پروفیسر احمد حسن دانش: کچھ یادیں، کچھ باتیں

پروفیسر احمد حسن دانش: کچھ یادیں، کچھ باتیں

طیب فرقانی

دس فروری 2020 کو ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی. یہ ملاقات بہت طویل اور تفصیلی نہیں تھی لیکن پروفیسر احمد حسن دانش کی شخصیت کا اثر گہرا تھا. بہادر گنج (کشن گنج، بہار) میں سہیل عظیم آبادی کی شخصیت و فن پر ایک سیمینار تھا. میں بھی مقالہ نگاروں میں شامل تھا، میزبان کے علاوہ میری کسی سے بھی شناسائی نہیں تھی، اس لیے میں لیے دیے رہا.
اس سیمینار میں احمد حسن دانش مرحوم کو پہلی بار دیکھا، ملا اور متاثر ہوا. وہ جب ڈائس پر تشریف لائے تو زیادہ وقت سیمانچل اور اس کی مٹی کی خوش بو بکھیرتے رہے. اور جب وہ اپنے بزرگوں کا تذکرہ کرتے تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں، آواز میں لرزش پیدا ہوجاتی. وہ صدر محفل تھے اور میں نے دیکھا کہ ایک دوسرا بوڑھا شخص احسان قاسمی بھی انھیں استاد محترم کے لقب سے نواز رہا ہے اور سبھی ان کا احترام کر رہے ہیں. در اصل وہ سایہ دار اور ثمر دار درخت کی مانند تھے. میرے مقالے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے. خیر خبر پوچھی، جس میں نہ پروفیسرانہ آن بان تھی نہ ہی مصنفانہ شان. شاید میں اپنے مافی الضمیر کو ٹھیک سے ادا نہیں کر پارہا ہوں. میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ نہایت خلیق، رقیق القلب، منکسرالمزاج اور سادہ دل شخصیت کے مالک کی حیثیت سے مجھے متاثر کر گئے. اس محفل میں ان کی صاحب زادی کہکشاں دانش بھی ساتھ تھیں، "ڈاکٹر اختر اورینوی کی فکشن نگاری"کے عنوان سے ان کی کتاب کا اجرا بھی عمل میں آیا تھا.
شام کو میں جب اپنے مستقر پر واپس آیا تو ایک مختصر فیس بک پوسٹ لکھی جس کا عنوان تھا سیمانچل کے تین بوڑھے اور تین نوجوان. اس میں احمد دانش، احسان قاسمی اور حازم حسان کا ذکر کیا. میں نے پہلی ملاقات میں انھیں جیسا پایا چند جملوں میں اس کا اظہار کیا. یہ تحریر جہانگیر نایاب نے غالباً انھیں پڑھ کر سنائی. انھیں پسند آئی، تو انھوں نے خود مجھے فون کیا، سراہا اور دعائیں دیں. وہ جدید ذرائع ابلاغ مثلاً سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے تھے.
اسی سال اکتوبر میں اشتراک ڈاٹ کام کا آغاز ہوا، جس میں احسان قاسمی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے. واپسی میں انھوں نے مجھے پورنیہ آنے کی دعوت دی. 6/ دسمبر 2020 کو میں پورنیہ گیا. احسان قاسمی کے دولت کدے پر حاضری ہوئی. وہاں جا کر پتا چلا کہ میری آمد کے سلسلے میں ایک چھوٹی سی شعری نشست کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں احمد حسن دانش اور اصغر راز فاطمی بھی شریک ہوں گے. پورنیہ شہر اور قرب و جوار کے تین چار نوجوان شعرا جن میں رضوان ندوی، سلیم شوق پورنوی اور شاداب وفا پورنوی شامل ہیں، بھی شریک محفل ہوئے. مجھ جیسے غریب الوطن، غیر معروف اور معمولی شخص کے لیے اس اہتمام کا ہونا اور پروفیسر احمد حسن دانش اور اصغر راز فاطمی کا شرکت کرنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا. احمد حسن دانش کی صدارت میں یہ محفل منعقد ہوئی اور جب میں پورنیہ سے بس میں سوار ہوکر کانکی کے لیے نکلا تو ان حضرات کی محبت و شفقت اور سادگی کے اثر سے دل لبریز تھا. خیال کیا جاسکتا ہے کہ سبک دوش خالی لوگوں کا اکٹھا ہونا کس طرح غیر معمولی واقعہ ہوسکتا ہے. مگر جان کر حیرت ہوگی کہ پروفیسر موصوف اپنی عمر کے آخری پڑاؤ تک تصنیف و تالیف اور تحقیق و ترجمے سے منسلک رہے اور میری ان سے اس دوسری ملاقات کے بعد بھی ان کی کتابوں کی اشاعت کی خبریں آئیں. وہ قریب ایک درجن کتب کے مصنف تھے اور بہار میں اردو مثنوی پر ان کا تحقیقی کام معتبر حوالے کا درجہ رکھتا ہے. ان کی نگرانی میں بیسیوں تحقیقی مقالے لکھے گئے اور سیمانچل میں فارسی اور اردو ادبا و شعرا کو منظر عام پر لایا گیا. انھوں نے سیمانچل کے علمی خزینے اور دفینے کو پایاب و دست یاب کرایا.
3/اپریل 2021 کو میری ان سے تیسری ملاقات بہادر گنج میں ہوئی. جھارکھنڈ میں قیام پذیر بہار کے معتبر شاعر خورشید طلب کے تیسرے شعری مجموعہ "شفق زار" کا اجرا تھا. ہمیں اظہار خیال کے لیے پہلے سے اطلاع تھی. جہانگیر نایاب کے دولت کدے پر مہمان خانے میں ہم چار (احمد حسن دانش، احسان قاسمی، اصغر راز فاطمی اور میں) کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے. یہ گفتگو ادب پر زیادہ تھی، کچھ میرے وطن مظفرپور اور وہاں کی بزرگ شخصیات پر بھی ہوئی. احمد حسن دانش نے مظفرپور بہار یونی ورسٹی سے اعلا تعلیم حاصل کی تھی اس لیے وہاں اور وہاں کی علمی و ادبی شخصیات سے ان کی واقفیت کا اظہار بھی ہوتا رہا. ایک بات ان کی مجھے خاص طور سے یاد ہے. انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ لکھنے سے اچھا ہے کام کی باتیں لکھنا. یعنی مقدار سے زیادہ ضروری ہے معیار. انھوں نے بہار کے ہی ایک صاحب تصانیف کثیرہ شخص کا تذکرہ کیا اور ان کی کثرت تصنیف کی وجوہات پر روشنی ڈالی. میں نے عمداً ان صاحب کا نام نہیں لکھا کیوں کہ اب وہ بھی مرحوم ہوچکے ہیں.
بعد کے دنوں میں پروفیسر احمد حسن دانش کی علالت کی خبریں احسان قاسمی کے توسط آتی رہی تھیں. اس دوران ان سے ایک دو بار فون پر رسمی سی بات ہوئی تھی. ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا موبائل رہتا تھا. ان کا بایاں ہاتھ غالباً پولیو زدہ تھا. (اس تحریر کے لکھے جانے کے بعد احسان قاسمی نے اطلاع دی کہ انھیں پولیو نہیں بلکہ بچپن آگ سے جل جانے کا حادثہ پیش آیا تھا جو ان کے چہرے کو بھی متاثر کر گیا تھا) عموما کہا جاتا ہے کہ جس شخص میں کوئی جسمانی کجی یا عیب ہوتا ہے وہ نفسیاتی طور پر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی منفی گانٹھ پڑی رہتی ہے.
احمد حسن دانش نے اپنی اس شخصیت کو خیر کے پہلوؤں سے پر کردیا تھا. انھوں نے عیب کو حسن میں بدل دیا تھا. اور انھوں نے اپنی اولاد کو بھی تہذیب، شایستگی اور خیر کی تلقین کی. انھیں میں نے ہمیشہ سفید کرتا پاجامہ میں دیکھا. پاجامہ ڈھیلا ڈھالا پہنتے تھے. چہرے پر بنا مونچھوں کی مختصر سی سفید داڑھی پر رونق تھی. وہ مہذب اور مذہب پسند شخصیت کے مالک تھے.
ان سے میری آخری ملاقات 21 فروری 2022 کو منورہ ہائی اسکول، اتردیناج پور، مغربی بنگال میں ہوئی تھی.
اشتراک ڈاٹ کام کی سال گرہ کی تقریبات کے تعلق سے منعقدہ سیمینار، مشاعرہ، رسم رونمائی کتب اور کتاب میلہ میں وہ تشریف لائے تھے. یہاں بھی وہ صدر محفل تھے. کمر میں درد کی شدید شکایت کے باوجود وہ تشریف لائے اور پیٹی باندھ کر دن بھر بیٹھے رہے. یہاں نہ انھیں کوئی موٹا لفافہ ملنے والا تھا اور نہ ہی کوئی سرکاری تقریب تھی، بس علم و ادب کی للک اور شوق و محبت نے ان سے یہ مشقت اٹھوائی. بہت سی دعائیں دیں، اشتراک ڈاٹ کام کو وقت کی ضرورت قرار دیا، دوپہر کا کھانا کھایا اور بعد دوپہر مشاعرے میں بھی شریک رہے. اس موقعے کی تصاویر فیس بک پر بڑی تعداد میں لوگوں نے مشترک کی ہیں. ان کی ایک کتاب (سیمانچل کے اردو شعرا) کی رسم اجرا بھی عمل میں آئی اور ان کی شال پوشی کرکے ہم نے اپنی عزت افزائی کی.
دس جولائی 2023 کو یہ رقیق القلب محقق، نقاد، مصنف، محب علم و ادب اور اردو زبان، سماجی رہ نما، سیمانچل و بہار کا شجر سایہ دار، سایۂ خدا میں پہنچ گیا. حق مغفرت کرے. ان کے متعلقین کو ان کے علمی و ادبی ورثے کی حفاظت و صیانت اور آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:کتاب : مرشد آباد کا تاریخی و ادبی منظر نامہ

شیئر کیجیے

One thought on “پروفیسر احمد حسن دانش: کچھ یادیں، کچھ باتیں

  1. پروفیسر احمد حسن دانش صاحب کو عمدہ خراج عقیدت۔۔۔۔ کافی معلوماتی مضمون جس میں موصوف کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہیں ۔۔۔ محبت، اپنائیت اور مٹی سے گہرا لگاؤ یہ ایسے اوصاف ہیں جو انہیں ممتاز بناتے ہیں۔ ۔۔
    اللّٰہ ان کے درجات بلند فرمائے ۔آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے