کتاب: مبادیاتِ صحافت و ادارت

کتاب: مبادیاتِ صحافت و ادارت

مصنف : احمد جاوید
مبصر : محمد اشرف یاسین
(ری سرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی)

"مبادیاتِ صحافت و ادارت" میرے پسندیدہ صحافی اور کالم نگار جناب احمد جاوید کی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں "پہلا ورق" کے تحت دو صفحے کا ابتدائیہ، "منظر و پس منظر" کے عنوان سے سولہ صفحات پر محیط قومی اور بین الاقوامی صحافت کے اہم واقعات اور صحافت کی موجودہ صورتِ حال، رجحانات و تقاضوں کا بیان ہے۔
اس میں کل تین فصلیں ہیں۔ پہلی فصل میں تین، دوسری فصل میں چار اور تیسری فصل میں پانچ ابواب ہیں اور ہر باب میں چار، پانچ یا چھے عناوین ہیں۔ ان موضوعات کے ذیل میں جناب احمد جاوید نے چار، پانچ یا آٹھ صفحات تک میں اپنی بات مکمل کر لی ہے۔ پوری کتاب میں تیسری فصل کا چوتھا باب "صحافت و ارادت کی اخلاقیات" سب سے طویل ہے جو پندرہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کتاب کی سب سے زیادہ خاص اور صحافت کے طلبہ کے لیے مفید بات یہ ہے کہ اس میں احمد جاوید سر نے ہر موضوع کے شروع میں اس کا مختصر تعارف درج کردیا ہے. پھر اس عنوان کی غرض و غایت کو بتایا ہے۔ اس کے بعد نفسِ موضوع کی کم سے کم صفحات میں بہترین وضاحت کرتے ہوئے اس کا نتیجہ اور چند سطروں میں خلاصہ بھی بیان کردیا ہے۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس موضوع سے متعلق "امتحان کے لیے دیے گئے کام" کے عنوان سے [موضوع کے متعلق ممکنہ سوالات] اور اس موضوع سے متعلق مزید معلومات کے لیے "مطالعات" کے تحت صحافت کے موضوع پر مختلف اردو، ہندی اور انگریزی کی معتبر کتابوں کی فہرست بھی لکھ دی ہے۔ اس طرح سے یہ کتاب صحافتی طلبہ کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے۔
اس کتاب سے پہلے بھی احمد جاوید سر نے "آسماں تہہ خاک" ( سوانحی خاکے)، "فکرِ فردا" (منتخب کالموں کا مجموعہ)، "تلخ نوائی" (منتخب اداریے)، "میرے حصے کی دلّی" اور "ذکر چھٹے درویش کا" (یاد داشت اور خاکے)، "خطوط مطالب: صحافیوں کی کار گاہ صلاحیت سازی" ( پاور پوائنٹ پریزنٹیشن)، "ساشیا کی کہانی" (ترجمہ) جیسی کتابیں اردو قارئین کو دی ہیں۔ لیکن 128/ صفحات پر مشتمل یہ کتاب صحافت کی نصابی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اس کی قیمت 45/ روپے ہے، لیکن طلبہ کو 20/ فی صد رعایت کی وجہ سے 38/ روپے میں ہی میں مل جاتی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان {وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند} نے اسے شائع کیا ہے۔
یہ کتاب صحافت کے نو وارد طلبہ کے لیے بہت مفید ہے، کیونکہ اس میں مختصر صفحات میں طلبہ کے لیے بہت ہی اہم اور بنیادی معلومات درج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مشق و تمرین بھی ہے۔ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے کہ آج کے اس سوشل میڈیا والے عہد میں کسی بھی شخص کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ فاضل مصنف نے اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے اور کم سے کم صفحات میں زیادہ سے زیادہ باتیں بیان کردی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اردو صحافت کے گرتے معیار کی ایک بڑی وجہ نو وارد صحافیوں کا غیر تربیت یافتہ ہونا بھی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب سے بہت حد تک صحافیوں کی تربیت کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش :کتاب: رنگ رنگ کے شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے