راکیش دلبرؔ سلطان پوری کا منفرد شعری لہجہ

راکیش دلبرؔ سلطان پوری کا منفرد شعری لہجہ

طفیل احمد مصباحی

اردو کی شعری روایات میں غزل سب سے مقبول، توانا، مستحکم اور ہر دل عزیز صنفِ سخن ہے۔ غزل نے روزِ اول سے عوام و خواص ہر طبقے کو مسحور و متاثر کیا ہے اور اس کی دل کشی و رعنائی اور شبنمی لہجوں نے سب کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اس کی شہرت و مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ اس کے اندر لچک، وسعت اور اس کے مضامین و موضوعات میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ رمز و کنایہ اور ایمائیت اس کی نمایاں شناخت ہے۔ یہ مقبول ترین صنفِ سخن محض عشق و وارفتگی، ہجر و وصال، نغمہ و بلبل اور شراب و شباب کا بیانیہ نہیں، بلکہ اس میں حیات و کائنات کے انگنت مسائل و موضوعات شامل ہیں، جیسا کہ خواجہ الطاف حسین حالؔی نے "مقدمۂ شعر و شاعری" میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ غمِ جاناں سے لے کر غمِ دوراں تک اور آپ بیتی سے لے کر جگ بیتی تک اس کے قلمرو میں داخل ہے۔ یہی وسعت و ہمہ گیری اس کی شہرت و مقبولیت کا راز ہے اور اسی باعث غزل کو اردو کی شعری روایتوں میں سب سے اہم، دل چسپ اور مستحکم ترین روایت قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بیان کے مطابق: اردو کی شعری روایتوں میں اگر کوئی روایت فی الواقع زندہ ہے تو وہ صرف غزل کی روایت ہے۔ غزل کو اردو کی زندہ شعری روایت قرار دینے سے میری مراد یہ ہے کہ یوں تو اصنافِ شعر کے تعلق سے کئی روایتوں کے نام لیے جاسکتے ہیں، لیکن اردو شاعری کی جو روایت بہ طریقِ احسن مسلسل آگے بڑھتی رہی، روز بروز مستحکم ہوتی رہی، حلقۂ خاص و عام میں اپنی جگہ بناتی گئی، دلوں میں گھر کرتی رہی اور نہاں خانۂ دل کے بھیدوں سے لے کر خارجی ہنگاموں تک حیاتِ انسانی کے جملہ محسوسات و مسائل کی ترجمانی کا حق ادا کرتی رہی، وہ غزل اور صرف غزل کی روایت ہے۔ اردو غزل نے پچھلی کئی صدیاں دیکھی ہیں اور سیاسی و سماجی زندگی کے سیکڑوں نشیب و فراز سے گزر کر رتبۂ اعتبار کو پہنچی ہے، اخذ و اظہار کی غیر معمولی طبعی صلاحیت رکھنے کے سبب موافق و ناموافق ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی جب کہ سرسید احمد خاں کی ادب میں اصلاحی تحریک کے زیر اثر مولانا حالؔی نے "مقدمۂ شعر و شاعری" میں اسے سخت طعن و تعریض کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں دو پٹھان شاعروں عظمت اللہ خاں اور شبیر حسن خاں جوشؔ نے اسے گردن زدنی قرار دیا، اس وقت بھی غزل اپنی تازہ کاری و سحر آفرینی کی بدولت نہ صرف یہ کہ ان کے نرغے سے بچ نکلی، بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بار پھر کچھ اس طرح سامنے آ گئی کہ ترقی پسند تحریک کے نظم گو شعرا کا ہجوم بھی اس کاراستہ نہ روک سکا۔ نتیجتًا غمِ جاناں سے آگے بڑھ کر غمِ روزگار کے اظہار میں بھی وہ نظم کی مد مقابل اور حریف بن گئی۔
(اردو غزل، نعت اور مثنوی، ص: ۱۱، الوقار پبلیکیشنز، لاہور)
راکیش دلبرؔ سلطان پوری ایک قادر الکلام، پُر گو اور خوش فکر شاعر ہیں۔ عہدِ حاضر نے جن با کمال غزل گو شعرا کو وجود بخشا ہے، وہ ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری میں ساحری اور طلسمِ سامری کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان کا شعور پختہ، حِس بیدار، قوتِ متخیلہ بلند پرواز اور اسلوبِ بیان شگفتہ و تراشیدہ ہے۔ ان کا منفرد شعری لہجہ قاری و سامع کو متاثر کرنے کے ساتھ انسانی ذہن و فکر کو اپیل کرتا ہے۔ ان کی غزلیات میں فرحت و مسرت کے ساتھ لطافت و نفاست اور بصیرت بھی پائی جاتی ہے۔ ادبی و فنی نقطۂ نظر سے ان کی غزلیہ شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں، جو کامیاب شاعری کا طرۂ امتیاز و افتخار ہیں۔ مواد و ہیئت کا حسنِ امتزاج راکیش دلبرؔ کی شاعری کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے اور ان کو کامیاب شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔
حسن و عشق کی سچائی اور مچلتے جذبات و احساسات کی فراوانی، شاعر کو اعلا درجے کی شعری تخلیق پر ابھارتی ہے۔ راکیش رہبرؔ کے یہاں حسن کی رعنائی بھی ہے اور عشق کی جلوہ سامانی بھی، مچلتے جذبات کا قیمتی سرمایہ بھی ہے اور دھڑکتے احساسات کا روح پرور نظارہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، براہِ راست دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ راکیش دلبرؔ کی شاعری "دلبری" کی غماز ہے۔ ان کی شاعری میں عشق و عاشقی اور دلبری و دل بستگی کے خط و خال نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو "خانقاہِ عشق کا مریدِ اول" گردانتے ہیں اور عشق و وارفتگی کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیں :

کوزہ گر کون سی مٹی سے بنایا مجھ کو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آیا مجھ کو

عشق میں اک نئی ایجاد کہے گی دنیا
تم کو مٹی تو مجھے کھاد کہے گی دنیا

نسب میں کوئی نہ کوئی جنون زادہ رہا
یہ کارِ عشق مرا شوقِ خانوادہ رہا

ہمارے دل پہ اچانک دباؤ ڈال دیا
جنابِ عشق نے آ کر پڑاؤ ڈال دیا

ہم خانقاہِ عشق کے پہلے مرید ہیں
مجنوں کا تو ادھر سے گزر بعد میں ہوا

وہ عشق نام کا رہتا ہے اک ولی اس میں
ہم اپنے سینے میں پھرتے ہیں اک مزار لیے

راکیش دلبرؔ کے شعری موضوعات کثیر ہیں۔ تاہم ان کی رومان پرور طبیعت زیادہ تر بارگاہِ حسن و عشق کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ حسن و عشق، لوازماتِ عشق، ان کے انفرادی تصورات و تجربات اور عاشق و معشوق کی ذاتی نفسیات کا شائستہ و شگفتہ بیان، ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان کا تصورِ حسن و عشق پاکیزہ اور اعلا و ارفع ہے، جس میں جذب و کیف، دیوانگی و بے خودی اور سرمستی و سرشاری کی لہریں ان کی شاعری میں امتیازی شان اور جمالیاتی سماں پیدا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی زنبیلِ سخن میں خارجی رجحانات و میلانات اور حیات و کائنات کے مسائل و موضوعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہ امن و آشتی، خیر سگالی، قومی یکجہتی اور مشربِ صلح کل کے فکری و عملی ترجمان ہیں۔ ان کی شاعری میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بعض اوقات ان کی شاعری "پیامی شاعری" کا روپ دھار لیتی ہے۔ وہ قوم کو انسانیت، مروت، اخلاقیات اور بھائی چارگی کا پیغام بھی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی اور قومی یک جہتی کے عناصر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
راکیش دلبرؔ کے یہاں شوکتِ لفظی، رفعتِ معنوی، جدتِ فن، ندرتِ اسلوب اور لہجے میں نیا پن کے ساتھ مجموعی طور پر شعری ہنر مندی پائی جاتی ہے۔ "قرینۂ اظہار" ایک اعلا ادبی و تخلیقی صلاحیت ہے، جو ہر کس و نا کس کو میسر نہیں ہوتی۔ لیکن دلبرؔ کو عروسِ سخن کی یہ دلبری بھی حاصل ہے۔ زبیرؔ گورکھ پوری کی اس بات میں بڑی حد تک سچائی ہے، جو انھوں نے راکیش دلبرؔ کے بارے میں کہی ہے:
تیرے لہجے میں نیا پن ہے ترے اشعار میں
شوکتِ لفظی نہیں ایسی کسی فنکار میں
خوشنما پھولوں کی نرمی ہے تری گفتار میں
تیرے جیسے کم ہیں اب اردو کے اس گلزار میں

تونے اپنی زندگی اردوؔ پر جو قربان کی
اک نئی تاریخ لکھ دی تو نے ہندستان کی

راکیش دلبرؔ کی شاعری میں روایت کے ساتھ درایت اور کلاسیکیت کے ساتھ جدت پائی جاتی ہے۔ ان کے شعری لہجے کی انفرادیت سے راقم الحروف کافی متاثر ہوا۔ خود ان کو بھی اپنے انفرادی لہجے کا احساس ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں:

اِسی لیے تو نئے زاویے سے سوچا اسے
غزل کے شعر میں ندرت پسند ہے مجھ کو

کچھ مفاہیم نئے اور ردیفیں مجھ کو
چند غزلوں پہ نہیں دیتیں قناعت کرنے

فکر و خیال اکثر پرانے، دور از کار اور بوسیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن فنکار کا رواں دواں انفرادی اسلوب، خیال و فکر کی قدامت میں جدت و ندرت کا رنگ گھول دیتا ہے۔ راکیش دلبرؔ کے کلام میں خیال کی بلندی کے ساتھ "تعبیر کی عمدگی" بھی پائی جاتی ہے۔ اس وصف سے متصف ذیل کے یہ اشعار ان کی مہارتِ فن، جدتِ اسلوب اور تعبیر کی عمدگی کو اجاگر کرتے ہیں:

سنوارتے نہیں کیوں چہرۂ خلوص کبھی
سنا ہے تم نے بہت آئینے لگائے ہیں

اُگیں گے دیکھنا اک روز روشنی کے شجر
یہاں زمین میں ہم نے دیے لگائے ہیں

بيماریِ خلوص نے مجھ کو جھکا دیا
حالاں کہ اس نے تو قدِ بالا دیا مجھے

جب اس کگار پہ دنیا نے لا دیا رشتہ
تو اس کو خانۂ رسمِ طلاق میں رکھ دے

نواحِ شہر تمنا میں اب اندھیرا ہے
کوئی چراغ درِ اشتیاق میں رکھ دے

عصری حسیت:
حالاتِ حاضرہ کی عکاسی، سماجی نا ہمواریوں کی آئینہ داری، اور روز مرہ احوالِ زندگانی کی ترجمانی "عصری حسیت" کہلاتی ہے اور یہ با وقار اور کامیاب شاعری کی علامت ہے۔ ایک عظیم شاعر جو با مقصد شاعری کے خوگر ہوتے ہیں، وہ عصری حسیت کے زیور سے بھی اپنے کلام کو مرصع کرتے ہیں، جس سے اس کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے اور قارئین دل چسپی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ عصری حسیت پر مبنی راکیش دلبرؔ کے مندرجہ ذیل اشعار بڑے معنی خیز اور فکر انگیز ہیں:

ہمیشہ لوگوں کو دعوت پہ تم بلاتے ہو
بتاؤ ان میں سے کتنے نمک حلال ہوئے

شجر لگائے تھے جن راستوں پہ ہم نے کبھی
مسافرت میں وہی راستے محال ہوئے

میں جس کے واسطے کبھی تریاق تھا یہاں
اس شخص نے ہی زہر کا پیالا دیا مجھے

بڑے ادب، بڑی حکمت کے ساتھ ہو رہا ہے
یہاں گناہ بھی عزت کے ساتھ ہو رہا ہے

یقین کیجیے نفرت ہی ہوگا ردِ عمل
سلوک اب جو محبت کے ساتھ ہو رہا ہے

مکینِ خلد ہی دوزخ بنا رہے ہیں اسے
عجیب سانحہ جنّت کے ساتھ ہو رہا ہے

جنون پہنچا ہے اب کس مقام پر دلبرؔ!
خرد کا کام بھی وحشت کے ساتھ ہو رہا ہے

خزاں کو راہ دکھانے میں سب سے آگے تھے
جو لوگ آئے ہیں اب شکوۂ بَہار لیے

یوں بڑھنے لگی شہر میں بے شرموں کی تعداد
دامانِ حیا لگتا ہے پھٹ جائے گا اک دن

پارۂ غزل :
مجموعۂ غزلیات "پارۂ غزل" گویا راکیش دلبرؔ کا "پارۂ دل" اور "پارۂ جگر" ہے، جس کی آبیاری انہوں نے اپنے خونِ جگر سے کی ہے اور قرطاسِ شعر و ادب کو لالہ زار بنایا ہے۔ اس مجموعے میں شامل غزلیات میں سے ہر غزل میں دو تین شعر آپ کو ایسے ضرور ملیں گے جو "لائقِ انتخاب" ہیں۔ چند منتخب اشعار پیش کر کے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں:

دنیا پہ میرے فن کا اثر بعد میں ہوا
پہلے تو عیب تھا یہ، ہنر بعد میں ہوا

برسوں سراب بن کے رہا میری آنکھ میں
اک شخص وہ جو دیدۂ تر بعد میں ہوا

صحبت میں میری تھا تو کشادہ تھی اس کی فکر
وہ تنگ ذہن، تنگ نظر بعد میں ہوا

کب کہا سورج نے کھل کر دشمنی مت کیجیے
چھپ کے لیکن جگنوؤں کی پیروی مت کیجیے

زخم کی زد میں بدن آجائے گا ہاتھوں کے ساتھ
پتھروں میں رہ کے آئینہ گری مت کیجیے

اس سے پہلے بھی ہوئی ہے کتنوں کی مجروح پیاس
منحصر ان بادلوں پر تشنگی مت کیجیے

دوسروں کے دکھ میں بھی ہو جائیے کچھ دن شریک
زندگی اپنی برائے زندگی مت کیجیے

یہاں کسی کو کہاں فکر خود شناسی ہے
ہر ایک شکل فقط آئینے کی پیاسی ہے

یوں بڑھنے لگی شہر میں بے شرموں کی تعداد
دامانِ حیا لگتا ہے پھٹ جائے گا اک دن

رہتا ہے بڑا بننے میں خطرہ یہ ہمیشہ
معلوم تھا قد آپ کا گھٹ جائے گا اک دن

زندگی میں ترے وعدوں پہ یقیں کیسے کروں
جب کوئی دن تیرا میعاد میں موجود نہیں

بہت سنا تھا مگر اب ہوا یقیں مجھ کو
خراب وقت کبھی بول کر نہیں آتا

دعا کے ساتھ دوا بھی بہت ضروری ہے
اگر درخت پہ تیرے ثمر نہیں آتا

فنِ غزل مرے فطری عمل کا حصہ ہے
ہمیشہ سیکھ کے ہر اک ہنر نہیں آتا
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :شادؔ عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ‘ظہورِ رحمت` کے تناظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے