معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

پروفیسر اختر الواسع کا نام تعلیم و تعلم کے میدان میں کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں. وہ ہمہ گیر شخصیت کے حامل ہیں. ان کا شمار ان سرکردہ ملی رہ نماؤں میں ہوتا ہے، جو شب و روز قوم کی اصلاح کے لیے فکرمند ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہر ممکن جدو جہد کرتے ہیں. ان کا علم و فکر عصر و مذہب کے تقاضوں سے آشنا ہے۔
پروفیسر اختر الواسع کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروفیسر ایمیریٹس کے اعزاز سے سرفراز کیا ہے۔ پروفیسر اختر الواسع نے علم و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں. ان کی علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر کئی اعزازات کے ساتھ پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔ جامعہ میں اُن کی وابستگی شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے ہے۔ پروفیسر ایمیریٹس کے اعزاز سے سرفراز ہونے والے پروفیسر اخترالواسع ہندستان میں اسلامیات کے پہلے پروفیسر ہیں۔‎ پروفیسر اخترالواسع مولانا آزاد یونی ورسٹی، جودھ پور، راجستھان کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں پروفیسر اور ہیڈ، فیکلٹی آف ہیومنٹیز کے ڈین، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائرکٹر اور ادارے سے شائع ہونے والے چار علمی مجلات ۔۔۔اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج، اسلام اور عصر جدید، اسلام اور آدھنک یُگ اور رسالہ جامعہ کے طویل عرصے تک مدیر رہے۔‎
پروفیسر اخترالواسع حکومت ہند میں نیشنل کمشنر برائے لسانی اقلیات کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ انھیں حکومت امریکا کی جانب سے مشہور علمی وقار ’’فل برائٹ فیلو شپ" کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے۔ وہ دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے ہیں۔ خسرو فاؤنڈیشن دہلی کے چیئرمین ہیں۔‎ علمی سطح پہ انھوں نے غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ گوناگوں صلاحیتوں کے حامل پروفیسر اختر الواسع صاحب سے آج مجھے انٹرویو لینے کا شرف حاصل ہو رہا ہے. یہ میری خوش قسمتی ہے. میرے ذہن میں ان کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے بےشمار سوالات ہیں. یقینا آپ بھی متجسس ہوں گے. آئیے ان سارے سوالات کا جواب ان سے براہ راست حاصل کرتے ہیں۔

علیزے نجف: روایتی انداز میں اس انٹرویو کا آغاز کرتے ہوئے میں چاہتی ہوں کہ سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے اور فی الحال آپ کہاں پہ مقیم ہیں؟
اختر الواسع: سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا کہ مجھے انٹرویو کریں۔ میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور تالوں کی صنعت کے لیے مشہور زمانہ علی گڑھ کے ایک محلہ دہلی گیٹ، عثمان پاڑہ میں یکم ستمبر ۱۹۵۱ء کو ایک نچلے متوسط گھرانے میں پیدا ہوا اور میرے والد محترم کا نام سید شوکت علی تھا، لیکن وہ اپنے شعری تخلص حیرت بن واحد کے نام سے زیادہ جانے جاتے تھے۔ میری والدہ محترمہ کا نام بیگم شاہدہ حیرت ہے۔ 16 مئی 1975 کو میری شادی اپنی خالہ زاد صبیحہ سے ہوئی۔ آج بہ فضلِ ربّی ہماری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور سب کی شادی ہو چکی ہے۔ یکم اگست ۱۹۸۰ء سے میں دہلی میں مقیم ہوں اور گزشتہ دو سال سے نوئیڈا کے سیکٹر-37 میں میرا اپنے خاندان کے ساتھ قیام ہے۔
علیزے نجف: سات دہائیوں پہلے جب آپ نے اس جہان میں آنکھ کھولی اور تھوڑا سمجھ شعور حاصل کیا، اس وقت کا ہندستان اور ارد گرد کا ماحول کیسا تھا اور آج کا ہندستان جو آپ کے سامنے ہے ان دونوں میں آپ کیا واضح فرق محسوس کرتے ہیں؟
اختر الواسع: جب میں نے شعور کی آنکھیں کھولیں اس وقت کا ہندستان جغرافیائی اعتبار سے بہت بہتر تھا۔ ہمالیہ ہو یا گنگا جمنا اور دوسرے دریا، خلیج بنگال ہو یا بحر عرب یا ان دونوں کے ملاپ سے وجود میں آنے والا بحر ہند، سب ہندستان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ جذباتی طور پر معاملہ یہ تھا کہ انگریزوں کے استعمار سے ملنے والی آزادی اپنے ساتھ تقسیم کا دکھ بھی لے کر آئی تھی اور اس تقسیم کے نتیجے میں جو خون خرابا ہوا، نقل مکانی ہوئی، جو تلخیاں پیدا ہوئیں، جو زخم لگے، وہ سب ابھی تک مندمل نہیں ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں جگہ جگہ آئے دن فرقے وارانہ فسادات کی خبریں آتی رہتیں۔ علی گڑھ خود اس فرقے وارانہ جنون کا اکثر شکار بنتا رہتا تھا۔ ہندستان میں جو بچی کُچھی مسلم قیادت رہ گئی تھی اس کا سارا وقت اپنے ہی وطن میں بے وطنی کا احساس رکھنے والے مسلمانوں کی اس ملک سے دوبارہ رشتوں کو بحال کرنے کی کوششوں میں لگا۔ پھر فرقے وارانہ فساد کی آگ کو بجھانےمیں وہ فائر بریگیڈ کا رول انجام دینے میں لگے رہے اور شاعر کی زبان میں کہیں تو وہ اپنے ہم مذہبوں کو یہی سمجھانے میں لگے رہے کہ:
تو چمن میں بلبلِ بے نوا، ذرا تنکے رکھیو جدا جدا
یہاں روگ ہے یہی روز کا، یہ دھواں اٹھا وہ دھواں اٹھا
کل کے مقابلے جب آج کے ہندستان پر نظر ڈالتے ہیں تو ملے جلے احساسات سامنے آتے ہیں۔ تعلیم، تجارت، صنعت، دفاع غرض ہر میدان میں ہندستان آگے بڑھ رہا ہے۔ خود مسلمانوں میں لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان میں تعلیم کی شرح خاصی بڑھی ہے۔ آزادی کے بعد جس نئے ہندستان کا جنم ہوا ہے، اس میں مسلمان نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک سیکولر جمہوری نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بات کہنے کے لیے آزاد ہیں۔ اس ملک کا دستور، عدلیہ، سول سوسائٹی بڑی حد تک ان کے ساتھ ہیں۔ آزاد ہندستان میں مسلمانوں نے قدیم تعلیمی اداروں کے ہوتے ہوئے بھی نہ صرف نئے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں بلکہ وِپرو، ہمالیہ، ہمدرد، واکس ہارٹ اور دیگر چھوٹے بڑے صنعتی اور تجارتی ادارے قائم کیے۔ اس کے علاوہ انٹارٹکا میں پہلی مہم کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر سید ظہور قاسم اور ان کے نائب ڈاکٹر صدیقی ہی تھے جنھوں نے آدھونِک یُگ کی گنگوتری کو قطب جنوبی میں قائم کیا، اس ملک میں میزائل مین ہونے کا شرف بھی ڈاکٹر اے۔ پی۔ جے۔ عبدالکلام کو جاتا ہے۔ غرض علم ہو یا فلم، کھیل کود ہو یا دیگر تہذیبی اور سیاسی و ثقافتی سرگرمیاں، مسلمانوں نے جب بھی موقع ملا، نمایاں کارکردگی انجام دیں۔ اس ملک میں سیاسی اتار چڑھاؤ بھی آتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاید اپنے قائدین کے دکھائے ہوئے راستے سے انحراف کر رہے ہیں لیکن کچھ دن بعد لگتا ہے کہ یہ سب وقتی چیزیں ہیں اور زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
علیزے نجف: ہر انسان کو بہت سی خوبیاں اس کے آباء و اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں. میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں اور ان سے آپ کو  کیا کچھ ملا اور بچپن میں آپ کے گھر کا ماحول کیسا تھا اور اس ماحول کی سب سے بڑی خوبی کیا تھی اور کیا خامی بھی تھی؟
اختر الواسع: ہمارے خاندان کی اصل جڑیں علی گڑھ سے بریلی کی طرف جانے والی ریلوے لائن پر پہلے اسٹیشن کے قریب کھیروپورہ (غالباً خیرپور کی بگڑی ہوئی شکل) نامی گاؤں میں تھیں لیکن خاندانی رنجشوں اور آپسی حسد و عناد کی وجہ سے ہمارے دادا کے والد اور والدہ کی پراسرار حالت میں موت واقع ہوئی اور انھیں اپنی بھی خیر نظر نہ آئی تو وہ اپنی اکلوتی بہن کو لے کر اپنی پھوپھی کے پاس جمال گڑھی (جو اَترولی سے پہلے اب ایک بھرا پورا قصبہ ہے۔) لے آئے اور اس شرط پر کہ جب تک بہن کی شادی نہیں ہو جاتی اس وقت تک انھیں ایک ملازم کی طرح رہنے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ بات ان کے پھوپھی اور پھوپھا کو بہت بری لگی لیکن اپنی غیرت و خود داری کا ہمارے دادا سید واحد علی نے کسی طرح سمجھوتا نہ کیا اور ان کے بزرگوں کو ان کی بات ماننی پڑی۔ بہن کی شادی کے بعد دادا کے سامنے معاملہ روزگار کا تھا کہ اسی وقت پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی اور انھوں نے اس میں بھرتی کے لیے درخواست دی، جس میں انھیں کامیابی تو ملی لیکن جب تک ان کی فوجی تربیت پوری ہوتی، جنگ ختم ہوئی اور اس وقت کے انگریز حکمرانوں نے فوج کا استعمال ہندستانیوں کے آزادی پسند جذبات کے اظہار اور احتجاج کے خلاف کرنا شروع کر دیا۔ ایک ایسے ہی موقعے پر ہمارے دادا سے ان کے انگریز افسر نے آزادی پسندوں کے ایک چھوٹے سے جلوس پر گولی چلانے کو کہا جس سے انھوں نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً انھیں کورٹ مارشل کے بعد فوجی ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ چھوٹی موٹی تجارت کرنے لگے اور اسی سے انھوں نے وہ مکان بنایا جس میں ہم پیدا ہوئے اور تقریباً ۱۹۹۰ء کے آس پاس اس کو بیچ کر جامعہ اردو علی گڑھ کے پاس منتقل ہو گئے۔
ہمارا محلہ بنیادی طور پر نِکِل پلانٹ کے کاریگروں کا محلہ تھا، جہاں تعلیم لڑکیوں کا یا لڑکوں کے لیے کوئی تصور ہی نہ تھا۔ زبان و بیان پر لوگوں کا اختیار نہیں تھا، اس لیے ہمیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور ابتدائی تعلیم کے لیے بھی پرانی طرز پر ایک ماسٹر محمد حنیف صاحب گھر پر آتے اور مولوی اسمعیل کی پانچوں کتابیں انھوں نے ہی ہمیں پڑھائیں، تختی لکھنا سکھایا۔ پہلے وہ یہ خدمت گھر گھر جاکر انجام دیتے، بعد میں انھوں نے کچھ گھروں کے بچوں کو جمع کرکے ایک علاحدہ انتظام محلہ دربار گیٹ میں اپنے گھر کے پاس کر لیا جہاں وہ ہمیں پڑھاتے بھی اور جو کچھ ہمارے گھروں سے انھیں بطورِ معاوضہ دیا جاتا وہ الٹا ہم پر ہی خرچ کرتے اور وہ اس طرح کہ کھلونا بک ڈپو، پھلواری بک ڈپو وغیرہ کی جو بچوں کی کتابیں تھیں وہ منگاتے، پہلے ان کی جلد بندھواتے پھر ہمیں باری باری پڑھنے کو دیتے۔ جب پڑھ کر ہم واپس کرتے تو وہ ہم سے اس کہانی کا حاصل پوچھتے، اس کہانی سے کیا سبق ملتا ہے، اس پر سوال کرتے، اپنے گھر سے نہ نکلنے دینے کی وجہ سے گھر میں جو بھی کتابیں تھیں ان سب کو چاہے وہ ہماری عمر اور فکر کی معیار کی نہ ہوں تو بھی پڑھ ڈالا۔ ہمارے گھر میں شمع، بانو اور کھلونا آتے تھے۔ ہم سب کو چاہے وہ ہمارے لیے ہوں یا نہ ہوں، پڑھ ڈالتے تھے۔ والد سفر پر رہتے تھے کیوں کہ وہ الیکٹریکل گُڈس کے ایجنٹ کا کام کرتے تھے، اس لیے ان کی غیر موجودگی میں والدہ کے لیے اَچَل تالاب کے پاس بہرام گیٹ میں واقع نیشنل لائبریری سے افسانے، ناول، خاص طور سے ابنِ صفی کی جاسوسی دنیا، ہم کرایے پر لاتے تھے اور لانے اور واپس کرنے کے بیچ اور جب والدہ دوسرے خانگی کاموں میں مصروف ہوتیں تو ان کو پڑھ ڈالتے تھے۔ اس طرح نسیم حجازی، ابن صفی، صادق حسین سردَھنوی، عادل رشید، نسیم انہونوی اور شوکت تھانوی سے ہمارا تعارف ہوا۔ ہمارے گھر میں ایک اجتماعِ ضدّین بھی تھا، وہ یہ کہ ہماری دادی ذات پات کی ماننے والی تھیں جب کہ ہمارے دادا ان چیزوں سے بے نیاز تھے۔ اسی طرح اس ماحول کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہمارے دادا کے ذریعے ہمیں سب کا احترام کرنا سکھایا جاتا تھا، چاہے وہ کسی بھی سطح پر کام کرتا ہو اور خرابی یہ تھی کہ ہمیں پرواز کے لیے وہ کھلی فضا نہیں ملی جس میں ہمارے ہم عمر پتنگ بازی، کنچے اور کبڈی وغیرہ کھیلنے کے لیے آزاد تھے۔
علیزے نجف: آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز کس اسکول سے کیا اور کن کن یونی ورسٹیوں کی خاک چھانتے ہوئے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی؟ یہ تعلیمی سفر آپ کے لیے کیسا رہا اور اس دوران آپ کی فکر و نظر میں کس طرح کی خاص تبدیلیاں پیدا ہوئیں؟
اختر الواسع: جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، ہماری ابتدائی تعلیم گھر سے شروع ہوئی۔ اللہ غریق رحمت کرے ماسٹر محمد حنیف صاحب نے ہمیں تختی پر نقش بنا کر خوش خط ہونے کی تربیت دی۔ مطالعے کی عادت ڈالی۔ اس کے بعد ایک دن ہماری انگلی پکڑ کر ہمارے دادا ہمیں محلہ دربار گیٹ اور بنی اسرائیلان میں واقع میونسپل بورڈ کے اسکول نمبر 16 میں لے گئے، جہاں ہیڈ ماسٹر خلیل صاحب نے ہمارا ٹیسٹ لیا اور کہا کہ بچے کو داخل تو پانچویں جماعت میں ہونا چاہیے لیکن ہائی اسکول کرتے وقت عمر کی وجہ سے پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ چوتھی جماعت میں داخل کر لیا جائے اور اس طرح ہم نے وہاں سے چوتھی اور پانچویں جماعت پاس کی اور ایک بار پھر ہمارے دادا نے ہمیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سٹی ہائی اسکول میں چھٹی کلاس میں داخل کرایا، جہاں سے ہم نے دسویں پاس کی۔ یہی وہ اسکول تھا جس نے ہمیں تقریر کرنا سکھایا، تقریری مقابلوں کا حصہ بنایا اور وہ تربیت آج تک ہمارے کام آ رہی ہے۔ اس کے بعد 1967 سے 1977 ہم نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پری یونی ورسٹی، بی اے آنرز (اسلامک اسٹڈیز)، بی ٹی ایچ، ایم ٹی ایچ اور ایم اے (اسلامک اسٹڈیز) کے امتحانات پاس کیے۔ اسکول کے آخری برسوں اور یونی ورسٹی کے شروع کے دنوں میں ہم نے شوقیہ جامعہ اردو کے چاروں امتحانات ابتدائی، ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل بھی پاس کر لیے۔ اس کے علاوہ حکومتِ ہند نے ہمیں استنبول یونی ورسٹی میں ترکی زبان جو بی۔ اے۔ آنرز میں ہمارا ضمنی مضمون رہ چکی تھی، کو مزید سیکھنے کے لیے منتخب کیا اور آج جو بھی ہمارا فکری اور شعوری سفر ہے وہ انھی اداروں کے زیر سایہ پروان چڑھا ہے۔ انھی اداروں کا فیضان تھا جنھوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ تبدیلی فطرت کا اٹل قانون ہے اور بہتری لانے کے لیے تبدیلی سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ نے ہندستانی اداروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کے اداروں سے بھی علمی استفادہ کیا ہے اور وہاں پہ آپ کے تجربوں اور مشاہدوں کو وسعت حاصل ہوئی، میرا سوال یہ ہے کہ آپ اس Fulbright fellowship کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ بھی کہ آپ وہاں کے تعلیمی نظام میں رائج کس کلچر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور کیوں؟
اختر الواسع: مجھے بلاشبہ یہ سعادت حاصل ہوئی کہ میں کینیڈا، امریکا، انڈونیشیا اور پنجاب یونی ورسٹی لاہور سمیت بہت ساری یونی ورسٹیوں میں گیا۔ مجھے وہاں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع بھی ملا اور میرے حصے میں یہ شرف بھی آیا کہ اسلامک اسٹڈیز میں ہندستان سے پہلی اور ابھی تک آخری بار فل برائٹ فیلوشپ مجھے ہی ملی۔ فل برائٹ فیلوشپ جو کہ امریکا کی دین ہے، مختلف علوم و فنون میں اختصاص رکھنے والوں کو دی جاتی ہے اور وہ لوگ اس کے لیے چنے جاتے ہیں جو مختلف اداروں میں رہ کر اپنے علم اور مہارت میں اضافہ کرتے ہیں۔ امریکی نظام تعلیم ہو یا کینیڈا کا، اس کی ایک خوبی ہے کہ اس میں آپ کو سوال کرنے، اختلاف کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی پوری آزادی ہے۔ دوسرے وہ آپ کو لکیر کا فقیر نہیں بناتے بلکہ اپنے لیے نہ صرف درسی مضامین چننے کی آزادی دیتے ہیں اور وہ بھی اس اختیار کے ساتھ کہ ضروری نہیں کہ آپ ایک ہی مخصوص میدان کے علوم کا انتخاب کریں۔ آپ سائنس کے ساتھ سماجی اور انسانی علوم کو بھی چن سکتے ہیں اور اب تو خیر سے یہ سہولت اور اختیار ہمارے اداروں میں بھی مل رہا ہے۔
علیزے نجف: معاشرے میں آپ کی شناخت تعلیمی رہ نما کی سی ہے، آپ متعدد عہدے پہ رہتے ہوئے پچھلے اکتیس سالوں سے تعلیم و تعلم کی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں، اس طرح آپ کا تجربہ کافی وسیع ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ حکومت کے ذریعے بنائی گئی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا اس کا مکمل نفاذ ہوسکے گا اور اس کے ذریعے تعلیمی نظام میں کس طرح کی بہتری آنے کی امید ہے؟
اختر الواسع: گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے میں تعلیمی رہ نما تو نہیں لیکن اس میدان کے بنیاد گزاروں میں ضرور شامل رہا ہوں۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ دیکھیں تو میں اپنے آپ کو ایک طالب علم ہی سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ حصول علم کا سفر مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ صرف 39 سال کی عمر میں مجھے ایک اوپن پوسٹ پر جنرل سلیکشن کمیٹی سے پروفیسر منتخب کر لیا گیا اور میں نے لیکچرر اور ریڈر کی حیثیت سے 13سال سے کم خدمات انجام دیں، لیکن مجھے اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ میرے ساتھیوں نے 1984 سے 1988 اور اس کے بعد بھی مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مجلس تعلیمی کا ممبر منتخب کیا۔ اس کے علاوہ بہ اعتبار عہدہ مجھے جامعہ کی تمام فیصلہ ساز باڈیز میں رہنے کا موقع ملا، سو الگ۔ اس کے علاوہ میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی کورٹ اور مجلس تعلیمی کا ممبر رہا۔ وہاں کی فیکلٹی کمیٹی اور بورڈ آف اسٹڈیز کے لیے بھی مجھے نامزد کیا گیا۔ مجھے جامعہ ہمدرد کی مجلس تعلیمی اور دیگر اداروں سے بھی تعلیمی انتظامی وابستگیوں کے موقعے ملے۔ اس لیے ان تمام تجربوں کی روشنی میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری نئی تعلیمی پالیسی 2020- میں کیا خوبیاں ہیں اس کا اندازہ تو اسی وقت ہوگا جب اس کے مکمل نفاذ کے بعد نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن مجھے ایک بات کا یقین ہے کہ ہندستان کا تعلیمی نظام بہتر ہی ہونا ہے اور اس کو پیچھے لے جانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ نئی تعلیمی پالیسی کی ایک خصوصیت کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے کہ اس میں مادری زبان کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ یقیناً قابل تحسین ہے۔
علیزے نجف: آپ مولانا آزاد یونی ورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر رہے اور اس وقت آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمیریٹس ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے ان دو اہم عہدوں پہ رہتے ہوئے نظام تعلیم میں کس طرح کی تبدیلی لانے کی کوشش کی یا کوئی اہم اقدام جو آپ نے اس دوران کیا ہو؟
اختر الواسع: جامعہ ملیہ اسلامیہ سے میری وابستگی دسمبر 1977 سے شروع ہوئی، جو ستمبر 1979 سے جولائی1980 کے علی گڑھ میں عارضی لیکچرر شپ کو چھوڑ کر 31 اگست 2016 تک جاری رہی۔ میں پہلی دفعہ 1996 میں صدر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز بنا اور میں نے پہلے کام یہ کیا کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ایم اے میں عربی زبان کا پرچہ اختیار کرنے پر روک لگا دی اور اس کی جگہ Non-Muslim’s Contribution to Islamic Studies اور Muslim’s Contribution to Science, Technology and Fine Arts During the Medieval Period کے متبادل پرچے لینے کا اصول وضع کیا۔ اسی طرح Undergraduation میں اسلامیات کے لازمی مضمون کو مدرسے کے طلبہ نہ لیں اس پر بھی پابندی عائد کی اور ان کے لیے Hindu Religious Studies یا Indian Religions and Culture کے کسی ایک پرچے کو لینے کا اصول وضع کیا۔ جس کی شروع میں مخالفت تو ہوئی لیکن بعد میں یہ سمجھانے پر کہ عربی کا جو نصاب ایم اے اسلامک اسٹڈیز میں شامل ہے وہ مدارس کے فارغین کے لیے بے معنی ہے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ دوسرے اسی طرح اسلامیات کا جو نصاب ہے اس سے زیادہ کہیں ان کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور پھر انھیں جس ملک میں رہنا ہے وہاں کی اکثریت کے مذہب یا وہاں کی مختلف مذہبی روایات اور ثقافت کا انھیں ادراک ہونا چاہیے، جس پر بالآخر سب راضی ہو گئے۔ اسی طرح اسلامک اسٹڈیز کے شعبے میں مختلف فقہی مذاہب کے پیروکار نوجوانوں کو ایک دوسرے سے صحت مند مکالمے پر آمادہ کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں یہ صحت مند روایت آج تک پنپ رہی ہے۔
جہاں تک مولانا آزاد یونی ورسٹی جودھ پور کی صدارت (وائس چانسلر شپ) کا سوال ہے تو وہاں میں نے اس منصب پر 19 ستمبر 2016 سے 31 اگست 2021 تک کام کیا اور مجھے خوشی ہے کہ مغربی ہندستان کی پہلی اقلیتی یونی ورسٹی سے وابستہ رہ کر ہم نے اس کا تعارف ہندستان بھر میں ہی نہیں بلکہ ہندستان کے باہر بھی کرایا۔ مختلف ماہرین تعلیم، دوسرے اداروں کے سربراہوں اور غیرملکی شخصیات کو بلایا اور انھیں اس نئے ادارے کے طلبہ و طالبات سے، فیکلٹی سے اور بنانے اور چلانے والوں سے ملنے جلنے، تبادلہ خیال کرنے کے موقعے فراہم کیے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ حکومت ایران کی دعوت پر مولانا آزاد یونی ورسٹی کے ذمہ داروں کا ایک چار رکنی وفد ایران کے مختلف تعلیمی اداروں کے علمی مطالعہ پر وہاں گیا۔
علیزے نجف: تعلیم ایک ایسا موضوع ہے، جس پہ بے شمار سوال کیے جا سکتے ہیں. اس لیے میرا اگلا سوال بھی اسی ضمن میں ہوگا. میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تعلیم اپنا مقصد کھوتی جا رہی ہے اور تعلیم کا مقصد اب انسان کی تربیت نہیں بلکہ معاشی فراوانی کے حصول کا ذریعہ بن کے رہ گیا ہے؟ کیا آنے والے وقت میں تعلیم ایک پروفیشن بن کے رہ جائے گی اور تربیتی عناصر کی رہی سہی اہمیت بھی تنزلی کا شکار ہو جائے گی؟ آپ کا اس بارے میں کیا نظریہ ہے؟
اختر الواسع: تعلیم کا مقصد شخصیت کی تعمیر، حسن سیرت اور کردار کی پختگی پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ آج افسوس یہ ہے کہ تعلیم اب تجارت بنتی جا رہی ہے۔ اب بڑے کاروباری گھرانے اسٹیل مِل یا ٹیکسٹائل مل لگانے کی بجائے کالج، یونی ورسٹیاں اور فائیو اسٹار اسپتال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ اچھی تعلیم اور صحت کی بہترین سہولیات غریب اور نچلے متوسط طبقے سے کیا متوسط طبقے سے بھی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ وہ ملک جس نے دنیا کو نالندہ اور ٹکشلا جیسی یونی ورسٹیاں دیں، وہ اپنے ماضی کی مہتم بالشان روایات سے منحرف ہو رہا ہے۔ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔یہاں ایک بات اور بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہندستان میں درس گاہوں میں محض تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ تربیت پر بھی پوری توجہ رہتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے بہ قول ’’اچھے استاد کی پیشانی پر علم نہیں محبت کا عنوان ہوتا ہے۔۔۔ بچے کے مستقبل سے دو ہی لوگ ہیں جو کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ ایک اچھا استاد اور ایک اس کی ماں۔‘‘ افسوس یہ ہے کہ آج کا نظام تعلیم انسان کو سماجی جان دار (Social Animal) بنانے کی بجائے معاشی جان دار (Economic Animal) بنانے پر لگ گیا ہے، جو بہت تکلیف دہ بھی ہے اور شرمندگی کا باعث بھی۔
علیزے نجف: آپ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں اور آپ کی اسلامی تاریخ اور تعلیمات پہ گہری نظر ہے. میرا سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں مذہب کی اہمیت کم ہوئی ہے یا اس کی طرف لوگوں کا رجحان پہلے کی ہی طرح ہے اور کیا وجہ ہے کہ لوگ مذہب کے نام پہ مقلدیت کا شکار ہو کے رہ گئے ہیں؟ یوں اصل مذہبی تعلیمات اوہام اور خودساختہ نظریات کے درمیان گم ہوتی چلی جا رہی ہے؟
اختر الواسع: اکیسویں صدی کیا، اگلی اور پچھلی ہر صدی میں یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا مذہب کی اہمیت کم ہوئی ہے یا اس کی طرف لوگوں کا رجحان پہلے ہی کی طرح ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب ہر دور میں اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا ہے۔ جہاں تک تقلید کا سوال ہے، عام آدمی اسی میں عافیت سمجھتا ہے کہ وہ کسی مرشد یا فقہی مذہب کے امام یا مسلک کے سربراہ کی پیروی کرنے میں لگ جائے۔ ویسے تقلید کوئی ایسی بری چیز بھی نہیں، یہ ہر عامی کے لیے ناگزیر ہے لیکن عالم کے لیے نامناسب۔ تقلید اس وقت ایک مسئلہ بن جاتی ہے جب ہم اپنی عقیدتوں کے مرکز کو عقیدے کا محور بنا لیتے ہیں۔ تعلیم کے بڑھتے چلن کی وجہ سے اوہام اور خود ساختہ نظریات کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں بہ حیثیت مسلمان یہ سمجھنا چاہیے کہ فقہی اختلافات اسلام کے جمہوری کردار کے آئینہ ہیں اور ہمیں اپنی طاقت کو کم زوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس طرح مجھے یہ حق ہے کہ میں اسلام کے بنیادی عقائد کے ساتھ کسی بھی فقہی مذہب کی پیروی کروں اسی طرح دوسروں کو بھی اس بات کا پورا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کے مذہب اور مسلک کی پیروی کریں۔ یہاں یہ بات مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ اللہ کے آخری رسولؐ کافروں  کو مسلمان بنانے کے لیے آئے تھے مسلمانوں کو کافر نہیں۔ اس لیے تکفیر کا کاروبار بند ہونا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ ایک عبقری شخصیت ہیں، ملک کی صورت حال اور اس کو درپیش مسائل پہ آپ کی گہری نظر ہے. آپ بقائے باہم کے نظریے پہ یقین رکھتے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ملک میں جس طرح فرقہ وارانہ اختلافات کو اچھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس نے ملک کی شبیہ پہ کیسے اثرات مرتب کیے ہیں اور اس سنگین ماحول میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کس طرح کے خاص اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
اختر الواسع: گذشتہ کچھ برسوں سے ملک جس طرح کے فرقے وارانہ عناد کا شکار ہے، جس طرح دوریاں بڑھ رہی ہیں، کچھ لوگ جس طرح مذہبی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنے پر تلے ہیں، ان پر سخت کارروائی ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ صرف مسلمانوں کے ہی مخالف نہیں ہیں بلکہ ہندستان کے دستور، ترنگے جھنڈے، مہاتما گاندھی، سب کے دشمن ہیں اور اس کو وہ چھپاتے بھی نہیں ہیں۔ صورتِ حال اتنی تشویشناک ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس پر سوالات قائم کر رہی ہے، اپنی ناراضگی کا کھلم کھلا اظہار کر رہی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح کی حرکتوں سے مسلمانوں کو ڈرا سکیں گے، انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان نہیں ہندستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی حرکتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ پڑ رہی ہے اور دنیا میں بھی ہندستان کی اچھی خاصی شبیہ کو وہ داغ دار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس سنگین صورتِ حال میں فرقے وارانہ ہم آہنگی اور دھارمک سدبھاونا کے لیے ضرورت ہے کہ ہندستان کے مسلمان آگے آئیں اور وہ ایک فعال، متحرک اور مثبت مکالمے کا اپنے ہم وطنوں کے ساتھ آغاز کریں۔ اس لیے کہ ابھی بھی غیرمسلم خاص طور سے ہندوؤں کی غالب اکثریت فرقے وارانہ جنونیوں کے ساتھ نہیں ہے۔
علیزے نجف: سیاست ایسا شعبہ ہائے حیات ہے جو کہ فن بازی گری سے مماثلت رکھتا ہے، یہاں اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی اصول کی تعریف اور تاریخ کو بدلنے میں قباحت محسوس نہیں کی جاتی. مذہبی شوشہ بھی ایسا ہی ایک پہلو ہے. میرا سوال یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے جس طرح اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے کے خلاف تنفر کا اظہار کرتا رہتا ہے، کیا ان دونوں طبقوں کے عام عوام کی رائے بھی وہی ہے جو ان کے قائدین کی ہے؟ اگر نہیں تو یہ عام عوامی آبادی کس طرح سے اپنے نظریات کو عام کرے تاکہ ملک میں امن و استحکام پیدا کیا جا سکے؟
اختر الواسع: دیکھئے! سیاست کی بلاشبہ اہمیت ہے، لیکن سیاست ہی سب کچھ نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے ٹی آر پی کے نام پر اپنے آپ کو بالکل بے آبرو کر دیا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ:
ہاں بڑی چیز وفاداری ہے
یہ بھی بڑھ جائے تو غداری ہے
اس وقت اچھے خیالات، مثبت سوچ اور فراست کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں، وہ تمام یوٹیوبرس اور کچھ چینل و اخبار بھی جو صحیح سوچ رکھتے ہیں، انھیں ہمیں بڑھاوا دینا چاہیے، ان کی مدد کرنی چاہیے۔ مجھے یہاں خوب یاد آیا کہ مولانا سید محمود اسعد مدنی کی جمعیۃ علماء نے دھارمک سدبھاؤنا سنسد کے سو سے زیادہ اجلاس اس سلسلے میں منعقد کیے ہیں۔ امید ہے کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک سینکڑوں پروگرام میں شرکت کی ہے، جس میں مختلف مذہب و مسلک کے قائدین بھی شریک تھے اور آپ نے اس موقع پہ ملک کے مسلمانوں کو درپیش مسائل پہ نہ صرف بات کی بلکہ ارباب حل و عقد کے ساتھ اس کے لیے حکمت عملی بنانے پہ بھی کام کیا. میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان قوم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد نہیں پیدا کر پارہی ہے اور اپنا تعلیمی معیار بہتر بنانے میں بھی ابھی تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے، جس کی وجہ سے بڑے بڑے عہدے ان کی رسائی سے بہت دور ہیں؟ مسلمانوں کی اس شکستہ حالی کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ کیا آپ اس کے لیے کوئی تعلیمی و اصلاحی منصوبہ رکھتے ہیں؟
اختر الواسع: ہندستان میں مسلمانوں کی پس ماندگی کا سبب یہ ہے کہ وہ فروعی معاملات میں زیادہ الجھے رہتے ہیں۔ اللہ کے رسول جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے انھیں کامیابی کے جو دو گُر بتائے تھے، وہ ان کو اپنانے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں، اور وہ گُر تھے تعلیم اور تجارت۔ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ نبی اُمّیؐ جب غارِ حرا سے سوئے قوم آیا تو اپنے ساتھ نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج کا حکم نہیں بلکہ اقرأ کا مول منتر لے کے آیا تھا، لیکن اس کے نام لیوا تعلیمی اعتبار سے آج بہت پس ماندہ ہیں۔ وہ یہ بات بھی بھول گئے کہ تجارت کی کتنی اہمیت ہے؟ کیوں کہ جس کے ہاتھ میں مَنڈی ہوتی ہے اسی کے ہاتھ میں مُنڈی ہوتی ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کے ملبے سے جو مسلم نفسیات ابھر کر آئی، اس میں خیر سے تعلیم کی طرف رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے اور مسلمان لڑکے اور لڑکیاں نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ آگے آ رہی ہیں اور خاص طور سے لڑکیاں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ مسلمانوں میں اتحاد کے فقدان کا جو ذکر آپ نے کیا ہے، اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں، اس لیے اس کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی علمی اور معاشی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے کسی نئے تعلیمی اور اصلاحی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سرکار نے جو منصوبے بنائے ہیں ان سے بھرپور استفادہ کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس کی ہے کہ ہم پرائیویٹ سیکٹر میں نہ چاہتے ہوئے بھی نئی یونی ورسٹیاں قائم کریں اور ان میں خاص طور سے ایسے پروگرام تعلیم کے لیے رکھیں جن کی آنے والے زمانے میں ضرورت ہوگی۔ تاکہ ہمارے بچے اور بچیاں جب یونی ورسٹیوں سے فارغ ہوں تو وہ کسی بھی بھیڑ چال کا حصہ نہ بن کر روزگار کے لیے صف اول میں جگہ بنا سکیں۔
علیزے نجف: آپ ایک بہترین قلم کار بھی ہیں. آپ نے اب تک تعلیم اور اسلامیات کے ساتھ دیگر موضوعات پہ بہت ساری کتابیں لکھی ہیں اور کچھ کتابوں کو مرتب بھی کیا ہے اور ترجمہ بھی کیا ہے. اس طرح آپ کی فکر و بصیرت سے گزر گر بےشمار کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں اور علمی حلقے میں شرف قبولیت بھی حاصل کر چکی ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کتابیں زندگی اور نظریات میں کس طرح تبدیلی پیدا کرتی ہیں؟ کسی کتاب کو پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیوں کہ لوگ اکثر وہی تحریریں پڑھتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اندر وسیع النظری پیدا نہیں ہو پاتی؟
اختر الواسع: کتابیں زندگی اور نظریات دونوں میں مثبت اور منفی تبدیلیاں لاتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کس طرح کی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کتاب کا انتخاب اسی طرح سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے جس طرح کسی اچھے شخص کا دوستی کے لیے کیا جاتا ہے۔ کتاب کو محض تفریحاً نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ ہر مطالعہ مسرت سے بصیرت کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صرف کتابوں ہی کو نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور انسانوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور ان سے بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ نے ملک اور بیرون ملک کے بےشمار علمی سیمینارز میں شرکت کی ہے اور اس میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور متعدد ملکی رہ نماؤں کے ساتھ آپ کو گفت و شنید کرنے کا موقع ملا. میرا سوال یہ ہے کہ ہندستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں میں مذہب کے حوالے سے کیا نفسیات پائی جاتی ہے اور معاشرتی سطح پہ دیگر اقوام کے مقابلے میں وہ کس گریڈ کے حامل ہیں؟ ان کا سائنسی و تحقیقی مزاج کیسا ہے؟
اختر الواسع: دیکھیے! دیکھتے دیکھتے صورت حال میں کسی حد تک تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ پہلے امریکا اور یورپ میں بسنے والے مسلمان مختلف میدانوں میں علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں سرگرمِ عمل رہتے تھے لیکن اب عالمِ اسلام کے مختلف ملکوں خاص طور پر سعودی عرب، قطر، کویت وغیرہ نے علمی محاذ پر نئی انگڑائی لی ہے۔ ایران علمی اور تحقیقی میدان میں کافی آگے ہے۔ ترکی میں بھی علمی اور تحقیقی ذوق کی کمی نظر نہیں آتی۔ سینٹرل ایشیا کی جمہوریتوں کو بھی نئے زمانے کی ضرورتوں کا احساس ہو رہا ہے۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا میں ملیشیا، انڈونیشیا اور برونئی کی حکومتیں علمی سرپرستی کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں میں جہاں جہاں گیا ہوں، میں نے مذہب کا شوق اور شغف کم ہوتا ہوا نہیں پایا ہے۔ ساری دنیا میں مذہب سے تعلقات کے وہی رویے اور رنگ آپ کو دیکھنے کو ملیں گے جو ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک عالمِ اسلام کے ملکوں کی درجہ بندی کا سوال ہے تو وہ اپنے قدرتی وسائل، معدنی ذخائر اور افرادی قوت کا اگر صحیح استعمال کریں، جمہوریت کو اپنے ملکوں میں صحیح طور پر پنپنے دیں تو ساری دنیا کی امامت کا کام ایک بار پھر ان سے لیا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کی 2010 میں ایک کتاب صوفی مت کے عنوان سے شائع ہوئی تھی. آپ نے اس کتاب کو علمی تحقیق کے بعد لکھا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ اس صوفی مت کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟ قرآنی تعلیمات میں صوفی مت کے حوالے سے کیا کوئی اشارہ ملتا ہے؟ صوفی مت کی کن خوبیوں سے آپ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں؟ موجودہ جدید عہد میں جب کہ سائنسی مزاج کا غلبہ ہے، ایسے میں صوفی مت کا حلقہ کیا سکڑتا جا رہا ہے؟ کیوں کہ اب خانقاہوں کا وجود مٹتا نظر آ رہا ہے. 
اختر الواسع: آپ نے ہندی میں میری شائع ہونے والی ’’صوفت مَت‘‘ نامی جس کتاب کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل اردو میں ’’روشنی کا سفر‘‘ کے نام سے سب سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ تصوف سے مجھے شروع سے ایک لگاؤ رہا ہے، کیوں کہ میرے نانا سید محمود علی مرحوم تو باقاعدہ صوفی تھے اور اپنے خاندان میں وہ پیر جی چچا، ماموں وغیرہ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ اسی طرح میرے دادا کا بھی تصوف کی طرف باقاعدہ جھکاؤ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی میں نے اپنی دادی کو تقریباً ہر مہینے کوئی نہ کوئی نیاز فاتحہ کرتے کراتے دیکھا۔ اس زمانے میں ہمارے گھرانے میں جہاں ایک طرف ہر مہینے کوئی نہ کوئی فاتحہ ہوتی تھی وہیں دل چسپ بات یہ تھی کہ دینی رہ نمائی کے لیے فتویٰ دیوبند سے منگایا جاتا تھا۔ بہت بعد میں چل کر مجھے یہ پتا چلا کہ اکابرین دیوبند بھی عام طور پر چشتیہ صابریہ سلسلے سے بیعت رکھتے تھے اور آج تک ان کے یہاں یہ سلسلہ باقی ہے۔ تصوف میں جو سادگی ہے، صبر ہے، نمائش و نمود سے گریز ہے، لوگوں کی خدمت کا جو جذبہ ہے، وہ میرے لیے ہمیشہ سے دل آویزی اور دل کشی کا سبب رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عہد وسطی میں جب استبدادی حکومتیں تھیں، اس وقت خانقاہیں دکھیاروں کے لیے پناہ گاہ کا کام کر رہی تھیں۔ یہ صوفی کا کندھا تھا  جو انھیں سہارا دیتا تھا، دلاسا دیتا تھا، ان کے دکھ درد کو بانٹتا تھا۔ خانقاہوں کی یہ خوبی تھی کہ وہاں جانے والے سے اس کا نام، ذات اور مذہب نہیں پوچھا جاتا تھا بلکہ کھانے کو پوچھا جاتا تھا۔ آج بھی تصوف کا بول بالا ہے۔ خانقاہوں نے نئے زمانے کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل بھی طے کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ یہ کیسی دل چسپ بات ہے کہ قادریہ سلسلے کی مارہرہ کی خانقاہ نے البرکات جیسے تعلیمی ادارے کو علی گڑھ میں اور اسی کے شاخ کو مارہرہ میں آگے بڑھایا ہے۔ نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کی خانقاہ نے جے پور میں جامعہ ہدایہ جیسے تعلیمی ادارے کی داغ بیل ڈالی، جہاں دین اور حرفے کی تعلیم کو یک جا کیا گیا۔ چشتیہ نظامیہ سلسلے کی گلبرگہ کی خانقاہ نے تو خواجہ بندہ نواز کے نام سے ایک یونی ورسٹی ہی قائم کر ڈالی۔ اسی طرح درگاہ کمیٹی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے باقاعدہ ایک شان دار اسکول نہ صرف قائم کیا بلکہ وہ اپنی پر شکوہ [عمارت] کی طرح شان دار نتائج بھی دے رہا ہے۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ تو اب خانقاہیں ملک بھر میں نئے انداز سے کام کرنے پر لگ گئی ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ ہمیں نئے جہانوں کی سیر بھی کرائیں گی اور فکر و فن کے نئے آستانوں کو آباد کریں گی۔
علیزے نجف: موجودہ وقت میں مسلمانوں کی بقا اور ارتقا ہندستانی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے، سیاسی سطح پہ ان کی قیادت کا دائرہ بھی تنگ ہوتا جا رہا ہے. ایسے میں آپ ہندستانی مسلمانوں کو بہ حیثیت دانشور کے کن باتوں کی تلقین کرنا چاہیں گے اور مسلمانوں کو عملی طور پر قرآنی تعلیمات پہ قائم رہنے کے لیے کیا مشورہ دیں گے؟
اختر الواسع: ہندستان میں مسلمانوں کی حالت بہرحال دوسروں ملکوں سے قدرے غنیمت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اس دنیا میں، جو عالمی گاؤں بن چکی ہے، اسلام کے حوالے سے اگر کوئی ماڈل مؤثر طور پر روبہ عمل لایا جا سکتا ہے تو وہ اسلام کے حوالے سے ہندستانی ماڈل ہی ہوگا، کیوں کہ ایک ہزار سال سے ہندستان میں ایک مذہبی، تہذیبی، لسانی اور ثقافتی تکثیری معاشرے میں اسلام زندہ رہا ہے اور اس کا یہ اختصاص رہا ہے کہ باوجود آٹھ سو سال حکومت کرنے کے اس کے ماننے والے اقلیت ہی میں رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے کبھی اپنے حکومت میں ہونے کا غرہ نہیں دکھایا۔ جہاں تک خود ہندستان میں مسلمانوں کی بقا اور ارتقا کا مسئلہ ہے، میں اس پر پکا یقین رکھتا ہوں کہ وہ قوم جو سانحہ کربلا، سقوطِ بغداد اور خود ہندستان میں 1857 اور 1947 کے بعد زندہ رہی وہ آگے بھی ان شاء اللہ زندہ رہے گی، آگے بڑھے گی۔ ضرورت ہے تو اس کی کہ مسلمان اپنے فکری و عملی رویوں کو قرآنِ کریم کے مطابق ڈھالیں اور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے ہر پہلو پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ آپ کی زندگی کے کس دور سے گزر رہے ہیں اور اس دور میں اللہ کے رسولؐ نے کیا رُخ اپنایا تھا۔
ہندستانی مسلمانوں کو اس ملک کے باعزت شہری کی حیثیت سے یہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن کا لااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کا پیغام مشعلِ راہ ہے۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان الخلق عیال اللہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘‘ ان کے لیے ایک رہ نما اصول ہے۔ پھر ہندستانی مسلمانوں کو ہندو مذہب اور ہندستانی روایت میں فرق کو سمجھنا چاہیے۔ ایک اور بات جو انھیں اور بھی سمجھنا چاہیے کہ ہندستان تو سیکولر رہے لیکن وہ نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ خود بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کی خوشیوں میں اپنی مذہبی انفرادیت کا سودا کیے بغیر نہ صرف شریک ہوں بلکہ انھیں بھی اپنی خوشیوں کا حصہ بنائیں۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت عصر حاضر میں ملی اور علمی قائد کی سی ہے، آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز اپنی قوم کے لوگوں کی قیادت اور رہ نمائی کے لیے وقف کر دیے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی کوششوں سے زمینی سطح پہ کن تبدیلیوں کو واقع ہوتے دیکھا ہے اور لوگوں کی مجموعی تعداد آپ کے نظریات کو کس طرح دیکھتی ہے اور ان خدمات کے اعتراف میں آپ کو اب تک کتنے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے؟
اختر الواسع: مجھے کسی طرح کی قیادت کا نہ شوق ہے اور نہ اس کا زعم۔ میں ایک عام ہندستانی مسلمان کی حیثیت سے اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس سلسلے میں میرا رویہ وہی ہوتا ہے جو غالب کا تھا کہ:
مانیں نہ مانیں، اس کا ہے آپ کو اختیار
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
اسی طرح مجھے ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ میری وجہ سے کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہو۔ جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اس میں سب کی مشترکہ کوششوں کو دخل ہے۔ لوگ میری کہی ہوئی باتوں پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں، میں یقینی طور پر اس سے بیگانہ نہیں رہنا چاہتا۔ اگر لوگ میری گرفت صحیح کرتے ہیں تو مجھے اپنی اصلاح کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یا لکھا ہے وہ صحیح ہے تو پھر میں اپنی بات پر قائم رہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جہاں تک اعزازات ملنے کا سوال ہے، تو مجھے بچپن ہی سے میرے رب نے بہت نوازا ہے۔ میں جب اسکول میں تھا تو ڈبیٹنگ مقابلوں میں کامیاب ہوتا رہا، یونی ورسٹی آیا تو اسٹوڈینٹس یونین کی کابینہ اور آنریری سیکریٹری منتخب ہوا، اسکول کے زمانے ہی میں بال برادری کا جنرل سیکریڑی منتخب ہوا۔ اس کے علاوہ یونی ورسٹی کی علی سوسائٹی کا جوائنٹ سیکریٹری نام زد ہوا۔ جب اسکول میں ساتویں کلاس میں تھا تو پہلی بار اپریل 1964 میں کلکتہ، راؤرکیلا اور جمشیدپور میں فسادات کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں گرفتار ہوا، مقدمے چلے اور سزا ہوئی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک میں سات دفعہ جیل جانا پڑا۔ آخری دفعہ سات مہینے میزا (MISA) میں بند رہے اور پھر ایمرجینسی میں انڈرگراؤنڈ رہنا پڑا۔ ان سب کو بھی میں اپنے لیے اعزاز سے کم نہیں مانتا۔ اس کے علاوہ مجھے جامعہ اردو علی گڑھ میں دکتورِ ادب، انٹیگرل یونی ورسٹی لکھنؤ نے ڈی لِٹ (D. Litt) اور ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآباد نے ڈاکٹر آف ڈیوینٹی (Doctor of Divinity) کی ڈگریوں سے نوازا۔ سرسید، مولانا محمد علی جوہر کے نام پر اور راشٹر بھاشا پرچار سمیتی واردھا، مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، اترپردیش اردو اکیڈمی اور دہلی اردو اکیڈمی نے مختلف اعزازات سے نوازا۔ اس کے علاوہ صدر جمہوریہ ہند نے 2013 میں پدم شری کے قومی اعزاز سے سرفراز کیا۔ پدم شری ہو یا پروفیسر ایمریٹس یا اعزازی ڈگریاں یا فل برائٹ فیلوشپ، اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ کسی شخص کو یہ اعزازات آج تک نہیں ملے، یہ بھی میرے لیے کم بڑا اعزاز نہیں۔ لیکن سب سے بڑا اعزاز تو وہ ہے کہ آپ کو آپ کے قریبی لوگ محبت سے یاد کریں اور آپ خود اور اپنے خدا کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔
علیزے نجف: آپ نے اپنی زندگی کی بےشمار بہاریں دیکھی ہیں اور نشیب و فراز سے بھی گزرے ہیں، غرضیکہ آپ اب تک زندگی کے بہت سارے رنگ دیکھ چکے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے تجربے کے مطابق زندگی کی تعریف کیا ہے اور زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے کن بنیادی اصولوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے؟
اختر الواسع: زندگی کی تعریف دراصل وہی ہے جو پنڈت برج نارائن چکبست نے کی تھی کہ:
زندکی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
لیکن زندگی کی یہ تعریف تمام مخلوقات پر یکساں صادر ہوتی ہے، لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفع بخش بنائے، لوگوں کے کام آئے، وہ دردِ تنہا کی جگہ غم زمانہ والا ہو، وہ ضمیر دشت و دریا کا کام کرے، اسیر آشیانہ نہ ہو اور اس صراط مستقیم پر چلے جس پر چلنے والے اللہ رب العالمین کی نعمتوں کے مستحق قرار پائے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں خواب دیکھنے والی آنکھیں زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں؟ کیا آپ نے کبھی بچپن میں یہ خواب دیکھا تھا کہ زندگی میں آپ موجودہ باعزت مقام تک پہنچیں گے؟ کیا آپ مستقبل کے لیے کوئی خواب یعنی ہدف رکھتے ہیں؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہے؟
اختر الواسع: سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ آج جہاں ہوں یہاں تک پہنچ پاؤں گا۔ یہ سب میرے پروردگار کی عطا ہے اور یہی کہہ سکتا ہوں کہ:
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
علیزے نجف: یہ انٹرویو  دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے؟ اس کے سوالات سے آپ کس حد تک مطمئن تھے؟ کیا آپ کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے؟
اختر الواسع: اس انٹرویو کے دوران سچ بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی ذہانت اور فطانت اور اپنی کم مائیگی کا بار بار احساس ہوا۔ آپ کے سوالات بہت اہم تھے اور میں ہمیشہ یہ مانتا رہا ہوں کہ ہر سوال مستقل ہوتا ہے جب کہ ہر جواب عارضی۔ جہاں تک نصیحت کا سوال ہے تو میں ناصح، واعظ اور محتسب کے رول کو ادا کرنے کے لئے نہ مکلف ہوں اور نہ انھیں مناسب سمجھتا ہوں۔ اللہ آپ کو اور آپ کے قارئین کو سلامت رکھے، خوش و خرم رکھے اور آپ کا قلم اور فکر اسی طرح رواں دواں رہے۔
***
انٹرویو نگار علیزے نجف کی گذشتہ گفتگو :جب تک ایک ناقد تازہ ادب نہیں پڑھے گا وہ آدھ پون صدی قبل ہی میں جیتا رہے گا: نجم الدین احمد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے