کتاب : مرشد آباد کا تاریخی و ادبی منظر نامہ

کتاب : مرشد آباد کا تاریخی و ادبی منظر نامہ

(١٨ ویں صدی سے ٢٠١٨ تک)
مصنف: سید آصف عباس میرزا
سال اشاعت: ٢٠٢٢
صفحات : ٣٠٤
قیمت : ٢٠٠ روپے
تبصرہ: طیب فرقانی
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف سید آصف عباس میرزا سے کئی ملاقاتیں اور باتیں رہی ہیں. وہ میری ہی طرح اسکول ٹیچر ہیں اور ایک برس قبل تک وہ مغربی بنگال کے ضلع اتردیناج پور کے کرن دیگھی بلاک کے راشا گھووا ہائی اسکول میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، ان دنوں وہ کولکاتا شہر کے آس پاس رہتے ہیں. ان کا تعلق مرشد آباد کے نظامت خاندان سے ہے. بنگال، بہار، اور اڑیسہ کے آخری ناظم فریدون جاہ کے پڑپوتے ہیں. ہم نے ایک ساتھ کئی سیمینار میں مقالے پڑھے ہیں، مئی (٢٠٢٣) میں ان سے ہگلی محسن کالج میں ملاقات ہوئی تو انھوں مجھے اپنی قیمتی کتاب دی. اسی کتاب سے معلوم ہوا کہ موصوف شاعر بھی ہیں اور ڈراما نگار بھی.
جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ شہر مرشد آباد کا تاریخی اور ادبی منظر نامہ ہے. اور اس کا ٹائم فریم ١٨ویں صدی سے ٢٠١٨ تک کا ہے. یہی وجہ ہے کہ نجفی شاہی خاندان کا ذکر ٢٠١٤ میں سپریم کورٹ کے جسٹس رنجن گوگوئی کے ایک تاریخی فیصلے تک چلا آتا ہے.
مرشد آباد کو اورنگ زیب عالم گیر کے دیوانِ بنگالہ مرشد قلی خان نے بسایا تھا. رانی کیتکی کے مصنف انشاء اللہ خان انشاء یہیں پیدا ہوئے اور قریب بیس برس یہیں رہے. ان کے علاوہ دہلی، لکھنو اور فورٹ ولیم کالج سے متعلق ادبا و شعرا یہاں آتے جاتے رہے ہیں اور تصنیف و تالیف کے کارنامے انجام دیے. دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، مصطفی آباد (رام پور) اور عظیم آباد (پٹنہ) کی طرح کبھی یہ شہر بھی معاشی خوش حالی اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے. مصنف کی یہ بات درست ہے کہ حیرت کی بات ہے شہر مرشد آباد کو اردو ادب کی تاریخ میں وہ توجہ نہ ملی جس کا وہ حق دار تھا.
پلاسی کی جنگ کے بعد سے اس شہر کا عروج پہلے تھما پھر زوال پذیر ہوگیا. نوابی سے نظامت اور نظامت سے رئیسی پر اسے قناعت کرنا پڑا. اس سلسلے میں لکھتے ہوئے مصنف نے بڑے صبر و شکیبائی سے کام لیا ہے. پھر بھی ان کا درد چھلک جاتا ہے. ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں :
"۱۸۸۰ء میں صوبہ بنگالہ کے آخری ناظم سید منصور علی خان فریدون جاه انگلستان میں”ناظم" کے موروثی عہدہ سے دست بردار ہوئے اور عہدہ ناظمی "نواب بہادر آف مرشد آباد" کے محدود دائرے میں سمٹ گئی۔ نواب فریدون جاہ کے بڑے لڑکے سید حسن علی میرزا نے تین لاکھ بیس ہزار روپے کا سالانہ وظیفہ اور مرشد آباد اسٹیٹ کے انتظام کو قبول کر لیا اور مرشد آباد کے پہلے نواب بہادر بنائے گئے اور اس طرح بنگال، بہار و اڑیسہ کے ناظم شہر مرشد آباد کے رئیس ہو کر رہ گئے۔" (ص: ٢٠٣)
اس کتاب میں عرض مصنف کے بعد درج ذیل سات ابواب ہیں:
(١) نجفی شاہی خاندان اور مرشد آباد
(٢) صوبہ بنگالہ کی گدی نشیں بیگمات اور مرشد آباد
(٣) مرشد آباد کے قابل ذکر شعرا: آغاز تا حال
(٤) مرشد آباد میں اردو ڈراما نگاری: تاریخ و تجزیہ
(٥) مرشد آباد میں نثر نگاری کی روایت: آغاز تا حال
(٦) مرشد آباد کی خواتین قلم کار و شاعرات : آغاز تا حال
(٧) مرشد آباد میں رثائی ادب: آغاز تا حال
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتاب میں شاہی تاریخی حصہ کم اور ادبی لسانی تاریخ کا حصہ زیادہ ہے. مرشد آباد میں فارسی اور اردو زبان و ادب کی سرپرستی شاہی خاندان نے ہی کی اس لیے ان کی تاریخ کا بیان ضروری قرار پایا ورنہ اس کتاب کو مرشد آباد میں ١٧ویں صدی تا حال فارسی اور اردو زبان و ادب کا ہی منظرنامہ سمجھنا چاہیے. فارسی زبان کا ذکر ضمناً آیا ہے، مثلاً اردو تذکرہ نگاری سے قبل کا منظر نامہ یا ان شعرا کا ذکر جنھیں فارسی میں بھی قدرت حاصل تھی. قابل ذکر ہے کہ مرشد آباد کے شاہی خاندان کے افراد خود بھی شعر و ادب کا ذوق رکھتے تھے اور مصنف نے ان کے نمونۂ کلام بھی پیش کیے ہیں.
شعرا کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے ان کی مختصر سوانح، ادبی خدمات اور نمونہ کلام پیش کیا ہے. اس باب میں ٩٩ شعرا کا خصوصی ذکر کرنے کے بعد متعدد شعرا کے نام درج کیے گئے ہیں. اس طرح یہ باب جہاں عہد بہ عہد شعرا کے تذکرے پر مشتمل ہے وہیں اس باب میں لسانی ارتقا کا ایک خاکہ بھی محفوظ ہوگیا ہے.
ڈراما کا باب گرچہ قدرے مختصر ہے مگر اردو ڈراما نگاری کے آغاز و ارتقا پر بھی مختصرا روشنی ڈالتا ہے اور مصنف نے نہ صرف یہ کہ ڈراموں کے تعلق سے معلومات فراہم کی ہیں بلکہ اسٹیج شدہ ڈراموں کی تفصیل، ڈراموں کی کیفیت، کمیت، نوعیت اور موضوعات وغیرہ کا بھی احاطہ کیا ہے. اس باب میں جاوید نہال حشمی کے ڈراما "رجنی" کا تفصیلی ذکر دیکھ کر خوش گوار احساس سے دو چار ہوا. ڈراما رجنی ہم نے غالباً ٢٠١٥ میں اخبار مشرق میں پڑھا تھا، اس کا تراشہ میرے پاس موجود ہے، میرے ساتھی حسنین رضا نے اپنے اسکول گوا گاؤں ہائی اسکول میں طلبا کے ایک ثقافتی تقریب میں ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے مجھ سے مدد طلب کی تو میں نے رجنی ڈراما انھیں دے دیا، انھوں نے بچوں سے یہ ڈراما کروایا بھی، انھوں نے بتایا کہ اسے پسند کیا گیا.
خوش گواری کا یہ احساس یہ دیکھ کر بھی ہوا کہ "فکر و تحریر" کے مدیر نعیم انیس اور شاعر اصغر شمیم کا تعلق بھی کئی معنوں میں مرشد آباد شہر میں اردو زبان و ادب کے فروغ سے رہا ہے.
در اصل مصنف نے مرشد آباد کے اسکول، کالج اور ادبی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں سے بھی متعارف کرایا ہے. یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عمر غزالی کا ذکر بھی یہاں موجود ہے. ذکر سے مراد سرسری ذکر نہیں ہے بلکہ ان کی خدمات کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے. اس طرح دیکھیں تو یہ کتاب مرشد آباد کے تاریخی، علمی، ادبی، معاشی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی منظر نامے کا احاطہ کرتی ہے. میں نے یہ بھی جانا کہ تقسیم ہند کے وقت شہر مرشد آباد مشرقی پاکستان کے حصے میں گیا تھا جسے نظامت خاندان نے جد و جہد کرکے ہندستان میں شامل کرایا.
کتاب کا پانچواں باب مرشد آباد میں نثر نگاری کی روایت آغاز تا حال کافی وقیع، مبسوط اور پر از معلومات ہے. اس میں فورٹ ولیم کالج اور مرشد آباد کے تعلق سے سے دل چسپ اور با معنی گفتگو ہے. اس کے علاوہ اس حصے میں تحقیق و تنقید کی صورت حال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے. مصنف نے ان تصانیف اور مصنفین کا بھی خصوصی ذکر کیا ہے جنھوں نے شہر مرشد آباد اور یہاں کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا مطالعہ کیا ہے.
سید آصف عباس میرزا کا قلم سلجھا ہوا نظر آتا ہے، تحقیق و تنقید میں انھوں نے توازن و اعتدال سے کام لیا ہے. جہاں حوالے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں انھوں نے بنیادی مآخذ کو پیش نظر رکھا ہے. مثلاً پی. سی مجومدار، جادو ناتھ سرکار، مرشد آباد ڈسٹرکٹ گزیٹر جیسے انگریزی مآخذ سے انھوں نے بہ راہ راست استفادہ کیا ہے، نہ کہ نقل در نقل والا کارنامہ انجام دیا ہے. موصوف کی زبان منجھی ہوئی اور سلاست سے پر رواں دواں ہے.
کتاب چوں کہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے زیر اہتمام شایع ہوئی ہے اس لیے اس کی قیمت بھی بہت کم ہے. ٣٠٤ صفحات کی کتاب صرف ٢٠٠ روپے میں. ہارڈ کور میں جیکیٹ کے ساتھ عمدہ طباعت ہے.
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:کتاب: کوئی لوٹا دے میرے… (انشائیوں کا مجموعہ)

شیئر کیجیے

2 thoughts on “کتاب : مرشد آباد کا تاریخی و ادبی منظر نامہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے