خوش گوار ازدواجی زندگی کی ضمانت:  مرد کی دہری ذمے داری

خوش گوار ازدواجی زندگی کی ضمانت: مرد کی دہری ذمے داری

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی – این سی آر
Email: rahman20645@gmail.com

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھاری جنس سے تمہارے ليے جوڑے پیدا کيے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک، اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے ليے جو غور کرتے ہیں. (سورۃ الروم-30 :21)
قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں شوہر اور بیوی کی حیثیت میں زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے والے مرد و عورت کے لیے اپنی ازدواجی زندگی کو پرسکون اور خوش گوار بنانے کے ضمن میں زبردست رہ نمائی فراہم کی گئی ہے۔ اگر سبھی میاں بیوی آیتِ مذکورہ میں بیان کی گئی اِس حقیقت کو دل میں اتار لیں کہ خالقِ کائنات، اللہ رب العالمین نے انسانوں کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے سکون (repose) کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، دونوں کے فطری نہاں خانوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور رحمت کی نسیم و شمیم اور شیریں چشمے بھی جاری کردیے گئے ہیں تاکہ میاں بیوی کے درمیان الگ نوعیت کی عجیب و غریب کشش، خوشبو اور مٹھاس تا عمر باقی رہے، اور بڑھاپا بھی جوانی کی مانند گزرنے کے حالات پیدا ہو جائیں۔ اس کے علاوہ، النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي- الفاظ کی روشنی میں نکاح کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی اور تائید حاصل ہے۔ اس طرح شادی کے اسلامی طریقہ، یعنی نکاح کے توسط سے بننے والا میاں بیوی کا رشتہ مزید خیر و برکت سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔
انسانوں پر بے پایاں عنایات کے پس منظر میں، اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔ چوں کہ انسانی نسل کی افزائش و پرداخت کے لیے ایک جامع ادارہ درکار ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مرد اور ایک عورت کو بہ ذریعہ نکاح میاں بیوی کے رشتے میں منسلک کر کے اسی عظیم خاندانی ادارے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اس کی شادابی و دل فریبی کو بنائے رکھنے اور ادارے کے قیام کے مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے، دونوں لوگوں، یعنی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں پیار بھری ناقابل بیان کشش پیدا کردی ہے، کیوں کہ ایک ناتواں بچے کی بے لاگ پرورش کے لیے، میاں بیوی کے درمیان محبت کے ساتھ ساتھ، وفاداری کا ہونا اور ان کے رشتے کو ہمیشہ پرلطف و پرکشش بنے رہنا بھی نہایت ضروری ہے۔ انسانی فطرت میں اس جاذبیت و دل کشی کو بنائے رکھنے کا ربانی بندوبست کر دیا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر مرد و عورت اپنے فطری اوصاف کو بروئے کار لائیں، تو وہ تسکین بھری زندگی خود بھی جی سکتے ہیں اور انسانی معاشرے کو صالح اولاد کا تحفہ بھی عنایت کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ والدین کی شکل میں افزائشِ نسلِ انسانی کی بابت اللہ رب العالمین کے منصوبے (پلاننگ) کی کام یابی میں ایک قابل قدر کردار ادا کر سکتے ہیں، اور اپنے پروردگار کی شاباشی کے مستحق بھی ہوسکتے ہیں۔
لیکن معاشرے کا مشاہدہ اس کے برعکس تصویر پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور کے خاندانوں میں عام صورت حال، خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی نوعیت باغ باغ نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی فطرت میں مرد و عورت کے درمیان دل کشی اور جاذبیت کا تڑکا لگائے جانے کے باوجود ازواج (spouses) کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ عدم اطمینان کا شکار کیسے ہوسکتی ہے؟ دراصل، زیر نظر مضمون میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے اور پیدا شدہ مسائل کو حل کرنے کی علمی جدوجہد کی جارہی ہے۔
انسانی فطرت کی لاثانی تزئین اللہ رب العالمین کی اپنے بندوں کے لیے بے پناہ رحمت کا مظہر ہے۔ اسی پس منظر میں، مرد و عورت اللہ تعالیٰ کے تخلیقی شاہ کار ہیں (سورۃ التین-95 :4)، لیکن انسانی دنیا امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے، اور امتحانی مصلحت کا تقاضا ہے کہ زیر امتحان افراد کو ارادہ و اختیار کی آزادی میسر ہو۔ امتحان کی اسی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، حیوانی مخلوقات کے برعکس، اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا میں، تخلیقی اعتبار سے ارادہ اور اختیار کی آزادی کے ساتھ انسان کی پیدائش کا اہتمام کیا ہے۔ پروردگار کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسان کو نہ صرف اپنی فطرت کی رہ نمائی کے برعکس عمل کرنے کا ارادہ و اختیار حاصل ہے، بلکہ کائنات کی وسعتوں کو بھی اس کی زور آزمائی کے لیے مسخر (subservient) کردیا گیا ہے۔ انسانی شخصیت کا یہی وہ پہلو ہے جس کی رو سے وہ انسان تو کیا، خود اپنے رب کے سامنے بھی اس کی فرماں برداری کے بجائے سرکشی اختیار کرسکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں جو بگاڑ دکھائی دیتا ہے، اس کے اندر بھی انسان کو عطا کردہ ارادہ و اختیار کی آزادی کا غلط استعمال ہی کارفرما نظر آئے گا۔ تاریخِ انسانی میں نمرود و فرعون اسی نوعیت کی بڑی مثال ہیں۔
جب تک عورت اور مرد اپنی اپنی فطرت، نازل کردہ ربانی ہدایات اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشادات کا احترام کرتے رہتے ہیں، ان کی ازدواجی زندگی خوش گواری کی شاہ راہ پر دوڑتی رہتی ہے۔ جملہ گھریلو مسائل صرف اس وقت شروع ہوتے ہیں جب میاں بیوی اپنے ضمیر کی آواز (conscience) کو نظرانداز کرتے ہوئے، اپنی جبلتوں (instincts) کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی انا اور خواہش و جذبات کو تسکین دینے کے لیے، اپنے ارادہ و اختیار کا سوئے استعمال شروع کردیتے ہیں۔ یہی تشویش ناک صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔
خاندانوں (families) کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، کیوں کہ صحت مند اور باشعور انسانوں کی وقوع پذیری خاندان کے استحکام پر منحصر ہوتی ہے۔ حالاں کہ انسانی فطرت کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے پیش نظر اور فریقین کی زندگی کی سلامتی کے لیے، طلاق کا اصول بھی وضع کیا گیا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو جو بات پسند ہے، وہ یہ ہے کہ میاں بیوی حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ آخر وقت تک وہ ایک دوسرے کے ساتھی بنے رہیں۔ یہاں قرآن مجید سے ایک بیش قیمتی رہ نمائی نقل کی جاتی ہے.
تم پر لڑائی کا حکم ہوا ہے اور وہ تم کو گراں معلوم ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمھارے ليے بھلی ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے ليے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے.(سورۃ البقرہ۔2 :216)
حالاں کہ یہ آیت لوگوں کی جہاد فی سبیل اللہ میں شمولیت کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن یہی ربانی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے بھی درست ہے، یہاں تک کہ ازدواجی زندگی کو شاد و آباد اور میاں بیوی کے رشتہ کو محفوظ و مستحکم اور باوقار بنائے رکھنے کے لیے بھی۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی عیب جوئی اور غیر ضروری نکتہ چینی سے نہ صرف اجتناب کریں، بلکہ ایک دوسرے کی شخصیت میں خامیاں تلاش کرنے کے بجائے، کبھی کبھی، اپنے شفیق اور مہربان پروردگار کی مذکورہ آیت میں عنایت کی گئی ہدایت پر بھی غور کرلیا کریں کہ :
جو چیز تمھیں ناگوار نظر آتی ہو، ہوسکتا ہے وہی تمھارے لیے بھلی ہو۔ اللہ وہ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
انسانی سطح پر بھی ضروری ہے کہ خاندانوں کو بکھرنے سے بچانے کے لیے، عزیز و اقارب کے علاوہ معاشرے میں مصلحین، علماے دین اور دانشور حضرات آگے بڑھ کر لوگوں کو عملی نوعیت کی اصلاحات اور تقاریر و تحاریر کے توسط سے آسان اسلوب میں مثبت اور قابل عمل نصیحت و رہ نمائی فراہم کریں، اور غلط فہمیوں کے اندھیرے میں شاہ راہ سے اترگئی ازدواجی زندگی کی گاڑی کو واپس شاہ راہ پر لانے میں ان کی مدد کریں۔
ہندستان کے معروف قلم کار مفکر اور عالم دین، مولانا وحید الدین خاں (وفات-2021ء) نے ازدواجی زندگی کو خوب صورت اور کام یاب بنائے رکھنے کے لیے منفرد نوعیت کا لائحہ عمل تجویز کرتے ہوئے ایک با معنی مضمون تصنیف کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان بھی بہت دل چسپ ہے، یعنی "فارمولا آف تھرٹی سیکنڈ"۔
اس ضمن میں آگے بڑھنے سے قبل، یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کی نئی نسل کو علم و فکر و رہ نمائی کے اعتبار سے مولانا موصوف کی منفرد شخصیت سے متعارف کروایا جائے، تاکہ اپنی زندگی کے علمی و عملی سفر میں نوجوانوں کی خود اعتمادی (self confidence) کی سطح بلند رہے۔ بڑے بڑے کام کرنے کے لیے، بلند سطح کی خود اعتمادی نہایت ضروری ہے، جب کہ خود اعتمادی کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کے لیے مزید ضروری ہے مثبت ذہن سازی، صحیح علم اور واضح فکر و نظر کا حصول۔
بلا شبہ، مضمون نگاری کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ علم و فکر و آگہی کی روشنی میں معاشرے کو کچھ مثبت رہ نمائی فراہم کی جائے۔ جہاں تک مولانا کی شخصیت اور ان کی گراں قدر علمی و دانشورانہ خدمات کا تعلق ہے، وہ بذاتِ خود ‘رہ نمائی کا خزانہ` ہیں۔ ان کی زندگی کے کچھ خاص علمی و فکری پہلوؤں پر مختصر بات کرنا بھی نوجوانوں کے لیے ایک پوشیدہ خزانے کو منظر عام پر لا کر اس کے چشموں سے سیراب کرنے کے مترادف ہوگا۔
مولانا وحید الدین خاں نے اپنی ہمہ جہتی تصنیفات اور اپنا خاص ماہنامہ ‘الرسالہ` کے توسط سے ایک طویل عرصہ تک خاص و عام انسانوں، خصوصاً مسلمانوں کو ان کی دنیا و آخرت کے معاملات میں زبردست رہ نمائی فراہم کی ہے۔ آئے دن رونما ہونے والے، بہ ظاہر عام نوعیت کے واقعات میں بھی حکمت و دانش اور رہ نمائی کے متعدد پہلو دریافت کر لینا، مولانا (مرحوم) کا خصوصی وصف رہا ہے۔ ان کا انسانوں کے مابین پیدا ہوتے رہنے والے پیچیدہ اور مشکل سوالوں کے جوابات، اسلامی تعلیمات اور انسانی تجربات کی روشنی میں آسان اور دل فریب اسلوب میں تلاش کر لینا، گویا اللہ تعالیٰ کی ان پر خاص عنایات کی ایک نشانی تھا۔ اس لیے، ان کی تصنیفات کو مطالعہ میں شامل کر لینا، منزل مقصود کی جانب سفر کا ایک بڑا مرحلہ سر کرنے جیسا ہوگا۔
موقع و محل کی مناسبت سے یہاں کچھ مزید ضروری باتیں بیان کردینا بھی موزوں رہے گا۔ اپنے وطن عزیز کی آزادی کے بعد، ہندستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل کے پس منظر میں زبردست رہ نمائی درکار ہونے کے باوجود، مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد مولانا صاحب کے لائق و فائق ہونے کا فائدہ نہ اٹھا سکی۔ معاشرے میں موجود مولویوں کی گروہی عصبیت اور عوام کی تقلیدی ذہنیت نے ایک سائنس داں قسم کے دانشور عالم کی بیش قیمتی رہ نمائی سے مسلم قوم کو بڑے پیمانے پر محروم کردیا ہے۔ حالاں کہ آج مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر عصری اسلوب میں تصنیف کردہ ان کی دو سو سے زیادہ کتب کا علمی و فکری خزانہ کتابوں کی صورت میں موجود ہونے کے علاوہ، 45 سالوں پر محیط الرسالہ کے تمام شماروں کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
اس لیے قوم کی پرانی کوتاہیوں کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان، خاص طور پر اعلا تعلیم یافتہ نوجوان، ہر طرح کے مسلکی اور گروہی تعصبات سے پاک ہوکر، ان کی علمی و فکری میراث سے استفادہ حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ ان شاء اللہ، علم و آگہی کی طلب رکھنے والے افراد کا نہ صرف ذہنی افق وسیع ہوگا، بلکہ ان کی شخصیت بھی درخشاں اور منفرد نظر آنے لگے گی۔ مولانا کی ماہانہ میگزین -الرسالہ- نوجوانوں کی ذہن سازی کے لیے، ہمیشہ سے ایک شاہ کار سمجھی جاتی رہی ہے۔
‘فارمولا آف تھرٹی سیکنڈ` عنوان کے تحت تصنیف کیے گئے مضمون میں مولانا موصوف نے فطرت کے ایک اہم قانون کے حوالے سے یہ اہم رہ نمائی فراہم کی ہے کہ میاں بیوی کس طرح اپنے ازدواجی تعلقات کو خوش گوار بنائے رکھ سکتے ہیں اور کام یاب زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں واضح کیا گیا ہے کہ ہر منفی جذبہ، مثلا غصہ وغیره کا معاملہ یہ ہے کہ جب وه بھڑکتا ہے تو وه اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طور پر وه ایک حد کے اندر ہی رہتا ہے. حد سے آ گے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو بڑهاوا (boost) دیا جائے. چوں کہ بڑهاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے اور اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہو جائے گا. منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وه پیدا ہونے کے بعد "تهرٹی سیکنڈ" تک اوپر کی طرف جاتا ہے اور اس کے بعد اگر اس کو مزید بوسٹ نہ ملے تو وه فطری طور پر نیچے کی طرف آنے لگتا ہے۔ یقیناً، تیس سیکنڈ کے فارمولے کی اس دریافت (discovery) سے مشکل ترین مراحل بھی آسانی سے عبور کیے جاسکتے ہیں۔
مضمون میں انسانی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت (egotism) پسند ہوتا ہے، اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی (emotional)- اسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہو جاتا ہے. دونوں کے درمیان اس فطری فرق کو مٹایا تو نہیں جا سکتا، البتہ منظم ضرور کیا جاسکتا ہے. اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وه یہ کہ — جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہو جائے، اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کر لے. دونوں میں سے کوئی بھی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے. اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں.
بین الاقوامی سطح پر معروف علمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی سر زمین علی گڑھ میں مقیم اور ایک سابق سینیر بینک عہدے دار جناب ثروت علی خاں نے مولانا وحید الدین خاں کے مذکورہ مضمون کو پڑھ کر اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں، جنھیں کسی کمی/ بیشی کے بغیر یہاں نقل کیا جاتا ہے:
"میرے خیال میں اس مسئلے کا سب سے مناسب حل یہ ہے کہ جب مرد کی انا بھڑکے تو مرد چپ ہو جائے اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو بھی مرد ہی چُپ ہو جائے کیونکہ مرد کو تو چُپ کرنے کی صلاح دی جا سکتی ہے لیکن عورت کو یہ صلاح دینا مشکل ترین کام ہے."
غالباً، محترم ثروت صاحب نے اپنی بات کا اظہار از راہِ تفنن (amusement)کیا ہے۔ لیکن مجھے ان کے اس مشورہ کے اندر رہ نمائی کی زبردست روشنی (floodlight) نظر آرہی ہے، اور اس نفسیاتی اُجالے میں ازدواجی زندگی سے متعلق جھگڑوں کا ایک واضح اور یقینی حل بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ ہاں، بات کو آگے بڑھا کر مذکورہ نظریے کو قابل فہم اور قابلِ عمل بنانے کی سمت میں کچھ سنجیدہ کوشش کرنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔
حقیقتاً ازدواجی زندگی کے جھگڑے میاں بیوی کے درمیان کسی بڑے نصب العین کی عدم تکمیل کی وجہ سے رونما نہیں ہوتے ہیں، بلکہ جیسا کہ سطور بالا میں سمجھا گیا ہے، یہ صرف عورت کی جذباتیت اور مرد کی انانیت کے نفسیاتی جھگڑوں کی نمائش ہے۔ اول تو اعلا تعلیم یافتہ مرد و زن میں اس طرح کے جھگڑوں کا ہونا، گویا ان کے عقل و شعور پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسرے، انسانی کم زوریوں کے تحت کبھی کبھار جھگڑا ہو بھی جائے تو اس کو دیرپا نہیں ہونا چاہیے۔ گھر میں بچوں کی ولادت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد تو قطعی نہیں، کیوں کہ نئی نسل انسانی کی بے داغ پرورش اور تعلیم و تربیت کے بنیادی مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے ہی شادی شدہ جوڑے کے توسط سے خاندانی ادارے (Family Institution) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جہاں انسانی شخصیت کی دوسری بہت ساری ضروتوں کے علاوہ بچوں کو ماں باپ کے رشتے کی طرح دادا دادی، نانا نانی اور انھی رشتوں میں سے رونما ہونے والے بہت سارے دوسرے رشتوں کی اہمیت اور ان کے مقام و مرتبے کا ادراک حاصل کروانا بھی خاندان کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
وقتاً فوقتاً میاں بیوی کو اس حقیقت پر بھی غور کرتے رہنا چاہیے کہ شادی (نکاح) دو غیر محرم مرد و عورت کے درمیان محض جنسی تعلقات کو مذہبی اور معاشرتی قبولیت (religious and social sanctions)
حاصل ہوجانے کا نام نہیں ہے۔ بے شک، شادی شدہ زندگی میں جنسی محرکات کا بھی اہم کردار ہے، مگر ان کی حیثیت اضافی (additional) ہونی چاہیے، کلیدی(pivotal) نہیں، کیوں کہ ازواج کے درمیان جنسی آزادی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شادی کا بنیادی مقصد گویا اللہ تعالیٰ کی انسانی نسل کی افزائش کے لیے وضع کی گئی اسکیم میں ایک سنجیدہ کردار نبھانے کا عہد کرنا ہے۔
کبھی کبھی خاندانی ادارے کے قیام سے وابستہ عوامل کے متعلق آپس میں گفتگو کرتے رہنے سے ازدواجی زندگی کے درست طور پر چلتے رہنے کی امید بنی رہتی ہے۔ اس ضمن میں اس حقیقت پر غور و فکر کرتے رہنا بھی نہایت مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی کی ضد یا ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دینے کی خاطر معصوم بچوں کے حال اور مستقبل کو برباد نہ کر دیا جائے۔ گھر میں اس طرح کی گفتگو کا ہوتے رہنا، خوش آئند نتائج کا سبب ہو سکتا ہے۔ یہ ماحول نہ صرف میاں بیوی کے درمیان سکون و آسودگی کو بڑھائے گا، بلکہ بچوں کو بھی عظیم انسان بننے میں مدد کرے گا۔ اسی کے ساتھ، محلے اور بستی میں بھی لوگ اس خاندان کو مزید عزت کی نظروں سے دیکھنے لگیں گے۔
اس علمی و فکری مباحثہ کے بعد مضمون کا تقاضا ہے کہ عورت کی جذباتیت اور مرد کی انانیت کو ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بنایا جائے۔ مولانا مرحوم کی نصیحت کے مطابق جب کسی بھی وجہ سے مرد کی انا بھڑک اٹھے تو عورت کو چاہیے کہ وہ صرف تیس سیکنڈ کے لیے خود کو ردعمل ظاہر کرنے سے روک لے، جب کہ ثروت صاحب کا مشورہ ہے کہ یہ ذمے داری بھی مرد کو ہی قبول کرنی چاہیے، عورت کو نصیحت کرنا بھی بہ ذات خود ایک مشکل کام ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب بھی عورت کے جذبات بھڑکیں، مرد خاموش ہو جائے اور جب مرد کی انانیت زور پکڑے، تب مرد کو ہی یہ بات یاد آجانی چاہیے کہ اس مرتبہ بھی رکے رہنے کی ذمے داری اسی کی ہے۔ حالاں کہ یہ دوسری ذمے داری اُٹھا لینا بھی قابل عمل ہے، لیکن شروعاتی مراحل میں غلطی کا امکان بنا رہے گا۔ کوتاہی کی صورت میں سَوری(sorry) کہنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، تاکہ حالات و معاملات کی ہم آہنگی بگڑنے نہ پائے۔
مرد کو دوہری ذمے داری (double responsibility) دے دینا کہیں اس کے ساتھ زیادتی کا عمل تو نہیں ہوگا؟
اس بات کو یوں نہ دیکھ کر اس طرح دیکھنا چاہیے کہ یہ تجویز ناقابل عمل تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کے پیش نظر، آدمی دوسری ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اس ذمے داری کو بھی بہ خوبی نبھا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جو لوگ کہ خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں۔ وہ غصہ کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے. (سورہ آل عمران-3: 134)
یعنی ایک مرد نہ صرف اپنے غصہ کو پی سکتا ہے، بلکہ لوگوں کے ساتھ درگزر کا معاملہ بھی کرسکتا ہے۔ انسان کو حاصل یہ دونوں خصوصیات، خواہشات و جذبات اور انانیت جیسے منھ زور عوامل پر قابو پانے کی صلاحیت کے مترادف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گھر سے باہر کی دنیا میں پیدا ہونے والی چُنوتیوں (چیلنج) سے نبردآزما ہونے کے لیے، مردوں کو پہلے ہی ضروری قوت، حوصلہ اور سوجھ بوجھ سے آراستہ کردیا ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی جس آیت (نمبر 183) میں روزوں کو فرض کیے جانے کا ذکر ہے، اس کے آخری الفاظ ہیں- لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ)- ان الفاظ کی مزید تشریح قرآن پاک کے محقق اور مدبر، استاذ جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی تفسیر (البیان) میں کچھ اس طرح کی ہے:
حدودِ الٰہی کی پابندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر جذبات اور خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرے اور یہ صلاحیت اگر غور کیجیے تو فی الواقع اللہ کے ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر اگر میاں بیوی اپنے پروردگار کی بڑائی اور کبریائی میں جینے لگیں تو ان کے لیے اپنی انانیت اور جذباتیت کو قابو میں رکھنا قدرے سہل ہو جائے گا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کی حکمت کے زیر اثر خاندان کے ادارے کو بنانے، سنوارنے، چلانے اور معاشی و اقتصادی طور پر مستحکم اور محفوظ رکھنے کی پوری ذمے داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ آدمی بھی ایک خود کار نظام (automatic system) کی طرح اپنی فطرت کے رنگ میں لڑکی والوں کے گھر شادی کا پیغام بھیجنے سے لے کر کپڑے اور زیورات کی فراہمی، نکاح کی تقریب، چھوہارے، مہرکی رقم، ولیمہ اور دوسری متعدد ضیافتوں کے علاوہ دلہن کے لیے گھر اور گھر چلانے کے لیے ملازمت یا کاروبار کا مستقل بندوبست کرنے جیسے ہزاروں کام خود ہی خوشی خوشی کر ڈالتا ہے۔ اس طرح، تیس سیکنڈ تک اپنے غصے اور انانیت کو قابو میں رکھنے کی مزید ذمے داری، مضبوط ارادہ و اختیار کی روشنی میں، مرد کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہونی چاہیے۔ بے شک صرف اتنا کام مزید کرنے کے بعد وہ اپنے گھر میں جنت کی میٹھی اور خوش بو دار ہواؤں کے لمس محسوس کرنے لگے گا۔ اپنی ایگو (انا) کو دبا کر جب ایک مرد عورت کے جذبات کو بھڑکنے سے بچاتا ہے تو گویا وہ یک طرفہ خیر خواہی کا کوئی معاملہ کررہا ہوتا ہے۔ یک طرفہ خیر خواہی کے معاملات اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ اسلام نہ صرف یک طرفہ خیر خواہی اور حُسنِ سلوک کی رغبت دلاتا ہے، بلکہ اس فعل سے خوش آئند نتائج برآمد ہونے کی خوش خبری بھی سناتا ہے. (سورہ فصلت-41: 34)
خیر کے کاموں کو یک طرفہ طور پر انجام دینا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے۔ اس کام کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کرنے والی چیزوں کو اپنی سوچ (Thinking) میں داخل کیا جائے۔ سوچ، غور و خوض اور تفکر ایسے دماغی عوامل ہیں جو انسان کی پوری شخصیت کو ہمیشہ اپنے تابع رکھتے ہیں۔ نکاح کے ساتھ ہی اگر میاں بیوی خلوص دل سے ایک دوسرے کو اپنی ‘کائنات` تصور کرلیں اور ہر شے سے عزیز تر، تو قوی امید ہے کہ عورت کی جذباتیت اور مرد کی انانیت معمولی معمولی باتوں پر بھڑکنے کی گستاخی نہیں کریں گی۔
اللہ تعالیٰ کی پلاننگ میں، شادی شدہ زندگی سے متعلق گھر چلانے کی بابت ذمے داری کےطور پر عورت کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے؛ گو کہ گھر کی فلاح و بہبود کو نظر میں رکھتے ہوئے وہ اپنی رغبت سے جو چاہے کام اپنے ذمے لے سکتی ہے۔ عملی طور پر معاشرے میں عورتوں کو خوشی خوشی گھر سنبھالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بچوں کے علاوہ اپنے شوہروں کو سنبھالنے میں بھی انھیں ملکہ حاصل ہے۔ گھر کے ساتھ ساتھ، بیشتر عورتیں مختلف صورتوں میں اپنے شوہر کے کاروبار یا ملازمت سے متعلق سرگرمیوں میں بھی خوب معاونت کرتی ہوئی نظر آجاتی ہیں۔ مضمون ہذا میں مرد و عورت کے تعلق سے جتنے بھی معاملات اور واقعات بیان کیے گئے ہیں، سب کی نوعیت عمومی تجربات و مشاہدات پر مبنی ہے، اور یہاں کسی قسم کی استثنیات (exceptions) کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔
دراصل جو کام تخلیقی طور پر، عورت کی فطرت (nature) اور اس کی شخصیت (personality) سے وابستہ کیا گیا ہے، اس کی اہمیت (importance) کے مقابلے میں مرد سے منسوب بہ ظاہر بہت ساری ذمے داریوں کا طول و عرض بھی چھوٹا لگنے لگتا ہے۔ شوہر کو اپنی دل فریب اور نرم و نازک صحبت میں صبح و شام مستقل مشاورت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اشتراک سے دنیا میں نئی نسل کی آمد کا اہتمام کرنے اور ولادت کے بعد ناتواں بچوں کی بہترین پرورش، نگہہ داشت اور تعلیم و تربیت کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے سے متعلق بڑے بڑے سارے کام بیوی سے ہی وابستہ رہتے ہیں۔ بیوی کی والہانہ اور مخلصانہ مشاورت کا مسلسل دستیاب رہنا، گویا آدمی کی خوش بختی کی علامت ہے؛ کیوں کہ یہ وہ چیز ہے جو دونوں لوگوں کے ذہنی ارتقا
(evolution of the intellect) کے سلسلے کو زندہ و جاوید رکھتی ہے، اور نتیجے کے اعتبار سے میاں بیوی کے جوڑے کو ہشاش بشاش اور حوصلہ مند۔
حقیقتاً بہترین رفیقہ یا رفیقِ حیات (life partner) وہ ہوتا ہے جو ذہنی اور فکری سطح پر بھی آپ کو سچی رفاقت (intellectual companionship)
فراہم کرسکے۔ بلاشبہ، ایسے گھر قابل رشک ہوتے ہیں جہاں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی صحبت میں یہ رشتہ (intellectual partnership) میسر آجائے۔
عورت کی انھی غیر معمولی خصوصیات کے پیش نظر، معاشرے میں لوگوں کو خطاب کرتے وقت عورتوں کو ‘خواتین و حضرات` (Ladies and Gentlemen) یا ‘لیڈیز فرسٹ` (Ladies first) جیسے تکریمی اسلوب میں ترجیحی فِقرات کا استعمال بے سبب نظر نہیں آئےگا۔ اردو زبان کے مشہور شاعر، غالباً مولانا الطاف حسین حالی نے بھی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں یعنی عورتوں کے بلند مقام کو واضح کرنے والی ایک خوب صورت نظم لکھی ہے، یہاں جس کا ایک مصرع ہی پوری نظم کا خلاصہ بیان کرنے کے لیے کافی ہوگا:
تم ہو تو غربت ہے وطن، تم بن ہے ویرانہ چمن
(عورتوں کی موجودگی غربت، یعنی پردیس کو بھی وطن کی مانند بنا دیتی ہے، جب کہ ان کے بغیر چمن، یعنی وطن بھی ویران نظر آتا ہے)
(18.08.2023 AD=30.01.1445 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:مقابلے کی صحیح نوعیت: خود احتسابی کا عمل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے