جناب محمد غیاث الدین (سر)  :  میری دانست میں

جناب محمد غیاث الدین (سر) : میری دانست میں

ڈاکٹر تسلیم عارف
اسسٹنٹ پروفیسر اور کو آرڈی نیٹر، شعبہ اردو، ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونی ورسٹی، باراسات

درس و تدریس افضل اور مقدس پیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پیشے سے وابستہ افراد کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں ’استاد‘ کا مقام اعلا و ارفع ہے۔ اسلام میں تو استاد کا درجہ والدین کے مماثل ہے۔ مسلم گھرانوں میں بچّے بچّیوں کو ابتدائی عمر میں جو چند نصیحتیں گھول کر پلائی جاتی ہیں، اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ ”اپنے استاد کی قدر کرو اور اُن کی تہِ دل سے عزت کرو۔“ ہمارے وطن عزیز میں ’گروجنوں‘ یعنی اساتذۂ کرام کی خدمت کرنا اور اُن کا حکم بجا لانا قدیم روایت کا اہم حصہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اساتذہ کے اعزاز میں ’گروپورنیما‘ اور ’ٹیچرز ڈے‘ جیسے دن تزک و احتشام سے منائے جاتے ہیں۔ ایک اسٹوڈنٹ کو اُس کے تعلیمی سفر میں، اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر کئی اساتذہ کی سرپرستی میّسر آتی ہے لیکن اسٹوڈنٹس کے ذہن پر اُسی استاد کا نقش دیرپا رہتا ہے، جس نے اپنے اندازِ تدریس سے اُسے حد درجہ متاثر کیا ہو۔ اس مضمون میں، میں ایک ایسے ہی استاد کا ذکر خیر کرنے جارہا ہوں، جن کا نام محمد غیاث الدین ہے۔
جناب محمد غیاث الدین مغربی بنگال، بالخصوص کلکتہ کے اردو میڈیم اسکولز کے اساتذۂ کرام میں اپنا انفراد و اختصاص رکھتے ہیں۔ اُن کی شناخت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ شہرہ آفاق استاد ہونے کے ساتھ لائق ایڈمنسٹر بھی رہے ہیں اور ان سب سے پہلے، ایک انتہائی مخلص اور مرنجان مرنج انسان ہیں۔ گذشتہ 31 / جولائی 2023 ء کو غیاث سر اپنی طویل تدریسی خدمات بہ حسن و خوبی انجام دینے کے بعد سروِس سے سبک دوش ہوگئے۔ اسکول انتظامیہ اور اسٹوڈنٹس (موجودہ اور سابق) نے اُن کے لیے شان دار الوداعی تقریب کا اہتمام کیا جس میں شہر کے مختلف اسکولوں کے اساتذۂ کرام نے شرکت کی اور موصوف کے حوالے سے اپنے مراسم اور خوش گوار یادوں کو سانجھا کیا۔
غیاث سر نے شہر کی نامور درس گاہ ’اسلامیہ ہائی اسکول‘ سے 1979 ء میں مدھیامک اور 1981ء میں ہائر سکنڈری کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ بعد ازاں کلکتہ کے قدیم اور تاریخی ’سینٹ پال کالج‘ سے 1985ء میں کیمسٹری میں آنرز کی ڈگری حاصل کی اور کلکتہ یونی ورسٹی سے 1988ء میں بائیو کیمسٹری میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ ماسٹرز ڈگری مکمل ہونے کے بعد ہی مادر علمی اسلامیہ ہائی اسکول میں عارضی طور پر چند برسوں تک تدریسی فرائض انجام دیے۔ اُن کی خوش بختی کہیے کہ مختصر وقفے کے لیے ہی سہی، انھیں اُسی اسکول میں پڑھانے کا موقع ملا، جہاں سے انھوں نے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا تھا۔ معلّم بننا اُن کا خواب تھا یا مجبوری، یہ تو میں نہیں جانتا۔ البتہ معلّمی میں مہارت اور اس کی بھرپور اہلیت کے لیے انھوں نے 1992ء میں سینٹ زیوئیرس کالج سے بی-ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ اسلامیہ میں کچھ دن گزارنے کے بعد 16 اکتوبر 1990 کو کُل وقتی ٹیچر کی حیثیت سے اُن کی بحالی نارکل ڈانگہ کے مومن ہائی اسکول میں ہوگئی۔ لگ بھگ چھ برس مومن میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد 1996ء میں غیاث سر نے وہاں سے رُخصت لی اور اسسٹنٹ ٹیچر کے طور پر محمد جان ہائی اسکول جوائن کیا، جہاں اپنی قابل قدر خدمات کے عوض ترقی پاکر اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر کے عہدے تک پہنچے۔
غیاث سر کو جب دیکھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ خدا نے ایک انسان کے اندر کتنی خوبیوں کو مجتمع کر دیا ہے۔ میری یہ بدقسمتی ہے کہ میں اُن کا باضابطہ شاگرد نہیں رہا۔ یقینا اگر مجھے غیاث سر کی سرپرستی نصیب ہوتی تو میری شخصیت مزید صیقل ہوتی۔ مومن ہائی اسکول میں، میرے رفیق کار اور سینئر دوست جناب جلیل اقبال سے میں نے اکثر غیاث سر کی تعریف سنی تھی۔ وہ جلیل اقبال کو اپنا شاگردِ عزیز مانتے تھے اور آج بھی ان دونوں کے پختہ تعلقات ہیں۔ طالب علمی کے زمانے کے میرے کئی ساتھی غیاث سر کے شاگرد رہے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1996ء میں مدھیامک پاس کرنے کے بعد میرے ایک دوست نے درکہ یاز دہم میں سائنس کی ٹیوشن کے لیے غیاث سر کا انتخاب کیا۔ اُسی کی زبانی سنتا تھا کہ وہ کتنے سلیقے سے کیمسٹری پڑھاتے ہیں۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ سر کا رویہ دوستانہ رہا ہے۔ کبھی کسی اسٹوڈنٹ سے دُرشت لہجے میں کلام کرتے، کسی نے اُنہیں، نہیں دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت سے ملنا سر کا وتیرہ رہا ہے۔ میرا دوست کہتا تھا کہ سر پڑھانے کے دوران اکثر مزاحیہ انداز بھی اختیار کرتے تھے تاکہ اسٹوڈنٹس کو بوریت محسوس نہ ہو۔
غیاث سر نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلّم کی نذر کردیا۔ اپنی ایمان داری، سلیقہ شعاری اور پڑھانے کے منفرد انداز سے کئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی۔ اسکول نے صرف تعلیم کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ ایڈمنسٹریٹیو معاملے میں بھی اُن کی خدمات حاصل کی۔ اکیڈمک کونسل، اسٹاف کونسل اور منیجنگ کمیٹی میں برابر اُن کی شمولیت رہی، جہاں اُن کے تجربے اور مشاہدات سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ اسکولِ ہٰذا کے ہیڈ ماسٹر جناب عالمگیر اور سر کی مشترکہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج محمد جان ہائی اسکول شہر نشاط کے بہترین اسکولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں کے اساتذۂ کرام کی خوش نصیبی ہے کہ اُنھیں غیاث سر جیسے عظیم استاد اور سرپرست کی رہ نمائی اور معیت میسر آئی۔
غیاث سر کی شخصیت سے میں اس قدر متاثر کیسے ہوا، اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ایرئیر کی فائل ڈی آئی آفس میں برسوں سے اٹکی پڑی تھی۔ فائل میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی جس کی وجہ سے معاملہ بننے سے رہ جاتا۔ ایسا ہی سالِ گزشتہ رمضان کے مہینے میں بھی ہوا۔ میں جب ڈی آئی آفس گیا تو پتا چلا کہ میری سروِس بک اَپ ڈیٹ نہیں ہے۔ اُسے صحیح طریقے سے اَپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی لوگوں سے رجوع کیا لیکن مثبت جواب نہیں ملا۔ ایک شناسا نے بتایا کہ محمد جان ہائی اسکول چلے جاؤ۔ وہاں غیاث سر ہیں، یہ کام وہی کرسکتے ہیں۔ میں نے فوراً سر سے رابطہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ فائل لے کر چلے آئیے۔ میں فائل لے کر اسکول پہنچا۔ سر نے فائل پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور منٹوں میں میری فائل کو درست کردیا۔ میں حیرت سے اُنھیں دیکھتا رہ گیا اور اس بات پر مجھے کامل یقین ہوگیا کہ دفتری معاملات کو سلجھانا، سر کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میں نے سر کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح اُن کی رہ نمائی اور تعاون سے میری فائل صحیح طور پر مکمل ہوگئی.
غیاث سر کے شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع ہے۔ مختلف شعبۂ حیات میں سر کے اسٹوڈنٹس اعلا عہدوں پر فائز ہیں۔ الوداعی تقریب میں غیاث سر نے اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ”محنت سے پڑھئے، زندگی میں کامیابی حاصل کیجیے اور اپنی کارکردگی سے اپنے اسکول کا نام روشن کیجیے۔“ ساتھ ہی سر نے اپنے اُس جملے پر (جسے اکثر وہ کلاس میں کہا کرتے تھے) تقریر ختم کی کہ ”محمد جان ہائی اسکول کھلتا ہے صرف پڑھائی ہونے کے لیے!“ جس پر پورا اسکول تالیوں سے گونج اُٹھا۔ آج جب سر ریٹائر ہوگئے ہیں تو یقینا اُن کے رفقاے کار کو اُن کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔ ہر دل غمگین ہے اور آنکھیں پُرنم۔ لیکن کیا، کیا جائے کہ سرکاری ملازم کے ریٹائرمنٹ کا ایک دن مقرر ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ استاد محترم کو اچھی صحت کے ساتھ طویل عمر دے۔ مجھے اُمید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ غیاث سر جیسی ہمہ جہت شخصیت کو ہیڈ ماسٹر عالمگیر صاحب کسی نہ کسی طور، اسکول سے جوڑ کر رکھیں گے کیوں کہ سر، محمد جان ہائی اسکول کی جان ہیں۔
٭٭٭٭٭
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مادرِ علمی: مومن ہائی اسکول (ایچ-ایس) کا 78/ برسوں کا سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے