شہریار: غزلوں کے ذریعے فلموں کو مقبول بنانے والا شاعر

شہریار: غزلوں کے ذریعے فلموں کو مقبول بنانے والا شاعر

جمال عباس فہمی

اردو شعرا نے بالی ووڈ کی فلموں کے لیے ہمیشہ نغمے لکھے ہیں اور وہ نغمے فلموں کی کامیابی کے ضامن رہے ہیں۔ ایسے اردو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے فلموں کے لیے نغمے لکھے۔ آرزو لکھنوی، کمال امروہوی، خمار بارہ بنکوی، راجہ مہدی علی خاں سے لے کر شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیف بھوپالی، حسرت جے پوری، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی، اختر الایمان تک، ندا فاضلی اور بشر نواز سے لے کر حسن کمال، جاوید اختر اور اے ایم توراز تک نے اپنے نغموں سے فلموں کو سجایا سنوارا ہے۔ ان اردو شعرا نے غزلیں کم اور روایتی طرز کے نغمے زیادہ لکھے، لیکن شہر یار ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے بالی ووڈ فلموں کے لیے صرف غزلیں لکھیں۔ ان کی لکھی غزلیں فلموں کی کامیابی کی ضامن بنیں۔ ‘امراؤ جان` اور ‘گمن` جیسی فلموں کے لیے ان کی نظم کردہ غزلیں کروڑوں لوگ آج بھی گنگناتے ہیں۔ پولیس تھانے داروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شہر یار ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا یہ ثبوت ہے کہ انھیں ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ ایوارڈز سے نوازا گیا۔ شہر یار کی شاعری پر بات کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
شہر یار کا اصل نام کنور اخلاق محمد خاں تھا۔ وہ آنولہ ضلع بریلی، اتر پردیش میں ایک مسلم راجپوت خاندان میں 16 جون 1936 میں پیدا ہوئے۔ شہر یار کے مورث اعلا ہندو راجپوت تھے جنھوں نے پرتھوی راج چوہان کے عہد میں اسلام قبول کیا تھا۔ شہر یار پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کا بچپن عام بچوں کی طرح ماں کی شفقت کے سایے میں نہیں گزرا۔ ان کی والدہ اپنی ایک بیٹی کی ناگہانی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور ذہنی توازن سے محروم ہو گئیں۔ شہریار کا خاندان پولیس انسپکٹروں کا خاندان تھا۔ اس کے پیچھے ایک دل چسپ قصہ ہے۔ ان کے پردادا دلاور محمد خاں ملیٹری میں کمانڈنٹ تھے۔ انھوں نے1857 کی پہلی جنگ آزادی کے دوران ایک انگریز پولیس افسر کی جان بچائی تھی جس سے خوش ہو کر اس افسر نے آرڈر پاس کر دیا تھا کہ دلاور محمد خاں کے گھرانے کا کوئی بھی جوان اگر پولیس میں بھرتی ہونا چاہے تو اس کو براہ راست تھانہ انچارج بنایا جائے گا۔ اس طرح ان کے پردادا کنور نیاز محمد خان، ان کے والد کنور ابو محمد خاں اور دونوں بڑے بھائی تھانہ انچارج بنے۔ ان کے والد اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان کو بھی پولیس انسپیکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن شہر یا رکی دل چسپی کھیل کود میں تھی۔ وہ ہاکی کے بہت عمدہ کھلاڑی تھے۔ ایتھلیٹ تھے۔ گھڑسواری کے شوقین تھے۔ ان کے والد نے 1945 میں ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد علی گڑھ میں ہی سکونت اختیار کرلی تھی۔
شہر یار نے 1954 میں ہائی اسکول اور 1956 میں اول پوزیشن کے ساتھ انٹر کیا۔ انٹر کی تعلیم کے دوران ان کی ملاقات خلیل الرحمان اعظمی سے ہوئی جو بہت جلد ہی دوستی میں تبدیل ہو گئی. حالانکہ دونوں کی عمر میں سات آٹھ برس کا فرق تھا۔ خلیل الرحمان اعظمی ایک منجھے ہوئے ترقی پسند شاعر اور ناقد تھے۔ 1961 میں شہر یار نے اردو میں ایم اے کیا۔ ایم اے کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی شہر یار کو خلیل اعظمی کی سفارش پر انجمن ترقی اردو ہند میں لٹریری اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی تھی۔ انھوں نے 1961 اور 1966 کے درمیان انجمن کے رسالے ‘ہماری زبان` کی ادارت بھی کی۔ انھوں نے ‘ہماری زبان` کو اعتبار کی اس منزل پر پہنچا دیا  کہ اس کے شمارے ادبی حلقوں میں حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ 1966 میں شہر یار شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لیکچرر ہوئے۔ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے 1996 میں ریٹائر ہوئے۔
شہر یار کو شاعر بنانے میں خلیل الرحمان اعظمی کا بہت اہم کردار تھا، گھر والوں کی طرف سے پولیس محکمہ میں ملازمت کرنے کے لیے شہر یار کے اوپر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک دن انھوں نے گھر ہی چھوڑ دیا اور خلیل اعظمی کے ساتھ رہنے لگے۔ خلیل اعظمی کی شاعرانہ صحبت اور مسلم یونی ورسٹی کی ادبی فضا میں شہر یار کا ادبی ذوق پروان بھی چڑھا اور اس پر صیقل بھی ہوئی۔ بہ قول شہر یار  ‘خلیل اعظمی سے ملاقات سے قبل تک وہ موزوں طریقے سے شعر بھی پڑھ نہیں پاتے تھے۔` خلیل اعظمی کے گھر پر شاعروں اور ادیبوں کا جمگھٹ رہتا تھا۔ شاذ تمکنت سے شہریار کی ملاقات خلیل اعظمی کے وسیلے سے ہی ہوئی۔ خلیل اعظمی کی صحبت نے شہر یار کو شعر گوئی کی جانب مائل کیا اور شہر یار ‘کنور` کے زیر تخلص شاعری کرنے لگے، 1955 میں ان کی پہلی غزل کراچی کے جریدے ‘مشرب` میں شائع ہوئی۔ شاذ تمکنت نے ہی کنور تخلص تبدیل کرنے کا انھیں مشورہ دیا تھا۔ کنور کا متبادل شہریار تخلص خلیل اعظمی نے تجویز کیا۔ اس طرح کنور اخلاق محمد خاں شہر یار ہو گئے۔ خلیل اعظمی اور شہریار کی قربت مختلف قسم کی چہ می گوئیوں کا سبب بنی۔ کسی تنازع سے بچنے کی خاطر شہریار نے خلیل اعظمی کی شاعری اور شخصیت پر کچھ بھی بولنے اور لکھنے سے ہمیشہ خود کو باز رکھا۔
شہر یار نے غزلیں اور نظمیں خوب کہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی رہی۔ شہر یار ترقی پسند نقطہ نظر کی ہم آہنگی کے ساتھ کلاسیکی اقدار کو نبھانے والے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جمالیاتی قدروں کی پاس داری بھی ہے اور سادہ اور سلیس زبان میں عوامی زندگی کا بیان بھی۔ ان کی شاعری کی بڑی خصوصیت موسیقیت اور نرم لہجہ ہے۔ ان کی غزلوں میں جدت طرازی ہے۔ شہر یار نے سخن طرازی کی کلاسیکی روایات کو نبھانے کے ساتھ ساتھ ایک نئی شعری روایت شروع کرنے کی بھی کوشش کی۔ شہر یار کو زبردست عوامی مقبولیت 1981 میں مظفر علی کی ہدایت میں بنی فلم ‘امراؤ جان` کی غزلوں سے ملی۔ حالانکہ 1978 میں وہ فلم ‘گمن` کے لیے بھی غزل لکھ چکے تھے جو کافی مقبول ہوئی تھی۔
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
لیکن فلم ‘امراؤ جان` کے لیے لکھی ان کی غزلوں نے انھیں عالمی شہرت اور مقبولیت عطا کی۔
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
…..
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
…..
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے
…..
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

شہریار فلموں میں غزلوں کو رواج دینے والے شاعر کے طور پر ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ انھوں نے فلم ‘فاصلے` کے لیے بھی غزلیں لکھیں۔ فلم ‘انجمن` زونی (حبہ خاتون) ‘دامن` اور ‘نور جہاں جہانگیر` کے نغمے بھی انھوں نے ہی لکھے، لیکن یہ فلمیں تکمیل کے مراحل کو عبور نہیں کرسکیں۔
شہریار کے کلام کے مجموعے‘اسم اعظم، 'ساتواں در` اور’ہجر کے موسم` بھی مقبول ہوئے، لیکن ‘خواب کے در بند ہیں` ان کا شاہ کار ثابت ہوا جسے ساہتیہ اکیڈمی کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے کلام کے پانچ اور مجموعے شائع ہوئے۔ 2008 میں وہ چوتھے اردو ادیب بنے جنھیں گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل ہوا۔ ان سے پہلے یہ اعزاز فراق گورکھ پوری، علی سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کو حاصل ہوا تھا۔ ساہیتہ اکادمی کے لیے بیدار بخت نے میری این ائر کی مدد سے ان کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک انگریزی ترجمہ رخشندہ جلیل نے بھی کیا ہے۔ ان کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو میں بھی ہو چکا ہے۔ ‘شہر یار کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ` کے موضوع پر میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی سے اردو اسکالر محمد شاہد صدیقی نے پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ انھوں نے ‘جدید شاعری کی مستحکم آواز شہریار` کے عنوان سے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ دیار شعر و سخن کا یہ شہر یار 13 فروری 2012 کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور اپنے پیچھے غزل کی ذریں اور تابناک روش چھوڑ گیا۔
ان کے کچھ بہترین اشعار پڑھیے اور سر دھنیے…
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
…..
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
…..
چمن در چمن پائمالی رہے
صبا تیرا دامن نہ خالی رہے
…..
نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آگیا
…..
کون سی بات ہے جو تجھ میں نہیں
تجھ کو دیکھے مری نظر سے کوئی
…..
کتنی معصوم سی تمنا ہے
نام اپنا تری زباں سے سنوں
…..
بھلا تو دوں ترے کہنے پہ تجھ کو دل سے میں
مگر یہ شرط ہے تجھ کو بھی یاد آؤں نہ میں
…..
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
…..
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
(بہ شکریہ قومی آواز)
***
گذشتہ نگارشات فہمی یہاں پڑھیں:متعدد ادبی سمتوں کا مسافر: ضیا فاروقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے