فائدے کے تحت کی جاتی ہے، اساتذہ کی نوکری تلاش کرنے والوں کی اکثریت اپنے شوق کے تحت اس "پیشے" کی طرف نہیں آتے بلکہ مجبوری کی وجہ سے آتے ہیں. ان کو پڑھانے سے نہیں بلکہ نوکری سے دل چسپی ہوتی ہے. اگر ہم تقرر منصفانہ کرنے لگیں تو اس کا مثبت اثر ہوگا. دوسرے یہ کہ پرائمری کے اساتذہ کی وقتاً فوقتاً تربیت اور ذہن سازی ان کو ان کی جاب کے تئیں زیادہ ذمےدار بنائے گی. ایک تیسرا پہلو بھی بہت اہم ہے اور وہ ہے والدین کی دل چسپی، ہر اسکول کے طلبہ کے والدین اگر اپنے بچوں کی تربیت و تعلیم میں دل چسپی لیں، اسکول میں آمد و رفت اور اساتذہ سے باقاعدہ ملاقات رکھیں تو بھی اساتذہ بہت کام کرتے ہیں. ہم اپنے علاقوں میں لوگوں کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ وہ بچوں کو اسکول بھیج کر بس گھر نہ بیٹھ جائیں، جن اسکولوں سے میرا واسطہ رہا وہاں میں نے دیکھا کہ پی ٹی اے میٹنگ میں والدین پابندی سے نہیں آتے اور دل چسپی نہیں لیتے اس کی اصلاح ضروری ہے۔
علیزے نجف: کسی قوم کے تعلیمی نظام کو تبھی بہتر بنایا جا سکتا ہے جب اس قوم کی سرکردہ شخصیات تعلیمی میدان میں باقاعدہ اپنے ہدف کا تعین کرتی ہیں اور اس کے لیے حکمت عملی اختیار کرتی ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ہندستان میں مسلمان قوم کی پستی کا سبب کیا ہے؟ کیا تعلیمی میدان میں وہ اپنا کوئی ہدف رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو تعلیم کی سطح پہ اپنا تناسب بہتر بنانے کے لیے مسلمانوں کو کس طرح کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: آپ نے اپنے سوال میں "قوم کی سرکردہ شخصیات" کا ذکر کیا ہے. ہمارے یہاں اس زمرے میں سیاسی اور مذہبی شخصیات ہی نظر آتی ہیں. بدقسمتی سے ہم نے تعلیم کو تو کوئی میدان ہی نہیں مانا، سرکردہ شخصیات کی توجہ مدارس کے قیام، اسکول کے قیام تک محدود رہی، چند سرکردہ شخصیات نے اپنے علاقوں میں اسکول، کالج یا پروفیشنل کالج قائم کیے ہیں جو اچھے چل رہے ہیں لیکن ایسی مثالیں خال خال ہیں، ہماری لیڈرشپ کی اکثریت تعلیم کے حق میں بیان بازی تک محدود ہے، دوسرا ایک اہم مسئلہ جو ہمارا پیدا کردہ ہے وہ نظام تعلیم کی دو دھڑوں میں تقسیم ہے، یعنی دنیوی اور دینی، صدیوں سے چلی آ رہی اس تقسیم نے آدھے ادھورے افراد پیدا کیے ہیں، مدارس میں درس نظامی ہے جس میں عصری علوم سے ملاوٹ بالکل نہیں ہے. دوسری طرف عصری اداروں میں آنے والے بچے گھر پہ ناظرہ قرآن کے مرحلے سے گزر کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے قرآن "پڑھ" لیا. قرآن کو نہ تو وہ سمجھتے ہیں اور نہ اس کے احکامات سے واقف ہوتے ہیں. لہٰذا دین سے ہی ناواقف ہوتے ہیں. قرآن سے ہماری یہ دوری ہماری ہلاکت کا اصل سبب ہے، ہم اللہ کے احکامات پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں. ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں بچپن سے ہی بچوں کو قرآن کو سمجھا کر پڑھایا جائے، تاکہ وہ اللہ کے احکامات سے واقف ہوں، اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی آیات کو کھول کھول کر بیان کردو تاکہ وہ غور و فکر کریں ( النحل 44)۔ ہمیں مکمل نظام کی ضرورت ہے. ایسا نظام جس میں بچے کی ابتدائی تعلیم اسکول کے نصاب کے مطابق ہو لیکن ساتھ میں قرآن فہمی بھی چلے، جس میں بنا کسی مسلکی رنگت کے اسے قرآن کا مفہوم آسان لفظوں میں سمجھایا جائے. ایسی ابتدائی دور کی تعلیم کے بعد وہ بچہ اپنی پسند سے جڑ جائے اور عالمیت / فضیلت کی سند پائے، آج اس سلسلے میں اہم پیش رفت جمیعۃ علماء ہند نے کی ہے. انھوں نے ایک سال کے لیے مدارس کے پچاس ہزار طلبہ کا ٹارگٹ کیا ہے، جنھیں اوپن اسکول سے دسویں/ بارہویں جماعت کے امتحانات کی تیاری کرائی جائے گی، شاہین گروپ کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر نے اس سلسلے میں عملی اقدامات کرتے ہوئے اپنے اداروں کو اس کارخیر کے لیے کھول دیا ہے۔
دینی مدارس کے طلبہ کو اوپن اسکول سے دسویں بارہویں کے امتحانات پاس کروانا جمیعۃ علماء ہند کا انقلابی قدم ہے، جو صدیوں کے اس جمود کو توڑے گا، جس کے مدارس شکار تھے، حالات کے تھپیڑے ہمارے نظام تعلیم کو صحیح رخ پہ لے جا رہے ہیں، لیکن ہمارے عام گھروں کے بچے یعنی عصری اداروں کے بچوں کو قرآن فہمی سے جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے، جس کا واضح اور اجتماعی احساس فی الحال نظر سے اوجھل ہے. اس کے واسطے ہمیں دو مرحلہ وار اقدامات کرنے ہوں گے. اول یہ کہ گھر گھر ناظرہ قرآن کے ساتھ آیات کا مفہوم بھی بچوں کو سمجھایا جائے، یہ ہماری آنے والی نسلوں کو قرآن فہم بنائے گا. سر دست موجودہ نسل کے نوجوانوں کو سہ پہر کلاس یا ہفتہ وار اسکولوں کے ذریعے قرآن کی تعلیم دی جائے. یہ کام والدین کی منشاء اور رضا کے بغیر ممکن نہیں. جن والدین کو خود قرآن فہمی کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو، نہ اس سے شغف ہو، نہ گھر میں اہتمام ہو، وہ بچوں کو سکھانے میں کیوں کر دل چسپی لیں گے، بیرون ممالک میں جہاں تعلیم کی وجہ سے والدین بہتر سماجی/ اخلاقی رجحانات رکھتے ہیں وہاں یہ اسکول بہت کامیاب ہیں. اللہ نے احقر کے ہاتھوں ایک کوشش کرائی ہے. ذاکر نگر میں ایک قرآن سینٹر قائم کیا ہے، جس میں فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور حساب کے ساتھ قرآن ترجمہ کلاس بھی ہوتی ہے. یہ کلاسیں بالکل فری ہیں. اس طرح سائنس اور حساب کے فری ٹیوشن کے لالچ میں بچے آتے ہیں اور قرآن سیکھتے ہیں. اس انداز کے تجربے ہر جگہ کیے جا سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ سائنس کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ نے سائنس کے موضوع پہ کئی کتابیں بھی لکھی ہیں، جو کہ بین الاقوامی سطح پہ پزیرائی حاصل کر چکی ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی ابتدائی تعلیم اردو میں رہی ہے، سائنس کا زیادہ تر مواد انگریزی میں ہوتا ہے، جب آپ نے سائنس کا انتخاب کیا تو آپ نے کس طرح اس مشکل کو آسان کیا اور مدد کے لیے کن کن ذرائع کا استعمال کیا؟ فی الوقت کیا اردو میں سائنسی مواد کا تناسب کچھ بہتر ہوا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: جیسا کہ میں نے عرض کیا میں نے ہائر سیکنڈری سسٹم کے تحت گیارہویں جماعت پاس کی تھی، اپنی سسٹم میں اسکول کی تعلیم گیارہوں درجے میں مکمل ہو جاتی تھی ( جیسے آج کل بارہویں میں ہوتی ہے) اور مضمون نویں جماعت میں ہی چنے جاتے تھے. آٹھویں جماعت تک میری تعلیم اردو میڈیم سے ہوئی، نویں جماعت میں کامرس اور آرٹس کے مضامین تو اردو میڈیم میں دستیاب تھے لیکن سائنس انگریزی میں تھی، یہ بڑا سخت مرحلہ تھا لیکن عزم اور محنت کے آگے کچھ ٹکتا نہیں۔
دشواریاں بہت ہوئیں لیکن میں نے جلد ہی خود کو انگریزی میڈیم کے لائق بنا لیا، لیکن اس دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ اردو زبان میں کسی طرح کا سائنسی مواد چاہے وہ فکشن ہو، کہانیاں ہوں، سوانح ہو، یا عام دل چسپی کی کتب؛ ان کی بہت کمی ہے. بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے. اس احساس نے مجھ کو اردو میں سائنسی مضامین لکھنے کی تحریک دی، اور 1982ء میں دہلی سے شائع ہونے والا روزنامہ قومی آواز میں میرا پہلا مضمون چھپا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا، آسان اردو بلکہ بول چال کی زبان میں عوامی دل چسپی کے موضوعات پہ میں لکھتا رہا، اخبار کے لیے بھی، ریڈیو کے لیے بھی، دہلی میں اس وقت چوبیس اردو میڈیم اسکول تھے، جہاں جا کر میں طلبہ میں سائنس کے تئیں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے لکچر دیتا تھا. طلبہ کا اصرار تھا کہ اردو میں سائنسی مضامین کی چھپائی کا کوئی باقاعدہ سلسلہ بنے، اپنی فرمائش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے 1992ء میں "انجمن فروغ سائنس" نامی جماعت کو سوسائٹیز کے تحت رجسٹر کرایا اور 1994ء سے ماہنامہ سائنس کی اشاعت شروع کی. جلد ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ جو کچھ کرنا ہے اپنے ہی وسائل سے اپنے ہی چادر کے مطابق کرنا ہے. کیوں کہ ہم خیال افراد اگر مل بھی جائیں اور آپ سے جڑ بھی جائیں تو بھی ان کی اکثریت نہ تو اپنا وقت دے پاتی ہے اور نہ مالی تعاون، اس وقت جو رفقا ساتھ آئے ان میں سے ایک ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی صاحب جو انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (IARI) میں ماہر حشریات Entomologist تھے آج تک ہماری میگزین میں مشیر اور مصنف کے طور سے وابستہ ہیں. بعد ازاں ڈاکٹر عبدالمعز شمس، ڈاکٹر عابد معز حیدرآباد، سید سکندر علی آکولہ( مرحوم) عبدالودود انصاری مغربی بنگال، ڈاکٹر جاوید احمد کامٹوی مرحوم، ڈاکٹر ریحان انصاری، بھیونڈی مرحوم، اور ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی، بہ طور قلم کار اس سائنس کی تحریک سے وابستہ رہے. ماہنامہ سائنس اپنی عمر کے تیسویں سال میں ہے، ایک تاریخ رقم کر چکا ہے. کیوں کہ اس برصغیر سے اردو زبان میں سائنس کا کوئی ماہنامہ اتنے عرصے تک مسلسل نہیں جاری رہا، اس رسالے کو اور اس کے تمام پرانے شماروں کو اس کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: اردو سے آپ کی محبت جگ ظاہر ہے. ماہنامہ سائنس اردو آپ کی محبت کا ثبوت ہی تو ہے. آپ نے سائنس اور اردو کو مربوط کر کے بہتوں کے لیے آسانی پیدا کی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ اردو کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں. کیا اردو کی پچھلی شان دار تاریخ پھر سے دہرائی جا سکتی ہے. یا یوں ہی عدم توجہی کا شکار ہو کر رفتہ رفتہ رو بہ زوال ہوتی رہے گی؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: زبان اور تہذیب استعمال کی چیزیں ہیں. اردو کو سب سے بڑا نقصان اردو طبقے کی بےحسی، لاپرواہی اور عدم دور اندیشی نے پہنچایا ہے، علم کی کمی نے ہماری اکثریت کی ذہنی وسعت کو بہت محدود کر دیا ہے، اسلام کے نام پہ چند ارکان پہ عمل کر کے اسے دین سمجھ کر وہ قرآن سے بھی دور ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے مال و دولت اور عیش و عشرت ان کے نئے بت ہیں، جن کے پیچھے یہ لگے رہتے ہیں. اگر انھوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہوتا تو زندگی گزارنے کے صحیح طریقے، زندگی کا مقصد اور درست ترجیحات سے واقف ہوتے، مذہبی لیڈران کی اکثریت بھی اس رنگ میں رنگی ہے اور کیوں نہ ہو وہ بھی تو انسان ہیں اور خواہشات کے پتلے ہیں. دینی لیڈرشپ تو اتنی معدوم ہے کہ نظر ہی نہیں آتی (یہ ان کا ذکر ہے جن کا قول و عمل عین قرآنی احکامات کے مطابق ہو) ایسی بھیڑ کی نظر میں زبان، تہذیب، اقدار انسانیت و اخلاق بےمعنی اور فضولیات ہوتے ہیں، لہٰذا اردو بھی ترک کر دی گئی ہے. بریانی، نہاری، کباب، تکے کی اہمیت تھی، گوشت خوری ایمان والوں کی نشانی ہے، لہذا یہ تمام ضروریات ان کے ساتھ ہمیشہ رہیں اور آج بھی ہیں۔ جب تک اردو زبان و تہذیب کی اہمیت ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گی، اردو کی صورت حال میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں. ہم کو اردو پڑھنی ہوگی. اس کے اخبارات و رسائل خریدنے ہوں گے. کتابیں خریدنی ہوں گی اور گھر میں ان کی پڑھنے کا ماحول بنانا ہوگا. اپنے بچوں کو اردو پڑھنی یا پڑھوانی ہوگی. جب ان کو عربی قاعدہ لگایا جاتا ہے اسی وقت اردو کے چند اضافی حروف سے بھی ان کو آشنا کرا دیا جائے، اور قرآن پڑھانے کے ساتھ اردو اور پھر اس کے ساتھ قرآن کا ترجمہ پڑھایا جائے تو یہ دہرا فائدہ ہوگا. قرآن بھی پڑھ سکیں گے اور پڑھنے کی پریکٹس بھی رہے گی. ماں باپ اگر اپنے وقت سے خاص طور سے اسی وقت میں سے جسے وہ ضائع کرتے ہیں، کچھ وقت بچوں کو قاعدہ پڑھانے اور قرآن پڑھوانے میں خرچ کریں تو یہ نسل سازی ہوگی، شخصیت سازی والدین کی ذمےداری ہے، جس کے لیے وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں. اپنی زبان کو زندہ رکھنے اور عام کرنے کے لیے اگر ہم حکومت اور دوسرے اداروں کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ ہماری کم عقلی اور قوت عمل کی کمی ہے، جو آج اظہر من الشمس ہے۔
علیزے نجف: مسلمانوں کے اندر سائنس کے حوالے سے پایا جانے والا نظریہ کس حد تک تسلی بخش ہے اور کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایجادات و دریافت کے میدان میں عنقا ہو چکے ہیں؟ کیا اب ان میں ابن رشد، جابر بن حیان جیسا پوٹینشیل باقی نہیں رہا، جس کی وجہ سے سائنس ان کے لیے متروک موضوع بن چکا ہے. اس المیے کے پیچھے آپ کن وجوہات کو پاتے ہیں اور مسلمانوں کو سائنسی علوم سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: احقر نے اردو میں سائنس اور سائنسی فکر کے فروغ کا باقاعدہ کام 1982 سے شروع کر دیا تھا، جو بالترتیب مضامین لکھنے، کتابیں تیار کرنے، ماہنامہ سائنس جاری کرنے اور عوامی خطابات پہ مشتمل ہے، اس طوطی کو نقارخانے میں یہ صدا بلند کرتے چالیس سال سے زائد ہو چکے ہیں، محاورتاً ہی نہیں حقیقتاً یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی اور آج بھی ہے، ہماری اکثریت آج بھی سانسی فکر سے دور تقلید و آبا پرستی کے دلدل میں دھنستی ہی چلی جا رہی ہے. اس کی بنیادی وجہ ہمارے مذہبی اداروں اور رہنماؤں کی روش ہے جو انھی چیزوں پہ تکیہ کرتی ہے……. جب عوام کو ہر درس و اجتماع میں ہر وعظ و خطاب میں محض تقلید اور آبا پرستی کی تعلیم دی جائے گی، نہ قرآن پہ بات ہوگی نہ قرآنی تعلیمات پہ، نہ سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، تو عوام کی "طریقت" میں علمیت کہاں سے نظر آئے گی، اسی وجہ سے اپنے عقائد و نظریات سے مختلف یا مخالف باتوں کو سننے اور برداشت کرنے کی ہماری اکثریت میں تاب نہیں ہے. وہ ایسے مخالفین کا سر اگر قلم نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے دین سے خارج ہونے کا اعلان تو کر سکتے ہیں، جب کہ قرآن ہمیشہ اچھا بولنے کی اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے. دین اور دین کے قوانین کو کسی زور و زبردستی کے تحت منوانے یا لاگو کرنے کو منع کرتا ہے. علمی فکر و جہت رکھنے والے افراد دوسروں کی آرا پہ مشتعل نہیں ہوتے، تقلیدی کردار، علمی کردار اپنے رویوں سے پہچانے جاتے ہیں۔
علیزے نجف: جب آپ نے قرآن فہمی کے لیے سائنسی علوم کا سہارا لیا تو عام لوگوں کا ردعمل کیسا تھا اور مذہبی طبقے نے کیا رائے دی اور غیر مسلموں نے سائنس کی تشریح کرتے وقت قرآن کی تعبیر کی حقانیت کو بہ آسانی قبول کر لیا یا حیل و حجت کی؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: خاکسار نے قرآن کو، اس کی اہمیت کو اور یہ بتانے کے لیے کہ قرآن ہمیں بہترین طرز زندگی دیتا ہے، سائنس یعنی علوم کی مدد لی ہے، جو عین قرآن کے حکم کے مطابق ہے. اللہ تعالیٰ اپنی آیات کا علمی احاطہ کرنے کا حکم دیتا ہے. قیامت کے دن وہ یہ سوال کرے گا ان سب لوگوں سے جنھوں نےاللہ کی آیات کو جھٹلا دیا بغیر ان کا علمی احاطہ کیے ( النمل 83-85) اور پھر یہ سوال کرتا ہے کہ تم یہ نہیں کر رہے تھے تو پھر کیا کر رہے تھے؟ قرآن اور کائنات کی آیات کا علمی احاطہ کرنا اللہ کا حکم اور ہدایت ہے، لہذا یہ عبادت اور بندگی ہے۔
اللہ نے جو یہ طریقۂ کار احقر کو سکھایا اس کو خاص و عام سبھی نے پسند کیا، سراہا، مذہبی رہ نماؤں نے پسند کیا اور مدارس میں میرے خطابات کروائے. اس کی شروعات مرحوم قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب نے کی، پھر امین عثمانی و خالد سیف اللہ رحمانی و دیگر ذمے داران مدارس نے ملک کے مختلف شہروں میں میرے خطابات کروائے، اسلامی فقہ اکادمی جب بھی کوئی سائنس یا ماحولیاتی موضوع زیر بحث لاتا ہے تو خاکسار کو مدعو کرتا ہے کہ وہ فقہا کو اس موضوع کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرے، بیرون ملک سے بھی وہ ادارے اور یونی ورسٹیاں جو مذہب اور سائنس/ماحول کے باہم تعلق پہ کام کر رہے ہیں، اس ناچیز کو دعوت دیتی ہیں اور وہاں سے شائع کتابوں اور انسائیکلوپیڈیاز میں احقر کے مضامین (انگریزی زبان میں) شائع ہوئے ہیں اور خطابات بھی ہوئے ہیں. یہ پذیرائی ثابت کرتی ہے کہ یہ طریقۂ کار پسند کیا جا رہا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک کئی کتابیں لکھی ہیں، جو قرآن اور سائنس کے علوم پہ مبنی ہیں. میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی کتابوں کے بارے میں قارئین کو بتائیں اور یہ بھی کہ آپ کی پہلی کتاب کون سی تھی؟ اس کو لکھنے کی تحریک آپ کو کہاں سے ملی؟ اس ٹکنالوجی کی دنیا میں جب لوگ کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں تو یہ کتابیں کس طرح اعلا طرز معاشرت کی تعمیر میں معاون ہو سکتی ہیں؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: احقر کی پہلی کتاب "سائنس کی باتیں" 1986 میں اور پھر دوسرا ایڈیشن 1998ء میں شائع ہوا ہے، سائنس پارے 1990ء اور سائنس نامی 1993 میں شائع ہوئی. "یہ لب میرے" مختلف موضوعات پہ لکھے سائنسی موضوعات کا مجموعہ ہے. قرآن، مسلمان اور سائنس کا پہلا ایڈیشن اپریل 2004ء میں دوسرا جون 2004ء، تیسرا 2007 میں شائع ہوا. اس کتاب کا ہندی بنگلہ میں ترجمہ ہو چکا ہے. "ماحول ایک تعارف" اسلامی فقہ اکادمی نے 2017ء میں شائع کی. انگریزی میں The scientific muslim 2021 میں شائع ہوئی۔
علیزے نجف: میرے علم کے مطابق آپ نے ذاکر نگر دہلی میں قرآن سینٹر کے نام سے ایک ادارہ بھی کھولا ہے، تاکہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بھی قرآن کی تعلیمات سے آشنا کرایا جا سکے. اس ادارے کے متعلق آپ کچھ بتائیں اور اس ادارے کے ذریعے اب تک کتنے طلبہ استفادہ کر چکے ہیں؟ کیا قرآن کے ساتھ حدیث اور دیگر دینی کتابوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: قرآن کو سمجھنے کے بعد میری زندگی یکسر بدل گئی. اللہ کا کلام اور اس کے احکامات کو سمجھنے کے بعد میں ایک بہتر بندہ بن سکا اور صحیح غلط کی پہچان قرآن کی کسوٹی سے کرنے لگا. جس سے میری کوشش یہ رہی کہ جو فیض، سکون اور ہدایت مجھے ملی ہے، اسے سب تک پہنچا دوں، بنا کسی جبر کے اور کسی کے احساسات کو ٹھیس پہنچائے بغیر۔ تحریر و تقریر کا سہارا لیا، جگہ جگہ قرآن فہمی کی اہمیت پہ پروگرام رکھے، قرآن کانفرنس کا سلسلہ شروع کیا، عربی روابط سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ پختہ اذہان کو سمجھانا نسبتاَ مشکل ہے، لہذا نوجوان پہ ہی توجہ دی جائے، اس مقصد کے لیے اللہ نے احقر کے ہاتھوں ذاکر نگر میں "قرآن سینٹر" کا قیام کرایا. اس جائداد کو خریدنے، بنانے اور اب اس میں پروگرام چلانے کے لیے خاکسار نے کسی سے چندہ یا مدد وصول نہیں کی. اس کا بڑا حصہ اپنی ذاتی آمدنی سے ہی پورا کیا، اس کو لکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ حسب روایت کار خیر کے لیے چندے جمع کرنا یا مخیر حضرات کے درِ دولت پہ…. جس طرح وہ اپنے بچوں کی شادی اور دیگر اخراجات برداشت کرتا ہے قرآن سینٹر پر بچوں کو محض قرآن فہمی کے لیے بلایا جاتا تو قوی اندیشہ یہ تھا کہ وہ نہ آئیں یا والدین نہ بھیجیں کہ وقت کم ہے پڑھائی زیادہ. لہذا اللہ نے یہ خیال دماغ میں ڈالا کہ ایک ٹیوشن سینٹر کھولا جائے جس میں سائنس، حساب کی فری کوچنگ ہو. ساتھ میں قرآن ترجمے کے ساتھ سمجھا کر پڑھایا جائے. یہ تجربہ کامیاب رہا. نویں کلاس کے طلبہ کو ہر سال داخلہ دیتے ہیں اور نویں دسویں دو سال ان کو سائنس اور حساب کے ساتھ قرآن سمجھا کر پڑھاتے ہیں. اس دو سال میں قرآن مکمل ہو جاتا ہے. کورونا کے پھیلنے سے قبل ہمارے سات بیچ نکل چکے تھے. اب گزشتہ سال سے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے. قرآن سینٹر پہ تمام خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے ملک اور بیرون ملک کے متعدد تعلیمی و سائنسی سیمینارز میں شرکت کی ہے اور بےشمار لیکچرز بھی دیے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو کس ملک کے تعلیمی نظام نے سب سے زیادہ متاثر کیا اور اس کی کن خوبیوں کو آپ سب سے زیادہ سراہتے ہیں، جسے آپ مسلمان قوم میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: تعلیمی نظام وہ اچھا ہوتا ہے جس میں بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہو مگر ساتھ میں اسے دو یا تین زبانیں اچھے ڈھنگ سے سکھائی جائیں، دوم یہ کہ اسے چیزوں کو جاننے کی جستجو کرنا سکھانا چاہئے تاکہ وہ اپنے سوالوں کے جواب ازخود ڈھونڈ سکے. اساتذہ اور والدین اس میں مدد کریں، اس کو تحریر و تقریر و مباحثہ کی اچھی مشق ہو، کلاس میں بلا جھجھک بول سکے اور سیمینار اٹینڈ کر سکے، عام معلومات اور نئی نئی انداز کی دریافت کرنے کے مواقع ہوں. اس انداز کی تعلیم احقر نے امریکہ کناڈا نیز یورپ کے جن ممالک میں جانا ہوا وہاں دیکھی ہے اور برسوں پہلے دیکھی ہے. آج وہاں ٹکنالوجی کا استعمال زیادہ ہے، اور ہم ابھی تک کتابوں سے اور رٹنے سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔
علیزے نجف: آپ اس وقت اپنی زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھ چکے ہیں اور آپ نے زندگی کے نشیب و فراز کا تجربہ بھی کیا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک زندگی کیا ہے؟ اور اپنی زندگی کو کن اصولوں کے تحت گزارا ہے؟ کیا مستقبل کے لیے کوئی ایسا ہدف بھی رکھتے ہیں جس کی تکمیل آپ کی دلی خواہش ہے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: میری زندگی کا مقصد اور اہم ترین خواہش ہے کہ لوگوں کو قرآن سمجھنے کی طرف راغب کر سکوں، قرآن کو موجودہ علوم کی مدد سے نئی نسلوں کے واسطے آسان زبان میں سمجھا سکوں. اسی مقصد کے تحت میں نے یوٹیوب چینل پہ جو میرے نام ( Muhammad Aslam Parvez) سے ہے، قرآن کے علمی احاطہ کا سلسلہ سمپلی قرآن (Simply Quraan) کے نام سے شروع کر رکھا ہے. ہم سورہ آل عمران کے آخر تک آ گئے. میں لگ بھگ 30 منٹ کا دو سیشن ہر جمعہ اور ہفتہ کو اپ لوڈ کرتا ہوں. میری خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں اس سلسلے کے تحت قرآن فہمی کو مکمل کر لوں. اس کو اردو، ہندی، انگریزی زبان میں تیار کر کے شائع کردوں. اللہ اسے میرے لیے آسان کرے اور خیر کے ساتھ مکمل کرے۔
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعے نوجوان نسل کو کیا آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر اسلم پرویز: بلا لحاظ عمر احقر کا پیغام بلکہ درخواست ہر ایک سے یہی ہے کہ قرآن کے تئیں لاپرواہی چھوڑ دیں. اس کو سمجھ کر پڑھیں اور عمل کریں. تبھی ہم مسلمان بنیں گے اور توقع کر سکیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ رہے گی۔
***
گذشتہ گفتگو یہاں پڑھیں:غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے: علیزے نجف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے