کتاب : لمس آشنائی (افسانوی مجموعہ)

کتاب : لمس آشنائی (افسانوی مجموعہ)

تبصرہ نگار: انگبین عُروج

زیرِ نظر افسانوی مجموعہ "لمسِ آشنائی" ادبی حلقوں میں اپنے شعری مجموعہ "عشقم" سے خاطرخواہ پذیرائی حاصل کرنے والی ہمہ جہت مُصنفہ، شاعرہ و افسانہ نگار محترمہ فرح ناز فرح کی دوسری تصنیف ہے۔ جہاں فرح ناز صاحبہ کی شاعری میں حساسیت کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے، وہیں قاری ان کی نثر نگاری کا مطالعہ کرتے ہوئے جذبات و کیفیات کے ایک سمندر میں خود کو غوطہ زن محسوس کرتا ہے۔
افسانہ نگاری اور کہانی نویسی کے مابین ایک معمولی سا فرق ہے جسے اکثر افسانہ نگار ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ لیکن مختصر پیرایے میں جامع اسلوب اپناتے ہوئے اصلاح کرنے کا یہ فن محترمہ فرح ناز صاحبہ نے بہ خوبی نبھایا۔
میں بذاتِ خود محترمہ فرح ناز کے اسلوب سے واقفیت نہیں رکھتی تھی لیکن "لمسِ آشنائی" کا مطالعہ کرتے ہوئے خود کو فرح ناز صاحبہ سے محوِ گفتگو پایا۔
جس انداز سے آپ نے معاشرتی ناہمواریوں، محرومیوں، حق تلفیوں، جذبات و احساسات کے کچلے جانے کے کرب و اذیت کو کتاب کے ایک ایک صفحے میں اتار کر زبان بخشی ہے کہ کتاب کھلتے ہی قاری آپ کے ایک ایک افسانے کو بہ زبانِ زندگی اپنی سماعتوں میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان افسانوں کو پڑھا نہیں جا رہا بلکہ ان میں جِیا جا رہا ہے۔ ایک ایک لفظ کا لمس، آشنائی کا احساس بن کر آپ کی رگوں میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔
گو کہ فرح ناز صاحبہ نے افسانوں کو مختصر حدود میں رکھتے ہوئے بے جا طوالت سے گریز کیا ہے لیکن کمال تو یہی ہے کہ افسانہ نگاری کا فن بامِ عروج پر پہنچتا ہی تب ہے جب ایک افسانہ نگار منفرد اسلوب، سادہ و عام فہم اندازِ بیاں اپناتے ہوئے منظر نگاری اور تمثیل نگاری کے ذریعے مختصر سطور میں قاری کے ذہن کے پردے پر تخیل کا انمٹ نقش ثبت کر دے۔
فرح ناز صاحبہ نے اپنے افسانوی مجموعے "لمسِ آشنائی" میں منظر نگاری کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ میں نے ان کے اکثر افسانوں کے کردار میں خود کو بہ نفسِ نفیس موجود پایا۔ تمثیل نگاری اور استعارات کا استعمال اس حد تک خوب صورت اور موقع و محل کی مناسبت سے کیا گیا ہے کہ صفحہ قرطاس پر جیسے تتلیاں، ستارے، موتی چُن دیے گئے ہوں، افسانوں سے جذبوں کی مہک اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ادیبہ نے اپنی بہترین تمثیل نگاری کا اسلوب اپناتے ہوئے بعض اوقات انتہائی اذیت و کرب کے لمحات میں بھی قاری پر ایسے بوجھل اثرات نہیں ڈالے کہ اس کا دِل افسانوں سے مکدر ہو جائے اور وہ کرب و رنج میں مبتلا ہو کر کتاب بند کرنے پر مجبور ہو جائے بلکہ ان خوب صورت تمثیلات کے زیرِ اثر مخمور ہو کر قاری ایک ہی نشست میں تمام افسانوں کی لذت اور چاشنی محسوس کیے بِنا نہیں رہ سکتا۔
ایک افسانے کے کردار کچھ اس طرح مخاطب ہیں:
"ماضی تو گویا اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ جب ذرا تنہائی ملے تو آ دھمکے، دماغ میں مقید ماضی آزاد ہو چکا تھا۔"
ایک اور جگہ تمثیل نگاری کا دل فریب حسن ملاحظہ ہو:
"خوش گمانیوں اور خوش فہمیوں کا نازک سا وہ گل دان جس میں امید کی ڈھیروں کلیاں اور خواہشوں کے سرخ پھول سجائے خوابوں کے طاق پر دھرا تھا ایک چھناکے سے زمین بوس ہو گیا۔ نہ کرچیاں سمٹنے کے قابل رہیں نہ پھول و کلیاں۔"
فرح ناز کے اس افسانوی مجموعے میں کہیں مایوسی کا سورج امید و آس کے سمندر میں ڈھلتا ہے، تو کہیں زندگی اور موت باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
کہیں حقیقت پر گماں کو ترجیح دینے والوں کو زندگی کا دوسرا رخ دکھایا گیا ہے تو کہیں اپنے ہی آنگن کے پھولوں کو بوڑھی ضد اور اناؤں کی بھینٹ چڑھاتے دکھایا گیا ہے۔
کسی افسانے سے انسان کے وجود کی نفی کرتے انسانی خول میں بھیڑیے نظر آتے ہیں تو کسی میں خواہشِ ناتمام سسکتی بلکتی آخری ہچکی لیتی نظر آتی ہے۔ کہیں "سوزِ نہاں" کی سطور میں انسانیت کی تضحیک و تذلیل آپ کو رنجیدہ کرے گی تو کہیں ہارے ہوئے محبوب کو عشق کی معراج "دستارِ عشق" کی صورت عطا کی جائے گی۔ کتاب کے آخر میں محبت کے حسین جذبوں کی ترجمانی کرتا ناولٹ "محبت خواب کی صورت" آپ کو محبت کی حسین وادی کی سیر کرائےگا، پھر محبت اپنے چاہنے والوں کے دلوں کے نہاں خانوں سے آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو کر کیسے بے بسی اور یاسیت میں بدلتی ہے، اختتام پر یہ سفر آپ کو رنجیدہ کر دے گا۔
مصنفہ نے افسانہ نگاری کے فن میں ایسے عمدہ سنگ تراشے ہیں کہ کہیں کہیں قاری کے لیے ان کے دیے گئے اشارے و استعارے فنِ افسانہ نگاری کے خاص پہلو یعنی قاری کے ذہن کی پرتیں کھولنے اور افسانے کے اندر چھپے مقصد کی کھوج لگانے کا کام قاری پر چھوڑتے محسوس ہوتے ہیں۔
غرضیکہ محترمہ فرح ناز فرح نے جس عمدگی سے جذبات و احساسات کو الفاظ کا روپ عطا کیا ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ افسانوی مجموعہ ان کے بہترین تخیل، عمیق مشاہدات، گہرے تجربات اور بہترین تمثیل و اسلوب نگارش کا آئینہ دار ہے۔
بہ حیثیتِ تبصرہ نگار میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ "لمسِ آشنائی" زندگی کے ہر پہلو کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر قاری کو حیاتِ جاوداں کے ہر لَمس سے آشنائی عطا کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:کتاب : عشقم (شعری مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے