میر تقی میرؔ کے فارسی کلام کی عصری معنویت

میر تقی میرؔ کے فارسی کلام کی عصری معنویت

(میر تقی میرؔ [١٧٢٣ء تا ١٨١٠ء] کے سہ صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے)  

پروفیسر صالحہ رشید 

خدائے سخن میر تقی میرؔ کی تاریخ پیدائش ١٧٢٣ء بمقام آگرہ متفقہ طور پر تسلیم کر لی گئی ہے اور اس مناسبت سے امسال یعنی ٢٠٢٣ میں ان کا سہ صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا ہے۔ آپ کی وفات ماہ ستمبر ١٨١٠ء لکھنؤ میں واقع ہوئی۔ آپ نے اردو میں چھ دیوان اور فارسی میں ایک کلیات شعر، نکات الشعرا (تذکرہ)، ذکر میر (سوانح) اور فیض میر یادگار چھوڑے ہیں۔ یہ میرؔ کے کلام کا جادو ہے کہ آج بھی اسے پڑھے اور حوالہ دیے بغیر بات نہیں بنتی۔ میرؔ کو خود اس بات کا احساس تھا؎
ما اگر بہ جہان آب و گل گردیم (ہم اگر جہان آب و گل میں پھر رہے ہیں)
با طبع لطیف متصل گردیم (طبع لطیف کے ساتھ متصل ہو کر پھر رہے ہیں)
جز نکتہ رسی کسی نیابد مرا (سخن فہم کے سوا کوئی مجھے نہیں پاتا)
با لذت شعر ایم بہ دل می گردیم (ہم شعر کی لذت ہیں، دل میں پھر رہے ہیں)
یہ حقیقت ہے کہ ان کے اشعار لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں اور تین سو برس گذر جانے کے بعد بھی ان کی معنویت برقرار ہے۔ میرؔ کی کلیات (اردو) مولانا عبد الباری آسیؔ کے مفصل مقدمے کے ساتھ ١٩٤١ء میں مطبع منشی نولکشور سے شائع ہوئی جس کے صفحہ اول پر درج ہے۔۔ بعونہ تعالیٰ، تصنیف سر آمد شعر افصح الفصحا، حضرت میر تقی میر اعلی اللہ مقامہ، کلیات میر بترتیب جدید مع مقدمہ و فرہنگ، ١٩٤١ء، باہتمام کیسری داس سیٹھ، سپرنٹنڈنٹ، مطبع نامی، منشی نولکشور لکھنؤ سے چھپ کر شائع ہوا۔ اس کے آخری صفحہ کی تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں:
’ہزاراں ہزار حمد اس مبدع کائنات کو کہ جس نے ایک لفظ کن سے تمام موجودات کو ہویدا کیا اور درود و سلام نازل ہو اس ہادی امی لقب پر جس نے فصحاء عرب و عجم کو اپنے کلام معجز نظام سے متحیر و مسخر کیا۔ اما بعد کلام سرآمد شعرائے نامدار یعنی کلیات میر تقی میرؔ بطرز جدید و اسلوب مرغوب مطبع منشی نولکشور واقع لکھنؤ میں حسب الارشاد فیض بنیاد آقائے نامدار عالیجناب منشی رام کمار و منشی تیج کمار صاحبان مالکان مطبع، باہتمام کیسریداس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ بماہ دسمبر ١٩٤٠ء چھپ کر نضارت بخش دیدۂ ناظرین والا تمکین ہوا۔‘
اسی طرح ریختہ کی سائٹ پر میر کا ایک اور اردو دیوان موجود ہے جس کے صفحۂ آخر پر شائع تحریر اس طرح ہے:
’حق تعالیٰ حسن اخلاق و مروت و وصف جود و سخاوت و مرتبہ علم و اقبال فضل و کمال بذات ستودہ صفات لالہ بھوانی پرشاد صاحب کرامت فرمودہ و نظر ہمتش در فیض رسانی ہر کس و قدر دانی مردم اہل ہنر و غریب نوازی خاکساراں جہاں بغایت مصروف است فقیر حقیر ہیچمدان موتی لعل نیز در زمرۂ خیر اندیشانش جا یافتہ۔بموجب فرمانش آن والا منش کتاب دیوان بزبان ہندی تصنیف میر تقی صاحب در عہد وزارت نواب فلک اقتدار سکندر منش جم جاہ حاتم عصر نواب آصف الدولہ بہادر دام اقبالہ بخط خود بتاریخ بیست و یکم شہر جمادی الاول سن یک ہزار و دو صد سہ ہجری باتمام رسانید۔‘
مذکورہ بالا کلیات میرؔ کے مقدمہ میں ذوق شعر اور شاگردی عنوان کے تحت درج ہے۔۔ ’اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ میرؔ فطری شاعر پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دل میں ذوق شعر ازلی تھا۔ ان کے متعلق کئی بزرگوں کی پیشین گوئیاں تھیں کہ یہ بہترین شاعر ہوں گے۔ چنانچہ پہلے ان کے والد بزرگوار ہی کو لے لیجئے۔ میر صاحب فرماتے ہیں کہ ”ہر گاہ مرا در بغل کشیدے و بنظر شفقت رنگ گاہی مرا دیدے، گفتے، کہ اے سرمایۂ جان این چہ آتشے است کہ در دلت نہان است و چہ سوزیست کہ ترا با جان است۔‘
ایک مرتبہ سید امان اللہ کے ساتھ احسان اللہ درویش کے یہاں جاتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں۔۔”این بچہ ہنوز سوزن بال است۔ اما چنین معلوم می شود کہ اگر بخوبی پر بر آرد، بیک پرواز آن طرف آسمان خواہد رفت۔“
اسی طرح خواجہ ناصر عندلیب نے خود میر صاحب سے فرمایا تھا کہ ”اے میر تو میر مجلس خواہی شد۔“
ایک باخدا کی تعلیم و تربیت اور متفرق درویشوں کے فیض صحبت نے ان کے دل میں سوز و گداز بھر دیا تھا۔اس کی تحریک کی ضرورت تھی جس کے لیے غیب سے یہ سامان ہوا کہ میر صاحب کی ایک شخص سید سعادت علی نامی امروہوی سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے شعر ریختہ کہنے کی ترغیب دی اور میر صاحب مشق سخن کرنے لگے اور چند روز میں وہ ترقی کی کہ شعراے دہلی ان کو نہ صرف خوش گو بلکہ مستند ماننے لگے۔
اس واقعے سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ میرصاحب سید سعادت علی کے شاگرد ہو گئے۔ بلکہ واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب اس سے پہلے شاید فارسی میں شعر کہنے لگے تھے مگر چونکہ کلام فارسی میں کوئی وزن نہ تھا اور اس کے علاوہ ریختے کا رواج عام ہو رہا تھا، اسی واسطے ان کے مشیر نے ان کو اپنی زبان میں شعر کہنے کی ہدایت کی۔‘
ہماری خوش بختی کہ میرؔ کے فارسی کلام کا مجموعہ بعنوان دیوان میر (فارسی) مسعود حسن رضوی ادیبؔ اور جناب نیر مسعود صاحب کی سعی جمیلہ کی بدولت آج دستیاب ہے۔ اس دیوان کو ٢٠١٣ء میں محترمہ امینہ سید نے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، کراچی سے شائع کیا۔ اس کا خطی نسخہ جناب مسعود حسن رضوی صاحب کے ذاتی کتاب خانے میں محفوظ ہے۔ اس دیوان کے دیگر خطی نسخے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری، رامپور، حیدر آباد، کتابخانہ شاہان اودھ لکھنؤ وغیرہ میں موجود ہیں۔ اس دیوان میں میرؔ کی ٥٢٠/ فارسی غزلیں، رباعیات، مثنوی، مسدس اور ضمیمہ اشعار، مقدمہ معین الدین عقیل اور اردو ترجمہ افضال احمد سید شامل ہیں اور ٥١٤/ صفحات پر مشتمل ہے۔ معین الدین عقیل کے مطابق میرؔ نے ١١٦٤ھ یعنی ١٧٥١ء میں فارسی کلام کا مجموعہ بہ صورت دیوان مرتب کیا تھا اور اس کے قلمی نسخے ١١٢٩ھ (١٧٧٨ء) اور ١٢٠٤ھ (١٧٩٠ء) کے درمیان تیار کیے گئے۔ میرؔ نے اپنی پیدائش ١١٣٦ھ (١٧٢٣ء)  کے ٢٨/ برس کے اندر ہی فارسی دیوان مرتب کر لیا۔ اس دیوان کی شروعات حسب روایت حمد باری تعالیٰ سے ہوتی ہے جس کا پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
 اے ز انعام تو وا شد غنچہۂ امکان ما
آب در جو دارد از لطف تو باغ جان ما 
نکات الشعرا بدعوائے میرؔ اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ہے۔گوکہ اسی زمانے میں تذکرۂ ریختہ گویان از گردیزی اور دیگر تذکرے بھی لکھے جا رہے تھے مگر سب سے پہلے تکمیل کو پہنچنے والا تذکرہ نکات الشعرا ہے۔ اس کی بھی بار بار اشاعت ہوتی رہی۔ اسے جے این یو کی اسکالر حمیدہ خاتون نے اردو ترجمہ کے ساتھ شائع کیا۔ وہ اس کے مقدمے کے آخر میں لکھتی ہیں:
’نکات الشعرا کی اہمیت کئی طرح سے ہے۔ اول تو یہ اردو شعرا کا پہلا تذکرہ ہے اس لیے اس کی تاریخی اہمیت ہے، دوم یہ میر تقی میر نے لکھا ہے جو خود عظیم شاعر ہیں، سوم اس میں ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کے بڑے شگفتہ اور کامیاب خاکے ہیں، ان کے بہترین اشعار ہیں، چہارم اس میں اردو شاعری کی تنقید کے اولین خدو خال اور اس زمانے کے تنقیدی پیمانے ہیں جو اب گم ہو گئے ہیں۔ کلاسیکی کسوٹیوں کے ساتھ اگر پڑھا جائے گا تو شاید سخن فہمی کا حق زیادہ ادا ہوگا اور کیا خبر ان پیمانوں کی آج بھی ضرورت ہو، اس لیے ان کو سامنے آنا چاہئے، پنجم یہ کہ تنقیدی پیمانے جان کر ہم ان کی شاعری کا بہتر شعور کر سکتے ہیں۔(حمیدہ خاتون)
تذکرے کی شروعات میں تمہید مصنف یعنی میرؔ کی تذکرے کی بابت تمہید پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں:
”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بعد حمد سخن آفرین کہ اوست سزاوار تحسین و درود نا محدود بر آن شفیع المذنبین و علیٰ آلہ اجمعین کہ مقصود بود از آسمان و زمین۔ پوشیدہ نماند کہ در فن ریختہ کہ شعر یست بطور شعر فارسی بزبان اردوئے معلّیٰ شاہ جہان آباد دہلی، کتابے تا حال تصنیف نشدہ کہ احوال شاعران این فن بہ صفحۂ روزگار بماند بر بناء علیہ این تذکرہ کہ مسمیٰ بہ نکات الشعرا است نگاشتہ می شود۔
اگرچہ ریختہ در دکن است، چون از آنجا یک شاعر مربوط بر نخواستہ لہٰذا شروع بنام آنہا نکردہ و طبع ناقص مصروف اینہم نیست کہ احوال اکثر آنہا ملال اندوز گردد، مگر بعضے از آنہا نوشتہ خواہد شد، ان شاء اللہ تعالیٰ امید کہ بدست ہر صاحب سخنے بیاید بنظر شفقت بکشاید۔“
اس کے بعد سب سے پہلے امیر خسروؔ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ
مجمع کمالات صاحب حالات، فضائل او اظہر من الشمس است، احوال امیر مذکور در تذکرہ ہا مسطور، نوشتن این احقر العباد فضولیست۔ اشعار ریختہ آن بزرگ بسیار دارد، درین خود ترددے نیست۔ ازانجملہ یک قطعہ تیمناً نوشتہ آید ؎
زرگر پسرے چو ماہ پارا کچھ گھڑے سنوارئے پکارا
نقد دل من گرفت و بشکست پھر کچھ نہ گھڑا نہ سنوارا
مرزا عبد القادر بیدلؔ
شاعر پرزور فارسی، صاحب دیوان پنجاہ ہزار بیت و مثنویات وغیرہ۔ اوائل جوانی نوکر شاہ زادۂ محمد اعظم شاہ بود۔ بعد از چندے ترک روزگار گرفتہ فروکش کرد۔ از مذاق شعر او دریافتہ می شود کہ بہرۂ کلی از عرفان داشت۔ احوالش مفصلاً در تذکرہ ہا مرقوم است۔ دو شعر ریختہ بنام او شنیدہ می شود، شاید بتقریبے گفتہ باشد۔ازوست ؎
مت پوچھ دل کی باتیں وہ دل کہاں ہے ہم میں
اس تخم بے نشاں کا حاصل کہاں ہے ہم میں
جب دل کے آستاں پر عشق آن کر پکارا
پردے سے یار بولا بیدلؔ کہاں ہے ہم میں
سراج الدین علی خان آرزوؔ
آب و رنگ باغ نکتہ دانی چمن آراے گلزار معانی، متصرف ملک زور بلاغت، پہلوان شاعر عرصۂ فصاحت، چراغ دودمان صفائے گفتگو کہ چراغش روشن باد، سراج الدین علی خان آرزو سلمہ اللہ تعالیٰ ابداً۔ شاعر زبردست قادر سخن عالم فاضل تا حال، ہمچو ایشان بہندوستان جنت نشان بہم نرسیدہ بلکہ بحث در ایران می رود۔ شہرۂ آفاق، در سخن فہمی طاق، صاحب تصنیفات دہ پانزدہ کتب و رسالہ و دیوان مثنویات۔ حاصل کمالات او شان از حیزۂ بیان بیرون است۔ ہمہ اوستادان مضبوط فن ریختہ ہم شاگردان آن بزرگوارند۔ گاہے برائے تفنن طبع دو سہ شعر ریختہ فرمودہ این فن بے اعتبار را کہ ما اختیار کردہ ایم اعتبار دادہ اند، تبرکاً نوشتہ آمد ؎
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسہ ہے
میخانہ بیچ جاکر شیشے تمام پھوڑے
زاہد نے آج اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے
رکھے سیپارۂ گل کھول آگے عندلیبوں کے
چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے
وعدے تھے سب خلاف جو تجھ لب سے ہم سنے
یہ لعل قیمتی دیکھو جھوٹا نکل گیا
ہر صبح آوتا ہے تیری برابری کو
کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خاوری کو
’ذکر میر‘ میر تقی میرؔ کی خود نوشت سوانح عمری ہے جسے مولوی عبد الحق نے اردو ترجمہ کر کے ١٩٢٨ء میں انجمن اردو پریس، اورنگ آباد دکن سے شائع کیا۔ اس کی شروعات ایک حمدیہ اور نعتیہ اقتباس سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد میرؔ نے اس کی تالیف کا سبب یوں بیان کیا ہے:
’سبب تالیف ذکر میر: میگوید فقیر میر محمد تقی المتخلص بمیر کہ درین ایام بیکار بودم و در گوشۂ تنہائی بے یار۔ احوال خود راہ متضمن حالات و سوانح روزگار و حکایات و نقلہا نگاشتم و بناے خاتمۂ این نسخۂ موسوم بہ ’ذکر میر‘ بر لطائف گذاشتم۔ امید ز یاران زمان آنست کہ اگر بر خطاے اطلاع یابند، چشم عنایت بپوشند و در اصلاح بکوشند‘۔
فیض میرؔ مصنفہ سلطان الشعرا حضرت میر محمد تقی میرؔ مع مقدمہ و ترجمہ و فرہنگ مرتبہ سید مسعود حسین رضوی ادیبؔ کی رو سے ’نکات الشعرا نے میر کی فارسی انشا پردازی کی سند میں جو محضر پیش کیا تھا اس پر ذکر میر ؔ نے ایک مہر اور لگا دی۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ فیض میر کی اشاعت کا وقت بھی آ گیا۔ میر کی جتنی تصنیفوں کا پتہ لگ چکا ہے ان میں اب صرف دو کا شائع ہونا باقی رہ گیا ہے، ایک میرؔ کا فارسی دیوان، دوسرے ایک عشقیہ قصہ فارسی نثر میں۔ یہ وہی قصہ ہے جس کو میر نے اردو نظم کے لباس میں بھی مثنوی دریائے عشق کی صورت میں پیش کیا ہے۔ نکات الشعرا اور ذکر میرؔ دو آئینے ہیں کہ میرؔ کی سوانح نگاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اگر میرؔ کے قلم کی رفتار تصوف اور الٰہیات کی دشوار گذار منزلوں میں دیکھنا ہو تو فیض میر پڑھئے۔ فیض میرؔ ایک مختصر رسالہ ہے۔ مصنف نے نہایت مختصر حمد و نعت کے بعد لکھا ہے:
’می گوید فقیر حقیر میر محمد تقی متخلص بہ میرؔ کہ درین ایام فیض علی پسر من ذوق خواندن ترسل پیدا کردہ بود۔ لہذا حکایت خمسہ متضمن فوائد بسیار را باندک فرصت نگاشتم و مراعات اسم او نمودہ نام نسخہ فیض میرؔ گذاشتم۔‘ مصحفی نے تذکرۂ ہندی میں فیض کا ذکر بہ حیثیت شاعر کیا ہے۔ دیگر تذکروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔
معین الدین عقیل نے ایک بیاض ’مجموعہ نیاز‘ کے خطی نسخے کا ذکر کیا ہے جس پر ابھی پورے وثوق سے گفتگو نہیں کی گئی۔ اس بیاض میں فارسی اشعار جمع کئے گئے ہیں۔
میرؔ نے جب اس جہان میں آنکھ کھولی تو سلطنت مغلیہ کا تیرہواں بادشاہ مرزا ناصر الدین محمد شاہ روشن اختر بہادر غازی سریر آراے تخت تھا۔ اس نے اٹھائیس سال سات ماہ حکومت کی۔ اس کے بعد ابو ناصر مجاہد الدین محمد احمد شاہ بہادر غازی، عزیز الدین محمد عالمگیر ثانی، محی الملت شاہ جہان سوم، عبد اللہ جلال الدین ابو المظفر حمد الدین محمد میرزا علی گوہر شاہ عالم ثانی، ابو ناصر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی یعنی روشن اختر کے بعد چھ بادشاہوں یا بالفاظ دیگر میرؔ نے محمد شاہ رنگیلا سے لے کر اکبر شاہ ثانی تک کا دور دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی ١٧٣٩ء میں نادر شاہ اور ١٧٤٨ء میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں دہلی کی تاراجی بھی دیکھی۔ اتنا ہی نہیں مغل بادشاہوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ما بین تنازعات کا بھی مشاہدہ کیا۔ یہی دور سرکاری زبان فارسی کے انحطاط اور اردو زبان کے ارتقا کا بھی ہے۔ میرؔ جیسے حساس طبع پر ان عوامل کا اثر  پڑنا لازمی تھا جو ان کے فارسی اور اردو کلام سے واضح ہے۔ ان کی فارسی شاعری میں سبک ہندی کی خصوصیات موجود ہیں اور جا بجا وہ احساس برتری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ میرؔ کے قارئین، ناقدین اور محققین کے درمیان جب بھی ان پر گفتگو ہوگی ان کا عہد، ان کے کوائف زندگی، ان کی شاعری کے موضوعات، شعری خصوصیات وغیرہ مورد بحث قرار پاتے رہیں گے۔تین صدیاں گذر گئیں مگر مباحث میرؔ ابھی بھی جاری ہیں۔ یہ کلام میرؔ کا جادو ہے اس سے انکار نہیں۔ ان کی مقبولیت کے سبب ہی امسال ان کا سہ صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ امید کی جا سکتی ہے کہ میریات کے تعلق سے کچھ نئے ابعاد ضرور سامنے آئیں گے۔ میرؔ کا نام ذہن میں آتے ہی خدائے سخن میرؔ، اردو کے بہت بڑے شاعر کی شبیہ ابھرتی ہے مگر میرؔ کی اپنی تحریروں میں لفظ اردو کا استعمال نظر نہیں آتا۔ ریختہ پر میرؔ کا ایک دیوان اپلوڈ ہے جو جناب بھوانی پرشاد اور محترم رام لعل کے توسط سے شائع ہوا اس پر چھپا ہے ’کتاب دیوان بزبان ہندی، تصنیف میر تقی میرؔ۔ یہاں بزبان ہندی قابل غور ہے۔ ہم شکر گذار ہیں ان برادران وطن اور دیگر تمامی حضرات کے جن کی بدولت میرؔ کا کلام محفوظ رہ سکا۔ اسی طرح مطبع نولکشور سے جو دیوان شائع ہوا اس کے لیے ہمیں مالکان پریس جناب منشی رام لعل، جناب منشی تیج کمار اور سیٹھ کیسری داس سپرنٹنڈنٹ کا احسان مند ہونا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے ریختہ والوں نے اپنی سائٹ کا نام میرؔ سے متأثر ہو کر رکھا ہے۔ میرؔ نے جہاں بھی زبان کے تعلق سے بات کی وہاں لفظ ریختہ کا استعمال کیا ہے مثلاً مذکورہ تحریر میں دیکھئے میرؔ نکات الشعرا میں رقم طراز ہیں:
’پوشیدہ نماند کہ در فن ریختہ کہ شعریست بطور شعر فارسی بزبان اردوئے معلی شاہ جہان آباد، دہلی، کتابی تا حال تصنیف نشدہ‘۔ آگے لکھتے ہیں:
’اگرچہ ریختہ در دکن است‘ یا امیر خسرو  کے لیے ’اشعار ریختہ آن بزرگ‘ بیدل کے لیے ’دو شعر ریختہ‘ سراج الدین علی خان آرزوؔ کے لیے ’دو سہ شعر ریختہ‘ وغیرہ۔ خود میرؔ کی شعر گوئی کے لیے لکھا ہے کہ ’سید سعادت علی امروہوی نے شعر ریختہ کہنے کی ترغیب دی، ریختے کا رواج عام ہو رہا تھا، اسی واسطے ان کے مشیر نے ان کو اپنی زبان میں شعر کہنے کی ہدایت کی۔مصحفیؔ’تذکرۂ ہندی‘ لکھتے ہیں، میرؔ کا دیوان بزبان ہندی شائع ہوتا ہے وغیرہ۔ اس طرح کے مندرجات تذبذب میں ڈال دیتے ہیں کہ میرؔ شاعر ریختہ ہیں، ان کا دیوان بزبان ہندی شائع ہوتا ہے تو انھیں اردو کا شاعر بننے میں آخر کن مراحل سے گذرنا پڑا۔ اس عقدہ کو سلجھانے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب ’اردو کا ابتدائی زمانہ سے کچھ مدد ملتی ہے جو اس کے باب اول میں تاریخ، عقیدہ اور سیاست عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’پرانے زمانے میں اردو نام کی کوئی زبان نہیں تھی۔ جو لوگ قدیم اردو کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ لسانیاتی اور تاریخی اعتبار سے نا درست اصطلاح برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ’ قدیم اردو‘ کی اصطلاح کا استعمال آج خطرے سے خالی نہیں۔ زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ اردو نسبتاً نو عمر ہے، اور یہ سوال کہ قدیم اردو کیا تھی یا کیا ہے، ایک عرصہ ہوا تاریخ کے میدان سے باہر نکل چکا ہے۔ پہلے تو یہ سوال اردو/ہندی کی نو آبادیاتی، سامراجی مصلحتوں کے زیر اثر انگریزوں کی سیاسی تشکیلات کا شکار رہا اور پھر جدید ہندوستان میں ہندوستانی (=ہندو) تشخص کے بارے میں سیاسی اور جذباتی تصورات کی دنیا میں داخل ہو گیا۔
زمانۂ حال کے عام ہندی بولنے والے کے لیے یہ خیال اب عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس زبان کو وہ آج ’ہندی‘ کے نام سے جانتا ہے وہ قدیم الایام سے موجود ہے اور اس کے ادب کا آغاز (اگر اور بھی پہلے نہیں تو) کم از کم خسرو (١٢٥٣ء تا ١٣٢٥ء) سے ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ کبھی اٹھارہویں صدی میں پرانے زمانے کی یہ اصلی ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ اس وقت اردو بن گئی جب مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے زمانے کی رائج ’ہندی‘ کی راہ سے ہٹ کر ایک بھاری، فارسی زدہ زبان اختیار کریں گے اور پھر یہ زبان ہندستانی مسلمانوں کا ما بہ الامتیاز بن گئی۔
ہندی/ اردو ادب کی عالمانہ تاریخ کے نام سے آج کل جو مٖروجات ہمارے ملک میں رائج ہیں ان کا خاصا حصہ صرف نام زدگی کے اتفاق پر مبنی ہے۔ ہم لوگ اس بات کو اکثر بھول جاتے ہیں کہ جس زبان کو آج ہم ’اردو‘ کہتے ہیں، پرانے زمانے میں اسی زبان کو ’ہندوی‘ ’ہندی‘ ’دہلوی‘ ’گجری‘ ’دکنی‘ اور  پھر ’ریختہ‘کہا گیا ہے۔
امید ہے میرؔ کے سہ صد سالہ جشن ولادت مناتے ہوئے ماہر لسانیات، محققین، ناقدین اور میریات سے دل چسپی رکھنے والے لوگ میرؔ کے ریختہ سے اردو شاعر بننے تک کے سفر پر خاطر خواہ علمی گفتگو کریں گے اور اس سے سود مند نتائج بر آمد ہوں گے۔ اس شاعر عظیم المرتبت کو نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کے چند فارسی اشعار اور ان کی عصری معنویت پر نگاہ ڈالتے ہیں ؎
عریاں ز لباس نام و ننگت کردند (تجھے عزت و ناموس کے لباس سے عریاں کر دیا)
شایان ہزار تلخ و سنگت کردند (ہزار تلخی اور پتھر کھانے کے لائق بنا دیا)
نگذاری اگر جامہ چہ سازی میر ؔ(اگر یہ لباس اتار نہیں پھینکو گے تو پھر کیا کرو گے میرؔ)
چسپاں پوشان بسی بہ تنگت کردند (تنگ لباس پہننے والوں نے تجھے بہت تنگ کر دیا)
عزت طلبم، وقار خود خواہانم (میں عزت طلب ہوں، اپنے وقار کو چاہتا ہوں)
سر کردۂ فرقۂ دل آگاہانم (میں بیدار مغزوں کے فرقے کا سر براہ ہوں)
بر ظاہر فقر من نگاہی نہ کنی (میرے ظاہری فقر پر نگاہ مت ڈال)
من صدر نشین مجلس شاہانم (میں شاہوں کی مجلس کا صدر نشین ہوں)
این اختراع تازۂ چشم کشند تست (یہ تیری قاتل نگاہ کی تازہ اختراع ہے)
غلطاندنی بہ خون و بدان سو نہ دیدنی (خون میں لڑھکا دینا اور اس طرف نگاہ نہ کرنا)
داشتن ہر دم زباں زیر زبانت خوب نیست (ہر دم طرح طرح کی باتیں بنانا اچھا نہیں)
یاد باشد حرف من، آخر خجالت می کشی (میری بات یاد رہے، بالآخر تو شرمندگی اٹھائے گا)
گہ چہرہ بیارائی و گہ رو سازی (کبھی تونے چہرہ سجایا کبھی رو سازی کی)
گہی بہ خط و خال سیہ پردازی (کبھی اپنے چہرے کو سیاہ خط و خال سے آراستہ کیا)
آئی ہر دم بہ شکل دیگر در چشم (ہر دم نئی شکل میں نظرآیا)
ای آئینہ رو مگر تو صورت بازی (اے آئینہ رو شاید تو بہروپیا ہے)
یکی بہ دیدن دل خستگان شوق بیا (ایک بار شوق کے دل خستگان کو دیکھنے کے لیے آ)
کہ دیدہ اند برائے تو رنج بسیاری (کہ تیرے لیے انھوں نے بہت رنج دیکھے ہیں)
تو ای گل در چمن بر خویش می چینی و می ترسم (اے گل تو چمن میں غرور کرتا پھرتا ہے اور میں ڈرتا ہوں)
مبادا از سیلی پائیز رنگ رو بگردانی (کہیں ایسا نہ ہو کہ خزاں کا طمانچہ تیرے چہرے کا رنگ بدل دے)
میرؔ در بزم ما شراب کشاں (میرؔ ہم مے نوشوں کی بزم میں)
شیخ شد دستگاہ آخر کار (آخر کار شیخ نشانہ بن گیا)
ز غم خلق میرد، لبت خندہ دارد (غم سے لوگ مر رہے ہیں اور تیرے لبوں پر ہنسی)
ترا حق تعالیٰ بسی زندہ دارد (حق تعالیٰ تیری عمر دراز کرے)
اُنس با کس نبود در وطن مالوفم (مجھے اپنے عزیز وطن میں کسی سے اُنس نہیں تھا)
شہر را وحشت دیوانگیم صحرا کرد (شہر کو مری دیوانگی کی وحشت نے صحرا کر دیا)
تا کجا آہ بدین گونہ بسر باید کرد (آہ اس طرح کب تک بسر کی جاسکتی ہے)
از سر کوی تو رخت سفر باید کرد (تیرے کوچہ سے مجھے رخت سفر اٹھانا چاہئے)
دل بہ غربت چند یارب ہر سحر چون آفتاب (یارب غریب الوطنی میں دل کب تک ہر صبح)
جام خوں بر یاد یاران وطن خواہد کشید (آفتاب کی طرح وطن کے دوستوں کی یاد میں خون کا جام اٹھائے گا)
از محبت سرشتہ اند گلم (محبت سے میری مٹی گوندھی گئی ہے)
شیوہ مہر است، کار من اخلاص (میرا شیوہ محبت، میرا کام اخلاص)
تاب ھا خوردم کہ دستم داد مقبولی خلق (بہت تکلیفیں اٹھائیں تب خلق میں مقبولیت حاصل ہوئی)
ورنہ رہ چون رشتۂ تسبیح ہیچ جا پیدا نہ بود (ورنہ تسبیح کے دھاگے کی طرح دل میں راہ نہیں بن سکتی تھی)
آن کف نازک ببیں و این ہمہ ناحق کشی (اس کف نازک کو دیکھئے اور یہ تمام ناحق قتل)
بگذرد از حق اگر کس حق بہ دست قاتل است (توقع انصاف چھوڑ دے گر کسی کا انصاف قاتل کے ہاتھ میں ہے
حرفی مگو بزاہد مغرور خود ستا (مغرور خود ستا زاہد سے کچھ مت کہو)
معقول را نمی شنود این خرف خر است (دلائل عقلی کو نہیں سنتا یہ بد عقل خر ہے)
پیش ازین در ستم این گونہ دلیریش نبود (اس سے پہلے اس کے ستم میں اس طرح کی دلیری نہیں تھی)
مدّعی را مگر از سوی تو ایمای ہست (دشمن کو شاید تیری طرف سے شہ ملی ہے)
ریش و مندیل و پیرہن زور است (اس کی داڑھی، پگڑی اور لبادہ زوردار ہے)
شانہ کاری شیخ مشہور است (شیخ کی شانہ کاری مشہور ہے)
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "محاضرات"

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے