کتاب: کوئی لوٹا دے میرے… (انشائیوں کا مجموعہ)

کتاب: کوئی لوٹا دے میرے… (انشائیوں کا مجموعہ)

پیش نوشت: کتابیں لوگ بڑی محبت سے بھیجتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ اسے پڑھ کر خوبیوں، خامیوں پر کچھ خامہ فرسائی بھی کریں. مجھے بھی وقتا فوقتا لوگ کتابیں مفت میں بھیج دیتے ہیں، میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ لکھ دوں، مگر مشکل یہ ہے کہ لکھنے سے پہلے پڑھنا پڑتا ہے اور پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے. یہاں حال یہ ہے کہ ایک کتاب مکمل نہیں ہوپاتی کہ دوسری آجاتی ہے، کئی احباب سے وعدہ کیے ہوئے مجھے دو برس ہوگئے ارادہ ہے کہ لکھوں گا لیکن…. خیر

خاکہ:
نام کتاب: کوئی لوٹا دے میرے…
(انشائیوں کا مجموعہ)
مصنف : جاوید نہال حشمی
صفحات : 208
سال اشاعت : 2021
قیمت : 150 روپے
تبصرہ : طیب فرقانی

صورت : کوئی لوٹا دے میرے…، جاوید نہال حشمی کے انشائیوں کا مجموعہ ہے. جاوید نہال حشمی مدرسہ عالیہ (کلکتہ مدرسہ) میں سائنس کے معلم ہیں، ان کی بنیادی شناخت فکشن نگار کی ہے. ان کے افسانوں کا مجموعہ دیوار (2016) اور افسانچوں کا مجموعہ کلائیڈوسکوپ (2019) منظر عام پر آکر داد مع انعامات حاصل کر چکے ہیں. ان کے انشائیوں کا زیر نظر مجموعہ 28 انشائیوں، ایک پیروڈی، جاویدیات کے عنوان سے دو حصوں پر مشتمل دل کے پھپھولے، زیر لب کے عنوان سے چند جملوں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے طنز و مزاح کے ٹکڑے، پیازچے کے عنوان سے ہیاز سے متعلق چھوٹے چھوٹے طنزیہ مزاحیہ ٹکڑے، کے علاوہ اظہار تشکر، اپنی بات، جاویدیاتِ نہال حشمی از انیس رفیع، ملٹی ٹاسکنگ فنکار از ڈاکٹر عابد معز، حشمی اور ان کے انشائیے از ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی پر مشتمل ہے.
سیرت: انیس رفیع نے اپنے مقدمہ نما مضمون میں سجاد نظر کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو طنز و مزاح لکھ سکتا ہے وہ بہت اچھے سنجیدہ افسانے بھی رقم کر سکتا ہے. جاوید نہال حشمی نے اسے ثابت کیا ہے بلکہ اسے یوں کہہ لیں کہ جو سنجیدہ افسانے /افسانچے لکھ سکتا ہے اس نے عمدہ انشائیے اور طنز و مزاح لکھ ڈالا ہے.
میں اس نظریے کا موید ہوں کہ انشائیہ اور طنز و مزاح دو الگ الگ نثری اصناف ہیں. کلیم الدین احمد کی طرف منسوب ایک قول ہے کہ انشائیہ خط کی طرح ہے جس میں انشائیہ نگار اپنی ذات کے پوشیدہ سر چشموں کو پالیتا ہے. کسی نے کہا ہے کہ انشائیہ قوت متخیلہ کا نتیجہ ہے. ایک غیر مقصدی صنف جس میں انشائیہ نگار اپنے تخیل سے اپنی فکر کو صفحہ قرطاس پر انڈیلتا ہے. انشائیہ شگفتہ تحریر ہوتی ہے، اس میں طنز و مزاح کے امکانات ہیں لیکن طنز و مزاح انشائیہ ہو، ضروری نہیں.
زیر نظر مجموعے میں طنز و مزاح کے عمدہ نمونے ہیں لیکن یہاں حقیقی انشائیے زیادہ تعداد میں ملیں گے. صاحب مجموعہ نے سبھی کو انشائیہ کے ضمن میں ہی شایع کیا ہے.
موضوع کے اعتبار سے دیکھیں تو جاوید نہال حشمی اکیسویں صدی کے اہم سماجی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور ماحولیاتی موضوعات کو اپنی نگارش میں مس کرتے نظر آتے ہیں. ان کی تحریروں میں متعدد فنون لطیفہ کے حوالے ملتے ہیں، ہالی وڈ بالی وڈ فلم، کارٹون، ادب، سائنسی و تکنیکی ایجادات وغیرہ کے حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر صرف جملہ سازی پر نہیں بلکہ ادب، زندگی اور سماج کے متعدد پہلوؤں پر ہے. وہ موجود و مسلّم اعمال، اقوال، افعال، کردار اور اشیا کو الٹ پلٹ کر دیکھتے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں. زیادہ تر مضامین کی فضا سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریریں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے دوران اور اس کے بعد لکھے گئے ہیں، جب سے ایک خاص مذہبی اور نسلی برتری پر تفاخر کرنے والوں کی چاندی ہوئی ہے.
انھیں لفظوں کو تراشنا، نئی تراکیب وضع کرنا اور بات میں بات پیدا کرنا آتا ہے. اگرچہ کبھی کبھی وہ زیادہ اموشنل اور جانب دار نظر آتے ہیں. یہ جذباتیت اور جانب داری اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ وہ اسی اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے کندھے پر سوار ہوکر کئی رتھوں نے اپنا مقام حاصل کر لیا ہے. حالاں کہ یہ صورت حال ضمنی ہے.
ان کا ایک انشائیہ ہے لنگی. اس کی آخری سطریں یوں ہیں: چلتے چلتے بس اتنا کہہ دوں کہ اگر آپ لنگی میں باہر نکلیں اور تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگیں تو ہالی ووڈ کی مشہور ہیروئن میریلن مونرو کا کلاسک پوز دینے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا.
یہاں انشائیہ ختم ہوتا ہے لیکن قاری کے لیے میریلن مونرو اور اس کے پوز کے بارے میں جاننے کا اشتیاق اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے. اب آپ گوگل کریں تو جاوید نہال حشمی کے مطالعے اور مشاہدے کی داد ضرور دیں گے.
انشائیہ : اٹھیے ، اٹھائیے اور اٹھ جائیے سے چند جملے دیکھیں:
(1) ہر روز صبح اٹھیے، عمر بھر مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیے اور پھر زندگی کا لطف اٹھانے کا خواب لیے اس جہان سے اٹھ جائیے.
(2) اردو شاعری میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کسی ازدواجی رشتے سے کم نہیں ہوتا.
(3) وہ تو اچھا ہے کہ نثری اصناف میں شاگردی کی روایت کبھی نہیں رہی ورنہ "منٹوی"،” انتظاری"، "ستاری"،” چھتاری"، "پیغامی" اور” نارنگی" جیسے تخلص والے افسانہ نگار اور ناقد پائے جاتے.
پہلے جملے میں اٹھنے، اٹھانے اور اٹھ جانے کے محاوروں کو یک جا کرکے بلیغ جملہ تراشا ہے جس میں متوسط طبقے کی زندگی کا لیکھا جوکھا سمٹ آیا ہے.
دوسرے اور تیسرے جملے میں "ی" نسبتی کے استعمال کی روایت پر روشنی پڑتی ہے، جن میں شگفتگی بھی ہے اور صاحب تحریر کا مطالعاتی دائرہ بھی قاری کے سامنے آتا ہے.
جاوید نہال حشمی نے کوئی کردار تو وضع نہیں کیا لیکن امکانی صورت حال سے شگفتہ اور بامعنی باتیں کہنا انھیں خوب آتا ہے. جا بجا اس کے نمونے ملتے ہیں، جاویدیات بنیادی طور پر اسی اسلوب میں ہے.
ہمارے عہد میں سر کے بال جس برق رفتاری سے اور کم عمری میں گرنے لگے ہیں، ایسے میں ایک امکانی صورت حال یہ ہے کہ پتھر، تانبے، لوہے، ٹیکنالوجی کے دور کے بعد "گنجوں کا دور" بھی آسکتا ہے. تب کچھ موجودہ محاوروں میں تبدیلی و ترمیم کی ضرورت پیش آئے تو….
” ‘سر کے بال نوچنا ` کو’ سر کی کھال نوچنا` میں بدلنا پڑ سکتا ہے. ‘برخوردار! میرے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے ` جیسے جملوں کی شکل ہوگی’ برخوردار! میرے یہ بال دھوپ میں ناپید نہیں ہوئے `. ‘ بال کی کھال نکالنا` کی بجائے’ کھال کے بال نکالنا` زیادہ موزوں ہوگا. ‘ہتھیلی پر سرسوں جمانا` سے بدرجہا حقیقت پسندانہ ہوگا ‘چندیا پر بال اگانا"`
اس اقتباس میں صورت حال سے پیدا شدہ امکانات سے کس خوب صورتی اور فن کاری سے استفادہ کیا گیا ہے، اسے اہل زبان خوب سمجھ سکتے ہیں. یہاں زبان پر جاوید نہال حشمی کی قدرت اور برجستگی و بے ساختگی بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں.
جاوید نہال حشمی نثر میں قافیہ بندی کے اسلوب سے بھی شگفتگی، معنی آفرینی اور رنگینی پیدا کرتے ہیں. جیسے : اگر یہ (مدیر) "بپھر " گئے تو پھر آپ ” بکھر" جائیں گے. اسی طرح تراکیب مشہورہ میں ترمیم و اضافہ کرنا ان کی نثر کی صورت و سیرت کے حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے. مثلا: واردات قلبی کو واردات کلبی، شخصیت کو شک صیت، گد گدیاں کو گود گودیاں وغیرہ.
اوپر میں نے جانب داری کی بات کہی تھی. ان کا ایک انشائیہ ہے آ سانڈ، مجھے….
اس کا مرکزی خیال درج ذیل شعر ہے.
سبھی کہتے ہیں کہ کرلیجیے نیچی نگاہ اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہوکر
اس میں "لباسی آزادی" کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے. حالاں کہ وہ معتدل راہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن غیر شعوری طور سے زنا بالجبر کے لیے عورتوں کے لباس کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں. میرا سوال ہے کہ زنا بالجبر کیا صرف انھی کے ساتھ ہو رہا ہے جن کے لباس چھوٹے یا بھڑکیلے ہیں؟
جاوید نہال حشمی آرٹسٹ بھی ہیں، انھوں نے بہت سے کیری کیچر بنائے ہیں. اس کتاب کا کور پیج انھوں نے خود ڈیزائن کیا ہے. جو بہت خوب ہے. مجھے بس اردو کا فونٹ پسند نہیں آیا. کتاب ہارڈ کور میں عمدہ کاغذ پر موٹے حروف میں چھپی ہے. کتاب کا دل چسپ اور با معنی انتساب یوں ہے : ان تمام سیاسی، سماجی، مذہبی و ادبی شخصیات کے نام جن کی حرکتوں اور رویوں نے ذہن میں گدگدی اور انگلیوں میں کھجلی پیدا کی، جس کے نتیجے میں یہ فن پارے ظہور پذیر ہوئے.
اگر کتاب پڑھنے کی خواہش ہو تو یہاں رابطہ کریں :
موبائل نمبر : 9830474661
Email: jawednh@gmail.com
(ختم شد)
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب : تیرہ افسانے (بہار کی یونی ورسٹیوں کے نصاب میں شامل)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے