غضنفر: فن اور شخصیت

غضنفر: فن اور شخصیت

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

عمران جمیل

غالب و میر تقی میر کے وارثینِ ادب میں سے بہتیرے نام ایسے ہیں جنھوں نے اپنی منفرد و معیاری منظوم تخلیقات سے بعد کے ادبی منظر نامے پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی، جس سے نہ صرف اساتذۂ علم و فن استفادہ کرتے گئے بلکہ شعر و ادب کے بحر ذخار میں ادبی لعل و گہر تلاش کرنے والے ادب نوازوں نے بھی فیض پایا. بہت کم ایسی علمی وادبی شخصیات ہیں جنھیں نظم و نثر کی جملہ اصناف پر مثالی قدرت حاصل رہی. اسّی نوّے کی دہائی میں ادبی اُفق پر اپنے منفرد، اچھوتے موضوعات کے سبب شعر و نثر کی ایک کہکشاں لیے جو سب سے توانا آواز اُبھری وہ بلا شبہ غضنفر صاحب کی آواز تھی، جو آج بھی اپنے تخلیق کردہ خوب صورت لفظوں کی شکل میں اس ادبی کائنات میں پھیلتی ہی جارہی ہے.
غضنفر صاحب کے جملہ تخلیقی شاہ کاروں کو دیکھ کر یہ گمان اس یقین کی حدود میں داخل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح خداے لم یَزل نے حضرت داود علیہ السلام پر لوہے کو آسان کردیا تھا
بالکل اسی طرح اللہ نے اپنے اذن سے لاتعداد معنی سے متصف و مزین ہزار ہا منتشر لفظوں کے خزینے کو غضنفر پر آسان کردیا ہے.
جہاں غالب و میر اپنے زندہ و جاوید اشعار کے ذریعے ادبی قافلے کے ہراول دستے کے اساتذہ قرار دیئے گئے. وہیں سعادت حسن منٹو، پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر و انتظار حسین وغیرہ اپنے افسانوں کی بدولت داستانوی ادب کے سرخیل ٹھہرے. ہر دو قبیل کے فن کاروں میں ان دونوں خوبیوں کا ایک ساتھ اعلا معیار پر پایا جانا مشکل ہی ہے. بلاشبہ ان اساتذہ کی ادبی حیثیت و علمی اہمیت اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے. لیکن جب ہم غضنفر کے شعری و نثری اثاثے کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو علم کا میزان لیے انصاف کی کسوٹی کو کبھی شرمندہ نہ ہونے کے خدشے کے تحت ہمارے دل نے اپنے دل کی علامتی آنکھوں پر ایک دبیز پٹی چڑھا لی اور یہ کہنے میں ہم اپنے آپ کو حق بہ جانب پاتے ہیں کہ غضنفر صاحب کو تخلیقی جوہروں سے متصف نثر و نظم کی سبھی اصناف میں جو حیرت انگیز مثالی قدرت حاصل ہے ایسی انفرادی خصوصیت شاذ و نادر ہی کسی ادیب کے حصے میں آتی ہے.
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
غضنفر جب نظم کی اصناف پر یعنی غزل، حمد، مناجات، نظم، نعت، مثنوی، قصیدہ وغیرہ پر طبع آزمائی کرتے ہیں تو اللہ اللہ ہر صنف پر اس قدر برجستگی و بےساختگی کے ساتھ اشعار قلم بند کرتے ہیں کہ قارئینِ ادب کو تمام اصناف میں کہے گئے اشعار کی درجہ بندی میں دشواری نظر آتی ہے کہ غزلوں کو فن و زبان، موضوع و برتاو کے لحاظ سے اعلا و ارفع کہیں یا ربوبیت و وحدانیت کے اعتراف میں کہی گئی مناجات و دعائیہ اشعار کو عظیم منظوم کلام کہیں یا کل کل کرتے پوری آب و تاب کے ساتھ بہتے جھرنے کی سلاست کی طرح سینکڑوں موضوعات پر کہی گئی نظموں پر بےساختہ داد دیں. یا پھر دانشوری کے جلو میں فلسفیانہ رنگ و آہنگ میں کہی گئی رباعیوں پر عَش عَش کریں یا قدما کی یاد دلاتی آپ کی مثنویوں کے سحر سے خود کو جکڑنے سے بچائیں. بسیار نویسی، جب بھی یہ ادبی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو عموماً اسے کسی ادیب کے تخلیقی کام کے لیے منفی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے. لیکن اس قدر زود نویس ہونے کے باوجود بھی غضنفر کے ہزاروں اشعار اپنی معنویت میں، فن عروض میں، ندرت و معیار میں اپنی مثال آپ ہیں. آپ کی شاعری میں بےحد نغگی بھرا جلترنگ سا احساس ہے. آپ کے یہاں مضامین کا تنوع ہے. پامال موضوعات بھی آپ سے منسلک ہوکر قلب و ذہن پر نہایت اچھوتا تاثر پیدا کرتے ہیں. حساسیت سے لبریز معنی کا اظہار کرتے روایتی لفظوں کے استعمال کو آپ نہ صرف فن کارانہ چابک دَستی سے بحر، ردیف و قافیے میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں بلکہ متروک لفظوں کا استعمال بھی اس خوبی سے کرتے ہیں کہ قارئینِ اَدب اشعار سے نہ صرف حظ کشید کرتے ہیں بلکہ متروک ہوتے گئے لفظوں کی اپنی دیرینہ تاریخ سے بہرہ ور ہو بیٹھتے ہیں. نظروں سے گذری آپ کی غزلیں جہاں آپ کے حساس و رومانیت سے متصف باشعور مزاج کی غمازی کرتی ہیں وہیں اُن غزلوں میں غضنفر ہمیں کبھی اپنے فلسفیانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ نظر آتے ہیں تو کبھی دانشورانہ انداز کے ساتھ ایک ایسے ناصح کے روپ میں نظر آتے ہیں جو اس ایک بار ملی ہوئی طبعی عمر میں صدیوں سے موجود تمام عقائد و فلسفوں کو، تاریخی ادوار و تغیراتِ زمانہ کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ بہ حیثیتِ نسلِ انسانی کسی رہ نما کی طرح ایک گہرا تجزیاتی مطالعہ بھی رکھتا ہے. جو پس مردہ ہوچکے سوختہ جانوں میں اپنے رومانیت سے مزین اشعار سے زندگی کی دل کش و حسین جوت کو جگا دیتا ہے. بلکہ اپنے گاہے گاہے ربوبیت و وحدانیت سے متصف توکل و استغنا سے مزین اشعار سے ہمیں نہ صرف اپنے رب سے بلکہ اپنی اپنی ذات سے منسلک رشتوں سے بھی قریب کرا بیٹھتا ہے. حساس و لطیف جذبوں کو موزونیت کے ساتھ موثر لفظوں کے ماہرانہ انتخاب کے ساتھ صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا منفرد انداز ہی آپ کو بعض جگہوں پر اپنے اساتذہ سے تو اکثر موقعوں پر اپنے معاصرین سے ممتاز و محترم بناتا ہے.
پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت
آپ کی شاعری سے خیال و موضوع کی نہایت سبک انداز میں دل کش ترسیل ہوتی ہے. اکثر جگہوں پر آپ روایتی اُسلوب کو اس خوبی سے اپناتے ہیں کہ ہمیں کلاسیک اردو اشعار کی یاد آجاتی ہے اور اکثر موقعوں پر روایتی اُسلوب سے جزوی اجتناب برت کر آپ اپنی ایک جداگانہ راہ کا تعین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. اشعار میں موجود تخیل کی بلند پروازی سے اور آپ کے ادب عالیہ کے مطالعہ و قدروں کی پاس داری کا آپ کا یہ احساس دل کے درونِ خانہ میں آپ کے لیے تقدس آمیز جذبوں کو جِلا دیتا ہے. غضنفر کی شاعری نہ صرف اساتذہ کو متاثر کرتی رہی بلکہ آپ کے اشعار کے سحر سے پوری ادبی کائنات اکثر و بیشتر دم بہ خود رہ جاتی ہے.
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے كلام کی
روح القدس اگرچہ میرا ہَم زُبان نہیں
اسی طرح جب غضنفر افسانہ لکھتے ہیں، ناول لکھتے ہیں یا خود نوشت لکھتے ہیں تو شاعرانہ رنگ میں رنگی نثر کی ادبی دھنک رنگ خوبیوں سے پڑھنے والا ہر سطر پر دَم بخود رہ جاتا ہے. وہ قیمتی و انوکھا احساس کرانے والی خوشیوں سے دوچار ہوتا ہے. "دیکھ لی دنیا ہم نے" ایک ایسی ہی خود نوشت ہے جس میں قاری کتاب کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے جذبات جیتا ہے جیسا کہ کردار کی معصومیت کو جیتا ہے، اپنوں کے درمیان ملی بےاعتنائیوں کو محسوس کرتا ہے، سرفروشی سے تعبیر شدہ باغیانہ تیور کو اپنی نفسیات میں چبھتا ہوا پاتا ہے. اس خود نوشت میں کردار کے روایت شکن خیالات، جنوں خیزی سے لبریز سیمابی کیفیات کو، زندگی کے مختلف مراحل پر بروے کار لاے جانے والے جذبوں کو غضنفر صاحب نے نہایت خوبی سے برتا ہے. کبھی الہڑ پن تو کبھی چھیل چھبیلے سے با نکے نوجوان کا سا انداز و اطوار، کبھی فلسفیانہ گہرائی کا احساس کراتا ہوا انداز تو کبھی استغنا و بےنیازی بھرا انداز غرض کہ خود نوشت کا کردار اس قدر جیتا جاگتا اور فطری سا تشکیل دیا گیا ہے کہ قاری کتاب پڑھنے کے بعد تادیر اُس کردار کو اپنے ہمزاد کی طرح اپنے رگ و پئے میں محسوس کرتا ہے. کردار کے تشکیلی مراحل کہانی کے الگ الگ پڑاو پر کہانی کی ضرورت و کردار کی علمی و طبعی پختگی کے ساتھ نہایت فطری انداز میں خوب صورتی کے ساتھ ڈھلتے گئے. جس کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہوگی.
خود نوشت کے بیانیے میں کہانی میں سطور و بین السطور غضنفر کے جمالیات سے لبریز محبت و عشق کے فطری جذبے کو ہم نہ صرف محسوس کرسکتے ہیں بلکہ ہمیں سطر در سطر اس لطیف جذبے کی تائید بھی ملتی جائے گی کہ جہاں یہ خوب صورت و دل گداز جذبہ شکست و ریخت کے مراحل میں بھی خرمن کی دبی چنگاری کی طرح دہکتا ہوا محسوس ہوتا رہا وہیں یہ جذبۂ عشق مرکزی کردار کی زندگی کے سخت آزمائشی دور میں بھی کردار کی سرشت میں موجود رہ کر اُسے مصائبِ زمانہ کی تپش سے پگھلنے سے محفوظ رکھتا ہے. خود نوشت "دیکھ لی دنیا ہم نے" میں ادبی سابقین اپنی اپنی زندگیوں کا آئینہ دیکھ سکتے ہیں اور نئی نسل اسے راہ نماے زندگی کے مثل اپنے سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے خد و خال مزید دل کش، حسین، خوب صورت اور بامعنی بنا سکتے ہیں. غضنفر جب خود نوشت لکھتے ہیں تو خود نوشت کے روایتی انداز سے ہٹ کر دل چسپ فطری طرزِتحریر اپنا کر قاری کو اپنے سحر انگیز بیانیے سے باندھ کر رکھ دیتے ہیں. موثر بیانیہ سلیس انداز، منفرد اُسلوبِ نگارش، چھوٹے چھوٹے چست و بامعنی جملے غضنفر کی تحریر کی شناخت میں سے ایک ہیں.
غضنفر نے کم و بیش نو ناول لکھے ہیں. پانی، کینچلی، دویّہ بانی، کہانی انکل، مم، فسوں، وش منتھن، شوراب اور مانجھی…. ہر ناول میں موضوع، کہانی و کرداروں کی مناسبت سے الگ الگ تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے. غضنر کا ہر ناول جہاں تفننِ طبع کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے وہیں اُن کے ہر ناول میں ہمیں باغیانہ تیور و احتجاجی رنگ بھی ضرور دکھائی دیتے ہیں. ناول لکھنے میں جس طرح کی علمی ذہنی و تخلیقی پتہ ماری کا کام ہوا ہے ایسی مثالیں کم کم ہی دیکھنے کے لیے ملتی ہیں. ناولوں کی اس انفرادی شناخت کو معیار عطا کرنے میں یقیناً غضنفر کے خداداد تخلیقی وصف کا، وجدان و مشاہداتی بصیرت کا اور بلا شبہ مطالعہ و زبان و ادب پر ملکہ رکھنے کا بڑا ہاتھ ہے.
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
غضنفر: فن اور شخصیت، یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے. لیکن اس جریدے کے محدود صفحات ہمیں طوالت سے باز رکھنے کے لیے پابند بناتے ہیں کہ ہم نظم و نثر کی آپ کی انفرادی تخلیقی خوبیوں کا اجمالی تذکرہ کریں، ساتھ ہی آپ کی شخصیت کی ہلکی سی جھلک قارئین کو محسوس کراسکیں.
غضنفر اپنے منفرد تخلیقی الہامی جملوں کے سبب ایک صاحبِ اُسلوب ادیب ہیں. غضنفر ہمیں قدما کے تخلیقی اوصاف و معاصرین کے جدت پسند اختراعی ذہن سے دو قدم آگے ہی نظر آتے ہیں. طرزِ کہن سے پہلو تہی کرتے ہوئے عام ڈگر سے ہٹ کر آپ نے افسانوں ناولوں اور غزلوں میں اپنی ایک الگ راہ نکالی اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی.
جب آپ تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھتے ہیں یا کسی موضوع پر مضمون کی شکل میں کوئی موضوع، کوئی نکتہ سمجھاتے ہیں تو آپ بہت ہی دل چسپ طریقہ اختیار کرکے نہایت خوب صورت تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہوئے نیز برمحل ضرب الامثال و محاوروں کا استعمال کرتے ہوئے کسی اُستاد کی طرح تدریسی انداز میں سمجھاتے ہوئے نظرآتے ہیں. کہیں ناصحانہ و واعظانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی بات کو مختلف دلیلوں سے پیش کرتے چلے جاتے ہیں. تو کہیں نہایت سلیس انداز میں اشکالات کی تفہیم اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے بہتا ہوا پانی ضائع نہ ہو کر مٹی میں پورا پورا جذب ہو کر کار آمد بن جائے. یہ غضنفر کی تحریروں کی انفرادیت ہے کہ ہر طرح کی نثر میں ہمیں جا بجا ایسا شاعرانہ وصف دکھائی دیتا ہے جس کی لفظی سحر انگیزی سے قاری کا خود کو بچا پانا بڑا مشکل ہوتا ہے.
افسانہ نگاری میں غضنفر صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں سید محمد اشرف اور سلام بن رزاق کے ساتھ ساتھ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں.
محبت کے رنگ، آبیازہ، پارکنگ ایریا، کڑوا تیل، سائبر اسپیس، سرسوتی اسنان، ایک اور منتھن، حیرت فروش، درد کی کمی کا کرب، خالد کا ختنہ، ڈگڈگی وغیرہ آپ کے مشہور افسانے ہیں.
غضنفر کا ہر افسانہ شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے. آبیاژہ کے اس اقتباس کو دیکھیے:
"تگ و دو کے بعد بھی کنواں جب پیاسوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو کسی گہرائی سے زور دار قہقہے بلند ہوئے۔ جیسے کوئی اپنی طاقت اور دوسرے کی ہزیمت کا احساس دلا رہا ہو۔
پیاس، یاس اور شکست کے احساس نے پیاسوں کو ایسا مضطرب اور مشتعل کیا کہ ان کے چہرے کی زردیوں میں بھی سرخیاں لپلپانے لگیں۔ ان کے اندر کا ہیجان باہر بھی نظر آنے لگا۔ ان کا سراپا ہیبت ناک بن گیا۔"
کیفیت نگاری و منظر نگاری کو ایسا بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو اُن پیاسوں و مضطرب حال لوگوں کی طرح بعینہ محسوس کرتا ہے. کرداروں کے احساسات کو "درشانے" کے لیے کثیر معنوی موثر لفظوں کو چست درست انداز میں نہایت خوب صورتی و چابک دَستی کے ساتھ برتا گیا ہے. آبیاژہ سے ایک مثال یہ بھی پڑھتے چلیں:
"اچانک کوہساری فضا کے سینے سے آبشاری آواز پھوٹ پڑی۔ صحرا زدہ سماعت میں گلستانی صوت و صدا نے آہنگِ سحر ساز بھر دیا."
_کوہساری فضا، آبشاری آواز، صحرا زدہ سماعت، گلستانی صوت و صدا_
واہ کیا بات ہے. تشبیہات کا اس قدر خوب صورت استعمال کم کم ہی افسانہ نگاروں کے یہاں دکھائی دیتا ہے.
زبان کی خوب صورتی کی یہ مثال بھی ملاحظہ فرمائیں:
"آواز کے رکتے ہی خلا کے بطن سے ایک خوب صورت خلد آشیاں مخلوق خندۂ زیرِ لبی کے ساتھ مثلِ خورشید طلوع ہو گئی۔ آن کی آن میں ایک مصفّا، مجلّیٰ، مَنوّر اور مشکبار حسن مداراتِ محبوبانہ میں مشغول ہو گیا۔ رنگ و نور اور کیف و سرور کی بارشیں شروع ہو گئیں۔"
خوب صورت لفظوں کے ذریعے تخلیق کردہ اس منظر کو بھی ملاحظہ کریں:
"جاں فزا نے اپنی پرفسوں آنکھیں جاں نثار کے چہرے پر مرکوز کردیں۔ آفتابی دیدوں سے نکلی نشیلی روشنی کی تیز شعاعیں جاں نثار کو بےقابو کرنے لگیں۔ وفورِ شوق میں اس کی گردن جاں فزا کے چہرے کی طرف جھک آئی مگر جھجھک اب بھی باقی رہی۔ رمز شناس پرستانی دوشیزہ نے آگے بڑھ کر اپنے لب جاں نثار کے ہونٹوں سے ملا دیے۔
جاں نثار نے اپنے اندر شہد کا سا مٹھاس محسوس کیا۔ جاں فزا کی شفاف مخروطی انگلیاں جاں نثار کے جسم پر رقص کرنے لگیں۔ انگلیوں کی تھرکن نے جاں نثار کے رگ و پے میں ارتعاش پیدا کر دیا۔
جاں نثار کے ہونٹ جاں فزا کے لبوں کو چومنے اور چوسنے کے بعد اس کی آبِ رواں جیسی شفّاف رانوں پر اتر آئے اور باری باری سے دونوں رانوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد وہاں سے اٹھ کر جاں فزا کے کھلے ہوئے پستانوں کی سمت لپک پڑے۔ دونوں گولائیوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد جاں نثار کے ہونٹوں نے ایک پستان کے نکیلے حصّے کو اپنے اندر لے لیا اور وہ گرسنہ لب اسے اس طرح چوسنے لگے جیسے کوئی شیر خوار بچّہ اپنی ماں کی چھاتی کو چوستا ہے۔ ایک پستان کے بعد جاں نثار نے دوسرے پستان کو اپنے منہ میں لے لیا۔"
ان چار مناظر کو بھی پڑھتے ہیں جن میں ہم اختصار لفظی کے ذریعے نہ صرف اُن لفظوں کے معنی کو سمجھ جاتے ہیں بلکہ سرعت کے ساتھ ان سارے افعال کو مکمل ہوتا ہوا تصوراتی نظروں سے دیکھتے بھی ہیں، جو افعال اُن دو دو تین لفظوں میں نہایت آسانی سے بیان کردیئے گئے ہیں. یہ دیکھیے:
"پہلے منظر میں ایک مطربہ ابھری۔ اس کے ارد گرد سازندے ابھرے۔ سازندوں کے آگے طرح طرح کے ساز ابھرے۔ سازوں کے تار چھڑے اور تاروں سے جھنکاریں ابھریں۔ جھنکاروں کے ساتھ ہی مطربہ کے لب کھلے اور ان لبوں سے صوت و صدا کے آبشار پھوٹتے چلے گئے۔
دوسرے منظر میں ایک رقاصہ نمودار ہوئی۔ گھونگھرو چھنکے۔ کولھے مٹکے، ٹھمکے برسے۔ کمر لچکی۔ لوچ کے تیر چلے۔ دیدے چمکے۔ پتلیاں ناچیں۔ آنکھوں سے آندھیاں اٹھیں۔ کرشمے نکلے۔ غمزے برسے۔ بھنووں کی کمانی تنیں۔ بھاؤں کے بھید کھلے۔ اداؤں کے بان چھوٹے۔
تیسرے منظر میں جادو دکھا۔ کوزے میں دریا سمٹا۔ بوتل میں جن اترا۔ مٹھی سے کبوتر نکلا۔ خالی ڈبّا مٹھائی سے بھرا۔ آگ میں پھول کھلا۔ آب میں شعلہ اگا۔ مرد عورت بنا۔ آدمی خلا میں معلق ہوا۔
چوتھے میں کھیلوں کا رنگ جما۔ بازیوں کا زور چلا۔ بلّے چلے۔ گیندیں اچھلیں۔ تلواریں چلیں۔ تیر چھوٹے، قلابازیاں ہوئیں۔ دوڑ لگی، گھوڑے دوڑے۔ ہاتھی دوڑے۔ مرد دوڑے۔ عورتیں دوڑیں۔ زور آزمائی ہوئی۔ پہلوان لڑے۔ جسم بھڑے۔ پانی میں پیراکیاں ہوئیں۔ ڈبکیاں لگیں۔ لڑکیاں مچھلیاں بنیں۔ گورے چٹّے، دبلے پتلے، چھریرے چھریرے جسم تیرے۔ کھلے کھلے اعضا چمکے۔
پانچویں منظر میں سائنس کے کمالات و ایجادات کا مظاہرہ ہوا۔ میزائلیں چھوٹیں۔ خلا میں تیارے اڑے۔ چاند ستاروں اور سیّاروں کا سیر ہوا۔ قطبیں ملیں۔ فاصلے مٹے۔ زمین آسمان ایک ہوئے۔
چھٹے منظر میں ادب کو منظر میں لایا گیا۔ کہانیاں کہی گئیں۔ تجسّس بڑھایا گیا۔ تخئل کو اڑایا گیا۔ جذبۂ شوق کو جگایا گیا۔ شدّتِ احساس کو بڑھایا گیا۔ لطف و انبساط کا دریا بہایا گیا۔"
یہ تو ہوئی زبان و بیان کی خوب صورتی کی مثالیں، تشبیہات کے برمحل استعمال اور استعاراتی زبان کی مثال.
غضنفر اپنے افسانے میں بہ حیثیت راوی راست طور پر سماجی مصلح بن کر وعظ و نصیحت نہیں کرتے بلکہ وہ کرداروں کے ذریعے کہانی کے اُتار چڑھاو کے ذریعے اپنے افسانے میں احتجاجی رنگ اپناتے ہیں. سامراجیت و ظلم و استبداد کے خلاف حق تلفیوں و نا انصافیوں کے خلاف آپ اپنے افسانوں میں اپنے کرداروں کی زبانی اپنا موقف رکھتے ہوئے افسانوں کے اختتام پر قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں. کڑوا تیل اور سرسوتی انسان، یہ افسانے اس کی بہترین مثالیں ہیں.
"گرم تیل اور خلوص میں ڈوبی ثمینہ کی نرم گرم انگلیاں میرے مضطرب سینے پر تیزی سے پھرنے لگیں۔ آہستہ آہستہ درد سرکنے لگا۔ درد مند انگلیوں کے خلوص نے میری نگاہوں میں ایک پیکر ابھار دیا۔ یہ وہ پیکر تھا جو اکثر ایسے موقعوں پر میرے پاس سمٹ آتا تھا اور جس کے آتے ہی درد سرک کر کہیں دور چلا جاتا تھا۔ اس پیکر کا لمس رگ و ریشے میں سکھ بھر دیتا تھا۔ یہ وہ پیکر تھا جو ایک حادثے میں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا تھا اور مجھے اپنے قرب سے ہمیشہ کے لیے محروم کر گیا تھا۔
ممتا اور محبت کے اس پیکر کے کھونے اور اپنے خالی ہو جانے کا سارا کرب میری آنکھوں میں سمٹ آیا۔روشن دیدوں میں پانی بھر آیا۔ پیکر اس پانی میں ڈوب گیا۔ دیر تک میں رومال سے نم آلود اور بوجھل پلکوں کو صاف کرتا رہا۔ رومال ہٹا تو میری نگاہوں نے دیکھا کہ ثمینہ کی نظریں میری آنکھوں پر مرکوز تھیں۔ وہ یک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی جیسے وہ کچھ تلاش کر رہی ہو اور اس کی نرم گرم انگلیاں اور بھی مستعدی سے میرے۔
سینے پر پھر رہی تھیں۔ اس کی متلاشی آنکھیں اور رقص کناں انگلیاں دونوں مجھے اچھی لگیں۔ میری نگاہیں متلاشی آنکھوں پر مرکوز ہو گئیں۔ اس بار وہ مجھے پراسرار بھی لگیں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا جیسے وہ میرے اندر اترتی جا رہی ہوں اور شاید کچھ کہنا بھی چاہ رہی ہوں۔ میں دیر تک ثمینہ کی آنکھوں کی پراسراریت کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اچانک میرے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے خیالات ابھرنے لگے۔ پہلے تو میں ان خیالوں کو ادھر ادھر جھٹکتا رہا۔ بعد میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم اس کمرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارے اردگرد کی ایک ایک چیز کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔"(افسانہ:محبت کے رنگ)
اس افسانے کا یہ طویل اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اس میں افسانوی رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے. ایک موجودہ منظر سے کردار کے تصور سے فلیش بیک میں ایک دوسرا منظر اُبھرتا ہے جس میں دو جملے میں ہی کردار کی اپنی بیوی سے محرومی کی اور اُس کی شدید یاد کو بیان کردیا گیا ہے. افسانے کے کردار کے تخیلاتی انداز میں ہی کہانی آگے بڑھتی ہے، نہایت فن کاری سی کئی طرح کے ملے جُلے جذبات کا اظہار بھی ہوتا ہے. یہ اقتباس بہترین افسانے کا بہترین نمونہ ہے.
صاحب زادے! آپ کافی ذہین معلوم ہوتے ہیں اور قیافہ شناس بھی۔ اس لیے اب آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا اور بولوں گا بھی تو آپ یقیناً اس جھوٹ میں چھپے سچ کو جان لیں گے۔ سچ یہ ہے برخوردار کہ تنگی نے مجھے فلیٹ سے اتار کر اس پارکنگ میں پہنچا دیا ہے۔ اگر دیر تک میں اوپر کمرے میں رہتا ہوں تو میرے پوتے پوتیوں کی پڑھائی اور ان کی پرائیویسی دونوں متاثر ہوتی ہیں اور میں نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتا ہوں۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں جو کہنے کے لیے تو مرا کمرہ ہے مگر وہ ڈرائنگ روم بھی ہے اور اسٹڈی روم بھی، بہت کم جاتا ہوں اور اس وقت جاتا ہوں جب میرا وہاں جانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور زیادہ وقت یہاں بتاتا ہوں۔ مانا کہ یہاں صفائی کم ہے۔ آس پاس میں کوڑا کباڑ بھی پڑا ہوا ہے جس کی طرف آپ کی نظریں بار بار چلی جارہی ہیں، پھر بھی یہاں دم نہیں گھٹتا بلکہ کھلا پن محسوس ہوتا ہے اور اوپر کے مقابلے میں یہاں بیٹھنا بھی اچھا لگتا ہے کہ آتے جاتے کچھ لوگوں سے سلام دعا بھی ہوجاتی ہے۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ ایک دم سے خاموش ہو گئے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان کی آنکھوں میں کچھ اتر آیا ہو۔" [افسانہ:پارکنگ ایریا)
اس اقتباس میں اپنے بزرگوں سے نئی نسل کی بےاعتنائی کو بتایا گیا ہے. نئی نسل جسے اپنے پُرکھوں کی زمین و گھر کی قدر نہیں ہے بلکہ نئی نسل سیلف اورینٹیڈ ہوکر پیسہ کمانے کی ہوڑ میں ایسے لگی کہ اٌنہیں اپنے بوڑھے ماں باپ کی نم آلود آنکھوں میں موجود اپنی اولاد سے محبت کی جھلملاتی طلب بھی دکھائی نہیں دیتی… بوڑھے ماں باپ کی حیثیت اس دورِ جدید میں کسی سامان ہی کی طرح ہے…. اس افسانے میں اسی کرب کو کمال فن کاری سے تخلیق کیا گیا ہے…
غضنفر کے افسانوں میں افسانوی فضا پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتی ہے. حشو و زوائد سے صاف بچتے ہوئے کہانی و بیانیہ جامعیت و سلاست کے ساتھ ہر افسانے کی ضرورت کے مطابق اختتام تک پہنچتا ہے.. افسانوں میں بین المتن بھی اشاروں کنائیوں میں کبھی، تو کبھی تلمیحی انداز میں آپ کافی بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں. آپ کے افسانوں میں یک سطحی سپاٹ سی کردار نگاری نہیں ہوتی. کردار کثیر جہات کے حامل ہوتے ہیں. افسانوں میں موجود کہانی میں کہانی پن موجود ہونا کہانیوں کے واقعات کا اپنے آپ میں داخلی و منطقی جواز لیے رہنا آپ کے افسانوں کی خوبیاں ہیں. آپ کے افسانے اپنے واقعات کی بہترین تنظیم کے لے اور سطر در سطر بڑھتی کہانی میں تجسس کے مراحل کو چابک دَستی سے برتنے کی فن کاری کے لیے جانے جاتے ہیں. زبان و بیان کی خوب صورتی آپ کے افسانوں کی بنیادی پہچان ہیں.
غرض کہ غضنفر نام ہے ایک عہد ساز شخصیت کا. یہ سنگل نام بڑا محترم سا ہے، بڑا معتبر سا ہے، عموماً رائٹرز کے ڈبل نام سننے اور پڑھنے کی برسوں سے ہم سب کی عادت پڑی تھی. کلاسیک دَور سے ترقی پسند دَور تک اور ابھی جب کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے علوم ہماری دسترس میں ہیں، تخلیقی ذہن ان پلیٹ فارم سے بھی ہر روز بہرہ ور ہوہی رہے ہیں. بالخصوص کم و بیش پندرہ سترہ برسوں سے قلم کاروں کی نئی نئی کھیپ ہر سال ہمارے سامنے آتی جارہی ہے. ان کے ساتھ ساتھ بھی اور اپنے معاصرین میں بھی غضنفر صاحب واقعتاً اپنی ایک منفرد چھاپ بنائے ہوئے ہیں. ہمیں یہ کہنے میں کچھ تامل نہیں کہ جملہ اصناف سخن آپ کے حضور دست بستہ مودب رہتے ہیں اور گویا غضنفر صاحب کو مخاطب کرتے رہتے ہیں کہ خدارا ہمیں بَرت کر ہمیں بھی ادبی تاریخ میں جاوداں کردو.. شاعری و ثر میں جس موضوع کو بھی آپ اپنے قلم کی زینت بناتے ہیں، اُس موضوع پر آپ سے پہلے ویسا منفرد و اچھوتا کام کم ہی کیا گیا ہے. لفظوں کے خوب صورت و ساحرانہ استعمال کا فن آپ اس خوبی سے کرتے ہیں کہ آپ کی ہر تخلیق میں ہم طالب علموں کو بھی اور معاف کرنا ادب کے بیشتر اساتذہ کو بھی نئے نئے لفظوں سے آشنائی ہوتی ہے. غضنفرصاحب واقعتاً ادبی کائنات کے اسم بامسمی شیر ہیں. بَس یہی کہنا ہے کہ غضنفر صاحب کے زرخیز و تخلیقی ذہن کی Multiple windows ہمیشہ کھلی رہتی ہیں. جن میں حمد، مناجات، نعت، مرثیہ، نظمیں، غزل، مثنوی، رباعی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، سوانح نگاری، تحقیق، تنقید، کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی اور گھریلو زندگی کو بھی پیرالل کس معیار و مرتبے سے برتا جائے کہ کبھی بھی بلا تفریق نہ حسن سلوک کا وطیرہ چھوٹے اور نہ ہی آپ کے ادبی وقار کو کسی طرح کا دھچکا لگے…قدرے نکلتا ہوا قد، صحت مند جسم، جو چیخ چیخ کر یہ اعلان کرے کہ یہ صحت مندی، سلامتی، چاندی کی طشتری میں یوں ہی پیش نہیں کردی گئی اس ذہنی و جسمانی توازن کو برقرار رکھنے میں شعوری و لاشعوری طور پر اکثر اسے مینٹین رکھا جاتا رہا ہے. گھنے بال، ستواں ناک، چشمے سے جھانکتی تفکر آمیز بڑی بڑی آنکھیں، گیہواں رنگت، سینس آف ڈریسنگ، نہایت عمدہ قمیص پینٹ زیب تن کریں، موسم کی مناسبت سے ٹی شرٹ پہن لیں یا سوٹ میں اکثر دکھائی دیں تو دیکھنے والوں کو یہی لگے کہ غضنفر صاحب پر ہر طرح کی ڈریسنگ خوب جچتی ہے. نرم دَمِ گفتگو گرم دمِ جستجو کی بہترین مثال ہے آپ کی شخصیت. روبرو کسی سے ہم کلام ہوں یا فون پر کسی سے بات چیت کریں دھیمی آواز اور دھیما لب و لہجہ، نپا تُلا انداز، مخاطب اگر عمر میں چھوٹا ہے تو اپنے مخاطب کو کوئی بات سمجھانے کا مشفقانہ و ناصحانہ انداز. مزاج شناسی و مردم شناسی ایسی کہ اپنے متعلقین کو لفظوں کے زیاں سے بچتے ہوئے ہمیشہ اُن کے Caliber کے ہی مطابق گفتگو کرنا. ادبی و سماجی تقاریب میں جب اپنی تقریر کے لیے ڈائس تک آتے ہیں یا مہمانوں سے مصافحہ کرتے ہیں تو آپ کے انٹرایکشن کا انداز ہو یا آپ کے چلنے کا انداز ہو، باڈی لینگویج اس قدر متاثر کن، پوری شخصیت کا پرتمکنت وقار اُبھر ابھر کر حاضرین کے سامنے اپنا بہترین و باوقار تعارف خود بن جائے. غضنفر صاحب کی یہ دو خوبیاں بھی کافی معنی خیز و متاثر کن ہیں. ایک تو حالات کے پیش نظر موقع و محل کی مناسبت سے اَن ڈیزرونگز کے سامنے اوڑھ لی جانے والی پراسرار سی سنجیدگی بھری خاموشی یا کم گوئی. دوسری خوبی آپ کی صاف گوئی ہے. کسی کے علمی و سماجی قد سے مرعوب ہوئے بنا ببانگ دہل اپنا مدعا رکھنے کا آپ کا اپنا ہی ایک منفرد انداز ہے. آپ کو قلم کا سچا سپاہی کہنا زیادہ درست ہے. اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ جب آپ اپنے قلم سے قدروں و رشتوں کی پاس داری کی تلقین کرتے ہیں تو وہیں آپ اپنے گھر میں اپنی بیوی بچوں کے حقوق کو عملی طور پر احسن طرح سے ادا کرنے کی عملی تفسیر ہیں. کسی تنگ نظری یا ظرف کی کمی کے سبب جب آپ سے کوئی تلخ کلامی کی کوشش کرتا ہے تو آپ اپنی گہری خاموشی و معنی خیز مسکراہٹ سے اُنھیں جواب دینا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں. اپنے تخلیقی، علمی و گھریلو کام پر فوکسڈ رہنے والی فعال چاک و چوبند وضع دار شخصیت کا پورا نام ہے غضنفر علی. مہذب، صلح جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی و رہ نمائی کرنے والی محترم و مقبول شخصیت کا نام ہے غضنفر. گھر و ادبی شعبے کی سرگرمیوں کو توازن میں رکھنے کی فکر ہمہ وقت ان ملٹی ونڈوز میں ایکٹیو رہتی ہے. ایک زندگی میں کوئی شخص آخر اتنا سارا منفرد، معتبر و معیاری کام بھلا کیسے کرسکتا ہے.. بہر کیف دل کی آواز کو تائیدِ غیبی ملتی ہے کہ اس وصف کو پانے کے لیے پھر ہمیں غضنفر(صاحب) بننا پڑے گا. جو ہم جیسے ہزاروں طالب علموں کے لیے اس لیے قدرے مشکل ہے کہ غضنفر (صاحب) جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے. بہرحال متین و بردبار باوقار شخصیت، مشفقانہ لب و لہجہ، بصیرت افروز شخصیت، ادبی تخلیقی کام میں کبھی نہ تھکنے والے، صاف گو و خود داری سے متصف ایسی شخصیت کے عہد میں ہم طالب علموں کو جو ادبی زندگی میسر ہوئی ہے اس پر ہمیں فخر ہے کہ ہم نے غضنفر (صاحب) کے زریں ادبی دَور کو جیا ہے. اللہ پاک آپ محترم کو مع اہل و عیال تادیر سلامت رکھے. آمین یارب العالمین.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے