پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب  "محاضرات"

پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "محاضرات"

علی شاہد دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
رابطہ: 8820239345

غیر آزاد ہندستان کی سب سے قدیم مرکزی جامعات میں الہ آباد یونی ورسٹی کا بھی نام آتا ہے۔ اسی یونی ورسٹی کے شعبۂ عربی و فارسی کی موجودہ صدرِ شعبہ ہیں محترمہ پروفیسر صالحہ رشید۔ فارسی و عربی زبان و ادب پر درک رکھتے ہوئے اردو ادب میں ایک یگانہ شناخت کی حامل شخصیت کا نام پروفیسر صالحہ رشید ہے۔ محترمہ کا شمار زبان و ادب کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ فارسی ادب آپ کا جوہرِ خاص ہے۔ فاضل ادیبہ کے علمی و ادبی اجتہاد تاریخِ علم وادب کا انمٹ نقوش ہیں۔ آپ کے علمی انہماک اور ادبی شغف نے فارسی اور اردو دونوں ادب کے دامن کو آب دار موتیوں اور گوہروں سے مزین کیا ہے۔ ‘تفہیم`، ‘اسلم جمشید پوری اور فن` اور ‘بوستان خیال` کی سی تصانیف نے آپ کی ادبی شخصیت میں چار چاند لگایا۔
پیشِ نظر "محاضرات" ان کی چوتھی کتاب ہے۔ دراصل یہ کتاب معتبر ادیبہ پروفیسر صالحہ رشید کے پندرہ مقالات پر مشتمل ہے۔ بہ اعتراف فاضل مصنفہ یہ پندرہ مقالات وقتاً فوقتاً ادبی محافل میں شرکت کی غرض سے نذرِ خامہ کیے گئے تھے۔ 139 صفحات والی مخصوص کتاب کو عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی کے ماتحت گلوری یس پرنٹر، دہلی نے سال 2019ء میں طبع کیا۔ اس کی قیمت مبلغ -/200 روپے ہے۔ سرورق دیدہ زیب اور کاغذ نفیس ہے۔
زیرِ نظر کتاب "محاضرات" کو مصنفہ نے اپنے مشفق استاد اختر جہاں بیگم (مرحومہ) کے نام منسوب کرکے حقِ شاگردی ادا کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ محاضرات کے پیش لفظ میں قلم، کتاب، تحریر اور علم کے ارتقائی مراحل سے حال تک عبقری حرکتِ قلم کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پروفیسر صاحبہ صفحہ نمبر ١٠ پر رقم طراز ہیں:
"کتابوں کی اہمیت اور ضرورت کسی دور میں کم نہیں ہو سکتی۔ حصول علم کا بہترین ذریعہ کتابیں ہیں۔ کتابیں صرف کاغذی پیرہن نہیں بلکہ یہ اپنے دامن میں عقل و دانش کے خزانے چھپائے ہوتی ہیں۔ کبھی یہ زمانے کے حقیقی خدو خال کو عیاں کرتی ہیں تو کبھی اس کے تغیر کی داستان سناتی ہیں۔ یہ آفاقی پیغام کی حامل ہوتی ہیں۔ کتابیں انسان کی روحانی قدروں کو جلا بخشتی ہیں۔ آج کی ترقی بلاشبہ کتابوں کی مرہونِ منت ہے۔ موجودہ ایجادات، اختراعات اور اطلاعاتی سیلاب میں کتابوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ کتابوں نے آج پیڑ کی چھال سے آگے کا سفر طے کرتے ہوئے ای کتاب کی شکل اختیار کر لی ہے۔"
معتبر ادیبہ و محققہ نے تحقیق و تدقیق کی نئی راہوں کو بڑی خوش اسلوبی سے وا کیا ہے۔ اس بابت بین ثبوت کا مشاہدہ قارئین مخصوص مقالات بہ عنوان "قرآن اور فن خطاطی" ، "ترجمے کا فن اور اس کی معنویت" ، "انوار سہیلی _ پنچ تنتر کا فارسی ترجمہ" ، "محیط اعظم سے چراغِ دیر کی جانب" ، "پرشین لٹرس اینڈ اَدَر ڈاکومنٹس میں بیان شدہ ہندوستانی عورت" اور "عہد حاضر میں خطوط غالب میں نہاں تاریخی اشاریے کی معنویت" میں کر سکتے ہیں۔ راقم السطور نے مشمولاتِ کتاب پر نظر دوڑائی تو پہلی قرأت میں ہی متذکرہ کتاب کے اختصاصی مقالات "پیر شعلہ خیز_شمس تبریز" نیز "غالب اور شیفتہ کے تعلقات" پر متلاشی نظریں جا ٹھہریں۔
مولانا رومی علیہ الرحمہ اور جناب شمس تبریز علیہ الرحمہ کے روحانی تعلق اور شیخ و مرید کے مراسم و التفات کو مستحسن انداز سے سپرد قرطاس و قلم کیا گیا ہے۔ شمس تبریز مجذوبانہ شان والے بزرگ تھے، جب کہ حضرت مولانا جلال الدین کو روم شہر کے سب سے بڑے عالم دین کی شناخت حاصل تھی۔ مولانا کی فارسی غزلوں کا مجموعہ دیوان شمس کے نام سے مشہور ہے۔ مولانا رومی کا ایک شعر(زیرنظر) بڑا مشہور ہوا جو جناب شمس تبریز کے مرتبے کا غماز ہے: "مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریز نہ شد” ترجمہ: مولوی (جلال الدین) کبھی مولانا روم نہ بن سکتا، جب تک شمس تبریز کا غلام نہ ہوتا۔
ٹھیک اسی طرح (ضِمناً کہتا چلوں کہ) پیش نظر کتاب "محاضرات" کے فارسی اشعار مع اردو ترجمے بھی ہوتے تو آنے والی نسلوں میں اردو و فارسی زبانوں میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے طالب علموں کو مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملتا اور ہم جیسے غیر فارسی والوں کو مزید فہم و چاشنی۔ فارسی زبان میں تحریر شدہ اردو شعرا کا تذکرہ ‘گلشن بےخار` اور اس کے مؤلف نواب محمد مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہ سے متعلق تحقیقی جائزہ خوب پیش کیا گیا ہے۔ یہاں ادب، تاریخ اور خصوصاً صوفیہ، تاریخ اور تہذیبی پس منظر کا بیان بڑی خوش اسلوبی سے ہوا ہے۔ مصنفہ نے نفسِ مضمون اور تحقیقی مواد کے ساتھ خوب توازن رکھا ہے۔ مقالات "چراغ جلتے نہیں جلائے جاتے ہیں" اور "سرسید _ اردو نثر کے شعور کا ابتدائی احساس" کے وسیلے سے سرسید کے نثری افکار و شعور کو مختلف زاویوں سے اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جیسا کہ سرسید نے ذاتی اعلا فکر و شعور نیز اپنے نثری اسلوب کے ذریعے اردو زبان کو ایک ارفع اور وقیع درجے پر فائز کیا۔
چودہ صفحات پر مبنی پروفیسر محترمہ کا ایران کا سفر بہ عنوان "میرا ایران کا سفر" معنوں تازہ ترین آنکھوں دیکھا حال بے حد متاثر کن ہے۔ معتبر ادیبہ نے وہاں ایران میں اپنے شب و روز کی کیفیات سے قارئین کو بھرپور آشنا کیا ہے۔ راہِ سفرمیں پیش آنے والے استعجاب، تحیر، شادمانیاں اور اضطراب کو اس طرح سے قلم بندکیا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے نہ صرف پوری تصویر من و عن آجاتی ہے بلکہ اس مخصوص مقام سے متعلق تمام معلومات مع تفصیلات اس کے علم و آگہی میں اضافہ کر دیتی ہیں۔
بہ شمول منیمال(فارسی افسانچہ) کے پانچ نمونے، جید ادبا کے اقوال کی روشنی میں اور مختلف زبان و ادب کی تاریخ کے حوالے "فارسی افسانچہ منیمال اردو افسانچے کا ہمزاد" کے عنوان سے تحقیقی و دل چسپ مقالہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ واضح ہو کہ زیر نظر ”محاضرات" دوست نما برادرِ کلاں خواجہ احمد حسین کے توسط سے میرے مطالعے تک پہنچی۔مزید بریں خوش گوار انداز تخاطب میں محترمہ سے میری گفتگو بھی بذریعہ موبائل ہوئی۔ انھوں نے الہ آباد، وہاں کی ادبی فضا کے ساتھ وہاں کے شعرا و ادبا کے دلوں کی ڈھرکنوں میں بسنے والے خواجہ جاوید اختر مرحوم کا تذکرہ بھی کیا۔
راقم الحروف علی شاہد دلکش بات کر رہا تھا مقصودالذکر کتاب "محاضرات" کی۔ یقین ہے کہ متذکرہ کتاب میں فاضل محققہ کے لیکچرز (مقالات) میں تحقیقی زبان و بیان کی گرفت کے ساتھ مضمون کی گہرائی اور گیرائی آئندہ تحقیق کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گی۔ ارباب علم خوب جانتے ہیں کہ موصوفہ کئی زبانوں سے واقف ہیں۔ آپ نے جدید و قدیم مطبوعات کے ساتھ ساتھ قدیم مخطوطات کا گہرا مطالعہ بھی کر رکھا ہے۔ صدر شعبہ کی انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے پروفیسر صالحہ رشید صاحبہ نے تحقیق و تنقید کے کاز میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور علم و ادب کے وقار کو بلند کیا ہے۔ نتیجتاً پروفیسر صاحبہ کی ناقابلِ فراموش اور گراں قدر علمی و ادبی خدمات کے صلے میں ملک کی متعدد اکیڈمیوں اور اداروں نے آپ کے نام متعدد اعزازات و اکرام کیے ہیں۔
مندرجہ بالا باتوں اور ‘محاضرات` کے مدنظر میں کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ تحقیق کے خار زار سے کامیابی سے نکلنے پر اردو تحقیق و تدقیق دونوں میں ان کو جو استناد حاصل ہوا ہے یہ ان کا ہی وطیرہ ہے۔ لہذا محترمہ پروفیسر صاحبہ لائق صد آفرین ہیں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے