مشق کے بغیر خدا داد صلاحیتیں خام ہیں : بلقیس ظفیر الحسن 

مشق کے بغیر خدا داد صلاحیتیں خام ہیں : بلقیس ظفیر الحسن 

سادگی و خلوص کی پیکر بلقیس ظفیر الحسن سے ایک خصوصی ملاقات

انٹرویو نگار : علیزےنجف
 
آج سے سات آٹھ دہائی پہلے پورے ہندستان میں اردو کا بول بالا تھا، اس وقت اردو کا کوئی مذہب نہیں تھا کیوں کہ یہ زبان ہندستان کے متنوع مشترکہ اقدار کی ترجمان تھی، اس دور میں بےشمار ادبا، شعرا پیدا ہوئے، انھوں نے اردو کی گراں قدر خدمت کی، انھی میں سے ایک نام بلقیس ظفیر الحسن کا ہے. انھوں نے آزادی سے پہلے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو علم و ادب کا گہوارا تھا، علم و ادب سے رغبت اور والہانہ لگاؤ انھیں ورثے میں ملا تھا. بلقیس ظفیر الحسن ایک اعلا ذوق رکھنے والی شاعرہ اور بلند تخیل کی حامل افسانہ نگار ہیں. اس کے علاوہ ڈرامہ نگاری میں بھی یہ اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو کر منظر عام پہ آ چکی ہیں، جن میں گیلا ایندھن اور شعلوں کے درمیاں، ویرانے آباد گھروں کے، تماشا کرے کوئی شامل ہیں. ان کو کئی ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
بلقیس ظفیر الحسن صاحبہ کی شخصیت میں زندہ دلی اور خوش طبعی فطری طور پہ موجود ہے، نئے لکھنے والوں کی کھلے دل کے ساتھ حوصلہ افزائی کرتی ہیں، اس وقت وہ عمر کے اعتبار سے چوراسی کے ہندسے میں قدم رکھ چکی ہیں. ان کا جسم ناتواں ہوا ہے لیکن ذہن آج بھی پہلے کی طرح متحرک اور توانا ہے. عمر کے اس حصے میں آ کر بھی کتابوں سے ان کا تعلق کمزور نہیں پڑا. آج بھی کتابیں پڑھنا اور سیکھتے رہنا ان کا پہلا شوق ہے، ان کی طبیعت میں منکسر المزاجی کا عنصر غالب ہے.مذہب پسندی ان کی شناخت کا حصہ ہے. زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے انھوں نے کبھی خود کو اپنے مسلمہ اصولوں سے منحرف نہیں ہونے دیا، اس وقت وہ میرے سامنے ہیں، میں بہ حیثیت انٹرویو نگار سوالات کے ساتھ حاضر ہوں، چلیے اب ہم مزید ان کے بارے میں انھی سے جانتے ہیں۔

علیزے نجف: یوں تو آپ کی شخصیت کسی کے لیے محتاج تعارف نہیں پھر بھی میں چاہتی ہوں کہ آپ خود اپنے لفظوں میں اپنا تعارف کرائیں، اپنی جائے ولادت اور جائے مقام کے بارے میں بھی بتائیں. 
بلقیس ظفیر الحسن: والدین کا رکھا ہوا نام بلقیس پروین، شا دی سے پہلے بلقیس رحمانی بانو کے نام سے لکھنا شروع کیا، شادی کے بعد بلقیس ظفیرالحسن ہو گئی. میری پیدائش ایک ستمبر 1938 کو موتی ہاری بہار میں ہوئی،  18 سال کی عمر میں شادی ہوئی، شوہر سید ظفیر الحسن سی۔آئی۔ ایس۔ آفیسر ہونے کے ساتھ ہی اچھے شاعر اور نثر نگار بھی تھے، ان کی ملازمت کی وجہ سے زندگی کا بڑا حصہ مہاراشٹر میں گزرا، سید ظفیر الحسن ممبئ میں اردو کمنٹری کے رائٹر بھی تھے، پھر ان کی خدمات آرمی سدرن کمانڈ کے لیے حاصل کر لی گئیں، ایس۔ زیڈ۔ حسن پونا سدرن کمانڈ میں میجر حسن ہو کر آرمی کی پبلسٹی کے لیے قلم چلانے لگے. میرے بچے پونا میں پلے بڑھے، دس سال آرمی میں رہنے کے بعد رائیٹر حسن کا دل اکتا گیا اور انھوں نے اپنا ٹرانسفر دلی کروا لیا، پلاننگ کمیشن کے رسالے، یوجنا کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے اوراب تو ہم دہلی کے ہی ہو گئے ہیں۔ 28 جولائی انیس سو پنچاوے کو ہمارے پیارے ہر دل عزیز شریک حیات سید ظفیر الحسن اپنے رب کے پیارے ہوگئے۔ (داغ حر مان تو ہرگز نہ رود از دل ما)
علیزے نجف: تہذیبوں کا عروج و زوال وقت کے ہاتھوں ہوتا رہتا ہے یا کسی ذہنیت کے تحت؟ موجودہ ہندستان کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں آپ کیا رائے دینا چاہیں گی؟
بلقیس ظفیر الحسن: کیا کہوں اس بارے میں؟ سوائے اس کے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، ہمیشہ ہر دور میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں. اسی کے تحت تہذیب و ثقافت بھی اپنا پیرہن بدلتی رہی ہے. یہ تو ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا بس اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اخلاقیات کو روبہ زوال نہ ہونے دیا جائے، انسانیت کے اسباق کو پڑھنے و پڑھانے والے معاشرے میں باقی رہیں، ہم سیکولر ازم پر یقین رکھتے ہیں، عوام کی اکثریت جس تہذیب کو اپنا لیتی ہے اسے ہی عروج ملتا ہے. اس لیے عوام کی ذہنی تربیت پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندستان اپنی مختلف النوع ثقافت کی وجہ سے ایک نمایاں پہچان رکھتا رہا ہے. آج بھی یہ تنوع قائم ہے. بس فرق یہ ہے کہ اس وقت اسے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں. ان شاء اللہ مجھے [یقین ہے] ہندستانی عوام اس مشکل میں سرخرو ہوں گے۔
علیزے نجف: آپ کے خاندان کا پس منظر کیا ہے؟ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ ان میں سے کیا کسی نے آپ کی قلمی وراثت کی امانت سنبھالنے کا عزم کیا ہے؟
بلقیس ظفیر الحسن: میرے دادا خان بہادر محمد جان کے صاحب زادے عنایت الرحمان عنایت قانون دان تھے، اعلا سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے رہنے کے ساتھ ہی ان کا شمار بہار کے اچھے قلم کاروں میں ہوتا تھا، نہ صرف ابا بلکہ خاندان کا ہر شخص کسی نہ کسی طور پر ادبی کاوشوں میں لگا رہتا تھا-
میں چھے بچوں کی ماں ہوں. چار بیٹے دو بیٹیاں، میری بیٹیاں ماشاءاللہ بہت لائق و فائق ہیں جو کسی بھی طرح بیٹوں سے کم نہیں ہیں، میری دونوں بیٹیاں دہلی یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، انھیں اردو ہندی انگریزی پہ عبور حاصل ہے. اردو اور ہندی سے انگریزی میں ترجمے بھی کرتی رہتی ہیں، دونوں نے میری کئی نظموں اور غزلوں کے تر جمے انگریزی میں کیے اور ان دنوں دونوں ایک کتاب بھی تر تیب دے رہی ہیں جو میری منتخب نظموں غزلوں کے انگریزی اور ہندی ترجموں پر مشتمل ہوگی. میرے بعد میرے چھوٹے چچا ڈاکٹر شکیل الرحمان کا نام ادب کی بساط پہ سر فہرست رہا جو کہ ادبی حلقوں میں بابائے جمالیات کہلائے۔
علیزے نجف: آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں تعلیم کے ساتھ کن عناصر نے اہم کردار ادا کیا؟
بلقیس ظفیر الحسن: گھر میں ہمیشہ سے ہی اعلا قسم کا ادبی ماحول تھا، لکھنا پڑھنا عام معمولاتِ کا حصہ تھا، ایسے میں کیسے بچی رہتی، بارہ تیرہ سال کی عمر میں ایک غزل لکھ کر ابا کے پاس اصلاح کے لیے لے گئی، ابا پڑھ کر ہنسنے لگے، پھر میرا روہانسا منھ دیکھ کر سمجھانے لگے، اچھی بچیاں شعر و شاعری کی خرافات میں نہیں پڑتیں، تمھیں لکھنے کا شوق ہے، بےشک کہانیاں لکھو، مضامین لکھو، ہم منع نہیں کریں گے، اچھی بچی نے ابا کا کہا مان لیا، افسانے لکھنے لگی، قلمی نام بلقیس رحمانی بانو رکھا، اور افسانے لکھنے لگی، اور وہ افسانے اخباروں میں چھپنے بھی لگ گئے، اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی میرا لکھنا بند نہیں ہوا تھا مگر بچوں کی پیدائش و پرورش میں متاع لوح و قلم کب ہاتھوں سے نکل گئی مجھے پتا ہی نہیں چلا، عرصۂ دراز کے بعد جب میرے شوہر سید ظفیرالحسن کی پوسٹنگ دہلی ہوئی اور دلی اردو اکیڈمی کے ایک جلسے میں جناب راج نرائن راز جو ان دنوں اردو آجکل کے مدیر تھے، نے مجھے یاد دلایا کہ میں بھی کبھی کچھ لکھتی تھی، ان کی فرمائش پر پھر سے لکھنا شروع کیا، شروعات تو افسانے سے ہی ہوئی تھی، پھر محسوس ہی نہیں ہوا کہ کب اور کیسے شعر نازل ہونے لگے، انھیں لڑیوں میں پرونا شروع کردیا اور دیکھتے دیکھتے دو شعری مجموعے منظر عام پر آگئے. 
علیزے نجف: آپ نے اپنے شعروں کو کس حد تک اپنے احساس کی تر جمانی کے لیے موثر پایا؟
بلقیس ظفیر الحسن: بھئی یہ معاملہ کچھ یوں ہے:
کس تفصیل سے حال ہمارا ظالم اک اک سے کہتے ہیں
ہم بلقیس کہاں لکھتے ہیں، شعر ہمیں لکھتے رہتے ہیں
اس سے زیادہ اور بھلا کیا کہوں بس حقیقت اتنی سی ہے کہ شعر جب پردۂ الہام سے ہو کر احساسات میں اترتے ہیں تو لفظ خود بہ خود ترتیب میں آجاتے ہیں اور قلم رواں ہو جاتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کے زمانے میں تعلیم نسواں کے حوالے سے کس طرح کے نظریات پائے جاتے تھے آپ کی تعلیم و تربیت کیسے ہوئی؟
بلقیس ظفیر الحسن: اس زمانے میں اپنے آس پاس گھروں کے حالات دیکھ دیکھ کے بہت تکلیف ہوتی تھی، ہمارے وقتوں میں لڑکیوں کو تعلیم کے لیے اسکول بھیجنا عام طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا، خود میری تعلیم گھر میں ہی ہوئی، ماسٹر صاحب پڑھانے آتے تھے، ابا بھی میری پڑھائی پر دھیان دیتے تھے، مگر ہر گھر میں ابا جیسا باپ تو میسر نہیں تھا، بیٹیوں کے پڑھانے کے خیال پہ عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ بیٹی کی کمائی کھانی ہے کیا جو اسکول بھیجیں. آپ یہ کہہ سکتی ہیں ہمارے زمانے میں تعلیم نسواں کے حوالے سے دقیانوسی نظریات پائے جاتے تھے. عام گھرانوں کی بچیاں تو تعلیم سے تقریبا نابلد ہی رہتی تھیں. ان کی پوری زندگی گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوتی تھی. الحمدللہ وقت کے ساتھ خیالات تبدیل ہوتے گئے. لوگ بچیوں کی تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوتے گئے. لیکن مسلمانوں میں یہ تبدیلی آنے میں بہت وقت لگا۔
علیزے نجف: آپ نے شاعری میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ہی بچوں کی نظموں کے تحت بھی طبع آزمائی کی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ کیا آج ادب اطفال پر توجہ کم دی جا رہی ہے اور جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ بچوں کے بدلتے وقت کی نفسیات سے غیر آہنگ ہے؟ ایسا کیوں ہے اپنےتجر بات اور مشاہدات کی روشنی میں بتائیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: بیشک آپ کا مشاہدہ درست ہے. آج کے بچے صرف راجا رانی جیسی خیالی کہانیوں سے بہلنے والے بچے نہیں ہیں. ان کے لیے نئے طور کے ادب کی سخت ضرورت ہے. بدلتے زمانے نے بچوں کی نفسیات پہ بہت گہرا اثر مرتب کیا ہے. وہ فکشن میں بھی منطق تلاشتے ہیں. اس لیے ضروری ہے کہ ان کی اس ذہنی افتاد کو مد نظر رکھ کر اطفال ادب کو تخلیق کیا جائے جو کہ ان کے لیے تفریح کے ساتھ تعمیر و تربیت کا بھی باعث ہو. آج کے وقت میں لکھا جانے والا بچوں کا ادب بہت معیاری نہیں ہے تو غیر معیاری بھی نہیں. لوگ حتی المقدور بچوں کی نفسیات کے تقاضوں کے تحت ہی لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں. ہاں یہ الگ بات ہے کہ بچوں کی نفسیات میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی گہرائی سے مکمل واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اس میں وہ پختگی نہیں آ پائی اب تک جو کہ ہونی چاہئے۔
علیزے نجف: آپ نے شاعری کے ساتھ افسانہ نگاری اور ڈرامے بھی لکھے ہیں. آپ کا اس طرف رجحان کیسے پیدا ہوا. کیا آج کے ڈرامے اور افسانے اس ٹکنالوجی کے دور میں اپنی اکثریت قائم رکھنے میں کامیاب ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: میں نے طبع زاد ڈرامے زیادہ نہیں لکھے. دراصل میری ڈراما نگاری  کی محرک میری بیٹی نغمہ ظفیر بنی، نغمہ کالج کے آرٹس اینڈ کلچر کی پریسیڈنٹ ہوا کر تی تھی، فنکشن وغیرہ کے موقع پہ بھاگ بھاگ کر میرے پاس آتی، امی میرے اسٹیج کے لیے ڈراما لکھ دیں اور میں کسی نہ کسی انگریزی ڈرامے کو ہندستانی پیراہن پہنا کر اس کے حوالے کر دیتی، ہدایت کار نغمہ ظفیر ہوتی تھی اور اداکار اس کے اسٹوڈنٹ، ڈراما نگار میں اس کا ایک اسٹوڈنٹ وسیم (خدا اسے غریق رحمت کرے، اب نہیں رہا) اردو اکیڈمی کے ڈراما فسٹیول کے لیے جمع کرایا اور وہ منتخب بھی ہو گیا، شری رام سنٹر دلی کے اسٹیج پر نغمہ ظفیر کی ہدایت کاری میں پیش کیا گیا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے تین ڈرامے اردو اکیڈمی سے منتخب ہوکر شری رام سنٹر میں دکھائے گئے، اسٹیج اور ڈائریکشن تو نغمہ جانتی ہیں میں تو صرف مترجم بنی رہی، بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ ڈرامے کے لیے اچھی ہدایت کاری کے ساتھ اسے صحیح طور پیش کیا جانے والا اسٹیج بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر اچھی سے اچھی اسکرپٹ بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے. اس ڈیجیٹل دور میں بھی افسانے لکھے جا رہے ہیں. اس میں ہر طرح کی اسکرپٹ شامل ہے. ڈراما نگاری آج کے دور میں بھی بہ خوبی پنپ رہی ہے. ان سے ہم اچھی امید رکھتے ہیں کہ یہ مستقبل میں ترقی ضرور کرے گی۔
علیزے نجف: موجودہ وقت میں لکھے جانے والے ادب پر تکرار اور نقالی کا الزام لگایا جاتا ہے، کیا آج کے دور میں لکھے جانے والے ادب کو کلاسیکییت کے مقام پر فائز کیا جا سکتا ہے؟
بلقیس ظفیر الحسن: ہر دور میں معیاری اور غیر معیاری ادب لکھا جاتا رہا ہے، مگر ہر ادبی کاوش”نوائے سروش" ہو یہ ضروری تو نہیں. وقت بڑا جوہر سناش ہے. چھان پھٹک کر لعل اور جواہر نکال ہی لیتا ہے. باقی خزف ریزوں کو دریا برد کر دیتا ہے. اچھی شاعری بھی ہو رہی ہے اور خوب صورت نثر بھی نظر آ ہی جاتی ہے، خواتین تو قابل توجہ کام کر رہی ہیں، مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ عورت ہندستان کی ہو یا انگلینڈ امریکا کی؛ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف تو اسی وقت کیا جاتا ہے جب اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ باقی نہ رہے۔
علیزے نجف: اردو ادب کا ایک شان دار ماضی رہا ہے، اگر آج کی بات کی جائے تو وہ تسلی بخش نہیں تو مایوس کن بھی نہیں ہے، حالیہ دنوں میں خالد جاوید کو ملنے والے اعزاز کو ایک پیش رفت کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کے عدم استحکام پر سوال اب بھی قائم ہے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
بلقیس ظفیر الحسن: اردو کی بڑھتی زبوں حالی تو ہر کسی کے سامنے ہے، بےشک اس کو اس کے اپنوں نے ہی ستم رسیدہ کر دیا ہے. اردو سے محبت کا مطلب تو قطعا یہ نہیں ہے کہ دوسری تمام زبانوں سے چشم پوشی برتنا شروع کر دیا جائے. ہم کثیر اللسانیت کے راستے پہ بھی چل سکتے ہیں. اس وقت جو اردو کی صورت حال ہے ایسے میں کیا کہہ سکتی ہوں، سوائے اس کے کہ اچھے وقت کا انتظار کیا جائے جو کہ نہ جانے کب میسر آئے لیکن ہمیں حالات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہنی ہوگی. پھر آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
علیزے نجف: آپ کی شعری اور نثری کاوشیں نئی نسل یعنی مجھ جیسے لوگوں کو اپنا اسیر کیے ہوئے ہیں، اور اس سے محظوظ ہوتے ہوئے استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں. میرا سوال ہے کہ آپ کس سے متاثر ہوئیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: ان دنوں جتنی نئی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں، ابھی تک میری دسترس سے باہر ہیں. اس لیے میں نئے قلم کاروں کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتی. ہمارے وقت کے قلم کاروں میں میرے پسندیدہ ادیب راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس اور عصمت چغتائی شامل ہیں. 
علیزے نجف: کتابیں ہر دور میں ایک علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتی رہی ہیں. آج کل کے اس ڈیجیٹل دور میں ای بک کی صورت میں اس کی اشاعت پر فروغ دیا جا رہا ہے، موجودہ دور میں نئی نسل کا کتابوں کے تئیں رکھا جانے والا رویہ کیسا ہے؟ آپ خود کتا بوں سے کس حد تک شغف رکھتی ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: بھئی ہم تو اس ڈجیٹل دور میں بھی کتابوں کی ہارڈ کاپیز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ میرے جیسے سبھی لوگوں کی ترجیح ہارڈ کاپیز ہی ہوتی ہیں. ای بک کا گزر ابھی تک ہمارے گھر میں نہیں ہوا ہے اور جہاں تک مطالعہ کے ضمن میں میرا معاملہ ہے تو وہ یوں ہے کہ پڑھے بغیر تو میں جی ہی نہیں سکتی، کچھ نہ کچھ تو مجھے پڑھنے کے لیے چاہیے ہی، اردو ہندی انگریزی خواہ کسی بھی زبان میں ہو پڑھنا میری روح کو تروتازہ کر دیتا ہے، ان دنوں میں ریت سمادھی کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ بھئی کتاب کی اہمیت کو کون کم کر سکتا ہے؟ اس ڈیجیٹل دور میں بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔
علیزے نجف: آپ کی اب تک کتنی کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور ان کے نام کیا ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: گیلا ایندھن اور شعلوں کے درمیاں کے نام سے شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں. ویرانے آباد گھروں کے طبع زاد افسانوں کا مجموعہ دلی اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آیا تھا. دوسری زبانوں سے ترجمہ کئے گئے افسانوں کا مجموعہ مانگے کی آگ، تماشہ کرے کوئی، دوسری زبانوں کے ڈراموں سے اخذ کردہ ڈرامے جو دلی اردو اکیڈمی کے ڈراما فیسٹیول اور ذاکر حسین کالج کے اسٹیج پرپیش کیے گئے تھے، اور بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں اور نظموں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کن کن مشغلوں سے دل چسپی رکھتی ہیں اور کیا وہ مشغلے اب بھی آپ کی روز مرہ کی زندگی میں شامل ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: یوں تو زندگی میں بہت سے شوق رہے ہیں لیکن ایک شوق ایسا تھا جو ہر شوق پہ حاوی رہا وہ ہے مزید سیکھنے اور جاننے کا شوق، یوں کہہ سکتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے  کی کوشش کے سوا مجھے کوئی شوق نہیی رہا. الحمدللہ اس عمر میں بھی یہ سیکھتے رہنے کی خواہش ماند نہیں پڑی. اردو ہندی انگریزی کوئی بھی کتاب کھول کے بیٹھ جاتی ہوں، اسی میں گھنٹوں گذر جاتے ہیں. میں نے کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں. ماشااللہ گھر میں انگریزی پڑھانے والی دو بیٹیاں ہیں. ترجمہ کر تے ہوئے کہیں اٹک جاؤں تو ان کی مدد لے لیتی ہوں۔ عمر کے اس حصے میں آ کر لکھنا پڑھنا ہی اب میرا واحد دل چسپ مشغلہ رہ گیا ہے۔
علیزے نجف: کسی فن کار کے فن کی تعمیر و ارتقا میں خدا داد صلاحیت کے ساتھ ذاتی کوششوں کا کس حد تک دخل ہوتا ہے؟
بلقیس ظفیر الحسن: ذاتی کوششیں ہی اصل ہیں. اس کے بغیر تو کچھ بھی ممکن نہیں. پکے پکائے کھانے کو کھانے کے لیے بھی تو ہاتھوں کو منھ تک لےجانا پڑتا ہے. بھائی! کوشش تو کرنی ناگزیر ہے۔ خداداد صلاحیتوں کو جب تک مشق سے نہیں گذارا جاتا وہ خام ہی رہتی ہیں۔
علیزے نجف: ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے انسان کو کن عناصر اور کس طرح کی ذہنیت کے ہونے کو آپ ضروری سمجھتی ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: انسان کے اندر حسرت تعمیر کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے حتی الامکان کو شش کیے جانا کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
علیزے نجف: نئی نسل کے قاری کو ما فوق الفطرت دنیا اور ما روائے حقیقت کہانیاں  فینٹسی میں ڈال رہی ہیں، موجودہ وقت کی اخلاقی کشاکش اور تہذیبی و ثقافتی زوال کی ذمہ داری کیا اس پر عائد کی جا سکتی ہے؟ اس کے دو تعمیری پہلو آپ کی نظر میں کیا ہیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: کوئی فینٹسی موجودہ وقت کی اخلاقی کشاکش اور تہذیبی و ثقافتی زوال کی وجہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ہر دور میں سنسنی خیز اور سستی رومانی کہانیوں کی بہتات رہتی ہے، مگر اکثر عام قاری ان سے گزر کے ادب عالیہ کی منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے، اس سچ کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا. بے شک ایسی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں. ایک لکھاری کو ذہنی تربیت کی ذمےداری کو قبول کرنے کی ضرورت ہے، تعمیری پہلو یہی ہے کہ اس سے کتاب سے محبت پیدا ہو رہی ہے لیکن جیسا کہ آپ نے کہا کہ ذہنی تخریب کی صورت مہنگی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔
علیزے نجف: انٹرویو دیتے وقت آپ کے احساسات کیا تھے؟ سوالات سے آپ کس حد تک مطمئن تھیں؟
بلقیس ظفیر الحسن: انٹرویو نگار تو بڑی پیاری دل نواز نظر آئیں اور تھوڑی بے رحم بھی لگیں. بھلا کوئی اتنے سارے سوالات ایک ہی نشست میں کرتا ہے؟ مسکراہٹ … لیکن علیزے! میں بھی ڈٹ گئی، ہار نہیں مانی، سارے ہی سوالات کے جوابات دے کر دم لیا. علیزے! اب آپ مجھے بتائیں کہ جوابات کیسے لگے؟ اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے، ہمیشہ فعال رہیں، اللہ آپ کو بلندیِ تخیل کے ساتھ بلند مقام بھی عطا کرے۔ اللہم آمین یارب العالمین. 
علیزے نجف: آپا میں آپ کی بہت بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری خواہش کو انتہائی محبت کے ساتھ پورا کیا. جس طرح صحت اور وقت کی کمی کے باوجود آپ نے جواب دیے یہ میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہے، آپ کے جوابات بہت اچھے ہیں. بہت کچھ سیکھنے و جاننے کو ملا، ہاں میں تھوڑی بےرحم ہوگئی سوالات کے معاملے میں، میں نے سوچا اتنا اچھا موقع ہے کیوں گنواؤں.. اس سے فائدہ اٹھاتی ہوں۔ اللہ آپ کو خیر و عافیت بھری زندگی عطا کرے جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدارین
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں: مسلمانوں نے یونی ورسٹیاں بنائیں، مگر معیاری اسکول نہیں بنائے: ڈاکٹر فریدہ خانم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے