ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کا تعارف و تجزیہ

ناول ’’نعمت خانہ‘‘ کا تعارف و تجزیہ

شہزاد حسین بھٹی 
پاکستان 

ڈاکٹرخالد جاوید 9 مارچ 1963 کو بریلی (اترپردیش) میں محمد ولی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے ہے۔ جب نو سال کی عمر کو پہنچے تو اسلامیہ انٹرکالج بریلی میں داخل کروا دیے گئے۔ 1975 میں ہائی سکول پاس کیا، 1977 میں انٹرمیڈیٹ اور 1984 میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ خالد جاوید نے سب سے پہلے ایم اے سیاسیات کیا، پھر فلسفہ کی طرف راغب ہوئے اور ایم اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی مضمون میں پی ایچ ڈی بھی کر ڈالی۔ بریلی کالج میں چار سال  تک فلسفہ پڑھاتے رہے، اسی دوران ایم اے اردو بھی کر لیا اور پھر دہلی منتقل ہو گئے۔ جامعہ دہلی میں پانچ سال اردو پڑھاتے رہے، اسی دوران ایم فل کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اردو کے شعبہ سے منسلک ہو گئے۔ اسی جامعہ سے ہی انھوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ خالد جاوید افسانہ نگار، ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ مضمون نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور تنقید کے رموز اوقاف سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ 1991 میں ان کا پہلا افسانہ ’تابوت سے باہر‘ لکھنؤ سے نکلنے والے رسالے ’نیادور‘ میں شائع ہوا۔ ان کے زیادہ تر افسانے شمس الرحمن فاروقی کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’شب خون‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
پرفیسرخالد جاوید کا شہرہ آفاق ناول ’نعمت خانہ‘ ایک ایسا سماجی و ثقافتی ناول ہے جو حقیقت نگاری پر مبنی ہے، جس میں متوسط طبقے کے ایک مشترکہ خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ناول میں باورچی خانہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسی کو نعمت خانہ کہا گیا ہے۔ ناول کے اہم واقعات یہیں انجام پاتے ہیں۔ باورچی خانے کا ماحول، اس میں موجود برتن و دیگر سامان کہیں تشبیہ، کہیں استعارے تو کہیں تمثیل کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ناول کا اسلوب بیانیہ و فلسفیانہ ہے۔ ناول کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ’ہوا‘ ہے، دوسرا ’شور‘ ہے، تیسرا ’نزلہ‘ ہے، چوتھا پھر ’شور‘ ہے، پانچواں حصہ ’سناٹا` ہے۔ یہ پانچ حصے پانچ مختلف ادورا کی نشان دہی کرتے ہیں۔ خالد جاوید نے ان ادوار کو ایک ماہر فلسفی کی طرح نام دیے ہیں، جس سے قاری کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔
یہ ناول 2014 میں دہلی سے شائع ہوا۔ شمس الرحمن فاروقی کی بیٹی باراں فاروقی نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا اور اسے ’’دی پیرا ڈائز آف فوڈ‘‘ کا نام دیا۔ 2022 میں ’’نعمت خانہ‘‘ کے انگریزی ایڈیشن کو ’جے سی پی پرائز فار لٹریچر‘ سے نوازا گیا۔ جس پر خالد جاوید کا کہنا تھا: ’’یہ پوری اردو دنیا کی کامیابی ہے اور لوگ جس اپنائیت سے اسے منا رہے ہیں وہ ناقابلِ بیان خوشی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا: ’’انھیں کبھی اُمید نہیں تھی کہ ان کا یہ ناول یہ اعزاز حاصل کرے گا۔ ہم ہر ایک دن اور اپنی دنیا کے مختلف کونوں میں خوشی تلاش کرتے ہیں۔ لیکن آج میں نے حقیقی خوشی محسوس کی ہے۔ میں نے یہ ناول 2014 میں لکھا تھا اور آج اسے تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
شمس الرحمن فاروقی نعمت خانہ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ایسا ناول اُردو تو اُردو انگریزی زُبان میں بھی نہیں لکھا گیا۔‘‘
ناول کا مرکزی کردار حفیظ الدین بابر عرف گڈو میاں ہے۔ ناول کے آغاز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گڈو میاں مشترکہ خاندان کے ساتھ ایک پرانے اور خستہ حال مکان میں رہتا ہے۔ اسی گھر میں  اس کے دور اور نزدیک کے بے شمار رشتہ دار ایک ساتھ سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گڈو میاں انٹر میڈیٹ تک تعلیم اسی چھوٹے سے شہر سے حاصل کرتا ہے، پھر وہ اعلا تعلیم کے لیے بڑے شہر منتقل ہو جاتا ہے جہاں کی جامعہ سے وہ وکیل بن کر نکلتا ہے۔ ناول کے اختتام میں وہ سسرال کی طرف سے دیے گئے ایک فلیٹ میں اپنی دشمن نما بیوی انجم اور دو بیٹوں کے ساتھ سکونت اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ خاندان شُتر بے مہار ہے، سب اپنی اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ بیوی تو اُس کی سخت حریف ہے لیکن اُس کے [بچے] شدید مذہبی ہونے کے باوجود بھی گُستاخ ہیں اور باپ کی ہر بات سے اختلاف رکھتے ہیں اور وہ اس قدر خود غرض ہیں کہ جب باپ اُن کے کہنے پر اپنا موروثی گھر بیچنے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ ماں کے سامنے ہی باورچی خانے میں اپنے باپ کا قتل کر دیتے ہیں۔
گڈو میاں کو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جن خواتین نے متاثر کیا ہے، اتفاق سے اُن تمام کے نام انجم ہیں، انجم باجی، انجم آپا، انجم بانو، انجم جان، اور اس کی بیوی انجم۔ انجم باجی گڈو میاں کی کزن ہے اور انجم آپا اس کی محلے دار۔ وہ دونوں کو پسند کرتا ہے اور ان کے لیے ہمدری اور غیر پاکیزہ جذبات رکھتا ہے اور اپنے ذہن میں اُن کے برہنہ جسموں کے تخیلاتی اسکیچ بناتا ہے۔ پھر وہ انھی دونوں سے منسلک دو مردوں کا پچپن میں ہی پلاننگ کے ساتھ قتل کر دیتا ہے اور یہ وارداتیں وہ باورچی خانے میں ہی انجام دیتا ہے اور کم عمر ہونے کی وجہ سے کوئی اس پر شک بھی نہیں کرتا۔
مصنف فلسفی انداز میں بھوک و افلاس کی منظر نگاری کرتا ہے، وہ موت و زیست کے مسائل کو زیر بحث لاتا ہے، وہ گہری بصیرت سے نادیدہ حقیقتوں کی پردہ کشائی کرتا ہے، وہ بعض گھٹیا پن پر اُترے ہوئے کرداروں سے واقفیت کرواتا ہے۔ یہ ایسے کردار ہیں جو ہر کسی کی زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں یا تو آ چکے ہوتے ہیں یا آنے کو ہیں۔
نعمت خانہ بھوک کی تصوراتی دنیا ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ اس ناول میں دو طرح کی بھوک کا ذکر ملتا ہے۔ ایک بھوک وہ ہے جس سے غریب و متوسط طبقے کے افراد نبردآزما رہتے ہیں۔ یہ وہ بھوک ہے جس کو مٹانے کے لیے منہ سے نوالے حلق میں اُتارے جاتے ہیں جو معدے سے ہوتے ہوئے انتڑیوں تک پہنچتے ہیں اور فضلے کی صورت میں خارج ہو جاتے ہیں۔ اس بھوک کو مٹانے کے لیے انسان پیدائش سے لے کر موت تک جہد مسلسل میں رہتا ہے اور جب تک لحد میں نہیں اُتر جاتا یہ بھوک قائم رہتی ہے۔ اس بھوک کو مٹانے کے لیے انسان ہر حد کو پار کر جاتا ہے، وہ ایسا حربہ بھی استعمال کرنے سے گُریز نہیں کرتا جسے معاشرے میں جُرم تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری بھوک وہ ہے جس کا تعلق معدے سے تو نہیں لیکن اس سے حاصل ہونے والی ایسی قوت سے ہے جو انسان میں جنسی ہوس ابھارتی ہے۔ مصنف نے بہترین انداز میں یہ باور کروایا ہے کہ جنسی خواہش انسانوں کی مضبوط ترین خواہشوں میں سے ایک ہے۔ بھوک کی اس قسم میں مصنف جنسی خواہشات اور اس کے ردعمل کو واقعات کا روپ دے کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ پیٹ کی بھوک اور نفسانی بھوک دونوں ایسی حقیقتیں ہیں کہ جس کی وجہ سے معاشرت میں ایسے اُتار چڑھاو پیدا یوتے ہیں جن کے اثرات دیر تک قائم رہتے ہیں۔
ناول سے لیا گیا ایک اقتباس مرکزی خیال کا احاطہ کچھ یوں کرتا ہے، ملاحطہ فرمائیں: ’’کاش کھانے نہ ہوتے، تب شائد دنیا میں خالص محبت کا وجود ہوتا مگر کمبخت کھانے، جو باورچی خانے میں تیار ہوتے ہیں اور باورچی خانہ جو گھر کا سب سے خطرناک مقام ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھانے جو جنسی شہوت بڑھاتے ہیں، آدم اور حوا کو بہکاتے ہیں اور حبوطِ آدم کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
اس ایک اقتباس میں ناول کا تمام تر نچوڑ موجود ہے۔ اسی میں بھوک، افلاس اور باورچی خانے کا مشترک خلاصہ پنہاں ہے۔ مصنف باورچی خانے کو گھر کا سب سے خطرناک حصہ قرار دیتا ہے۔ اسی اقتباس میں وہ آدم و حوا کے قصے کو بھی اس انداز میں بیان کر جاتا ہے کہ مختصر ترین جملہ ہونے کے باوجود سارا قصہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
بہرصورت یہ دنیائے ادب کا بہترین ناول ہے۔ ڈاکٹرخالد جاوید اس کامیاب اور متاثرکُن تخلیق پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کہانی عام ہے لیکن اِسے جس انداز میں کہا گیا ہے وہ سراہنے کے قابل ہے۔ اس میں جو تشبہیات، استعارات، اور تمثیلات استعمال کی گئی ہیں وہ ایک ماہر اُردودان ہی کر سکتا ہے۔
( 4 جون 2023) ***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے