نہایت خاموشی سے دنیا چھوڑ گئے ارتضیٰ نشاط

نہایت خاموشی سے دنیا چھوڑ گئے ارتضیٰ نشاط

جبیں نازاں، نئی دہلی
رابطہ: jabeennazan2015@gmail.com

کہنہ مشق شاعر ارتضیٰ نشاط ایک عہد ایک دبستان کا درجہ رکھتے تھے. ان کی پیدائش15/ اکتوبر 1938ء اترپردیش کے مردم خیز شہر بدایوں کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی. ان کے دادا جان مسکین حسین مسکین بدایونی ایک معروف شاعر تھے، پردادا خادم حسین بدایونی بلند پایہ شاعر گزرے ہیں۔ ان کا شمار ذوق دہلوی کے شاگردوں میں ہوتا ہے. ارتضیٰ نشاط کے والد رضا حسین شاہد بدایونی اپنے عہد کے معروف شاعر تھے. آل انڈیا ریڈیو ممبئی میں پروگرام پروڈیوسر کے منصب پرفائز رہ چکے ہیں.
چوں کہ ارتضیٰ نشاط کا گھرانا خالص ادبی تھا، بچپن سے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں علم و ادب کا ماحول پایا، اس ماحول کا اثر ارتضیٰ بھی قبول کرنے لگے.
ابتدائی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی. ہائی اسکول انھوں نے انجمن ہائی اسکول ممبئی سے کیا، گریجویشن مہاراشٹر کالج سے کیا، میٹرک کے بعد سے ہی شاعری کرنے لگے، بلکہ شعر و شاعری میں اس قدر رم گئے کہ تعلیم متاثر ہونے لگی. اپنے والد کی ہدایت پر تعلیم کی طرف نہایت یکسوئی سے متوجہ ہوئے اور امتیازی نمبروں سے امتحانات پاس کرنے لگے. اس درمیان 1957ء میونسپل کارپوریشن کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی. 1987ء میں سبک دوش ہوئے.
مہاراشٹرا اردو اکادمی کی جانب سے اسی سال مشاعرہ منعقد ہوا‌، اس مشاعرے میں ظ انصاری بھی مدعو تھے، جو اردو ادب میں ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے، انھوں نے ارتضیٰ نشاط کو روزنامہ انقلاب میں لکھنے کی دعوت دی، یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتی ہوں کو اس زمانے میں روزنامہ "انقلاب" ممبئی سے نکلا کرتا تھا اور ظ انصاری اس کے مدیر ہوا کرتے تھے. ارتضیٰ نشاط نے ان کی پیش کش معقول اجرت پر قبول کرلیں.
تقریباً 35/36 سال بلا ناغہ اداراتی صفحہ پر الف، نون کے قلمی نام سے قطعہ  لکھتے رہے.
اس درمیان ان کی طبیعت تراجم کی طرف مائل ہوئی. عمر خیام‌کی رباعی کا اردو ترجمہ، مراٹھی شاعر سریش بھٹ کی نعت شریف کا اردو ترجمہ کیا. ارتضیٰ نشاط 1970ء کے بعد ابھرنے والے شعرا میں ایک اہم نام ہے.
ارتضیٰ نشاط شعری مجالس سے لے کر رسائل و جرائد ہر جگہ موجودگی درج کرواتے رہے. ان کا پہلا شعری مجموعہ 1981ء میں ریت کی رسی کے نام سے منظر عام پرآیا.
ادبی حلقوں میں پہلے مجموعہ کو کافی پذیرائی ہوئی. دوسرا شعری مجموعہ تکذبان 2011 ء، کہرام 2012ء، واقعی2016ء تواتر کے ساتھ شائع ہوئے.
ارتضیٰ نشاط کے فن شاعری کے متعلق چند اعلا پایے کے ناقدین ادب کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں.
بہت ہی کم عرصہ میں ارتضیٰ نشاط نے ہندو پاک میں اپنی شاعری کا جلوہ بکھیر دیا۔ وارث علوی نے انھیں اردو ادب کا شاہ حاتم کہا۔ سکندر احمد نے امراء القیس کے لقب سے یاد کیا۔ مولانا انجم فوقی بدایونی نے شاعر آتش ندا کہا۔ آوارہ سلطان پوری نے سیاسی اور سماجی طنز کا صورت گر سمجھا۔ فضیل جعفری نے ارتضیٰ نشاط کی شاعری کو زندہ انسان کی شاعری بتایا۔ عبدالاحد ساز نے چلتی پھرتی رصد گاہِ خیال کہا۔ پرویز یداللہ مہدی نے دیٹ مین فرام استنبول کہا۔ انور خان نے برہنہ اسلوب کا شاعر کہا۔تنویر عالم جلگاؤنی نے شعری صلاحیتوں کا مستحکم اسلوب کہا۔ نظام الدین نظام نے زندگی کے مسائل کا شاعر کہا۔ جاوید ناصر نے زیر لب بلند آگہی کی تہہ نشین گونج کہا۔ اعجاز ہندی نےHorrible Expression کا شاعر کہا۔ خلیق الزماں نصرت نے ان کے اشعار کو شوکیس میں سجانے کی بات کہی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے سچے اور محسوس تجربے کا شاعر کہا۔ ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی نے اردو کا لافانی صحیفہ نگار کہا۔ رفیق جعفر نے ان کی شاعری کو خاموش طوفان بتایا۔ پروفیسر الیاس شوقی نے دبا دبا سا باغیانہ رویہ کہا اور ڈاکٹر قمر صدیقی نے گم ہوتی ہوئی انسانی رشتوں کا شعری اسلوب کہا. میں ہر اک دور ہر اک عہد میں زندہ ہوں نشاطؔ
سب سمجھتے ہیں مجھے اپنے زمانے والا
ارتضیٰ نشاط تقریباً پچھلی 6؍ دہائیوں تک مسلسل شاعری کرتے رہے ہیں لیکن انھوں نے کبھی ستائش کی تمنا صلے کی پرواہ نہیں کی اور نہ نام نہاد شعرا کی مانند کوئی حربہ آزمایا اور نہ ہی کسی دربار میں کاسہ لیسی کی، نہ مدیران کو خوشامدی خطوط لکھے اور نہ ہی سفارشی حوالوں کا استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہوئے بھی سستی شہرت کی دہلیز عبور نہیں کرسکے. انھوں نے ان برسوں میں جو مقام حاصل کیا وہ ان کی مستقل جدوجہد لگن و جستجو اور ریاضت کا نتیجہ ہے.
بے حسی کا سوچ کا غم بن گیا
گفتگو میں شعر موسم بن گیا
سن لیا نوحہ مری تنہائی کا
چاند پگھلا اور شبنم بن گیا
اگر گزر ہو اداسی کے جنگلوں سے کبھی
کوئی پہاڑ مرا مقبرہ سمجھ لینا
کسی سے مت ملو بیٹھے رہو دیکھو دریچے سے
غبار آلود دل سے دھند اچھی کہساروں کی
تیشہ زنگ آلود پرانا لگتا ہے
مشکل جوئے شیر کا لانا لگتا ہے
اپنے ہنر کے ساتھ وفادار میں ہی ہوں
گہرائیوں میں فن کی گہر بار میں ہی ہوں
مرے ادراک سے باہر نہیں کچھ
میں شاعر ہوں حدود و ہوش میں ہوں
دیے کی لَو میں تمہی نے گِرہ لگائی نشاطؔ
کہ شعر شعر میں باندھے ہیں بات بات کے رنگ
محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابر گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے
فسادی شرپسندوں میں کتابیں بانٹ دی جائیں
کہ ملبے سے کسی بچے کا اک بستہ نکلتا ہے
جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو
گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے
سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں
سورۂ والعصر ہے قرآن میں
مجھ سے زیادہ کون ہے نقصان میں
اوران کے یہ دو شعر تو عالمی سطح پر گونج رہے ہیں؎
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
اور
شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے
خود ارتضیٰ نشاط اپنے تعلق سے کیا کہتے ہیں ملاحظہ کیجئے؎
اپنی جگہ ادب میں بنالے گا ارتضیٰ
یہ ایک بات اس کے مقدر میں خاص ہے
ارتضیٰ نشاط طویل عرصے صاحب فراش تھے، ممبرا (ممبئ) میں گزشتہ 22/اگست 2023ء رحلت فرما گئے. جنازہ قسمت کالونی، کوسہ ممبرا سے نکلا، اور ایم ایم ویلی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.
سوشل سائٹ پر وفات کی خبر شام تک گردش کرتی رہی لیکن 23/ اگست کی صبح کسی اخبار میں ان کے انتقال کی خبر شائع نہیں ہوئی. حتیٰ کہ روزنامہ "انقلاب" میں بھی نہیں، یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے. شاید‌ پورا ہندستان 6 بجے کے بعدچندریان کی شاندارکامیابی پر جشن منانے میں اس قدر مشغول ہوا جیسے کہ سب چاند پر جا پہنچے ہوں، اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ زمین پر ایک بے ضرر سا شاعر نہایت خاموشی سے زمین کو الوداع کہہ گیا.
***
جبیں نازاں کی گذشتہ نگارش:پلکوں پہ خواب اس کو سجانے نہیں دیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے