افسانہ سائبر اسپیس کا تجزیہ

افسانہ سائبر اسپیس کا تجزیہ

افسانہ : سائبر اسپیس
افسانہ نگار : غضنفر
تجزیہ کار : رفیع حیدر انجم

"کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی.
کہانی
سوز، ساز، رمز اور راز ہوتی ہے.
کہانی
آہ اور واہ ہوتی ہے.
کہانی
رنگ، نور، خوشبو اور لمس ہوتی ہے."
کہانی کے بارے میں غضنفر نے اپنے افسانوں کے مجموعہ "حیرت فروش" میں اور بھی کئی خوب صورت، دلآویز اور معنی خیز باتوں کا نہ صرف یہ کہ انکشاف کیا ہے بلکہ انھیں اپنی کہانیوں میں فن کارانہ طور پر برتا بھی ہے. غضنفر کے افسانوں کی قرات کے دوران ہمیشہ ہی ایک تہذیبی و ثقافتی بازیافت کا احساس ہوتا ہے. وہ نہ صرف یہ کہ ایک افسانوی فضا خلق کرتے ہیں بلکہ قاری کی ذہن سازی بھی کرتے ہیں. اکثر ایسا گمان گزرتا ہے کہ ایک تدریسی رنگ و آہنگ ان کی کہانیوں کے اسلوب میں پنہاں ہے.
بہ قول وہاب اشرفی "غضنفر زندگی کی تطہیر چاہتے ہیں. زندگی ہو کہ مختلف جہات، ان کی تطہیر چاہتے ہیں. وہ کائنات کی بعض پیچیدہ صورتوں کی تفہیم میں سرگرمِ عمل معلوم ہوتے ہیں. لہذا ان کا اسلوب کہیں اساطیری، کہیں اشارات، کہیں علامتی تو کہیں بالکل سامنے کی کیفیت سے عبارت ہوتا ہے."
بالکل سامنے کی کیفیت سے عبارت غضنفر کی ایسی ہی ایک کہانی "سائبر اسپیس" کا انتخاب میں نے ان کے افسانوں کے مجموعہ "حیرت فروش" سے کیا ہے. بہ ظاہر یہ ایک سادہ سی کہانی معلوم پڑتی ہے اور بیشتر مکالماتی انداز میں تحریر کی گئی ہے. مگر موضوعاتی معنویت کے لحاظ سے یہ کہانی پورے ہندستان کی آدھی آبادی کی نمائندگی کر رہی ہے.
سائبر اسپیس وہ جگہ ہے جہاں کے باشندے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنا جانتے ہیں. یہ خلا میں موجود سیٹلائٹ کے ذریعے مواصلات کنٹرول کرتا ہے. سائبر اسپیس عہدِ حاضر کا وہ اسپیس ہے جہاں علوم و فنون اور معلومات کا ذخیرہ موجود ہے. یہ ایک ایسا تیز رفتار وسیلہ ہے جس سے ہم آہنگی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے. مگر افسانہ "سائبر اسپیس" کا مرکزی کردار چورسیا اس شعر کے مصداق ہے :
اے موجِ بلا، ہلکے سے ذرا، دوچار تھپیڑے ان کو بھی
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
ایسے ہی ساحل سے نظارہ کرنے والوں کے درمیان سفر کی صعوبتیں اٹھا کر ایک حوصلہ مند رچناکار پہنچ جاتا ہے. وہ جس جگہ پہنچتا ہے وہ جگہ کسی سیاہ جزیرے کی طرح ہے جہاں رنگ و نور، خوش بو اور لمس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے. یہ ہندستان کا ایک دور افتادہ گاؤں چندن باڑی ہے جس پر بھوک اور افلاس کے کالے ناگوں کا قبضہ ہے. جہاں دبے کچلے دلتوں کا بسیرا ہے. دلت یعنی اشرف المخلوقات سے تعلق رکھنے والا وہ چہرہ جس کی جگہ سائبر اسپیس میں کہیں نہیں ہے. وہ چہرہ جسے صرف اس کی اپنی مٹی ہی پہچان سکتی ہے اور یہی مٹی اس کے جسم کے زخموں کا مداوا بھی ہے اور اس کے آتما کے کرب کو محسوس بھی کر سکتی ہے. دلتوں کی ایسی ہی ایک بستی میں ایک رچناکار ان کی زندگی کا تطہیر کرنے آیا ہے.
جذبۂ تطہیر کا یہ عمل غضنفر کے دیگر افسانوں میں بھی نظر آجائے گا. فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت سے نئی نسل میں خوف و ہراس کا ردعمل دیکھنا ہو تو افسانہ "خالد کا ختنہ" ملاحظہ فرمائیں. پرانی نسل اور نئی نسل کے حقیقی حالات کی باریکی کا پتا ان کے افسانہ "پنڈولم" سے چلتا ہے. نئے تعلیمی بوجھ کے مسائل سے آگاہ ہونا چاہیں تو افسانہ "ملبے پر کھڑی عمارت" کو پیشِ نظر رکھیں. روزمرہ کے واقعات میں استحصالی رویے کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو افسانہ "کڑوا تیل" کو بوند بوند برتن میں ٹپکتا ہوا اور آنکھوں پر پٹی بندھے بیل کو مسلسل چکر لگاتا ہوا دیکھیں. ان تمام افسانوں میں، خواہ موضوع جو بھی ہو، ذہنی طور پر افسانہ نگار کا تطہیری رویہ بین السطور کارفرما ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑے تخلیق کار کے ذہن میں ایک ایسی خوب صورت دنیا کا تصور موجود ہوتا ہے جس کی اساس عدل اور مساوات پر رکھی گئی ہو. افسانہ "سائبر اسپیس" کا رچنا کار برج موہن جذبۂ عدل و مساوات کا مشن لے کر چندن باڑی وارد ہوتا ہے اور وہاں اس کی ملاقات چورسیا سے ہوتی ہے جس کی رہ نمائی میں اسے اپنا تخلیقی مشن پورا کرنا تھا. یہاں کی معاشرت اور طرزِ زندگی کی حقیقی جانکاری حاصل کرنا تھی. طویل تعارفی گفتگو کے بعد اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی زندگی اور طرزِ معاشرت کو جاننے، سمجھنے اور لکھنے کے لیے اسے چورسیا کے شب و روز کو من و عن اپنانا ہوگا. وہ چورسیا جس کی اچھائیں/ خواہشیں بس اتنی سی ہی ہیں کہ اسے دو وقت کی روٹی، پینے کے لیے صاف پانی، موسم کے سردوگرم سے محفوظ رکھنے والا کپڑا اور سونے کے لیے بچھاون والا بستر مل جائے. برج موہن چورسیا کی اچھائیں سن کر حیران ہوتا ہے کہ یہ سب تو زندگی جینے کی اوشیکتائیں/ ضرورتیں ہیں. آدمی کی اچھائیں  تو یہ ہوتی ہیں کہ اسے گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکر، کرسی، عیش و آرام وغیرہ مل جائیں. دونوں کرداروں میں مزید گفتگو ہوتی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر اسے چندن باڑی کی سچی کہانی لکھنی ہے تو اسے یہاں کا رہن سہن، کھان پان، پہناوا اور کام سب کچھ اپنانا پڑے گا. برج موہن دھن کا پکا ہے اور وہ ہر حال میں اپنا مشن پورا کرنے کا عہد لے کر آیا ہے. سو وہ چورسیا کی تمام شرائط منظور کر لیتا ہے اور تمام سکھ سویدھا تیاگ کر چندن باڑی میں ایک دلت کی زندگی جینے لگتا ہے. وہ میلی کچیلی بدبودار دھوتی پہنتا ہے. باجرے کی سخت روٹی نمک مرچ کے ساتھ کھاتا ہے. گندے تالاب میں نہاتا ہے. جنگل سے لکڑیاں توڑ کر لاتا ہے. زخمی ہو جانے پر مٹی کا لیپ لگاتا ہے. مچھر بھرے بدبودار اور سیلن زدہ کمرے میں سوتا ہے اور عیش و عشرت میں گزری ہوئی گذشتہ زندگی کی ہر یاد کو بھلا کر خود کو وہاں کی گھناؤنی زندگی کی گہرائی میں اتار لیتا ہے.
کہانی کا آخری پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:
"کچھ ہی دنوں میں اس کے گورے رنگ پر سیاہی کی پرت جڑھ گئی. اس کے گال پچک گئے. آنکھیں اندر کو دھنس گئیں. چہرہ دھوپ میں جل کر کالا پڑ گیا. ہاتھ پاؤں میں جگہ جگہ زخم کے نشان بن گئے.
اس کا حلیہ اس حد تک بدل گیا کہ اسے خود کو پہچاننا مشکل ہو گیا. مگر اسے خوشی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا. اس نے وہاں سب کچھ دیکھ لیا جو وہ دیکھنا چاہتا تھا.
وہاں سے لوٹ کر وہ تخلیقی عمل میں مصروف ہو گیا اور ایک دن اس نے اپنے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کو تخلیق کے قالب میں ڈھال کر اسے چھپنے کے لیے سب سے اہم رسالے کو بھیج دیا. اسے یقین تھا کہ اس کی یہ تخلیق شاہ کار ثابت ہوگی اور چاروں طرف دھوم مچا دے گی. مگر اس کی وہ تخلیق شائع نہ ہو سکی. رسالے کے مدیر نے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رچنا کافی محنت سے رچی گئی ہے. رچنا کار نے فن کاری بھی خوب دکھائی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ رچنا ہماری میگزین کے معیار پر پوری نہیں اترتی، اس لیے کہ یہ آج کے زمانے کا ساتھ نہیں دیتی. یہ سائبر اسپیس میں فٹ نہیں ہوتی.
رچنا کی عدم اشاعت پر برج موہن کے ذہن میں چورسیا کا یہ سوالیہ جملہ گونجتا ہے: یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب ؟"
ایک اعلا و ارفع فن پارے کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختتام کے بعد بھی قاری کے ذہن میں نئے سرے سے جاری رہے اور اس کے مختلف جہات سامنے آئیں. افسانہ "سائبر اسپیس" یہاں ختم ہو جاتا ہے مگر قاری کے ذہن میں کئی سوالات، اندیشے اور خدشات اسپیس بنانے لگتے ہیں. کیا رچناکار برج موہن کی ساری تپسیا اکارت چلی گئی؟ کیا چندن باڑی کے دلتوں کے تلخ و برہنہ حقائق کبھی سائبر اسپیس میں اپنی شناخت بنا سکیں گے؟ اور یہ آتما کیا چیز ہے جس تک برج موہن کی رسائی نہیں ہو سکی؟ غضنفر کے افسانوں کا ایک سنجیدہ قاری ہونے کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ کسی وجود اور اس کے متعلقات کو عملی طور پر اپنا لینا ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اس وجود سے لہو کا رشتہ استوار نہ ہو جائے. برج موہن اور چورسیا کے درمیان ایسا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں. برج موہن کے مقصد میں نام و نمود کی ملاوٹ اور شہرت پسندی کا جذبہ شامل تھا جب کہ چورسیا خالصتاً دلت ہے. اس کے پرکھے دلت تھے اور وہ ہمیشہ دلت ہی رہے گا. اس کی آئندہ نسل دلت ہی کہلائے گی. سائبر اسپیس کے باشندوں کو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے ایسے دلت سماج کی ابتدا سے ضرورت تھی اور ہمیشہ رہے گی.
***
Rafi Haider Anjum
Email : rafih4031@gmail.com
Mobile No. +91 8002058079.

صاحب تجزیہ کی گذشتہ نگارش :کتاب: مونتاژ (افسانوی مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے