افسانچہ نگاری اور رفیع حیدر انجم

افسانچہ نگاری اور رفیع حیدر انجم

(پانچ افسانچے اور پانچ سوالات)

ترتیب و انٹرویو : طیب فرقانی 

رفیع حیدر انجم صوبۂ بہار کے بھاگل پور میں 6 اکتوبر 1955 کو پیدا ہوئے. ان کے والد ارریا میں سرکاری ملازمت میں تھے اس لیے ان کی عمر کا بیشتر حصہ ارریا میں گزرا وہ یہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی۔
1974 میں بی ـ اے پاس کیا اور آٹھ برسوں تک بے روزگاری کا کرب جھیلتے ہوئے 1982 میں انھوں نے آزاد طالب علم کی حیثیت سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور 1985 میں ایک پرائویٹ کالج میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ جب 1984 میں ان کی شادی ہو گئی تو بڑھتے تقاضۂ حیات کو پورا کرنے کے لیے کسی متبادل روزگار کی تلاش لازمی ہو گئی۔ اور انھوں نے لائف انشیورنس کارپوریشن کی ایجینسی لے لی. اس پروفیشن میں ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد ضروریات زندگی کی عفریت پر قابو پا لینے میں وہ کامیاب ہوئے۔
اسکول کے دنوں میں وہ "ہما" اور "شبستان" جیسے ڈائجسٹ اور ابن صفی کے ناولوں سے متعارف ہوئے اور پھر پورنیہ میں پروفیسر طارق جمیلی کی ادبی محفل میں شرکت نے ان کے اندر کے افسانہ نگار کو بیدار کیا. چنانچہ ستمبر 1975 میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ "شمع ہر رنگ میں" لکھا جو اگست 1977 میں کلکتہ کے ایک ادبی رسالہ "خوشبوے ادب" میں شائع ہوا۔ اسی شمارے میں مظہرالزماں خان کی ایک بلا نقط کہانی شائع ہوئی تھی۔ بغیر نقطے کے ان جملوں کو کہانی کی شکل میں پڑھ کر انھیں بڑا مزہ آیا اور انھیں لگا کہ جو کہانیاں اب تک رسالوں میں پڑھتے رہے ان میں تو کوئی کمال نہیں۔ کہانی تو وہ ہوتی ہے جس میں اسلوب، ہئیت اور تکنیک کو نئےتجربے سے گزارا گیا ہو۔ ان کے اندر کی یہ سوچ جدت نگاری کی پہلی دستک تھی۔ (صدف اقبال کو دیے ایک انٹرویو سے مستفاد)
ذیل میں ملاحظہ فرمائیں افسانچہ نگاری سے متعلق طیب فرقانی کے پانچ سوالات کے جوابات اور پانچ افسانچے.
طیب فرقانی: آپ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں. افسانچہ نگاری کا محرک کیا بنا؟
رفیع حیدر انجم : پہلے پہل سعادت حسن منٹو کے "سیاہ حاشیے" اور جوگندر پال کے افسانچے پڑھ کر افسانچہ لکھنے کی تحریک ملی، لیکن کوشش کے باوجود ایسا کوئی افسانچہ تخلیقی صورت میں سامنے نہ آ سکا جو میرے لیے باعثِ اطمنان و مسرت ہوتا یا جو فنی، فکری و معنوی سطح پر طمانیت کا احساس کرا سکتا. یہاں پر میں واضح کر دوں کہ منٹو اور جوگندر پال کے تمام افسانچے موثر و معیاری نہیں ہیں. لیکن انھیں افسانچے کے بنیاد گزاروں کا درجہ یقیناً حاصل ہے. 1980 کی دہائی میں خالص ادبی رسالے افسانچے شائع نہیں کرتے تھے مگر "شمع" اور "روبی" جیسے نیم ادبی رسالوں میں افسانچے شائع ہوا کرتے تھے جو ادب کے ایک بڑے حلقے میں پڑھا جاتا تھا. 1990 کی دہائی کے بعد ادبی رسائل و جرائد میں بھی افسانچے جگہ پانے لگے. اب تو سوشل میڈیا کی یلغار نے افسانچوں کو کافی فروغ دیا ہے اور افسانچے سیلابی صورت میں نظر آنے لگے ہیں. کوئی بھی صنف جب سیلابی وصف کے ساتھ سامنے آتی ہے تو اس کے ساتھ خس و خاشاک کا انبار بھی لگ جاتا ہے. پرہیزگار قسم کے ادیب بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں سو میں نے بھی دوچار برسوں میں چار چھ افسانچے لکھ لیے.
طیب فرقانی: آپ کے نزدیک افسانچہ نگاری کا مستقبل کیا ہے؟
رفیع حیدر انجم : یہ کہنے میں مجھے تامل ہے کہ افسانچہ نگاری کا مستقبل تابناک ہوگا. ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ صنفی اعتبار سے یہ اپنے اختصار کی خوبی کی بدولت تواتر سے لکھے جائیں گے مگر فنکارانہ معیار کی پاس داری کی شرط برقرار رہے گی.
طیب فرقانی: افسانچہ نگاری کے موجودہ منظر نامے سے آپ کتنا مطمئن ہیں؟
رفیع حیدر انجم: بہت مطمئن نہیں ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقدار تو ہے مگر معیار کا فقدان ہے.
طیب فرقانی: اگر آپ کو ناول، افسانہ اور افسانچہ میں سے کسی ایک صنف کا انتخاب کرنا ہو تو کسے منتخب کریں گے اور کیوں؟
رفیع حیدر انجم: میں افسانہ نویسی کا ہی انتخاب کروں گا کہ یہاں آپ کے پاس اتنے صفحات تو ہوتے ہی ہیں کہ آپ کسی سطحی، معمولی اور لچر قسم کے ناول یا لطیفہ نما افسانچہ کے بہ نسبت فکروفن کے لحاظ سے ایک یاد رہ جانے والا افسانہ تخلیق کر سکیں.
طیب فرقانی: کیا افسانچے کی تنقید افسانوں کی تنقید کی روشنی میں ہی ہونی چاہیے؟
رفیع حیدر انجم: ہونی چاہئے کی بات تو تب ممکن ہے جب افسانچہ تنقید کا متحمل ہوگا. ایک بہت اچھے افسانچے کی تنقید میں آپ کن کن پہلوؤں کی نشان دہی کریں گے؟ میری سمجھ سے افسانچہ زیادہ سے زیادہ ایک صفحے کا فن ہے. (میں فلیش فکشن، مائکرو فکشن، پوپ فکشن یا پھر سو لفظی، سہہ سطری اور یک سطری تحریروں کی بات نہیں کر رہا اور نہ ہی میں انھیں افسانچہ کے زمرے میں شامل مانتا ہوں.) کیا کسی افسانچہ میں ایک منظم پلاٹ، مربوط واقعات، منظر نگاری، کردار نگاری وغیرہ لوازمات ہو سکتے ہیں؟ لے دے کر بس ایک فکری پہلو بچتا ہے اور اگر اس میزان پر کوئی افسانچہ اپنے انتہائی محدود وسیلے سے peace of art کا احساس کراتا ہے تو اسےایک اچھا افسانچہ قرار دیا جائے گا. افسانچے کے فن میں تنقیدی پہلو کی زیادہ گنجائش موجود نہیں ہے.***
پانچ افسانچے :
(1) آوازیں

دونوں بہنوں کے عادات و اطوار میں غیر معمولی مشابہت تھی۔ دونوں ایک جیسے ڈیزائن کے کپڑے زیب تن کرتیں۔ ایک ساتھ کھانے کی میز پر نظر آتیں۔ ایک ساتھ ہاتھ روم جاتیں۔ ایک ساتھ بولنا شروع کرتیں اور چپ رہتیں تو دونوں چپ رہا کرتیں اور ایک چھوٹے سے نیم تاریک کمرے میں ایک دوسرے کے ہمراہ سوتی تھیں۔ اس کمرے میں ایک بوسیدہ سا گرد آلود شلف رکھا تھا جس میں کچھ برسوں پرانی کتابیں اور مٹی کی بنی مورتیاں بے ترتیبی سے رکھی ہوئی تھیں۔ اس مکان میں اور بھی تین بڑے کمرے موجود تھے مگر یہ کمرے بند پڑے رہتے تھے۔ ان کی ماں بچپن ہی میں گزرگئی تھیں اور جب والد کا انتقال ہوا تو دونوں بہنوں کی جوانی مٹھی میں بند ریت کے مانند پھسل چکی تھی۔ میں یہ کبھی نہیں جان سکا کہ ان دونوں بہنوں کی شادی کیوں نہیں ہوئی یا ان دونوں نے شادی کیوں نہیں کی؟
چھوٹا بھائی ارون میرا پرانا دوست تھا۔ مگر اس کے شوق کچھ عجیب سے تھے۔ اس کے کمرے کے بڑے سے بیضوی ٹیبل پر کئی طرح کے کینڈل اسٹینڈ رکھے تھے جو موم کے متواتر پگھلتے رہنے کے سبب اپنی اصل ہیئت کھو چکے تھے۔ مختلف برانڈ کے سگار، پیتل کا بنا ہوا ٹیگور کا مجسمہ، ایشٹرے میں راکھ اور باقی ماندہ سگریٹوں کا انبار اور اس کے لکھے ہوئے ناول کے اوراق اس ٹیبل پر بکھرے رہتے۔ ٹیبل کی سطح پر چائے کے کپ کے نشانات بھی واضح طور پر نظر آتے تھے۔ ناول کے اقتباسات سننے اور سگار کے چکر میں کبھی کبھی میں ارون کے ساتھ رتجگا کر لیا کرتا تھا۔ مگر ان راتوں میں مجھے اس نیم تاریک کمرے سے گھٹی گھٹی سی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ مجھے لگتا، دونوں بہنوں میں بے انتہا پیار ہے اور وہ بھی ہماری طرح رتجگا کر رہی ہیں۔
ایک دن خبر ملی کہ ارون اپنے ناولوں کے ساتھ مبئی چلا گیا ہے۔ سول سرویسیز کے امتحان میں ناکامی کے بعد اس نے اپنا سارا دھیان ناول نگاری پر لگا دیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ انگریزی کی ٹیوشن پڑھا کر ڈھیر سارے روپے کمالے گا اور ناول لکھ کر وہ خود کو ایک کامیاب انسان ثابت کر دے گا۔ ارون کے ممبئی چلے جانے کے بعد اس کی دونوں بہنیں میری یادداشت کے جنگل میں کہیں کھو گئیں۔
کئی برس بعد آج میں ارون کے ساتھ اس کے کمرے میں تھا۔ اس درمیان اس کی بڑی بہن مرچکی تھی۔ ارون نے اپنے نئے ناول اور ایک نئے برانڈ کے سگار کا لالچ دے کر
مجھے رتجگا کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ارون ناول کا ایک اقتباس پڑھنے میں محو تھا اور میں سگار کے کش لگانے میں رات کے تیسرے پہر جب کہ کمرے میں ہر طرف سگار کا کثیف دھواں پھیل چکا تھا، اسی نیم تاریک کمرے سے کچھ عجیب سی گھٹی گھٹی آوازیں آنے لگیں جیسے دو عمر دراز عورتیں زیر لب بڑبڑا رہی ہوں۔

(2) لفٹ کا تبادلہ

ایک نامور افسانہ نگار کا افسانہ ایک موقر ادبی رسالہ کے مدیر نے معذرت کے ساتھ واپس کر دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ برس بعد راجدھانی میں منعقد ایک بڑے پیمانے کے سہ روزہ ادبی سیمینار میں اس نامور افسانہ نگار اور مدیر کا آمنا سامنا ہو گیا۔
”اچھا تو آپ وہی ہیں نا جنھوں نے مجھے لفٹ نہیں دی؟“
جی .. اور آپ وہی ہیں جن کا افسانہ ہر رسالے میں سر فہرست نظر آتا ہے۔“ مدیر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ پھر ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
کچھ عرصہ بعد مدیر کو ایک پارسل موصول ہوا۔ پیکٹ کھول کر دیکھا گیا تو اسے اس نامور افسانہ نگار کی ایک ضخیم کتاب نظر آئی۔ اس کتاب کے مختلف ابواب میں ایک باب کا عنوان تھا ”مدیروں کے توصیف نامے" عنوان دل چسپ تھا اور چونکانے والا بھی۔ مدیر کا تجسس جاگ اٹھا۔ اس نے صفحات پلٹ کر دیکھے تو اسے خود کا لکھا ہوا تین سطر کا جملہ نظر آیا جو اس کے معذرت نامہ سے اخذ شدہ تھے مگر افسانہ واپس کر دیے جانے کے سلسلے میں جن وجوہات کا ذکر کیا گیا تھا، اسے افسانہ نگار نے حذف کر دیا تھا۔ مدیر نے سوچا اس بارافسانہ نگار نے مجھے لفٹ نہیں دی۔

(3) بھوک کی رفتار

مزدوروں کا قافلہ اپنے گاؤں کے قریب پہنچا تو ٹی وی چینلز کے اینکروں نے انھیں گھیر لیا اور سوالوں کی بوچھار ہونے لگی۔
"کہاں سے آرہے ہو بھائی؟“
"جی، تلنگانہ سے ۔“
اچھا، اتنی دور سے پیدل چل دیئے ۔“ تو اور کیا کرتے ؟ کام دھندہ ، گاڑی گھوڑ اسب بند ہو گیا لاک ڈاؤن میں ۔“
کتنے دن لگ گئے یہاں پہنچنے میں ؟“
پندرہ دن
کس رفتار سے چلتے رہے؟ مزدوروں کو یہ سوال اٹ پٹا سا لگا۔ کس رفتار کا کیا مطلب؟ ایک نوجوان مزدور نے کچھ سوچا پھر بول پڑا۔
"بھوک کی رفتار سے۔“

(4) کاش!

اردو کے ایک اخبار کے پروگرام میں ایک نامور سیاسی لیڈر کے بیان پر اسے ملک کا غدار قرار دے دیا گیا ہے۔ اس نے دوستوں کے درمیان یہ خبر پہنچائی تو ان میں
سے ایک نے پوچھ لیا۔
"اچھا، کیا کہا لیڈر نے؟“
"یہی کہ میرا بیٹا ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے اور بیٹی لندن اسکول آف اکنامکس سے پاس آؤٹ ہو گئی ہے۔ میں نے دونوں سے کہہ دیا ہے کہ اب یہاں آنے کی ضروت نہیں ہے۔ یہ جگہ اب رہنے کے لائق نہیں رہی۔ وہیں نوکری کر لو اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلو ۔“
"اچھا!…..کاش! ہم بھی لیڈر ہوتے “

(5) گے (Gay)

"ہیلو…..کہاں سے ہو؟"
"رائے پور اور تم؟"
"پرستان سے"
"اوہو، پریوں کی رانی“
"کیا کر رہے ہو؟“
"کچھ نہیں، خالی بیٹھا ہوں“
"میں بھی … ویڈیو کالنگ سے انجوائے کریں ؟“
"نہیں"
"کیوں؟”
"فیملی ساتھ ہے“
"تو باتھ روم میں جاؤ"
"نہیں جاسکتا“
"کیوں؟ کنر ہو؟“
نہیں، گے ہوں اور دوسرے ہی لمحے اسکرین سیاہ ہوتا چلا گیا۔
***
رفیع حیدر انجم کی گذشتہ نگارش:افسانہ سائبر اسپیس کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے