ہندستان کا تہذیبی نظامِ فکر اور اردو زبان و ادب

ہندستان کا تہذیبی نظامِ فکر اور اردو زبان و ادب

ڈاکٹر عبدا لرزاق زیادی
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی۔67
E-mail: arziyadi@gmail.com
موبائل: 991158971

ہندستان دنیا کے قدیم ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تہذیب و تمدن، کلچر و ثقافت اور معاشرت و معیشت بھی زما نۂ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ہندستان میں انسانی سرگرمیاں چار تا دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں شروع ہو چکی تھی۔ تاریخ میں اسی کو عہد قدیم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دنیا کی کون سی تہذیب و ثقافت کتنی قدیم ہے اس پر ماہرین کے درمیان حد درجہ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ہندستانی تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موہن جودڑو اور ہڑپا کی کُھدائی سے حاصل ہونے والی باقیات کی بنیاد پر ہندستان کی تہذیب و ثقافت کو صرف 3500 ق م سال قدیم ہے۔ہندستان کی قدیم تہذیبی ورثے میں ویدک تہذیب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ عہد قدیم سے لے کر ایک زمانے تک دنیا بھر کی مختلف قومیں ہندستان کی طرف اپنا رخ کرتی رہیں اور آباد بھی ہوتی رہیں، مثلاً دراوڑ، ہڈپہ اور پھر آریائی قوموں کی یکے بعد دیگرے آمد اسی سلسلے کی  اہم کڑیاں ہیں۔ ان اقوام نے اور ان کے ساتھ آئی ہوئی تہذیب نے جہاں ہندستانی تہذیب کو متأثر کیا وہیں وہ خود اس سے مثاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ اس تہذیبی لین دین کے باوجود بھی ان کی انفرادی شناخت ہمیشہ برقرار رہی۔ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:
”جب ہم ہندستانی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے یہ [مطلب] ہر گز نہ نکالنا چاہئے کہ ہم نے ایک ساخت، اہم رنگ، ہموار اور کبھی نہ ٹوٹنے والے تسلسل کو ہندستانی تہذیب کا نام دے دیا ہے۔ دوسرے ملکوں کی تہذیبوں کی طرح ہندستانی تہذیب میں بھی ہمیشہ تغیرات ہوتے رہے ہیں، اور یہاں دوسری سر زمینوں کی تہذیبوں کے دھارے آکر ملتے رہے ہیں، جن میں سے کچھ مقامی تہذیب میں اس قدر گھل مل گئے ہیں کہ ان کی انفرادیت ختم ہوگئی اور کچھ ایسے تھے جنھوں نے اگرچہ ہندستانی تہذیب کو متاثر کیا اور خود بھی اس سے متاثر ہوئے مگر اپنے آپ کو اس میں ضم کر دینے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے۔“ 1؎
ڈاکٹر تارا چند کے اس قتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندستان کی وہ قدیم تہذیب، جو صدیوں سے چلی آرہی تھی اور جس کے اثاثے میں ویدک تہذیب شامل تھی اور جو بعد میں آریائی، ہندو یا پھر ہندستانی تہذیب کی شکل میں سامنے آئی، مختلف قوموں کی آمد، ان کے آپسی میل جول اور لین دین کے بعد ایک نئی تہذیب پروان پائی جس کو آج ہم ہندستانی یا مشترکہ کلچر سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کی راہ داریاں یک جہتی، آپسی بھائی چارہ، رواداری، میل ملاپ، الفت و محبت اور امن و آشتی کے چراغوں سے روشن ہے۔ ہندستان کی قدیم تہذیبی فضا، اس کے عناصر ترکیبی، نظامِ فکر اور پھر مختلف قوموں کی آمد اور اس سے وجود پذیر ہونے والی تہذیب کی ایک تاریخ موجود ہے، جس کا مطالعہ ہم کرتے رہتے ہیں۔ اس پوری تہذیبی بنت یا پھر اس کی تاریخ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال حسین رقم طراز ہیں:
” ہم جب ہندستانی تہذیب کامطالعہ کرتے ہیں تو بہت سی دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں، مثلاً آریوں کی ہندستان میں آمد کے نتیجہ میں قدیم ترین ہندستانیوں کی ہڑپہ اور موہن جودڑو تہذیب کا خاتمہ اور ان کی جگہ آریوں کی سادگی اور انسانی قدروں سے معمور تہذیب کا عروج۔ آریوں کی ابتدائی تہذیب میں رسم و رواج کا نہ وہ زور ہی تھا اور نہ دیوی دیوتاؤں کے لیے گنجلک اور ناقابل فہم تصور۔ ایک خدائے بر تر و بزرگ کا تصور (گوکہ اس تک پہنچنے کے لیے ۳۳ دیوتاؤں کا تصور موجود تھا) سیدھی سادی مذہبی زندگی، عورتوں کے حقوق، عزت و آبرو کا احترام اور ذات پات کی لایعنیوں سے آزاد، سیدھا سادھا معاشرہ تھا، جس میں ہر فرد اپنی اپنی جگہ اہم اور سماج کا ذمہ دار فر د تھا۔۔۔دسویں صدی کے اواخر میں ہندستان کو مسلمان حملہ آوروں سے دوچار ہونا پڑا، ملک ذات پات کی لعنتوں کی وجہ سے کچھ اس طرح منقسم تھا، جس کی وجہ سے اتحاد ناپید تھا۔۔۔ محمود غزنوی کے کامیاب حملوں کے بعد، محمد غوری اور بعد ازاں قطب الدین ایبک کی کامیابیوں کی بڑی وجہ ملک میں نا اتفاقی تھی۔ قطب الدین نے ١٢٠٦ میں باقاعدہ طور پر ہندستان میں تُرک حکومت قائم کردی۔ ترک مذہباً مسلمان تھے اور دیگر بیرونی حملہ آوروں کی طرح جدا گانہ تہذیب اور زبان رکھتے تھے۔ ترکی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ ہندستان میں بیرون ملک سے مسلمان صوفیوں کی آمد شروع ہو ئی۔ صوفیوں کی بے لوث خدمات، بے داغ زندگی اور رواداری و انسان دوستی نے ہندستان میں تبدیلیِ مذہب کی راہیں ہموار کردیں، ذات پات، رسم و رواج اور برہمنوں کے بڑھے ہوئے اثر سے پریشان حال لوگ، جلد ہی صوفیوں کے مذہب، اسلام کے پیرو بننے لگے۔ یہ نو مسلم اپنے ساتھ اپنی تہذیب، زبان اور رسم و رواج لائے۔ اسلامی اور ہندو تہذیب کے اختلاط نے، آہستہ آہستہ ایک مشترکہ تہذیب کو جنم دیا۔ مشترکہ تہذیب کے ارتقا میں لودی، سور اور مغل حکمرانوں کو خاص مقام حاصل ہے۔“ 2؎
اس طرح ہندستان میں بیرونی ممالک سے آئی ہوئی اقوام کی آمد اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے میل جول، آپسی لین دین اور بھائی چارے سے قدیم ہندستانی تہذیب کو حد درجہ پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا موقع ملا۔ مغل حکمرانوں نے اس کے عروج و ترقی اور اسے پرُ ثروت بنانے کی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ علمی طور پر اس میں حصہ بھی لیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال مغلوں کے عہد میں دوسرے مذاہب میں شادی بیاہ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ادوار میں مختلف مذاہب میں رہتے ہوئے شادی بیاہ کرنے اور ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق پوری آزادی کے ساتھ عمل در آمد ہونے کی اجازت تھی۔ خود باہر سے آنے والے ان لوگوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت خاص طور پر ہندوانہ رسم و رواج کو اپنا لیا تھا اور انھیں اپنے آئین میں شامل بھی کر لیا تھا۔ عید، بقرعید، ہو لی، دیوالی، دسہرہ یا پھر کوئی اور تیوہار ہو ہر ایک میں ہر کوئی شامل ہوتا اور خوشیاں مناتا۔ یہ سلسلہ ان اقوام کی آمد سے لے کر انیسویں صدی تک قائم رہا جس کی بدولت یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے بہت قریب آگئے۔لوگوں کا رہن سہن، طرز زندگی، لباس و پوشاک، وضع قطع، دل چسپیاں، ادبی سرگرمیوں میں ہر ایک کی نمائندگی و شراکت اور ہر ایک کا ایک ملی جلی زبان بولنا وغیر ہ اس عہد کے ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی اہم مثالیں کہی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ان ادوار میں چونکہ عوام کی زندگی سادہ اور عام سی ہوا کرتی تھی اس لیے لوگ آپس میں خلوص و محبت، ایثار و ہمدردی اور ایک دوسرے کا روادار و غم خوارہ بن کر زندگی گزارتے تھے۔ ہندستان کا یہی وہ قدیم تہذیبی فضا اور رنگ ہے جس میں آج بھی ہم خود کو رنگے ہوئے پاتے ہیں۔ بلکہ بہ قول سید عابد حسین کہ ’ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے ذہنی عناصر سے قطع نظر کر کے دنیاوی عناصر پر نظر ڈالی جائے تو یہ دکھائی دے گا کہ جو اشتراک عہد مغلیہ کی ہندستانی تہذیب نے ان میں پیدا کیا تھا وہ ناسازگار حالات کے باوجود بہت کچھ اب تک باقی ہے۔ بلاشبہ وہی باقی ماندہ عناصر آج بھی ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھی کی بدولت سارے جہاں میں ہندستان کو وہ اعزاز و افتخار بھی حاصل ہے۔
فنون لطیفہ کی تمام اصناف میں ہندستان کا تہذیبی رنگ موجود ہے۔ ادب ہو یا صحافت، مصوری ہو یا خطاطی، موسیقی ہو یا مجسمہ سازی یا پھر فن تعمیر ہو یا کوئی اور فن؛ ہر ایک میں اس کے واضح نقوش اور نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر ان تمام میں، ادب میں اس کا رنگ قدرے گہرا نظر آتا ہے کیوں ادب نہ صرف اپنی تہذیبی فضا کا آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ وہ اس کی آواز بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس میں انسانی احساسات و جذبات کی مکمل تصویر کشی بھی شامل ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر ادب میں اس کے تہذیبی ورثے کو تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندستان کی ہر زبان و ادب میں ہمیں اس کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نظر آجاتی ہے۔ اردو زبان و ادب میں بھی اس کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں، بلکہ عام ہندستانی زبانوں میں اس کو اس اعتبار سے بھی امتیاز حاصل ہے کہ خود اس کا وجود اسی ہندستانی تہذیب و ثقافت کی دین تسلیم کیا جاتا ہے۔ بہ قول پروفیسر محمد حسن:
”ہندستان میں اردو ادب کا ارتقا مخصوص معاشی اور اس سے پیدا ہونے والے تہذیبی عوامل و محرکات کے نتیجے کے طور پر ہوا۔ وسط اور مغربی ایشیا سے آنے والے ترک ایرانی اور مغل یہاں اسلام پھیلانے نہیں آئے تھے بلکہ ان کی معاشی اقتصادی ضرورتیں انھیں یہاں لائی تھیں۔ اس وقت یہ لوگ ایشیا ہی نہیں یورپ کے بازاروں تک رسائی رکھتے تھے، بلکہ ان بازاروں کی رونق مدتوں تک انھی کے دم سے قائم رہی۔ یہ لوگ حکمراں کی حیثیت سے یہاں آنے سے قبل تاجر کی حیثیت سے آچکے تھے اور تاجر کی حیثیت سے ان کا رشتہ ہندستان کے مختلف علاقوں کے صناعوں سے قائم ہو چکا تھا۔ جب یہاں ایسی حکومت قائم ہو گئی جو اس تجارتی لین دین کو انتظامی مرکزیت اور سیاسی اقتدار کی پشت پناہی دے سکتی تھی تو دھیرے دھیرے فکری ہم آہنگی، ڈھیلی ڈھالی نظریاتی وحدت (یا رواداری کی گنجائش پیدا کرنے والی فلسفیانہ وحدت) کی ضرورت محسوس ہوئی۔ علاقائی اور مقامی بولیوں سے کَس بَل حاصل کرکے مغربی اور وسط ایشیا کے لسانی ادبی اور تہذیبی عناصر کو سمو کر آگے بڑھنے والی مِلواں زبان اور ادب بھی وجود میں آئے، اردو زبان ایسی ہی زبان تھی اور اردو ادب اسی نہج کا ادب تھا۔“ 3؎
اس طرح اردو زبان و ادب کا آغاز و ارتقا ہندستان کے ایک خاص معاشی و معاشرتی نظام اور اس سے پیدا ہونے والے مخصوص سیاسی و تہذیبی محرکات و عوامل کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ جن بنیادوں پر یہ زبان و ادب وجود میں آیا انھی اساس پر اس نے ترقی کی منزلیں بھی طے کیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہمیں ہندستان کی سرشاریت کا رنگ قدرے گہرا اور نمایاں نظر آتا ہے۔ اردو کے ممتاز شعرا ہی نہیں بلکہ ہر عہد کے تخلیق کاروں کے کلام میں ہندستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کی منظر کشی مل جاتی ہے۔ اسی طرح نثر نگارانِ اردو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی صنف نثر و ادب سے ہو، کے یہاں بھی ہمیں وہ سارے نقوش مل جاتے ہیں جن کو ہم اپنی تہذیبی وراثت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ ہندستان کا وہ تہذیبی ذہن، نظام فکر اور روایتی و ثقافتی رنگ و آہنگ جو صدیوں سے ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا امتیاز و افتخار رہی ہے، لوگوں کے مختلف مذاہب اور اقوام کے ماننے والے ہونے کے باوجود بھی ان میں چلی آرہی ہے۔ اردو کے ابتدائی ادوار سے لے کر موجودہ عہد تک کے شعرا و نثر نگاران کے یہاں وافر مقدار میں جہاں اس کی مثالیں موجود ہیں وہیں انھوں نے اس پر باعث اعزاز و افتخار کا اظہار بھی کیا ہے۔ امیر خسرو ہویا ولی، میر ہو یا غالب، اقبال ہو یا فیض یا پھر بعد کے شعرا ہوں، اسی طرح وجہی ہو یا میر امن، رجب علی بیگ سرور ہو یا رسوا، پریم چند ہو یا بیدی، قرۃ العین حیدر ہو یا عصمت یا پھر بعد کے نثر نگار و فکشن نگار ہوں ہر ایک کے یہاں ان تمام موضوعات و مسائل کا ذکر و بیان موجود ہے، جن کا تعلق ہماری تہذیبی و ثقافتی، سماجی و سیاسی اور معاشی و معاشرتی زندگی سے ہے۔ اردو کے کم ہی ایسے شعرا و ادبا اور نثر نگاران ہوں گے جن کی تحریروں میں ہمیں ہندستانی تہذیب کی رنگا رنگی اور بو قلمونیتٖ کی عکاسی نہ دیکھنے کو ملتی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں اظہار و بیان کے تناسب میں فرق یا کمی و بیشی ضرور موجود ہے۔
اردو زبان و ادب کے ابتدئی ادوار میں تخلیق کاروں کو جن موضوعات و مسائل نے اپنی طرف ملتفت کیا اور انھوں نے ان کو اپنی نگارشات کا حصہ بنایا ان میں تصوف کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔ چونکہ اس عہد کے ہندستان کی تہذیبی فضا اور اقدار و روایات میں دوئی یا غیر کے برخلاف لوگوں میں حد درجہ اشتراک و ہم آہنگی تھی بلکہ آج ہم جس کو وحدت میں کثرت یا کثرت میں وحدت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا اطلاق سب سے زیادہ انھی ادوار میں ہوتا تھا۔ ہر طرح کی عصبیت، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ سے پرے لوگوں کے درمیان موجود آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کو پیش کرنے کے لیے اس دور کے ادبا و شعرا کے لیے جو لفظ یا اصطلاح سب سے زیادہ موزوں و مناسب یا کار گر تھی وہ تصوف ہی کی اصطلاح تھی۔ اس کے ذریعہ انھوں ہندستان کی عوام کے ان احساسات و جذبات کو پیش کیا ہے جوصرف ہندستانیوں کی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آواز تھی۔ پروفیسر محمد حسن اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اردو ادب کے مزاج اور تہذیبی فضا پر ایرانی اور فارسی اثرات کی نشان دہی کرتے وقت مشترک آریائی پس منظر کو یاد رکھنا ضروری ہے، جس نے قدیم فارسی اصطلاحوں ہی کو نہیں بلکہ تصورات، اقدار اور تہذیبی رویوں کو بھی ہندستان میں رچا بسا دیا، جسے تصوف کہا گیا وہ اس مشترک اور ان مشترک اقدار کا فکری اظہار تھا۔ اسلامی تصوف کی نشو و نما زیادہ تر انھی علاقوں میں ہوئی جہاں بدھ وہار تھے۔ بلخ اور بخارا اس کی مثال ہیں۔ ہندستانی اور ایرانی تصوف کے درمیان مشترک اقدار کی بنا پر آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کی روایات نے اردو میں رواج پایا۔“ 4؎
اس طرح ان ادوار میں تصوف نے اظہار و بیان کی سطح پر نہ صرف ایک اہم موضوع قرار پایا تھا بلکہ تخلیق کاروں نے اسے ایک وسیلہ Tool کے طور پر استعمال بھی کیا اور اس کی مدد سے ہندستان کی پوری تہذیبی و ثقافتی فضا کو پیش کیا ہے۔ متصوفانہ ہونے کے باوجود بھی ان تخلیقات میں قدم قدم پر ہندستان کی اس تہذیب و ثقافت کی رنگ آمیزی دیکھی جا سکتی ہے جس کی جڑیں اب بھی ہندستان کے تہذیبی مزاج میں پیوستہ نظر آتی ہیں اور جس کی بدولت ایمانی و روحانی اقدار کی سطح پر آج بھی ہم اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتے ہیں۔ امیر خسرو ہو یا بعد کے ادوار کے شعرا مثلاً ولی، میر، نظیر، غالب، مومن، اقبال، فیض یا پھر ہمارے عہد کے سخنوران، اسی طرح شمال و دکن کی داستانوی ادب ہو یا دیگر تخلیقات؛ ہر ایک میں ہمیں ہندستان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کے واضح نقوش اپنی تمام تر تابانیوں اور بو قلمونیوں کے ساتھ نظر آجاتے ہیں۔
عام طور پر جب بھی اردو شاعری میں ہندستانی تہذیب و ثقافت کی بات ہوتی ہے تو نظیر اکبر آبادی یا اس جیسے کچھ شعرا سے آگے ہما را ذہن نہیں پہنچ پاتا ہے۔حالانکہ ہر عہد کے شعرا کے یہاں، ان کی پوری شاعری تو نہیں البتہ کچھ اشعار ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن میں ہم ہندستانی سماج اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کا عکس و رنگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گذرا ہے جس میں ایک فرد نہیں بلکہ اس کا پورا معاشرہ ہی شاعری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گویا اس میں ایک فرد کی زبانی پورا معاشرہ بولتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ اس دور کی شاعری میں عشق و عاشقی ہو یا پھر دیگر موضوعات و مسائل کا اظہار و بیان؛ ہر ایک میں تہذیبی و سماجی رنگ غالب تھا۔ اردو مثنویاں اس کی واضح مثال ہیں اور ان میں جو داستانیں منظوم ہوئی ہیں ان کو پورے معاشرے نے نہ صرف ذہنی اور جذباتی طور پر قبول کر لیا ہے بلکہ انھیں استناد کا درجہ بھی عطا کر دیا ہے۔ اس طرح یہاں ایک فرد یعنی شاعر صرف اپنی ذات کا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور اس کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ گرچہ بعد کے ادوار میں شاعری کے اجتماعی اظہار کا تصور بدل جاتا ہے اور ہر شاعر کے یہاں انفرادی طور پر اپنے سماج اور معاشرت کی ترجمانی نظر آنے لگتی ہے لیکن یہاں بھی پورا ہندستانی سماج و معاشرہ اپنی تمام تر تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے ساتھ ہم نوا ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اجتماعی معاشرتی اظہار کی روایت ولی تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتی ہے۔ بہ قول پر وفیسر محمد حسن:
”ولی سے پہلے اردو ادب کم و بیش معاشرتی اور اجتماعی اکائی کا ادب ہے۔۔۔ ولی کے یہاں پہلی بار فرد الگ سے نظر آنے لگتا ہے۔ گو اب بھی معاشرہ ہم آواز ہے اور ولی درد و فراق سے زیادہ محبوب کی صفات، معاشرے کے قبول کردہ محاسن اور اقدار کی روشنی میں کرنے اور پورے دور کور وشنی دینے والی تشبیہوں اور استعاروں سے محبوب کا پیکر سجانے میں زیادہ محو ہیں، مگر فرد کی انفرادیت کا ہلکا سا پر تو بھی کلام میں شامل ہو گیا ہے کہ ولی کا کلام نہ محض تصوف ہے نہ محض جمال پر ستی۔ ولی ایک سانس لیتا ہوا جیتا جاگتا انسان بھی ہے۔ ولی کا دیوان شمالی ہند پہنچا تو یہاں بھی معاشرہ ہی شاعری کر رہا تھا۔ آبرو، ناجی، مضمون، حاتم، سبھی کی شاعری معاشرے کی شاعری ہے، جس میں ان کی اپنی شخصیت محض رنگ کی ایک موج تہ نشیں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معاشرے کے ٹوٹنے بکھرنے کی آواز واضح طور پر پہلی بار شمالی ہند میں نظیر اکبر آبادی کے یہاں اُبھر تی ہے۔ شہر آشوب اسی کا اظہار ہے۔ آگرے سے دہلی تک اقتصادی زندگی اور اس سے پیدا شدہ معاشرے کا بحران عام تھا. اس نے فرد کو معاشرے سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ نظیر کے ہاں فرد اور معاشرے کی اس بکھرتی ہوئی ہم آہنگی اور ٹوٹتی ہوئی اکائی کی آواز ہے مگر معاشرہ فرد سے پوری طرح الگ نہیں ہوا ہے اور فرد میں سماج کی آواز گونجنا بھولی نہیں ہے۔“ 5؎
متذکرہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اجتماعی و معاشرتی اکائی کے ٹوٹ پھوٹ کی یہ نئی روایت ولی سے شروع ہو کر میر و نظیر، غالب و مومن، اقبال اور فیض و فراق کے ادوار سے ہوتی ہوئی ہمارے عہد تک پہنچتی ہے۔ ولی کے بعد کے ادوار میں شاعر کے فرد و انفرادیت کے باوجود بھی اس کے یہاں پورا سماج و معاشرہ ہم آواز ہوتا ہے۔
کسی بھی عہد کا ادب اس وجہ سے بھی اپنے سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اسی سماج و معاشرے اور اقدار و روایات کی پیداوار ہوتا ہے۔ کوئی بھی تخلیق کار اگر اپنی کوئی تخلیقی کاوش پیش کرتا ہے تو وہ فضا میں نہیں تخلیق ہوتی بلکہ اس کے لیے وہ اسی سماجی و تہذیبی زندگی سے مواد کشید کرتا ہے۔ اردو کے ادبا و شعرا اور نثر نگاران اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انھوں نے بھی ہندستان میں صدیوں سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہندو مسلم قوموں کی زندگیاں، ان کے مسائل و معاملات، طور طریق، رہن سہن، فکر و مذہب، مزاج و مذاق، اخلاق و عادات، رسم و رواج، علمی و ادبی ذوق و شوق یہاں تک کہ ان کی اقدار و روایات کو بڑی خوبی و فن کاری کے ساتھ اپنی نگارشات میں جگہ دی ہے۔ ذیل میں نمونے کے طور پر غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تسبیح تیری زلف کو کہتے ہیں اے صنم
اک تاروسے کسے رشتہ زنار کر رکھوں
(ولی)
کیا شیخ کیا بر ہمن جب عاشقی میں آوے
تسبی کرے فرامش زنار بھول جاوے
(آبرو)
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
(میر)
نہیں کچھ سبحہ و زُنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و بر ہمن کی آزمائیش ہے
(غالب)
اللہ رے گمرہی بت و بتخانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو ایک پارسا کے ساتھ
(مومن)
یہ عظمت رہ کے زاہدان بتوں میں ہم نے پائی ہے
کہ کعبہ ہم کو لینے تا در مے خانہ آتا ہے
(امیر)
کوئی دیر وحرم تک میری فریاد پہنچا دے
وہ شیخ و برہمن کیا جو نہ رہ سکتے ہوں انساں میں
(حسرت)
تو کہاں ہے کہ تری راہ میں یہ کعبہ و دیر
نقش بن جاتے ہیں، منز ل نہیں ہونے پاتے

یہ اور اس طرح کے اور بھی بڑی تعداد میں غزل کے اشعار مل جائیں گے جن میں ہندستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے عناصر کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں ہندستان کی فکر و فلسفہ، ایمانیات و روحانیات، تصوف و مذہبیات، حسن و عشق، سیر و تفریحات جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ ہندو اور مسلمان کے تیوہار بھی موجود ہیں۔ نیز ان میں مختلف مقامات و تیوہار میں ہر قوم کے لوگوں کے شریک ہونے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا ذکر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظمیں نہ صرف اس کی عمدہ مثال ہیں بلکہ نظیر کو تو ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا مفسر و ترجمان تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کی نظموں میں جو تہذیبی فضا ابھر کر سامنے آتی ہے اس میں آج بھی پورا ہندستان سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔
اردو شاعری کے مزاج کا یہ حصہ رہا ہے کہ اس کے شعرا نے ہمیشہ سے اپنے دین و مذہب سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کی خوبیوں اور ان کے تلازمات کو اپنے کلام میں سراہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظیر ایک مسلم شاعر تھے مگر انھوں نے جس طرح اپنے مذہبی امور، عقائد و معاملات اور تیوہاروں کا ذکر کیا ہے اس سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کے مذہبی عقائد و فلسفے اور تیوہاروں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ جس طرح اردو کے غیر مسلم شعرا کے یہاں مسلموں کے عقائد و نظریات اور ان کے طرز زندگی کی ترجمانی ملتی ہے اسی طرح یا اس سے بھی کہیں زیادہ زوردار انداز میں نظیر کی نظموں میں ہندوانہ عقائد و مذہبیات اور رسم و راج دیکھنے کو ملتے ہیں، بلکہ بہ قول ایک ہندی ادیب کہ ’نظیر نے آذان بھی دی اور سنکھ بھی پھونکا، تسبیح بھی لی اور جنیو بھی پہنا، محرم میں روئے تو ہولی میں بھانڈ بھی بنے، رمضان میں روزے رکھے تو سلونوں پر راکھی باندھنے کو مچل پڑے، شبراتی (شب برات) پر مہتابیاں چھوڑیں تو دیوالی پر دیپ سجائے، نبی، رسول، ولی، پیر، پیغمبر کے لیے جی بھر کے لکھا تو کرشن، مہادیو، نرسی، بھیروں اور نانک کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا۔ گل و بلبل پر کہا تو آم اور کوئل کو پہلے یاد رکھا۔ پردے کے ساتھ بسنتی کی ساڑھی بھی یاد رہی۔ اور تو اور گرمی، برسات اور سردی پر بھی لکھا۔ بچوں کے لیے ریچھ کا بچہ، کوّا اور ہرن، گلہری کا بچہ، تربوز، کنکوے بازی، بلبلوں کی لڑائی، ککڑی، تیراکی، تل کے لڈؤں پر لکھنے بیٹھے تو بچہ بن گئے، ہر ایک بچہ گلی کوچے میں گاتا پھر رہا ہے۔ جوانوں اور بوڑھوں کو پند دینے بیٹھے تو لوگ وجد میں آگئے۔ جیسے قرآن، حدیث، وید، گیتا، اپنشد، پُران، سب گھول کر پی جانے والا کوئی پہنچا ہوا بزرگ بول رہا ہو۔‘ اس حوالے سے نظیر کی نظموں میں ہولی، ہولی کی بہاریں، بلدیو جی کا میلا، دوالی کا سامان، راکھی کے ساتھ ساتھ عیدالفطر، عیدگاہ اکبرآباد وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ نظم ’ہولی‘ ملاحظہ ہو:
ہرآن خوشی سے آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں
رخسار گلالوں سے گلگوں، کپڑوں سے رنگ ٹپکتے ہیں
کچھ آگ اور رنگ جھمکتے ہیں، کچھ مے کے جام چھلکتے ہیں
کچھ کو دیں ہیں، کچھ اچھلیں ہیں، کچھ ہنستے ہیں، کچھ بکتے ہیں
یہ طور، یہ نقشہ عشرت کا ہر آن بنایا ہولی نے
ہیں کیا کیا سر میں رنگ بھرے اور سوانگ بھی کیا کیا آتے ہیں

کر باتیں ہر دم چہل بھری، خوش ہنستے اور ہنساتے ہیں
کچھ جو گی چیلے بیٹھے ہیں، کچھ کانیوں کی گاتے ہیں
کچھ اور طرح کے سوانگ بنیں کچھ ناچتے ہیں، کچھ گاتے ہیں
ہر آن نظیر اس فرحت کا سامان دکھایا ہولی نے

ہولی ہو یا دیوالی یا پھر دسہرہ ہر ایک کی نظیر کے یہاں نہ صرف بھر پور عکاسی دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ان میں خود بھی بہت دل چسپی لیتے اور ہر تہوار و جشن میں شریک ہو کر خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ یقینا یہ تب کی بات ہے جب ہندو مسلمان قوموں میں کوئی علاحدگی و بے گانگی نہ تھی بلکہ اس کے بر خلاف سارے ہندستانیوں کے درمیان میل ملاپ کا ماحول تھا اور ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ہر تہوار منایا کرتے تھے۔ ہولی و دیوالی اسی طرح عید و بقرعید کسی ایک قوم کا تہوار نہ ہو کر کے ہندستان کے ہر باشندے کا تہوار ہوا کرتا تھا اور سارے لوگ ہر خوشی و جشن میں شریک ہوتے تھے۔ یہ ہماری ہندستانی تہذیب و ثقافت اور مشترکہ کلچر کی عمدہ مثال تھی۔ ہولی ہر عہد میں تہوار کے ساتھ ساتھ دل بستگی کا بھی ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ نظیر بھی اس کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور خود بے نوا کا سوانگ بھر کرخوش روؤں کے ہمراہ ہوجاتے ہیں اور گلیوں کا گشت لگاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود نظیر کے زمانے میں اور آج بھی کچھ علاقوں اور سطحوں پر یامہذب نگاہوں میں ہولی بد تہذیبی کا ایک کامل مظاہرہ ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی طرح اردو کے دیگر نظم گو شعرا کے یہاں بھی ہندستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کے نمونے بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ میر حسن اور دیا شنکر نسیم کی مثنویاں، سودا، ذوق اور محسن کاکوروی کے قصائد، انیس و دبیر کے مرثیے صدیوں سے چلی آرہی ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے حقیقی مظہر کہے جا سکتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، علامہ اقبال، چکبست، جمیل مظہری، خلیل الرحمان اعظمی، کمار پاشی، شاد عارفی، حرمت الاکرام، ن۔م۔ راشد، میراجی، مخمور سعیدی، اسلم آزاد، پرویز شاہدی، مظہر امام، وزیر آغا، صلاح الدین پرویز اور شہریار وغیرہ کا شمار اردو کے ممتاز نظم نگار شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی متعدد نظموں میں ہندستان کی تہذیب و ثقافت کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ مناجات بیوہ (حالی) ہندستانی بچوں کا قومی گیت (اقبال) میں گوتم نہیں ہوں (خلیل الرحمان اعظمی) ولاس یاترا (کمار پاشی)، اندھیر نگری سہرہ، ہولی، دیوالی، گنگا اشنان، مندرجانے والی (شاد عارفی)، اماوس کا چاند (حرمت الاکرام)، پرانی فصیل، تبدیلی، کوزہ گر (اختر الایمان) حرامی، ترغیب، تو پاربتی میں شو شنکر، دور کرو پیراہن کے بندھن کو (میراجی)، سرسوتی، گنگا آدرش (مظہرامام) شگون (مخمور سعیدی)، زہر کا سمندر (لطف الرحمان)، چتا (اسلم آزاد)، کاکا (محمد علی)، نروان، یاترا، ملن (وزیر آغا)، دیو داس (صلاح الدین پر ویز) وغیرہ اردو کی ایسی شاہ کار نظمیں ہیں جن میں ہندستانی تہذیب و ثقافت کے ہزاروں جلوے بیک وقت نظر آتے ہیں۔ ذیل میں نظمیہ شاعری کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
جس نے حجازیوں ے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
(اقبال)

بادشاہ بیٹے کی خاطر جیتے جی مر لیتا ہے
دوا، دعا، تعویذ اور گنڈے سبھی جتن کر لیتا ہے
بیگم سے ہر ملّا سیانا ”نذر“ پیٹ بھر لیتا ہے
پہلا مرغ و مشک دوسرا گھنیٹا گو گر لیتا ہے 
قسمت دور سے ٹھینگا دکھلاتی ہے امیدیں روتی ہے
(نظم’اندھیر نگری‘،شاد عارفی)

صندل کی ہے چتا بنائی اور پھولوں سے سنواری
سولہ سنگاروں سج کر آتی ہے تیری پیاری
پہلے برہا کی اگنی میں رات ہوئی تھی جل کر
پھر سکھ سیج کی راتیں دیکھیں گود میں تیری مچل کر
لیکن تونے بات نہ رکھی چھوڑ گیا یوں پیچھے
جیسے ساون رت بھادوں کے تیرگی جھڑیاں چھوڑے
(نظم ’آخری سنگار‘، میراجی)

 متذکرہ بالا مختلف اصناف کے ان بندوں یا اشعار سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ اردو کے نظم نگار شعرا نے کتنی خوب صورتی کے ساتھ ہندستانی تہذیب و ثقافت کو اپنے شعری سرمایے میں شامل کیا ہے۔ ان نظموں میں مختلف لفظیات و ڈکشن، تشبیہات و استعارات اور اعلام و تلازمات کی مدد سے ہندستان کے تہذیبی ذہن و فکر سے لے کر یہاں کے مذہبی عقائد و نظریات، رسم و رواج، عادات و اطوار، رہن سہن، افکار و نظریات وغیرہ سبھی کچھ پیش کر دیا گیا ہے۔ہندستان کا گاؤں دیہات، کھیت کھلیان، لوگوں کی بود و باش، رہن سہن، شادی بیاہ، ملبوسات و سنگار، اس کی ندیاں نالے، موسموں، بدلتے رتوں یہاں تک کہ کسی کی ولادت و وفات تک کی ساری رسمیں اردو نظموں میں اپنی تمام تر نزاکتوں، نشیب و فراز اور حسن و خوبی کے ساتھ موجود ہیں۔
اردو شاعری کی متعدد اصناف کی طرح اردو فکشن میں بھی ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور اس کی اقدار و روایات کی عکاسی کی مثالیں قدم قدم پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاعری کی بہ نسبت فکشن میں ہر سماج و معاشرے کی تصویر کشی زیادہ صاف اور واضح ہوتی ہے۔ اردو فکشن بھی اس اعتبار سے تہی دامن نہیں بلکہ اس کا پورا داستانوی ادب اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ داستان ہو یا ناول یا پھر مختصر افسانے ہر ایک میں قدم قدم پر اس کے ہزاروں جلوے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اردو فکشن کی تمام اصناف میں داستان کو اس حیثیت سے بھی تقدم حاصل ہے کہ اس کا دامن حد درجہ وسیع ہوتا ہے اور اس میں پوری ایک کائنات کو سمو لینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ناول اور افسانے کے مقابلے داستانوں میں ہمارے لوازمات زندگی، رہن سہن، طور طریق، آداب و اطوار، عقائد و مذہبیات کا ذکر پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان میں مختلف گروہوں، طبقوں اور افراد کا ذکر ایک وسیع پیمانے میں ہوا ہے۔ سیدہ جعفر رقم طراز ہیں:
”یہ ہماری تہذیبی زندگی، معاشی، سیاسی، ادبی اور مجلسی زندگی اور ہمارے تہذیبی ورثے کا قیمتی خزانہ ہیں۔ ان میں ماضی کے بہت سے نقوش محفوظ ہیں۔قدیم ہندستانی زندگی کے لا زوال مرقعے، ہمارے قدیم تصورات، ہمارے رسم و رواج اور ہماری ساری ثقافتی زندگی کا عکس ان داستانوں میں موجود ہے۔ بوستان خیال، باغ و بہار، فسانۂ عجائب ہندستان کی تہذیب، یہاں کی مجلسی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں اور کلچر کی رنگا رنگ دل کشیوں کی آئینہ دار ہیں۔“ 6؎
گویا اردو کی یہ داستانیں ہماری سماجی زندگی، بود و باش اور معاشرت و معیشت کے مرقعے ہیں اور ان میں وہ تمام تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات موجود ہیں جن پر آج ہماری تہذیب و ثقافت کا قلعہ کھڑا نظر آتا ہے۔ مختلف علاقوں کے رہن سہن، مذہبی تصورات و عقائد، لباس و پوشاک، بول چال کی زبانیں، ندی نالے، پھل پھول، اٹھنے بیٹھنے کے ادب و آداب، کھان پان، مختلف مواقع پر انجام پانے والے رسوم و رواج، بولی ٹھولی غرض یہ کہ ان داستانوں میں ان تمام عناصر و عوامل کو بڑی خوب صورتی اور فن کاری کے سا تھ پیش کیا گیا ہے جن کو ہماری تہذیبی و ثقافتی سرمایے میں گراں قدر اہمیت و وقعت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ’داستان امیرحمزہ سے ساحری اور عیّاری نکال لیجیے تو باقی جو رہے گی وہ لکھنؤ کی تہذیب ہے۔‘ یہ بات صرف ’داستان امیر حمزہ‘ تک ہی محدود و مخصوص نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہر اردو داستان یا داستانوی ادب پر کیا جا سکتا ہے۔ اس امر کی مزید تائید کے لیے ذیل میں اردو داستانوں کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں:
”دن رات دکانیں کھلی رہیں، قریب قریب ناچ ہو، ان کے کھانے کا صرف تعرفی باورچی خانے میں ٹھہرا۔ ہندوؤں کو پوری کچوری، مٹھائی، اچار، مسلمانوں کو پلاؤ، قلیہ، زردہ، قورمہ، آبی، دوسرے شیرمال، فرنی کا خوانچہ، طشتری کباب کی بہت آب تاب کی۔“ 7؎
”ایک بڑھیا، شیطان کی خالہ۔ ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھول کر بدھڑک چلی آئی، اور سامنے ملکہ کے کھڑے ہو کر دعا دینے لگی۔ ”الہٰی! تیری نتھ جوڑی سہاگ کی علامت رہے، اور کماؤ کی پگڑی قائم رہے! میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری دو جی ہے پورے دنوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ میں اتنی وسعت نہیں کہ ادّھی کا تیل چراغ میں جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گور کفن کیوں کر کہوں گی اور جنی تو دائی جنائی کو کیا دوں گی اور جچّا کو ستھورا چھوانی کہاں سے پلاؤں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اے صاحبزادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا، تو اس کو پانی کا ادھار ہو۔“ 8؎
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داستانوں میں نہ صرف ہندستانی تہذیب و ثقافت اور انسانی سماج و معاشرے کی تصویر کشی موجود ہے بلکہ ہر داستان اپنے آپ میں ایک تہذیبی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان داستانوں کی مدد سے ہم ہندستان کے ان ادوار کی تاریخی و سماجی، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی و معاشرتی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ داستانیں وجود میں آئیں تھیں یا پھر جن کو موضوع بنا کر ان کی تخلیق عمل میں آئی تھی۔ داستان امیرحمزہ ہو یا فسانۂ عجائب، باغ و بہار ہو یا کوئی اور داستان ہر کوئی اپنے عہد کا مرقع معلوم ہوتی ہیں۔ سید عابد حسین اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”معاشرتی زندگی میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے جو اثر ایک دوسرے پر ڈالا ہے اس کی وجہ سے ان کے رسم و رواج میں جو یکسانی پیدا ہوئی وہ حیرت انگیز ہے، اس لیے کہ دونوں کے معاشرتی ادارے ان کے مذہبی عقیدوں سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں اور ان عقیدوں میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ ڈاکٹر تارا چند فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندستانی زندگی کے مختلف شعبوں پر جو اثر ڈالا اس کو جس قدر اہمیت دی جائے کم ہے۔ مگر سب سے زیادہ فصاحت اور خوشنمائی کے ساتھ یہ اثر روز مرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں گانے بجانے میں، وضع قطع اور لباس میں، کھانے پینے کی طریقوں میں اور شادی اور بیاہ کی رسموں میں میلوں اور تہواروں میں مرہٹہ، راجپوت اور سکھ رئیسوں کے دربار کے آداب نظر آتے ہیں۔“ 9؎
داستانوں کی طرح اردو ناولوں اور کہانیوں میں بھی ہندستانی تہذیب و ثقافت کے نقوش بڑے پیمانے پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ نذیر احمد، راشدالخیری، عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ہوں یا بعد کے ناول نگاران، اسی طرح کہانی کاروں میں پریم چند ہو یا بعد کے ادوار میں سامنے آنے والے افسانہ نگاران یا پھر آج کے دور میں جو ناول اور افسانے تخلیق کرنے والے ہیں ہر ایک کی تخلیقات و نگارشات میں ہندستان کی وہ تہذیبی و ثقافتی فضا ضرور دکھائی دیتی ہے جس کو ہم مشترکہ تہذیب یا کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ابتدائی دور کے ناولوں میں اگرچہ اس کے نقوش دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں مگر بعد کے اور بالخصوص آزادی کے بعد لکھے گئے ناولوں میں وہ زیادہ واضح اور صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ آزادی کے بعد اس نوعیت کے ناول زیادہ تعداد میں لکھے گئے جن میں ہندستان کی تہذیبی روایت کی شکست و ریخت یا پھر اس کی بازیافت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ پروفیسر انور پاشا لکھتے ہیں:
”اردو ادب اور خصوصاً ناول تہذیبی و ثقافتی سطح پر انھی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کی عکاسی سے عبارت ہے۔ ہندستان کے ناول نگاروں میں قرۃ العین حیدر کا نام اس ضمن میں سب سے نمایاں ہے۔ وہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافتی وراثت کی پیش کش میں اپنے عہد کے تمام ناول نگاروں پر سبقت رکھتی ہیں۔ اس عہد کے ان کے تقریباً تمام ناول ”میرے بھی صنم خانے“ سے لے کر ”کار جہاں دراز ہے“ تک ہندستان کی مشترکہ تہذیبی وراثت اور جاگیر دارانہ عہد کی معاشرت اور اقدار و روایات کا مر قع ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے بیشتر ناولوں میں پیش کر دہ تہذیبی فضا، اودھ اور خاص کر لکھنؤ کی تہذیبی فضا ہے اور وہ بھی طبقۂ اشرافیہ کی تہذیبی اقدار و معیار پر محیط۔ جسے اس وقت کے فرما رواؤں، نوابوں اور جاگیر داروں کی سر پرستی حاصل تھی۔ یہ طبقہ اپنے طرز معاشرت، نظامِ ریاست اور اقدار و روایات کے سلسلے میں تنگ نظری پر وسیع النظری، تعصب پر رواداری اور تفریق پر ہم آہنگی کو فوقیت دیتا تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کی ریاست میں مذہبی عقیدے کے فرق کے باوجود ہندوؤں اور مسلمانوں کے لباس، زبان اور آداب و اطوار میں چنداں فرق نہ تھا۔ مذہبی رواداری ان کا ایمان تھی۔ تمام اہم تیوہار یکساں جوش و خروش سے منائے جاتے تھے۔ چونکہ لکھنؤ کے والیِ ریاست اور نوابین عقیدتاً شیعہ تھے اس لیے بالخصوص محرم کا اہتمام بڑے دھوم دھام سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس دھوم دھام میں مذہبی عقیدہ سے زیادہ رواداری اور مشترکہ روایتوں کا دخل تھا۔“ 10؎
قرۃالعین حیدر کے بیشتر ناولوں میں اگرچہ طبقۂ اشرافیہ کی تہذیبی قدریں اور ثقاتی اقدار و روایات کی ترجمانی کو فوقیت حاصل ہے مگر اس نسل کے لکھنے والے دیگر اور بیشتر ناول نگاروں کے یہاں وہی ہندستانی تہذیب و ثقافت اور عوامی زندگی موجود ہے جس کو ہم ہندستانیت کا نام دیتے ہیں۔قاضی عبدالستار، جیلانی بانو، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، ظفر پیامی، پیغام آفاقی، غضنفر، پیغام آفاقی، سید محمد اشرف، خالد جاوید، انور خان اور شبیر احمد وغیرہ کے نام اس حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ناول نگاروں کی تخلیقات کی قرأت سے ہم بڑی آسانی کے ساتھ ہندستان کی تہذیبی تاریخ، ثقافتی زندگی اوراس کے ذہن و فکر کو تلاش کر سکتے ہیں۔ کچھ اہم ناولوں کے اقتباسات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
”مذہبی تفریق کو پرجا کا خالص ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ محرّم میں ہوئے نہیں ہوتے، مسجدوں کے سامنے باجا بجایا جاتا ہے، ہندو تعزیہ داری کرتے ہیں اور مسلمان دیوالی مناتے ہیں، کیسا الٹا زمانہ ہے۔ نواب بہو بیگم ہر سال ہولی منانے فیض آباد سے اپنے بیٹے کے پاس لکھنؤ آتی ہیں۔ ساری سلطنت میں ان گنت ہندو راجاؤں نے مساجدیں اور امام باڑے بنوا رکھے ہیں۔ لکھنؤ سے اسّی مل کے فاصلے پر بہرائج ہے جسے ہزاروں برس پہلے شراوستی کہتے تھے، جہاں سالار مسعود غازی کی درگاہ ہے۔ جنھو ں نے شراوستی کے سورج کند کے مندر کو مسمار کیا تھا اور شراوستی کے آخری ہندو راجہ سہدیو کے تیر سے شہید ہوئے تھے۔ ان کی عمر اس وقت صرف اٹھارہ سال تھی۔ تب سے اب تک بڑی دھوم دھام سے ہندو مسلمان مل کر ان کی بارات نکالتے ہیں، جیٹھ مہینے میں ان کا میلہ لگتا ہے۔ سرخ نیزے اور جھنڈے اٹھائے ہوئے ڈفلی بجاتے ہوئے ہزاروں ہندو مسلمان دیہاتوں سے ان کے مزار کا رخ کرتے ہیں۔ بنگال کے مسلمان صوفی ستیہ پیر کی مانند جو ستیہ نرائن بن چکے تھے، سالار مسعود عرف بالے میاں نے (جس وقت وہ شہید ہوئے تھے ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی) اودھ کے ہندوؤں کے لیے بال ناتھ کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ ان کے مقبرہ کے قریب کا اگن کنڈ بالا رکھ کی دھونی کہلاتا ہے، در گاہ کی نذر مجاور اور پوجا کے محاصل پنڈے حاصل کرتے ہیں۔ پنڈوں اور مجاوروں میں آپس میں آمدنی کی تقسیم کے متعلق معاہدہ ہے۔“11؎
”حیدر آباد کی اس مشترکہ تہذیب کی بنیاد قطب شاہ رکھا گیا تھا۔ اس نے بھاگ متی کو ملکہ بنا ہندوستانی لباس پہن کر، ہندوستانی تہوار منا کر اور تیلگو میں شاعری کر کے ہندوستانی تہذیب کو ملانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کلچر میں رنگ جانے پر مجبور تھا جو اس کے آس پاس تھا۔ یوں ہی جیسے اکبر غیر شعوری طور پر ہندوستانی تہذیب میں رنگتا چلا گیا۔ واجد علی شاہ نے ہولی کھیلی۔“
”انھوں نے (نظام نے) جاگیر، منصب اور خطاب دیتے وقت کبھی ہندو اور مسلمان کی اصطلاح میں نہیں سوچا تھا۔ حیدر آباد کے برہمن شیروانی پر تُرکی ٹوپی پہنتے تھے اور اردو اخبار پڑھنے سے کبھی ان کا دھرم خطرے میں نہیں جا پڑتا تھا، بہت سی ہندو عورتیں ڈیوڑھیوں میں بیگمیں بنی بیٹھی تھیں، مگر کسی ہندو کو غیرت کی ٹھیس نہیں لگتی تھی۔ چیچک کی وبا پھیلتی تومسلمان عورتیں دیوی پر چڑھاوے چڑھاتی تھیں اور درگاہوں کے عُرس میں ہندوؤں کی جانب سے نذروں کے خون آتے۔ بی بی کے علم پر مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کی جانب سے شربت کی سبیلیں لگتی تھیں۔ چاندی کے چاند اور پنجے چڑھاتے تھے، رمضان میں ہندوؤں کے ہاں سے مسجدوں میں افطار بھیجی جاتی تھی۔“
”ریاست کا ہر مسلمان تیلگو جانتا تھا، تمام ہندو لڑکے اردو میڈیم سے پڑھتے تھے مگر انھیں کبھی مادری زبان کی طرف سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا کیونکہ ابھی ان کے دلوں میں شک و نفرت کی ایسی آگ نہیں بھڑکی تھی جو خلوص کے ہر پھول کو جلا ڈالتی ہے۔“ 12؎
مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ناولوں میں ہندستان کی وہی تہذیبی فضا موجود ہے جس میں ہندستان صدیوں سے سانس لے رہا ہے اور جس پر اسے فخر و امتیاز بھی حاصل ہے۔ ہندستانی کہانی کاروں کی طرح پاکستان کے ناول نگاروں کی نگارشات میں بھی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا رنگ نمایاں ہے۔ آزادی کے بعد لکھنے والوں یا پھر تقسیم کے بعد ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے جانے والے تخلیق کاروں میں انتظار حسین، عبداللہ حسین، جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور، فضل احمد فضلی، شوکت صدیقی، رضیہ فصیح احمد، ممتاز مفتی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہندستان میں لکھے گئے ناولوں میں براہ راست ہماری تہذیبی و ثقافتی ورثے کی ترجمانی موجود ہے مگر پاکستانی کہانیوں میں اس کی پیش کش کا رویہ بدل جاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں ناآسودگی، ماضی کی طرف مراجعت، تقسیم، ہجرت اور دیگر مسائل و معاملات اہم موضوع قرار پاتے ہیں مگر ان کی تہوں میں بھی وہی لے موجود ہوتی ہے جس کا تعلق ہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی یا اس کی شکست و ریخت سے ہے۔ کیونکہ تقسیم کے بعد پاکستان میں لکھنے والوں کو وہ معاشرتی فضا میسر نہیں تھی جو ہندستانیوں کے حصے میں آئی تھی بلکہ اس کے بر خلاف وہاں کی ایک بڑی آبادی اپنی زمین اور جڑوں سے کٹ گئی تھی اور  اسے تقسیم کی مار جھیلنی پڑ رہی تھی۔ ان نامساعد حالات میں انھیں ایک نئے تہذیبی پس منظر کی دریافت و جستجو تھی۔ گرچہ ان کا ماضی کھو چکا تھا لیکن ان کی جڑیں اسی ماضی میں پیوست تھیں، اس لیے ان ناول نگاروں کے یہاں ان جڑوں کی تلاش و جستجو اور ان کی از سرِ نو دریافت کا عمل شدت سے ابھر کر آیا بلکہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر اظہار کے اس رویے نے ان کے ناولوں میں ناسٹلجیا کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر انور پاشا رقم طراز ہیں:
”ہند و پاک کے ناول نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد نے اپنی تہذیبی اثاثے کو کھنگالنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں ماضی کی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اقدار کو نگاہ تحسین سے دیکھا اور تقسیم کو اس مشترکہ وراثت پر شدید حملہ تصور کیا ہے۔ ہند و پاک کے بیشتر ناول نگاروں نے ذہنی و جذباتی سطح پر ماضی اور ماضی کی تہذیبی قدروں کو جس زاویے سے دیکھا اور پیش کیا ہے اس سے اس میں ایک نسٹلجیاتی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور اس کیفیت کی گونج ہند و پاک کے ناول نگاروں کے یہاں یکساں طور پر سنائی دیتی ہے۔ ہندستانی ناول نگاروں میں قرۃ العین حیدر کے یہاں ماضی کی صدائے بازگشت کا رنگ زیادہ گہرا ہے۔ ان کے اولین ناول ”میرے بھی صنم خانے“ سے لے کر اس عہد کے آخری ناول ”کار جہاں دراز ہے“ تک یہ رنگ نہ صرف تکرار کے ساتھ برقرار رہتا ہے بلکہ مزید گہرا ہوتا گیا ہے۔ وہ تہذیبی تشخص کی تلاش میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی تہوں تک پہنچتی ہیں۔ انھوں نے ماضی کے اتار چڑھاؤ کے تناظر میں برِ صغیر کی تہذیبی تہوں اور پرتوں کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے عہد بہ عہد اور نسل بہ نسل قوموں اور ان کی تہذیبی و معاشرتی اقدار کے زوال اور ارتقا کی مکمل تصویر اپنے ناو ل ”آگ کا دریا“ میں پیش کی ہے۔ ہندستان کی تہذیبی فضا کی یہی جھلک کچھ زمانی و مکانی فرق کے ساتھ قاضی عبدالستار، جیلانی بانو اور حیات اللہ انصاری کے یہاں بھی موجود ہے۔ عصمت چغتائی کا ناول ”ایک قطرہ خوں“ بھی ماضی کی جانب مراجعت کا ہی اشاریہ ہے۔پاکستانی ناول نگاروں کے یہاں تہذیبی جڑوں کی تلاش کا اظہار زیادہ شدت کے ساتھ ہوا ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی آبادی احساس بے دخلی، تبادلۂ آبادی، ہجرت کے تجربے، چھت کی تلاش اور نامانوس اور نامساعد حالات سے دو چار تھی۔ وہ اپنی زمین اور جڑوں سے کٹ چکی تھی اورر ایک نئے تہذیبی پس منظر کی دریافت و جستجو میں سر گرداں تھی۔ ان کا ماضی کھو چکا تھا لیکن ان کی جڑیں اسی ماضی میں پیوست تھیں۔ لہذا ان جڑوں کی تلاش اور جستجو اور ان کی از سرِ نو دریافت کا عمل وہاں کے ناول نگاروں کے یہاں شدت سے ابھر کر آیا۔ ان کے ناولوں میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر نسٹلجیا کا رنگ غالب ہے“۔13؎
اردو ناول کی طرح کثیر تعداد میں ایسے افسانے بھی تخلیق ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں، جو ہندستانی تہذیب و ثقافت کے مرقعے کہے جاسکتے ہیں۔ پریم چند سے لے کر معاصر اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ ہوگا کہ ان میں ہماری سماجی و معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی کی نمائندگی موجود ہے۔ پریم چند، حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، منٹو، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، انور عظیم، رام لعل، اقبال متین، واجدہ تبسم، اقبال مجید، جوگندر پال، غیاث احمد گدی، رتن سنگھ، قاضی عبدالستار، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، بلراج کومل، شرون کمار ورما، ترنم ریاض، شوکت حیات، جیلانی بانو، کمارپاشی، شفق، حمید سہروردی، قمر احسن، شموئل احمد، غضنفر، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق، انور خان، سید محمد اشرف، خالد جاوید، ذکیہ مشہدی اور صادقہ نواب سحر وغیرہ اردو افسانے کے اہم نام ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمیں اپنی جیتی جاگتی تصویریں نظر آتی ہیں۔ ان میں جہاں زندگی اور مسائل زندگی سے متعلق موضوعات موجود ہیں وہیں ان میں وہ تہذیبی عناصر بھی موجود ہیں جن کی بدولت آج ہماری تہذیبی زندگی روشن و تابناک ہے۔
عام طور پر ابتدا سے ہی ہندستان کی سماجی و معاشی پست حالی، عشق و محبت، ہندستان کی سیاسی جد و جہد، مذہبی کھوکھلا پن اور انتہا پسندی کے خلاف جہاد وغیرہ اردو کہانیوں کے موضوعات رہے ہیں۔ جنس کا تصور، زندگی کو نئے نقطۂ نگاہ سے دیکھنے اور برتنے کا تصور، سرمایہ داری کے خلاف آواز اور مساوات کے تصورات وغیرہ کو فروعی موضوعات کے طور پر ہر افسانہ نگار نے اپنے اپنے طور پر برتنے اور انھیں اپنے بیانیہ کا حصہ بنانے کی کو شش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی کہانیوں میں شعوری اور غیر شعوری طور پر ہندستان کا تہذیبی رنگ بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ قرۃ العین کے ساتھ ساتھ دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی گرچہ جاگیردارانہ تہذیب کے زوال اور اس کی ٹوٹتی بکھرتی زندگی کے گہرے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو ہر افسانہ نگار نے اپنے افسانوں اور کہانیوں میں اسی زندگی اور اس کے مسائل و معاملات کو پیش کیا ہے جس کا کوئی نہ کوئی سرا ہماری تہذیب و ثقافت سے ضرور ملتا ہے۔ بلکہ افسانے کی تاریخ ہی ہماری تہذیبی و معاشرتی زندگی سے عبارت ہے بقول صغیر افراہیم:
”پچھلے سو برسوں میں بر صغیر کے مختلف علاقوں کی تہذیب، وہاں کی سیاسی اُتھل پُتھل، اقدار کی شکست و ریخت اور اُن کا کھوکھلا پن، رومان اور حقیقت کا ٹکراؤ، فطرت نگاری، طبقاتی جد و جہد اور فرد کا فطری و جبلی اظہار، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے صنفِ افسانہ کو استعمال کیا گیا ہے۔ طبقہ وارانہ تقسیم اور ذاتی مفاد کی بنا پر مسخ کیے ہوئے کر دار اور اُن سے وابستہ واقعات و حادثات کی ایک مکمل دستاویز افسانے کی ایک صدی سے مرتب کی جا سکتی ہے، اور یہ برصغیر کی تاریخ کو تخلیقی تناظر میں دیکھنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کے بغیر روایتی تاریخ نگاری نہ صرف ادھوری بلکہ واقعات کی فہرست پر مبنی ایک رسمی تحریر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔۔۔موضوع کی سطح پر کائنات سے ذات تک سمٹنے اور پھر ہیئتی سطح پر اس میں نت نئی تبدیلیوں کے عمل کی روداد ایک صدی کو محیط ہے۔ پچھلے سو برسوں میں برِصغیر کے مختلف علاقوں کی تہذیب، وہاں کی سیاسی اتھل پتھل، اقدار کی شکست و ریخت اور اُن کا کھوکھلا پن، رومان اور حقیقت کا ٹکراؤ، فطرت نگاری، طبقاتی جد و جہد اور فرد کا فطری و جبلی اظہار، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے صنفِ افسانہ کو استعمال کیا گیا ہے۔“ 14؎
اس طرح اردو افسانوں میں کائنات سے لے کر ذات تک کے جہاں ہر طرح کے موضوعات کا بیان ہے وہیں ان میں ہماری تہذیبی زندگی اور اس کی اقدار و روایات کی ترجمانی و پیش کش بھی اپنی تمام تر نزاکتوں اور نشیب و فراز کے ساتھ موجود ہے۔ ہندستان کو جس طرح تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے ایک گلستان کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح کے دامن میں کھِلے ہر پھول کی اپنی ایک انفرادیت بھی ہے۔ اردو افسانے جہاں ہندستان کی ملی جلی تہذیب و ثقافت کا ایک خوب صورت البم ہیں، وہیں وہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر اس انفرادیت کو بھی پیش کرتے ہیں جو ہندستان کے ہر خطے و علاقے کا اپنا اختصاص و امتیاز ہے۔
غرض یہ کہ ہندستان کو تہذیبی و ثقافتی سطح پر پوری دنیا میں افتخار و امتیاز حاصل ہے۔ اس کا تہذیبی ورثہ پُر ثروت و متمول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تایخ بھی حد درجہ قدیم ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت جہاں ہندستانی تہذیب و ثقافت کا خاصہ ہے وہیں اس کا مشترک کردار اس کی روح تسلیم کی جاتی ہے۔ ہندستان کو جن اسباب و عوامل اور وسائل و ذرائع کی بنیاد پر سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا گیا ان میں ایک سبب اس کا یہ تہذیبی و ثقافتی کر دار بھی ہے۔ ہندستان کی دیگر زبانوں اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف کی طرح نہ صرف اردو زبان و ادب میں ہندستانی تہذیب و ثقافت کی بڑے پیمانے پر نمائندگی و ترجمانی موجود ہے بلکہ اس نے اس کے فروغ میں ہر عہد اور ادوار میں کلیدی رول بھی ادا کیا ہے اور یہ خود ہندستانی تہذیب و ثقافت کا استعارہ بن گئی ہے۔
٭٭٭
مراجع و مصادر:
1۔ ہندوستانی کلچر کا ارتقا تاریخ کے آئینے میں، تارا چند، شائع کردہ شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی 1967، ص: 15
2۔ ہندوستانی تہذیب، اقبال حسین، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1982ء، ص: 12,14
3۔ دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)، محمد حسن، ادارۂ تصنیف، ڈی ۷، ماڈل ٹاؤن، دہلی، ص:19
4۔ ایضا، ص: 10
5۔ ایضا، ص: 20
6۔ فن کی جانچ، سیدہ جعفر، ص: 118-129
7۔ فسانۂ عجائب، ص: 198
8۔ باغ و بہار، میر امن، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی، ص: 202
9۔ ہندوستانی تہذیب، سید عابد حسین، مطبوعہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، 1958ص: 64-65
10۔ ہند و پاک میں اردو ناول: تقابلی مطالعہ، انور پاشا، پیش رو پبلی کیشنز، نئی دہلی، 1992، ص: 15-16
11۔ آگ کا دریا، قرۃ العین حیدر، سرد لیتھو پریس دہلی، ص: 242-43
12۔ ایوانِ غزل، جیلانی بانو، ناولستان، جامعہ نگر، نئی دہلی، 1976، ص: 100-109
13۔ ہند و پاک میں اردو ناول: تقابلی مطالعہ، انور پاشا، پیش رو پبلی کیشنز، نئی دہلی، 1992، ص: 278-279
14۔ اردو افسانہ: تعریف، تاریخ اور تنقید، صغیر افراہیم، براؤن بُک پبلی کیشنز،نئی دہلی، 2018،ص: 7-22
… 
Name and Address:
DR. ABDUR RAZZAQUE ZIYADI
House No.372/14 (Fourth Floor), Ghaffar Manzil
Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-110025
Mobile No.: +919911589715, E-mil: arziyadi@gmail.com
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : سرسید کی تاویلیں اور ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے